سا ٹھو اں درس
چند شبھات کا حل
شفا عت کا انکا ر کر نے وا لی آیتو ں کا جا ئز ہ۔
خدا پر شفا عت کر نے وا لو ں کا کو ئی اثر نہیں ہو تا۔
شفا عت کر نے وا لے خدا سے زیا دہ مہر بان نہیں ہیں۔
شفا عت خدا کی عدالت کے منا فی نہیں ہے ۔
شفا عت خد ا کی سنت کی تبدیلی کا سبب نہیں ۔
شفا عت کا وعدہ لو گو ں کی گستا خی اور جسا رت کا با عث نہیں۔
شفا عت کے استحقا ق کے شرا ئط کا حا صل کر نا سعا دت تک پہنچنے کی کو شش۔
شفا عت کے متعلق بہت سے اعتراضا ت اور شبہا ت ذکر کئے گئے ہیں کہ جن میں سے بعض اہم شبہا ت کا ذکر ہم اس در س میں کر نا چا ہتے ہیں
شبہ (١)
سب سے پہلا شبہ یہ ہے کہ قر آن مجید کی متعدد آیتیں اس با ت پر دلا لت کر تی ہیں، کہ قیا مت کے رو ز کسی کی شفا عت کو قبو ل نہ کیا جا ئے گا، جیسا کہ سو رہ بقر ہ کی آیت نمبر ٤٨ میں ار شا د ہو رہا ہے ( وَاتَقُوا یَوماً لَا تَجزِی نَفسٍ عَن نَفسٍ شیئاً وَ لَا یُقبَلُ مِنہَا شَفا عَة وَ لَا یُؤخَذُ مِنہَا عَدل وَلَا ہُم یُنصَرُو نَ)اس دن سے ڈرو کہ جب کو ئی کسی کے کام نہیںآئیگا اور نہ ہی کسی کی سفا رش قبو ل کی جا ئے گی اور نہ ہی کسی سے عو ض اور بدلہ لیا جا ئے گا، اور نہ اس کی کو ئی مدد کی جا ئے گا ۔
جو اب :
اس کا جو اب یہ ہے کہ ایسی آ یا ت بے اصو ل اور استقلا لی ( خو د مختا ر ) شفا عتو ں کی نفی میں ہے کہ بعض لو گ جس کا اعتقاد رکھتے ہیں، اس کے علا وہ مذکو ر ہ آیا ت عام ہیں اور یہ ان آیا ت کے ذ ریعہ جو شفا عت کے قبو ل کئے جا نے پر دلا لت کر تی ہیں تخصیص پا گئی ہے جیسا کہ گذشتہ درس میں ان کی طر ف اشا رہ کیا ہے ۔
شبہ (٢)
شفا عت کے صحیح ہو نے کا مطلب یہ ہے کہ خدا وند عالم شفا عت کر نے و الو ں کے زیر اثر آگیا ہے یعنی ان لو گو ں کی شفا عت خدا کے بخش دیئے جانے کا سبب بن گئی جبکہ وہ خدا فعل ہے
جو اب :
شفا عت کے قبو ل ہو نے کا معنی زیر اثر آنا نہیں ( متا ثر ) ہے جیسا کہ دعا اور تو بہ کا قبو ل ہو نا ایسا غلط معنی نہیں رکھتا کیو نکہ ان سا رے مقا ما ت پر بند وں کے کام رحمت الہٰی کے قبو ل کر نے کی آما دگی کا سبب اور ذ ریعہ ہیں اور اس اصطلا ح ( مقولے )کے لحا ظ سے کہ قبو ل کر نے وا لے کی قا بلیت شر ط ہے نہ کہ انجام دینے وا لے کی فا علیت ۔
شبہ(٣)
شفا عت کا لا زمہ یہ ہے کہ شفا عت کر نے وا لے خدا سے بھی زیا دہ مہر با ن ہو گئے ہیں ، کیو نکہ ہما را فر ض یہ ہے کہ اگر ان کی شفا عت نہ ہو ئی تو گنہگا ر عذا ب میں مبتلا ہو جا تا یا اس کا عذ ا ب دا ئمی ہوجا تا ۔
جو اب :
شفا عت کر نے وا لو ں کی ہمدر دی یا مہر با نی خدا کی بے پایا رحمت کی ایک جھلک ہے یا یوں کہا جائے کہ شفا عت ایک ایسا راستہ ہے ،جسے خو د پر ور د گا ر عالم نے اپنے گنہگا ر بند وں کے لئے قر ار دیا ہے اور حقیقت میں اس کی رحمت کے مجسم اور ظاہر ہو نے کا سب سے اعلیٰ نمو نہ ہے جو اس کے نیک اور منتخب بند وں کے ذریعہ ظا ہر ہو تا ہے، اور اسی طر ح تو بہ اور دعا بھی دوسرے وسیلے ہیں ،کہ جنھیں خدا نے مرا دوں کے پو ری ہو نے اور گنا ہو ںکے بخشے جا نے کے لئے قر ا رد یا ہے ۔
شبہ (٤)
ایک اور اعترا ض یہ ہے کہ اگر گنہگا ر و ں کے عذاب کے متعلق خدا کا حکم اس کی عدا لت کا تقاضا ہو تا تو ان لو گو ں کے لئے شفا عت کا قبو ل کر لینا اس کی عدا لت کے خلا ف ہو گا ۔
جو اب :
جتنے بھی احکا م الہٰی ہیں چا ہے شفا عت سے پہلے عذا ب کا حکم یا شفا عت کے بعد عذا ب سے نجا ت کا حکم، اس کی عدل و حکمت کے مطا بق ہے اور دو نوں حکمو ں کے عا دلا نہ اور حکیما نہ ہو نے میں دو ضدوں کے جمع ہونے والی نسبت بھی نہیں ہے اس لئے کہ اس کا مو ضو ع الگ ہے اس کی وضا حت اس طرح کی جا سکتی ہے کہ عذ اب کا حکم ارتکا ب گنا ہ کا تقا ضا ہے ان اسبا ب سے قطع نظر کہ جو گنہگا ر کے حق شفا عت کے قبو ل کا مو جب ہے اور عذا ب سے نجا ت کا مذکو رہ حکم اسبا ب کے ظہو ر کا سبب ہے اور حکم کا بد لنامو ضو ع کی قید کے بد لنے کے تا بع ہے ،بہت فر ا وانی کے سا تھ جس کی مثا ل احکا م اور تکوینی مقدرا ت اور تشریعی احکا م و قوا نین کے اندر مل جا ئیں گی اور اسی طر ح اپنے اپنے زما نے کے اعتبا ر سے حکم منسو خ اور حکم نا سخ کے عا دلانہ ہو نے میں کو ئی منا فا ت نہیں ہے ، نیز دعا اور صدقہ دینے سے مصیبتوں کے بر طر ف ہو نے کے حکیما نہ ہو نے میں کو ئی منا فا ت نہیں ہے اور شفا عت کے بعد گنا ہوں کے بخشے جا نے کا حکم، شفا عت کے تحقق سے پہلے عذاب کے حکم کے منا فی نہیں ہے ۔
شبہ(٥):
ایک اور اشکا ل یہ ہوتا ہے کہ خد ا وند عالم نے شیطان کی پیر وی کو دو زخ کے عذا ب میں مبتلا ہو نے کا سبب جا نا ہے: جیسا کہ سو رہ حجر کی آیت نمبر ٤٢،٤٣ میں ارشا د فر ما تا ہے (اِنَّ عِبَا دِ لَیسَ لَکَ عَلَیہِم سُلطَان اِلَّا مَنِاتَّبَعَکَ مِنَ الغَاوِین٭َ وَ اِنَّ جَہَنَّمَ لَمَوعِدُہُم اَجمَعِینَ )بیشک تو ( اے ابلیس! ) میرے بند وں پر مسلط نہیں ہو سکتا ،مگر وہ گمرا ہ لو گ جو تیری پیر وی کر یں اور ان کی ہمیشہ کی جگہ جہنم ہے ۔
اور حقیقت میں گنہگا رو ں کو قیا مت میں عذا ب میں گر فتا ر کر نا، خدا کی سنت ہے اور ہم یہ بھی جا نتے ہیں سنت خدا، تغیر و تبدیلی نہیں ہو سکتی ،جیسا کہ سو رہ فا طر کی آیت نمبر ٤٣ میں فر ما تا ہے ( فَلَن تَجدَ لِسَنَّةِ اللّٰہِ تَبدِیلًا وَ لَن تَجدَ لِسُنَّةُ اللّٰہِ تَحوِ یلاً )
تم ہر گز سنت الہٰی میں تبدیلی نہیں پا ئو گے اور ہر گز سنت پر ور دگا ر میں تغیر نہیں پا سکتے لہٰذا کیسے ممکن ہے کہ یہ سنت شفا عت کے ذریعہ ٹو ٹ جا ئے ؟
جوا ب:
اس کا جوا ب یہ ہے کہ وا جد الشرا ئط گنہگا ر وں کے با رے میں شفا عت کا قبو ل کر نا، خد ا کی نا قابل تبدیل سنتوں میں سے ایک ہے ،اس کی تفصیل یہ ہے کہ خدا وند عالم کی سنت، حقیقی معیا ر اور ملاک کے تابع ہے اور کو ئی بھی سنت جس کے سا رے تقا ضے، اور وجو دی و عدمی شرا ئط پا ئے جا ئیں گے وہ تبدیلی کو قبو ل نہیں کر سکتی، لیکن وہ عبا ر تیں جوا س سنت پر دلا لت کر تی ہیں وہ پوری طرح سے مو ضو ع اور اس کے تمام شرائط و قیود کو بیا ن نہیں کر رہی ہیں، اس رو سے ایسے مو را د پا ئے جا تے ہیں کہ جہاں ظا ہر ی طور سے آیات چند مختلف سنتوں کو شا مل ہے جب کہ حقیقت میں آیت کا مصدا ق
اخص اور اقوی ملاک کا تابع ہے لہٰذا ہر سنت اپنے مو ضو ع کی واقعی قیو د و شرا ئط کو دیکھتے ہو ئے ( نہ صر ف وہ قید یں اور شر طیں جو عبا رت میں ائیں ہیں ) ثا بت اور غیر قا بل تغیر ہے انھیں میں سے ایک سنت کا نام شفا عت ہے جو خا ص گنہگار وں کے لئے جن کے اند ر معین شرا ئط پا ئے جا تے ہو ں اور معین اصو ل و قو انین ان کے شا مل حا ل ہے ثا بت اور ناقا بل تبدیل ہے ۔
شبہ(٦)
شفا عت کا وعدہ، لو گو ں کو گنا ہ کے مرتکب ہو نے اور بے راہ روی میں گستاخ اور جری بنا دیتا ہے ۔
جو اب :
اس اعتراض کا جو اب تو بہ قبول ہو نے اور گنا ہوں کے ختم ہو جا نے کے سلسلے میں بھی پیش کیا جا سکتا ہے وہ یہ ہے کہ شفا عت اور مغفرت کا شا مل حا ل ہو نا، کچھ شرا ئط کے اوپر مو قو ف ہے کہ گنہگا رانسان ان شر ائط کے حصو ل کا یقین نہیں حا صل کر سکتا اور شفا عت پا نے کے من جملہ شرا ئط یہ ہیں کہ انسان اپنے ایمان کو تا دم مر گ بچا لے جا ئے اورہم یہ جا نتے ہیں کہ کو ئی بھی انسان ایسی شرط کے پو رے ہو نے کا یقین نہیں کر سکتا دوسری طر ف سے اگر کو ئی انسان کسی گنا ہ کا مر تکب ہو گیا اور اسے اپنے اس گنا ہ کی بخشش کی کو ئی امید ہو تو وہ ما یوسی اور نا امیدی میں گر فتا ر ہو جا ئیگا اور ما یو سی اس کے اند ر گنا ہ کو تر ک کر نے کے حو صلہ کو ضعیف کر د ے گی نیز اسے آئند ہ اسی غلط را ستے پر چلنے کی تر غیب دلا دے گی اسی لئے الہٰی مر بی کی روشن تر بیت یہ ہے کہ ہمیشہ لو گو ں کو خو ف اور امید کے در میان ورکے رکھے یعنی رحمت الہٰی اتنا امید وار نہ بنا د ے کہ خد ا کے یہا ں سے اطمینا ن حا صل کر لیں ،اور عذا ب الہٰی سے بھی اتنا نہ ڈر ا د ے کہ رحمت خدا سے ما یوس ہوجا ئیں اور ہم یہ جا نتے ہیں یہ دو نوں چیزیں گنا ہا ن کبیرہ ہیں ۔
شبہ(٧) :
ایک اور اعتراض یہ ہے کہ عذاب سے نجا ت پا نے میں شفا عت کی تا ثیر کا مطلب یہ ہے کہ دوسروں کا کام (شفا عت کر نے والے) سعادت تک پہچا نے اور بد بختی سے نجا ت پا نے میں اثر رکھتا ہے در آں حا لیکہ اس آیہ شر یفہ کے لحا ظ سے (وَاَن لَیسَ لِلاِ نسَانِ اِلَّا مَا سَعیٰ)صرف شخص کی اپنی کو شش ہے جو اسے سعا دت تک پہنچاتی ہے۔
جو اب:
انسان کی سعی اور کو شش منز ل مقصو د تک پہچنے کے لئے کبھی تو بطور مستقیم ہو ئی ہے، اور یہ کو شش راستہ کے آخری حصہ تک جاری رہتی ہے اور کبھی غیر مستقیم ہے جو مقد ما ت اور واسطوں کو فرہم کر نے کے ذریعہ ہو تی ہے، شفا عت پا نے والا شخص بھی سعا دت تک پہچنے کے مقد ما ت اور واسطوں کو حاصل کر نے کی کو شش کر تا ہے ،اس لئے کہ ایمان لا نا اور شفا عت کے استحقاق کے شرا ئط کا حا صل کر نا، سعا دت تک پہچنے کی را ہ میں سعی و کو شش شما ر کی جا تی ہے، چا ہے یہ کو شش نا قص ہی کیوں نہ ہو، اسی لئے کچھ مدت تک بر زخ کی مصیبتوں اور پر یشا نیوں اور عر صہ قیامت کی ابتدا ئی سختیوں میں گر فتا ر ہو نا پڑتا ہے لیکن بہر حا ل خود اس نے سعا دت کی جڑ یعنی ایمان کو اپنے دل کے اند ر مضبو ط کرتے ہوئے اس کو نیک اعما ل کے ذ ریعہ اس طر ح آبیاری کر تا رہتا ہے کہ زندگی کے آخری لمحا ت تک خشک نہ ہو نے پا ئے لہٰذا اس کی آخری سعا دت خو د اسی کی سعی و کوشش کا نتیجہ ہے اگر چہ شفا عت کر نے وا لے بھی اس درخت کے بار آور ہو نے میں اثر رکھتے ہیں ،جس طرح دنیا میں بھی بعض دوسرے افر اد انسا نوں کی ہد ایت اور ان کی تر بیت میں مو ثر ہیں، اور ان کی تا ثیر خو د شخص کی سعی و کوشش کی نفی کے معنی میں نہیں ہے ۔
سو الا ت :
١۔ شفا عت کی نفی کے اوپر دلا لت کر نے والی آیتو ں کے ہوتے ہوئے، شفاعت کے متحقق ہونے کا کیسے اعتبار کیا جا سکتا ہے ؟
٢۔ آیا شفا عت کا لا زمہ امور خدا وند عالم میں دوسروں کا اثر اندازہونا نہیں ہے ؟
٣۔ کیا شفا عت کا لا زمہ یہ نہیں ہے کہ دایہ ، ماں سے زیادہ مہربان ہو ؟
٤۔ شفا عت کا عدالت خدا سے کیا را بطہ ہے وضا حت کیجئے ؟
٥۔کیا شفا عت خد ا کی سنت کی تبدیلی کا با عث نہیں ہے ؟
٦ کیا شفا عت کا وعدہ گنہگا ر وں کی گستا خی اور جسور ہونے کا سبب نہیں ہے ؟
٧۔ وضا حت کیجئے کہ شفا عت ، انسان سعا دت کے لئے خود انسان کی سعی و کو شش کے
منا فی نہیں ہے ؟
٭٭٭٭٭
|