درس عقائد
 

انسٹھو اں درس
شفا عت
مقدمہ:
جو ذیل کی بحثو ں پر مشتمل ہے
شفا عت کا مفہوم
شفا عت کے اصول

مقدمہ:
من جملہ ان خصو صیا ت میں سے ایک ایسی خصوصیت کہ جس کو خدا وند عا لم نے مو منین سے مخصوص کر دیا ہے وہ یہ ہے کہ اگر کو ئی مو من شخص مر تے دم تک اپنے ایما ن کی حفا ظت کر لے جا ئے اور ایسے گنا ہو ں کا ارتکا ب نہ کر ے، جو اس کی تو فیقات کے سلب ہو جا نے کا با عث بنے اور اس کی عا قبت کی بد بختی شک و شبہ یا انکا ر جحو د کی منز ل تک پہنچا دے، اور ایک جملہ میں یوں خلاصہ کر دیا جائے کہ اگر ایمان کے سا تھ اس دنیا سے اٹھا ئے تو وہ ہر گز ابدی عذا ب میں مبتلا نہیں ہو گا اس لئے کہ اس کے چھوٹے گناہ ، بڑے گنا ہوں سے پرہیز کرنے کی وجہ سے بخش دئے جائیں گے، اور اُس کے بڑے گنا ہ تو بہ و استغفار کے وسیلہ سے معا ف کر دئے جا ئیں گے، اور اگر اُسے ایسی تو بہ کی تو فیق حا صل نہ ہو سکی، تو دنیا کی مصیبتیں اور پر یشا نیاں اُس کے گنا ہو ں کے بو جھ کو ہلکا کر دیں گی نیز بر زخ اور قیا مت کی ابتدا ئی سختیا ں اس کے اعما ل کے نقا ئص اور آلو دگیوں کو دو ر کر دیں گی اور اگر اس کے با وجود اسکے گنا ہو ں کی آلو دگی پا ک نہ ہو سکی تو شفا عت کے وسیلہ سے جو اولیا ء خدا خصو صاً حضو ر سر ور کا ئنا ت اور ان کے اہل بیت (ع) جو خدا کی وسیع و عظیم رحمت کی جلو ہ نما ئی کرتے ہیں،کے ذریعہ
جہنم کے عذا ب سے نجا ت پا جا ئیں گے (١) اور بے شما ر رو ایا ت کی رو شنی میں وہ مقام محمو د(٢) جس کا وعدہ پیغمبر ۖ کو دیا گیا ہے وہ اسی مقام شفا عت کا نام ہے اور خو د یہ آیہ شر یفہ (وَ لَسَوفَ یُعطِیکَ رَبُّّکَ فَتَرضَیٰ)(٣)اور تمھا ر ا پر ور دگا ر تمھیں اتنا عطا کر دے گا کہ تم خو ش ہو جا ئو گے حضور کی شفا عت کے ذریعہ الہٰی بخشش کی طر ف اشا رہ ہے جو مستحق افرا د کے شا مل حا ل ہو گی ۔
اس بنا پر گنہگا ر مو منین کی سب سے بڑی اور آخر ی امید اور آسراشفا عت ہے لیکن اس کے با وجود خدا کے عذاب سے امان کا یقین نہیں کر لینا چا ہیے بلکہ ہمیشہ یہ خو ف دل میںجاگتا رہے کہ خدا نخوا ستہ ا س سے کو ئی ایسا فعل سر زد ہو جا ئے جو مر تے دم تک کبھی بھی اس کی عا قبت کی بر با دی یا ایمان کے سلب ہو جا نے کا سبب بن جائے ،اور خبر دا ر کہیں ایسا نہ ہو کہ دنیا کی محبت ان کے دلو ں میں اس حد تک رسوخ کر جا ئے کہ (معا ذ اللہ ) وہ اللہ کی دشمنی کے سا تھ اس دنیا سے رخصت ہو اس لئے وہ لو گ یہ دیکھ رہے ہیں کہ خدا ہے جو ان کے اور ان کی محبوب اور معشو ق اشیا ء کے در میان مو ت کے ذریعہ جدا ئی ڈا ل دیتا ہے ۔

شفا عت کا مفہو م
شفا عت ،ما دہ شفع سے لیا گیا ہے جو جوڑے کے معنی میں ہے اور عر ف عام میں اس کے یہ معنی ہیں کہ کو ئی با عزت انسان کسی بزر گ شخصیت سے کسی مجر م کی سزا سے چشم پو شی یا کسی خد مت گذار کی اجر ت میں اضا فہ کی در خو ا ست کر ے اور شا ید ایسے مقا مات پر لفظ شفا عت کو استعما ل
کر نے کا نکتہ یہ ہو کہ مجر م انسان خو بخو د بخشے جا نے کا مستحق نہیں ہو تا، یا خد مت کا رخو د بہ خو د اجر ت
………………………
١۔ ( ادّ خرت شفا عتی لا ھل الکبا ئر من امتی ) میں نے اپنی شفا عت اپنے امت کے گنہگا روں کے لئے ذخیر ہ کیا ہے ، بحا ر لانوا ر ج ٨ ص ٣٧ ۔٤٠،
٢۔ اسرا ء ٧٩،
٣۔ ضحی ٥
میںاضا فہ کا استحقا ق نہیں رکھتا لیکن سفا رش کر نے وا لے ( شفیع ) کی در خو است کا منسلک ہو جا نا اسے اس کا مستحق بنا دیتا ہے عام حا لا ت میں کو ئی کسی سفا رش کر نے و الے کی سفا رش کو اس لئے قبو ل کر لیتا ہے وہ اس با ت سے ڈر تا ہے کہ اگر اس کی سفا رش کو قبو ل نہ کر ے گا تو وہ ناراض ہو جا ئے گا اور اس کا رنجید ہ خا طر ہو نا اس کی الفت یا خد مت کی لذ ت سے محر ومی کا سبب بنے گا، یا ممکن ہے کہ سفا رش کر نے وا لے کی جانب سے نقصا ن پہنچنے کا با عث ہو وہ مشرکین جو اس دنیا کو پیدا کر نے وا لے خدا کے لئے انسانی او صا ف کے قا ئل تھے، جیسے شر یک حیا ت ، مونس و مدد گا ر دو ست ہم مشغلہ سا تھی کی محبت کی ضر ورت یا اپنے ر قیب اور اپنے برابر کی شخصیت سے خو ف وغیر ہ، وہ خدا کے لئے ان سب صفا ت کے اس لئے قا ئل تھے، کہ ا ن کی تو بہ ان لو گو ں کی طرف مبذول ہو جائے اور وہ اس کے غضب سے محفو ظ رہیں، اور اسی لئے وہ لو گ بتوں اور مجسمو ں کے مقابلہ میں فر شتوں اور جنا توں کی پر ستش کرتے تھے اور کہتے تھے ۔(ہٰؤُ لَا ئِ شفعاؤنا عِندَ اللَّہِ )(١) یہ سب خدا کے نزدیک ہما ری
شفا عت کر نے وا لے ہیں اور کہتے تھے :
(مَا نَعبُدُ ہُم اِلَّا لِیُقَرِّ بُونَا اِلَی الٰلّہِ زُلفَیٰ )(٢)ہم ان کی پر ستش صر ف اس لئے کر تے ہیں کہ ہمیں اللہ سے قر یب کر دیں گے ۔
اور قر آن مجید ان لو گو ں کے جا ہلا نہ خیا لا ت کو اس طر ح با طل کر تے ہوئے فر ما تا ہے :
(لَیسَ لَہَا مِن دُونٍِِِِِِِ اللّہِ وَلِّ وَلَا شَفِیع )(٣) لیکن غو ر و فکر کا مقام ہے کہ ایسے شفا عت کر نے و الو ں اور ایسی شفا عت کی نفی کر نے کے معنی مطلقاً شفا عت کا انکا ر کر نا نہیں ہے، خو د قر آن مجید میں آیا ت مو جود ہیں جو شفا عت کو ( خدا کی اجا زت اور اس کے اذن سے ثا بت کر تی ہیں )
……………………………………
١۔ یو نس ١٨ ، روم ١٣ ، انعام ٩٤، زمر ٤٤ ، وغیرہ
٢۔ زمر ٣
٣۔ انعام ٧٠، ٥١، سجدہ ٤، زمر ٤٤،
( شفا عت با ذن اللہ ) اور وہ آیا ت شفا عت کر نے و ا لو ں اور جنکی شفا عت کی جا ئے گی ان کی شرائط کو بھی بیان کر رہی ہیں اور خدا کی جا نب سے اجا زت یا فتہ شفا عت کر نے و الوں کی شفا عت کا قبو ل ہو نا، کسی خو ف یا ضرو رت کی وجہ نہیں ہے بلکہ یہ ایک ایسا را ستہ ہے جسے خدا وند عالم نے ان لو گو ں کے لئے کھو لا ہے، جن کے اند ر رحمت الہٰی ،کی لیا قت کم پا ئی جا تی ہے اور اس کے وا سطے کچھ شر طیں اور اصول قرا ر د یئے ہیں اور در حقیقت صحیح شفا عت پر عقید ہ ،اور شر ک آمیز شفا عت پر عقیدہ کے در میان وہی فر ق ہے جو فر ق خدا کی جا نب سے حاکمیت اور تدبیر ، اور خود مختار حاکمیت و تدبیر کے درمیان میں ہے جو خدا شنا سی کے باب میں بیان ہو چکی ہے (١)کبھی کبھی شفا عت کا لفظ اس سے بھی زیا دہ و سیع معنیٰ میں استعما ل ہو تا ہے اور انسان کے اند ر دوسرے کے ذریعہ اچھا اثر ظا ہر ہو نے کو بھی شا مل ہے جیسے ما ں با پ اپنی اولادکے متعلق یا اس کے بر عکس اسی طرح معلم اور ر ہنما اپنے شا گر دوں کے متعلق اور یہا ں تک کہ مو ذن ان لو گو ں کے متعلق جو اس کی آوا ز کو سن کر نما ز کو یا د کر تے ہوئے مسجد کی طرف چل پڑتے ہیں شفا عت کر یں گے اور در حقیقت ہر نیک اثر جو اس دنیا میں انجام دیا گیا ہے وہ شفا عت اور مدد کی شکل قیامت کے دن ظا ہر ہوگا ۔
دوسرا نکتہ یہ ہے کہ گنہگا ر وں کی توبہ و استغفا ر اسی دنیا میں ان کے لئے ایک طر ح کی شفا عت ہے اور یہا ں تک کہ دوسرو ں کے حق میں دعا کر نا اور خد ا سے ان کی حا جتوں کو پور ا ہو نے کی در خو است کر نا در حقیقت خدا کے نزدیک شفا عت شما ر کی جا تی ہے ، کیو نکہ یہ سا ری چیزیں خدا کے نز دیک کسی انسان تک نیکی پہنچا نے یا کسی سے شر کو دور کر نے لئے واستہ ہے ۔
………………………………
٣۔ رجوع کریں،باب خدا شنا سی درس نمبر ١٦،

شفا عت کے اصو ل
جیسا کہ اشا رہ کیا جا چکا ہے کہ شفا عت کر نے یا شفاعت پا نے کے لئے بنیا دی شر ط خد کی اجا زت ہے، جیسا کہ سو رہ بقرہ کی آیت نمبر ٥٥ ٢،میں ارشاد ہو ا ہے (مَن ذَالَّذِی یَشفَعُ عِندَہُ اِلَّا بِاِذنِہِ )کو ن ہے جو اس کی با رگا ہ میں اس کی اجازت کے بغیر سفا رش کر سکے ،اور سو رہ یو نس کی آیت نمبر ٣میں یو ں ارشا د ہے (مَا مِن شَفِیعٍٍٍٍٍٍٍٍ اِلَّا مِن بَعدِ اِذنِہِ) کو ئی سفا رش نہیں کر سکتا مگر اس کی
اجا زت کے بعد اور سو رہ طہٰ کی آ یت نمبر ١٠٩ میں بھی ارشا د ہو رہا ہے :
( یَومَئِذٍ لَا تَنفَعُ الشَّفَا عَةُ اِلَّا لِمَن اَذِنَ لَہُ الَّرحمٰنُ وَ رَضِیَ لَہُ قَولاً )
اس دن کسی کی سفا رش کام نہ آئے گی ،سوا ئے ان کے جنھیں خدا نے اجاز ت دیدی ہو اور وہ ان کی بات سے را ضی ہو اور سو رہ سبا ء کی آیت نمبر ٢٣ میں فر ما تا ہے :
(وَلَا تَنفَعُ الشَّفَا عَةُ عِندَہُ اِلَّا لِمَن اَذِنَ لَہُ)اس کے نزدیک کسی کی سفا رش کام نہ آئے گی مگر اس کی جس کو اجاز ت دی گئی ہو ان آیات سے اجما لی طور سے خدا کی اجازت ثا بت ہو تی
ہے لیکن اجا زت یا فتہ افرا د کی خصو صیت کا اند ا زہ نہیں ہو تا ، لیکن دوسر ی آیا ت کے ذ ریعہ طر فین ( شفا عت کرنے وا لے اور شفا عت پا نے وا لے ) کی شر طو ں کو واضح کیا جا سکتا ہے جیسا کہ سورہ زخرف کی آیت نمبر ٨٦ میں ہے :
(وَلا یَملِکُ الَّذِینَ یَد عُونَ مِن دُونِہِ الشَّفَاعَةَ اِلَّا مَن شَہِدَ بِا لحَقِّ وَ ہُم یَعلَمُونَ) اور وہ لو گ جو خدا کے علا وہ کسی اور کو آواز دیتے ہیں شفا عت کا حق نہیں رکھتے ( اور کسی کو بھی شفا عت کا حق نہیں ) مگر وہ جو حق کی گو اہی دے اور علم بھی رکھتا ہو، شا ید ( مَن شَھِدَ بِا لحَق) سے مرا د اعما ل کے اوپر گو اہ فرشتے ہو ں جو خدا کی تعلیم کے ذریعہ بندوں کے اعما ل اور نیتوں سے وا قف رہتے ہیں اور ان کی رفتا ر و کر دا ر کی قدر و قیمت اور کیفیت پر شہا دت دے سکتے ہیں ،جیسا کہ حکم اور مو ضو ع کے تنا سب سے استفا دہ کیا جا سکتا ہے کہ سفا رش کر نے والو ں کے پا س اتنا علم ہو نا چا ہیے کہ جو شفا عت
پا نے وا لوں کی صلا حیت کی تشخیص دے سکیں ۔
اور یقینی طور سے ان دو نوں شرا ئط کے حا مل وہ معصو مین (ع)ہیں ،دوسری طر ف سے بعض آیا ت سے استفا دہ ہو تا ہے کہ شفا عت پا نے وا لے مر ضی خدا کے حق دار ہو ں جیسا کہ سور ہ انبیا ء کی آیت نمبر ٢٨میں ارشاد ہے : (وَ لَا یَشفَعُونَ اِلَّا لِمَن اِر تَضیٰ )سفا رش نہیں کر سکتے مگر یہ کہ خدا اس کو پسند کر ے اور سو رہ نجم کی آیت نمبر ٢٦ میں ارشاد ہے : (وَکَم مِن مَلَکٍ فِی السَّموات لَا تُغِن شَفَاعتُہُم شَیًا اِلَّا مِن بَعدِ اَن یَأ ذَنَ اللّہُ لِمَن َیشَاء وَ یَر ضیٰ) اور آسما نوں میں کتنے ہی ایسے فر شتے ہیں جن کی سفارش کسی کے کا م نہیں آسکتی، جب تک خدا جس کے با رے میں چا ہے اور پسند نہ کر ے اجا زت نہ دیدے ۔
صا ف ظا ہر ہے کہ رضائے پر وردگا ر کی منز ل میں ہو نے سے مر اد یہ نہیں ہے کہ اس کے سا رے اعما ل پسندیدہ ہو ں ورنہ شفا عت کی کو ئی ضرو رت نہیں ہے بلکہ مراد یہ ہے کہ خو د شخص دین و ایمان کے لحاظ سے مر ضی خدا کے مطا بق ہو جیسا کہ رو ایا ت میں اسی عنوان سے تفسیر ہو ئی ہے ۔
دوسری طر ف چند آیتوں میں ان لو گو ں کی خصلت جن کی سفا رش نہیں ہو سکتی بیان کی گئی ہے، جیسے سو رہ شعراء کی آیت نمبر ١٠٠ میں مشر کین کے قول کو نقل کر رہا ہے(فَمَا لَنَا مِن شَا فِعِین)َ اور سورہ مدثر کی آیت نمبر ٤٠سے ٤٨ تک آیا ہے کہ مجر مو ں کے دو زخ میں جا نے کے سبب کے با رے میں سوا ل کیا جا ئے گا تو وہ لو گ جو اب میںتر ک ِنما ز (١) بیکسو ں کی مدد نہ کر نے روز قیا مت کے جھٹلا نے کی خصلت کو گنوائیں گے اس کے بعد ارشا د ہے (فَمَا تَنفَعہُم شَفا عَة الشَا فِعِینَ ) اس آیت سے استفا دہ ہو تا ہے کہ وہ مشرکین او ر قیا مت کا ا نکا ر کر نے وا لے جو خدا کی عبا دت نہیں کر تے اور اس کے محتا ج بند وں کی مدد نہیں کر تے ،اور صحیح اصول و قوا نین کے پا بند نہیں ہیں ۔
…………………………
١۔ امام صا دق اپنی زند گی کے آخر ی لمحا ت میں فر ما یا:( ان ّ شفاعتنا لا تنا ل مستخفا با لصلوٰة ) ہما ری شفاعت اس انسان تک نہیں پہنچ سکتی جو نما ز کو ہلکا سمجھے ۔ بحا ر الانوا ر ج٤ ص ٢
شفا عت ہر گز ان کے شا مل حا ل نہیں ہو گی او ر اس با ت پر غور کر تے ہو ئے کہ پیغمبر ۖکا استغفا ر بھی اس دنیا میں ایک طر ح کی شفا عت ہے اور ان کا استغفا ر ان لو گو ں کے حق میں جو ا س بات کے لئے حا ضر نہیں ہیں، آپ سے استغفا ر و شفا عت کی در خوا ست کر یںشامل نہیں ہو گا(١) اس سے اس با ت کا اندا زہ ہو تا ہے کہ شفا عت کا انکا ر کر نے وا لا بھی شفا عت کا حق دار نہیں ہے جیسا کہ یہی مضمو ن احا دیث میں ذکر ہو ا ہے (٢)
حا صل کلا م یہ ہے کہ مطلقا ً اور اصلی سفا رش کر نے وا لے کے لئے ضر وری ہے کہ خد ا کی اجا زت کے علا وہ خو د بھی معصیت کا ر نہ ہو اور دوسروں کے گناہ اور اطا عت کے مر ا تب کو سمجھنے کی قدر ت رکھتا ہو نیز سچے پیرو کار بھی ان کے زیر سا یہ شفا عت کے کمترین مر تبہ کے ما لک ہو تے ہیں ،جیسا کہ ایسے افراد شہدا ء اور صد یقین کے زمر ہ میں محشور کئے جا ئیں گے (٣) اوردوسری طرف صر ف وہ لو گ شفا عت پا نے کا حق رکھتے ہیں جو خدا کی اجا زت کے علا وہ خدا و رسو ل اور قیامت اور وہ چیزیں جو خدا نے نبی ۖ پر نا زل کی ہیں جیسے شفا عت کی حقا نیت پر ایمان رکھنا، نیز اس اعتقاد پر آخر دم تک باقی رہنا ہے ۔
…………………………………………
١۔ منا فقون ٥۔٦
٢۔ (عن النبی ۖ مَن لم یؤمن بشفاعت فلا انالہ اللہ شفاعت )جو میری شفا عت پر ایما ن نہیں رکھتا خدا میری شفا عت کو اس کے شا مل حا ل نہیں کر ے گا ، بحا ر لانوا ر ج٨ ص ٥٨ ،
٣( وا لذین آمنوا با اللہ و رسولہ او لٰئک ھم الصدقون والشہد اء عند ربھم )
جو خدا اور رسول ۖ پر ایما ن لا ئے خدا کے نزدیک وہی لو گ صدیقین اور شہدا ء ہیں ،

سو الا ت:
١۔ شفا عت کے معنی اور اس کے استعما ل کے موارد کو تفصیل سے بیا ن کر یں ؟
٢۔صحیح شفا عت اور شر ک آمیز شفا عت کے درمیان فر ق بیا ن کیجئے ؟
٣شفا عت کر نے و لے کے شرا ئط کی وضا حت کیجئے ؟
٤۔شفا عت پا نے وا لے کے شرا ئط کی وضا حت کیجئے ؟