درس عقائد
 

چھپنو ا ں در س
مقدمہ :
انسان کا حقیقی کما ل
یہ بحث مشتمل ہے ذیل کی گفتگو پر
عقلی بیان
خو اہش اور نیت کا کردا ر

مقدمہ :
بعض ایسے افرا د جو اسلا می ثقا فت سے کا فی حد تک ما نوس نہیں ہیں اور آگا ہی نہیں رکھتے ،اور اپنے ظا ہر ی اور سطحی معیا ر کی بنیا د پر انسانی رفتار و اعمال کی قدرو قیمت کا اندا زہ لگا تے ہیں، نیز محر ک و فا عل کی نیت کی اہمیت کی طر ف کو ئی تو جہ نہیں دیتے اور بہ تعبیر دیگر حُسنِ فعلی کے مقا بلہ میں حُسنِ فعلیکو اہمیت نہیں دیتے یا دوسروں کی دنیا وی زندگی میں آسا ئش و آرام کے حوالے سے موثر ہونے کو معیا ر قدر و قیمت سمجھتے ہیں ایسے لو گ بہت سا رے اسلا می عقا ئد اور معا رف کی تحقیق اور اس کو سمجھنے میں گمرا ہی سے دو چا ر ہو جا تے ہیں ، یا اس حقیقت کو کو سمجھنے اور بیان کر نے سے قا صر رہتے ہیں، من جملہ ایمان کا اثر اور اس کا اعما ل صا لحہ سے رابطہ اور کفر و شر ک کا تبا ہ کن کر دار اور بعض چھو ٹے اور کم مدت اعما ل کو بڑے اور طو لا نی مدت اعما ل پر فوقیت و بر تری کے سلسلہ میں کج فکری کا شکا ر ہو جاتے ہیں، مثلاً ایسا تصو ر کر تے ہیں وہ بڑے ایجا دا ت کے ما لک افر اد جنھوں نے دوسر وں کے لئے آ سا ئش و آرا م کے اسبا ب فر اہم کئے ہیں یا وہ حر یت پسند افر اد جنھوں نے اپنی ملت کی آزا دی کی راہ میںجنگ و جدا ل کا سا منا کیا ہے ان کو آخر ت میں بلند و با لا مقام ملنا چا ہیے ہر چند کہ وہ خدا او ر قیامت پر ایمان نہ رکھتے رہے ہوں ،اور کبھی کبھی نوبت یہا ں تک پہنچ جا تی ہے کہ اسی دنیا میں انسانی قدر و قیمت اور زحمت کر نے وا لوں اور محنت کشو ں کی آخری کا میا بی پر ایمان رکھنے ہی کو انسانی سعا دت کے لئے ایمان کی ضرورت بتا تے ہیں ،اور حد تو یہ ہے خدا کے مفہوم کو بھی ایک قیمتی مفہوم اور اخلا قی مو ا زین کے مطا بق رقم کر تے ہیں ۔
اگر چہ گذشتہ در سو ں میں جو بیان ہوا اس کی روشنی میں ایسی گفتگو اور ایسے خیا لا ت کی خطا اور کمزوری کو بھی پہنچا نا جا سکتا ہے، لیکن اس مو جودہ زما نہ میں ایسے افکا ر کی نشر واشا عت اور آئند ہ کی نسل کے لئے جو خطر ہ پیدا ہو گیا ہے اس کو بچا نے کے لئے ضرو ری ہے کہ اس کے با رے میں تھوڑی سی وضا حت کر دی جا ئے ۔
البتہ ایسے مسا ئل پر ایک جا مع اور مفید گفتگو کر نے کے لئے وسیع زما نہ اور ساز گا رحا لا ت
در کا ر ہیں ۔
اس لئے اس مقام پر ان مسا ئل کے عقیدتی پہلو کو دیکھتے ہو ئے اور اس کتا ب کی مناسبت کا لحاظ کرتے ہوئے صر ف بنیادی ترین مسا ئل کو بیان کر نے ہی پر اکتفا کرتے ہیں ۔

انسان کا حقیقی کمال
اگر ہم سیب کے درخت کو ایک بغیر پھل کے در خت کے سا تھ تصور کریں اور دو نوں کا مقابلہ کریں، تو سیب کے در خت کو بے پھل درخت سے زیا دہ قیمتی شما ر کریں گے، اور یہ فیصلہ صر ف اس لئے نہیں ہے کہ انسان پھل دا ر درخت سے زیا دہ فا ئدہ اٹھا تا ہے بلکہ اس لئے کہ پھل دا ر درخت کا وجود بے پھل در خت سے زیا دہ کا مل ہے اور اس کے آثا ر بھی اس سے زیا دہ ہیں اس لئے اس کی قدر و منز لت بھی زیا دہ ہو گی لیکن اگر یہی سیب کا درخت اگر کسی آفت کا شکار ہو جا ئے یا اس کو کو ئی مر ض لا حق ہو جا ئے اور اس کی نشو و نما رک جائے تو یہ اپنی قدر و قیمت کھو دے گا، اور ممکن ہے کہ ا س کی گندگی اور دوسروں کے لئے نقصا ن کا سبب بن جائے ۔
انسان کا بھی دوسرے تمام جا نو روں کے مقا بلے میں یہی حکم ہے اور اس صو رت میں جب وہ اپنے لا ئق اور منا سب کمال تک پہنچ جا ئے اور اس کے وجود سے اسکی فطر ت کے مطا بق آثا ر ظا ہر ہو نے لگیں، تو گو یا وہ انسان جانوروں سے زیا دہ قدر و قیمت کا حا مل ہے لیکن اگر آفت و گمرا ہی کا شکا ر
ہو جائے تو ممکن ہے کہ دورے سا رے جا نو روں سے بھی پست تر اور نقصا ن دہ ہو جا ئے جیسا کہ قر آن مجید میں ذکر ہو ا ہے کہ بعض انسان سا رے حیو انا ت(١) سے بھی برُے ہیں اور چو پا یوں (٢) سے زیا دہ گمرا ہ ہیں دوسری طر ف سے اگر کسی نے سیب کے در خت کو صر ف پھو ل کھلنے اور غنچہ لگنے تک ہی دیکھا ہو تو وہ گما ن کر ے گا، کہ اس کی تر قی اور پھو لنے پھلنے کی آخر ی حد یہی ہے اور اب اس سے زیا دہ کما ل ا س میں نہیں پایا جا تا اسی طر ح جنھو ں نے صر ف انسان سے متو سط کما لا ت کا مشا ہد ہ کیا ہے وہ انسان کے آخری کمال اور اس کی حقیقت کو نہیں درک کر سکتے اور صر ف وہ ہی لو گ انسان کی واقعی قدر و قیمت کاا ندا زہ لگا سکتے ہیں ،کہ جو اس کے کما ل کی آخر ی منز ل کو پہچا نتے ہیںلیکن انسان کا آخر ی کما ل اس کا کمال ما دی نہیں ہے اس لئے کہ جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے کہ انسان کی انسانیت کا تعلق ملکو تی روح سے ہے اور انسانی تکا مل بھی در حقیقت وہی روح کا تکا مل ہے جو اپنی اختیا ری کا ر کر دگی سے حا صل ہو تا ہے چا ہے وہ قلبی اور اند رونی کا ر کر دگی ہو یا، بیرو نی او ر اعضا و جوا رح کی مدد سے حاصل ہونے والی کار کردگی اور ایسے کمال کا اندا زہ کسی حسی تجر با ت اور پیمانے کے ذریعہ نہیں لگا یا جا سکتا لہذا اس تک پہنچنے کے لئے آزما یشی وسا ئل کا سہارا نہیں لیا جا سکتا بس جو خود کما ل تک نہیں پہنچ سکتا اور اس کو علم حضور ی اور قلبی مشا ہدہ کے ذر یعہ نہیں پا سکتا اس کو چا ہیے کہ اس کما ل تک پہنچنے کیلئے عقلی دلیل یا وحی پر وردگا ر اور آسما نی کتا بوں کا سہارا لے۔
…………………………
١۔ انفا ل ٢٢،
٢ ۔ اعرا ف ١٧٩،
لیکن وحی خداوند عالم اور قرآنی ارشادات اور اہلبیت عصمت وطہارت علیہم السّلام کے نورانی بیانات کے لحاظ سے کسی بھی شک وتردید کا مقام نہیں ہے کہ انسان کا آخری کمال اسی کے وجود کا ایک مرتبہ ومقام ہے کہ جس کی طرف تقرب الٰہی کے عنوان سے اشارہ کیا گیا ہے،اور اس کمال کے آثار رضائے پروردگار اور ابدی نعمتیں ہیں جو آخرت میں ظاہر ہونگی،اور اس تک پہنچنے کا کلی راستہ خدا پرستی اور تقویٰ ہے کہ جو تمام انفرادی اور اجتماعی زندگی کے تمام حالات میں شامل ہے،لیکن عقلی نقطہ نظر سے اس موضوع کے لئے پیچیدہ ترین دلیلوں کو پیش کیا جا سکتا ہے کہ جس کے لئے کافی حد تک فلسفی مقدمہ اور تمہید کی ضرورت ہے،لیکن ہم یہاں بہت آسان گفتگو کرنا چاہتے ہیں۔

عقلی بیان
انسان فطری طور سے لامحدود کمالات کا خواہاں ہے علم اور قدرت ان کمالات کو ظاہر کرنے کا بہترین وسیلہ ہیں،اور ایسے کمال تک پہنچنا ہی لامحدود لذتوں اور ہمیشہ کی سعادت کا سبب ہے اور اس وقت یہ کمال انسان کے لئے میسر ہوتا ہے کہ جب انسان علم وقدرت کے لامحدود سر چشمہ اور کمالِ مطلقِ حقیقی یعنی خداوند عالم سے وابستہ ہوجائے ،اور اسی رابطہ کو قرب خداوندی کا نام دیا جاتا ہے(١)بس انسان کا حقیقی کمال جو اس کا مقصد خلقت ہے خداوند عالم کے تقرب اور اس سے رابطہ کے زیر سایہ حاصل ہوتا ہے،اور وہ انسان جو اس کمال کے سب سے کم اور پست مرتبے کو بھی اپنے پاس نہیں رکھتا ،یعنی جو شخص ضعیف ترین ایمان کا حامل بھی نہیں ہے وہ اس درخت کے مانند ہے جو ابھی پھل دینے نہیں لگا اگر ایسا درخت کسی آفت سماوی یا روگ ومرض کی وجہ سے پھل کی صلاحیت کو
کھو دے تو اُس کی منزلت بے پھل درخت سے بھی زیادہ گر جائے گی،اس بناء پر کمال اور انسانی سعادت میں ایمان کے کردار کی اہمیت اس لحاظ سے ہے کہ انسان کے روح کی اصل خصوصیات
………………………
١۔ زیا دہ تفصیل معلو م کر نے کے لئے مئو لف کی کتا ب ( خو د شنا سی بر ای خود سا زی ) کی طرف رجو ع کریں ۔
خداوند عالم سے علم وآگاہی اور اختیار کے ساتھ رابطہ قائم کرنا ہے،اور بغیر اس رابطے کے مناسب کمال اور اس کے آثار سے محروم ہو جائے گا، بلکہ یوں کہا جائے کہ انسان کی انسانیت کا وجود نہیں ہو سکتا،اور اگر انسان برُے اختیارات کے ذریعہ ایسی بلند صلاحیتوں کو برباد کردے، تو گویا اس نے اپنے اوپر بدترین ظلم کیا ہے اور وہ ابدی سزا کا مستحق ہوگا،اور قرآن مجید ایسے لوگوں کے بارے میں فرماتا ہے،
اِنَّ شَرَّ الدَّوَابِّ عِندَاللَّہِ الَّذِینَ کَفَرُوا فَہُم لَا ےُؤمِنُونَ(١)بے شک خدا کے نزدیک جانوروں میں کفار سب سے بدتر ہیں،پس وہ ایمان نہیں لاتے۔
خلاصہ یہ کہ ایمان اور کفر میں سے ہر ایک انسان کے لئے سعادت و کمال کی طرف ترقی کی حرکت یا عذاب و بد بختی کی طرف تنز لی کی حرکت کو معین کرتا ہے،اور ان میں سے جو بعد میں ہوگا وہی آخری اور عاقبت ساز اثر رکھے گا،(آخرت کی اچھائی یا برُائی اسی کے قبضے میں ہے)۔

خواہش(محرک)اور نیت کا کردار
مذکورہ اصل کو دیکھتے ہوئے یہ بات واضح ہو جاتی ہے ،کہ انسان کے اختیاری کاموں کی حقیقی قدرو قیمت تب معلوم ہوگی، جب ہم یہ دیکھیں کہ وہ انسان کو حقیقی کمال یعنی قرب پروردگار تک پہنچا نے میں کتنا اثر رکھتی ہے،اگرچہ بہت سے اعمال کسی نہ کسی طرح چاہے بعض امور کا سہارا لے کر ہی صحیح دوسروں کے تکامل اور ترقی کے لئے راہ ہموار کرتے ہیں تو وہ اچھائی اور فضیلت سے متصف کئے جاتے ہیں ،لیکن فاعل کی ابدی سعادت میں ان کی تاثیر اس اثر کے اوپر موقوف ہے جو روح کے تکامل اور میں اعمال نے اثر چھوڑ اتھا، دوسری جانب سے اگر دیکھا جائے تو خارج افعال کا فاعل کی روح سے جو ارتباط ہے وہ ارادہ کے ذریعہ حصل ہوتا ہے کہ یہ کام اس کے بغیر واسطہ کے ہے،اور کام کا ارادہ مقصد اور نتیجہ کی محبت،اور شوق و رجحان کی بنا پر وجود میں آتا ہے اورا سی کا نام خواہش اورسبب
……………………………………………
١۔انفا ل ٥٥،
ہے جوروح کے اندر مقصد کی طرف بڑھنے کے لئے ایک حرکت پیدا کرتا ہے،اور کام کے ارادہ کی شکل مجسم ہو کر ظاہر ہوتا ہے،بس ارادی کام کی قدروقیمت خواہش(سبب) اور فاعل کی نیت کے تابع ہے،اور کام کے حسن کا بغیر فاعل کے حسن کے روح اور سعادت ابدی کے تکامل میں کوئی اثر نہیں ہے۔
اور یہی دلیل ہے کہ جو کام مادی اور دنیوی اسباب اور خواہشات کی بنا پر انجام پاتے ہیں وہ ابدی سعادت میں کوئی اثر نہیں رکھتے،اور اگر اجتماعی اور معاشرے کی سب سے بڑی خدمت بھی(ریا) دکھاوے یا خود نمائی کے لئے ہوتو فاعل کو اس کا ایک ذرہ فائدہ نہیں پہنچے گا(١)بلکہ ممکن ہے اس کے لئے نقصان اور روحی انحطاط کا باعث بن جائے اس لئے قرآن کریم آخرت کی سعادت میں اعمال صالحہ کی تاثیر کو ایمان اور قصد قربت]اِرَادَہ وَجہُ اللّہ وَابتِغَائَ مَرَضَات اللّہ[پر مشروط اور موقوف جانا ہے(٢)
حاصل کلام یہ ہے کہ نیک کام دوسروں کی خدمت کرنے میں منحصر نہیں ہے ،دوسر ا یہ کہ دوسروں کی خدمت کرنا بھی انفرادی عبادت کی طرح سعادت ابدی اور اخروی تکامل اور ترقی میں اس وقت مو ثر ہوگی کہ جب خدائی خواہشات اور آرزوئوں سے وابستہ ہو۔
…………………………………
١۔بقر ہ ٢٤٦ ، نسا ء ٣٨، ١٤٢، انفا ل ٤٧، مو عون ٦،
٢۔ نساء ١٢٤، نحل ٩٧ ، اسرا ء ١٩، طہٰ ١١٢، انبیا ء ٩٤، غا فر ٤٠ ، انعام ٥٢، کہف ٢٨ ، روم ٣٨، بقرہ ٢٠٧،٢٦٥،

سوالات
(١)ہر شی کی حقیقی قدرو قیمت کس چیز میں ہے؟
(٢)انسان کے آخری کمال کو کیسے پہچانا جا سکتا ہے؟
(٣)ثابت کیجئے کہ انسان کا آخری کمال صرف ارتباط اور تقرب خدا کے زیر سایہ ہی حاصل ہو سکتا ہے؟
(٤)ثابت کیجئے کہ نیک کاموں کی تاثیر انسان کی ابدی سعادت میں الٰہی مقصد اور مراد پر موقوف ہے؟