پچپنواں در س
ایمان اور عمل کا آپس میں رابطہ
مقدمہ:
ایما ن کاعمل سے رابطہ
عمل کا ایما ن سے رابطہ
نتیجہ
مقدمہ :
ہمیں یہ با ت معلوم ہو چکی ہے کہ ابد ی سعا دت و شقا و ت کا اصل سبب ایما ن اور کفر ہے، اور مستحکم ایما ن ہمیشہ کی خو شبختی کی ضما نت ہے ہر چند ممکن ہے کہ گنا ہوں کا ارتکاب محدود عذا ب کا با عث بن جا ئے ، اور دوسری طر ف مستحکم کفر ہمیشہ کی بد بختی کا سبب ہے اور اس کے ہو تے ہو ئے کو ئی بھی نیک کا م آخر ت کی سعا دت کا سبب نہیں ہو سکتا ،اسی کے ضمن میں اشا رہ کر تے چلیں ، کہ ایمان اور کفر میں شد ت اور ضعف کو قبول کر نے کی صلا حیت ہے اور ممکن ہے کہ بڑے بڑے گنا ہو ں کے ارتکا ب کی وجہ سے ایمان سے ہا تھ دھو نا پڑے، اور اسی طر ح نیک کا م انجام دینا، کفر کی بنیاد وں کو کمزور کر دیتا ہے، اور ممکن ہے کہ ایمان کے لئے را ہ ہموا ر کر دے اس مقام پر ایمان اور عمل کے در میان را بطے کے سوا ل کی اہمیت کاا ندا زہ ہو تا ہے ہم اس درس میں اس سوال کے جو اب کو بیان کریں گے ۔
ایمان کا عمل سے رابطہ
گذشتہ بیا نات سے واضح ہو چکا ہے کہ ایمان ایک قلبی اور نفسانی حا لت کا نام ہے کہ جو علم و
دانش کی وجہ سے مزید تقویت پاتے ہیں ، اور اس کا لا زمہ یہ ہے کہ با ایمان انسان اجما لی طور سے ان چیزوں کے لوازم پر جن پر ایمان رکھتا ہے عمل کر نے کا فیصلہ کر تا ہے
اس بنا پر وہ شخص جو کسی حقیقت سے آشنا ہے، لیکن اس کا یہ فیصلہ ہے کہ وہ کبھی بھی اس کے لوازمات پر عمل نہیں کریگا وہ ہر گز ایما ن نہیں رکھ سکتا ،یہاں تک کہ اگرعمل کر نے یا نہ کرنے کے سلسلے
میں شک میں مبتلا ہو جائے تب بھی جا نے کہ وہ ایمان نہیں لا یا ہے، قر آن کریم کا ارشاد ہے
( قَا لَتِ الَا عرَابُ آمَنَّا قُل لَم تُومِنُوا وَ لَکِن قُولُوا اَسلَمنَا وَ لَمَّا یَدخُلِ الاِ یمَانُ فِ قُلُوبِکُم )(١)
یہ بدو عرب کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے ہیں تو (اے رسول ) آپ کہدیجئے کہ تم ایمان نہیں لا ئے بلکہ یہ کہو کہ اسلام لے آئے ہیں ابھی ایمان تمھارے دلوں میں داخل ہی نہیں ہو اہے، لیکن حقیقی ایمان کے بھی کچھ مرا تب ہیں اور ایسا نہیں ہے ایمان کے ہر مر تبے کا لازمہ یہ ہو کہ اس سے مر بوط تمام و ظا ئف انجام دئے جا ئیں اور ممکن ہے کہ شہو انی یا غضبی دبا ئو کمزور ایمان رکھنے والے انسا ن کو گنا ہ کے ارتکاب پر مجبور کر دے لیکن اس طر ح نہیں کہ وہ ہمیشہ گناہو ں میں ملوث رہے اور تمام لو از مات کی مخا لفت کرتا ر ہے البتہ جتنا زیا دہ ایمان میں استحکا م پا یا جا ئیگا اور جتنا زیادہ کا مل ہو گا اتنا ہی زیا دہ اس کے منا سب اعمال کو انجام دینے میں اثر رکھے گا ۔
خلاصہ یہ ہے کہ ایمان ذا تی اور فطری طور سے اپنے لو ازما ت اور متعلقات پر عمل کر نے کا تقاضا کر تا ہے اور یہی تا ثیر کی مقدا ر کا تقاضا بھی اس کی شدت و ضعف سے وابستہ ہے اور با لا خر انسان کا فیصلہ اور ارادہ ہی ہے جو کسی کا م کو انجام دینے یا تر ک کر نے کو متعین کر تا ہے ۔
………………………………
١۔ حجرات ١٤،
عمل کا ایمان سے رابطہ
انسان کا اختیا ری عمل یا تو منا سب اور ایمان کے سا تھ ہو گا یا غیر منا سب اور ایمان کے خلا ف ہو گا پہلی صو رت میں ایمان کو تقویت حا صل ہو تی ہے اور دل کی نو را نیت میں اضا فہ ہو تا ہے، اور دوسری صو رت میں ایمان کمزور اور انسان کا قلب تا ریک ہو جا تا ہے اس بنا پر وہ اعما ل صا لحہ جو ایک مو من کے ذ ریعہ ا نجام پا تے ہیں با وجو دیکہ یہ اس کے ایمان سے کسب فیض کرتے ہیں مگر اس کی قوت ایمان اور ثا بت قدمی میں اضا فہ کر تے ہیں اور بہت سا رے نیک کا م کے لئے ر اہ ہمو ار کر تے
ہیں اور اس آیہ شر یفہ کے ذریعہ تکا مل ایمان میں عمل صا لح کی تا ثیر کو ظا ہر کیا جا سکتا ہے ۔
(اِلَیہِ یَصعَدُ الکَلِمُ الطَّیِّبُ وَ العَمَلُ الصّا لِحُ یَرفَعُہُ)(١)
پا کیز ہ کلما ت اور اچھے اعتقا دات اللہ کی طر ف بلند ہو تے ہیں اور عمل صا لح انھیں بلند کر تا
ہے (٢) اور اسی طر ح متعدد آیتوں میں نیک اعما ل انجام دینے وا لوں کے ایمان میں زیا دتی اور نور و ہد ا یت میں اضا فہ کو بیان کیا گیا ہے (٣) دوسری طر ف اگر مقتضا ئے ایمان کے سا تھ سا تھ مخا لف سبب اور محر ک وجود میں آجا ئے ،اور غیر منا سب عمل انجام دینے کا سبب بن جا ئے، اور اس شخص کا ایمان اتنا مستحکم نہ ہو جو اسے غیر شائستہ عمل سے روک سکے، تو اس کا ایمان کمزور ی کی طرف ما ئل ہو جا ئیگا، اور گنا ہ کے دو با رہ انجام دینے کا خدشہ پیدا ہو جا ئیگا اور اگر یہ حا لت اسی طر ح با قی ر ہ گئی تو اس کا نتیجہ یہ ہو گا ،کہ اصل ایمان کو زوا ل کی طر ف جا نے کا خطر ہ پیدا ہو جا ئے گا اور ( معاذاللہ ) اس کو کفر اور نفاق میں تبدیل کر دیگا، قر آن مجید، ان افراد کے با رے میں جو نفاق کا شکار ہو گئے ہیں فر ما تا ہے
……………………………
١۔ فاطر /١٠
٢۔ اس بنا پر کہ ضمیر فا علی، العمل الصا لح کی طرف اور ضمیر مفعولی الکلم الطیب کی طر ف پلٹتی ہے ۔
٣۔آل عمران ١٧٣، انفال ٢ ، تو بہ ٫ ١٢٤، کہف ١٣ ، مر یم ٧٦، احزا ب ٢٢، محمد ١٧، مد ثر ٣١،
(فَاعقَبَہُم نِفَا قًا فِ قُلُو بِہِم اِلیٰ یَومِ یَلقَونَہُ بِمَا اَخلَفُوا اللَّہَ مَا وَعَدُوہُ وَ بِمَا کَانُویَکذِ بُونَ )(١)
چو نکہ ان لو گوں نے خدا سے وعدہ خلا فی کی اور جھوٹ بو لے لہٰذا خد انے ان کے دلو ں میں نفا ق کو داخل کر دیا ہے اس دن تک جس دن یہ لو گ خدا سے ملا قا ت کر یں گے اور یہ ارشا د ہو رہا ہے
( ثُمَّ کَانَ عَاقِبَةَ الَّذِین أَسَائُ وا السُّوأَ یٰ اَن کَذَّبُوابا یَٰتِ اللّہِ وکَانُو بِہَا یَستَہزِؤُنَ)(٢ )اور اس وقت ان لو گو ں کا انجام جو بد ترین گنا ہو ں کا ارتکاب کر تے تھے یہ ہوا کہ انھوں نے خدا کی آیا ت کو جھٹلا یا اور اسکا مذا ق اڑا یا ۔اور اسی طر ح دوسری متعدد آیتوں میں گنہگا روں کے کفر اور تا ریکی قلب اور سنگ دلی میں اضا فہ کا ذکر کیا ہے (٣)
نتیجہ
ایمان اور عمل کے آپس کے رابطے کو دیکھتے ہو ئے اور انسان کی سعا دت میں ان دو نوں کے کردا ر کی طرف توجہ کر تے ہو ئے انسان کی سعاد تمندا نہ حیا ت کو ایک درخت سے تشبیہ دی جا سکتی ہے (٤) اس طر ح کہ خدا وند عالم کی وحدا نیت اور اس کے بھیجے ہو ئے رسولوں اور اسکے پیغاما ت اور روز قیامت پر ایمان رکھنا ،گو یا اس درخت کی جڑ کو تشکیل دیتا ہے اور ایمان کے لو ازما ت پر عمل کرنے کا فیصلہ اس کے تنہ کی حیثیت رکھتا ہے، کہ جو بغیر کسی واسطہ کے جڑ سے اگتا ہے اور وہ شا ئستہ اور منا سب
اعمال کہ جو ریشہ ایمان سے مترشح ہوتے ہیں اس کی شا خ و بر گ کی طرح ہیں، اورا بدی سعا دت اس درخت کا پھل ہے اگر جڑ کاوجود نہ ہو، تو تنہ اور شا خ و بر گ وجو د میں نہیں آسکتے، اور میو ہ بھی نہیں
…………………………
١۔ تو بہ ٧٧،
٢۔ روم ١٠ ،
٣۔ بقر ہ ١٠ ، آل عمران ٩٠ ، نسا ء ١٣٧، ما ئدہ ٦٨،تو بہ ٣٧ ،اسرا ء ٦٠ ، ٨٢، صف ٥ نو ح ٢٤،
٤۔ ر۔ک: ابرا ہیم ٢٤ ۔ ٢٧،
آسکتا ،لیکن ہر گز ایسا نہیں ہے جڑ کے وجود سے منا سب شا خ و بر گ اور بہترین پھلو ں کا ہو نا لازم ہے بلکہ کبھی کبھی ایسا ہو تا ہے، در خت فضا اور زمین کی نا ساز گا ری اور مختلف آفتوں کی وجہ سے مر جھا جاتے ہیں اور اس میں منا سب شا خ و بر گ نہیں اُگ پا تے اسی صورت میں وہ درخت نہ صرف یہ کہ خا طر خو اہ پھل نہیں دیتا بلکہ خشک ہو جا تا ہے اور بہت ممکن ہے اس درخت کی شا خ یا تنہ یا اسکی جڑوں میں قلم ( پیو ند ) لگا ئی جا تی ہے ان سے دوسرے آثا ر ظاہر ہو ں اور ممکن ہے اتفاقاًوہ پیو ند(قلم) کسی دوسرے در خت میں تبدیل ہو جا ئے اور یہ ایسا ہی ہے جیسے ایمان کفر میں تبدیل ہو جائے ۔
حصل کلام یہ ہے کہ ا یمان کو ایسے ا مور کے ذریعہ یاد کیا گیا ہے جو سعا دتِ انسانی کا ا صلی سبب ہے لیکن ا س سبب کا اثر اعما ل صا لحہ کے ذریعہ لا زم غذا ئوں کے مکمل جذ ب ہو جا نے پر مشر وط ( مو قو ف) ہے اور گنا ہوں سے پر ہیز کے ذریعہ اس کے نقصا ن دہ امور کو دو ر کر نے اور آفتو ں کو ختم کر نے پر مو قو ف ہے اور وا جبات کا تر ک کر نا اور محر ما ت کا ارتکا ب کر نا ایمان کی جڑو ں کو کمزو ر بنا تا ہے اور کبھی کبھی ایمان کے در خت کو خشک کر دیتا ہے جس طر ح غلط عقا ئد کے پیو ند، اس کی حقیقت میں تبدیلی کا با عث بن جا تے ہیں ۔
سو الا ت
١۔نیک اعما ل میں ایمان کا کیا اثر ہے ؟ وضا حت کیجئے ؟
٢۔ نیک اور برے اعما ل کا ایمان کی قوت اور کمزو ری میں کیا اثر ہے شر ح کیجئے؟
٣۔ ایمان اور عمل کے آپس کے روا بط اور ان دو نوں کا انسان کی سعا دت سے کیا را بطہ ہے بیان کیجئے ؟
|