اِکیاو نو اں درس
دنیا کا آخر ت سے مقابلہ
مقدمہ:
دنیا کا فنا ہوجا نا اور اخر ت کا ہمیشہ با قی رہنا
یہ گفتگو ذیل کے مو ضوعا ت پر مشتمل ہے
آخر ت میں نعمت اور عذا ب کے ما بین جد ائی
آخر ت کا اصل ہو نا
دنیا وی زندگی کو انتخا ب کر نے کا نتیجہ
مقد مہ:
ہم نے عالم آخر ت کے با رے میں عقل اور نقل ( آیا ت و روا یا ت ) کے ذریعہ جو معلو ما ت حا صل کی ہیں، اس کی رو شنی میں دنیا و آخر ت کے درمیا ن مختلف زا ویہ سے تقا بل کر سکتے ہیں، خو ش قسمتی سے یہ تقا بل ( مو ازنہ ) خو د قر آن مجید کے اندر مو جو د ہے اور ہم قرآ نی بیانا ت کے ذریعہ دنیا و آخر ت کو صحیح طر یقہ سے تصو ر کر سکتے ہیں ۔
دنیا کا فا نی ہو نا اور آخر ت کا ابدی ہو نا ( ہمیشہ با قی رہنا )
دنیا وآخرت کے درمیان سب سے پہلا اور وا ضح تر ین اختلا ف دنیا وی زندگی کا محدود ہو نا اور اخر وی زندگی کا ہمیشہ با قی رہنا ہے ،ہر انسان کی عمر کے لئے اس دنیا میں ایک حد معین ہے کہ حد تک ہر ایک کو جلد یا د یر پہنچنا ہے حتیٰ کہ اگر کو ئی شخص سیکڑوں یا ہزا روں سا ل بھی اس دنیا میں زندگی بسر کرلے با لا خر اس کو ایک روز اس ما دی عالم کے تغیر کے سا تھکہ جب پہلا صو ر پھو نکا جا ئے گا ختم ہو جا نا ہے، جیسا کہ گذشتہ درس میں بیان کیا جا چکا ہے ۔
دوسری طر ف قر آن مجید کی تقریباً،اسی،آیتیں آخر ت کے ابدی ہو نے پر دلا لت کرتی ہیں (١) اور ظا ہر ہے کہ محدود چا ہے جس قدر بھی طو لا نی مدت ہو لا محد ود سے مقابلہ نہیں کر سکتا، صرف عالم آخر ت بقا اور دو ام کے لحا ظ سے دنیا کے اوپر عظیم فضیلت کا حا مل ہے اور یہ ایسا مطلب ہے جو مختلف آیتوں میں آخر ت کو ( ابقیٰ) (٢)اور دنیا وی زندگی کو ( قلیل ) (٣) کے لفظ سے تعبیر کیا ہے اور دوسری آیتوں میں دنیا وی زندگی کو اس سبزہ سے تشبیہ دی گئی ہے جو چند روز سر سبز و شا داب رہنے کے بعد زردی کی طر ف ما ئل ہو تا ہے اور پھر (پژمردگی) کملا ہٹ شروع ہو جا تی ہے اور آخرت میں با لکل خشک ہو کر ختم ہو جا تا ہے (٤) اور خدا وند عالم ایک آیت میں کلی طور سے ارشا د فر ما تا ہے کہ صرف وہ شی جو خدا کے نزدیک ہے ہمیشہ با قی رہنے والی ہے (٥)
آخرت میں نعمت اور عذا ب کے ما بین جد ائی
دنیا اور آخر ت کی زندگی میں ایک دوسر ا بنیا دی فر ق یہ ہے کہ دنیا کی زندگی اور اسکی تمام خو شیا ں رنج و مشکلا ت کے سا تھ ملی جلی ہیں اور ایسا ہر گز نہیں ہے کہ کچھ لو گ ہمیشہ ہر لحا ظ سے خو شحا ل ،بے فکر ،اور آسو دہ خا طر ہو ں گے اور کچھ افراد ہمیشہ عذا ب اور پر یشا نیوں میں مبتلا ہو ں گے اور غم و مصیبت سے ود چا ر ہو ںگے بلکہ تقریباً سا رے لو گ ہر طر ح کی خوشیو ں، لذتو ں اور عیش وآرام سے ما لا مال بھی ہیں اورسا تھ ہی سا تھ رنج و مصیبت اور غم و غصہ سے بھی دست و گر یباں ہیں ۔
…………………………
١۔ بہشت میں دو زخ کی جا ودا نی اور خلود سے متعلق آیتوں کی طر ف رجوع کریں
٢۔ کہف ٤٦ ، مر یم ٧٦، طہٰ ٧٣،١٣١، قصص ٦٠ ، شوریٰ ٣٦، غا فر ٣٩، اعلیٰ ١٧
٣۔ آل عمران ١٩٧، نساء ٧٧، تو بہ ٣٨ نمل ١١٧،
٤۔یو نس ٢٤، کہف ٤٥،٤٦ حدید ٢٠، نمل ٩٦،
٥۔ آل عمران ١٥ ، نساء ٧٧، انعام ٣٢، اعراف ٣٢ یو سف ١٠٩ ، نحل ٣٠ ، کہف ٤٦، مر یم ٧٦، طہٰ ٧٣، ١٣١ ، قصص ٦٠ ، شو ریٰ ٣٦، اعلٰی ١٧،
لیکن عالم آخر ت کے دو الگ الگ حصے ( جنت و جہنم ) پا ئے جا تے ہیں، جس میں سے پہلا حصہ وہ ہے کہ جس میں کسی قسم کی کو ئی پریشا نی عذا ب ،خو ف اور غم کا شا ئبہ بھی نہیں پا یا جا تا، جب کہ دوسرے حصے میں آگ ،درد مصیبت ،حیرت و یاس اور غم کے علا وہ کچھ اور ہا تھ آنے والا نہیں ہے کہ جو دنیا وی لذت کا اثر ہے ۔
یہ تقابل بھی خو د قر آن مجید کے اندر پا یا جا تا ہے اور آخرت کی نعمتوں اور تقرب پر ورد گا ر کی بر تری کو دنیا وی نعمتوں کے او پر صا ف لفظو ں میں بیان کیا گیا ہے (١) جس طر ح آخر ت کے عذا ب کو دنیا وی مشکلا ت اور مصیبتوں سے سخت تر بیان کیا گیا ہے (٢)
آخرت کا اصل ہو نا ۔
دنیا و آخر ت کے در میان ایک اہم فر ق یہ ہے کہ دنیا وی زندگی آخر ت کے لئے مقد مہ ہے اور ابدی سعا دت کو حا صل کر نے کا ذریعہ ہے اور آخر ت کی زندگی آخری اور اصل زندگی ہے، اگر چہ دنیو ی حیا ت اور اس کی ما دی و معنوی نعمتیں انسان کو بہت پسند ہیں ،لیکن اس کے با وجود کہ یہ ساری نعمتیں صر ف امتحا ن کا ذریعہ ہیں اور حقیقی نشو و نما اور ترقی نیزابدی سعادت کو حا صل کر نے کے لئے ایک وسیلہ ہے لہٰذا اصل نہیں ہو سکتی اور اس کی وا قعی قدر و قیمت ایک زاد راہ اور توشہ کی سی ہے جو انسان اپنی ا بدی زندگی کے لئے آما دہ کر تا ہے (٣)اس لئے اگر کو ئی شخص آخرت کو فرا موش کر کے دنیا کے حسن وجما ل میں گر فتار ہو جا ئے، اوراس کی لذتو ں کو اپنا آخری مقصد سمجھ بیٹھے تو گو یا وہ اس کی واقعی قدر و قیمت کو نہیں پہچا ن سکا ،اور اس کے لئے فر ضی اہمیت کا قا ئل ہو گیا کیو نکہ اس نے وسیلہ کو
………………………………
١۔ آل عمران ١٥، نساء ٧٧، انعام ٣٢، اعراف ٣٢، یو سف ١٠٩، نحل ٣٠، کہف ٤٦ ، مر یم ٧٦ ، طہٰ ٧٣ ، ١٣١، قصص٦٠ ، شو ریٰ ٣٦، اعلیٰ ١٧ ،
٢۔ رعد ٣٤، طہٰ ١٢٧، سجدہ ٢١، زمر ٢٦ ، فصلت ١٦ ، قلم ٣٣ ، غا شیہ ٢٤،
٣۔ قصص ٧٧
مقصد سمجھ لیا ہے اگر ایسا ہے تو سوا ئے فریب اور کھیل اور مشغو لیت کے اور کچھ نہیں ہے، اسے لئے قر آن مجید نے دنیا کی زندگی کو کھیل مشغو لیت اور وسیلہ فر یب کے نا م سے یا د کیا ہے (١) اور آخر ت کی زندگی کو ایک حقیقی حیا ت جا نا ہے (٢) لیکن توجہ کا مقام ہے کہ وہ تما م مذ متیں جو دنیا کے سلسلے میں بیان کی گئی ہیں و ہ دنیا طلب انسا نوں اور ا س کو ھدف و مقصد بنا کے زندگی گذا ر نے وا لوں سے متعلق ہیں، ور نہ زندگانی دنیا خدا کے اُن نیک بندوں کے لئے جو اس کی حقیقت کو پہچا نتے ہیں، اور اس کو ایک وسیلہ کی حثیت سے دیکھتے ہیں ،اور اپنی زند گی کے تمام لمحا ت، ابدی سعا دت کے حصول میں صرف کرتے ہیں نہ صرف یہ کہ ان کی مذمت نہیں کی گئی بلکہ وہ غیر معمو لی قدر و قیمت کے ما لک ہیں ۔
دنیا وی زندگی کو انتخا ب کر نے کا نتیجہ ۔
عالم آخر ت کی فضیلت اور غیر قا بل تو صیف بہشتی نعمتوں اور خدا کی مرضی و خوشنودی کو دنیا وی لذتو ں کے اُ وپر ترجیح دینے میں کسی بھی شک و شبہ کی گنجا ئش نہیں ہے لہذا دنیا وی زندگی کو انتخا ب کر نا، اور اس کو آخر ت کے اُوپر تر جیح دینا، ایک غیر حکیما نہ اقدا م ہے (٣) کہ جس کا نتیجہ حسرت اور شر مندگی کے علاوہ کچھ اور نہیں ہے لہذا اس کو انتخا ب کرنااور اس کی لذتو ں پر دل و جان سے قر با ن ہو جا نا نہ یہ کہ صرف ابدی سعا دت سے محر و می کا سبب ہے بلکہ ہمیشہ کی بد بختی کا بہت بڑا ذریعہ بھی ہے ۔
وضا حت ۔
یہ کہ اگر انسان، ابدی سعادت کے بجا ئے دنیا کی جلد گذر جا نے وا لی لذ تو ں کا انتخا ب کرے اس طر ح کہ اس کی اخر وی زندگی کا کو ئی نقصا ن نہ ہو تو ایسا اقدا م اخر وی سعا دت کے غیر
………………………………
١۔ آل عمران ١٨٥، عنکبو ت ٦٤، محمد ٣٦، حدید ٢٠ ،
٢۔ عنکبوت ٦٤، فجر ٢٤،
٣۔ اعلیٰ ١٦ ، فجر ٢٤ ، ھو د ٢٢، کہف ١٠٤ ، ١٠٥ ، نمل ،٤،٥
معمو لی رجحا ن کو دیکھتے ہو ئے ایک غیر عا قلا نہ کا م ہے لیکن کیا کیا جا ئے کہ کسی کو بھی عا لم ابد یت سے مفر نہیں ہے اور وہ کہ جس نے اپنی سا ری قوّ توں کو دنیا کی زندگی کے اُوپر صرف کر د ے اور عالم آخر ت کو بھلا بیٹھے یا با لکل سرے سے اس کا انکا ر کر دے تونہ صرف یہ ہے کہ بہشتی نعمتوں سے محروم ہو گیا بلکہ ہمیشہ کے لئے جہنم کے عذاب میں گرفتار ہو جائے گا ،اور اُس کا دوگنا نقصان ہو گا(١) اسی لئے قرآن مجید ایک طرف تو آخرت کی نعمتوں کی بر تری اور فضیلت کو گوش گذار اور ہو شیا ر کر رہا ہے کہ خبر دار کہیں ایسا نہ ہو کہ دنیاوی زندگی تم کو دھو کا دیدے (٢) اور دوسری طرف دنیا سے قلبی لگا ئو اور آخر ت کو بھو ل جا نے ،جہا ن ابدی سے انکا ر یا اس کے با رے میں شک و شبہ کے نقصا نا ت کو گنوا ر ہا ہے اور اس بات کی تا کید کر رہا ہے کہ ایسے امور ہمیشہ کی شقا وت اور بد بختی کا سبب ہیں اور ایسا بھی نہیں ہے کہ دنیا کو تر جیح دینے وا لا صر ف آخر ت کی جزا سے محر وم رہے گا بلکہ ہمیشہ کی سزا اُس کا مقدر بن جا ئے گی (٣)اور اس کا راز و سبب یہ ہے کہ دنیا پر ست انسان نے خدا کی دی ہو ئی صلا حیتو ں کو ضا ئع کر دیا اور وہ درخت جو ابدی سعادت کا پھل دینے والا تھا اسکو خشک و بے پھل کر دیا ،اور اس نے حقیقی نعمت عطا کرنے والے (خدا) کے حق کا لحاظ نہیں کیا ،اور اس کی دی ہو ئی نعمتوں کو اسکی مر ضی کے خلا ف استعما ل کیا اور ایسا شخص جب اپنے بر ُے انتخا ب کے نتیجے کو دیکھے گا تو یہ آرزو کر ے گا کہ اے کا ش میں مٹی ہو جاتا ، اور ایسی بر ی عا قبت میں مبتلا نہ ہو تا (٤)
…………………………
١۔ ھود / ٢٢، کھف /١٠٢ - ١٠٥، نمل/ ٤-٥
٢۔ بقرہ ١٠٢ ،٢٠٠ ،تو بہ ٣٨ ، روم ٣٣ فا طر ٥، شو ریٰ ٢٠ ، زخر ف ٣٤، ٣٥،
٣۔ اسراء ١٠ ، بقرہ ٨٦ ، انعام ١٣٠ ، یو نس ٧ ،٨،ھو د ١٥ ،١٦ ، ابراہیم ٣، نحل ٢٢، ١٠٧، مو منون ٧٤، نمل ٤،٥،٦٦ روم ٧،١٦، لقمان ٤ ،سبا ٨،٢١، زمر ٤٥، فصلت ٧، نا زعا ت ٣٨،٣٩،
٤۔ نبا ٤٠،
سو الا ت:
١۔دنیا و آخر ت کے در میان کیا فر ق ہے ؟
٢۔دنیا کی مذمت کیوں کی گئی ہے ؟وضا حت کیجئے ؟
٣۔دنیا سے لگا ئو کے کیا نقصا نا ت ہیں ؟
٤۔ آخرت پر ایما ن نہ رکھنا ابدی عذا ب کا سبب کیوں ہے؟
|