درس عقائد
 

انچاسواں درس
موت سے قیامت تک
مقدمہ:
ہر ایک کو موت آنی ہے
روح قبض کرنے والا
یہ موضوعات مندرجہ ذیل کی پر مشتمل ہیں
قبض روح آسان ہے یا سخت
موت کے وقت ایمان اور تو بہ کا قبول نہ ہونا
دنیا میں واپسی کی آرزو
عالم برزخ

مقدمہ:
ہمیں معلوم ہو چکا کہ ہم اس محدود علم کے ذریعہ آخرت اور مطلق عالم غیب کی حقیقت اور اس کی گہرائی تک نہیں پہنچ سکتے بلکہ ہم صرف عقلی براہین سے حاصل ہونے والے کلی مسائل اور وحی و روایات سے اخذ ہونے والی بعض خصو صیات کے ذکر پر اکتفا کریں گے ،اگرچہ ممکن ہے کہ قرآن مجید میں عالم آخرت کی توصیف میں ذکر شدہ بعض الفاظ متشابہ ہوں اور ان کو سننے کے بعد جو تصورات ہمارے ذہن میں پیدا ہوتے ہیں، شاید وہ واقعی مصداق کے مطابق نہ ہوں اور یہ خطا ہمارے قاصر ذہن کی ہے نہ بیان کی، کیونکہ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ قرآن کریم نے ہمارے ذہنی ساخت وسازکے لحاظ سے بہترین الفاظ کا انتخاب کیا ہے جو حقائق کو کما حقہ بیان کرتے ہیں۔
اور چونکہ قرآن کریم کا بیان آخرت کے مقدمات کو بھی شامل ہے لہذا اپنے کلام کاآغاز بھی انسان کی موت سے کرتے ہیں۔

ہر ایک کو موت آنی ہے۔
قرآن مجید اس بات پر بہت تاکید کرتا ہے کہ تمام انسان بلکہ تمام(ذی روح)کو ایک نہ ایک دن ضرور مرنا ہے اور کوئی بھی اس دنیا میں ہمیشہ زندہ رہنے والا نہیں ہے،(کل من علیہا فان)(١)جو بھی روئے زمین پر ہے سب فنا ہو جانے والا ہے۔
(کُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوتِ)(٢)
ہر ایک کو موت کا مزہ چکھنا ہے،
(اِنَّکَ مَےِّت وَ اِنَّہُمْ مَےِّتُونَ)(٣)
بے شک تم بھی مرو گے اور یہ لوگ بھی مریںگے۔
(وَماَجَعَلْناَ لِبَشَرٍمِنْ قَبْلِکَ اَلْخُلْدَ أَفَاِ ینْ مِتَّ فَہُمُ اَلْخالِدُونَ )(٤)
اور ہم نے آپ سے پہلے بھی بشر کے لئے ہمیشگی نہیں قراردی تو کیا اگر آپ مر جائیں تو یہ لوگ ہمشہ باقی رہیں گے ۔
نتیجتاً موت ایک قانون کلی اور ناقابل انکار حقیقت ہے جس سے کسی شی کو بھی فرار نہیں ہے۔

روح قبض کرنے والا:
قرآن مجید ایک طرف تو قبض روح کی نسبت خداوند عالم کی طرف دیتا ہے ،اور فرماتا ہے :
( اَللّٰہُ ےَتَوَفیّٰ اَلْاَنْفُسَ حَینَ مَو ِتھَا )(٥)خدا موت کے وقت روح قبض کرتا ہے۔
……………………………
١۔ رحمٰن ۔ آیت ٢٦
٢۔ آل عمران ۔ آیت ١٨٥۔ انبیا ء ۔آیت ٣٥
٣۔زمر۔آیت٣٠
٤۔انبیا ئ۔آیت٣٤
٥۔زمر۔آیت٤٢
اور دوسری طرف ملک الموت کو قبض روح پر مامور بتاتا ہے۔
(قُلْ ےَتَوَفٰاکُمْ مَلَکُ اَلْمَوْتِ اَلَّذِی وُکِّلَ بِکُم)(١)
آپ کہدیجئے کہ تم کو وہ ملک الموت زندگی کی آخری منزل تک پہنچائے گا جو تم پر تعینات کیا گیا ہے۔
اور ایک دوسرے مقام پر قبض روح کو فرشتوں اور رسولوں کی طرف نسبت دی ہے،
(حَتّیٰ اِذَا جَائَ أَحَدَ کُمُ اَلْمَوْتُ تَوَفَّتْہُ رُسُلَنَا)(٢)
یہاں تک کہ جب کسی کی موت کا وقت آجاتا ہے تو ہمارے بھیجے ہوئے نمائندے اُسے اٹھا لیتے ہیں۔
اور یہ واضح چیز ہے کہ جب فاعل اپنے کسی کام کو دوسرے فاعل کے ذریعہ انجام دے تو اس فعل کی نسبت دونوں کی طرف صحیح ہے اور اگر دوسرا فاعل کسی تیسرے شخص کے وسیلے سے کام انجام دے تو یہ تیسرا شخص بھی اس میں شامل ہوجاتا ہے ،پس چونکہ خداوند عالم، ملک الموت کی روح قبض کرتا ہے اور ملک المو ت بھی اپنی ما تحت فر شتوں کے ذریعے قبض رو ح کر تا ہے لہٰذا قبض ِروح کی نسبت تینوں کیطرف دینا صحیح ہے ۔

قبض روح آسان ہے یاسخت؟
قر آن مجید سے یہ با ت معلو م ہو تی ہے کہ مو ت کے فر شتے سا رے انسانوں کی رو ح کو ایک طر یقہ سے قبض نہیں کر تے، بلکہ بعض افرا د کی روح نہا یت آسا نی اور احترام کے سا تھ اور بعض افراد کی نہا یت ہی سختی اور اہا نت کے سا تھ قبض کر تے ہیں، اس دعوے کی شا ہد مثا ل یہ آیہ شر یفہ ہے (اَلّذِیْنَ تَتَوَفَّا ہُمُ الْمَلَا ئِکَةُ طَیّبِینَ یَقُولُونَ سَلَام عَلَیْکُمْ )(٣) جنھیں ملا ئکہ اس عالم میں اٹھا تے ہیں کہ وہ پا ک و پا کیزہ ہو تے ہیں اور ان سے ملا ئکہ کہتے ہیں کہ تم پر سلا م ہو ۔
…………………………………
١۔سجدہ۔آیت ١١
٢۔انعام ۔آیت٦١
٣۔ نحل۔آیت ٣٢ ۔انعام۔آیت ٩٣
اور کا فر وں کے با رے میں یو ں ارشا دہوا:(وَلَو تَرَیٰ اِذْ یَتَوَفیٰ الّذِیْنَ کَفَرُوْا المَلََا ئِکَةُ یَضْرِ بُوْنَ وُ جُوْہَہُمْ وَ اَدْبَاْ رَہُمْ )(١) کاش تم دیکھتے جب فر شتے ان کی جان نکا ل رہے تھے اور انکے رخ اور پشت پر ما ررہے تھے، اور یہ بھی ممکن ہے کہ مو منین اور کفار کے در میان ان کے ایما ن اور کفر کے در جا ت کے اعتبا ر سے قبض روح کے بھی در جا ت اور طبقا ت ہوں۔

مو ت کے وقت ایما ن اور تو بہ کا قبول نہ ہو نا
کفار اور گناہگا ر، افراد جب اپنی مو ت کو سامنے دیکھتے ہیں اور اپنی نیوی زندگی سے ما یو س ہو جا تے ہیں تو اپنے گذشتہ اعمال و کر دا ر پر نا دم و پشیما ن ہو جا تے ہیں اور اپنے ایما ن اور تو بہ کا اظہا ر کر نے لگتے ہیں اگر چہ اس وقت یہ دو نوں ہی چیزیں ان کے لئے عبث و بیکا ر ہیں :
اُس دن جب خدا کی کھلی آیا ت ظا ہر ہوں گی تو اس شخص کا ایمان جو پہلے نہیں لا یا یا اُس نے اپنے ایمان کے دوران کو ئی کا ر خیر انجام نہیں دیا تو اُس کا ایمان اسے کو ئی فا ئدہ نہیں پہنچا ئے گا:
(وَ لَیسَتِ التَوبَةُ لِلَّذینَ یعَمَلُونَ السِّیاٰتِ حتَّی اِذا حَضَرَ اَحَدَہُمُ الموتُ قَالَ اِنِّ تُبْتُ الآنَ…)(٣)
اور توبہ ان لو گوں کے لئے نہیں ہے جو پہلے بر ائیاں کر تے ہیں اور پھر جب مو ت سا منے نظر آ تی ہے تو کہتے ہیں ،کہ اب ہم نے تو بہ کر لی ہے ۔
……………………………
١۔ انفال ۔آیت ٥٠ ۔ محمد۔آیت ٢٧
٢۔انعام ۔آیت٥٨ ١۔اورصبا۔آیت ٥١ ،٥٣،غا فر۔آیت ٨٥ ،سجدہ۔آیت ٢٩
٣۔ نسائ۔آیت ١٨
اور فر عون کے قو ل کو نقل کر رہا ہے جب وہ غرق ہو رہا تھا تو اس نے کہا
(آمَنت اَنَّہ لا اِلٰہ اِلّاالّذِ آمَنَت بِہِ بَنُو اِسرا ئیلَ وَ اَنَا مِنَ المُسلِمینَ)١)
میں ایمان لا یا اس پر کہ کوئی خدا نہیں ہے سو ائے اس خدا کے جس پر بنی اسرا ئیل ایمان لائے ہیںاور میں اہل اسلا م میں سے ہوں ،اس کے جو اب میں ارشاد ہو رہا ہے ۔
(ألَآن وَ عَصَیْتَ قَبْلُ وَ کُنْتَ مِنَ المُفسِدِینَ )(٢)
اب (مرنے کے وقت ایمان لا تا ہے ) حا لا نکہ تو اس سے پہلے نا فر مانی کر چکا اور تو تو فسا د بر پا کرنے والوںمیں سے تھا ۔

دنیا میں واپسی کی آرزو۔
اسی طر ح قر آن کر یم کفار اور گنہگا ر وں کے متعلق نقل کر تا ہے کہ جب مو ت کے با دل ان کے سر پر منڈلا نے لگتے ہیںاور عذا ب و ہلا کت کا سایہ ان کی آنکھوں کے سا منے چھا جاتا ہے ، تب وہ آرزو کرتے ہیں کہ کا ش ہم دنیا میں واپس چلے جا تے ،اور اعمال صا لحہ انجام دیتے، اور اہل ایمان میں سے ہو جاتے ،یا پر وردگار سے التجا کرتے ہیں کہ ہمیں دنیا میں واپس کر دے، تا کہ وہ تلافی مافات کرلیں لیکن ان کی یہ تمنا ئیں کبھی بھی پو ری ہو نے والی نہیں ہیں (٣)
……………………………
١۔ یو نس۔آیت ٩٠
٢۔یونس۔آیت٩١
٣۔ جا ن لینا چا ہیے کہ قر آن کر یم ان لو گو ں کے پلٹنے کی آرزوؤ ں اور تمنا وں کا انکا ر کر تا ہے جن کی سا ری زندگی گنا ہ اور معصیت میں بیت چکی ہو اور مو ت کے وقت دنیا میں واپسی کی تمنا رکھتے ہو ں تا کہ اپنے گنا ہو ں کی تلافی کر سکیں لیکن قیا مت سے واپسی کی قطعاً نفی کر تا ہے وہ اس معنی میں نہیں ہے کہ دنیا کسی طر ح واپسی ممکن نہیں ہے کیو نکہ ایسے افراد بھی تھے جو مو ت کے بعد دوبا رہ اسی دنیا میں زندہ ہو چکے ہیں اور شیعو ں کے عقیدہ کے مطا بق حضرت مہدی عج کے ظہور کے بعد کچھ لو گو ں کی رجعت ہو گی ۔
بعض آیا ت میں اس بات کی طر ف اشا رہ ہو تا ہے کہ اگر انھیں واپس بھی کر دیا جاتا تو وہ بھی وہی فعل انجام دیتے جو پہلے انجام دیا کرتے تھے (١)
اور روز قیا مت بھی ان کی یہی آرزو اور تمنا ئیں ہو نگی جو بدرجہ اولی قا بل قبو ل نہ ہو ں گی:
(حَتیٰ اِذَاْ جَاْ ئَ أَحَدَ ہُمُ الْمَوتُ قَالَ ربِّ ارجِعوُنِ٭ لَعلَّ اَعْمَلُ صَالحاً فِیمَا تَرَکتُ کَلَّا اِنَّہَا کَلِمَة ہُوَ قَائِلُہَا… )(٢)
یہا ں تک کہ جب ان میںسے کسی کو موت آئی تو کہنے لگے پر ور دگا ر ا :تو مجھے ایک بار اس ( دنیا) کو جسے میں چھوڑ آیا ہو ں پھر واپس کر دے ،تا کہ میں اس مر تبہ اچھے اچھے کام کروں ( جو اب دیا
جا ئیگا ) ہر گز نہیں یہ ایک لغو با ت ہے جسے وہ بک رہا ہے ۔
(أوتَقُولَ حِیْنَ تَرَ یٰ العذابَ لَوْ أَنّ لِ کَرَّةً فَاَ کُونَ مِنَ المُحسَنِینَ)(٣)
یا جب وہ عذا ب کو دیکھیںگے تو کہیں گے کا ش پلٹا دیئے جاتے تو نیک بند وں میں سے ہو جاتے (اِذْ وُقِفُوْا عَلیٰ النارِ فَقَا لُوْا یَاْ لَیْتَنَا نُرَدُّ وَ لَا نُکَذِّبَ بِا یَاْ تِ رَبِّنَا وَ نَکُونَ مِنَ الْمُؤمِنِینَ )(٤)
( اے رسول ۖ اگر تم اِن لو گو ں کو اُس وقت دیکھتے تو تعجب کر تے ) کہ جب جہنم کے کنا رے پر لا کر کھڑ ے کئے جا ئیں گے تو اُسے دیکھ کر کہیں گے اے کا ش ہم دنیا میں دو با رہ لو ٹا دئے جا تے اور اپنے پ ر ور دگا ر کی آیتوں کو نہ جھٹلا تے اور ہم مو منین میںسے ہو تے ۔
……………………………
١۔ انعام۔آیت ٢٧۔٢٨
٢۔ مو منون ۔آیت ٩٩ ۔١٠٠
٣۔زمر ۔آیت ٥٨، نیز شعراء ۔آیت ١٠٢
٤۔ انعام۔آیت ٢٧ ۔ ٢٨ نیز اعراف۔آیت ٣٥
( اِذِ الْمُجْرِمُوْ نَ نَا کِسُوا رُئُ و سِہِم عِنْدَ رَبِّہِم رَبّنَا اَبْصَرناَ وَ سَمِعْنَا فارجِعنَا نَعمَلُ صالِحاً اِنَّا مُو قِنُونَ )(١)
اور جب مجر مین حسا ب کے وقت اپنے پر ور دگا کی با رگا ہ میں اپنے سر جھکا ئے کھڑ ے ہو ں گے اور عرض کر رہے ہو ں گے کہ پر ور دگا ر ہم نے اچھی طر ح دیکھ لیا ہے اور سن لیا ہے تو ہمیں دنیا میں ایک با ر پھر لوٹا دے، تا کہ ہم نیک کا م کریں، اب تو ہم کو قیا مت کا پو را پورا یقین ہے ۔
ان آیا ت سے یہ صا ف ظاہر ہو تا ہے کہ قیا مت اعمال و انتخا ب کی جگہ نہیں یہا ں تک کہ وہ یقین جو دم مرگ یا آخر ت میں حاصل ہوگا انسان کے تکامل( بتدریج کامل تک پہنچنے) کیلئے فائدہ بخش نہیں ہوگا،اورانعام کا مستحق نہیں قرار پائے،اسی لئے کفار اور گنہگار اس دنیا میں واپسی کی آرزو کریں گے تاکہ اس دنیا میں پلٹ آئیں اور اپنے اختیار سے ایمان لائیں اور عمل صالح انجام دیں۔

عالم برزخ۔
قرآنی آیات سے استفادہ ہوتا ہے کہ موت اور قیامت کے درمیان فاصلہ کو برزخ کہا جاتا ہے جو انسان موت کے بعد اور قیامت سے پہلے قبر میں گذارتا ہے کہ جس میںتھوڑا بہت رنج و مصیبت اور خوشی ومسرت کا بھی سامنا ہوتا ہے،بعض روایات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ گنہگار مومنین اس دوران بعض رنج وعذاب میں مبتلا ہونے کے ذریعہ پاک کردئے جائیں گے،اور ان کا بوجھ ہلکا ہو جائے گا۔
چونکہ برزخ سے مربوط آیات تفسیر طلب ہیں لہذا ان سے صرف نظر کرتے ہو ئے صرف ایک آیہ شریفہ پر اکتفا کرتے ہیں۔وَمِن وَرائِہِم بَرزَخ اِلیٰ ےَومِ ےُبعَثُونَ(٢)اور ان کے بعد (ان کی موت کے بعد)ایک برزخ ہے جب تک کہ اٹھا نہ لئے جائیں۔
…………………………………
١۔ سجدہ ١٢ ،نیز فا طر ٣٧ ،
٢۔ مو منون ١٠٠

سوالات:
١۔ اس دنیا میں انسان کے ہمیشہ نہ رہنے کو قرآ نی آیات سے واضح و روشن کیجئے ؟
٢۔انسان کی روح کون قبض کرتا ہے مربوط آیتوں کے درمیان جو اختلاف ہے اسے پیش کیجئے ؟
٣۔روحوں کے قبض کرنے کے سلسلے میں کیا فرق ہے؟
٤۔مرتے دم ایمان اور توبہ کے بارے میں قرآنی بیان کو مع آیات کے وضاحت کیجئے؟
٥۔قرآن کریم، دنیا میں کس طرح کی واپسی کا انکار کررہا ہے؟آیا اس واپسی کا انکار رجعت کے عقیدے کے منافی ہے؟
٦۔عالم برزخ کی شرح کیجئے؟