درس عقائد
 

پینتالیسواں درس
قرآن میں قیامت کا تذکرہ
مقدمہ
قیامت کا انکار بے دلیل ہے۔
قیامت کے مانند دوسرے حوادث۔
یہ بحث مندرجہ ذیل موضوعات پر مشتمل ہے۔
سبزوں کا اُگنا۔
اصحاب کہف کا سونا۔
حیوانوں کا زندہ ہونا۔
بعض انسانوں کا زندہ ہونا۔

مقدمہ:
قرآن مجید میں قیامت کو ثابت کرنے یا منکرین قیامت سے احتجاج کرنے کے متعلق جو آیتیں موجود ہیں، ان کو پانچ حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔
١۔وہ آیتیں جو اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ منکرین قیامت کے پاس قیامت کے انکار کے اوپرکوئی دلیل نہیںہے یعنی ان کے پاس انکار قیامت کے لئے کوئی دلیل موجود نہیں ہے۔
٢۔وہ آیاتِ کریمہ جو قیامت کے مانند رو نما ہونے والے دوسرے حوادث کی طرف اشارہ کرتی ہیں تاکہ لوگوں کو یہ معلوم ہو جائے کہ قیامت کا واقع ہونا بعید از قیاس نہیں ہے
٣۔وہ آیات جو قیامت کے منکرین کے شبہات کو رد اور اس کے واقع ہونے کو ثابت کرتی ہیں۔
٤۔وہ آیتیںجو اس بات کی طرف اشارہ کرتی کہ قیامت خدا کا ایک حتمی اور سچاّوعدہ ہے جس میں تبدیلی نہیں آسکتی،اور در حقیقت قیامت کے برپا ہونے کو سچّے خبر دینے والے کی خبر کے ذریعہ ثابت کرتی ہیں۔
٥۔وہ آیات شریفہ جو قیامت کی ضرورت پر عقلی دلیلوں کی طرف اشارہ کرتی ہیں،در حقیقت آیاتِ کریمہ کے ابتدائی تین گروہ امکانِ وقوع قیامت سے متعلق ہیں اور دوسرے دو گروہ قیامت کی ضرورت سے متعلق ہیں ۔

قیامت کا انکار بے دلیل ہے۔
قرآن مجید نے باطل عقائد رکھنے والوں کے مقابل میں احتجاج کی جو روش اپنائی ہے وہ یہ ہے کہ ان سے دلیل کا مطالبہ کیا ہے تاکہ یہ ظاہر اور واضح ہو جائے کہ ان کے فاسد اور باطل عقائد عقل و منطق کی بنیاد پر نہیں ہیں ،چنانچہ کئی آیتوں میں یہ ارشاد ہوتا ہے کہ۔
(قُلْ ھٰاتُوْا بُرْھٰانَکُمْ اِنْ کُنْتُمْ صٰادِقِینَ)ْ(١)
اے پیغمبر !ان سے کہدیجئے کہ اگر تم سچے ہو تو دلیل لے کر آئو اور اسی کے مانند دوسرے مقامات پر بھی اسی لب و لہجہ میں ارشاد ہوا کہ ایسے غلط عقیدہ رکھنے والے کسی واقعی اور دلیل کے ذریعہ ثابت چیز پر عقیدہ نہیں رکھتے ،بلکہ بے دلیل وہم وگمان اور غیر واقعی خیالات پر ہی اکتفا کرتے ہیں(٢) منکرین قیامت کے متعلق فرماتا ہے۔
(وَقٰالُواْ مٰا ہَِ اِلاَّحَےٰاتُنَا اَلْدُنْےَا نَمُوْتُ وَنَحٰی وَمَا ےُہْلِکُنَا اِلاَّ اَلدَّہْرْ وَمَا لَہُمْ بِذٰلِکَ مِنْ عِلْمِِِ اِنْ ہُمْ اِلاَّ ےَظُنُّونَ)(٣)
اور یہ لوگ کہتے ہیں، کہ یہ صرف زندگانی دنیا ہے اسی میں مرتے ہیں اور جیتے ہیں اور زمانہ ہی ہم کو ہلاک کردیتا ہے اور انہیں اس بات کا کوئی علم نہیں ہے کہ یہ صرف ان کے خیالات ہیں اور بس۔
اور اسی طرح دوسری آیات ِشریفہ میں بھی اسی نکتہ کی طرف اشارہ ہوا ہے کہ قیامت کا انکار صرف وہم وگمان اور بغیر کسی دلیل وبرہان کے ہے(٤)اگرچہ ممکن ہے کہ اگر یہ بے دلیل مدعیٰ خواہشات اور ہوا پرستی کا پیش خیمہ بن جائے تو ہوا پرست افراد سے قبول کرلیں گے،(٥)
…………………………
١۔ بقر ہ ۔آیت ١١١ ،انبیا ئ۔ آیت ٢٤ ، نمل۔ آیت ٦٤
٢۔ مو منون ١١٧، نساء ١٥٧ ، انعام ١٠٠ ،١١٩ ،١٤٨ ، کہف ٥ ،حج ٣،٨،٧١ ، عنکبوت ٨،روم ٢٩ ،لقما ن ٢٠، غا فر ٤٢ زخرف ٢٠ نجم ٢٨ ،
٣۔چاثیہ ٢٤، ٤ ۔ قصص ٣٩ ، کہف ٣٦ ،ص ٢٧ جا ثیہ ٣٢ ، انشقاق ١٤، ٥ ۔قیا مت ٥
لیکن آہستہ آہستہ(تدریجاً)یہ مدعیٰ ارتکاب گناہ کی وجہ سے اعتقاد اور یقین کی صورت اپنا لے گا(١) حتیٰ کہ لوگ اپنے اس موہوم عقیدہ پر ہٹ دھرمی(سخت پابندی) سے کام لینے لگیں گے(٢)
قر آن مجید نے قیامت کا انکا ر کر نے وا لو ں کے قو ل کو نقل کیا ہے جو نہا یت بعید اور اگر ان لو گو ں نے کو ئی شبہ بھی کیا تو وہ بھی نہا یت ہی ضعیف اور سست اور بے اہمیت ہے(٣)
اب ایسی صو رت میں ایک طر ف تو پر ور دگا ر قیا مت سے مشا بہ حو ا دث کا ذکر کر تا ہے تا کہ وقوع قیا مت کے بعید ہونے کا تصو ر دور ہو جا ئے (٤)
اور دوسری طرف اُن شبہا ت کے جو ابات کی طر ف اشا ر ہ کر رہا ہے تا کہ اِس سلسلے میں کو ئی شک و شبہ با قی نہ رہ جا ئے اور قیامت کا آنا ثا بت ہو جا ئے لیکن صر ف اسی پر اکتفا نہیں کیا اور اِس وعدئہ خدا کے حتمی اور ضر وری ہو نے اور وحی کے ذریعہ لو گو ں پر حجت تما م کر نے کے سا تھ سا تھ قیامت کی ضر ورت پر عقلی دلیلو ں کی طر ف بھی اشا رہ کیا ہے جیسا کہ آئندہ در سو ں میں بیا ن کیا جا ئے گا ۔
…………………………
١۔روم ۔آیت ١٠، مطفین ١٠ ۔١٤ ،
٢۔ نحل۔آیت ٣٨
٣۔ ھود ۔ آیت ٧ ، اسراء ۔آیت ٥١ ،صا فا ت ۔آیت ١٦، ٥٣، دخان۔آیت٣٤،احقاف۔آیت١٨
٤۔ وہ امو ر جو ایک دو سرے کے ما نند ہیں حکم واحد کا درجہ رکھتے ہیں خواہ امکان کا حکم ہو یا عدم امکا ن کا حکم
(حکم الا مثال فی ما یجوز و ما لا یجو ز واحد)

قیامت کے ما ند دوسرے حو ادث

( الف )سبزوں کا اگنا۔
مرنے کے بعد انسان کا دو با رہ زند ہ ہو نا اس ،حیات ما بعد الموت کے مانند ہے اور اس کی مثال سبزہ اُگنے کی طر ح ہے جس طر ح زمین میں سبز ہ خشک ہو جا نے کے بعد دو با رہ اگتا ہے اسی طرح انسان مرنے کے بعد زندہ ہو گا ، اگر انسان روز مر ہ وقوع میں آنے والے واقعات کو پیش نظر رکھے اور اس میں غور و فکر کر ے، تو یہ اُس کے لئے اپنی مو ت کے بعد دو با رہ حیا ت کو سمجھنے کے لئے کا فی ہیں اورچو نکہ انسان روز مرہ کی ان تمام چیزو ں کو دیکھنے کا عا دی ہو چکا ہے، لہٰذ ا ایسے منا ظر کو وہ کو ئی خاص اہمیت نہیں دیتا ،اور بہت ہی آسا ن اور سا دہ سمجھتا ہے ورنہ پیدا ئش کے لحا ظ سے سو کھی ہو ئی گھا س کے دو با رہ سبز ہو نے اور انسان کے مر نے کے بعد دو با رہ زند ہ ہو نے میں کو ئی فر ق نہیں ہے ۔
قر آن مجید نے اس عا دت کو ختم کر نے کے لئے متعدد مر تبہ لو گو ں کی تو جہ مبذو ل کر ا ئی ہے انسان کے دوبارہ زندہ ہونے کو اس سے تشبیہ دی ہے (١)اور ارشاد فر ما تا ہے
(فَانْظُرْ اِلٰی آثاْرِ رَحمَةِ اللَّہِ کَیْفَ یُحْیِ الْاَ رْضَ بَعْدَ مَوْ تِہَااِنَّ ذَالِکَ لَمُحیْی ا لمَوْ تٰی وَ ہُوْ عَلٰی کُلِّ شَی ئٍ قَدِیْر)(٢)
پس رحمت خدا کے آثا رکو غو ر سے دیکھو کہ کیسے زمین کو مر دہ ہو نے کے بعد زند ہ کر تا ہے بیشک (وہی زمین کا زند ہ کرنے والا )مر دو ں کو دو با رہ زند ہ کر تا ہے اور وہ ہر چیز پر قا در ہے
………………………
١۔ اعرا ف ٥٧ ، حج ٥۔٦ ، روم ١٩ ،فا طر ٩ فصلت ١٩ زخرف ١١ ،ق ١١ ،
٢۔ روم ٥٠

(ب)اصحا ب کہف کا سو نا۔
قر آن مجید اصحا ب کہف کی عجیب و غریب دا ستا ن کو بیان کر نے کے بعد ار شا د فر ما تا ہے۔
(وکَذَلِکَ اَعْثَرْ نَا عَلَیْہِمْ لِیَعْلَمُوا أَنَّ وَعْدَ اللَّہِ حق وَأَنَّ السَّا عَةَ لَارَیْبَ فِیْہَا )(١) او ر اس طر ح ہم نے قو م کو ان کے ( اصحا ب کہف ) حا لا ت پر مطلع کر دیا، تا کہ انہیں معلو م ہو جا ئے کہ اللہ کا وعدہ سچا ہے اور قیا مت آ ئے گی، اس میں کسی طر ح کا شک و شبہہ نہیں ہے ۔
حقیقتا ایسا عجیب و غریب حا دثہ کہ چند افر اد صد یو ں ( شمسی اعتبا ر سے تین سو سال اور قمر ی لحا ظ سے تین سو نو سا ل ، سو تے رہیں ،اور اس کے بعد بیدا ر ہو جا ئیں، انسان کو قیا مت کی طرف متو جہ کر نے اور یہ وا ضح کر نے کے لئے کہ قیامت کا وقو ع قریب قیا س ہے اور بعید نہیں ہے نہا یت مو ثر ا ور کا میا ب ہے کیو نکہ انسان کا سو نا مو ت کے مثل ہے ( النوم اخ المو ت) ( سو نا مو ت کا بھا ئی ہے ) اور جا گنا اسی کی حیا ت کے ما نند ہے جو مو ت کے بعد حا صل ہو، لیکن نیند کے عالم میں یا سو نے کی حا لت میں عموماً انسان کا جسم اپنے فطر ی اور طبیعی حا لت ( زندگی کے آثا ر کے سا تھ بیولوجیک ) پر بر قرا ر رہتا ہے اور رو ح کا جسم میں واپس آنا کو ئی تعجب خیز ،با ت نہیں ہے لیکن اگر یہی جسم تین سو سال سو تا رہے او ر وہ بھی بغیر آب و دا نہ کے تو ایسی صو رت میں بدن کے فطری نظام میں خلل پڑ جا نا چا ہیے اور اس جسم کو تباہ و برباد ہو جا نا چا ہیے اور روح کو دو با رہ اس میں آنے کی صلا حیت کھو دینا چا ہیے، لیکن یہ غیر معمو لی معجزہ الہٰی انسان کی فکر کو اس معمو لی نظا م کے پسِ پر دہ دوسری حقیقت کی طرف متو جہ کر تا ہے جس کا مفہو م یہ ہے کہ رو ح کا جسم میں دو با رہ پلٹ کر آنا، ہمیشہ عا دی اور معمو لی اسباب و شر ائط کے ہو نے یا نہ ہو نے کا محتا ج نہیں ہے لہذا انسان کی دو سری زندگی بھی اگر چہ اس طبیعی اور فطر ی نظام کے خلا ف ہی کیو ں نہ ہو کو ئی مما نعت نہیں رکھتی وعدئہ پر ور دگا ر کے مطا بق محقق ہو کر رہے گی۔
…………………
١۔کہف ۔ آیت ٢١

(ج) حیو انا ت کا زندہ ہو نا ۔
اسی طر ح قرآن کر یم غیر عادی طر یقہ سے زند ہ ہو نے وا لے چند حیو انو ں کی طرف بھی اشا رہ کر رہا ہے جن میں سے وہ چا ر پر ندے ہیں جو حضرت ابرا ہیم ـ کے ہا تھو ں زندہ ہو ئے تھے (١)دوسرے وہ ( گد ھا جس پر جنا ب عزیر سوا ر ہو تے تھے ) اس کے بھی دو با رہ زند ہ ہو نے کی طر ف قرآن نے اشا رہ کیا ہے اور جب حیو ان کا زندہ ہو نا ممکن ہے تو انسان کا زندہ ہو نا بھی نا ممکن نہیں ہو گا

(د)اسی دنیا میں بعض انسانوں کا زندہ ہو نا ۔
سب سے زیا دہ مہم با ت یہ ہے کہ بعض افر اد اسی دنیا میں دو با رہ زیو رِ حیا ت سے آرا ستہ ہو ئے ہیں کہ جس کے چند نمو نے خو د قر آن مجید نے بیان فر ما ئے ہیں، انھیں افرا د میں سے ایک بنی اسرا ئیل کے نبی ہیں جو ایک سفر کے دو ران ایک ایسے قریے سے گذرے، جہا ں کے لو گ ہلا ک اور نا بو د ہو چکے تھے ،اور ان کے آثا ر فنا ہو چکے تھے جب آپ کی نظر ان افرا د پر پڑی تو بے سا ختہ ذہن میں یہ خیا ل پیدا ہو ا کہ یہ افرا د دو با رہ کیو ں کر زند ہو سکتے ہیں ؟اسی اثنا میں پر ور دگا ر نے ان کی رو ح قبض کر لی، اور پو رے سو سال کے بعد دو با رہ زندہ کیا ،اور ان سے سوال کیا کہ تم اس مقام پر کتنا سوئے ؟وہ جو کہ گو یا ابھی سو کر جا گے تھے بو لے ایک روز ، یا اس سے بھی کچھ کم، خطا ب ہو ا نہیں بلکہ تم کو یہا ں پر سو سال ہو گئے دیکھو ایک طر ف تمہا ر ا آب و دا نہ با لکل صحیح و سا لم ہے لیکن دوسری طر ف تمھا رے گد ھے کا کیا حا ل ہے جس کی ہڈیاں بکھری ہو ئی ہیں !اب صر ف یہ دیکھو کہ ہم کیسے ان ہڈ یو ں کو آپس میں جو ڑتے ہیں اور اس پر گو شت چڑھا تے ہیں اور اسے دو با رہ زندہ کر دیتے ہیں (٢)؟!
…………………………
١۔بقرہ۔ آیت ٢٦٠
٢۔ بقرہ ۔ آیت ٢٥٩

دوسر واقعہ :
بنی اسرا ئیل کا وہ گروہ جس نے حضرت مو سیٰ ـ سے کہا کہ جب تک ہم خدا کو اپنی آنکھو ں سے نہ د یکھ لیں گے، ہر گز ایما ن نہیں لا ئیں گے، لہٰذا خدا نے انھیں آسما ن سے ایک بجلی گر ا کر ہلا ک کر دیا لیکن پھر حضرت مو سیٰ کی در خو است پر خدا نے انھیں دو با رہ زند ہ کر دیا(١)۔
ایک اور واقعہ بنی اسرا ئیل کا یک شخص حضرت مو سی ٰ کے زما نے میں قتل کر دیا گیا تھا اور ذبح کی ہو ئی گا ئے کے ایک حصے کو اس سے مس کیا گیا اور وہ زندہ ہو گیا اس کی تفصیل سو رئہ بقرہ میں مو جود ہے نیز اس سو ر ہ مبا رکہ کی وجہ تسمیہ بھی یہی ہے پھر ار شا د ہوا۔
(کذَلِکَ یُحیِ اللَّہُ المَوْ تَیٰ وَ یُرِ یْکُمْ آیَا تِہِ لَعَلَّکُمْ تَعْقِلُونَ ) (٢)
اسی طر ح خدا مر دوں کو زندہ کر تا ہے اور اس کی نشا نیو ں کو تمھا رے سامنے رکھتا ہے تاکہ شا ید تمھیں کچھ عقل آجا ئے ۔
اور اسی طر ح حضرت عیسیٰ کے معجزے کے ذریعہ(٣)بعض مر دوں کا زندہ ہو نا،یہ وہ نمو نے ہیں جن کو قیا مت کے وقوع کے امکا ن کے سلسلے میں پیش کیا جا سکتا ہے ۔
……………………
١۔ سورہ بقرہ ۔آیت٥٥،٥٦
٢۔سورہ بقرہ ۔آیت٦٧،٧٣
٣۔آل عمران۔آیت٤٩،مائدہ۔آیت١١٠

سوا لا ت :
١۔ قرآن قیا مت کا انکا ر کر نے وا لو ں کے سا تھ کس طر ح پیش آتا ہے ؟ بیان کیجئے ؟
٢۔سبزہ کا اگنا انسان کے دو با رہ قیا مت میں زندہ ہو نے سے کیا شبا ہت رکھتا ہے؟اس سے متعلق قر آن کا کیا بیان ہے ؟
٣۔ اصحاب کہف کی داستان سے،قیامت سے متعلق کون سا نکتہ سمجھ میں آتا ہے؟
٤۔حضرت ابراہیم کے ہاتھوں پرندوں کے زندہ ہونے کو بیان کرتے ہوئے قیامت کے موضوع سے اس کے رابطہ کو بیان کیجئے؟اور شرح پیش کیجئے؟
٥۔قرآن مجید میں زندہ ہونے والے میں کن لوگوں کا ذکر موجود ہے؟