درس عقائد
 

تینتا لیسواں درس
روح کا غیر محسوس ہونا (روح کا مجرد ہونا)
مقدمہ:
جو ذیل کی بحثوں پر مشتمل ہے
روح کے غیر محسوس ہونے پر عقلی دلائل
قرآنی دلائل

مقدمہ:
اس سے پہلے ہم یہ جان چکے ہیں کہ مسئلہ قیامت مسئلہ روح کے اوپر موقوف ہے، یعنی اس وقت کہا جا سکتا ہے(جو بھی مرنے کے بعد زندہ ہوگا وہ واقعاً وہی پہلا شخص ہوگا)کہ جب بدن کے ختم ہو جانے کے بعد بھی روح باقی رہے،یا یوں کہا جائے کہ ہر انسان اپنے مادی بدن کے علاوہ ایک غیر مادی جو ہر رکھتا ہے جو بدن سے الگ ہو کر مستقل رہنے کی قابلیت رکھتا ہے،اگر ایسا نہ ہو تو اسی شخص کے لئے دوبارہ حیات کا فرض کرنا عاقلانہ تصور نہیں ہوگا، لھذا قیامت کے اثبات اور اس سے متعلق مسائل اور خود قیامت کو بیان کرنے سے پہلے یہ مطلب ثابت ہو جانا چاہیے اس لئے ہم نے اس درس کو اسی موضوع سے مخصوص کردیا ہے اور اس کو ثابت کرنے کے لیے دو طریقوں سے استدلال کریں گے ، ایک تو عقل کے ذریعہ سے اوردو سرا وحی کے ذریعہ( ١)
…………………………
١۔ ممکن ہے یہ تو ہم پیدا ہو کہ وحی کے ذریعہ استدلا ل قیا مت اور روح کے مسائل کو ثا بت کر نے کے لئے ایک دوری استد لا ل ہے کیو نکہ اس دلیل میں جو بنو ت کی ضر ورت پر پیش کیا تھا اس اخر وی حیا ت کو جو مسئلہ رو ح پر موقوف ہے ایک اصل مو ضو ع کے عنوا ن سے نظر میں رکھا تھالہذا خو د اس اصل کو ثا بت کر نا وحی کے ذ ریعہ اور بنو ت کے ذریعہ مستلز م دو ر ہے یعنی دور لا زم آئے گا لیکن تو جہ ضر وری ہے کہ وحی کے ذریعہ استدلا ل کی صحت میں ضرو رت نبو ت کے مسئلہ کی ضرو رت نہیں ہے بلکہ اس کے وقوع پر مو قو ف ہے کہ جو معجزہ کے ذریعہ ثا بت ہو گا ( غور کیجئے ) اور چو نکہ قر آن مجید خو د بخو د معجزہ اور پیغمبر ۖ کی حقا نیت کی دلیل ہے لہٰذا اس کے ذریعہ رو ح اور قیامت کے مسا ئل کو ثا بت کر نے کے لئے استد لا ل کر نا صحیح ہے ۔

روح کے غیر محسوس ہو نے پر عقلی دلائل
کا فی زمانے سے فلسفیوں اور مفکروں نے روح(کہ جس کو فلسفی اصطلاح میں نفس کہا جاتاہے)(١) کے بارے میں کافی بحث و گفتگو کی ہے ،اور خصوصاً اسلامی حکماء نے اس موضوع کو بہت ہی اہمیت دی ہے ،اپنی فلسفی کتابوں کے زیادہ حصوں کو اسی کی بحث سے مخصوص کردیا ہے اور اس کے علاوہ خود مستقل کتابیں بھی تحریر کی ہیں،اور ان لوگوں کے نظریات کو جو روح کو بدن کے اعراض میں سے ایک عرض یا مادی صورت(جوبدن کے مادہ میں ڈھل جائے) تصور کرتے ہیں بے شمار دلائل کے ذریعہ ردّ اور باطل کیا ہے،
ظاہر ہے کہ اس سے تفصیلی بحث ا س موضوع کے ذیل میں اس کتاب کے لئے مناسب نہیں ہے لہذا اس مختصر گفتگو پر اکتفا کرتے ہیں،اور کوشش کر تے ہیں کہ اس باب میں ایک واضح بیان اور محکم گفتگو پیش کریں، چنانچہ یہ بیان چند عقلی دلیلوں پر مشتمل ہے جسے ہم اس مقدمہ کے ساتھ پیش کرتے ہیں ۔
ہم اپنی جلد اور کھال کے رنگ اور اپنے بدن کی شکل و صورت کو اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں اور اعضاء بدن کی نرمی اور سختی کو اپنی قوت لامسہ کے ذریعہ محسوس کرتے ہیں نیز اس کو تشخیص دیتے ہیں اور اپنے بدن کے اندرونی اجزاء کے بارے میں صرف غیر مستقیم طریقہ سے اطلاع حاصل کر تے ہیں ،لیکن ہم اپنے اندرخوف و محبت اور غصہ و ارادہ نیز اپنی فکر کو بغیر حسی اعضاء کے درک کر لیتے ہیں، اور میرا ذا تی و جود(نفس) جو قوت احساسات کا ما لک ہے نیز عطوفت و مہربانی اور نفسیاتی حالات اپنے اندر رکھتا ہے بغیر حسی اعضاء کے آگاہ ہے۔
………………………
١۔جا ننا چا ہیئے کہ نفس کی فلسفی اصطلا ح اس کے اخلا قی اصطلا ح کے علا وہ ہے جو عقل کے مقابل میں اور اس کی ضد کے عنوان سے استعما ل کی جا تی ہے
لہذا انسان کلی طور سے دو طرح کے ادراکات کا مالک ہے ،ادراک کی پہلی قسم وہ ہے کہ جس میں حسیِ اعضاء کی ضرورت پڑتی ہے،اور ادراک کی دوسری قسم وہ ہے جس میں حسی اعضاء کی ضرورت نہیں پڑتی،
ایک دوسرا نکتہ یہ ہے کہ ان خطا ؤںاور غلطیوں کے پیش نظر جو ادراکاتِ حسی میں پائی جاتی ہیں،ممکن ہے کہ خطا کا احتمال، ادراک کی پہلی قسم سے مربوط ہے لیکن دوسری قسم میں کسی بھی طرح کے خطا و شائبہ کا امکان نہ ہو،مثال کے طور پر ممکن ہے کہ کوئی شک کرے کہ کیا آیا اس کی کھال کا رنگ واقعاً ویسا ہی ہے جیسا وہ محسوس کرتا ہے یا نہین،لیکن کوئی بھی انسان اپنی فکر اور ذہن کے بارے میں یہ شک نہیں کر سکتا کہاس کے وہاں سوچنے کی قوت ہے یا نھیں ،ارادہ کیا یا نہیں، شک پیدا ہوا یا نہیں۔
اس مفہوم کو فلسفہ میں اس تعبیر کے ساتھ بیان کیا جاتا ہے کہ علم حضوری بغیر کسی واسطے کے خود واقعیت سے متعلق ہوتا ہے اس لئے اس میں خطاء کا امکان نہیں ہے لیکن علم حصولی چونکہ ادراکی واسطے کے ذریعہ سے حاصل ہوتا ہے لہذا ذاتی اعتبارسے قابل شک و تردید ہے(١)
یعنی انسان کے یقینات اور اس کے حتمی علوم علم حضو ری ہیں جہ شہود کے ذریعہ حاصل ہوتے ہیں ، وہ علم بہ نفس یعنی احساسا ت اور عو اطف اور دوسرے نفسیا تی حا لا ت کو بھی شا مل ہیں اس بنا پر (میں ) کا وجو د جو درک کرنے والا ہے، غو ر و فکر کرنے والا شک وشبہہ کے قابل نہیں ہے جیسا کہ خو ف و محبت اور غصہ اور فکر و ارا دہ بھی قا بل شک نہیں ہے ۔
اب یہ سو ال پیدا ہو تا ہے کہ کیا یہ ( میں ) وہی ماد ی اور محسوس بد ن ہے اور کیا یہ نفسیا تی حا لا ت بھی اسی بدن کا ایک عا رضہ ہے یا ان کا وجود بدن کے وجود سے علیحدہ ہے اگر چہ اس ٫٫میں،،
اور ٫٫بدن،، کے درمیان نہا یت ہی گہرے تعلقا ت ہیں اور اپنے اکثر افعا ل کو اسی بدن کے ذریعہ انجام دیتا ہے اور اس میں اپنا اثر بھی ڈا لتا ہے اور خو د اس بدن سے متا ثر بھی ہو تا ہے ، مذکو رہ مقدمہ کے پیش نظر اس سوال کا جو ا ب بہت آسا نی سے دریافت ہوجاتا ہے کیو نکہ۔
…………………
١۔آمو زش فلسفہ ج ١ درس نمبر ١٣ کی طرف رجو ع کریں ۔
١۔سب سے پہلے م٫٫میں،،کو علم حضو ری کے ذریعہ درک کرتے ہیں جبکہ ٫٫بدن،، کو حسی اعضا ء کے ذریعہ محسوس کیا جاتا ہے ۔
٢۔ دوسرے ٫٫میں،،ایک ایسا وجود ہے جو اپنی وحد ت اور حقیقی شخصیت کے وصف کے سا تھ دسیوں سال تک با قی رہتا ہے اور اس وحد ت و شخصیت کو ہم نا قا بل حفظ علم حضو ری کے ذریعہ درک کرتے ہیں در آ ں حا لیکہ بدن کے اجزاء با رہا تبدیل ہو تے رہتے ہیں اور سا بق اور لا حق اجزا کے در میان کو ئی بھی معیار وحد ت نہیں پا یا جا تا ۔
٣۔تیسرے ٫٫میں،، ایک بسیط اور نا قابل تجز یہ مو جود کا نام ہے مثلاً اس کو آدھے (میں ) میں تقسیم نہیں کیا جا سکتا ،جبکہ بدن کے اعضا ء و جو ارح متعدد اور قا بل تجزیہ و تقسیم ہیں ۔
٤۔ چو تھے احسا س اور اراد ہ وغیر ہ کے مانند ایک بھی نفسیاتی حا لت میں ما دیا ت کی اصلی خا صیت جیسے امتدا د اور قابل تقسیم ہو نا نہیں پا ئی جا تی ،( یعنی نفسیا تی حا لت میں ما دیت کی کو ئی بھی اصلی خا صیت نہیں پا ئی جا تی ،اور ایسے غیر ما دی امو ر کو ما دہ(بدن )کے اعرا ض میں شما ر نہیں کیا جا سکتالہٰذا ان اعر اض کا مو ضو ع ایک جو ہر ہے جو غیر ما دی (مجرد ) ہے (١) ۔
مو ت کے بعد رو ح کی بقا اور استقلا ل اور ا سکے وجود کے او پر اطمینان بخش اور د ل نشیں دلیلیں وہ سچے خو اب ہیں کہ بعض شخصیتو ں نے مر نے کے بعد خوا بوں کے ذریعہ ان حقائق کی نشاندھی کی ہے نیز اولیا ء خدا کی کر امتو ں اور یہا ں تک کہ مرتاضوں کی ریاضتوں کے ذریعہ رو ح اور اس کے غیر محسو س ہونے کو ثا بت کیا جا سکتا ہے ،اس مو ضو ع پر گفتگو کر نے کے لئے ایک مفصل اور مستقل کتا ب در کا ر ہے
………………………
١۔آمو زش فلسفہ جلد دوم در س نمبر ٤٤ اور ،٩٤ کی طرف رجو ع کر یں

قرآنی دلائل۔
قر آن کر یم کی رو سے رو ح انسانی کے وجود میں شک و شبہہ نہیںکیا جا سکتا وہ رو ح جس کو اس کی انتہا ئی شرا فت کی بنیا د پر خدا کی طر ف منسوب کیا جا تا ہے (١)
جیسا کہ انسان کی خلقت کی کیفیت کے متعلق ار شا د ہو رہا ہے
(وَنُفِخَ فِیْہِ مِنْ رُوْحِہِ)(٢) بدن کو بنا نے کے بعد اس میں اپنی ر وح پھو نک دی ،ایسا نہیں ہے کہ معا ذ اللہ خدا کی ذا ت سے کو ئی شے جدا ہو کر انسان کے اند ر منتقل ہو گئی ہو ۔
اور حضرت آدم کی تخلیق کے با رے میں فر ما تا ہے (نَفَخْتُ فِیہِ مِنْ رُوْحِْ)(٣) اسی طر ح دوسری آیتو ں سے استفا دہ ہو تا ہے کہ روح بدن اوراس کی خا صیتو ں سے علیحدہ ایک دوسری شی
ہے جو بقا کی صلا حیت رکھتی ہے باہم ان کا فر وں کے قو ل کو ذکر کرنے کے بعد کہتے تھے ۔
(ئَ اِذَاْ ضَلََلنَا فیِْ الْاَرْضِ أَئِ نَّا لَفِ خَلقِِِ جَدِیْد ) (٤)جس وقت ہم (مرگئے) اور زمین میں گم ہو گئے ( اور ہما رے بدن کے اجزاء مٹی میں بکھر گئے )کیا ہم دو با رہ پیدا کئے جا ئیں گے ۔
اس طر ح جو اب دے رہا ہے (قُلْ یَتَوَفَّا کُمْ مَلَکُ ا لْمَو ت اَلَّذِْ ُوُکِّلَ بِکُمْ ثُمَّ اِلیٰ رَبِّکُمْ تُْرجَعُوْنْ )(٥)
کہدو(تم گم نہیں ہوگے) وہ موت کا فرشتہ جو تمہارے اوپر تعینات ہے وہ تمہیں وفات دے گا اور پھر اپنے پروردگار کی طرف پلٹا دیئے جائوگے،
…………………………………………
١۔ اصو ل کا فی۔ ج ١ ص ،١٣٤
٢۔سجدہ آیہ ٩
٣۔حجر ٢٩ ،ص ٧٢
٤ سجد ہ ۔ آیت ١٠
٥۔ سجدہ آیت ١١
پس انسان کی شناخت کا معیار وہی روح ہے کہ جو موت کے فرشتے کے ذریعے قبض کی جاتی ہے،اور ہمیشہ محفوظ رہتی ہے نہ کہ وہ اجزاء بدن جو زمین میں بکھر جاتے ہیں اورختم ہو جاتے ہیں اور ،ایک دوسرے مقام پر ارشاد فرماتا ہے۔(اَللّہُ یَتَوَفی الا نفس حَیْنَ مَوْ تِہا وَا لَّتِیْ لَمْ تَمُتْ فِیْ مَنَاْ مِہَاْ فَیُمْسِکُ التِّی قَضَیٰ عَلَیْہَا الْمَو تَ ،وَ یُرْ سِلُ الاُ خریٰ الٰی اَجَلٍ مُسَمّیٰ )(١)
اللہ ہی ہے جو روحوں کو(یا اشخاص) کو موت کے وقت اپنی طرف بلا لیتا ہے اور جو نہیں مرتے ہیں ان کی رو حوں کو بھی نیند کے وقت طلب کر لیتا ہے(یعنی وہ جو سو گیا ہے اس کی موت کا وقت نہیں آیا)۔
اور پھر جس کی موت کا فیصلہ کر لیتا ہے اس کی روح کو روک لیتا ہے اور دوسری روحوں کو ایک مقررہ مدت کے لئے آزاد کردیتا ہے۔
اور ستمگا روں کی موت کی کیفیت کے بارے میں ارشاد فرماتاہے۔
(اِذِ الظَّالِموُنَ فِ غَمَرَاتِ اَلْمَوْتِ وَالْمَلاَئِکَةُ بَاسِطوُا أَ یْدِےْہِمْ أَخْرِجُوْا أَنْفُسَکُمْ )(٢)
اور اگر آپ دیکھتے کہ ظالمین موت کی سختیوں میں ہیں اور ملائکہ اپنے ہاتھ بڑھائے ہوئے آواز دے رہے ہیں کہ اب اپنی جانوں کو نکال دو۔(تسلیم ہو جائو)
ان آیات اور اس طرح کی دوسری آیتوں کہ جن کو اختصار کی وجہ سے ہم نے نقل نہیں کیا، استفادہ ہوتا ہے کہ ہر شخص کی نفسیت اور شخصیت اس چیز کے ذریعہ ہے جس کو خدا اور ملک الموت اور روح قبض کرنے والے فرشتے اپنے قبضہ میں لے لیتے ہیں اور بدن کا نابود ہوجانا انسان کی روح اور اس کی حقیقت وحدت کو نقصان نہیں پہنچا سکتا۔
……………………
١۔ زمر۔ آیت ٤٢ ،
٢۔ انعا م ۔ آیت ٩٣،

نتیجہ کلام۔
سب سے پہلے،انسان کے اندر ایک شئے بنام روح پائی جاتی ہے،دوسرے یہ کہ انسان کی روح بدن سے جدا ہو کر بقا اور استقلال کی صلاحیت رکھتی ہے،نہ کہ مادی صورت اور اعراض کی طرح جو بدن کے ختم ہوجانے سے ختم ہو جائے،
تیسرے یہ کہ ہر فرد اور ہر شخص کی شناخت اور اس کا امتیاز اس کی روح سے وابستہ ہے،بلکہ یوںکہا جائے کہ ہر انسان کی حقیقت اس کی روح ہے اور بدن روح کی بہ نسبت ایک وسیلہ کی حیثیت رکھتا ہے۔

سوالات
١۔علم حضوری اور علم حصولی کی تعریف کرتے ہوئے ان کے ما بین فرق کو واضح کیجئے؟
٢۔روح کے غیر محسوس ہونے کو عقلی دلیلوں سے واضح کیجئے؟
٣۔روح کے غیر محسوس(مجرد)ہونے پر دوسری کون سی دلیلوں سے استفادہ کیا جا سکتا ہے؟
٤۔اس بحث و گفتگو سے مربوط آیات کو ذکر کیجئے؟
٥۔ان آیتوں سے کیا نتیجہ نکلتا ہے؟