درس عقائد
 

اکتا لیسواں درس
شنا خت عا قبت کی اہمیت
مقدمہ:
قیا مت پر اعتقاد کی اہمیت وضرورت
قیا مت کے مسئلہ پر قر آن کی تا کید
نتیجہ:

مقدمہ:
اس کتا ب کی ابتدا ہی میں ہم نے دین مبین اور اس کے بنیا دی عقا ید (تو حید ، نبوت ، قیامت،) کے بیا ن کے سا تھ اس بات کی تشر یح ووضاحت بیان کر دی تھی کہ انسا نی زندگی کا مفہوم، انھیں مسا ئل کے حل میں پو شید ہ ہے اور کتا ب کے پہلے حصے میں خدا شناسی ( تو حید ) کے مسا ئل اور د وسرے حصے میں راہ اور ر ہنما شنا سی (بنو ت و امامت) کے متعلق بحث گذر چکی ہے اور اب کتاب کے تیسرے حصے میں معاد (قیا مت) کے عنو ان کے تحت گفتگو کوجاری رکھتے ہیں ۔
لیکن پہلے معا د کی خصو صیت اور انسا ن کی ،انفرا دی ،اجتما عی زندگی پر پڑنے والے اثرا ت سے بحث ہو گی، اور اس کے بعد اس بات کی وضاحت کریں گے کہ معاد (قیا مت) کا خصوصی تصور نا محسوس رو ح اور اس کے زندئہ جا وید ہو نے کے سا تھ مشروط ہے، اور جس طر ح مو جود ات کی معرفت بغیر خدا ئے وحدہ'لا شریک کے نا قص ہے اسی طر ح انسان کی معرفت بھی بغیر اس اعتقاد کے کہ رو ح زندئہ جا وید ہے نا قص اور نا مکمل ہے ۔
اس بیان کے بعد قیا مت کے بنیا دی مسا ئل منا سب اندا ز سے ا س کتا ب میں بیا ن کر یں گے۔

قیا مت پر اعتقا د کی ا ہمیت وضرورت۔
زندگی کا جذبہ ،اس کی ضرو رت اور خو اہشا ت اور ضرو ریا ت زندگی کی طر ف اس کا رجحا ن اصل میں یہ تمام چیزیں صر ف کمال اور ابدی سعا دت تک پہنچنے کا ذریعہ ہیں، اور اب رہی با ت کہ انسان انھیں حا صل کرنے کے لئے کس را ستہ کا انتخا ب کرے، تو اس کے لئے ضرو ری ہے کہ پہلے یہ دیکھا جا ئے کہ انسان ان اھداف کی شنا خت کیسے کرے ؟
جو اسے اس کے ھدف تک پہنچا دیں در حقیقت زندگی کے را ستے کی تعین اور اپنی رفتار و کر دار کو معین کرنے کا اصل سبب انسان کی اپنی سوجھ بو جھ اور تصو ر اور خود اپنے کما ل و سعادت اور اپنی حقیقت کو پہچان لینا ہے ،اور جو لو گ زندگی کو صر ف ما دیت اور اس سے متعلق عناصر کو اپنی حقیقت سمجھتے ہیں ،اور یہ تصور کرتے ہیں کہ یہی چند روزہ زندگی ہی سب کچھ ہے اور مو ت کے بعد صر ف عدم اور فنا ہے ،یا اخرو ی لذت او ر سعا دت ِابدی کے منکر ہیں وہ اپنی زندگی کو کچھ ایسا بنا لیتے ہیں کہ اب صرف ان کے پیش نظر یہی دنیا وی لذت اور خو ا ہش ہی ان کی سعا دت اور نیک بختی ہے لیکن جو افرا د اپنی دنیا وی زندگی کو ہی نہیں بلکہ اس کے آگے آنے وا لی زندگی کی حقیقت سے آشنا ہیں وہ اپنے اعمال و کردا ر کو آنے والی ابدی زندگی کا وسیلہ بنا تے ہیں اور ایسے بنیا دی کا م انجام دیتے ہیں جو اُن آنے وا لی اس زندگی میں مددگا ر ثا بت ہو ں یا دوسرے الفا ظ میں یو ں کہا جا ئے کہ مادی زندگی کی سختیو ں اور نا کامیو ں کے با وجود یہ لوگ ما یو س اور نا امید نہیں ہو تے، بلکہ سعا دت و کا میا بی تک پہنچنے کے لئے اپنی بھر پو ر کو شش اور تلا ش جا ری رکھتے ہیں ۔
انسانی زندگی کے یہ دو اہم رخ صر ف اس کی انفرا دی زندگی ہی پر منحصر نہیں ہیں بلکہ اجتما عی زند گی پر گہرا اثر چھوڑ تے ہیں چنا نچہ آخر ت پر ایمان اور جزا وسزا جیسی چیزیں انسان کو دوسرو ں کے حقوق کا خیا ل، ایثا ر اور احسا ن جیسے قا بل تحسین کر دا ر پر آما دہ کر تی ہیں او ر ظا ہر ہے کہ جس معا شرے یا قو م و ملت کا یہ عقیدہ ہوگا، اس کے یہا ں قا نون عدا لت پر عمل ،ظلم و ستم کا مقابلہ اور زور و زبر دستی کاکم سے کم استعما ل ہو گا ،اور واضح رہے کہ اگر یہ اعتقا د ات دنیا کی تمام قو میں اپنا شیو ہ بنا لیں تو اس دنیا کی بین الا قوامی مشکلا ت خو د بخو د حل ہو جا ئیں گی۔
لہٰذا ان تمام بیا نا ت کے پیش نظر قیا مت کی اہمیت و ضرو رت رو ز رو شن کی طر ح واضح ہو جا تی ہے بلکہ تنہا عقیدئہ تو حید ( بغیر عقید ئہ قیا مت کے ) بھی انسانی زند گی کو صحیح را ستہ دکھا نے سے قا صر ہے اور یہی وجہ ہے کہ تمام ادیا ن آسما نی خصوصاًدین اسلا م اورتمام پیغمبر ان الہٰی قیا مت کے عقید ہ کو بہت اہمیت دیتے تھے اور ان کی ہمیشہ یہی کو شش رہی کہ یہ عقید ہ انسا نیت کا اہم ترین رکن بن جا ئے اور لو گو ں کے دلو ں میں یہ عقید ہ را سخ ہو جا ئے ۔
آخر ت پر اعتقا د، انفرا دی اور اجتما عی زند گی کے اعتبا ر سے صرف اسی صو ر ت میں کا ر گر ثا بت ہوں گے، جب ہم یہ ما ن لیں ،کہ اس دنیا کے اعما ل اور ابدی زندگی کی سعا دت و بد بختی کے در میا ن ایک قسم کا را بطہ علیت پا یا جا تا ہے ،یا کم از کم یہ ثا بت ہو جائے، کہ وہاں کا ثوا ب و عذاب صر ف اس دنیا میں عمل کرنے کا نتیجہ ہے ( جیسے دنیوی فو ائد اور نقصا ن )اور اگر ایسا نہیں ہے تو پھر مسئلہ آخر ت اپنی حققیت و اصلیت کھو بیٹھے گا کیو نکہ اس کے معنی یہ ہو ں گے کہ دنیوی سعا دت حا صل کر نے کے لئے اسی دنیا میں کو شش ہونی چاہیے اور اخر وی سعا دت ونجا ت کے لئے وہاں کی دنیا ہو نی چا ہیے لہٰذا ضر ور ت ہے کہ قیا مت کے اثبا ت کے سا تھ سا تھ دنیا و آخر ت کے در میان پا ئے جا نے وا لے ر ابطے اور ا بد ی خو شبختی یا بد بختی میں انسان کے اختیا ر اعما ل و کر دا ر کی تا ثیر کو بھی ثا بت کر دیا جا ئے ۔

قیا مت کے مسئلہ پر قر آن کی تا کید۔
قر ان کر یم کی ایک تہا ئی سے زیا دہ آیتیںانسان کی ابد ی زند گی سے متعلق ہیں بعض آیا ت بیان کر تی ہیں کہ آخر ت پر ایما ن رکھنالا زم ضر ور ی ہے (١) اور بعض آیتیں انکا ر آخر ت کے نقصا نا ت
……………………………………………
١۔بقرہ ٤،لقمان ٤،نمل٫٣
کو بیان کر تی ہیں (١) بعض آیتیں ابدی نعمتو ں کا تذکر ہ کرتی ہیں (٢) اور بعض آیات میں ابدی عذا ب کا ذکر مو جو د ہے (٣) اور اسی طر ح سے بہت سی دوسر ی آیتو ں میں بھی نیک اور بد اعما ل اور آخر ت میں اسی بنیا د پر ہو نے وا لے ثو اب و عقا ب کا ذکر ہوا ہے ، نیز اور دوسرے طر یقو ں سے بھی قیا مت کے امکا ن اور اس کی ضرورت و اہمیت پر قر آن نے تا کید کی ہے، اور سا تھ ہی سا تھ منکر ان قیا مت کے سا منے محکم اور ٹھو س دلیلیں بھی پیش کی ہیں اور ان کے اعتر اضات کے جو ابا ت دئے ہیں چنا نچہ گمرا ہی ،انکار قیا مت اور اس سے ،فر امو شی کی بنیا دی وجہ بھی بیان فر ما ئی ہے(٤) اگر قر آن مجید میں غور کیا جا ئے تو اس سے یہ با ت صا ف ظاہر ہو تی ہے کہ پیغمبر وں کی گفتگو اور ا ن کے اقوال نیز لو گو ں سے بحث و مبا حثہ کا بیشتر حصہ قیا مت کے مو ضو ع سے متعلق ہے بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ ان کی کو ششیں تو حید کو ثا بت کرنے سے زیا دہ قیا مت کو ثا بت کر نے کے لئے رہی ہیں کیو نکہ اکثر افرا د قیا مت کو قبو ل کر نے میں بہت ہی شدید و سخت رہے اور اس سختی کی بھی شا ید دو وجہ بیان ہو سکتی ہے۔
١۔ پہلی وجہ جو مشتر ک ہے وہ یہ ہے کہ ہر غیبی اور نا محسو س چیزو ں کا انکا ر کر دینا ہے ۔
٢۔اور دوسر ی وجہ جو قیا مت کے مسئلہ سے مخصو ص ہے وہ یہ ہے کہ انسان کا کسی قا نو ن کا پا بند نہ ہو نا( لاا با لی ہو نا ) ہے کیو نکہ قیا مت کا قبو ل کر نا گو یا اپنی زندگی کا محدو د کر لینا اور برے اعما ل ،منجملہ ظلم و فساد و گنا ہوں سے نفرتو بیزاری کا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنی خو اہشا ت سے دست بر دا ر ہو جا ئے اور اس کے انکا ر کر دینے کی صو ر ت میں ہوا و ہو س اور شہو ت پر ستی و خو د خو اہی کے سا رے را ستے کھل جا ئیں گے قرآن مجید اسی نکتہ کی طر ف اشارہ کرتے ہو ئے ارشاد فر ما رہا ہے ۔
………………………………………
١۔اسراء ١٠،فرقان ١١ صبا ٨،مو منون ٧٤،
٢۔ رحمٰن ٤٦، تا آخر سورہ ،واقعہ ١٥ ،٣٨ ،الدہر ١١،٢١ ،
٣۔حا قہ آیت۔ ٢٠،٢٧،ملک ٦،١١ ،واقعہ ٤٢ ،٥٦،
(٤) سورہ ص آیت٢٦ ۔سورہ سجدہ آیت١٤٠
(اَیَحْسِبُ الْاِنْسَاَنُ اَلِّن نَجْمَعَ عِظَاَ مَہُ ٭بَلَیٰ قَاْدِرِیْنَ عَلَیٰ اَنْ نُسَوِّ یَ بَنَانَہ ٭بَلْ یُرِیْدُ اْلاِنْسَاْنُ لِیَفْجَرُاَمَامَہُ)(١)
کیا انسا ن یہ خیا ل کر تا ہے کہ ہم اس کی ہڈیو ں کو جمع نہ کر سکیں گے ،یقیناہم اس با ت پر قا در ہیں کہ اس کی انگلیو ں کے پو ر تک درست کر لیں بلکہ انسان یہ چا ہتا ہے کہ اپنے سا منے برا ئی کر تا چلا جا ئے ۔
اور اسی قیا مت کے اس حقیقی معنی سے انکا ر وامتنا ع کو ان افرا د میں ڈھو نڈھا جا سکتا ہے جو اپنی تحریر و تقر یر یا رفتا ر و گفتا ر کے ذر یعہ اس با ت کی کو شش کر تے ہیں کہ قیا مت کو اسی دنیا کا ایک حا دثہ بنا کر لو گو ں کے سا منے پیش کر یں جس سے مر ا د یہ ہے کہ اس دنیا میں قو میں آئیں گی جن میں طبقا تی نظا م نہ ہو گا، یا جنت سے مرا د یہی زمین ہے یا آخر ت اور اس سے متعلق دوسری چیزیںصرف فر ضی اور تصوراتی یا خود ساختہ دا ستا نیں ہیں (٢)
قر آن مجید نے ایسے افرا د کو ( ا نسان نما شیطا ن ) اور ( انبیا ء کے دشمنو ں ) سے تعبیر کیا ہے جو اپنے نر م و لطیف لہجہ اور سحر آمیز باتوں کے ذریعہ لو گو ں کے دلوں کو اپنی طرف کھینچ لیتے ہیں اور لو گو ں کو صحیح عقید ہ و ایمان اور احکا م الہٰی پر عمل کرنے سے منحر ف کر دیتے ہیں ۔
(وَکَذٰلِکَ جَعَلْنْالِکُلِّ نَبِِّ عَدُوْاً شَیَاطِیْنَ الاِنْسِ وَاْلجِنِّ یُوْحِْ بِعْضِہِم اِلَیٰ بَعْض زُخْرُفَ القَوْل غُرُوْراً وَلَوْ شَاْئَ رِبُّکَ مَاْ فَعَلُوْہُ فَذَرْ ہُمْ وِمَاْ یَفْتَرُوْنَ ٭ وَ لِتَصْغیٰ اِلِیْہِ اَفْئدَةُ الَّذِیْنَ لاَیُوْمِنُوْنَ بِاْ لآخِرةِ و لِیَرضَوْہُ ولْیَقترِ فُوْا مَاہُمْ مُقتَرفُوِنَ) (٣)
اور اسی طر ح ہم نے ہر نبی کے لئے شیا طین جن و انس میں سے، انکا دشمن قرا ر دیا ہے یہ آپس میں ایک دو رسرے کو د ھوکہ دینے کے لئے مہمل با تو ں کے اشا رے کر تے ہیں اور اگر خدا چا ہ
……………………………
١۔ قیامت۔ آیت/ ٣، ٥
٢۔نمل آیت ٦٨، الحقاف آیت ١٧،
٣۔ انعام ١١٢، ١١٣،
لیتا تو یہ ایسا ہر گز نہیں کر سکتے تھے لہٰذا اب آپ انھیں ان کے افتراء پر چھوڑ دیجئے، اور یہ اس لئے کر تے ہیں کہ جن لو گو ں کا ایما ن آخر ت پر نہیں ہے ان کی طرف مائل ہو جا ئیں اور وہ اسے پسند کر لیں اور پھر خو د بھی انھیں کی طر ف افتراء پر دا زی کر نے لگیں ۔

نتیجہ۔
انسان کو چا ہیے ایک ایسے راستہ کا انتخا ب کرے جو اسے اُس کی منزل مقصو د یعنی کما ل اور سعا دت ابد ی سے ہم کنا ر کر دے اوراس کے لئے ضر ور ی ہے کہ پہلے وہ اس با ت پر غور کر ے، کہ کیا انسان کی زند گی اُس کی مو ت کے بعد ختم ہو جا تی ہے یا اس کے بعد بھی کو ئی دوسری زندگی ہے؟ یا یہ کہ اس جہا ن سے دوسرے جہا ن میں منتقل ہو نا ایک شہرسے دوسرے شہر میں سفر کر نے جیسا ہے، کہ جس کے لئے زندگی کے تمام وسا ئل اور ضروریا ت کو وہیں حا صل کیا جا سکتا ہے ؟یا یہ کہ اس دنیا کی خا ص زندگی اُس آنے والی زندگی کی خو شی اور نا خو شی کا مقد مہ ہے اور جو کا م واعمال یہاں انجا م دئے جا ئیں اور اس کے آخر ی نتیجہ سزا یا جزا کو وہا ں حا صل کہا جا ئے جب تک یہ مسا ئل حل نہیں ہو جا تے، تب تک انسان صحیح را ستے اور مقصد کا انتخاب نہیں کر سکتا، کیو نکہ جب تک انسان کو اس کے سفر کا مقصد معلوم نہ ہو، تب تک اس تک پہنچا نے وا لے را ستے کو معین نہیں کیا جا سکتا ۔
یہ با ت بھی قا بل ذکر ہے کہ اس حیا ت ابدی کے وجود کا احتما ل جتنا بھی ضعیف اور فرضی ہی کیو ں نہ ہو پھر بھی ہو شیا راور عقلمند انسان کو اس کے سلسلے میں تحقیق اور تلا ش و جستجو پر آما دہ کر تا ہے، اس لئے کہ اس احتمال کی کو ئی حد معین نہیںہے ۔

سوا لا ت
١۔ اپنی زندگی کو منظم بنا نے کے لئے قیا مت پر اعتقا د رکھنے اور نہ رکھنے میں کیا فر ق ہے ؟
٢۔ کس صو رت میں اخر وی زند گی پر اعتقاد رکھنا زند گی کو منظم بنا نے میں اچھا کر دا ر ادا کرسکتا ہے ؟
٣۔ قیا مت کے متعلق قر آن مجید کی تا کید کو وا ضح طو ر سے بیا ن کیجئے ؟
٤۔لو گ قیا مت کو قبو ل کر نے میں اتنی سختی سے کیو ں کا م لیتے ہیں ،شرح کیجئے ؟
٥۔ قیا مت پر اعتقا د کی تحر یف میں دلو ں کے مریض لو گو ں کی کو ششوں کے چند نمو نے اور اس کے مقا بلے میں قرآن کا مو قف کیا ہے ؟
٦۔قیا مت کے با رے میں تحقیق کی ضر ورت کو لکھتے ہو ئے اس تحقیق کی بر تر ی کو دنیا وی مسا ئل پر تحقیق کر نے پر بیان کریں ،شر ح دیں ؟