درس عقائد
 

چالیسواں درس
حضرت مہدی (عج)
مقدمہ
جہانی حکومت الٰہی
وعدہ الٰہی
چند روایتیں
غَیبت اور اُس کا راز

مقدمہ
گذشتہ بحث کے ضمن میں ہم نے اُن روایتوں کو بیان ہے کیاجس میں ائمہ علیہم السلام کے اسماء درج تھے ،لیکن ان روایتوں کے علاوہ دوسری بہت سی روایتں ہیں جنھیں شیعہ اور سنی علماء نے آنحضرت ۖ سے نقل کی ہیں ،جس میں یا تو ائمہ اطہار علیہم السلام کی تعداد کاتذکرہ ہے یا بعض روایتوں میں ان حضرات کا قریش سے ہونے کی طرف اشارہ ہے یا بعض روایتوں میں ان کی تعداد کو نقباء بنی اسرائیل کی تعداد کے مطابق ہو نے کا اشارہ ہے، اسی طرح بعض روایتوں میں وارد ہوا ہے کہ ان میں نو امام، امام حسین علیہ السلام کے صلب سے ہوں گے، اوربعض روایتوں میں جنھیں شیعہ اور سنی علماء نے صحیح سندکے ساتھ نقل کیا ہے ان میں ان کے ا سماء مبارک در ج ہیں(١) اور انھیں تمام ائمہ علیہم السلام کے ہونے کی طرف اشارہ موجود ہے جنھیں ہم یہاں بیان کرنے سے قاصر ہیں(٢)
بلکہ اس درس کو امام حجت مہد ی بن حسن علیہ السلام سے مخصوص کرتے ہیں، اور اختصار کو مد نظر رکھتے ہوئے صرف مہم نکات کی طرف اشارہ کریں گے۔
………………………………………
(١)منتخب الاثر فی الامام الثانی عشر ، طبع سوم ۔ ص١٢١٠.
(٢)بحار الانوار ، غایة المرام ، اثبات الہداة وغیرہ.

جہانی حکومت الٰہی۔
ہمیں یہ نکتہ اچھی طرح معلوم ہوچکا ہے کہ انبیا ء علیہم السلام کی بعثت کا ہدف لوگوں کو رشد تکا مل( بہ تدریج کمال تک پہونچانے) کے راستہ پر گامزن کرنا تھا ، اور یہ ھدف وحی الھیکو لوگوں کی دست رس میں قرار دینے ہی کے ذریعہ متحقق ہو سکتا ہے ، اِس ہدف کے علاوہ اُن کے اور دوسرے اہداف بھی تھے جیسے لوگوں کی عقلوں اور اُن میں بااستعداد حضرات کی روحی اور معنوی اعتبار سے تربیت کرنا وغیرہ ۔
یعنی، انبیاء علیہم السلام، خدا پرستی، عدل و داد کی حکومت ،اور الٰہی آر زوؤں کے مطابق ایک اچھے اور ہدایت یافتہ سماج کو قائم کرنا چاہتے تھے، لہٰذااُن میں سے ہر ایک نے اپنے اہداف کے حصول کے لئے قدم اٹھائے بلکہ ان میں سے بعض حکومت الٰہی کو قائم کرنے میں کامیاب بھی ہوئے،' لیکن اُن میں سے کسی کے لئے بھی جہانی حکومت قائم کرنے کے شرائط مہیا نہ ہوسکے۔
لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ اُن کی تعلیمات ناقص ، یا اُن کی رہبری میں نقص تھا ، یا ہدف الٰہی محقق نہ ہوسکا، اس لئے کہ اُن کا ہدف تو صرف یہ تھا کہ انسانوں کے مختار ہوتے ہوئے کمال کی جانب حرکت کے لئے شرائط فراہم کئے جائیں۔
(لِئَلَّا یَکُونَ لِلنَّاسِ عَلَی اللَّہِ حُجَّة بَعدَ الرُّسُلِ)(١)
تاکہ پیغمبروں کے آنے کے بعد لوگوں کی خدا پر کوئی حجت باقی نہ رہ جائے۔
یعنی لوگوں پر دین حق اور الٰہی پیغمبروں کو ماننے کے لئے کوئی جبر نہیں ہے، اور یہ ہدف حاصل ہوچکا ہے۔
……………………………
(١) سورۂ نسائ۔ آیت ١٦٥
لیکن پھر بھی خدا نے اپنی کتابوںمیں پوری زمین پر حکومت الٰہی کے برپا ہونے کی خوشخبری دی ہے جسے دین حق کے قبول کرنے کے لئے شرائط کے فراہم ہونے کی پیشنگوئی کا نام دیا جا سکتا ہے، جو با عظمت جماعتوں اور افراد کے علاوہ غیبی مدد کے ذریع حکومت جہانی کی راہ میں موجود رکاوٹوں کو برطرف کرکے عدل و انصاف کی حکومت قائم ہوگی، ستمگروں سے نالاں معاشرے او رمختلف مذاہب و حکمرانوں سے عاجز سماج کو نجات ملے گی اس ہدف کو آنحضرت ۖ کی بعثت اور دین جاودانی کا انتہائی ہدف مانا جا سکتا ہے جیسا کہ خدا وندے عالم فرماتا ہے( لِیُظہِرَ ہُ عَلَی الدِّینِ کُلِّہِ)(١)
تا کہ اس کو تمام دینوں پر غالب کرے
چونکہ امامت، نبوت کو کامل کرنے والی اور حکمت خاتمیت کو محقق کرنے والی ہے لہٰذا اِس سے یہ نتیجہ حاصل کیا جا سکتا ہے کہ یہ ہدف آخری امام علیہ السلام کے ہاتھوں پورا ہوگا، اور یہ وہی مطلب ہے کہ جس کی طرف اُن روایتوں میں تاکید کی گئی ہے کہ جو امام زمانہ (عج) اوراحنا لہ الفداہ کے سلسلہ میں وارد ہوئی ہیں۔
اب اِس کے بعد اُس حکومت جہانی کے سلسلہ میں بشارت دینے والی آیتوںکی طرف اشارہ کرتے ہیںاور اُس کے بعد اِسی ضمن میں موجود روایتوں کا تذکر ہ کریں گے۔
……………………
(١) سورۂ توبہ۔ آیت ٣٣ سورہ فتح۔ آیت ٢٨ سورہ صف ۔ آیت٩،
بحار الانوار۔ ج٥١ ص ٥٠ ج٢٢ ص٦٠، ج ٥٨ ٥٩

وعدۂ الٰہی۔
خداوند عالم قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ ہم نے توریت و انجیل میں یہ بشارت دیدی ہے کہ زمین کے وارث صالح افراد ہوں گے۔
(وَلَقَد کَتَبنَا فِی الزّبُورِ مِن بَعدِ الذِّکرِ َنَّ الاَرضَ یَرِثُہَا عِبَادِیَ الصَّالِحُونَ)(١)
اور ہم نے یقیناً زبور میں لکھ دیا تھا کہ روئے زمین کے وارث ہمارے نیک بندہ ہوں گئے ،
ایک دوسری روایت میں حضرت موسیٰ علیہ السلام سے اس مضمون کے مشابہ عبارت موجود ہے(٢) اور اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ یہ وعدہ ضرور ایک دن پورا ہوگا۔
اسی طرح ایک دوسرے مقام پر داستان ِفرعون کے بعد نقل کرتا ہے
(وَنُرِیدُ اَن نَّمُنَّ عَلَی الذِّینَ استضُعِفُوا فِی الاَرضِ وَ نَجعَلَہُم اَئِمَّةً و نَجعَلَہُمُ الوَارِثِینَ)َ (٣)
اور ہم تو یہ چاہتے ہیں جو لوگ روئے زمین پر کمزو کردئے گئے ہیں اُن پر احسان کریں اور ا نھیں لوگوں کو پیشوا بنائیں اور انھیں کو اِس زمین کا مالک و وارث قرار دیں۔
یہ آیت گرچہ بنی اسرائل کے سلسلہ میں ہے، فرعون کی ہلاکت کے بعد اُن کا حکومت کی باگ ڈور سنبھالنے کی طرف اشارہ کرتی ہے لیکن (نرید) کی تعبیر ایک سنت الٰہی کی طرف اشارہ ہے اسی وجہ سے بہت سی روایتوں میں اسی آیت کو حضرت مہدی ( عج) کی جہانی حکومت کے لئے دلیل بنایا گیا ہے۔(٤)
………………………………………
(١)سورۂ انبیائ۔ آیت ١٠٥
(٢) سورۂ اعراف۔ آیت ١٢٨
(٣) سورۂ قصص ۔آیت٥
(٤)بحارا لانوار۔ج ٥٤٥١ج ۔٣٥ ٦٤٦٣.
نیز قرآن نے ایک دوسرے مقام پر مسلمانوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ تم میں سے جو بھی واقعی ایمان لائے ،اور نیک اعمال انجام دے ،وہ زمین کا خلیفہ ہوگا اور پورے امن و امان کے ساتھ خدا کی عبادت کرے گا۔
(وَ عَدَ اللَّہُ الَّذینَ آمَنُوا مِنکُم وَ عمِلُوا الصّالِحَاتِ لَیَستَخلِفَنَّہُم فِی الاَ ر ض ِ کَمَا استَخلَفَ الّذِینَ مِن قَبلِہِم وَلیُمَکِنَنَّ لَہُم دِینَہُمُ الَّذ ارتَضَیٰ لَہُم وَلَیُبَدِلَنَّہُم مِّن بَعدِ خَوفِہِم اَمنًا یَعبُدُونَنِ لَا یُشرِکُونَ ب شَئیًا وَمَن کَفَرَ بَعدَ ذَلِکَ فَاُولَئِکَ ہُمُ الفَاسِقُون)(١)
اے ایمان والوں تم میں سے جن لوگوں نے ایمان قبول کیا اور اچھے اچھے کام کیے ان سے خدا نے وعدہ کیا ہے کہ وہ ان کو ایک نہ ایک دن روئے زمین ضرور پر اپنا نائب مقرر کرئے گا، جس طرح ان لوگوں کو نائب بنایا جو ان سے پہلے گذر چکے ہیں،اور جس دین کو اس نے ان کے لئے پسند فرمایا(اسلام) اس پر انہیں ضرور ضرور پوری قدرت دے گا،اور ان کے خائف ہونے کے بعد امن سے ضرور بدل دے گا،اور وہ میری ہی عبادت کریں گے،اور کسی کو ہمارا شریک نہیں بنائیں گے، اور جو شخص بھی اس کے بعد نا شکری کرے تو ایسے ہی لوگ بدکار ہیں۔
روایات کے مطابق یہ وعدہ امام زما نہ (عج) کے ہاتھوںپورا ہوگا۔(٢)
اسی طرح بہت سی روایتوں میں قرآن کی مختلف آیتوں (٣)کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جو امام مہدی (عج) کی جہانی حکومت پر دلالت کرتی ہیں جنھیں ہم یہاں بیان نہیں کرسکتے(٤)
………………………
(١)سورہ نور۔ آیت ٥٥
(٢) بحار الانوار۔ ج ٥١ ٥٨ ج٥٠ ٣٤ ٦٤
(٣)جیسے یہ آیات ''ویکون الدین کلّمہ للّہ '' ''لیظہرہ علی الدین کلہ'' ''بقیة اللہ خیر لکم''
(٤)بحار الانوار۔ ج٦٤٤٤٥١

چند روایتیں۔
وہ روایتیں جسے شیعہ اور سنی علماء نے آنحضرت ۖ سے نقل کی ہیں حد تواتر سے بھی زیادہ ہیں اور وہ روایتیں جسے صرف سنی علماء نے نقل کیا ہے خود انھیں کے قول کے مطابق وہ روایتیں متواتر ہیں(١) بلکہ اُنھیں علماء میں سے بعض اِس بات کے بھی قائل ہیں کہ حضرت مہدی (عج) پر
اعتقاد تمام اسلامی فرقوں میں پایا جاتا ہے،(٢) انھوں نے حضرت مہدی (عج) اور اُن کے ظہور کے علامات کے سلسلہ میں مختلف کتابیں بھی تحرییر کی ہیں(٢) ان روایتو ںمیں سے ہم چند کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔
اہل سنت نے رسول اکرم ۖ سے متعد د روایتیں نقل کی ہیں جن میں رسول اللہ ۖ فرماتے ہیں:اگر جہان میں سے صرف ایک دن باقی رہ جائے تو خداُ سے اتنا طولانی کردیگا کہ میرے اہل بیت علیہم السلام میں سے ایک فرد کہ جس کا نام میرے ہی نام پر ہوگا عالمی حکومت قائم کرے گا، اور زمین کو اسی طرح عدل و داد سے پر کرے گا جس طرح وہ ظلم و جور سے بھری ہوگی۔(٣)
جناب ام سلمہ رسول خدا ۖسے نقل فرماتی ہیں : آپ نے فرمایا مہدی ( عج) میری عترت اور فاطمہ علیہا السلام کی اولاد سے ہے۔(٤)
…………………………
(١)صواعق ابن حجر۔ص ٩٩، نور الابصار ۔شبلنجی۔ص ١٥٥ اسعاف الراغبین۔ص ١٤٠ الفتوحات الاسلامیہ ۔ج٢ص٢١١
(١) شرح ابن ابی الحدید نہج البلاغہ ج٢ ص ٥٣٥ سبائک الذہب سویدی ۔ص٧٨ غایة المامول ۔ج٥ ص٣٦٢
(٢) کتاب ''البیان فی اخبار صاحب الزمان '' تالیف حافظ محمد بن یوسف گنجی شافعی کتاب '''البرھان فی علامات مہدی آخر الزمان۔ تالیف متقی ہندی
(٣)صیح ترمذی ۔ج٢ ص ٤٦. صحیح ابو داود۔ج٢ ص ٢٠٧ مسند ابن حنبل ۔ج١ ض ٢٧٨ ینابیع المودہ۔ ص ١٨٦ ٢٥٨ ٤٤٠. ٢٨٨. ٢٩٠
(٤)اسعاف الراغبین١٣٤.
جناب ابن عباس رسول اللہ ۖ سے نقل کرتے ہیں کہ آپ ۖ نے فرمایا کہ یقیناً علی علیہ السلام میرے بعد اِس اُمت کے امام ہیں اور اس کی اولاد سے ایک قائم منتظر ،عج، ہے، لہذا جب وہ ظہور کرے گا ،تو ز مین کو اسی طرح عدل و انصاف سے پر کردے گا کہ جس طرح وہ ظلم و جور سے بھری ہو گی۔(١)

غیبت ِاور اُس کا راز ۔
اہل بیت علیہم ا لسلام کی طرف سے امام زمانہ علیہ السلام کے سلسلہ میں جو روایات وارد ہوئی ہیں ان میں آپ کی غیبت کی طرف تاکید ہوئی ہے جیسا کہ عبد العظیم حسنی ،امام محمد تقی اور آپ اپنے جد امام علی علیہم السلام سے نقل فرماتے ہیں کہ ہمارے قائم ،عج، کی غیبت طولانی ہوگی اور شیعوں کو دیکھ رہا ہوں کہ جو بھوکے چوپایوں کی طرح جو اپنی چراگاہوں کی تلاش میں پھرتے ہیں، اسی طرح وہ ہمارے قائم (عج) کی جستجو میں سرگرداں ہوں گے اور اسے نہیں پائیں گے ، یاد رہے کہ اس وقت جو بھی اپنے ایمان پر ثابت رہے گااور حضرت کی غیبت کی وجہ سے قساوت قلب میں مبتلا نہیں ہوگا وہ روز قیامت میر ی صف میں ہوگا، ا س کے بعد فرماتے ہیں کہ جب ہمارا قائم، قیام کرے گا، اُس کی گردن پر کسی کی بیعت نہ ہوگی، اور کوئی ظالم حکمران اُس پر مسلط نہیںہوسکے گا) اِس ہدف کی خاطر وہ پوشیدہ طور پر متولد ہوگا اور نظروں سے اوجھل ہوجائے گا۔(٢)
امام سجاد علیہ السلام اپنے جد حضرت علی علیہ السلام سے نقل کرتے ہیں کہ امام نے فرمایا کہ ہمارے قائم کی دو غیبتیں ہوں گی جن میں سے دوسری غیبت پہلی غیبت سے طولانی ہوگی اُس وقت جو یقین قوی اور معرفت صحیح کا مالک ہوگا وہ اُس کی امامت پر باقی رہے گا۔(٢)
……………………………
(١) ینابیع المودہ ٤٩٤.
(٢)منتخب الاثر ٢٥٥.
(٣) منتخب الاثر ٢٥١.
راز غیبت کومعلوم کرنے کے لئے ائمہ اطہار کی حیات کا اجمالی جائزہ لینا ہوگا۔
یہ نکتہ ہر ایک کو معلوم ہے کہ رسول خدا ۖ کی وفات کے بعد لوگوںنے ابو بکر ، پھر عمر، اُس کے بعد عثمان ،کی بیعت کی، لیکن عثمان کی طرف سے ذات پات کے فرق او ر غیر عادلانہ برتاؤ کی وجہ سے لوگوں نے اُس کے خلاف قیام کر کے اسے قتل کردیا اور پھر امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام کی بیعت کی ۔
حضرت علی علیہ السلام جبکہ خدا و رسول ۖ کی طرف سے خلیفہ تھے لیکن جامعہ اسلامی کی خاطر خلفائ، ثلاثہ کے ادوار میں خاموش رہے فقط اس دور میں اتمام حجت کرتے رہے لیکن اسلام و مسلمین کی منفعت جہاں ہوتی تھی وہاں اپنی کوششوں سے دریغ نہیں کرتے تھے اور جب آپ نے خلافتِ ظاہری کی باگ ڈور سنبھالی تو آپ کے اقتدار کا پورا دور ، اصحاب جمل،نہروان اور معاویہ سے جنگ کرنے میں ختم ہو گیا، آخر کار خوارج میں سے ابن ملجم کے ہاتھوں شہید ہوگئے ۔
امام حسن علیہ السلام بھی معاویہ کے فرمان سے زہر کے ذریعہ شہید کردئے گئے، اور معاویہ کی موت کے بعد اس کا بیٹا یزید کہ جسے اسلام کی کوئی پروا نہ تھی تخت سلطنت پر بیٹھ گیا، اُس کے اعمال و حرکات سے ایسا معلوم ہوتا تھا کہ کچھ ہی برسوں میں اسلام کا کوئی نام و نشان باقی نہیں رہے گا، اِسی وجہ سے امام حسین علیہ السلام نے قیام کے علاوہ کوئی اورچارہ نہیں دیکھا، لہٰذا اپنی مظلومانہ شہادت کے ذریعہ مسلمانوں کو بیدار اور اسلام کو فنا ہونے سے بچالیا ، لیکن اس کے باوجود حکومت عدل کی تشکیل کے لئے شرائط مہیا نہ ہوسکے، اِسی وجہ سے تمام ائمہ اطہار علیہم السلام نے عقائد و معارف احکام، تہذیب نفس اور با صلاحیت لوگوں کو تربیت کرنے میں اپنی عمریں گزار دیں، اورجہاں تک حالات اجازت دیتے تھے پوشیدہ طور پر لوگوں کو ظالموں کے خلاف ابھارتے رہے، اور انھیں حکومت اسلامی کے قائم ہونے کی امید دلاتے رہے یہاں تک کہ اسی راہ میں تمام ائمہ علیہم ا لسلام ایک ایک کر کے شہید کردئے گئے۔
بہر حال ائمہ اطہار علیہم السلام نے ڈ ھائی سو سال کی مدت میں ،جان لیوا مشکلات اور بے شمار زحمتوں کے باوجود لوگوں کو اسلام کے حقائق سے آشنا کرتے رہے ، اُن میں سے بعض نے عمومی طور پر اور بعض نے اپنے اصحاب کے لئے خصوصی طور پر تعلیم و تربیت کا آغاز کیا ، اس طرح انھوں نے معارف اسلامی کے ذریعہ ایک اسلامی سماج تشکیل دینے کی کوشش کی اور شریعت محمد ی ۖ کو بقاء کی ضمانت ملی نیز ممالک اسلامی کے گوشہ و کنار میں ظالموں کے خلاف قیام ہوئے اور ایک حد تک ستمگروں کے ظلم و ستم کا خاتمہ ہوا۔
لیکن جس خبر نے ظالموں کی نیند اڑادی وہ حضرت مہدی (عج) کے ظہور کی خبر تھی جو اُن کی نابودی کی خبر دیتی تھی، اِسی وجہ سے امام حسن عسکری علیہ السلام کو شدت و سختی سے نظر بند کردیا تھا ، تا کہ اگر آپ سے کوئی فرزند پیدا ہو تو اُسے قتل کرڈالیں، اور خود امام حسن عسکری علیہ السلام کو جوانی کے عالم میں زہر سے شہید کرڈالا لیکن خدا کا یہ ارادہ تھا کہ حضرت مہدی (عج) پیدا ہوں ،اور انسانوں کو ان کے ذریعہ نجات مل سکے، اسی وجہ سے جب آپ پیدا ہوئے تو پانچ سال تک کچھ خاص افراد کے علاوہ کوئی بھی آپ کی زیارت نہیں کرسکتا تھا اورجب گیا رہویں امام کا انتقال ہوگیا ،تو لوگوںکا ارتباط آپ سے نواب اربعہ کے ذریعہ ہوتا تھا(١)، اسی طرح ایک مدت گذری گئی اور پھر نا معلوم مدت کے لئے غیبت کبریٰ کا زمانہ شروع ہوگیا، اوریہ زمانہ اُسی وقت ختم ہوگا کہ جب اسلامی معاشرہ میں حکومت جہانی کے قائم ہونے کے لئے شرائط فراہم ہوجائیں اُس وقت امام علیہ السلام خدا کے اِذن سے ظہور کریں گے۔
لہٰذا امام علیہ السلام کی غیبت کا اصلی راز ستمگروں اور ظالموں کے شر سے محفوظ رہنا ہے اِس کے علاوہ روایتو ںمیں دوسری حکمتیں بھی بیان ہوئی ہیں ، منجملہ یہ ہے کہ خدا اِس طرح لوگوں کا امتحان لینا چاہتا ہے کہ ان کے ماننے والے اپنے ایمان میں کس قدر پائدار اور ثابت قدم ہیں۔
…………………………………
(١) عثمان بن سعید ، محمد بن عثمان، حسین بن روح، علی بن محمد سمری.
البتہ زمانہ غیبت میں لوگ آپ کے فیوض و برکات سے محروم نہیں ہیں، بلکہ روایتوں کے مطابق آپ کے فیوض کا سلسلہ اسی طرح لوگوں کے شامل حال ہے۔(١) کہ جس طرح خورشید بادلوں کی پشت سے نور افشانی کرتا ہے، اور آج بھی بہت سے نیک اور صالح افراد اپنی مشکلات اور بلائوں سے خلاصی کے لئے آپ کی خدمت میں مشرف ہوچکے ہیں اس کے علاوہ آپ کا وجود لوگوں کی امید کا سبب ہے ہ وہ آپ کے ظہور کے لئے شرائط کو مہیا کرنے کے ساتھ اپنی اصلاح کریں۔
……………………
(١) بحار الانوار۔ ج٥٢ ص٩٢

سوالات
١۔انبیاء علیہم السلام کی بعثت کا انتہائی ہدف کیا ہے؟
٢۔ یہ ہدف کیسے پورا ہوسکتا ہے؟
٣۔ کون سی آیت حکومت جہانی کے قائم ہونے کی خوشخبری دیتی ہے؟
٤۔ امام مہدی ( عج) کے سلسلہ میں اہل سنت نے جو روایتیں نقل کی ہیں ان میں سے بعض کو بیان کریں؟
٥۔اہل بیت علیہم السلام کی طرف سے حضرت مہدی (عج) کے سلسلہ میں وارد ہونے والی روایتوں میں سے بعض کو بیان کریں؟
٦۔ غیبت صغریٰ اور کبریٰ نیز ان دونوں کے درمیان فرق کو واضح کریں؟
٧۔ امام زمانہ( عج) کی غیبت کا راز کیا ہے؟
٨۔ غیبت کے زمانہ میںلوگ امام زمانہ (عج) سے کیسے ملاقات کر سکتے ہیں۔؟