درس عقائد
 

تیتیسواں درس
قرآن کا تحریف سے محفوظ رہن
مقدمہ
قرآن میںکسی چیز کا اضافہ نہ ہون
قرآن سے کسی چیز کا کم نہ ہون

مقدمہ
جیسا کہ ہم نے پہلے اشارہ کردیا ہے کہ ضرورتِ نبوت کی دلیل کا تقاضا یہ ہے کہ الٰہی پیغامات صحیح و سالم انسانوںتک پہنچیں، تا کہ اس پر عمل کرتے ہوئے انسان اپنی دنیا و آخرت کی سعادتوں تک رسائی حاصل کر سکے۔
لہٰذا قرآ ن کا لوگوں تک پہنچنے تک محفوظ رہنا دوسری آسمانی کتابوں کی طرح محتاج بحث نہیں ہے لیکن ہمیںیہ کہاں سے معلوم کہ دوسری آسمانی کتابیں بشر کے اختیار میں آنے کے بعد تحریفات کا شکار ہوئیں یا ایک مد ت گذرنے کے بعد طاق نسیاں کا شکار ہوگئیں، جیسا کہ آج ہمارے درمیان حضرت ابراہیم و حضرت نوح علیہما السلام کی کتابوں کا کوئی اثر موجود نہیں ہے۔ اور حضرت موسیٰ و حضرت عیسیٰ علیہما السلام کی کتابیں اپنی اصلی حالت میں باقی نہیں ہیں۔ لہٰذا اِن مطالب کے پیش نظر یہ سوال اُٹھتا ہے کہ آج ہمارے پاس جو آسمانی کتاب کے عنوان سے قرآن موجود ہے کیا یہ وہی کتاب ہے جو آنحضرت ۖ پر نازل ہوئی اس میں کسی بھی قسم کی کوئی تحریف ، کمی و زیادتی نہیں ہوئی ہے؟
البتہ وہ لوگ کہ جنھیں اسلام اور مسلمین کی تاریخ کا تھوڑا ، بہت بھی علم ہے ، وہ جانتے ہیں کہ رسول اللہ ۖ اور آپ کے جانشین ائمہ علیہم السلام نے قرآن کی کتابت اور اُس کی آیات کے حفظ کرنے میںکیا اہتمام کیا ہے ، یہاں تک کہ تاریخ کے مطابق تنہا ایک جنگ میں قرآن کے حافظین میں سے سترافراد شہید کردئے گئے، چودہ صدیوں سے قرآن کو تواتر سے نقل کرنے اور اُس کی آیات و کلمات اور حروف کی تعداد کو شمار کرنے میں مصروف ہیں وہ اس بات سے با خبر ہیں ایسے لوگ کھبی بھی قرآن میں معمولی تحریف کا امکان بھی نہیں دے سکتے، لیکن اگر تاریخ کے ایسے قطعی قرائن سے صرف نظر کرلیا جائے تو عقلی و نقلی دلائل کے ذریعہ قرآن کے سالم رہنے کو ثابت کیا جاسکتا ہے، یعنی پہلے مرحلہ میں دلیل عقلی کی بنیاد پر قرآن میں کسی بھی چیز کے زیادہ ہونے کو ثابت کرنے کے بعد خود قرآن کی آیات کے سہار ے اُس میں سے کسی بھی چیز کے کم نہ ہونے کو ثابت کیا جاسکتا ہے۔
اسی وجہ سے قرآن کے سالم رہنے کی بحث کو دو مختلف حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔

قرآن میں کسی چیز کا اضافہ نہ ہونا۔
قرآن میں کسی بھی چیز کے زیادہ نہ ہونے کا مسئلہ تمام مسلمین بلکہ جہان کے تمام باخبر افراد کے نزدیک قبول شدہ ہے، بلکہ کوئی ایسا حادثہ بھی رونما نہیں ہوا کہ جس کی وجہ سے قرآن میں کسی بھی چیز کے زیادہ ہونے کا احتمال دیا جاسکے، اور اِسی اضافہ کے لئے کسی سند کا کوئی بھی وجود نہیں ہے، بلکہ عقلی دلیل کی بنیاد پر اس مسئلہ کو اس طرح باطل کیا جاسکتا ہے کہ اگر یہ فرض کرلیا جائے کہ قرآن کے معانی میں کسی کامل معنی کا اضافہ ہوا ہے تو اُس کا مطلب یہ ہوگا قرآن کا مثل یا نظیر لانا ممکن ہے، حالانکہ اعجاز قرآن اوربشر کی ناتوانی کے پیش نظر یہ امر باطل ہے، اگر یہ فرض کرلیا جائے کہ تنہا ایک کلمہ یا ایک چھو ٹی آیت کا صرف اضافہ ہوا ہے تو اسکا لازمہ یہ ہے کہ نظم سخن میں خلل وارد ہوا ہے اور قرآن اپنی اعجاز آمیز شکل و صورت سے خارج ہوگیا ہے، اور اس صورت میں قابلِ تقلید اور اُس کے مثل لانے کا امکان پیدا ہوجائے گا، اس لئے کہ قرآن، آیتوں کے اعجاز آمیز نظم، کلمات و حروف کے انتخاب پر منحصر ہے ،لہٰذا اُن میں خلل اور تغیر کے وارد ہوتے ہی وہ اپنی اصلی حالت سے خارج ہوجائے گا۔
لہذا جس دلیل کے ذریعہ قرآن کا اعجاز ثابت ہے اُسی دلیل کے ذریعہ قرآن کا اضافات سے محفوظ رہنا ثابت ہے، نیز اُسی دلیل کے ذریعہ کسی کلمہ یا جملہ کا کم ہونا اس کے کم ہوتے ہی حالت اعجاز کے ختم ہوجانے کی نفی کرتا ہے ، لیکن قرآن سے کسی کامل سورہ کے کم نہ ہونے یا قرآن سے ایک کامل مطلب کا اس طرح سے خارج ہوجانا کہ ُاس کے اعجاز میں خلل وارد نہ ہو، اس کے نہ ہونے کو ثابت کرنے کے لئے دوسرے دلائل کی ضرورت ہے۔

قرآن سے کسی چیز کا کم نہ ہونا۔
آج تک علماء اسلام خواہ سنی ہوں یا شیعہ برابر اس امر کی تاکید کرتے رہے ہیں کہ جس طرح قرآن میں کسی چیز کا اضافہ نہیں ہوا اسی طرح اُس سے کچھ کم بھی نہیں ہوا ہے انھوں نے اپنے اِس مطلب کے لئے بے شمار دلیلیں پیش کی ہیں، لیکن احادیث کی کتابوںمیں بعض من گھڑت حدیثوں کو نقل کرنے کی وجہ سے بعض معتبر روایتوں (١) سے غلط مفہوم کو حاصل کرتے ہوئے بعض نے اِس مطلب کا احتمال اور بعض نے قرآن سے بعض آیات کے کم ہونے کی تائید بھی کی ہے۔
قرآن کا کسی بھی قسم کی تحریف خواہ اضافہ کے معنی میں ہو یا کم ہونے کے معنی میں۔
اس سلسلہ میں تاریخ کے قطعی قرائن ہونے کے علاوہ قرآن سے ایسے مطالب کا حذف ہوجانا جو اُس کے اعجاز کو ختم کردے، دلیلِ اعجاز کے ذریعہ باطل ہے بلکہ قرآن کی ایک سورہ یا ایک آیت کے حذف ہونے سے محفوظ رہنے کو خود قرآن کریم کے ذریعہ ثابت کیا جاسکتا ہے۔
یعنی جب یہ امر واضح ہوگیا کہ تمام قرآن خدا کا کلام ہے اور اُس میں ایک حرف کا بھی نہیں ہوا ہے لہذا اُس کی آیات کے مفاہیم نقلی و تعبدی دلائل کے عنوان سے حجت ہیں، لہٰذا قرآن کی آیت
………………………
(١)جیسے کہ وہ روایات جو آیتوں کی تفسیر یا اس کے بیان کرنے یا غلط تفسیروں اور معنوی تحریفوں کو باطل کرنے والی ہیں، جن سے یہ سمجھا گیا ہے کہ وہ قرآن کے کلمات کے حذف ہونے پر دلالت کرتی ہیں۔
سے حاصل ہونے والے مفاہیم میں سے ایک مفہوم قرآن کا خدا کی جانب سے ہر قسم کی تحریف سے محفوظ رہنے کی ضمانت لینا ہے، جبکہ دوسری آسمانی کتابوں کی حفاظت خود اُسی اُمت کے حوالہ تھی(١) یہی مفہوم سورۂ حجر کی آیت نمبر(٩) میں موجود ہے ('اِنَّا نَحنُ نَزَّلنَا الذِکرَ وَاِنَّا لَہُ لَحَافِظُونَ) یہ آیت دو جملوں پر مشتمل ہے، پہلا جملہ(اِنَّا نَحنُ نَزَّلنَا الذَّکرَ) اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ قرآن کو خدا نے نازل کیا ہے اور نزول کے دوران اِس میںکسی بھی قسم کا کوئی تصرف بھی نہیں ہوا ہے اور دوسرا جملہ(وَاِناَّ لَہُ لحَافِظُونَ )اس جملہ میں نہایت تاکید ہوئی ہے جو اِس بات پر دلالت کرتی ہے کہ خدا نے اِس میں کسی بھی قسم کی تحریف نہ ہونے کی ضمانت لے رکھی ہے
یہ آیت اگر چہ قرآن میں کسی بھی قسم کے اضافہ کی نفی کررہی ہے لیکن ایسی تحریف کے نہ ہونے پر اِس آیت سے بھی استدلال نہیں کیا جاسکتا ہے اِس لئے کہ قرآن میں کسی بھی آیت کے اضافہ کے فرض میں وہ آیت خود بھی شامل ہے ،لہٰذا اِس آیت کے ذریعہ اِس فرض کو باطل کرنا صحیح نہیں ہے، اِسی وجہ سے ہم نے قرآن کے معجزہ ہونے کے ذریعہ اس فرضیہ کو باطل کیا ہے اور پھر اِسی آیت کے ذریعہ کسی آیت یا سورہ کا اس طرح سے حذف ہونا جو قرآن کے اعجاز آمیز نظم میں خلل وارد نہ کرے اس قسم کے حذف سے قرآن کے محفوظ رہنے کو بھی ثابت کردیا ہے، پس اسطرح قرآن کا تحریف (خواہ اضافہ کے ساتھ ہو یا حذف ہونے کے ساتھ) سے محفوظ رہنا عقلی اور نقلی دلائل کی ترکیب سے ثابت ہوجاتا ہے۔
اِس بحث کے آخر میں اِس نکتہ کی طرف اشارہ کرنا لازم سمجھتے ہیں کہ قرآن کا تحریف سے محفوظ رہنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ قرآن جہاں بھی ہو کتابت یا قرائت کے اعتبار سے محفوظ یا غلط تفسیراور تحریفِ معنوی سے پوری طرح پاک ہو، یا نزول کے مطابق اس کے سورہ اور آیتیں منظم ہوں
……………………………………
(١)جیسا کہ سورۂ مائدہ کی آیت نمبر (٤٤) میں علماء یہود و نصاریٰ کے سلسلہ میں فرماتا ہے ۔
''…بما استحفظو امن کتاب اللہ وکانوا علیہ شہدائ'
،بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن جس مقدار میں نازل ہوا ہے اسی طرح انسانوں کے درمیان کم و زیادتی کے بغیر موجود ہے تا کہ طالبان حقیقت اپنا مقصود حاصل کرسکیں، لہٰذا قرآن کے بعض نسخوں کا ناقص یا کتابت کے اعتبار سے غلط ہوناقرائتوںکے اختلاف یا نزول قرآن کے مطابق آیات اور سورں کا منظم نہ ہونا مختلف تفسیرں اورمعنوی تحریفوں کا ہونا قرآن کا تحریف سے محفوظ رہنے کے خلاف نہیں ہے۔

سوالات
١۔ قرآن کا تحریف سے محفوظ رہنے کے مسئلہ کو بیان کریں؟
٢۔ تاریخی اعتبار سے قرآن کے تحریف سے محفوظ رہنے پر دلائل کیا ہیں؟
٣۔ قرآن کا محفوظ رہنا کس طرح ثابت کیا جاسکتا ہے؟
٤۔ قرآن میں زیادتی کے نہ ہونے کو ثابت کریں؟
٥۔کس دلیل کی بنیاد پر قرآن سے کچھ بھی کم نہیں ہوا ہے؟
٦۔ کیا انھیں دلیلوں کے ذریعہ قرآن میں اضافہ نہ ہونے کو ثابت کیا جا سکتا ہے ؟ کیوں اور کیسے؟
٧۔اس امر کی وضاحت کریں کہ قرآن کا قرائت یا کتابت کے اعتبا ر سے ناقص ہونا معنوی تحریفوں اور مختلف تفسیروں کا ہونا کیونکر قرآن کا کسی بھی قسم کی تحریف سے محفوظ رہنے کے مسئلہ کے خلاف نہیں ہے ۔؟