تیسواں درس
انبیاء علیہم السلام اور عوام
مقدمہ
یہ بحث مندرجہ ذیل موضوعات پر مشتمل ہے ۔
انبیاء علیہم السلام کے مقابلہ میں لوگوں کا کردار
انبیاء علیہم السلام سے مخالفت کے اسباب
انبیاء علیہم السلام سے ملنے کا طریقہ
انسانی معاشروں کی تدبیر میں بعض سنت الٰہی
مقدمہ
قرآن مجید جہاں گذشتہ انبیاء علیہم السلام کی داستانوں کو ذکر کرتا ہے اور ان کی درخشاں زندگی کے ہرہرگوشہ کی تفصیل بیان کرتا ہے اور اُن کی تاریخ میں موجود تحریفات کے پردے فاش کرتا ہے وہیں انبیاء علیہم السلام کی تبلیغات کے مقابلہ میں لوگوں کے ردّ عمل کی طرف بھی توجہ دلاتا ہے ایک طرف انبیا ء الٰہی علیہم السلام کے مقابلہ میں لوگوں کی مخالفتوں نیز ان کی مخالفت کے اسباب و علل کو بیان کرتا ہے اور دوسری طرف انبیاء علیہم السلام کا لوگوں کو ہدایت اور تربیت کرنے کے علاوہ کفر و شرک جیسے عوامل سے بر سر پیکار ہونے کی طرف بھی اشارہ کرتا ہے نیز انسانی معاشروں میں جاری سنت الٰہی خصوصا انبیاء علیہم السلام اور لوگوں کے درمیان ارتباط کی طرف توجہ دلاتا ہے کہ جس میں عبرت آموز نکات پوشیدہ ہیں۔
یہ مباحث اگر چہ براہ راست اعتقادی مسائل سے مربوط نہیں ہوتی لیکن چونکہ مسائل نبوت سے مربوط بہت سارے روشن پہلو ، مختلفابہامات سے پردہ ہٹانے کے علاوہ تاریخ کے وادثات سے عبرت حاصل کرنے اور انسانی زندگی کو سنوار نے میں نہایت اہم رول ادا کرتے ہیں اسی وجہ سے اس درس میں جو مہم نکات ہیں ان کی طرف اشارہ کیا جا رہا ہے۔
انبیاء علیہم السلام کے مقابل میں لوگوں کا کردار۔
جب بھی انبیاء الٰہی علیہم السلام قیام کرتے اور لوگوں کو خدئے ا واحد(١) اور اس کے احکامات کی اطاعت کرنے نیز باطل خدائوں کی پرستش سے بیزاری، شیاطین اور طاغوت سے کنارہ کشی، ظلم و فساد، گناہ اور معصیت سے پرہیز کرنے کے لئے دعوت دیتے تھے تو انہیں عموماً لوگوں کی مخا لفتوں کا سامنا کرنا پڑتا تھا (٢) مخصوصاً معاشرہ کے وہ افراد جو حاکم اور مالدار ہونے کی وجہ سے اپنے عیش و نوش(٣) میں مست ،علم و دانش(٤) مال و ثروت کی فراوانی پر مغرور تھے، وہ شدت سے مقابلہ کرتے تھے فقیر طبقات کی ایک بڑی جماعت کواپنا حامی بناکر لوگوں کو راہ حق کی پیروی سے روکتے تھے(٥) اور اس طرح صرف وہی لوگ ایمان لاتے تھے جو معاشرہ کے پچھڑے ہوئے طبقہ سے تعلق رکھتے تھے (٦) اور بہت کم ایسا ہوتا تھا کہ ایک سماج صحیح و سالم عقائد اور عدل کی بنیادوں پر قائم ہونے کے ساتھ احکامات الٰہیہ کا مطیع ہوتا جیسا کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے دور میں ایسا سماج دیکھنے میں آیا، اگر چہ انبیاء علیہم السلام کی تعلیما ت کا ایک حصہ آہستہ آہستہ ضرور سماج میں نفوذ کرجاتا تھا، یا کبھی حاکمان وقت کی طرف ان کی جھوٹی عظمتوں کو بتانے کے لئے پیش کیا جاتا تھا ،جیسا کہ آج زیادہ تر حقوقی نظام آسمانی شریعتوں کے اقتباس کا نتیجہ ہیں جنھیں منبع و ماخذ کے بغیر اپنے افکار کے عنوان سے پیش کیاگیا ہے۔
…………………………………
(١) سورۂ نحل۔ آیت/ ٣٦، سورہ انبیاء ۔آیت /٢٥، سورۂ فصلت ۔آیت/ ١٤، سورۂ احقاف۔ آیت/ ٢١
(٢) سورۂ ابراہیم۔ آیت/ ٩، سورۂ مومنون ۔آیت/ ٤٤
(٣) سورۂ سبا۔ آیت/ ٣٤،
(٤) سورۂ غافر ۔آیت/ ٨٣، سورۂ قصص۔ آیت /٧٨، سورہ زمر۔ آیت /٤٩
(٥)سورہ احزاب۔ آیت/ ٦٧، سورہ سبا۔ آیت/ ٣١/٣٣
(٦) سورۂ ہود۔ آیت/ ٤/٢٧/٣١
انبیاء علیہم السلام سے مخالفت کے اسباب۔
انبیاء علیہم السلام سے مخالفت کے اسباب میں سے خواہشات نفسانی اور فحشا سے لگائو(١) کے علاوہ خود خواہی، غرور، اور استکبار ،جیسے عوامل ہیں کہ جو زیادہ تر سماج کے مالدوں اور اثر و نفوذ رکھنے والوں کے درمیان پائے جاتے ہیں(٢) نیز گذشتہ آباو اجداد کی سنتوں کی پیروی بھی مہم عوامل میں سے تھی(٣) ۔اسی طرح دانشمندوں ،حکمرانوں، اور مالداروں کی مخالفت کے اسباب میں سے سماجی مقام اور اقتصادی منابع کو اپنے لئے محفوظ رکھنا تھا(٤)اور دوسری طرف لوگوں کا جہالت اور نادانی کی وجہ سے کفر کے سربراہوں کے دھوکے میں آجانا اور اُن کی پیروی کرنا سبب بنتا تھا کہ وہ کیسے اوہام اور باطل عقائد پر ایمان رکھنے سے دست بردار ہوں اور اس ایمان کو قبول کرنے سے پرہیز کریں جسے صرف چند محروم افراد نے قبول کیا ہے جبکہ یہ لوگ معاشرے کے مالداروں اور شرفا کی جانب سے مطرود و مردود بھی کردیئے جاتے تھے اس کے علاوہ سماج پر حاکم فضاکے اثرات کو بے اثر نہیں سمجھا جاسکتا۔(٥)
………………………………
(١)سورۂ مائدہ۔آیت/٧٠
(٢)سورۂ غافر آیت/٥، سورۂ اعراف آیت/ ٧٦
(٣)سورۂ بقرآیت/ ١٧٠، سورۂ مائدہ آیت/١٠٤، سورہ یو نس آیت/ ٧٨، سورہ انبیاء آیت/٥٣، سورۂ شعرائآیت' ٧٤، سورۂ لقما ن/ آیت ٢١،
سورۂ زخرف آیت/٢٢،٢٣.
(٤)سورۂ ہودآیت /٨٤، ٨٦، سورۂ قصص \آیت /٧٦،٧٩، سورہ تو بہ آیت/ ٣٤.
(٥)سورہ ابرا ہیم /آیت ٢١، سورۂ فاطرآیت/٤٧، سورۂ ہود آیت/٢٧، سورۂ شعراء آیت/٣٤.
انبیاء علیہم السلام سے ملنے کا طریقہ۔
مخالفین ، انبیاء علیہم السلام کی تبلیغات کو ناکام بنانے کے لئے مختلف طریقے اپناتے تھے ۔
الف: تحقیر و استہزاء :
وہ لوگ پہلے مرحلہ میں پیغمبروں کی شخصیت کی تحقیر کرتے اور ان کا مذاق اڑاتے تھے(١) تاکہ لوگ ان سے بد ظن ہوجائیں۔
ب:ناروا بہتان:
اور پھر ان پر بہتان باندھتے تھے نیز ان کی طرف ناروا نسبتیں دیتے تھے جیسے سفیہ و احمق اور مجنون کے نام سے پکارتے تھے(٢) اور جب کوئی معجزہ پیش کرتے تو جادو گر کا نام دیتے تھے(٣) اسی طرح الٰہی پیغاما ت کو اساطیر الاولین کہتے تھے۔(٤)
ج: مجادلہ اور مغالطہ :
اورجب انبیاء الٰہی علیہم السلام حکمت اور دلائل کے ذریعہ استدلال پیش کرتے یا جدال احسن کی صورت میں ان لوگوں سے مجادلہ کرتے یا لوگوں کو نصیحت کرتے ،اور کفر و شرک کے ناگوار نتائج سے آگاہ کرتے نیز خدا پرستی کے نیک انجام کے سلسلہ میں خبر دیتے، اور مومنین کو دنیا و آخرت میں سعادت کی خوشخبری دیتے ،تو کفر کے سربراہ، لوگوں کو ایسی باتوں کے سننے سے منع کرتے اور پھر اپنی ضعیف منطق کے ذریعہ اُن کا جواب دیتے، اس کے علاوہ اس امر میں اپنی پوری کوشش صرف کرتے تھے تا کہ لوگوں کو اُن کی باتوں کے سننے سے روک دیں(٥) وہ لوگ اپنی منطق میں اپنے آباء و اجداد اور بزرگان ملت کے دین اور ان کے رسم و رواج کا سہارالیتے(٦) اس کے
…………………………………
(١) سورۂ حجر۔ آیت ١١، یس آیت ٣٠، زخرف آیت٧، مطففین آیت ٢٩،٣٢.
(٢)سورۂ اعراف آیت ٦٦، سورۂ بقرہ آیت ١٣، سورۂ مومنون آیت ٢٥.
(٣)سورۂ ذاریات آیت٣٩، ٥٢،٥٣.
(٤)سورۂ انعام آیت ٢٥، انفا ل آ یتٍ ٣١، سورۂ نحل آیت ٢٤، مومنون ٨٣، نمل ٦٨، قلم ١٥، مطففین.١٣
(٥)سورۂ نوح ٧، سورۂ فصلت ٢، انعام ١١٢، ،١٢١، سورۂ غافر ٥، ٣٥، اعراف ٧٠، ٧١، کہف ٥٦.
(٦)سورۂ بقرہ ١٧٠، مائدہ ١٠٤، اعراف٢٨، انبیائ٥٣، یونس ٧٨ لقمان ٢١.
علاوہ اپنی مادی ثروت کی چمک دمک، دکھلاتے اور با ایمان لوگوں کے ضعف اور ناداری کو ان کے عقائد کے باطل ہو نے کو دلیل بناتے(١) اور اپنے لئے یہ بہانہ بنالیتے کہ کیوں خدا نے اپنے رسول کو فرشتوں میں سے انتخاب نہیں کیا؟ یا اُن لوگوں کے ساتھ کیوں کسی فرشتہ کو نہ بھیجا؟ یاکیوںانھیں مالدار نہیں بنایا؟(٢) اور کبھی ان کی لجاجت اس حد تک بڑھ جاتی کہ کہتے کہ ہم اسی صورت میں ایمان لا ئیں گے کہ جب ہم پر بھی وحی نازل ہو یا پھر خدا کو ہم دیکھ لیں اور اس کی آواز بلاواسطہ سنیں۔(٣)
د۔ دھمکی دینا اور طمع دلانا : ایک دوسرا طریقہ جو انبیاء علیہم السلام کی داستانوں میں مشاہدہ ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ وہ لوگ انبیاء علیہم السلام، اور اُن کے اطاعت گذ اروں کو مختلف اذیتوں، شکنجوں ،شہر بدر کرنے، سنگ سار کرنے، اور قتل کرنے کی دھمکی دیتے تھے، (٤) اس کے علاوہ مختلف چیزوں کی لالچ دلاتے تھے خصوصاً کثیر دولت کے ذریعہ لوگوں کو انبیاء علیہم السلام کی اطاعت سے روکتے تھے۔(٥)
ھ ۔ خشونت اور قتل: لیکن جب وہ لوگ انبیا ء علیہم السلامی کاصبر و استقامت، اور صلاہت ومتانت کو مشاہدہ کرتے(٦) اور دوسری طرف اُن کے چاہنے والوں کے اخلاص کو دیکھتے تواپنی تبلیغات کے ناکام ہونے اور استعمال کئے گئے ہتھکنڈوں کے ناکارہ ہونے کی صورت میں اپنی دھمکیوں کو عملی کر دیتے اور آزاز و اذیت شروع کردیتے جیسا کہ اسی طرح انھوں نے بہت سے انبیاء الٰہی کو قتل کرڈالا (٧ اورانسانی معاشرہ کو عظیم نعمتوں اور قوم اور سماج کو صالح رہبروں سے محروم کردیا۔
……………………
(١)سورۂ یونس آیت/٨٨،سباء آیت/٣٥،' قلم آیت/ ١٤،مریم آیت /٧٧، مدثر آیت/ ١٢، مزمل آیت/١١، احقاف آیت١١
(٢)سورۂ انعام آیت/٧،٩،اسرائ/ ٩٠،٩٥، فرقان/ ٨٤
(٣)سورۂ بقرہ آیت /١١٨، انعام آیت/١٢٤، نساء آیت/١٥٣
(٤)سورۂ ابراہیم آیت/١٣، ہود آیت/٩١، مریم آیت/ ٤٦، یس آیت /١٨، غافرآیت/٢٦
(٥)انفال آ)یت/ ٣٦
(٦)سورۂ ابراہیم آیت/١٢
(٧)سورۂ بقرہ آیت/٦١،٨٧،٩١، آل عمران آیت/٢١١، ١١٢، ١٨١، مائدہ آیت/٧٠، نساء آیت/١٥٥
انسانی معاشروں کی تدبیر میںبعض سنت الٰہی۔
اگر چہ انبیاء علیہم السلام کی بعثت کا اصلی ہدف یہ تھا کہ لوگ دنیا و آخرت کی سعادت حاصل کرنے میں ضروری تعلیمات سے آشنا ہوجائیں اور اُن کی عقل و تجربہ کا ضعف وحی کے ذریعہ ختم ہوجائے یا ایک دوسری تعبیر کے مطابق اُن کے لئے حجت تمام ہوجائے(١) لیکن خدا نے انبیا ء کی بعثت کے دوران اپنی حکیمانہ تدبیر کے ذریعہ اُن کی دعوتوں کو قبول کرنے کے لئے فضا کو ہموار بنایا ، تا کہ اس طرح انسانوں کے تکامل کے لئے راستہ آسان ہوجائے اور چونکہ خدا اور ا سکے رسول سے روگردانی کے عظیم عوامل میںسے لوگوں کی نہایت مشکلات کے ہوتے ہوئے ان سے غفلت اور بے نیازی تھی (٢) لہٰذا خدا فضاء کو اس طرح ہمو ار کرتا تھا کہ لوگ ان ضرورت مندں کی طرف متوجہ ہوجائیں اور غرور و تکبر کی سواری سے اُتر جائیں اِسی وجہ سے بلائوں کو نازل کرتا اور انھیں سختیوں سے دوچار کردیتا تا کہ مجبور ہو کر اپنی ناتوانی کا احساس کرلیں اور خدا کی طرف متوجہ ہوجائیں۔(٣)
لیکن اس عامل کا اثر ہر ایک پر مؤثر نہ تھا خصوصاً وہ لوگ جو دولت میں سرمست اور سالہا سال لوگوں پر ظلم و ستم کے ذریعہ کثیر مال و دولت جمع کرلی تھی قرآن کی تعبیر کے مطابق ان کے دل پتھر کی طرح سخت ہوچکے تھے وہ ان سب کے باوجود بھی وہ متوجہ نہیں ہوتے(٤) اسی طرح خواب غفلت میں گرفتار رہتے، اور اپنی باطل راہ پر قائم رہتے اُن پر انبیاء علیہم السلام کے مواعظ، عذاب کی دھمکیاں ،اور ان کی نصیحتوں کا کوئی اثر نہیں ہوتا، اور جب خدا اُن سے بلائو ںکو ٹال دیتا، اورانھیں نعمتوں سے نوازدیتا ،تو یہ کہتے کہ نعمتوں اور بلاوں کا آنا جانا زندگی کا ایک لازمہ ہے اور ایسا تو ہوتا
…………………………………………………
(١)سورۂ نساء آیت/٦٥، طہ آیت/١٣٤
(٢) سورۂ علق آیت/٦
(٣)سورۂ انعام آیت/٤٢،اعراف آیت /٩٤
(٤)سورۂ انعام آیت /٤٣، سورۂ مومنون آیت/ ٧٦
رہتا ہے نیز ایسا تو گذشتہ لوگوں کے ساتھ بھی ہوا ہے (١) اور حسب سابق مال کو جمع کرنے اور ظلم و ستم میں مشغول ہوجاتے، حالانکہ غافل تھے کہ نعمتوںکی افزائش دنیا و آخرت میں بدبخت ہونے کے لئے ان کے واسطے ایک حیلہ ہے(٢)۔
بہر حال جب بھی انبیاء الٰہی علیہم السلام کے پیروکار تعداد کے اعتبار سے اس حد تک ہو جاتے کہ وہ ایک مستقل جامعہ تشکیل دے سکتے اور اُن میں دفاع کی قوت آجاتی تو انھیں دشمنان خدا سے جہاد کے لئے حکم دے دیا جاتا تھا(٣) اور ان کے ہاتھوں جماعت کفار پر عذاب الٰہی نازل ہوتا تھا(٤) وگرنہ مومنین انبیاء علیہم السلام کے حکم سے کنارہ کشی اختیار کر لیتے اور پھر اُن پر بازگشت اور ایمان لانے کی ناامیدی کے بعد عذاب نازل ہو جاتا تھا(٥) یہ ہے وہ سنت الٰہی جو کبھی بھی نہیں بدلتی۔(٦)
…………………………
(١)سورۂ اعراف آیت /١٨٣، ٩٥
(٢)سورۂ اعراف آیت/١٩٣،١٨٢، آل عمران آیت/ ١٧٨، توبہ آیت/٥٥،٥٨، مومنون آیت/ ٥٤،٥٦
(٣)سورۂ آل عمران آیت /١٤٦
(٤)سورۂ عنکبوت آیت/٤١٠. اور بہت سے دوسرے مقامات پر قرآن میں ذکر ہوا ہے
(٥)سورۂ آل عمران آیت/١٤٦
(٦)سورۂ فاطر آیت/٤٣، غافر آیت/٨٥، اسراء آیت/٧٧
سوالات
١۔ انبیا ء علیہم السلام کی دعوت کے مقابل میں لوگوں کا رد عمل کیا تھا؟
٢۔ انبیاء علیہم السام سے مخالفت کے اسباب کیا ہیں؟
٣۔ انبیاء علیہم السلام کے مخالفین کیسے کیسے طریقے اپناتے تھے؟
٤۔ انبیاء علیہم السلام کی بعثت اور ان کے مقابل میں لوگوں کی مخالفت کی صورت میں سنتِ الٰہی کیا ہوتی تھی؟
|