درس عقائد
 

اٹھائیسواں درس
چند شبہات کا حل
کیا اعجاز اصل علیت کے لئے ناقض نہیں ہے؟
یہ بحث مندرجہ ذیل موضوعات پر مشتمل ہے۔
کیا خارق عادت امور سنت الٰہی میں تغیر ایجاد کرنے کے مترادف نہیں ہیں؟
کیوں رسول اکرم ۖ معجزات پیش کرنے سے خودداری فرماتے تھے؟
کیا معجزات برہان عقلی ہیں یا دلیل اقناعی؟

چند شبہات کا حل۔
مسئلہ اعجاز کے سلسلہ میں چند شبہات ہیں کہ جن کے جوابات اِس درس میں دئے جائیں گے۔

پہلا شبہ یہ ہے
کہ ہمیشہ مادی موجودات کا وجود میں آنا ،کسی خاص علت کی بنیاد پر ہوتا ہے کہ جنھیں علمی آزمائشات کے ذریعہ معلوم کیا جاسکتا ہے، اور کسی موجود کی علتوں کا نا شناختہ رہ جانا، اس موجود کے لئے علت نہ ہونے پر دلیل نہیں ہے، لہٰذا خارق عادت امور کو اِس عنوان سے قبول کیا جاسکتا ہے ،کہ وہ ناشناختہ علل و عوامل کے ذریعہ وجود میں آئے ہیں، اور جب تک ان امور کے علل و اسباب نا شناختہ ہیں اس وقت تک انھیں حیرت انگیز امور میں شمار کیا جاسکتا ہے، لیکن قابل شناخت علتوں کا انکار علمی آزمائشوں کے ذریعہ اصل علیت کے نقض کے معنی میں ہے اور غیر قابل قبول ہے۔
اِس شبہ کا جوا ب یہ ہے کہ اصل علیت کا صرف تقاضا یہ ہے کہ کسی بھی وابستہ موجود ، یا معلول کے لئے علت کا ہونا ضروری ہے، لیکن تمام علتوں کا آزمائشوں کے ذریعہ قابل شناخت ہونا کسی بھی صورت میں اصل علیت کا لازمہ نہیں ہے اور اس لازمہ کے لئے کوئی دلیل بھی نہیں ہے اس لئے کہ علمی آزمائش امور طبیعی میں محدود ہیں، اور کسی بھی صورت میں ماوراء طبعیت امورکے وجود ، یا عدم یا اُ س کی اثر گذاری کو آزمائش و سیلئہ کے ذریعہ ثابت نہیں کیا جاسکتا۔
لیکن اعجاز کی تفسیر ناشناختہ علتوں سے آگاہی کے معنی میں صحیح نہیں ہے، اس لئے کہ اگر یہ آگاہی عادی علتوں کے ذریعہ حاصل ہوئی ہو تو اِس میں اور بقیہ عادی موجودات میں کوئی فرق نہیں ہونا چاہیے اور کسی بھی صورت میں اُسے خارق عادت امر نہیں کہا جا سکتا، اور اگر آگاہی غیر عادی طریقہ سے حاصل ہوئی ہو تو اُسے خارق عادت امور میں سے شمار کیا جائے ، لیکن جب وہ اذن الٰہی پر منحصر اور نبوت کی دلیل ہو تو معجزہ کی قسموں میں شامل ہے، جب کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا لوگوں کے ذ خائر اور خوراک سے آگاہی آپ کے معجزات میں سے تھا(١) لیکن معجزہ کو صرف اِسی ایک قسم میں منحصر نہیں کیا جاسکتا، اس اعتبار سے کہ بقیہ اقسام کی نفی کردی جائے لیکن پھر بھی یہ سوال اپنی جگہ باقی ہے کہ ایسے امور اور بقیہ خارق عاد ت امور میں اصل علیت کے اعتبار سے فرق کیا ہے؟

دوسرا شبہ یہ ہے
کہ خدا کی ہمیشہ یہ سنت رہی ہے کہ وہ کسی بھی موجود کو کسی خاص علت کے سہارے وجود میں لاتا ہے، اور قرآن کی آیتوں کے مطابق سنت الٰہی قابل تغیر نہیں ہے۔(٢)
لہٰذا خارق عادت امور سنت الٰہی میں تغیر و تبدل کا سبب بنیں ، مذکورہ آیتوں کی بنیاد پر یہ بات غیر قابل قبول ہے؟
یہ شبہ بھی گذشتہ شبہ سے مشابہ ہے بس فرق اتنا ہے کہ گذشتہ شبہ میں عقلی دلائل استعمال ہوئے تھے اور اس شبہ میں قرآنی آیت کا سہارا لیا گیا ہے اس شبہ کا جواب یہ ہے کہ موجودات کے علل و اسباب کو عادی علل و اسباب میں منحصر سمجھنے کو تغیر ناپذیر سنت الٰہی کا جز سمجھنا بے بنیاد بات ہے، اس کی مثال ایسی ہی ہے ، جیسے کوئی یہ دعویٰ کرے کہ علت حرارت کا آگ میں منحصر ہونا خدا کی تغیر ناپذیر، سنتوں میں سے ہے، اِیسے د عووں کے مقابلہ میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ مختلف معلولات کے لئے مختلف
……………………
(١)سورۂ آل عمران۔ آیت/ ٤٩.
(٢) سورۂ بنی اسرائیل۔، آیت/ ٧٧،.سورۂ احزاب۔ آیت/ ٦٢. سورۂ فاطر۔ آیت/ ٤٣ سورۂ فتح۔ آیت/ ٢٣.
علتوں اور اسباب عادی کے لئے غیر عادی اسباب کا جمع ہونا ایک ایسا امر ہے جو ہمیشہ دیکھا گیا ہے
اور اس وجہ سے ُاسے سنت الٰہی کا جزء شمار کرنا چاہیے اور اسباب کے عادی اسباب میں منحصر ہونے کو
اُس کے لئے ایک قسم کا تغیر سمجھنا چاہیے کہ کی قرآن نے نفی کی ہے۔
بہر حال ان آیتوں کی تفسیر کرنا جو سنت الٰہی کے تغیر ناپذیر ہونے پر دلالت کرتی ہیں، اس 'صورت میں کہ عادی اسباب کا جانشین قبول نہ کرنا اس عنوان کے تحت ہے کہ وہ خدا کی تغیر ناپذیر سنتوں میں ہے ایک بے بنیاد تفسیر ہے، بلکہ بہت سی وہ آیا ت جو معجزات اور خارق عادت امور کے ہونے پر دلالت کرتی ہیں،' اس تفسیر کے باطل ہونے کے لئے ایک محکم دلیل ، بلکہ اُن آیتوں کی صحیح تفسیر کو تفسیر کی کتابوں میں تلاش کرنا ہوگا اور ہم اس مقام پر صرف ایک اجمالی اشارہ کریں گے کہ یہ آیات ،معلول کی اپنی علت سے مخالفت نہ کرے پر دلالت کرتی ہیں نہ یہ کہ علتوں کا متعدد ہونا یا علت عادی کی جگہ علت غیر عاد ی کے آ جانے کی نفی کرتی ہیں بلکہ شاید یہ کہا جا سکتا ہے کہ تاحد یقین اسباب کی تأثیر اور غیر عادی علل ان آیتوں کے موارد میں سے ہیں۔

تیسرا شبہ یہ ہے
کہ قرآن کے مطابق لوگ بارہا رسول اکرم ۖ سے معجزہ کی درخواست کرتے تھے اور آنحضرت ایسی خواہشوں کے جواب سے خودداری فرماتے تھے(١)لہذا اگر معجزہ نبوت کو ثابت کرنے کا وسیلہ ہے تو پھر کیوں آنحضرت ۖ اس وسیلہ کے استعمال سے خودداری فرماتے تھے؟
اس شبہ کا جواب یہ ہے کہ ایسی آیتیں ان درخواستوں سے مربوط ہیں جو اتمام حجت اور ( ضحیح قرائن صدق، گذشتہ انبیاء (ع)کی بشارتیں، اورمعجزات کے ذریعہ آپ کی نبوت کے اثبات کے بعد) ضد اور عناد کی وجہ سے کی جاتی تھیں(٢) اورحکمت الٰہی کا تقاضا یہ تھا کہ ایسی خواہشو ں کا جواب نہ دیا جائے۔
………………………
(١)سورۂ انعام۔ آیت/ ٣٧ سورۂ یونس۔ آیت /٢٠ سورۂ رعد۔ آیت /٧ سورۂ انبیا ۔ آیت/ ٥
(٢) سورۂ انعام۔ آیت/ ٣٥ ١٢٤ سورۂ طہ۔ آیت /١٣٣ سورۂ صافات ۔آیت /١٤ سورۂ قمر۔ آیت /٢ سورۂ شعراء ۔آیت /٣ ٤ ١٩٧ سورۂ اسرائ۔ آیت /٥٩ سورۂ روم۔ آیت /٥٨

مزید وضاحت:
معجزہ اِس جہان میںموجوہ نظام کے درمیان ایک علیحدہ مسئلہ ہے جسے لوگوں کی خواہشوں کو پورا کرے (جیسے ناقۂ حضرت صالح ـ ) اور کبھی بطور ابتدائی (جیسے حضرت عیسی کے معجزات) انجام دیا جاتا تھا، لیکن اس کا ہدف خدا کے انبیاء (ع)کو پہچنوانا اور لوگوں پر حجت کو تمام کرنا تھا، لہٰذا معجزہ کا پیش کرنارسولوں کی دعوتوں کو جبراً قبول کرنے اور اُن کے احکامات کے سامنے مجبوراً تسلیم ہوجانے کے لئے نہیں تھا اور نہ ہی وقت گذارنے کے لئے ایک کھیل اور عادی اسباب و مسببات میں ہنگامہ ایجاد کرنے کے لئے تھا، اور ایسے ہدف کے ہوتے ہوئے ایسی خواہشوں کا جواب کبھی نہیں دیا جا سکتا، بلکہ ایسی خواہشوںکاجواب دینا حکمت کے خلاف ہوگا، یہ خواہشیں ان درخواستوں سے مشابہ ہیں کہ جو ایسے امور سے مربوط تھیں کہ جس کی وجہ سے راہ اختیار ختم ہوجاتا، اور لوگوںکو انبیا ء علیہم السلام کی دعوت قبول کرنے کے لئے مجبور ہونا پڑتا، یا ان درخواستوں کی طرح ہیں کہ جنھیں عناد اور دشمنی یا حقیقت طلبی کے علاوہ کسی دوسرے اغراض کے تحت پیش کئے کرتے تھے، اس لئے کہ ایسی درخواستوں کا جواب دینے کی وجہ سے معجزات کھلونا بن جاتے اور عوام اُسے اپنے لئے وقت گزارنے کا بہترین وسیلہ تصور کرلیتی، یا اپنے شخصی منافع حاصل کرنے کے لئے رسول ۖ کے پاس جمع ہوجاتی، اور دوسری طرف آزادانہ اختیار،و انتخاب کا راستہ بند ہوجاتا، اس کے علاوہ لوگ مجبور ہو کر انبیاء علیہم السلام کی اطاعت قبول کرتے، اور یہ دونوں صورتیں معجزات کے پیش کرنے کی حکمت کے خلاف ہیں، لیکن ان مقامات کے علاوہ جہان حکمت الٰہی کا تقاضا ہو،وہاں ان کی خواہشوں کا جواب دے دیا جاتا تھا جیسا کہ رسول اکرم ۖکے بے شمار معجزات قطعی سند کے ساتھ ثابت ہیں، جن میں ہر ایک سے واضح اور جاودانی قرآن کریم ہے کہ جس کی وضاحت انشاء اللہ آئندہ آئے گی۔

چوتھا شبہ یہ ہے
کہ معجزہ چونکہ اذن الٰہی پر منحصر ہے جو اس بات کی علامت ہوسکتا ہے کہ خدا اور معجزہ دکھانے والے کے درمیان خاص ارتباط پایا جاتا ہے اس لئے کہ اُسے خدا نے یہ خاص اجازت عنایت کی ہے، یا ایک دوسر ی تعبیر کے مطابق اس نبی نے اپنی خواہش اور عمل کو اُس کے ارادہ کے ذریعہ تحقق بخشا ہے، لیکن ایسے ارتباطات کا عقلی لازمہ یہ نہیں ہے کہ اُس میں اور خدا کے درمیان اُس ارتباط کے علاوہ دوسرے ارتباطات بھی پائے جاتے ہوںلہذا معجزہ کو د عوی نبوت کے صحیح ہونے پر دلیل عقلی نہیں مانا جاسکتا، بلکہ اُسے صرف ایک ظنی اور قانع کردینے والی دلیل کا نام دیا جاسکتا ہے۔
اس شبہ کا جواب یہ ہے کہ خارق عادت امور اگرچہ الٰہی کیوں نہ ہوں، خود بخود رابطہ وحی کے ہونے پر دلالت نہیں کرتے اِسی وجہ سے اولیاء علیہم السلام کی کرامت کو اُن کے نبی ہونے کی دلیل نہیں مانی جاسکتی لیکن یہاں بحث اس شخص کے سلسلہ میں ہے جس نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے اور اپنے دعویٰ کو ثابت کرنے کے لئے معجزہ دکھایا ہے اب اگر یہ فرض کرلیا جائے کہ اس نے نبوت کا جھوٹا دعویٰ کیا ہے(١)، جو عظیم اور بدترین گناہوں میں سے ہونے کے علا وہ دنیا و آخرت میں تباہی کا موجب بھی ہے، اُس میں ہرگز خداُ سے ایسے ارتباط کے برقرار ہونے کی صلاحیت نہیں ہوسکتی، اور خدا کبھی بھی ایسے فرد کو معجزہ کی قدرت عطا نہیں کرسکتا کہ جس کی وجہ سے لوگ گمراہ اور بدبخت ہوجائیں(٢)

نتیجہ:
عقل بخوبی درک کرتی ہے کہ صرف وہی شخص خدا سے خاص ارتباط برقرار کرنے اور معجزہ کی قدرت سے سرفراز ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے کہ جو اپنے مولا سے خیانت نہ کرے اور ا سکے بندوں کی گمراہی اور بدبختی کا موجب نہ بنے، لہٰذا معجزہ کا پیش کرنا د عوای نبوت کے صحیح ہونے پر ایک قاطعِ دلیل عقلی ہے۔
……………………
(١)سورۂ انعام۔ آیت/ ٢١ ٩٣ ١٤٤ سورۂ یونس ۔آیت/ ١٧ سورۂ ہود۔ آیت /١٨ سورۂ کہف ۔آیت/ ١٥ سورۂ عنکبوت۔ آیت/ ٦٨ سورۂ شوریٰ۔ آیت /٢٤
(٢)سورۂ الحاقہ۔ آیت /٤٤ ٤٦

سوالات
١۔ اصل علیت کا مطلب کیا ہے؟ اور اسکا لازمہ کیا ہے؟
٢۔ کیوں اصل علیت کو مان لینا اعجاز کوقبول کرنے کے خلاف نہیں ہے؟
٣۔ کیوں اعجاز کی تفسیر ناشناختہ علتوں سے آگاہی کے معنی میں صحیح نہیں ہے؟
٤۔ کیا اعجاز کو قبول کرلینا تغیر ناپذیر سنت الٰہی کے خلاف نہیں ہے؟ کیوں؟
٥۔ کیاانبیاء علیہم السلام ابتداء امر میں معجزات پیش کرتے تھے یا جب لوگوںکی طرف سے درخواست ہوئی تو اس وقت اپنا معجزہ پیش کرتے تھے؟
٦۔ کیوں انبیا ء علیہم السلام معجزہ کے حوالے سے بعض خواہشوں کا جوا ب نہیںدیتے تھے؟
٧۔ اس امر کی وضاحت کریں کہ معجزہ ایک دلیل ظنی اور اقناعی نہیں ہے بلکہ ادعاء نبوت کے سچے ہونے پر ایک عقلی دلیل ہے؟