درس عقائد
 

پچیسواں درس
انبیاء (ع)کے معصوم ہونے کی دلیلیں
مقدمہ
یہ بحث مندرجہ ذیل موضوعات پر مشتمل ہے
عصمت انبیاء (ع) پر عقلی دلائل
عصمت انبیاء (ع) پر نقلی دلائل
عصمت انبیاء (ع) کاراز

مقدمہ
شیعوں کے معروف اور قطعی عقائد میں سے انبیاء (ع) کا عمدی اور سہوی گناہوں سے معصوم ہونے کا عقیدہ ہے جس کی ائمہ علیہم السلام نے اپنے پیروکاروں کو تعلیم دی ہے اور اپنے مختلف بیانات کے ذریعہ دشمنوں کے اقوال کو باطل قرار دیاہے ائمہ علیہم السلام کا عصمت انبیاء (ع) کے سلسلہ میں اپنے دشمنوں سے احتجاجات میں سے سب سے زیادہ مشہور امام رضا علیہ السلام کا احتجاج ہے جو کتب حدیث اور تاریخ میں درج ہے۔
لیکن مباح امور میں انبیاء علیہم السلام کا سہو و نسیان باعث اختلاف رہا ہے اور ائمہ علیہم السلام کی جانب سے وارد ہونے والی روایات، اختلاف سے خالی نہیں ہیں، جس کے سلسلہ میں تحقیق و جستجو اِس بحث کی وسعت سے خارج ہے، لیکن اتنا مسلم ہے کہ اِسے ضروری اعتقادات میں سے شمار نہیں کیا جا سکتا ، اور وہ دلائل جو انبیاء علیہم السلام کی عصمت کے تحت بیان کئے گئے ہیں دو حصوں میں تقسیم ہوتے ہیں۔


١۔ عقلی دلائل۔
٢۔ نقلی دلائل۔
اگر چہ اس بحث میں زیادہ تر اعتماد نقلی دلائل پر کیاگیا ہے، ہم یہاں دو دلیلوں کے بیان کرنے پر اکتفا کرتے ہیں اور اس کے بعد کچھ قرآنی دلائل کو ذکر کریں گے۔

عصمت انبیاء (ع)پر عقلی دلائل۔
انبیاء علیہم السلام کا گناہوں کے ارتکاب سے معصوم رہنے پر پہلی عقلی دلیل یہ ہے کہ ان کی بعثت کا پہلا ہدف انسانوں کو اُن حقائق اور وظائف کی طرف ہدایت کرنا ہے جسے خدا نے انسانوں کے لئے معین فرمایا ہے، در حقیقت یہ لوگ انسانوں کے درمیان خدا کے نمائندے ہیں ،کہ جنھیں لوگوں کو راہ راست کی طرف ہدایت کرنا ہے، لہذا اگر ایسے نمائندے دستورات خدا کے پابند نہ ہوں اور اپنی رسالت کے بر خلاف اعما ل کے مرتکب ہوں تو لوگ اُن کے اعمال کو اُن کی گفتار سے جدا کہیں گے اور اِس طرح لوگوں کا اعتماد اُن کی گفتار پر ختم ہوجائے گا اور یوں اُن کی بعثت کا ہدف مکمل نہ ہوسکے گا، لہذا حکمت الٰہی کا تقاضا یہ ہے کہ انبیاء (ع) پاک اور تمام گناہوں سے دور ہوں بلکہ سہو و نسیان کی بنیاد پر کوئی نا شائستہ عمل بھی انجام نہ دیں، تا کہ لوگوں کو یہ گمان ہونے لگے کہ انھوں نے سہو و نسیان کو گناہوں کے ارتکا ب کے لئے بہانہ بنالیا ہے۔
عصمت انبیاء علیہم السلام پر دوسری عقلی دلیل یہ ہے کہ وہ وحی کو لوگوں تک پہنچانے اور انھیں راہ مستقیم کی طرف ہدایت کرنے کے علاوہ ان پر لوگوں کی تربیت اور تزکیہ کی بھب ذمہ داری ہے تا کہ وہ مستعدا افراد کو کمال کے آخری منازل تک لے جائیں یا ایک دوسری تعبیر کے مطابق تعلیم اور ہدایت کے وظیفہ کے علاوہ وظیفہ تربیت کے بھی ذمہ دار ہیں،اور وہ بھی ایسی تربیت جو سماج کے برجستہ اور عاقل حضرات کو بھی شامل ہوتی ہے۔
لہٰذا ایسے مقامات انھیں لوگوں کے لئے شائستہ ہیں کہ جو انسانی کمالات کے اعلیٰ مقامات پر فائز ہوں اور ملکہ نفسانی (ملکہ عصمت) کے عظیم درجہ پر فائز ہو۔
اس کے علاوہ مربی کا کردار افراد کی تربیت کرنے میں ،اُس کی گفتار سے کہیں زیادہ موثر ہوتا ہے اور وہ افرادجو کردار کے اعتبار سے عیوب اور نقائص کے حامل ہو تے ہیں ان کی گفتار بھی مطلوب تاثیر سے برخوردار نہیں ہو سکتی،لہذا انبیاء علیہم السلام کی بعثت اس عنوان کے تحت کہ وہ سماج کے مربی ہیں اسی صورت میں قابل تحقق ہے کہ جب ان کا کردار اور ان کی گفتار ہر قسم کی خطا سے محفوظ ہو۔

عصمت انبیاء (ع) پر نقلی دلائل۔
١۔ قرآن کریم بعض انسانوں کو مخلص(١) (جنھیں خدا کے لئے خالص کردیا گیا ہو) کے نام سے یاد کرتا ہے یہاں تک کہ ابلیس بھی انھیں گمراہ کرنے کی طمع نہیں رکھتا جیسا کہ قرآن نے اُس کے قول کو نقل کیا ہے کہ وہ تمام انسانوں کو گمراہ کرے گا لیکن مخلصین اُس کی دسترس سے خارج ہیں۔ سورۂ ص کی آیت نمبر (٨٣٨٢) میں ہے :
(قَالَ فَبِعِزَّتِکَ لَاُوِیَنَّہُم اَجمَعِینَ ٭ اِلَّا عِبَادَکَ مِنہُمُ المُخلَصِینَ)
وہ بولا تیری ہی عزت و جلال کی قسم ان میں سے تیرے خالص بندوں کے سوا سب کو گمراہ کروں گا۔
اور بے شک ابلیس کا انھیں گمراہ نہ کرنے کی طمع اُس عصمت کی وجہ سے ہے جو انھیں گناہوں سے مقابلہ میں حاصل ہے، وگرنہ وہ تو اُن کا بھی دشمن ہے اگر اُسے موقع مل جائے تو اُنھیں بھی گمراہ کئے بغیر نہ چھوڑے۔
………………………………
(١)اس بات کی طرف توجہ ہے کہ مخلَص لام کے فتحہ کے ساتھ،مخلِص لام کے کسرہ کے ساتھ جدا ہے، مخلَص لام کے فتحہ کے ساتھ کا مطلب یہ ہے کہ خدا نے شخص کو خالص بنادیا ہو ،اورمخلِص لام کے کسرہ کے ساتھ اس کا مطلب یہ ہے کہ شخص نے اپنے اعمال اخلاص کے ساتھ انجام دئے ہوں۔
لہٰذا عنوان (مخلَص) عنوان (معصوم) کے مساوی ہے، اگر چہ ہمارے پا س اس صفت کا انبیاء (ع) سے مخصوص ہونے کے لئے کوئی دلیل نہیں ہے لیکن اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ یہ صفت انبیاء (ع) کو بھی حاصل ہے جیسا کہ خود قرآن نے بعض انبیاء (ع) کو مخلصین میں سے شمار کیا ہے سورۂ ص کی آیت (٤٦٤٥) میں فرماتا ہے :
(وَاذکُر عِبٰدِنَا اِبرَاہِیمَ وَ اِسحَاقَ وَ یَعقُوبَ اُولِی الاَیدِ وَالاَبصَارِ٭
اِنَّا اَخلَصنَا ہُم بِخَالِصَةٍ ذِکرَیٰ الدَّارِ)
اے رسول! ہمارے بندو ںمیں ابراہیم اسحاق اور یعقوب (ع)کو یاد کرو جو قوت و بصیرت والے تھے ہم نے ان کو ایک خاص صفت کی یاد سے ممتاز کیا تھا۔
اور سورۂ مریم کی (٥١) آیت میں فرماتا ہے :
(وَاذکُر فِ الکِتَابِ مُوسیٰ اِنَّہُ کَانَ مُخلَصاً وَ کَانَ رَسُولاً نَّبِیاً)
اے رسول ۖ! قرآن میں موسیٰ ـکا تذکرہ کرو اس میں شک نہیں کہ وہ میرا برگزیدہ اور بھیجا ہوا صاحب شریعت نبی تھا۔
اس کے علاوہ قرآن نے یوسف علیہ السلام کا سخت ترین لحظات میں محفوظ رہنے کو اُن کے
مخلص ہونے سے نسبت دے رہا ہے جیسا کہ سورۂ یوسف کی آیت (٢٤) میں فرماتا ہے:
(کَذَالِکَ لِنَصرِفَ عَنہُ السُّوئَ وَالفَحشَائَ اِنَّہُ مِن عِبَادِناَ المُخلَصِینَ)
ہم نے اُس کو یوں بچایا تا کہ ہم اس سے برُائی اور بدکاری کو دور رکھیں بے شک وہ ہمارے مخلص بندوں میں سے تھا۔
٢۔ قرآن انبیاء (ع) کی اطاعت کو مطلق قرار دے رہا ہے جیسا کہ سورۂ نساء کی آیت (٦٤) میں فرماتا ہے: (وَمَا اَرسَلنَا مِن رَّسُولٍ اِلَّا لِیُطَاعَ بِاِذنِ اللَّہِ)
اور ہم نے کوئی رسول نہیں بھیجا مگر اس واسطے کہ خدا کے حکم سے لوگ اس کی اطاعت کریں۔
اور ان لو گوں کی مطلق اطاعت اُسی صورت میں صحیح ہے کہ جب ان کی اطاعت اطاعت خدا ہو، اور ان کی پیروی کرنا اطاعت خدا کے خلاف نہ ہو وگرنہ ایک طرف خدا کی اطاعت کا حکم اور دوسری طرف اُن لوگوں کی اطاعت کا حکم جو خطائوں سے محفوظ نہیں ہیں غرض کے خلاف ہوگا۔
٣۔ قرآن نے الٰہی منصبوں کو انھیں لوگوں سے مخصوص جانا ہے ،کہ جن کے ہاتھ ظلم سے آلودہ نہ ہوں، جیسا کہ قرآن حضرت ابراہیم علیہ السلام کے جواب میں فرماتا ہے، کہ جب انھوں نے منصب امامت کی اپنی اولاد کے لئے درخواست کی (لَا یَنَالُ عَہدِ الظَّالِمِینَ)(١)
فرمایا ہاں! مگر میرے اس عہد پر ظالموں میں سے کوئی شخص فائز نہیں ہو سکتا ۔
اور ہمیں بخوبی معلوم ہے کہ ہر گناہ نفس پر ایک ظلم ہے اور قرآن کی زبان میں ہر گنہگار ظالم ہے، پس انبیاء الٰہی جو منصب الٰہی کے ذمہ دار ہوتے ہیں ،ہر قسم کے گناہ اور ظلم سے پاک ہوتے ہیں۔

عصمت انبیاء (ع) کا راز ۔
اس درس کے اختتام پر بہتر ہے کہ ہم انبیاء (ع) کے معصوم ہونے کے اسرار کی طرف ایک مختصر اشارہ کردیں،لہذا انبیاء علیہم السلام کا وحی کو حاصل کرنے میں معصوم ہونے کا راز یہ ہے کہ اصولاً وحی کو درک کرنا خطا بردار ادراکات سے ممکن نہیں ہے اور جو بھی اسے حاصل کر لینے کی صلاحیت سے سرفراز ہو، وہ ایک ایسے علم کی حقیقت کا مالک ہے جسے وہ اپنے سامنے حاضر پاتا ہے، او روحی سے اس کا رابطہ ہوتا ہے ،خواہ وہ وحی لانے والا فرشتہ ہویا کوئی اور ہو بخوبی اُسے مشاہدہ کرتا ہے (٢) اور اس بات کا کوئی امکان نہیں ہے کہ و حی حا صل کرنے والا شک میں مبتلا ہوجائے کہ اس پر وحی ہوئی ہے یا نہیں؟ یا کس نے اس پر نازل کی ہے؟ یا وحی کے مطالب کیا ہیں؟ اور اگر بعض من گھڑت
………………………………
(١)سورۂ بقرہ۔ آیت ١٢٤.
(٢) قرآن اس سلسلہ میں فرماتا ہے :(مَاکَذَبَ الفُؤَادُ مَارَأیٰ)سورۂ نجم ۔آیت ١١
تو جو کچھ انہوں نے دیکھا ان کے دل نے جھوٹ نہ جانا۔
داستانوں میں آیا ہے کہ مثلاً کسی نبی نے اپنی نبوت میں شک کیا ،یا وحی کے مطلب کو بھلادیا ،یا وحی نازل کرنے والے کو پہچان نہ سکا، یہ سب کچھ صاف بہتان ہے اور ایسے بہتان بالکل اسی طرح ہیں کہ کوئی اپنے وجود یا کسی حضوری اور وجدانی امر کے تحت شک کرے!!
لیکن انجام وظائف (لوگوں تک پیغام الٰہی کے پہچانے) میں انبیا ء علیہم السلام کی عصمت کے راز کو بیان کرنے کے لئے ایک مقدمہ کی ضرورت ہے اور وہ یہ ہے کہ انسان کے اختیاری افعال اس صورت میں انجام پاتے ہیں، کہ جب انسانوں کے باطن میں اُس کے انجام دینے میں رجحان ہو ،جو مختلف اسباب و عوامل کے نتیجہ میں پیدا ہوتا ہے اور ایک شخص علم اور مختلف ادراکات کے ذریعہ مطلب تک پہنچنے والے راستہ کو معین کرتا ہے۔
اور اِسی کے مطابق امور کو انجام دیتا ہے لیکن جب اس میں متضاد رجحان ہوں تو اس صورت میں وہ بہترین کو انتخاب کرنے کی کوشش میں رہتا ہے، لیکن کبھی کبھی علوم کی کمزوری بہترین کو معین کرنے میں خطا سے دوچار ہونے کا سبب بن جاتی ہے یا بہترین سے غفلت یا پست ترین شی سے انس اشتباہ کا سبب بن جاتا ہے صحیح فکر اور صحیح انتخاب کا موقع نہیں مل پاتا۔
لہذا انسان جس قدر حقائق سے آشنا ہو، اور حقائق کے تحت زیادہ سے زیادہ توجہ سے سرفراز ہو، نیز ا س کے علاوہ باطنی ہیجانات اور ہنگاموں کو مہار کرنے میں عظیم قدرت سے سرفراز ہو تو وہ اتنا ہی حسن انتخاب میں کامیاب ہوگا ،اور خطائوں سے اُسی انداز ے کے مطابق محفوظ رہے گا۔
یہی وجہ ہے کہ وہ لوگ جو مستعد، و راستہ ، عقل و بینش سے سرفراز ہونے کے علاوہ صحیح تربیت میں پلے، بڑھے ہیں وہ فضیلت و کمال کے درجات حاصل کرلیتے ہیں، یہاں تک کہ اس راہ میں مرتبہ عصمت تک بھی پہنچ جاتے ہیں، اور ان کے ذہنو ں میں گناہ کا خیال تک نہیں آتا، جیسا کہ کوئی بھی عاقل شخص اپنے ذہن میں زہر کو پینے یا غلاظتوں کے کھانے کی فکر کو نہیں لاتا، اسی طرح یہ لوگ بھی گناہوں کے ارتکاب کی فکر اپنے ذہن میں نہیں لاتے۔
اب اگر ہم یہ فرض کرلیں کہ ایک شخص کی استعداد حقائق کو سمجھنے میں بے نہایت اور روح کی طہارت و پاکیزگی کے اعتبار سے عظیم مقامات پر فائز ہے اور قرآن کی تعبیر کے مطابق وہ روغن زیتون کی طرح زلال نیز خالص اور شعلہ ور ہونے کے نزدیک ہو بغیر اس کے کہ وہ کسی شعلہ سے ارتباط برقرار کرے (یکادزیتہا یضئی و لو لم تمسہ نار)اور اُسی قوی ا ستعداد اور روح کی پاکیزگی کی وجہ سے خدا کی تربیت میں پرہان چڑھے اور خدا اس کی روح القدس کے ذریعہ مدد کرے، ایسا شخص غیر قابل وصف کمالات کے مدارج کو طے کر تاہے بلکہ ہزاروں سال طولانی راستہ کو ایک شب میں طے کر لیتا ہے ، دوران طفولیت بلکہ شکم مادر میں، ہر ایک پر، اُسے برتری حاصل ہوگی، ایسے شخص کی نگاہ میں گناہوں کی حقیقت اسی طرح آشکار ہے جس طرح دوسروں کے لئے زہر پینے اور غلاظتوں کو کھانے کی حقیقت۔
اورجس طرح عادی و معمولی افراد کا ایسے کاموں سے پرہیز جبری نہیں ہے اسی طرح معصوم کا گناہوں سے بچنا کسی بھی صورت میں ان کے اختیار کے خلاف نہ ہوگا۔

سوالات
١۔انبیاء علیہم السلام کی عصمت کو عقلی دلائل کے ذریعہ ثابت کریں؟
٢۔ قرآن کی کون سی آیات انبیاء (ع) کی عصمت پر دلالت کرتی ہیں؟
٣۔ وحی کو بیان کرنے میں انبیاء (ع) کے معصوم ہونے کا راز کیا ہے؟
٤۔ انبیاء (ع)کا گناہوں سے بچنا کیسے ان کے اختیار سے سازگار ہے؟