چوبیسواں درس
عصمت انبیاء (ع)
یہ بحث مندرجہ ذیل موضوعات پر مشتمل ہے
وحی کے محفوظ رہنے کی ضرورت
عصمت کی دوسری اقسام
انبیاء (ع) کی عصمت
وحی کے محفوظ رہنے کی ضرورت۔
حس و عقل کی کمیوں کو پورا کرنے اور ضروری معا رف کے حصول میں مدد کرنے والے عامل یعنی اب جب کہ ہم نے وحی کی ضرورت کو سمجھ لیا ہے اس کے بعد یہ مسئلہ سامنے آتا ہے! یہ مطلب ہر ایک کو معلوم ہے کہ عادی انسان بالواسطہ وحی سے استفادہ نہیں کرسکتے اور وحی کو دریافت کرنے کی لیاقت اور استعداد سے سرفراز نہیں ہوسکتے ، بلکہ چندخاص اجزا (انبیاء الٰہی) کے ذریعہ وحی کے پیغامات کو اُن تک پہچا نا ہوگا، لیکن ان پیغامات کے صحیح ہونے کی ضمانت کیا ہے، اور کہاں سے یہ معلوم ہوکہ نبی خدانے وحی کو دریافت کر کے صحیح و سالم لوگوں کے حوالہ کیا ہے؟ اور اگرخدا اور رسول ۖکے درمیان رابطہ ہے بھی تو کیا اس نے اپنی رسالت انجام دے دی ہے؟ اس لئے کہ وحی اُسی وقت مفید واقع ہو سکتی ہے
جب مرحلہ صدور سے مرحلہ وصول تک عمدی یا سہوی تمام خطائوں اور اضافات سے محفوظ رہی ہو، وگرنہ واسطوں میں سہو و نسیان کے احتمال یا ان میں عمدی تضرفا ت کے احتمال کے ہوتے ہوئے لوگوں تک پہنچنے والے پیغام میں نادرست اور خطا ہونے کا باب کھل جائے گا، اور اس طرح اعتمادکے اٹھ جانے کا سبب ہوگا لہذا کیسے (١) معلوم ہو سکتا ہے کہ وحی صحیح و سالم لوگوں تک پہنچی ہے؟
یہ بات روشن ہے کہ جب وحی کی حقیقت لوگوں کے لئے مجہول ہو اور اسے دریافت کی استعداد سے وہ سرفراز نہ ہوں تو اس صورت میں واسطوں میں کافی نظارت بھی نہیں رکھ سکتے، اور صرف اسی وقت وحی میں ہونے والے تصرفات سے آزاہی ممکن ہے کہ جب عقل و منطق کے خلاف کوئی پیغام موجود ہو، جیسے کہ کوئی یہ دعوی کرے کہ خدا نے اُس پر وحی بھیجی ہے: کہ اجتماع نقیضین جائز یا واجب ہے یا العیاذ باللہ) ذات الٰہی میں تعدد یا زوال یا ترکیب کا ہونا امکان پذیر ہے، اِن مطالب کے جھوٹے ہونے کو عقل کے ذریعہ ثابت کیا جا سکتا ہے، لیکن وحی کی اصلی ضرورت اُن مسائل میں ہے کہ جس میں عقل نفی و اثبات کے قابل نہیں ہے اور اس میں اتنی استعداد نہیں ہے کہ ان پیغامات کے صحیح یا باطل ہونے کو ثابت کر سکے، لہٰذا ایسے موارد میں کس طرح وحی کے پیغامات میں واسطوں کے عمدی یا سہوی تصرفا ت سے محفوظ رہنے کو ثابت کیا جا سکتا ہے؟
اس سوال کا جواب یہ ہے کہ جس طرح سے عقل، حکمت الٰہی کے پیش نظر، بائیسویں درس میں بیان کئے گئے برہان کے مطابق اس امر کو بخوبی درک کرتی ہے کہ وظائف اور حقیقتوں کا پتہ لگانے کے لئے کسی دوسرے راستہ کا ہونا ضروری ہے، اگر چہ اس کی اصلی حقیقت سے وہ بے خبر ہے اور اس طرح یہ بھی درک کرتی ہے کہ حکمت الٰہی کا تقاضا یہ ہے کہ اس کے پیغامات صحیح و سالم حالت میں لوگوں تک پہنچیں، وگرنہ غیر صحیح و سالم ہونے کی صورت میں نقض غرض لازم آئے گی۔
ایک دوسری تعبیر کے مطابق جب یہ معلوم ہوگیا کہ الٰہی پیغامات ایک یا چند واسطوں سے لوگوں تک پہنچتے ہیں تا کہ انسان کے اختیاری تکامل کا راستہ ہموار رہے، اور بشر کی خلقت سے خدا کا ہدف پورا ہوجائے لہذا صفات کمالیۂ الٰہی سے یہ امر بخوبی روشن ہوجاتا ہے کہ اس کی طرف سے
………………………………
(١)قرآن کریم اس سلسلہ میں فرماتا ہے:
(وَمَاکَانَ اللَّہُ لِیُطلِعَکُم عَلَی الغَیبِ وَ لَٰکِنَّ اللَّہَ یَجتَبِی مِن رُّسُلِہِ مَن یَشَائُ)
سورۂ آل عمران۔ آیت/ ١٧٩.
آنے والے تمام پیغامات عمد ی یا سہوی تصرفات سے محفوظ ہیں، اس لئے کہ اگر خدا یہ ارادہ کرلے کہ اس کے پیغامات بندوں تک سالم نہ پہنچیں ،تو یہ حکمت کے خلاف ہوگا، جبکہ خدا کا حکیمانہ ارادہ اِس بات کی پوری طرح نفی کرتا ہے، اوراگر خدا اپنے بے کراں علم کے ہوتے ہوئے یہ سمجھ نہ سکے، کہ وہ کس طرح اور کن واسطوں سے اپنے پیغامات کو سالم لوگوں تک پہنچائے تو یہ اس کے لامتناہی علم سے سازگار نہیں ہے، اور اگر شائستہ واسطہ پیدا نہ کرسکے اور انھیں شیاطین کے ہجوم سے محفوظ نہ رکھ سکے تو یہ امر، اس کی لا محدود قدرت سے منافات رکھتا ہے،لہذا چونکہ خدا ہر شی کے بارے میں جانتا ہے لہٰذا خدا کے لئے یہ تصور نہیں کیا جاسکتا کہ جسے واسطہ بنارہا ہے، اس کی خطا کاریوںسے بے خبر ہو(١) اور اسی طرح یہ احتمال بھی باطل ہے کہ اس نے اپنی لامحدود قدرت کے ہوتے ہوئے بھی اپنے پیغامات کو شیاطین اور عمدی یا سہوی تصرفات سے محفوظ نہ رکھ سکا (٢) جس طرح سے کہ حکمت الٰہی کے پیش نظر یہ احتمال بھی باطل ہے، کہ اس نے اپنے پیغامات کو لوگوں تک صحیح و سالم نہ پہنچانے کا ارادہ کرلیا ہے(٣)، لہٰذا خدا کا علم، اس کی قدرت و حکمت کا تقاضا یہ ہے کہ وہ اپنے پیغامات کو سالم اور تصرفات سے محفوظ لوگوں تک پہنچائے اور اس طرح وحی کا محفوظ رہنا عقلی برہان کے ذریعہ ثابت ہوجاتا ہے۔(٤)
…………………………………
(١)قرآن اس بارے میں فرماتا ہے ''اللَّہُ اَعلَمُ حَیثُ یَجعَلُ رِسَالَتَہُ '':سورۂ انعام ۔آیت /١٢٤
(٢)قرآن اس سلسلہ میں فرماتا ہے :
( عَلِمُ الغَیبِ فَلاَ یُظہِرُ عَلَٰی غَیبِہِ اَحَدًا ٭ اِلَّامَنِ ارتَضَیٰ مِن رَّسُولٍ فَاِنَّہُ یَسلُکُ مِن بَینَ یَدَیہِ وَمِن خَلفِہِ رَصَداً ٭لِّیَعلَمَ اَن قَد اَبلَغُوا رِسَٰلَٰتِ رَبِّہِم وَ اَحَاطَ بِمَا لَدَ یہِم وَاَحصیٰ کُلَّ شَئٍ عَدَدَا) سورۂ جن۔ آیت/ ٢٨٢٦.
(٣)( لِیَہلِکَ مَن ھَلَکَ عَن بَیِنَّةٍ وَّ یَحیَ مَن حََّ عَن بَیِنَّةٍ) سورۂ انفال ۔آیت/ ٤٢
(٤) سورۂ شعراء ۔آیت/ ١٩٣۔ سورۂ تکویر۔ آیت /٢١۔ سورۂ اعراف ۔آیت /٦٨۔ سورۂ شعرائ۔ آیت /١٠٧ ١٢٥ ١٤٣ ١٦٢ ١٧٨۔ سورۂ دخا ء آیت/١٨ سورۂ تکویرآیت/ ٢٠ سورۂ نجم آیت /٥۔ سورۂ حاقہ آیت /٤٤۔ سورۂ جن آیت/ ٢٨٢٦.
عصمت کی دوسری قسمیں ۔
فرشتوں اور ا نبیاء (ع)کی وہ عصمت جودلیل کی بناء پر ثابت ہوتی ہے وحی کے پیغام پر منحصر ہے لیکن عصمت کی دوسری قسمیں بھی ہیں جو اس دلیل کے ذریعہ قابل اثبات نہیں ہیں ، جنھیں تین حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے ، پہلی قسم فرشتوں سے متعلق ہے ، دوسری قسم انبیاء (ع) کی عصمت ہے اور تیسری قسم بقیہ انسانوں ، جیسے ائمہ (ع)، حضرت مریم ، اور حضرت زھراء کی عصمت ہے
فرشتوں کی عصمت کے سلسلہ میں ابلاغ وحی کے علاوہ دو مسئلہ پیش کئے جا سکتے ہیں ۔
پہلا مسئلہ ان فرشتوں کی عصمت کا ہے، جو دریافت وحی اور اُسے رسول تک پہنچانے کے ذمہ دار ہیں دوسرا مسئلہ ان فرشتوں کی عصمت کا ہے، جنھیں وحی سے کوئی سروکار نہیں ہے بلکہ وہ کتابت اعمال، رزق پہنچانے اور قبض اوراح وغیرہ کے ذمہ دار ہیں۔
اس طرح انبیاء (ع) کی عصمت ان چیزوں کے سلسلہ میں جو ان کی رسالت سے مربوط نہیں ہے اس میں بھی دو مسئلہ ہیں، پہلا مسئلہ یہ ہے کہ انبیاء (ع)کا عمدی گناہوں اور سرپیچیوں سے محفوظ و مصؤن رہنا دوسرا مسئلہ انبیاء (ع)کا سہو و نسیان سے معصوم ہونا ہے اور انھیں دو مسئلہ کو غیر انبیاء (ع)کی عصمتوں میں پیش کئے جاسکتے ہیں۔
لیکن فرشتوں کی عصمت وحی کے ابلاغ کے علاوہ دوسرے مسائل میں دلیل عقلی کے ذریعہ اسی وقت قابل حل ہے کہ جب ملائکہ کی ماہیت او ران کی حقیقت معلوم ہو جائے ، لیکن ملائکہ کی ماہیت کا سمجھنا نہ ہی آسان ہے اور نہ ہی اِس کتاب کے متناسب، اِسی وجہ سے فرشتوں کی عصمت کی دلیل میں قرآن سے دو آیتوں کے ذکر پر اکتفا کرتے ہیں، خدا وند عالم قرآن کے سورۂ انبیاء کی ستا ئسیویں آیت میں ارشاد فرماتا ہے : (بَل عِبَاد مُّکرَمُونَ لَا یَسبِقُونَہُ بِالقَولِ وَہُم بِاَمرِہِ یَعمَلُون)
بلکہ فرشتے خدا کے معزز بندے ہیں وہ گفتگو میں اس سے سبقت نہیں کرسکتے اور وہ اس کے حکم پر چلتے ہیں۔
اور اسی طرح سورۂ تحریم کی چھٹی آیت میں ارشاد فرماتا ہے :
(لَا یَعصُونَ اﷲَ مَا اَمَرَہُم وَ یَفعَلُونَ مَا یُؤمَرُونَ)
خدا جس بات کا حکم دیتا ہے اس کی نافرمانی نہیں کرتے اورجو حکم انھیں ملتا ہے اسے بجالاتے ہیں۔
یہ دو آیتیں پوری صراحت کے ساتھ اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ ملائکہ منتخب مخلوق ہیں، جو فرمان الٰہی کے مطابق اعمال انجام دیتے ہیں اور کبھی بھی اس کے فرمان سے روگردانی نہیں کرتے، اگر چہ ان آیتوں کی عمومیت تمام فرشتوں کی عصمت کو شامل ہے۔
لیکن انبیاء (ع) کی عصمت کے علاوہ بقیہ انسانوں کی عصمت کے سلسلہ میں بحث کرنا مباحث امامت سے سازگار ہے اسی وجہ سے اس حصہ میں انبیاء (ع)کی عصمت کے تحت بحث کریں گے اگر چہ اُن میں سے بعض مسائل کو تنہا نقلی اور تعبدی مسائل کے ذریعہ حل کیا جا سکتا ہے اور اصولی اعتبار سے اسے کتاب و سنت کی حجیت ثابت ہونے کے بعد ذکر ہونا چاہئے، لیکن موضوعات کی مناسبت سے اِسی مقام پر اس کے سلسلہ میں بحث کریں گے اور کتاب و سنت کی حجیت کی بحث کو اصل موضوع کے عنوان سے قبول کرتے ہوئے اُسے اِسی مقام پر ذکر کر تے ہیں ۔
انبیاء (ع) کی عصمت ۔
گروہ مسلمین میں اس مسئلہ کے تحت شدید اختلافات ہے کہ انبیاء (ع) گناہوں کے مقابلہ میں کس حد تک معصوم ہیں، انثا عشری شیعوں کا عقیدہ ہے کہ انبیاء (ع) اپنے آغاز ولادت سے آخری لمحہ حیات تک تمام گناہوں سے پاک ہوتے ہیں، بلکہ بھولے سے بھی کوئی گناہ نہیں کرتے لیکن اہل سنت کی بعض جماعتوں نے عصمت انبیاء (ع) کو گناہان کبیرہ کے مقابلہ میں مانا ہے، بعض نے دوران بلوغ سے، اور بعض نے کہا کہ بعثت کے بعد سے معصوم ہوتے ہیں، بلکہ اہل سنت کے بعض فرقوں (حشویہ اور اہل حدیث) کے اعتقاد کے مطابق) انبیاء (ع) ہر قسم کی عصمت سے عاری ہیں، ان سے گناہان کبیرہ صادر ہوسکتا ہے بلکہ وہ نبی ہوتے ہو ئے بھی عمداً گناہ کرسکتے ہیں۔
انبیاء علیہم السلام کی عصمت کو ثابت کرنے سے پہلے ہمیں چند نکات کی طرف اشارہ کرنا لازم ہے پہلا نکتہ یہ ہے کہ انبیاء (ع)اور غیر ا نبیاء میں سے بقیہ انسانوں کے معصوم ہونے کا مطلب صرف گناہوں سے معصوم ہونا نہیں ہے بلکہ اس بات کا امکان ہے کہ ایک معمولی انسان خصوصاً کم عمر ہو نے کی وجہ سے کوئی گناہ انجام نہ دے۔
بلکہ مطلب یہ ہے کہ نہایت طاقتور ملکہ نفسانی کے مالک ہیں، کہ جو سخت سے سخت شرائط و حالات میں اپنے آپ کو محفوظ رکھتے ہیں اور یہ ملکہ گناہوں کی آلودگیوں سے آگاہی، شکست ناپذیر ارادہ، اور نفسانی خواہشوں کو مہار کرنے کے نتیجہ میں حاصل ہوتا ہے، اور چونکہ یہ ملکہ عنایت الٰہی کے ذریعہ حاصل ہوتاہے لہٰذا اس کی فاعلیت کو خدا کی جانب نسبت دی جاتی ہے، وگرنہ ایسا ہر گز نہیں ہے کہ خدا معصوم انسان (انبیاء و آئمہ) کو زبردستی گناہوں سے محفوظ رکھتا ہے
یا اس سے اختیار کو چھین لیتا ہے ان لوگوں کی عصمت جو منصب الٰہی ،جیسے نبوت و امامت سے متصف ہیں مراد یہ ہے ، کہ خدا نے گناہوں سے محفوظ رہنے کی ضمانت انھیں د ے دی ہے۔
دوسرا نکتہ یہ ہے کہ کسی بھی شخص کی عصمت کا لازمہ یہ ہے کہ وہ تمام حرام اعمال کو ترک کردے ،جیسے کہ وہ گناہ جو تمام شریعتوں میں حرام ہیں، یا وہ امور جو خود اسی کے زمانہ کی شریعت میں حرام ہوں، لہٰذا انبیاء (ع) کی عصمت ان اعمال کے ذریعہ خدشہ دارنہیں ہوتی جو اس کی شریعت یا خود اس کے لئے جائز ہوں یا وہی عمل گذشتہ شریعت میں حرام ہو یا بعدمیں حرام کردیا جائے۔
تیسرا نکتہ یہ ہے کہ گناہ سے مراد یہ ہے، کہ جس سے ایک معصوم محفوظ رہتا ہے ایک ایسا عمل ہے کہ جسے فقہ میں حرام کہا جاتا ہے اور اسی طرح اس عمل کو ترک کرنا کہ جسے فقہ میں واجب کہا جاتا ہے۔
لیکن گناہ کے علاوہ دوسرے کلمات جیسے (عصیان) (ذنب) وغیرہ وسیع معنی میں استعمال ہوتے ہیں کہ جس میں ترک اولیٰ بھی شامل ہے اور ایسے گناہوں کا انجام دینا عصمت کے خلاف نہیں ہے۔
سوالات
١۔کس طرح وحی کو کسی بھی قسم کے خلل سے محفوظ رہنے کو ثابت کیا جاسکتا ہے؟
٢۔ دریافتِ وحی اور ابلاغ میں محفوظ رہنے کے علاوہ کن مقامات پر عصمت ضروری ہے؟
٣۔ فرشتوں کی عصمت کیسے ثابت کی جاسکتی ہے؟
٤۔ انبیا ء علیہم السلام کی عصمت کے سلسلہ میں کتنے اقوال ہیں؟ اور اہل تشیع کا نظریہ کیا ہے؟
٥۔ عصمت کی تعریف کریں اور اس کے لوازمات بیان کریں؟
|