درس عقائد
 

تیئسواں درس
چند شبہات کا حل
کیوں بہت سے لوگ انبیاء ٪ کی ہدایت سے محروم ہو گئے؟
کیوں خدا نے انحرافات اور اختلافات کا سد باب نہیں کیا؟
کیوں انبیاء الٰہی صنعتی اور ا قتصادی امتیازات سے سرفراز نہ تھے؟

چند شبہات کا حل۔
بعثت انبیاء علیہم السلام کے سلسلہ میں جو دلائل ذکر ہوئے ہیںانھیں دلائل کے ضمن میں چند شبہات اور سوالات ہیں جن کے جوابات یہاں ذکر کئے جائیں گے۔

کیوں بہت سے لوگ انبیاء ٪ کی ہدایت سے محروم ہو گئے؟
اگر تمام انسانوں کی ہدایت کے لئے بعثت انبیاء ٪ کااقتضا یہ ہے کہ وہ انبیاء ٪ کو مبعوث کرے تو پھر کیوں سب کے سب فقط ایک ہی سرزمین ایشیا میں مبعوث ہوئے، اور بقیہ سر زمینیں اس نعمت سے محرم رہیں، خصوصاً گذشتہ ادوار میں ارتباطات کے و سائل بہت محدود تھے اور ایک مقام سے دوسرے مقام تک، کسی خبر کو پہنچانا نہایت سختی سے انجام پاتا تھا اور شاید اس وقت کچھ ایسی قومیں رہی ہوں، جنھیں اصلاً بعثت انبیاء ٪ کی کوئی خبر نہ ملی ہو۔
اس سوال کا جواب یہ ہے کہ پہلے ، انبیاء ٪ کی بعثت کسی خاص سرزمین سے مخصوص نہیں تھی، بلکہ قرآن کی آیات کے مطابق ہر امت اور ہر قوم کے پاس پیغمبر بھیجے گئے جیسا کہ سورۂ فاطر کی چوبیسویں آیت
میں خدا فرماتا ہے:( وَان مِّن اُمَّةٍ اِلَّاخَلا فِیھا نَذِیر)
اور دنیا میں کوئی امت ایسی نہیں گئی جس کے پاس ہمارا ڈرانے والاپیغمبر نہ آیا ہو۔
سورۂ نحل کی آیت چھتیسویں میں وارد ہوا ہے :
(وَلَقَد بَعَثنَا فِ کُلِّ اُمَّةٍ رَسُولاً اَنِ اعبُدُوااللَّہَ وَاجتَنِبُوا الطَّاغُوتَ)
اور ہم نے تو ہر امت میں ایک نہ ایک رسول ضرور بھیجا کہ وہ لوگوں سے کہے کہ خداکی عبادت کرو اور بتوں کی عبادت سے بچے رہو۔
اور اگر قرآن میں محدود انبیاء ٪ کا نام آیا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کل انبیا ء کی تعداد اتنی ہی تھی بلکہ خود قرآن کے بیان کے مطابق بہت سے انبیاء ٪ تھے کہ جن کے اسماء اس قرآن میں ذکر نہیں کئے گئے ، جیسا کہ سورۂ نساء کی آیت ١٦٤ میں خدا فرماتا ہے:
( وَرُسُلاً لَّم نَقصُصہُم عَلَیکَ)
جن کا حال تم سے بیان نہیں کیا گیا۔
دوسرے: اس برہان کا تقاضایہ ہے کہ حس و عقل کے ماوراء کوئی ایسا راستہ ہونا چاہیے کہ جس کے ذریعہ یہ امکان ہو کہ لوگوں کی ہدایت کی جاسکے، لیکن بشر کی ہدایت کو مرحلۂ فعلیت تک پہنچنے کے لئے دو شرط ہے۔
١۔ پہلییہ کہ وہ لوگ خود اس نعمت الٰہی سے استفادہ کرنا چاہیں۔
٢۔دوسرے یہ کہ کوئی دوسرا اُن کی ہدایت میں مانع ایجاد نہ کرے، اور لوگوں کا انبیاء ٪سے محروم ہونے کا سبب خود اُن کے ناجائز اختیارات تھے، جس طرح کہ بہت سے لوگوں کا انبیاء ٪ کی ہدایت سے محرو م ہونا اِنھیں موانع کی وجہ سے ہے، جسے وہ لوگ خود انبیاء ٪ کی تبلیغ میں ایجاد کرتے تھے، اور ہمیں بخوبی معلوم ہے کہ انبیاء الٰہی برابر ایسے موانع کو برطرف کرنے کے لئے کوشاں رہے ، اور ہمیشہ ستمگروں، ظالموں اور مستکبروں سے بر سر پیکار رہتے تھے، بلکہ انبیاء ٪ کی ایک کثیر تعداد راہ تبلیغ اور لوگوں کی ہدایت کی راہ میں شہید بھی ہوگئی ،بلکہ جب بھی انھیں نیک ساتھیوں کی حمایت ملی تو
اُنھوں نے وقت کے اُن ظالموں سے مقابلہ کیا ،کہ جو اُن کے اہداف میں موانع ایجاد کرتے تھے۔
قابل توجہ نکتہ تو یہ ہے کہ انسان کی تکاملی حرکت کی خصوصیات کا تقاضا یہ ہے کہ یہ تمام تدابیر اس طرح انجام پذیر ہوں کہ حق و باطل کے حامیوں کے لئے حسن انتخاب یا سوء انتخاب فراہم ہو جائے ،مگر یہ کہ ظالموں اور مستکبروں کا تسلط اس حد تک بڑھ جائے کہ ہادیوں کی ہدایت کا راستہ پوری طرح بند ہوجائے اور سماج سے نور ہدایت خاموش ہو جائے، یہی وہ صورت ہے کہ جب خدا غیب اور غیر عادی راہوں سے حق کے طرفداروں کی مدد فرماتا ہے۔
نتیجہ: اگر ایسے موانع انبیاء ٪کے راستو ںمیں نہ ہوئے تو ان کی دعوتِ توحید تمام انسانوں کے کانوں تک پہنچ جاتی اور تمام انسان وحی اور نبوت کے ذریعہ نعمت ہدایت سے بہر مند ہوجاتے، لہذا بہت سے لوگوں کا ہدایت انبیاء ٪سے محروم ہونے کا گناہ ،ان لوگوں کی گردنوں پر ہے کہ جنھوں نے راہ ہدایت انبیاء میں رکاوٹیں ایجاد کی ہیں۔

کیوں خدا نے انحرافات اور اختلافات کا سد باب نہیں کیا؟
اگر انبیاء ٪ تکامل انسان کے شرائط کو کامل کرنے کے لئے مبعوث ہوئے ہیں تو پھر کیوں ان کے ہوتے ہوئے بشرخطا اور بدبختیوں کا شکار ہوا اور ہر زمانہ میں لوگوں کی ایک بڑی جماعت کفر و الحاد میں گرفتار رہی، یہاں تک کہ ادیان آسمانی کے پیروکاروں نے ایک دوسرے کے خلاف جنگ کے شعلہ بھڑکائے جس کی وجہ سے خونی جنگیں دیکھنے میں آئیں؟ کیا حکمت الٰہی کا تقاضا یہ نہ تھا کہ وہ کچھ ایسے راستہ بھی مہیا کرتا، جن کے ذریعہ ایسی بدبختیوں کا سد باب ہوجاتا اور کم از کم ادیان آسمانی کے پیروکار ایک دوسرے کے مقابلہ میں نہ ٹھہرتے۔
اس سوال کا جواب تکامل انسان کے اختیارات کی خصوصیات میں غور و فکر کرنے کے ذریعہ معلوم ہوجاتا ہے، اس لئے کہ حکمت الٰہی کا تقاضا یہ ہے کہ انسان کے تکامل کے اسباب و شرائط کا جبری ہونے کے بدلے اختیاری ہونا ضروری ہے تا کہ وہ لوگ جو راہ حق کو پہچاننا چاہتے ہیں اور اسے اختیار کرنا چاہتے ہیں، وہ کمال اور سعادت ابدی کو حاصل کرنے میں مختارہیں،لیکن ایسے تکامل اور کمال کے لئے اسباب و شرائط کا مہیا ہوجانا اس معنی میں نہیں ہے کہ تمام انسانوں نے بہ نحو احسن اس سے استفادہ کیا ہو، اور صحیح راستہ کاانتخاب کیا ہو بلکہ قرآن کی تعبیر کے مطابق خدا نے انسانوں کو ایسے شرائط کے تحت اس لئے خلق کیا ہے تا کہ انھیں آزما سکے کہ ان میں کون نیکوکار ہے(١)، اس کے علاوہ قرآن میں بارہا اس بات کی تاکید ہوئی ہے کہ اگر خدا چاہتا تو تمام انسانوں کو راہ ہدایت کی طرف راہنمائی کردیتا اور ظلم و ستم کو دبا دیتا(٢)۔ لیکن اس صورت میں انتخاب کا کوئی مطلب نہیں رہ جاتا، نیز انسانوں کے کردار قابل ارزش بھی نہ رہتے،اور اسطرح انسان کی خلقت سے غرض الٰہی (اختیار و انتخاب) میں نقض آجاتا۔
نتیجہ۔ انسانوں میں فساد و تباہ کاری اور کفر و عصیان کی طرف میلان خود ان کے ناجائز اختیارات کا نتیجہ ہے، اور خود انسانوں کی خلقت میں ایسے امور پر قدرت کا لحاظ رکھا گیا ہے لہذا ایسے اختیار کے اثرات کا حاصل ہونا بالتبع لازم ہے، اگر چہ خدا کا ارادہ یہ ہے کہ انسان اپنے کمال کو حاصل کرلے، لیکن چونکہ اس ارادہ کا تعلق مختار ہونے پر مشروط ہے لہٰذا اس صورت میں سوء ِاختیار کے نتیجہ میں انحطاط کا انکار نہیں کیا جاسکتا، اور حکمت الٰہی کا تقاضا تو یہ نہیں ہے کہ تمام انسان خواہ نخواہ ہدایت یافتہ ہوجائیں اگرچہ ان کے ارادہ کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔
………………………
(١) رجوع کریں ۔سورۂ ہود۔ آیت/ ٧۔ سورۂ ملک۔ آیت /٢۔ سورۂ مائدہ۔ آیت/ ٤٨ سورۂ انعام۔ آیت/ ١٦٥.
(٢)سورۂ انعام۔ آیت/ ٣٥ ١٣٨٧١٠٧ ١٢٨۔ سورۂ یونس۔ آیت/ ٩٩۔ سورۂ ہود۔ آیت/ ١١٨۔ سورۂ نحل۔ آیت /٩ ٩٣۔ سورۂ شوریٰ۔ آیت /٨۔ سورۂ شعرائ۔ آیت/ ٤۔ سورۂ بقرہ۔ آیت /٢٥٣.

کیوں انبیاء ا لٰہی صنعتی اور اقتصادی امتیازات سے سرفراز نہ تھے؟
حکمت الٰہی کے تقاضوں کے پیش نظر کہ تمام انسان بہ نحو احسن اپنے حقیقی کمال کو حاصل کرلیں، کیا بہتر یہ نہ تھا ،کہ خدا وحی کے ذریعہ اس جہان کے اسرار لوگوں کے لئے فاش کردیتا، تا کہ مختلف نعمتوں سے فائدہ اٹھانے کے ذریعہ انسان راہ تکامل میں اپنے سفر کو سرعت بخش دیتا! جیسا کہ اس دور میں طبیعی طاقتوں کے ظہور اور مختلف اسباب کے ایجادات سے بشری تمدن نے نمایاں ترقی حاصل کی ہے، جن کی وجہ سے حفظ سلامت، امراض سے مقابلہ ارتباطات میں سرعت ،جیسے مطلوب عوامل اور آثار وجود میں آگئے، اس وضاحت کی روشنی میں آشکار ہے کہ اگر انبیاء الٰہی جدید علوم و صنائع اور آسائش کے وسائل لوگوں کے لئے فراہم کرنے کے ذریعہ اپنی اجتماعی اور سیاسی قدرت کو افزائش دے سکتے تھے اور بڑی آسانی سے اپنے اہداف تک پہنچ سکتے تھے۔
اس سوال کا جواب یہ ہے کہ وحی و نبوت کے ہونے کی اصلی ضرورت ان امور میں ہے کہ جن میں بشر عادی وسائل کے ذریعہ کشف نہ کر سکے، اور اس سے جاہل ہوتے ہوئے کمال حقیقی کی طرف جانے والے راستہ کو معین نہ کر سکے، ایک دوسری تعبیر کے مطابق انبیا ء علیہم السلام کا اصلی وظیفہ یہ ہے کہ وہ انسانوں کو صحیح زندگی اور کمال حقیقی کے حصول میں مدد کریں، تا کہ وہ ہر حال میں اپنے وظیفہ کو پہچان سکیں، اور مطلو ب کو حاصل کرنے میں اپنی پوری طاقت صرف کریں، انسان ،خواہ دشت میں رہنے والا ہو، یا دریائوں کی سیر کرنے والا ہو یا کوئی بھی ہو، وہ ہر صورت میں اپنی انسانی حیثیت کو پہچان لے تا کہ معلوم ہوجائے کہ خدا کی عبادت کے وظائف کیا ہیں؟ تمام مخلوقات اور سماج میں رہنے والوں کے ساتھ رہن سہن کے واجبات کیا ہیں تا کہ انھیں انجام دینے کے ذریعہ کمال حقیقی اور سعادت ابدی تک پہنچ جائے لیکن صلاحیتوں اور صنعتی و طبیعی امکانات کا اختلاف خواہ ایک زمانہ میں ہو یا مختلف زمانوں میں، ایک ایسا امر ہے کہ جو خاص اسباب و شرائط کے تحت وجود میں آتا ہے اس کے علاوہ تکامل(کمال) حقیقی میں اس کا کوئی نقش بھی نہیں ہے، جیسا کہ آج کی علمی اور صنعتی ترقیاں دنیوی لذتوں کی افزائش کا باعث تو بنیں، لیکن لوگوں کی روحی اور معنوی تکامل میں ایک معمولی کردار بھی ادانہ کر سکیں، بلکہ ہم تو یہ دیکھ رہے ہیں کہ ان سب کا اثر بالکل بر عکس رہاہے
نتیجہ: حکمت الٰہی کا تقاضا یہ ہے کہ انسان مادی نعمتوں سے استفادہ کرتے ہوئے اپنی دنیوی زندگی کو جاری زکھ سکے ، اور عقل و وحی کی راہنمائی میں کمال حقیقی اور سعادت ابدی کی جانب قدم بڑھائے، لیکن روحی اور بدنی توانائیوں میں اختلاف، نیز طبیعی اور اجتماعی شرائط میں اختلاف، اسی طرح علوم و صنائع سے فائدہ حاصل کرنے میں اختلاف ایک خاص تکوینی اسباب و شرائط کے تابع ہے، جو نظام علِّی و معلولی کے تحت وجود میں آتے ہیں یہ اختلافات انسان کی ابدی تقدیر میں کسی بھی خاص کردار سے متصف نہیں ہیں، اس لئے کہ بسا اوقات ایسا ہوا ہے کہ ایک فرد یا ایک جماعت اپنی سادہ زندگی اور حداقل مادی و دنیوی نعمتوں سے سرفراز ہوتے ہوئے کمال و سعادت کے عظیم درجات پر فائز ہوئے ہیں، اور اکثر دیکھنے میں آیا ہیے کہ ایک فرد یا جماعت ترقی یافتہ علوم صنائع اور بہترین وسائل زندگی سے سرفراز ہوتے ہوئے ،غرور و تکبر اور ظلم و ستم کے نتیجہ میں شقاوت ابدی میں گرفتار ہوگئے ہیں۔
البتہ انبیاء الٰہی نے اصلی وظیفہ (حقیقی اور ابدی سعادت و کمال کی طرف ہدایت) کے علاوہ لوگوں کو صحیح زندگی گذارنے کے لئے مدد کی ہے اور جہاں حکمت الٰہی نے تقاضا کیا وہاں ناشناختہ حقائق اور اسرار طبیعت سے پردہ بھی اٹھادیا، اور اس طرح تمدن ِبشر کو ترقی دینے میں مدد کی، جیسا کہ ایسی مثالیں جناب دائود اور ، جناب سلیمان اور جناب ذوالقرنین علیہم السلام (١) کے حالات میں دیکھی جا سکتی ہیں، انھوں نے سماج کو کامیاب بنانے اور امور میں حسن تدبیر کے لئے نمایاں کام انجام دئے ہیں، جب جیسا کہ حضرت یوسف علیہ السلام نے سر زمین مصر پر انجام دیا(٢) ایسے خدمات جو کچھ بھی انبیاء نے پیش کئے وہ ان کے اصلی وظیفہ سے جدا تھے۔
………………
(١) رجوع کریں۔سورۂ انبیا ء آیت/ ٨٢٧٨ سورۂ کہف ۔آیت /٨٣ ٩٧. سورۂ سبائ۔ آیت /١٠ ١٣۔ بعض روایتوں کے ذریعہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ذوالقرنین نبی نہیں بلکہ ولی خدا تھے.
(٢) رجوع کریں۔ سورۂ یوسف ۔آیت/ ٥٥.
لیکن یہ سوال کہ کیوں انبیائ٪ نے اپنے اہداف کو کامیاب بنانے کے لئے صنعت و اقتصاد وغیرہ کا سہارا نہیں لیا ؟تو اس سوال کے جواب میں یہ کہنا بہتر ہے کہ انبیاء علیہم السلام کا ہدف جیسا کہ پہلے بیان ہوچکا ہے آزاد انتخاب کے لئے وسائل کا فراہم کرنا تھا ،اور اگر وہ غیر عادی طاقتوں کے بل بوتے پر قیام کرتے، تو آزادانہ تکامل اور رشد معنوی انسانوں کو حاصل نہ ہوتا، بلکہ عوام ان کی قدرتوں کے ڈر سے اطاعت کرتی ،نہ الٰہی فرمان اور آزاد انتخاب کے تحت۔
اسی سلسلہ میں امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں
اگر خداوند متعال اپنے انبیائ٪ کو مبعوث کرتے وقت سیم وزر کے گنجینہ، جواہرات اور قیمتی معادن اور باغات عطا کردیتا، ہوائوں کے پرندے اور زمین کے چرند ان کے لئے مطیع بنادیتا تو اس صورت میں جزا و سزا اور امتحان کا موقع باقی نہ رہتا۔
اور اگر اپنے انبیاء ٪کو بے مثال قدرت ، شکست ناپذیر عزت اور عظیم سلطنت عطا کرتا کہ جس کی وجہ سے لوگ ڈر کر یا طمع میں تسلیم ہوتے ہوئے، ظلم و ستم اور تکبر سے دست بردار ہوجاتے تو اس صورت میں اقدار مساوی ہوجاتے ،لیکن خدا کا یہ ارادہ تھا کہ پیغمبروں کی اطاعت اُن کی کتابوں کی تصدیق اور اُن کے حضور فروتنی کسی بھی عیب سے پاک ہوتے ہوئے حق کے لئے ہو،لہذا جس قدر بلا اور امتحان عظیم ہوں گے ثواب الٰہی اتنے ہی کثیر ہوںگے''۔(١)
البتہ جب لوگ اپنے ارادہ اور رغبت سے دین حق کو قبول کرلیں اور ایک الٰہی سماج کو تشکیل دیدیں ،تو پھر اہداف الٰہی کو کامیاب بنانے کے لئے مختلف قدرتوں سے استفادہ کرنا درست ہوگا، جیسا کہ ایسے نمو نے حضرت سلیمان علیہ السلام کی زندگی میں ملتے ہیں۔(٢)
……………………………
(١) نہج البلاغہ، خطبہ قاصعہ۔ سورۂ فرقان ۔آیت /٧ ١٠۔ سورۂ زخرف ۔آیت /٣١ ٣٥۔
(٢)سورۂ انبیا ء ۔آیت /٨١ ٨٢۔ سورۂ نمل ۔آیت /١٥ ٤٤.

سوالات
١۔ کیا تمام انبیاء ٪کسی خاص سرزمین پر مبعوث ہوئے؟ دلیل کیا ہے؟
٢۔ کیوںانبیاء ٪ کی دعوتیں تمام انسانوں تک نہ پہنچ سکیں؟
٣۔کیوں خدا نے ایسے اسباب فراہم نہیں کئے کہ جس کی وجہ سے فساد و خون ر یزی کی روک تھام ہو ؟
٤۔ کیوں انبیاء ٪نے اسرار طبیعت کو فاش نہیں کیا تا کہ اُن کے ما ننے والے مادی نعمتوں سے زیادہ مستفید ہوتے؟
٥۔ کیوں انبیاء ٪نے اپنے اہداف کو کامیاب بنانے کے لئے صنعتی اور اقتصادی قدرتوں سے فائدہ نہیں اٹھایا؟