اکیسواں درس
مسائل نبوت پر بحث کرنے کے نتائج
مقدمہ
یہ بحث مندرجہ ذیل موضوعات پر مشتمل ہے۔
اس حصہ کے مباحث کا ہدف
علم کلام میں تحقیق کی روش
مقدمہ
ہمیں یہ مطلب معلوم ہوچکا ہے کہ وہ مسائل جنھیں حل کرنااور جاننا ہر عاقل شخص پر واجب ہے تا کہ وہ ایک انسانی زندگی بہ حسُن خوبی گذار سکے، درج ذیل ہیں۔
١۔ انسا ن اور جہان کا وجود کس سے ہے یا اِن دونوں کی تدبیر اور ارادہ کس کے ہاتھ میں ہے؟
٢۔ انسان کی زندگی کاانتہائی مرحلہ اورانتہائی ہدف کہاں ہے؟
٣۔ انسانوں کی وہ احتیاجات جس کے لئے بھی صحیح زندگی گذارنے کے طور طریقہ کا جاننا ضروری ہے تا کہ اس راستہ کے ذریعہ کمال حقیقی اور سعادت ابدی کو حاصل کیا جا سکے، لہٰذا ان مسائل کے پیش نظر کیا اس معرفت کو حاصل کرنے میں کوئی ضمانت ہے؟ اور اگر ہے؟ تو کن لوگوں کے اختیار میں ہے؟
ان سوالات کے صحیح جوابات در اصل (توحید، قیامت، نبوت) جیسے اصول ہیں کہ جو تمام ادیان آسمانی میں اصلی ترین عقائد میں شمارکئے جاتے ہیں۔
ہم نے اس کتاب کے پہلے مرحلہ میں معرفت ِخدا کے تحت بحث کی ہے اور اس نتیجہ تک پہنچے ہیںکہ تمام موجودات اپنے وجود کو، خالق ہستی سے حاصل کرتے ہیں، اور ہر ایک اسی کے حکیمانہ تدبیر کے زیر سایہ ہیں۔ اور کوئی بھی کسی بھی حال میں کہیں بھی، اور کسی بھی امر میں اس سے بے نیاز نہیںہے
ہم نے ان مطالب کو، عقلی دلائل کے ذریعہ ثابت کردیا ہے، اور اس بات کی بھی وضاحت کردی ہے کہ ایسے مسائل کو صرف عقلی دلائل کے ذریعہ ہی حل کیا جا سکتا ہے، اس لے کہ تعبدی دلائل اور کلام خدا کو ،اسی وقت دلیل بنایا جا سکتا ہے جب وجود خدا اور اس کا کلام اس کا معتبر ہونا، دلیل عقلی کے ذریعہ ثابت ہو چکا ہو، جس طرح سے کہ نبی اور امام کے کلام کو سنت قرار دینا، ان کی نبوت و امامت اور ان کے کلام کی حجیت کے اثبات پر منحصر ہے تفصیل معاد کو وحی کے ذریعہ ثابت کیا جا سکتا ہے ، اگر چہ ا صل قیامت، عقلی اور نقلی دلائل کے ذریعہ قابل اثبات ہے۔
لہٰذا (نبوت اور قیامت) کے مسائل کو بیان کرنے کے لئے پہلے عقلی دلائل کے ذریعہ اصل قیامت اور اصل نبوت کو ثابت کرنا ہوگا، پھر جب رسول اکرم ۖ کی نبوت اور قرآن کریم کی حقانیت ثابت ہوجائے تو کتاب و سنت کے مطابق ان دونوں کے تفصیلی مسائل کو بیان کیا جائے گا، لیکن چونکہ ان دونوں کے مسائل کوجداگانہ بیان کرنا سمجھانے کے لئے نہایت مفید ہے لہٰذا گذشتہ سنت پر عمل کرتے ہوئے پہلے ہم نبوت کے مسائل اور پھر قیامت کے مسائل کو بیان کریں گے اور اگر بعض مقامات پر کسی ایسے مطلب کی ضرورت پڑ ی کہ جسے بعد میں ثابت کرنا ہوا تو اس کو استدلال کے درمیان (اصل موضوع) کے عنوان سے ذکر کردیں گے تا کہ بآسانی بات اپنی جگہ پر ثابت ہو سکے۔
اس حصہ کے مبا حث کا ھدف
ا س حصہ کو ذکر کرنے سے ہمارا پہلا ہدف یہ ہے کہ حقائق ہستی اور صحیح زندگی کے راستوں کی معرفت حاصل کرنے کے لئے حس و عقل کے علاوہ ایک اور راستہ بھی ہے، کہ جس میں خطا کا کوئی امکان نہیں ہے، جسے وحی کہا جاتا ہے جو ایک قسم کی الٰہی تعلیم ہونے کے ناطے اس کے خاص بندوں سے مخصوص ہے اور عوام اس کی حقیقت سے بے خبر ہے ،لیکن آثار اور علامتوں کے ذریعہ وحی کے ہونے کا پتہ لگاتے ہوئے انبیا ء الٰہی کے ادّعا یعنی وحی کے ہونے پر یقین کیا جا سکتا ہے، اور یہ ایک حقیقت ہے کہ جب کسی کے لئے وحی الٰہی کا ہونا ثابت ہوجائے اور جب اس کے پیغامات دوسروں تک پہنچ جائیں تو ان پر واجب ہے، کہ اس کے احکامات پر عمل کریں، اور اس صورت میں کوئی بھی اس کی مخالفت کر کے عذر پیش نہیں کر سکتا، مگر یہ کہ وحی کسی خاص فرد ،یا گروہ یا ایک معین زمانہ سے مخصوص ہو۔
لہٰذا اِس حصہ کے بنیادی مسائل، بعثت انبیاء ٪ کی ضرورت، وحی کا لوگوں تک پہنچنے تک عمدی یا سہوی تصرفات سے محفوظ رہنا، یاانبیاء ٪ کا پیغامات الٰہی کو لوگوں تک پہنچانے میں معصوم ہونا، اور ان کی نبوت کو ثابت کرنے کے لئے کافی دلائل کا ہونا وغیرہ ہیپس جب وحی اور نبوت کے بنیادی مسائل دلیل عقلی کے ذریعہ ثابت ہو گئے تو اُس کے بعد دوسرے مسائل جیسے تعدد انبیائ، کتب، آسمانی شریعتیں، آخری رسول ۖ آخری کتاب اور ان کے جانشین کی تعیین جیسے مسائل کے تحت بحث کی جائے گی۔
لیکن ان تمام مسائل کو عقلی برہان کے ذریعہ ثابت کرنا میسر نہیں ہے بلکہ بہت سے مقامات پر نقلی اور تعبدی دلائل کا سہارا لینا ضروری ہے۔
علم کلام میں تحقیق کی روش
اب تک جو کچھ ہم نے بیان کیا ہے اس کے مطابق فلسفہ اور علم کلام کے درمیان بنیادی فرق روشن ہوگیا اس لئے کہ فلسفہ ان مسائل میں سے ہے کہ جو عقلی دلائل کے ذریعہ ثابت ہوتا ہے لیکن علم کلام ان مسائل پر مشتمل ہے کہ جو نقلی اور تعبدی دلائل کے بغیر قابل اثبات نہیں ہے۔
ایک دوسری تعبیر کے مطابق فلسفہ اور علم کلام کے درمیان موجودہ نسبت (عموم خصوص من وجہ) کی ہے یعنی فلسفہ اور علم کلام مشترک مسائل سے متصف ہوتے ہوئے دونوں اپنے مخصوص مسائل کے مالک بھی ہیں، ہاں فلسفہ کے اپنے مخصوص مسائل عقل کی بنیاد پر حل کئے جاتے ہیں، لیکن علم کلام کے مسائل عقلی اور تعبدی دلائل کے ذریعہ ثابت ہوتے ہیں۔
ایک دوسری تعبیر کے مطابق در حقیقت علم کلام (تلفیقی) یعنی اس میں دلائل عقلی کے استعمال کے علاوہ تعبدی دلائل کا سہارا بھی لیا جاتا ہے۔
نتیجہ۔ فلسفہ اور علم کلام میں دو بنیادی فرق یہ ہے کہ دونوں مشترک مسائل (خدا کی معرفت) سے سرفراز ہونے کے علاوہ کچھ مخصوص مسائل کے مالک بھی ہیں، کہ جن میں فلسفہ کے مخصوص مسائل سے کلام اور کلام کے مخصوص مسائل سے فلسفہ میں بحث نہیںکی جاتی، اور دوسرا فرق یہ ہے کہ فلسفہ میں اس کے مسائل کے تحت تحقیق ایک، عقلی روش ہے لیکن علم کلام اپنے بعض مسائل میں جو ان دونوں میں مشترک ہیں عقلی روش کے ذریعہ اور بعض مسائل (جیسے امامت) میں نقلی روش کے ذریعہ بحث کرتا ہے، لیکن بعض مقام پر ( جیسے اصل قیامت کو ثابت کرنے کے لئے ) دونوں روش کو استعمال میں لاتا ہے، اِس مقام پر اِس بات کی طرف اشارہ کرنا لازم ہے ،کہ علم کلام کے اپنے تمام خاص مسائل جو نقلی اور تعبدی روش کے ذریعہ ثابت ہوتے ہیں، ایک جیسے نہیں ہیں، بلکہ بعض مسائل جیسے رسول اکرم ۖ کے کردر و گفتار کی حجیّت خود قرآنی آیات کے ذریعہ ثابت ہوتی ہے لیکن اس سے پہلے عقلی دلائل کے ذریعہ قرآن کی حقانیت کا ثابت ہونا ضرور ی ہے اور پھر آنحضرت کے خلفا کے تعیین اور اُن کے اقوال کی حجیت کے تحت بحث کی جاتی ہے۔
لیکن یہ امر واضح و آشکار ہے کہ دلائل نقلی کے ذریعہ حاصل ہونے والے نتائج اس صورت میں یقینی ہوںگے کہ جب ان کی سندقطعی اور ان کی دلالت آشکار ہوں۔
سوالات
١۔ کیوں خدا کی معرفت کے بعض مسائل کو ہم نے صرف عقلی اسلوب کے ذریعہ بیان کیا ہے؟
٢۔ نبوت کے بنیادی مسائل کیا ہیں؟
٣۔ کیا نبوت اور قیامت کے بنیادی مسائل کو نقلی دلائل کے ذریعہ ثابت کیا جا سکتا ہے؟ اور کیا ان دونوں میں کوئی فرق ہے؟
٤۔ علم کلام کے کن مسائل کو نقلی دلائل کے ذریعہ ثابت کیا جا سکتا ہے؟
٥۔ مسائل نبوت کو معاد کے مسائل پر مقدم کرنے کی وجہ کیا ہے؟اور کیا ان دونوں کے مسائل کو منظم کرنے کے لئے کوئی منطقی ترتیب ہے؟
٦۔ فلسفہ اور علم کلام میں کیا فرق ہے؟
٧۔ علم کلام کے مسائل کے اثبات کی جہت سے اُسے چند قسموں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے؟ ان قسموں کی ترتیب بیان کریں؟
|