درس عقائد
 

پندرہواں درس
ماٹریالیسم ڈیالٹیک اور اس پرتنقید
مکینکی اور ڈیالٹیکی ماٹریا لیسم
یہ بحث مندرجہ ذیل موضوعات پر مشتمل ہے
قاعدہ تضاد اور اس پرتنقید
قاعدہ جہش اور اس پرتنقید
قاعدہ نفی نفی اور اس پرتنقید

مکینکی اورڈیالٹیکی ماٹریالیسم
ماٹریا لیسم کی مختلف شاخیں ہیں ،کہ جن میں سے ہر ایک اپنے اندار میں کائنات اور اس کی اشیا کی پیدائش کو بیان کرتا ہے لیکن عصر جدید کے آغاز میں ان لوگوں نے جہان کے موجودات کی پیدائش کو مکینکی حرکت کی بنیاد پر مفاہیم فیزیک نیوٹنی کے ذریعہ بیان کرنے کی کوشش کی ہے، اور ہر اس حرکت کو قوتِ محرّکہ کا معلول سمجھا ہے کہ جو خارج سے جسم متحرک میں داخل ہوئی ہے، ایک اور تعبیر کے مطابق وہ لوگ اس جہان کو ایک عظیم گاڑی کی طرح تصور کرتے ہیں کہ جس میں قوت محرک ایک حصہ سے دوسرے حصہ میں منتقل ہوتی ہے اور اس طرح یہ عظیم گاڑی حرکت میں آجاتی ہے۔
یہ فرضیہ (ماٹریالیسم مکینکی) کے نام سے مشہور ہوا ہے مختلف جہت سے اس نظریہ کے ضعیف ہونے کی وجہ سے ، مخالفین کی جانب سے شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا ،منجملہ یہ کہ اگر ہر حرکت ،قوت خارجی کا معلول ہے تو اس صورت میں جہان کے مادۂ اول کے لئے بھی ،کسی قوت کو فرض کرنا ہوگا کہ جو خارج سے اس کے جسم میں داخل ہوئی ہو اور اس امر کا لاز می نتیجہ یہ ہو گا ،ماوراء مادہ ایک قوت کو
قبول کرنا ہو گا ہ جو کم از کم عالم مادہ میں پہلی حرکت کا عامل بنی ہو۔
دوسرا نقطہ ضعف یہ ہے کہ مکینکی قوت کے ذریعہ صرف وضعی اورا نتقالی حرکات کی توجیہ کی جا سکتی ہے حالانکہ تمام موجودات جہان کو مکانی تغیرات میں منحصر نہیں سمجھا جا سکتا، لہٰذا موجودات جہان کی پیدائش میں کسی اور موجود کو عامل ماننا پڑے گا۔
ان اعتراضات کے سامنے مکینکی ماٹریالیسم کی ناتوانی سبب بنی ،کہ وہ لوگ اس جہان کی پیدائش کے لئے کسی دوسرے عامل کی تلاش شروع کریں لہذا انھوں نے بعض حرکات کو بصورت ڈینامیکی تفسیر کی ، اور مادہ کے لئے ایک قسم کی خود تحرکی کا نظریہ تسلیم کر لیا ۔
مکتب ماٹریا لیسم دیالٹیک کے نظریہ کی بنیا د رکھنے والے منجملہ (مارکس و انگلس ہگل) ہیں کے انھوں نے مادی موجودات کے باطنی تضاد کو عامل حرکت کے عنوان سے پہچنوانے کی کوشش کی ہے، اور اصول مادہ کا ابدی اور خلق ہونے سے مبرا ہونا، موجودات کا ایک دوسرے پر اثر انداز ہونا اور اجتماعی حرکت کو قبول کرنے کے علاوہ اپنے فرضیہ کو ثابت کرنے کے لئے جدید اصول پیش کئے ۔
(١) فاعدہ تضاد (٢) کمی تغیرات کو کیفی تغیرات میں تبدیل کرنا (٣) قاعدہ نفی نفی یا (طبیعت میں تحقیق و جستجو کا قانون) اب اس کے بعد ہم ان تینوں اصل کو بیان کریں گے اور اس پر ہونے والے اعتراض کو ذکر کریں گے۔
٫٫قاعدہ تضاد،، ماٹریالیسم ڈیالٹیک کے مطابق ہر موجود دو ضدوں سے مرکب ہے (فعال و غیر فعال ) (THESE ANTI THESE) موجودات میںتضاد کا پایا جاناحرکت کا سبب ہے، یہاں تک کہ غیرفعال غالب ہوجاتا ہے اور ایک دوسرا موجود جو (انقلاب) (CENTTHESE) کے نام سے وجود میں آتا ہے، جیسے انڈا جو اپنے آغاز میں ایک نطفہ ہوتا ہے کہ جو آہستہ آہستہ رشد کرتا ہے اور ایک مدت کے بعد ایک بچہ جو بہ صورت انقلاب (CENTTHESE) ہے وجود میں آتا ہے۔
فیزیک میں مثبت اور منفی ،تضاد کا ایک نمونہ ہے جس طرح سے کہ جمع و تفریق ابتدائی ریاضیات میں تضاد کا ایک نمونہ ہے، اور کامل ریاضی میں جمع اور تفریق تضاد کا ایک نمونہ ہے یہ کیفیت موجودات اجتماعی اور تاریخی میں بھی قابل مشاہدہ ہے مثلاً دولت مندوں کے مقابلہ میں فقراء غیر فعال
(ANTI THESE) ہیں جو آہستہ آہستہ رشد کرتے ہیں اور دولتمندوں کے مقابلہ میں کامیاب ہوجاتے ہیںاس طرح دولتمندوں کے مقابلہ میں انقلاب (CENTTHESE) فقراء کی جماعت بصورت سوسیالسٹی اور کمیونسٹی وجود میں آجاتی ہے۔

تنقید۔
آغاز سخن میں اس نکتہ کی طرف توجہ رہے کہ دو مادی موجودکا اس طرح اکٹھا ہونا کہ ایک دوسرے کی تضعیف کا سبب بنے ، یا ایک دوسرے کی نابودی کا درپے ہو، اس مطلب کو ہر ایک نے قبول کیا ہے جیسا کہ اس کی مثال آگ اور پانی کے اکٹھا ہونے کی صورت میں دی جاتی ہے لیکن یہ قاعدہ کلیہ نہیں ہے اور اسے تمام موجودات پر صادق آنے وا لے قاعدہ کے عنوان سے نہیں مانا جا سکتا، اس لئے کہ اس ضمن میں سیکڑوں مثالیں موجود ہیں۔
دوسرے یہ کہ بعض مادی موجودات میں تضاد کا پایا جانا ، اس تناقض و تضاد سے کہ جو منطق و فلسفہ کی کتابوں میں ذکر ہوئے ہیں ، اور جن کا محال ہونا بدہی ہے کسی بھی حال میں کوئی ربط نہیں ہے، اس لئے کہ (موضوعِ واحد)میں اجتماعِ ضدین کو محال سمجھا گیا ہے اور جو مثالیں بیان کی گئیں ہیں ان میں موضوعِ واحد نہیں ہے،اور مارکسسٹوں نے ضدین کے تحت جو مثالیں (اجتماع جمع و تفریق میں) پیش کی ہیں ان کو بیان کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے اسی طرح ان پیشنگوئیوں کو ذکر کرنے کی بھی کوئی ضرورت نہیں ہے جو نظام سرما یہ داری سے متصف ممالک میں حکو مت و کارگر کے قیام میں بیان کی گئی ہیں۔
تیسرے یہ کہ اگر ہر موجود دو ضدوں کا مجموعہ ہو تو ان میں فعاّل اور غیر فعّال کے لئے بھی ایک دوسری ترکیب کو فرض کرنا پڑے گا، اس لئے کہ وہ بھی ایک موجود ہیں، اور اصل مذکور کی بنیاد پر ان کا بھی دو ضدوں سے مرکب ہونا ضروری ہے، اس طرح ہر محدود موجود کا بے نہایت اضداد سے مرکب ہونا لازم آتا ہے۔
لیکن وہ باطنی تضاد جسے عاملِ حرکت کے عنوان سے پہچنوایا گیا ہے اور اس طرح مکینکی ماٹریالیسم کے نقطہ ضعف کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی ہے، اس پر ہونے والے اعتراضات میں سے ایک معمولی ا عتراض یہ ہے کہ اس فرضیہ کے لئے کسی بھی علمی دلیل کا وجود نہیں ہے اس کے علاوہ خارجی قوت کے ذریعہ وجود میں آنے والی مکینکی حرکت سے کسی بھی حال میں انکار نہیں کیا جاسکتا، لیکن فوٹبال کی حرکت کو اس کے داخلی تضاد کا نتیجہ سمجھنا باطل ہے۔

قاعدہ جہش۔
چونکہ جہان میں ہونے وا لے تغیرات تدریجی اور ایک سمت میں رواں نہیں ہیں، اور بعض اوقات ایسے موجودات میں وجود پائے جاتے ہیں کہ جو گذشتہ موجودات سے کسی بھی صورت میں مشابہ نہیں ہوتے اور انھیں گذشتہ حرکت کی ایک کڑی نہیں مان سکتے لہٰذا مارکسسٹوں نے ایک دوسری اصل بنام ''جہش'' یا بنام (تغیرات کمی (مقداری )سے تغیرات کیفی میں منتقل ہو جانا) کا سہارا لیا اور اس طرح بیان کرنے کی کوشش کی، کہ تغیرات کمی جب ایک معین حد تک پہنچ جاتی ہے تو وہ تغیری کیفی کی پیدائش کا سبب بن جاتی ہے جس طرح سے کہ جب پانی کی حرارت ایک معین مقدار تک پہنچ جائے تو وہ پانی بخار میںتبدیل ہو جاتا ہے یا جب ایک دھات حرارت میں اپنی معین مقدار کو پہنچ جائے تو وہ پگھل جاتی ہے اسی طرح جب سماج میں اختلافات شدید ہوجا ئے تو انقلاب وجود میں آجاتا ہے۔

تنقید۔
پہلے تو یہ کہ کسی بھی حال میں کمیت کیفیت میں نہیں بدلتی، ہاں اتنا ضرور ہے کہ کسی خاص موجود کی پیدائش میں ایک معین کمیّت کے وجود کی ضرورت ہے، جیسے پانی کا درجہ حرارت،بخار میں تبد یل جہیں ہوتا بلکہ پانی کے بخار میں تبدیل ہونے کے لئے ایک معین مقدار میں حرارت کا پایا جانا ضروری ہے۔
دوسرے یہ کہ ،ضروری نہیں ہے کہ یہ کمیت لازم ، سابقہ کمیت میں بالتدریج اضافہ کی وجہ سے ہے ، بلکہ سابقہ کمیّت میں کمی واقع ہونے کے سبب جدید کمیت کے وجود میں آنے کا امکان ہے، جیسے کہ بخار کا پانی میں تبدیل ہونا حرارت کے کم ہونے پر مشروط ہے۔
تیسرے یہ کہ کیفی تغیرات ہمیشہ ناگہانی نہیں ہیں، بلکہ بہت سے مقامات پر تدریجی ہوتے ہیں، جیسا کہ موم اور شیشہ کا پگھلنا تدریجی ہے۔
ہاں جس حقیقت کو یہاںمانا جاسکتا ہے وہ یہ ہے کہ بعض طبیعی موجودات کے متحقق ہونے کے لئے ایک کمیت کا ہونا ضروری ہے، لیکن کمیت کا کیفیت میں تبدیل ، کمیت میں تدریجی ا عتبار سے اضافہ کا لازم ہونا اور تمام کیفی تغیرات کے لئے ا یسی کلیت کو تسلیم کرلینا ، کسی بھی حال میں قابل قبول نہیں، لہذا قانون جہان شمول بنام (تغیرات کمی سے تغیرات کیفی میں منتقل ہوجانے )کا کوئی وجود نہیں ہے۔

قاعدہ نفی نفی۔
قاعدہ نفی نفی کا مطلب کہ جسے کبھی قانون تکامل ضدین یا جستجو طبیعت کا نام دیا جاتا ہے یہ ہے دیالتکی تحولات اور تغیرات میں ہمیشہ فعال (THESE)کے ذریعہ غیر فعال (ANTI THESE) کی نفی کی جاتی ہے اور خود بخود غیر فعال انقلاب (CENTTHESE ANTI THESE) کے ذریعہ منتفی ہو جاتا ہے، جیسا کہ گھاس دانہ کی نفی کرتی ہے اور خود وہ گھاس نئے دانوں کے وجود میں آجانے کی وجہ سے منتفی ہو جاتی ہے ، اسی طرح نطفہ انڈے کی نفی کرتا ہے اور وہ خود چوزہ کے ذریعہ منتفی ہوجاتا ہے، یعنی ہر آنے والاوجود گذشتہ موجود کی بہ نسبت کامل تر ہوتا ہے اور اس اصل قاعدہ کی اہمیت اسی نکتہ میں پوشیدہ ہے کہ یہ (تغیرات کی کیفیت کو آشکار کرتی ہے، اور تغیرات کو کمال کی جانب رواں دواں ہونے کی طرف تاکید کرتی ہے۔

تنقید۔
اس امر میں کوئی شک نہیں ہے کہ ہر تغیر و تحول کے بعد سابقہ حالت متغیر ہو جاتی ہے اور ایک جدید شکل اختیار کرلیتی ہے اور اگر قاعدہ نفی نفی کو اسی معنی میں لیا جائے تو پھر اس کے معنی لوازم تغیر کے بیان کرنے کہ علاوہ کچھ اور نہیں ہیں لیکن اس اصل کے لئے جن تفسیروں کو ذکر کیاگیا ہے وہ جہت حرکت اور اس کے تکاملی(بہ تدریج کامل) ہونے کو بیان کرنے والی ہیں لہذا اس کے مطابق یہ کہنا بہتر ہے کہ جہان کے تمام تغیرات کا مطلب یہ ہے کہ ہر ہونے والا وجود گذشتہ موجود سے کامل ہونا چائیے، لیکن یہ امر قابل قبول نہیں ہے ، کیا ٫٫ یو رنیسم ،، شعاعوں کے اثر سے سرب میں تبدیل ہونے کی وجہ سے کامل ہو جاتی ہے ؟ کیا پانی بخار میں بدل جانے کے بعد تکامل یافتہ ہو جاتا ہے ؟ یا بخار کے پانی میں بدل جانے کی وجہ سے اسے کمال مل جاتا ہے ؟کیا جو درخت خشک ہوجاتے ہیں اور ثمر دینے کی قوت کھو ب بیٹھتے ہیں وہ راہ کمال کی طرف گامزن ہیں ؟ ان تمام شواہد کے ہوتے ہوئے صرف بعض موجودات کے سلسلہ میں قانون تکامل کو مانا جاسکتا ہے، لیکن تمام موجودات کے لئے ایک کلی قانون ہونے کے عنوان سے اسے تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔
آخر کار اس امر کی طرف اشارہ کرنا ضروری ہے کہ اگر بالفرض ان تمام اصول (قو اعد ) کا کلی ہونا مان لیا جائے تو یہ علوم طبیعی میں ثابت شدہ قوانین موجودات کی پیدائش کی کیفیت ہی کو بیان کرسکتے ہیں، لیکن جہان میں قانون کلی کے ثابت ہونے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ موجودات علت جھان آفرین سے بے نیاز ہوں، اور جیسے کہ ہم سابق میں بیان کر چکے ہیں کہ مادہ اور مادیات ممکن الوجود ہیں، لہٰذا ان کا واجب الوجود کا محتاج ہونا ضروری ہے۔

سوالات
١۔ ماٹریالیسم ڈیالٹیکی اور مکینکی کے درمیان موجود فرق کی وضاحت کریں؟
٢۔ قاعدہ تضاد کی شرح پیش کریں اور اس پر ہونے والے اشکالات ذکر کریں؟
٣۔ قاعدہ جہش اور اس پر ہونے والے اشکالات ذکر کریں؟
٤۔ قاعدہ نفی نفی کو بیان کرتے ہوئے اس پر تنقید کریں؟
٥۔ کیا ان قواعد کے کلی ہونے کی صورت میں انکا جہان کے خالق سے بے نیاز ہونا ثابت ہوتا ہے؟ کیوں؟