درس عقائد
 

چودہواں درس
مادی جہان بینی اور اس پر تنقید
یہ بحث مندرجہ ذیل موضوعات پر مشتمل ہے۔
مادی جہان بینی کے اصول
اصل اول
اصل دوم
اصل سوم
اصل چہام

مادی جہان بینی کے اصول
مادی جہان بینی کے لئے درج ذیل اصول فرض کئے جا سکتے ہیں
پہلی اصل: ہستی جو مادہ(١) اور مادیات کے ہم پلّہ و مساوی ہے اور اسی چیز کو موجود کا نام دیا جا سکتا ہے کہ جو یا تو مادہ اور حجم سے متصف ہونے کے علاوہ ابعادثلاثہ (طول، عرض، عمق) سے متصف ہو، یا مادہ کے خواص میں سے اس کا شمار ہو اور اسی ضمن میں مادہ بھی قابل تقسیم اور کمیت کا حامل ہے لہذااسی اصل کی بنیاد پر خدا کے وجود کا ایک غیر مادی اور طبیعت سے بلند موجود ہونے کے عنوان سے انکار کردیا جاتا ہے۔
دوسری اصل: مادہ ازلی و ابدی نیز نا قابل خلق ہے اور کسی علت کا محتاج بھی نہیں ہے اور اصطلاح فلسفی کے مطابق ''واجب الوجود'' ہے۔
تیسری اصل: اس جہان کے لئے علت غائی اور کسی ہدف کا تصور نہیں کیا جا سکتا اس لئے کہ کسی با شعور فاعل کا وجود نہیں ہے کہ جس کے لئے ہدف کا تصور کیا جائے۔
…………………………
(١)مفہوم مادہ اور اس کی تعریف سے زیادہ آشنا ئی کے لئے ٫٫پاسداری از سنگرہائی آئیڈیا لوجیک،، جہان بینی مادی ص ٢٩٧٢٩٢ اور آموزش فلسفہ ج٢ ص٤١اکتالیسویں درس کی طرف رجوع کریں۔
چوتھی اصل: اس جہان کے موجودات، (اصل مادہ کے علاوہ) مادہ کے ذرات کا ایک دوسرے پر اثر انداز ہونے کی وجہ سے وجود میں آئے ہیں، اسی وجہ سے گذشتہ موجودات کو آنے والے موجودات کے لئے شرط اور علت اعدادی مانا جا تا ہے، اور مادیات کے درمیان اکثر ایک قسم کی فاعل طبیعی کو قبول کیا جا تا ہے، جیسے کہ درخت کے پھل کے لئے فاعل طبیعی یا بیالوجی اورکمیسٹری کے اثرات کو خود ا سی کی طرف نسبت دی گی ہے، پھر کسی بھی موجود کے لئے فاعل الٰہی اور ہستی بخش کی ضرورت نہیں ہے۔
مذکورہ اصول کے علاوہ اصل پنجم کا اضافہ کیا گیا ہے جو معرفت شناسی سے مر بوط ہے بلکہ ایک طرح سے تمام اصول پر مقدم ہے اور وہ یہ ہے کہ صرف اسی شناخت کو معتبر مانا جا سکتا ہے کہ جو تجربہ حسی کے نتیجہ میں حاصل ہو ، اور چونکہ حسی تجربہ صرف مادہ اور مادیات کے وجود کو ثابت کرتے ہیں لہٰذا کسی بھی شی کا وجود غیر قابل قبول ہے۔
لیکن اس اصل پنجم کا باطل ہونا گذشتہ درس میں بیان کیا جا چکا ہے(١) جسے دوبارہ بیان کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، بلکہ بقیہ چار اصول کے سلسلہ میں گفتگو جاری رہے گی۔

پہلی اصل ۔
مادی جہان بینی میں اس اصل کا شمار بنیادی اصول میں کیا جاتا ہے لیکن یہ اصل بے بنیاد دعوے کے علاوہ کچھ نہیں ہے،اورماوراء طبیعت کے انکار کے لئے کسی بھی قسم کے برہان و دلیل قائم نہیںکی جا سکتی، بالخصوص ماٹریالسٹی معرفت شناسی کے ذریعہ کہ جس کی بنیاد اصالت حس و تجربہ پر قائم ہے، ماوراء طبیعت کی نفی پر دلیل لانا غیر ممکن ہے، اس لئے کہ یہ بات بخوبی روشن ہے کہ کوئی بھی٫٫ حس
……………………………
(١)اس سلسلہ میں مزید اطلاح کے لئے آئیڈیا لوجی تطبیقی کے آٹھویں درس سے سولہویں درس تک، اور آموزش فلسفہ کے تیرہویں درس سے اٹھارہویں درس تک کا مطالعہ کیا جائے۔
تجربی،، اپنے حدود یعنی مادہ اور مادیات سے ہٹ کر کسی شی کی نفی یا اثبات کا فریضہ ا نجام نہیں دے سکتی
، حس گرائی کی منطق کی بنا پر حد اکثر جو مطلب ثابت کیا جاسکتا ہے وہ یہ ہے کہ٫٫ حس تجربی،، سے ماوراء طبیعت کو ثابت نہیں کیا جاسکتا، لہذا اس صورت میں کم از کم اس کے موجود ہونے کا احتمال باقی ر ہ جاتا ہے، اور جیسا کہ ہم نے پہلے بھی اشارہ کیا ہے کہ انسان بہت سے غیر مادی موجودات کوجو مادہ کی خصوصیات کی حامل نہیں ہیں منجملہ روح کو، اپنے علم حضوری کے ذریعہ درک کرلیتا ہے، اس کے علاوہ بھی مجردات کے اثبات میں بے شمار دلیلیں فلسفی کتابوں میں ذکر کی گئیں ہیں۔(١)
موجود مجرد یعنی روح کے شواہد میں سے رویائے صادقہ، مر تاضوں کے خار ق عادات امور اور انبیائ، ائمہ علیہم السلام اور اولیا الٰہی کے معجزات و کرامات ہیں(٢)بہر حال خدا کے وجود اور اس کے جسمانی نہ ہونے پر جو دلائل قائم کئے گئے ہیں اس اصل کے بطلان کے لئے کافی ہیں۔(٣)

دوسری اصل ۔
اسی اصل میں مادہ کے ازلی اور ابدی ہونے پر تاکید اور پھر یہ نتیجہ حاصل کیا گیا ہے کہ وہ خلق کئے جانے سے مستغنی ہے۔
لیکن مادہ کا ازلی اور ابدی ہونا، علمی اور تجربی دلائل کے ذریعہ یہ با ت قابل اثبات نہیں ہے اس لئے کہ تجربہ کا دائرہ محدود ہے اس لئے کہ کوئی بھی تجربہ زمان و مکان کے اعتبار سے جہان کے بے نہایت ہونے کو ثابت نہیں کر تا۔
……………………………
(١)نمونہ کے لئے آموزش فلسفہ ج٢ چوالیسویں درس سے انچاسویں درس کا مطالعہ کریں ۔
(٢)کتاب (نقدی فشردہ بر اصول مارکسیسم) میں دوسرے درس کی طرف رجوع کریں۔
(٣)اسی کتاب کے ساتویں اور آٹھویں درس کا مطالعہ کیا جائے اسی طرح کتاب آموزش فلسفہ کے باسٹھویں اور ترسٹھویں درس کا مطالہ کیا جائے۔
اور مادہ کا ازلی ہونا اس بات کا لازمہ نہیں ہے کہ وہ خالق سے بے نیاز ہے جس طرح سے کہ ایک ازلی مکینکی حرکت کا فرض، ازلی قوتِ محرک کا لازمہ ہے نہ یہ کہ وہ قوت محرک سے بے نیاز ہے
مادہ کا خلق ہونے سے مستغنی ہونا ،واجب الوجود ہونے کے مساوی ہے، اور ہم نےآٹھویں در س میں اس بات کو ثابت کردیا ہے کہ مادہ کا واجب الوجود ہونا محال ہے۔

تیسری اصل
تیسری اصل جہان کے ہد ف مند ہونے کا انکار ہے جس کے نتیجہ میں خالق کے منکر ہونے کا لازمہ پیش آتا ہے، لہٰذا خدا کے وجود کے ثابت ہونے کے ساتھ یہ اصل بھی باطل ہوجاتی ہے، اس کے علاوہ یہ سوال باقی ہے کہ ایک عقلمند انسان اس منظم جہان کو دیکھتے ہوئے کس طرح ا س کے بے ھدف ہونے کو مان سکتا ہے جبکہ اس میںنہایت نظم و ضبط کے علاوہ بے شمار آثار و فوائد رونما ہیں۔

چوتھی اصل ۔
چوتھی اصل مادی موجودات میں علیت کو منحصر سمجھنا ہے، لیکن اس اصل پر بے شمار ا عتراضات ہیں جن میں سے مہم ترین ا عتراضات درج ذیل ہیں۔
پہلے یہ کہ اس اصل کی بنیاد پر اس جہان بینی میں کسی نئے موجود کا وجود میں آنا غیر ممکن ہے، حالانکہ ہم برابر عالم انسان اور حیوانات میں نئے موجودات کی پیدائش کے شاہد ہیں، کہ جن میں سے مہم ترین حیات، شعور، عواطف، احساسات اور افکار ہیں۔
ماٹریالیسٹوں کا کہنا ہے کہ یہ موجودات مادہ کے خواص کے علاوہ کچھ اور نہیں ہیں۔
تو ان کے جواب میں ہم یہ کہیں گے کے امتداد اور تقسیم پذیری مادہ اور مادیات کی خصوصیات میں سے ہے جبکہ یہ خصوصیات ان کے وجود میں نہیں پائی جاتیں۔
اور وہ موجودات جنھیں مادہ کے خواص کے نام سے یاد کیا جاتا ہے بے شک یہ خواص بے جان مادہ میں نہیں پائے جاتے یا ایک دوسری تعبیر کے مطابق مادہ ایک مدت تک ان خواص سے عاری ہے اور ایک مدت کے بعد وہ ان سے متصف ہوجاتا ہے ، پس وہ موجودات جنھیں خواص مادہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اسے بھی کسی خالق کی ضرور ت ہو گی جو اسے مادہ کی صورت میں وجود بخشے اور یہ وہی
علّت ہے کہ جسے علت ایجادی اور ہستی بخش کہتے ہیں۔
اس قول کے تحت ایک دوسرا اعتراض یہ ہے کہ اس قول کی بنیاد پر تمام موجودات کا وجود میں آنا جبری ہے، اس لئے کہ مادہ کی تأثیر اور اس کے تأ ثرات میں انتخاب و اختیار کا کوئی وجود نہیں ہے، اور اختیار سے انکار خلاف وجدان ہونے کے علاوہ تمام معنوی و اخلا قی اقدارکے منافی ہونے کے ساتھ ساتھ ہر قسم کی ذمہ داریوں سے انکار کا ہے اور ظاہر ہے کہ معنوی اقدار اور ذمہ داری سے انکار کے نتیجہ میں انسانی زندگی میں کس طرح کے اثرات مرتب ہوں گے ؟! (وہ سب عیاں ہیں ) آخر کار، مادہ کے واجب الوجود نہ ہونے کی صورت میں جیسا کہ ثابت ہو چکا ہے، کسی نہ کسی علّت کی ضرورت ہو گی ،اور یہ علت کبھی بھی علت طبیعی اور علت اعدادی نہیں ہوسکتی، اس لئے کہ روابط تنہا مادیات میں ایک دوسرے کے ساتھ متصور ہیں، لیکن تمام مادہ کا، علت کے ساتھ اس طرخ کے رابطہ ہونے کا تصور نہیں کیا جا سکتا،لہذا جو علت بھی مادہ کو وجود بخشے گی وہ علت ایجادی اور ماوراء مادی ہوگی ۔

سوالات
١۔مادی جہان بینی کے اصول بیان کریں؟
٢۔مادہ اور مادی شی کی تعریف کریں؟
٣۔ پہلی اصل پر ہونے والے اشکالات کو بیان کریں؟
٤۔ دوسری اصل پر ہونے والے اشکالات کو بیان کریں؟
٥۔ تیسری اصل پر تنقید کریں؟
٦۔ چوتھی اصل پر ہونے والے اشکالات کو بیان کریں؟