درس عقائد
 

نواں درس
صفات ذاتیہ
مقدمہ
صفات ذاتیہ اور فعلیہ
صفات ذاتیہ کا اثبات
حیات
علم
قدرت

مقدمہ
ہمیں یہ معلوم ہے کہ خدا وند عالم علت وجود آفرین کائنات ہے، جس میں تمام کمالات جمع ہیں اور موجودات میں پائی جانے والی تمام صفتیں اور کمالات اسی کی ذات سے وابستہ ہیں، لیکن بندوں میں کمالات کے افاضہ سے اس کے اندر کوئی کمی واقع نہیں ہوتی، تقریب ذہن کے لئے اس مثال کا سہارا لیا جاسکتا ہے، کہ استاد اپنے شاگرد کو جو کچھ اپنے علم سے فائدہ پہنچا تا ہے اس کی وجہ سے استاد کے علم میں کوئی کمی واقع نہیں ہوتی، البتہ خدا کی جانب سے وجود اور وجودی کمالات کا افاضہ اس مثال سے کہیں زیادہ بالاتر ہے، شاید اس ضمن میں سب سے واضح تعبیر یہ ہو کہ عالم ہستی ذات مقدس الٰہی کا جلوہ ہے، جسے اس آیت کریمہ سے استفادہ کیا جاسکتا ہے،
(اللّٰہُ نُورُ السَّمٰوٰتِ وَالاَرضِ).(١)
خدا تو سارے آسمان اور زمین کا نور ہے
…………………………
(١)سورۂ نور، آیت/٣٥.
الٰہی کمالات کے لامتناہی ہونے کے پیشِ نظر ہر وہ مفہوم جو نقص و محدودیت سے پاک ہو اور کمال ہونے پر دلالت کرتا ہو اسے خدائے وحدہ 'لا شریک کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے، جیسا کہ قرآنی آیات اور ائمہ معصومین کی طرف سے صادر ہونے والی احادیث، ادعیہ، اور مناجاتوں میں نور، کمال، جمال، محبت اور بہجت جیسے مفاہیم استعمال ہوئے ہیں، لیکن جو کچھ فلسفہ و کلام کتابوں میں صفات الٰہی کے عنوان سے ذکر کیا گیا ہے، ان کی دو قسمیں ہیں، (صفات ذاتیہ اور فعلیہ) لہٰذا پہلے مرحلہ اول میں اس تقسیم کی وضاحت کے بعد ،ان میں سے اہم ترین صفات کے سلسلہ میں بحث کریں گے۔

صفات ذاتیہ اور فعلیہ۔
وہ صفات جسے خدا کی ذات سے نسبت دی جاتی ہے وہ یا تو وہ مفاہیم ہیں جو ذات احدیت میں موجود ہ کمالات سے حاصل ہوتے ہیں جیسے حیات، علم اور قدرت، یا پھر وہ مفاہیم ہیں جو عبد اور معبود کے درمیان رابطہ سے حاصل ہوتے ہیں جیسے خالقیت، رازقیت، لہٰذا پہلی قسم کو صفات ذاتیہ اور دوسری قسم کو صفات فعلیہ کہا جاتا ہے۔
صفات کی ان دو قسموں میں فرق یہ ہے کہ پہلی قسم میں، خدا ان صفات کے لئے عینی مصداق ہے لیکن دوسری قسم میں خالق و مخلوق کے درمیان موجودہ نسبت کی حکایت ہے، ذات الٰہی اور مخلوقات دو طرفہ حثیت سے پہچانے جاتے ہیں ، جیسے کہ صفت خالقیت مخلوقات کی ذات ،وجود خدا سے وابستگی کی بنا پر اخذ ہوتی ہے اور اس نسبت کی تشکیل اس کی دوطرفہ ، خدا ،و مخلوق سے ہوتی ہے خارج میں ذات مقدس الٰہی اور مخلوقات کے علاوہ کسی تیسری شیء کا کوئی وجود نہیں ہے، البتہ خداوند متعال خلقت کی قدرت سے متصف ہے لیکن (قدرت) اس کی ذاتی صفات میں سے ہے اور٫٫خلق کرنا،، ایک ایسا مفہوم ہے جو اضافی ہونے کے ساتھ مقام فعل سے ظہور میں آتا ہے، اسی وجہ سے (خالقیت) کا شمار صفات فعلیہ میں کیا جاتا ہے، مگر یہ کہ (خلق پر قادر) ہونے کے معنی لئے جائیں تو اس صورت میں اس کی بازگشت بھی صفت قدرت کی طرف ہوگی۔
حیات،و علم اور قدرت خدا کی مہم ترین صفات ذاتیہ میں سے ہیں، لیکن اگر سمیع و بصیر بہ معنی ،سنی اور دیکھی جانے والی چیزوں کا علم رکھنے والا ہو، یا سمع و ابصار کے معنی میں ہوں تو ان صفات کی باز گشت علیم و قدیر ہے اور اگر ان صفات کا مطلب بالفعل دیکھنا اور سننا ہوجو سنی اور دیکھی جانے والی اشیا اور سننے اور دیکھنے والوں کے درمیان موجودہ رابطہ سے حاصل ہوتے ہیں تو انھیں صفات فعلیہ میں سے شمار کیا جائے گا، جیسا کہ کبھی (علم ) بھی اسی عنایت کے لئے استعمال ہوتا ہے اوراسے (علم فعلی) کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
بعض متکلمین نے کلام اور ارادہ کو بھی صفات ذاتیہ میں سے شمار کیا ہے کہ جن کے سلسلہ میں آئندہ بحث کی جائے گی۔

صفات ذاتیہ کا اثبات۔
قدرت و حیات اور علم الٰہی کو ثابت کرنے کے لئے سب سے آسان راستہ یہ ہے کہ جب ان مفاہیم کو مخلوقات کے سلسلہ میں استعمال کیا جاتا ہے تو یہ اوصاف اس کے کمالات پر دلالت کرتے ہیں، لہذا ان صفات کی علت یعنی ذات الٰہی میں ، بطور کامل ہونا ضروری ہے، اس لئے کہ مخلوقات میں پائی جانے والی تمام صفات و کمالات خدا کی طرف سے ہیں لہذا عطا کرنے والے کے پاس ایسے اوصاف ہونا ضروری ہیں تا کہ وہ دوسروں کو عطا کر سکے، اس لئے کہ یہ ممکن نہیں ہے کہ حیات عطا کرنے والا خود حیات سے سرفراز نہ ہو،یا مخلوقات کو علم و قدرت عطا کرنے والاخود جاہل و ناتواں ہو لہذا مخلوقات میں مشاہدہ ہونے والے کمالات اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ خدا بھی ان کمالات کا بغیر کسی کمی و کسر کے حامل ہے،یا دوسری تعبیر کے مطابق خدا لامتناہی علم و قدرت اور حیات کا مالک ہے
اب اس کے بعد ان صفات کی وضاحت کرتے ہیں۔

حیات۔
حیات کا مفہوم دو طرح کی مخلوقات کے لئے استعمال کیا جاتا ہے ایک سبزہ اور گھاس پھوس جن میں رشد و نمو کی صلاحیت ہوتی ہے ، دوسرے حیوان اور انسان کہ جو ارادہ اور شعور سے متصف ہیں لیکن پہلا معنی ، نقص و احتیاج کا مستلزم ہے اس لئے کہ رشد و نمو کا لازمہ یہ ہے کہ موجود اپنے آغاز میں اس کمال سے عاری ہو ،بلکہ خارجی عوامل کے نتیجہ میں حاصل ہونے والے تغیرات سے آہستہ آہستہ کمالات کا مالک بن جائے، اور ایسا امر خداسے منسوب نہیں کیا جاسکتا، جیسا کہ صفات سلبیہ میں گذرچکا ہے۔
لیکن حیات کا دوسرا معنی ،ایک کمالی مفہوم ہے، ہر چند اس کے امکانی مصادیق نقص کے ہمراہ ہیں لیکن پھر بھی اس کے لئے لامتناہی مقام فرض کیا جاسکتا ہے، کہ جس میں کسی قسم کی کوئی محدودیت اور نقص کا شائبہ نہ ہو، جیسا کہ مفہوم وجود اور مفہوم کمال میں بھی ا یسا ہی ہے ۔
حیات اپنے اس معنی میں کہ جو علم اور فاعلیت ارادی کا ملازم ہے یقیناًوجود غیر مادی ہو گا اگر چہ حیات کو مادی امور یعنی جاندار کے لئے استعمال کیا جاتا ہے، لیکن اصل میں وہ اروح کی صفت ہے اور بدن کا روح سے رابطہ ہونے کی وجہ سے حیات کو بدن سے متصف کیا جاتا ہے یا دوسرے الفاظ میں یہ کہ جس طرح امتداد ، شی جسمانیت کا لازمہ ہے ،حیات بھی وجود مجرد(غیر جسمانی) کا لازمہ ہے لہذا اس طرح حیات خدا پر ایک اور دلیل ایک دلیل متحقق ہو گئی اور وہ یہ ہے کہ ذات مقدس الٰہی مجرد اور غیر جسمانی ہے جیسا کہ گذشتہ دروس میں اسے ثابت کیا جاچکا ہے اور ہر موجود مجرد، حیات سے سرفراز ہے، لہذا اس طرح خدا متعال بھی ذاتاً حیات کا مالک ہے۔

علم۔
علم کا مفہوم تمام مفاہیم میں ہر ایک سے زیادہ واضح و روشن ہے، لیکن مخلوقات کے درمیان
اس کے مصادیق محدود اور ناقص ہیں،لہٰذاان خصوصیات کے ساتھ یہ خدا پر قابل اطلاق نہیں ہے لیکن جیسا کہ پہلے اشارہ کیا جاچکا ہے کہ عقل میں اتنی توانائی ہے کہ وہ اس مفہوم ِکمالی کے لئے ایک ایسے مفہوم کا انتخاب کرئے کہ جس میں کسی قسم کی کوئی محدودیتاور نقص نہ ہو بلکہ عالم ہونا اس کی عین ذات ہو،علم خدا کے ذاتی ہونے کے یہی معنی ہیں ۔
خدا کے علم کو متعدد راستوں سے ثابت کیا جاسکتا ہے، ایک وہی راستہ ہے کہ جس کی طرف تمام صفات ذاتیہ کے اثبات کے لئے اشارہ کیا جاچکا ہے، یعنی چونکہ مخلوقات کے درمیان علم پایا جاتا ہے لہٰذا خالق کی ذات میںاس کی کامل صورت کا ہونا ضروری ہے۔
دوسرا راستہ دلیل نظم کی مدد سے حاصل ہوتا ہے وہ یہ کہ ایک مجموعہ جس قدر نظم و ضبط کا حامل ہوگا اتنا ہی اس کے ناظم کے علم پر دلالت کرے گا، جس طرح سے کہ ایک علمی کتاب یا خوبصورت شعر یا کوئی نقاشی (آرٹ) وجود بخشنے والے کے ذوق اوراس کے علم و دانش پر دلالت کرتے ہیں اور کبھی بھی کوئی عاقل یہ تصور نہیں کر سکتا کہ ایک فلسفی یا کوئی علمی کتاب کسی جاہل یا نادان شخص کے ہاتھوں لکھی گئی ہوگی لہٰذا کیسے یہ تصور کیا جاسکتا ہے کہ ایسا نظم یافتہ جہان کسی جاہل موجود کا خلق کردہ ہے؟!
تیسرا راستہ نظریجو ہے مقدمات فلسفی (غیر بدیہی)کے ذریعہ حاصل ہوتا ہے جیسے یہ قاعدہ کہ ہر موجود جو مستقل ہو اور مجرد عن المادہ ہو وہ علم سے متصف ہو گا جیسا کہ یہ امر اس سے مربوط کتابوں میں ثابت کیا جاچکا ہے۔
علم الٰہی کی طرف توجہ دینا خود سازی کے ٫٫باب،،میں غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے اور اسی وجہ سے قرآن کریم میں اس کی طرف بار بار اشارہ کیا گیا ہے ۔
(یَعلَمُ خَائِنَةَ الاَعیُنِ وَمَا تُخفِ الصُّدُورُ).(١)
خدا خائن آنکھوں اور دل کے رازوں سے آگاہ ہے۔
………………………
(١)سورۂ غافر ،آیت/ ١٩.

قدرت۔
وہ فاعل کہ جو امور کو اپنے ارادہ سے انجام دیتا ہے اس کے لئے کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے امور میں صاحب ''قدرت'' ہے، لہذا قدرت یعنی فاعل مختار کا ہر اس امر کو انجام دینے کا ارادہ کہ جس کا اس سے صادر ہونے کا امکان ہے، جو فاعل جس قدر مرتبہ وجودی کی رو سے کامل ہوگا اس کی قدرت بھی اتنی ہی وسیع ہوگی، پس جو فاعل اپنے کمال میں لامتناہی ہو اس کی قدرت بھی بے نہایت ہوگی ۔
(اِنَّ اللَّہَ عَلَٰی کُلِّ شَئٍ قَدِیر)َ۔(١)
خدا وند عالم ہر چیز پر قادر ہے۔
اس مقام پر چند نکات کی طرف اشارہ کرنا لازم ہے۔
١۔ جو امر قدرت سے متعلق ہو گا اس میں امکان تحقق کا ہونا ضروری ہے، لہذا جو شی اپنی ذات کے اعتبار سے محال ہو وہ قدرت کا متعلق نہیں بن سکتی، اور خدا کا صاحب قدرت ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ خدا اپنی مثل بھی خلق کرسکتا ہے (اس لئے کہ خدا خلق نہیں کیا جاسکتا) یا دوکا عدد دو ہوتے ہوئے تین سے بڑا ہو جائے ،یا ایک فرزند کو فرزند ہوتے ہوئے باپ سے پہلے خلق کردے۔
٢۔ ہر کام کے انجام دینے کی قدرت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ ان سب کو انجام دے، بلکہ وہ جسے چاہے گا انجام دے گا، اور جسے چاہے گا انجام نہیں دے گا حکیم خدا ،حکیمانہ فعل کے علاوہ کوئی اور فعل انجام نہیں دے سکتا اگر چہ وہ غیر حکیمانہ امور کے انجام دینے پر بھی قادر ہے، انشاء اللہ آئندہ دروس میں حکمت خدا کے سلسلے میں مزید وضاحت کی جائے گی۔
٣۔ قدرت کے جو معنی بیان ہوئے ہیںاس میں اختیار کے معنی بھی ہیں، خدا جس طرح بے نہایت قدرت کا مالک ہے اسی طرح لامحدود اختیارات سے سرفراز ہے، اور کوئی خارجی عامل اسے کسی عمل کے لئے زبردستی یا اس سے قدرت کو چھین لینے کی طاقت نہیں رکھتا اس لئے کہ ہر موجود کی قدرت اور اس کا وجود خود اسی کا مرہون منت ہے،لہٰذا وہ کبھی بھی اس طاقت کے مقابلہ میں مغلوب نہیں ہوسکتا کہ جسے اس نے دوسروں کو عطا کیا ہے۔
…………………
(١)سورۂ بقرہ۔ آیت /٢٠، اور دوسری آیات.

سوالات
١۔خدا کے لئے کن مفاہیم کو استعمال کیا جاسکتا ہے؟
٢۔ صفات ذاتیہ و فعلیہ کی تعریف کریں اور ان دونوں کے درمیان کا فرق بیان کریں؟
٣۔ صفات ذاتیہ کو ثابت کرنے کے لئے ایک کلی ضابطہ کیا ہے؟
٤۔حیات کتنے،معانی میں استعمال ہوتا ہے اور کون سے معنی کا استعمال خدا کے لئے درست ہے
٥۔ حیات الٰہی پر خاص دلیل کیا ہے؟
٦۔ علم الٰہی کو ت تینوں راستوں( طریقوں) سے ثابت کریں؟
٧۔ مفہوم قدرت کو بیان کریں اور خدا کی نامحدود قدرت کو ثابت کریں؟
٨۔ کون سی چیزیں قدرت سے متعلق نہیں ہوتیں؟
٩۔ کیوں خدا ناپسند امور کو انجام نہیں دیتا ؟
١٠۔ خدا کے مختار ہونے کا مطلب کیا ہے؟