|
مورد صحابیت :۔
جمہوری مسلمین کا یہ دستور رہا ہے کہ وہ صحابی کہ خبر بلا تحقیق و تفیتش عمل کرتے رہے ہیں اس لیے کہ ان کی نظر میں نبی کا ہر صحابی عادل بے گناہ ہوتا ہے ۔ حالانکہ ظاہر ہے کہ یہ بات عقل و نقل دونوں کے معیار سے ساقط ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ صحابیت شرف ہے لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ صحابیت دلیل عصمت نہیں ہے۔بنابریں خبر کی قبولیت کے لیے راوی کی جانچ ضروری ہے ۔ اگر وہ عادل ہے تو خبر پر عمل کیا جائے اور اگر فاسق ہے تو اس کی خبر سے اعتاض کیا جائے۔ اور اگر مجہول الحال ہے تو اس کی تفتیش کی جائے۔ عام مسلمانوں کا خیال ہے کہ صحابی کی تقدیس و تعظیم سے منزل نبوت کی تقدیس ہوتی ہے اس لیے صحابہ سے حسن ظن ضروری ہے حالانکہ یہ بات صریح قرآن و سنت کے خلاف ہے قرآن کریم نے مختلف آیات میں صحابہ کے نفاق کی خبر دی ہے بلکہ یہاں تک بیان کیا ہے کہ وفات رسول ﷺ کے ان کے کفر کا احتمال قوی پایا جاتا ہے تو کیا یہ کہ جائے کہ وجود رسول ﷺ ہی وجہ نفاق تھا؟ کہ آپ کے دنیا سے اٹھتے ہی سب عادل و بے گناہ ہوگئے؟ یا یہ تسلیم کر لیا جائے کہ وفات رسول ﷺ بھی منجملہ اسباب عدالت و وثاقت ہے کلا ولا۔
خود صحیح بخاری میں صحابہ کے ارتداد و کفر کی آٹھ روائتیں مختلف مقامات پر موجود ہی جس میں مشہور ترین روایت یہ ہے کہ پیغمبر اسلام ﷺ روز محشر حوض کوثر پر چند اصحاب کو دیکھ کر مسرور ہوں گے۔ تو حکم ہوگا کہ یہ سب ناری ہیں ۔ اس لیے کہ تمہارے بعد کافری ہوگئے تھے۔ کیا ان حالات میں ہر صحابی کا قول قابل عمل ہوسکتا ہے حاشاد کلا۔
مورد اعراض از عترت :۔
جمہور کا ایک امتیاز یہ بھی ہے کہ وہ اصول دین کو ابوالحسن اشعی اور ابوالحسن تریدی سے اور فروع دین کو فقہاء اربعہ سے اخذ کرتے ہیں ۔ ان حضرات نے عترت رسول ﷺ کو کسی مقام پر کوئی جگہ نہیں دی ہے ۔ حالانکہ رسول اکرم ﷺ نے عترت کو امان ارض باب حطہ احدثقلین اور سفینہ نوح قرار دیا تھا ۔ اگر کوئی شخص تفتیش کرے تو اسے معلوم ہوجائے گا۔ کہ جمہور نے اہل بیت ؑ کو عام خوراج و نواصب سے زیادہ اہمیت نہیں دی ۔ چنانچہ تحقیقات سے ظاہر ہوا ہے ۔ کہ کتب جمہوری تمام عترت کے روایات صرف عکرمہ خارجی کے روایات کے برابر ہوں ہوں گے ۔ اور اس سے بدتر یہ ہے کہ بخاری نے اپنی کتاب میں امام صادق کاظم و رضا و جواد عسکری علیہم السلام سے کوئی روایت نقل نہیں کی بلکہ اسی طرح حسن بن حسن زید بن علیؑ یحیی بن زید نفس زکیہ محمد بن عبداللہ ابراہیم بن عبداللہ حسین فخی ہے یحی بن عبداللہ محمد بن جعفر الصادق محمد بن ابراہیم قاسم ارتسی محمد بن محمد زید بن علی محمد بن قاسم صاحب الطالقان اور دیگر اشراف عترف اور اعیان امت کے کے روایات کو ترک کر دیا ہے ۔ حالانکہ اسی کے مقابل میں عمران بن حطاں خارجی مداح ابن بلجم کے بیانات کو درج کیا ہے آہ ! آہ!
بات کسی منزل پر پہنچ گئی جمہوری کے ان اسرار کی ترجمانی ابن خلدون نے اس وقت کی ہے کہ جب اپنے مقدمہ میں علم فقہ وغیرہ کے ذیل میں تحریر کیا ہے کہ اہل بیت ؑ کے بعض جدید مسائل ہیں۔ جن کی بنا پر وہ صحابہ کی قدح کرنا چاہتے تھے۔ حالانکہ یہ سب واہیات اصول ہیں۔ پھر فرماتے ہیں۔
کہ یہ مسائل خوارج کے آراء و انکار سے مشابہ ہیں جن کو جمہور نے کوئی درجہ نہیں دیاہے ۔ اور نہ ہم نے کبھی ان کی ظرف اعتناء کی ہے ۔ چنانچہ کتب شیعہ صرف ان کے بلاوتک محدود ہیں برخلاف اس کے مذہب حنفی عراق میں اور مذہب مالک حجاز میں مذاہب احمد شام و بغداد میں اور مذاہب شافعی مصر میں مشہور ہے۔
روافض کی وجہ سے فقہ شافعی کا زوال ہوگیا اور وہاں فقہ اہل بیت علیہم السلام رائج ہوگئی۔ لیکن تھوڑے ہی عرصہ میں صلاح الدین کے ہاتھوں ان کا زوال ہوگیا اور قصہ شافعی اپنی منزل پر آگئی
حیف صد حیف یہ گندہ دہن اور خاک بسر انسان اہل بیت کو اہل بدعت شاذ اور مثل خوارج قرار دے کر ان کی توہین کرے اور خدائے کریم ان کی طہارت مووت عظمت کا اعلان کرکے انہیں سفینہ نجات امان امت باب حطہ عروہ الوتقے احد الثقلین قرار دے۔ رسول اکرم ﷺ ان کی محبت کو وجہ مغفرت اور ان کے پروانہ کو باعث امان از عذاب جہنم قرار دیں۔
کاش ان ارباب مذہب نے اہل بیت علیہم السلام کے اقوال کو کتابوں میں شاذ و ضعیف ہی کی جگہ دی ہوتی۔ مگر افسوس ""بیس تفاوت رہ از کجا تا کجا""
مورد دعوت تصفیہ : ۔
اے برادران اسلام ! و فرزندان توحید ! آخر یہ نزاح تابہ کے ۔ اور یہ اختلاف کب تک ؟ کیا خدائے وحدہ لاشریک ہم سب کا رب اور رسول اکرم ﷺ ہم سب کے نبی ہیں ہیں؟ کیا کعبہ ہمارا قبلہ اور قرآن ہماری کتاب نہیں ہے؟ کیا فرائض اسلامیہ ہمارے فرائض اور محرمات ہمارے متروکات نہیں ہیں؟ کیا قیامت و حشر و نشر کا ایمان ہم میں ایک مشترک شئے نہیں ہے؟ تو پھر اس کا مطلب تو یہ ہے کہ ہم میں قانون کوئی اختلاف نہیں ہے سارا اختلاف انطباقی ہے جس طرح سے ہم میں کسی شے کے وجوب و حرمت صحت و بطلان جزئیت و شرطیت کی نزاع ہوتی ہے۔ اس طرح کسی شخص کے عدالت و فسق ایمان و نفاق محبت و عداوت کا اختلاف ہے دونوں کا مرجع کتاب و سنت و اجماع و عقل کو ہونا چاہیے اگر کوئی محب خدا ثابت ہوجائے تو سب اس سے محبت کریں اور اگر دشمن اسلام ثابت ہو تو سب اس سے برات کریں ۔خود بخاری نے رسول اکرم ﷺ سے نقل کیا ہے کہ مجتہد اگر مطابق واقعہ کہے گا تو وہ اجر اور اگر اتفاقاً خطا کرگیا تو ایک اجرا اسے ضرور ملے گا۔ ابن حزم نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ خطائے اجتہادی موجب فسق و کفر نہیں ہے ۔ وہ فروع دین میں ہو یا اصول میں اور یہی رائے ابن ابی لیلی ابو حنیفہ شافعی سفیان ثوری اور داود بن علی وغیرہ کی ہے۔
ان تصریحات کی روشنی میں آخر باہمی تکفیر و تفسیق کا سبب کیا ہے ؟ کیا مسلمان آپ میں بھائی بھائی نہیں ہیں؟ کیا اختلاف موجب ضعف نہیں ہوتا ؟ کیا تفرقہ انداز لوگوں کے لیے عذاب عظیم نہیں ہے ؟ رسول اکرم ﷺ کی یہ حدیث متواتر و مشہور ہے کہ مسلمان آپس میں متحد ہیں اگر کوئی ان میں اختلاف پیدا کرے گا تو اس پر خدا اور رسول و ملا مکہ و جمیع انسان سب کی لعنت ہوگی
اللہم اھد قومی فانھم لایعلمون
|
|