النص و الاجتہاد
 
تاویلات حضرت خالد
مورد فتح مکہ :۔
اہل سیر و مسانید کا اتفاق ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فتح مکہ کے موقع پر قتل و غارت کی شدید ممانعت فرمادی تھی۔ بالخصوص خالد و زبیر کو آپ نے تبہیہ بھی فرمادی تھی۔ لیک اس کے باوجود حضرت خالد نے ۲۰ سے زیادہ قریش اور ۴ بنی ہذیل کو نہ تیغ کر دیا۔ چنانچہ جب حضرت داخل مکہ ہوئے اور آپ نے ایک عورت کو مقتول پایا تو آپ نے قاتل کے بارے میں سوال کیا۔ لوگوں نے حضرت خالد کا نام بتایا۔ آپ نے فرمایا کہ خالد کو فوراً منع کردو کہ عورتوں اور بچوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ (عبقریہ عمر عقاد ص ۲۶۶)

مورد یوم جذیمہ :۔
فتح مکہ کے بعد حضرت ﷺ نے حضرت خالد کو بنی جذیمہ کے پاس دعوت اسلام کی غرض سے روانہ کیا۔ لیکن چونکہ انہوں نے جاہلیت میں خالد کے چچا خاکہ بن مغیرہ کو قتل کر دیا تھا۔ اس لیے اس نے بلا تکلف ان لوگوں سے اسلحہ رکھوا کر انہیں زبردستی تہ تیغ کر دیا۔ جب حضرت کو اس کی خبر ملی تو آپ نے بارگاہ احدیت میں خالد کے عمل سے برات و بیزاری کا اظہار فرمایا۔ (بخاری ج ۳ ص ۴۸ مسند احمد)
اس کے بعد حضرت علی کو بھیج کر ایک مال کثیر سے ان سب کی دیت ادا کرائی ۔ آپ نے بھی صغیر و کبیر شریف و حقیر سب کی دیت ادا کی اور پھر باقی ماندہ مال بھی انہیں کے حوالہ کر دیا۔ جب آنحضرت ﷺ کو اس کی اطلاع ملی تو آپ نے اس عمل کو اتحسان کیا، طبری کامل استیعاب۔
عقاد نے اس واقعہ کو بھی عبقریہ عمر میں نقل کیا ہے جس کا تتمہ یہ ہے کہ حضرت نے سوال کیا کہ خالد کو کسی نے اس عمل سے روکا یا نہیں ؟ تو بنی حذیمہ کے ایک مغرور آدمی نے دو شخصوں کا حوالہ دیا جس سے مراد بقول حضرت عمر عبداللہ بن عمر اور سالم تھے۔ حضرت خالد کی حکم کے مطابق جملہ اسیر قتل کئے گئے لیکن ان دونوں نے اپنے اسیروں کو رہا کر دیا۔ حضرت نے اس خبر کے بعد حضرت خالد سے برات کی اور حضرت علی ؑ کے ذریعہ سب کی دیت ادا کرائی۔
اقول :۔
دیت کی علت شاید یہ تھی کہ ان لوگوں کا اسلام بالکل واضح نہ تھا ورنہ مسلمان کے مقابلہ میں مسلمان سے قصاص ہوتا نہ کہ دیت حضرت خالد کے کارنامے بطاح کے سلسلے میں ذکر ہوچکے ہیں۔ ناظرین بغور مطالعہ کریں۔ اور یہ دیکھیں کہ خلیفہ اول نے کن بنیادوں پر اس کی موافقت کی تھی اور خلیفہ ثانی کا معیار موافقت کیا تھا؟ اور انہوں نے خلافت کے بعد فوراً ہی اسے کیوں معزول کر دیا تھا؟ حضرت عمر کی مخالفت کا تو یہ عالم تھا کہ آپ نے حضرت خالد کو کبھی کوئی درجہ نہیں دیا۔ البتہ ایک مرتبہ تنسرین پر حاکم بنا دیا تو وہاں اس نے اشعت بن قیس کو ۱۰ ہزار کی اجازت دے دی اور جب آپ کو معلوم ہوا تو آپ نے حمص کے حاکم ابو عبیدہ کو لکھا کہ خالد کو ایک پیر پر کھڑا کرو اور دوسرا پیر عمامہ سے باندھ دو۔ اور پھر سب کے سامنے اس کی کلاہ اتار لوتا کہ اس کو اس عمل کی برائی کا اندازہ ہوسکے۔ اس لیے کہ یہ مال اگر اپنے پاس سے دیا ہے تو اسراف ہے اور اگر امت کا مال ہے تو خیانت ہے۔ ان تمام باتوں کے بعد اسے معزول کردو اور تم حکومت کرو۔ حضرت ابوعبیدہ نے حضرت خالد کو طلب کیا اور مسجد میں یہ سوال کیا،۔ اس نے سکوت اختیار کیا حضرت ابو عبیدہ بھی چپ ہوگئے۔ لیکن بلال فی جب حسب نصیحت حضرت عمر اسے باندھ دیا اور پھر سوال ہوا۔ اس نے کہا کہ میں نے اپنے مال سے دیا ہے ۔ یہ سنکر حضرت ابوعبیدہ نے اسے چھوڑ دیا۔ اور پھر اپنے ہاتھ سے عمامہ باندھ دیا لیکن معزولی کی اطلاع نہ دی۔ پھر جب ایک عرصہ تک حضرت خالد واپس نہ ہوئے تو حضرت عمر نے براہ راست لکھ کر اسے معزول کر دیا اور پھر کوئی عہدہ نہیں دیا۔ اس واقعہ کو اسی طرح عقاد نے عبقریہ عمر میں نقل کیا ہے۔
اقول :۔
ایسا ہی ایک واقعہ حضرت ابوبکر کے زمانہ کا ہے ۔ جب حضرت خالد نے مرتدین کو جلادیا تھا تو حضرت عمر نے اعتراض کیا تھا کہ یہ عذاب خدا ہے ۔ تو حضرت ابوبکر نے یہ کہا تھا کہ یہ اللہ کی تلوار ہے ۔ (کنز العمال طبقات سنن ابن ابی شیبہ )
حضرت عمر کی زندگی کا مطالعہ کرنے سے صاف واضح ہوجاتا ہے ۔ کہ آپ نے اپنی زندگی میں کبھی کسی باوقاری آدمی کو سر اٹھانے کی رخصت نہیں دی جس کی تفصیل سابق میں گزر چکی ہے۔