النص و الاجتہاد
 
تاویلات حضرت عثمان
مورد کنبہ پروری :۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ آپ کنبہ پروری میں اس طرح استاد تھے کہ اپنی رائے کے آگے کسی انقلاب و ملامت بلکہ کسی آیت اور روایت و سیرت کی بھی پرواہ نہ کرتے تھے۔ چنانچہ ابن ابی الحدید کا کہنا ہے کہ حضرت عمر کی دور اندیشی اس وقت ظاہر ہوگئی ۔ جب حضرت عثمان نے بنی امیہ کو حکومتیں ریاستیں اور جائیدادیں تقسیم کیں بلکہ خمس کا سارا مال مروان کو دے دیا۔ جن میں عبدالرحمن بن حنبل نے احتجاجی اشعار بھی کہے۔ ابن ابی الحدید کے منقولات کی با پر آپ سے خالد بن اسید کے بیٹے عبداللہ نے صلہ رحم کی درخواست کی تو آپ نے چار لاکھ درہم دے دے ۔ حکم طرید رسول ﷺ کو واپس بلا کر ایک لاکھ درہم عطا فرمائے۔ صدقہ رسول ﷺ بازار مدینہ کو حارث بن حکم کے حوالہ کردیا۔ فدک کو مردان کی جائیداد بنادیا۔ چراگاہوں کو نبی امیہ کے ساتھ مخصوص کر دیا۔ عبداللہ بن ابی سرح کو فتح افریقہ کی جملہ آمدنی عطا فرمادی ۔ ابوسفیان کو دو لاکھ درہم اس دن عطا کئے جس د مروا کے لیے ایک لاکھ کا آرڈر صادر فرمایا۔ چونکہ مروان آپ کا داماد تھا۔ اس لیئے داروغنہ بیت المال زید بن ارقم نے اگر فریاد کی کہ آپ ان تمام اموال کو واپس لے رہے ہیں جو حیات رسول اکرم ﷺ میں صرف کئے تھے۔ مروان کے لیے ایک سو درہم کافی ہیں۔ آپ نے حکم دیا کہ کنجی رکھ دو۔ مجھے دوسرا آدمی مل جائے گا۔ ابو موسی عراق سے کافی اموال لے آیا سب کو بنی امیہ پر تقسیم کردیا۔ حارث بن حکم کو اپنی لڑکی عائشہ دے کر ایک لاکھ اور بھی عطا کیے۔ ان عطایا کے علاوہ آ پ کے کارناموں میں حسب ذیل امور بھی ہیں۔ ابوذر کا شہر بدر کرانا ابن مسعود کی پسلیاں توڑ دینا، غلط حدود جاری کرنا۔ ظالم کی روک تھام میں خلاف سیرت حضرت عمر اختیار کرنا وغیرہ۔ ان کارناموں کی انہتا اس وقت ہوگئی جب آپ نے معاویہ کو بعض مسلمانوں کے قتل کا حکم بھیجا اور اس کے نتیجہ میں خود قتل ہوگئے۔ ابن ابی الحدید کا قول ہے کہ اس واقعہ سے امیرالمومنی کا کوئی تعلق نہ تھا۔ ان وقائع کی تفصیل الملل والنحل شہرستانی میں بھی مل سکتی ہے۔
اقول :۔
آپ کے کارنامے ایسی متواتر حیثیت رکھتے ہیں جن کو تماما یا اجمالا مورخ نے اپنی کتاب میں جگہ دی ہے۔ اور آپ کے ان اعمال و افعال کی شہادت حضرت علی کے اس خطبہ سے بھی ہوئی ہے کہ جو خطبہ شقشقیہ کے نام سے معروف ہے۔

مورد ""اتمام در سفر""
کتاب و سنت اجماع سے یہ امر ثابت ہے کہ سفر میں نماز قصر ہوجاتی ہے خواہ خوف ہو یا اطمینان چنانچہ قرآن کے علاوہ حسب ذیل احادیث بھی اس امر پر دلالت کرتی ہیں ، یعلی بن امیہ نے حضرت عمر سے پوچھا کہ ہم لوگ امن میں کیوں قصر کریں انہوں نے فرمایا کہ مجھے بھی یہ تعجب تھا لیکن میں نے سرکار رسالت ﷺ سے سوال کیا تو آپ نے فرمایا کہ قصر صدقہ خدائی ہے اسے قبول کرو۔ ""مسلم""
ابن عمر کہتے ہیں کہ میں نے رسول اکرم ﷺ حضرت ابوبکر و عمر و عثمان سب کے ساتھ سفر کیا۔ لیکن کسی نے تمام نماز نہیں پڑھی۔ (یہ واقعہ ابتداء خلافت حضرت عثمان کا ہے)
ابن ابی شیبہ کی روایت ہے کہ حضرت نے اخیار امت کے علائم میں قصر کو بھی ذکر فرمایا ہے انس کہتے ہیں کہ میں مدینہ سے مکہ اور مکمہ سے مدینہ تک حضرت کے ساتھ رہا۔ آپ ﷺ برابر قصر پڑھتے رہے (بخاری و مسلم) حضرت ابن عباس کہتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ نے مکہ میں ۱۹ دن تک قصر نماز پڑھی (بظاہر قصد اقامت عشرہ نہ تھا)
یہ بھی روایت ہے کہ آپ ﷺ بعد ہجرت اہل مکہ کے کے ساتھ نماز پڑھتے تھے تو سلام دے کر انہیں اتمام کا حکم فرمایا کرتے تھے۔ حضرت انس کہتے ہیں کہ میں حضرت ﷺ کے ساتھ مدینہ میں ظہر تمام اور ذی الحلیفہ میں عصر قصر پڑھی۔ (مسلم)
اقول :۔ آیت کریمہ سے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ حالت خوف میں قصر رکھا گیا ہے لیکن روایات کثیرہ سے مطلق سفر میں بھی قصر ثابت ہوتا ہے بلکہ اسی طرح اجماع امت بھی ہے ۔ اور اس میں سوائے حضرت عثمان و حضرت عائشہ کے کوئی تیسرا مخالفت نہیں ہے۔
یہی وہ مسئلہ ہے کہ جس سے حضرت عثمان کی مخالفت کا آغاز سنہ ۲۹ ہجری سے ہوا۔ چنانچہ ابن عمر کہتے ہیں کہ منی میں رسول اکرم ﷺ و حضرت ابوبکر و حضرت عمر سب نے قصر کیا اور حضرت عثمان نے اتمام کیا (مسلم ) عبدالرحمن بن یزید کہتے ہیں کہ حضرت عثمان نے منی میں نماز تمام پڑھی تو اس کی اطلاع ابن مسعود کو کی گئی۔ انہوں نے نے اناللہ کہا اور فرمایا کہ یہ خلاف عمل رسول ﷺ و شیخین ہے۔ (بخاری و مسلم) حارثہ ب وہب کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اکرم ﷺ کے ساتھ منی میں انتہائی سکون کے عالم میں نماز پڑھی ہے۔ (بخاری و مسلم) عروہ نے حضرت عائشہ سے روایت کی ہے کہ نماز شروع میں دو رکعت تھی۔ بعد میں حضرت کے لیے دو رکعت کا اضافہ ہوگیا ۔ زہری کہتے ہیں کہ عروہ سے پوچھا کہ پھر خود حضرت عائشہ کیوں اتمام کرتی تھیں۔ اس نے کہا کہ انہوں نے حضرت عثمان کی طرح تاویل کرلی ہے۔ (مسلم ) فاضل نودی نے اس مقام پر اس تاویل کے معافی بیان کئے ہیں کہ بعض کا خیال ہے کہ حضرت عثمان مکہ میں مع اہل و عیال آئے تھے۔ لیکن ظاہر ہے کہ حضرت نے ایسی حالت میں بھی قصر فرمایا ہے بعض کا قول ہے کہ حضرت عثمان نےعربوں کو بتانے کے لیے ایسا کیا تھا کہ نماز چار رکعت ہے لیکن ظاہر ہے کہ اس کی ضرورت عصر رسول ﷺ میں زیادہ تھی بعض کا کہنا ہے کہ حضرت عثمان و حضرت عائشہ نے قصد اقامہ کر لیا تھا۔ لیکن ظاہر ہے کہ مہاجر پر مکہ میں تین دن سے زیادہ اقامہ حرام ہے ۔ بعض کا اندازہ ہے کہ کہ منی میں حضرت عثمان کی اراضیات تھیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اس کا اقامہ سے کیا رابطہ ہے؟ خلاصہ یہ ہے کہ حضرات کی نظر میں قصر و اتمام دونوں جائز تھے۔ انہوں نے ایک ایک کو اختیار کرلیا۔
اقول :۔
حقیقت یہ ہے کہ ان حضرات کی تاویل اسی حد تک محدود نہ تھی بلکہ اس کا دائرہ بہت زیادہ وسیع تھا۔ ہم اس موضوع میں زیادہ محاسبہ اس لیے نہیں کرتے کہ اس سے کسی مسلمان کا خون نہیں بہایا گیا۔ کسی کی ہتک حرمت نہیں ہوئی ۔ یہ حضرات تو ایسے مقامات پر بھی تاویل کے قائل تھے یہ بھی یاد رہے کہ امام احمد کی روایت کے مطابق معاویہ نے نماز ظہر قصر پڑھی تھی لیکن جب اسے اطلاع ملی کہ حضرت عثما نے حکم بدل دیا تو اس نے نماز عصر تمام پڑھادی۔