ابدی زندگی اور اخروی حیات
 

عدل الٰہی
عدالت اپنے وسیع تر مفہوم کے لحاظ سے صحبان حق کو ان کا حق بغیر کسی تفریق کے دے دینا ہے‘ اگر کسی حقدار کو بھی حق نہ دیا جائے‘ تو خلاف عدالت ہے اور اگر بعض کو دیا جائے اور بعض کو نہیں‘ تو پھر بھی خلافت عدالت ہے‘ اگر استاد امتحان کے موقع پر سب طلباء کو ان کے حق سے کم نمبر دے‘ تو یہ خلاف عدالت کام ہو گا۔ اگر بعض کو ان کے استحقاق کے مطابق اور بعض کو کم نمبر دے تب بھی خلافت عدالت و انصاف ہو گا۔
عدالت: ایک لحاظ سے مساوات کا لازمہ ہے۔
مساوات: یعنی سب کو ایک نظر سے دیکھنا۔ تفریق و فرق کا قائل نہ ہونا‘ ایسی مساوات کا لازمہ عدالت ہے‘ یعنی جو شخص جتنی مقدار کا استحقاق رکھتا ہے‘ اسے اتنا دیا جائے‘ اگر زیادہ کا استحقاق رکھتا ہے‘ تو زیادہ دیا جائے۔ کم کا استحقاق رکھتا ہے‘ تو کم دیا جائے اس میں تفریق و امتیاز بالکل نہ ہو اور اگر مساوات سے ہماری مراد عطا کرنے میں برابری ہو اور استحقاق کو دیکھے بغیر سب کو برابر دیا جائے‘ تو ایسی مساوات خلاف عدالت اور ظلم کے ہمراہ ہو گی۔ اسی طرح سے نہ دینے میں سب میں برابری بھی ظلم ہے‘ یعنی سب کو بلاتفریق برابر طور پر ان کے استحقاق سے محروم کر دیا جائے‘ بنابرایں عدل الٰہی کا معنی یہ ہے کہ عالم کے موجودات میں سے ہر ایک اپنی قابلیت اور ہستی کے مطابق اللہ کے فیض سے استفادہ کا حق رکھتا ہے۔ اللہ کی طرف سے بھی کسی بھی مخلوق کو اس کی استعداد اور صلاحیت کے مطابق فیض دینے سے دریغ نہیں کیا جاتا۔ اگر کسی موجود کے پاس کوئی چیز نہیں‘ تو اس وجہ سے کہ وہ ان حدود میں ہے کہ اس چیز کے مالک ہونے کی قابلیت اور امکان نہیں رکھتا۔
اب ہم کہتے ہیں کہ اگر بعض موجودات کچھ خاص خصوصیات کے ساتھ وجود میں آئیں‘ لیکن ان کے لائق کمال کے افاضے میں دریغ کیا جائے‘ تو یہ عدل الٰہی کے خلاف ہو گا‘ لہٰذا عدالت کا تقاضا یہ ہے کہ استحقاق کے مطابق انہیں افاضہ فیض کیا جائے‘ تمام موجودات کے مابین انسان ایسی مخلوق ہے‘ جس میں قابلیت‘ استعداد و صلاحیت اور اہم خصوصیات کا سرمایہ موجود ہے‘ اس میں موجود قوت تحریک جو اسے کام اور فعالیت پر مجبور کرتی ہے‘ صرف اتنی نہیں جتنی حیوان میں ہوتی ہے۔
حیوان میں صرف وہ عزائز موجود ہیں‘ جو اسے صرف طبیعت اور مادی زندگی سے مربوط کرتی ہیں‘ لیکن انسان جیسا کہ پہلے کہا گیا ہے‘ ایسی سرشت و جبلت کا مالک ہے‘ جو صرف اس دنیا کے مطابق نہیں بلکہ اس کی سطح بالا ہے‘ یعنی وہ جاوداں اور ابدیت کی سطح پر ہے۔
انسان میں عالی فکری تحریکات موجود ہیں‘ یعنی اس میں اخلاقی‘ علمی‘ ذوقی‘ مذہبی اور الٰہی فیض کے محرکات پائے جاتے ہیں‘ بہت سارے کام انسان ان چیزوں سے متاثر ہو کر کرتا ہے اور کبھی اپنی طبیعی‘ مادی اور حیوانی زندگی ان عالی اور انسانی اہداف پر قربان کر دیتا ہے۔
قرآن کی تعبیر کے مطابق انسان اپنے علمی نظام کو ایمان اور عمل صالح کی بنیاد پر قرار دیتا ہے اور اس نظام میں جاوداں زندگی اور خوشنودی خدا کا طالب ہوتا ہے۔
انسان میں جاوداں اور عظیم تصور بھی ہے اور اس کی خواہش و آرزو بھی اور ایسے عزائز بھی جو اس کو اسی طرف لے جاتے ہیں۔
یہ سب چیزیں دائمی اور جاوداں رہنے کی قابلیت اور استعداد کی حکایت کر رہی ہیں۔
دوسرے لفظوں میں یہ سب چیزیں اس بات کی دلیل ہیں کہ مجرد اور غیر مادی روح کا مالک ہے۔
یہ سب امور انسان کو اس دنیا میں جنین کے حکم میں قرار دے رہے ہیں‘ جو رحم مادر میں کچھ خاص وسائل اور آلات و نظامات کا مالک ہوتا ہے‘ جیسے نظام تنفس‘ گردش خون‘ نظام اعصاب‘ بصارت و سماعت کا آلہ‘ نظام تناسل وغیرہ‘ یہ سب چیزیں رحم سے خارج ہونے کے بعد حیات دنیوی کے مطابق تو ہیں‘ لیکن رحم کے اندر کی نوماہی زندگی کے مطابق نہیں۔
یہ درست ہے کہ انسان دنیاوی زندگی میں نظام ایمان و عمل صلاح سے فائدہ اٹھاتا ہے‘ لیکن یہ فائدہ طفیلی ہے۔
"نظام ایمان و عمل صالح" ایک بیج کے حکم میں ہیں‘ جو ایک سعادت مندانہ جاوداں زندگی میں پرورش اور رشد کی صلاحیت رکھتے ہیں‘ یعنی ایک ابدی زندگی کے لئے اور ایک ابدی زندگی میں ہی اس کے صحیح معنی اور مفہوم ہو سکتا ہے۔
انسان نہ صرف ایمان و عمل خیر کے نظام میں طبیعت سے بالاتر فضا میں پرواز کرتا ہے اور مادی تعلقات سے مافوق تخم پاشی کرتا ہے بلکہ نظام ایمان و عمل صالح کے مخالف نظام میں بھی جسے قرآن نظام کفر و فسق کہتا ہے‘ اس کے کام‘ طبیعت اور حیوانیت کے حدود سے ماوراء اور جسمانی ضروریات اور طبیعی تعلقات سے خارج ہوتے ہیں اور اس پر روحانی اور جاودانہ پہلو غالب آنے لگتا ہے‘ لیکن یہ انحراف کی صورت ہوتی ہے‘ اسی لئے وہ ایک قسم کی حیات جاوید کا مستحق تو ہو جاتا ہے‘ لیکن افسوس ہے‘ وہ اپنے لئے درد و رنج جمع کرتا ہے اور دینی اصطلاح میں وہ جہنم کی راہ اختیار کر لیتا ہے۔
انسان ایسا نہیں کہ اگر ایمان و عمل صالح کے مدار میں حرکت نہ کرے‘ تو اپنے آپ کو حیوان کے مدار میں محدود کر دے بلکہ وہ صفر سے بھی نیچے چلا جاتا ہے اور قرآنی زبان میں "بل ھم اضل" یعنی حیوان سے بھی پست تر اور گمراہ تر ہو جاتا ہے۔
اب اگر ابدی زندگی کا تصور نہ ہو‘ تو پھر وہ انسان جو نظام ایمان و عمل صالح کے تحت چل رہے ہیں اور وہ انسان جو ایمان‘ عمل صالح کے مخالف نظام پر کاربند ہیں‘ ان شاگروں کی طرح ہوں گے کہ جن میں سے بعض نے اپنے کام کو احسن طریقے سے انجام دیا ہو اور بعض نے لہو و لعب میں وقت گذارا ہے‘ اب اگر استاد چاہے کہ سب کو نمبروں سے محروم کر دے‘ تو یہ محرومیت ظلم اور خلاف عدل ہو گی۔
اس مطلب کو سادہ الفاظ میں بھی بیان کیا جا سکتا ہے‘ وہ یہ ہے کہ خدا نے لوگوں کو ایمان اور نیکیوں کی دعوت دی ہے‘ لوگ اس دعوت کی قبولیت کے لحاظ سے دو گروہوں میں تقسیم ہو گئے ہیں۔ بعض نے اس دعوت کو قبول کیا اور اپنے فکری‘ اخلاقی نظام اور اپنے عمل کو اس کے مطابق انجام دیا‘ بعض نے قبول نہ کیا اور بدکاری میں پڑ گئے۔
دوسری طرف سے اگر دیکھیں‘ تو اس دنیا کا نظام ایسا نہیں کہ نیک کام کرنے والے کو سو فیصد جزا اور بدکار کو سو فیصد سزا مل جائے‘ بلکہ بعض ایسے نیک کام کرنے والے ہیں‘ جو اس دنیا سے بغیر جزا چلے گئے ہیں‘ ایسے عالم کا وجود ضروری ہے‘ جہاں نیک لوگوں کو ان کی نیکی کی جزا کامل طور پر اور بدکاروں کو بدی کی سزا مکمل طور پر ملے ورنہ یہ "عدل الٰہی" کے خلاف ہو گا۔

حکمت الٰہی
انسانوں کے کام دو قسم کے ہیں:
پہلا بلا فائدہ و عبث کام جس کا کوئی نتیجہ نہیں‘ یعنی ان کمالات تک پہنچانے میں جو ہماری استعداد میں ہیں‘ یہ موثر نہیں‘ دوسرے لفظوں میں ہمیں حقیقی سعادت تک پہنچانے میں ان کا کوئی حصہ نہیں۔
دوسرا عاقلانہ کام جس کے نتائج خوب اور مفید ہوتے ہیں اور ہمیں مطلوبہ کمال تک پہنچانے کا ذریعہ ہیں۔ پہلی قسم کو لغو و باطل و بلافائدہ کام کہا جاتا ہے اور دوسری قسم کے کام کو حکیمانہ اور عاقلانہ کام کہا جاتا ہے۔
پس انسان کے حکیمانہ کام کا مطلب ایسے امور ہیں‘ جو ہمیں لائق کمال تک پہنچائیں۔ خداوند عالم کے حکیمانہ افعال کیا ہیں؟
کیا خدا کے کارہائے حکیمانہ کا مطلب وہ کام ہیں‘ جو اس کو کمال لائق تک لے جائیں اور اس کے کارعبث سے مراد وہ کام ہیں‘ جو اسے کمال تک نہ پہنچائیں؟
بالکل نہیں وہ غنی اور بے نیاز ہے‘ جو کام وہ کرتا ہے‘ وہ اس کا فضل‘ جود‘ بخشش اور عطا ہے۔ کوئی کام اس لئے نہیں کرتا کہ اپنی حاجت برطرف کرے یا اپنے آپ کو کمال اور سعادت تک پہنچائے۔
خدا کے کارہائے حکیمانہ کا مطلب یہ ہے کہ خدا کسی مخلوق کو کمال لائق تک پہنچائے۔ عبث کاموں کو خدا کی طرف نسبت دینے کا مطلب یہ ہے کہ خدا کسی مخلوق کو پیدا کرے‘ لیکن اس کو کمال لائق اور ممکن تک پہنچانے کا بندوبست نہ کرے‘ یہی وجہ ہے کہ حکمت خداوندی اور انسان کے حکیم ہونے کا مطلب جدا جدا ہے‘ انسان کو حکمت و دانائی کا مطلب عقل مندی اور کمال انسانی کے طریق میں قدم اٹھانا اور حکمت خداوندی کا مطلب مخلوقات کو کمال لائق تک پہنچانا ہے۔
دوسرے لفظوں میں حکمت خداوندی یعنی اشیاء کی ایسی خلقت جس کی اساس اور بنیاد انہیں غایت و کمال لائق تک لے جائے‘ چونکہ حکمت انسانی سے مراد انسان کو اس کے کمالات تک پہنچانے کے لئے کوئی کام انجام دینا ہے‘ لہٰذا ضروری نہیں کہ انسان جو کام انجام دے رہا ہے‘ اس کے اور اس کام کے نتیجے کے مابین حقیقی رابطہ موجود ہو‘ یعنی ضروری نہیں کہ اس کام کا فطری رخ اسی نتیجے کی طرف ہو اور وہ نتیجہ اس کام کا کمال شمار کیا جائے‘ جو چیز ضروری ہے‘ وہ یہ ہے کہ اس کا کام نتیجہ انسان کے لئے کمال اور فائدہ مند شمار ہو‘ مثلاً انسان‘ مٹی‘ لکڑی‘ پتھر‘ دھات‘ کھال‘ روئی اور پشم سے مختلف قسم کے آلات بناتا ہے اور ان سے حکیمانہ نتیجہ حاصل کرتا ہے‘ مثلاً کرسی بناتا ہے‘ یا مکان بناتا ہے یا گاڑی بناتا ہے یا لباس بنتا ہے…
کرسی‘ لکڑی کے لئے‘ مکان‘ پتھر‘ اینٹ‘ چونا اور لوہے کے لئے اور گاڑی مختلف دھاتوں کے لئے کمال شمار نہیں کئے جاتے اور یہ تمام مواد اس مخصوص شکل و صورت کے اختیار کرنے کے لئے حرکت نہیں کرتے‘ لیکن جو نتیجہ انسان ان سے حاصل کرتا ہے‘ جیسے کرسی پر بیٹھنا‘ مکان میں رہنا‘ گاڑی میں چلنا‘ لباس کا پہننا وغیرہ‘ انسان کے لئے ایک طرح کا کمال یا کم از کم فائدہ بخش اور مفید امر شمار ہوتا ہے‘ لیکن اللہ کے کاموں اور ان پر مرتب ہونے والے نتائج میں حقیقی رابطہ ہوتا ہے‘ یعنی ہر کام کا نتیجہ اور آخری مقصد اس کام کے واقعی اور حقیقی کمال سے عبارت ہے۔ خداوند متعال اپنی مخلوق کو جو کہ اسی کا کام اور فعل ہے‘ اسی مخلوق کے کمال کی طرف لے جاتا ہے۔ جیسا کہ ہم دیکھتے ہیں‘ ہر بیج اور دانہ اپنے مقصد اور کمال کی جانب محو سفر ہے۔
قابل غور مسئلہ یہ ہے کہ دنیا اور عالم طبیعت تو تغیر و تبدل اور عدم ثبات کے مساوی ہے‘ یعنی طبیعت میں جس بھی مقصد‘ ہدف اور منزل کو دیکھا جائے‘ وہ غیر ثابت اور تغیر و تبدل کی زد میں ہے۔ دوسرے لفظوں میں ہر چیز عبوری‘ غیر دائم اور ختم ہونے والی ہے‘ عالم طبیعت کے تمام مراحل "ایک منزل" کی حیثیت رکھتے ہیں‘ جس کی خصوصیت راستے میں واع ہونا ہے اور ان میں سے کوئی بھی مرحلہ آخری منزل اور ہدف و مقصد نہیں۔
یہی وجہ ہے کہ کچھ لوگوں میں یہ خیال پیدا ہوا کہ خلقت بے مقصد‘ بے ہدف اور عبث ہے‘ وہ کہتے ہیں‘ اس عالم کی مثال ایک قافلے کی مانند ہے‘ جو ہمیشہ حرکت میں ہے اور مختلف منزلیں تبدیل کرتا رہتا ہے اور کبھی اپنی حقیقی اور آخری منزل تک نہیں پہنچتا‘ اس کا ہدف اور مقصد راستے کی ایک منزل ہے‘ جس میں کچھ دیر رہنے کے بعد طبیعت اسے چھوڑ دیتی ہے اور آگے بڑھ جاتی ہے‘ واضح امر ہے کہ ایک حرکت اور ایک سفر تبھی معنی اور مفہوم رکھتا ہے‘ جب اس کا کوئی انتہائی ہدف اور آخری مقصد بھی ہو‘ لیکن اگر تمام اہداف اور مقاصد راستے کی منزلیں ہوں اور سفر کر کے انتہائی مقصد تک پہنچنے کا تصور باقی نہ رہے‘ تو یہ سفر بے ہودہ‘ عبث اور بے فائدہ شمار ہو گا۔ اگر یہ قرار پا جائے کہ ہر ہستی کے پیچھے نیستی پوشیدہ ہو اور ہر آبادی اپنے بعد بربادی کا پیغام دے اور ہر منزل پر پہنچنا‘ اسے خالی کر کے دوبارہ آگے بڑھانے کے لئے ہو‘ پھر تو عالم کے نظام پر حاکم چیز مگر رات کے تکرار اور سرگردانی و حیرانی کے سوا کچھ نہیں‘ پس عالم ہستی کی بنیاد ہی کھوکھلی ہے۔
قرآن کا جواب یہ ہے کہ ہاں‘ اگر صرف طبیعت اور دنیا ہی ہوتی اور بس کچھ نہ ہوتا یا اگر پیدائش مرنے کے لئے‘ نشوونماء‘ سرسبز ہونے اور شادابی‘ زرد خشک اور پراگندہ ہونے کے لئے اور تمام نئی چیزیں قدیم ہونے کے لئے ہوتیں‘ تو پھر اعترا ض بجا تھا‘ مگر عالم ہستی کے بارے میں اس قسم کے نقطہ نظر کا سرچشمہ ناقص نظر ہے‘ اس نظریہ کی اساس یہ ہے کہ "ہستی کو دنیا اور طبیعت کے محدود قالب میں محضور سمجھا جائے‘ لیکن "ہستی" دنیا اور طبیعت میں محدود و محصور نہیں۔" دنیا روز اول ہے "روز اول کے بعد روز آخر کی باری ہوتی ہے‘ دنیا "جانا" ہے اور آخرت "پہنچنا"۔
علی علیہ السلام فرماتے ہیں:
الدنیا دار مجار و الاخرة دار قرار
"دنیا گذرگاہ اور آخرت جائے قرار ہے۔"
آخرت ہی دنیا کو معنی دیتی ہے‘ کیونکہ مقصد ہی وہ چیز ہوتی ہے‘ جو حرکت و جستجو کو معنی اور مفہوم کا لباس پہناتی ہے۔
اگر جہان آخرت جو کہ دائمی عالم ہے‘ نہ ہوتا‘ تو اس دنیا کا کوئی مقصد اور منتہی نہ ہوتا‘ جسے حقیقتاً مقصد کہا جا سکتا‘ نہ منزل اور مرحلہ۔
گردش روزگار ایک قسم کی حیرت و سرگردانی کا نام ہوتا اور قرآن کی اصطلاح میں یہ خلقت و پیدائش "عبث"، "باطل" اور "لعب" ہوتی‘ لیکن انبیاء و مرسلین آئے تاکہ اس بنیادی غلطی سے روکیں اور ہمیں ایسی حقیقت سے آگاہ کریں کہ جس کے نہ جاننے سے "ہستی" ہماری نظر میں بے فائدہ اور بے معنی ہو جاتی ہے اور آفرینش کے بے فائدہ ہونے کا تصور ہمارے ذہن میں راسخ ہو جاتا ہے‘ ایسے تصور کے اثر و رسوخ سے خود ہم بھی ایک بے معنی‘ بے ہدف اور بے ہودہ مخلوق کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔
عالم آخرت پر ایمان و اعتقاد کا ایک اثر یہ بھی ہے کہ یہ ہمیں کھوکھلے پن اور بے معنی ہونے کے تصور سے نجات دیتا ہے۔ ہمیں اور ہمارے خیالات و تصورات اور ہماری "ہستی" کو معنی و مفہوم بخشتا ہے۔