ابدی زندگی اور اخروی حیات
 

احادیث مبارکہ
مسلمانوں کا ایک گروہ کافی دور سے رسول اللہ ۱کی خدمت میں شرف یاب ہوا اور دیگر باتوں کے ضمن میں آپ سے نصیحت کی خواہش کی۔ رسول اکرم نے چند جملات ارشاد فرمائے‘ جن میں سے ایک جملہ یہ ہے کہ
"ابھی سے آخرت کے لئے اچھے رفقاء اور ساتھیوں کا انتخاب کریں‘ اس لئے کہ عالم آخرت میں انسان کا کردار و اعمال ہی بصورت جسم اس کے زندہ ساتھی ہوں گے۔"(۱)
حیات جاوید کا قائل مومن انسان اپنے خیالات‘ اخلاق و عادات اور اعمال‘ چال چلن میں ہمیشہ پوری توجہ دیتا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ یہ زود گذر دنیوی امور میں سے نہیں بلکہ یہ تمام چیزیں انسان کی اپنی اگلی دنیا میں بھیجی ہوئی چیزیں ہیں اور اسے اسی سرمایہ کے ساتھ عالم آخرت میں زندگی گذارنا ہو گی۔

۷۔ دنیوی اور اخروی زندگی کی مختلف اور مشترک صورتیں
دنیوی اور اخروی زندگی کی مشترکہ چیزیں یہ ہیں کہ دونوں زندگیاں حقیقی اور واقعی ہیں اور دونوں زندگیوں میں انسان خود سے اور اپنی متعلقہ چیزوں سے آگاہ ہے‘ دونوں زندگیوں میں لذت و تکلیف‘ خوشی و غمی اور سعادت و شقاوت ہے۔
جبلت و سرشت خواہ حیوانی ہو یا انسانی‘ دونوں جگہ کارفرما ہے‘ دونوں زندگیوں میں انسان اپنے بدن قد و قامت اور اعضاء و جوارح کے ساتھ زندگی گذارے گا۔ دونوں زندگیوں میں فضا اور اجرام ہوں گے‘ لیکن ان میں بنیادی فرق بھی موجود ہے‘ یہاں سلسلہ توالد‘ تناسل‘ بچپنا‘ جوانی‘ بڑھاپا اور موت ہے وہاں نہیں‘ یہاں ضروری ہے کہ کام کرے‘ بیج ڈالے اور مناسب اسباب مہیا کرے‘ وہاں بیج کا پھل کاٹے اور دنیوی اسباب کا نفع حاصل کرے۔ یہ جگہ عمل اور کام کی جگہ ہے اور وہ عالم حساب و کتاب کرنے اور نتیجہ اخذ کرنے کی جگہ۔
دنیا میں انسان کے لئے عمل اور حرکت کی سمت بدل کر مقدر کو تبدیل کر سکنے کا امکان ہے لیکن آخرت میں نہیں‘ یہاں پر موت و حیات کی آمیزش ہے‘ ہر حیات ایسے مادہ کے ہمراہ ہے‘ جس میں حیات فاقد ہے۔ علاوہ ازیں مردہ سے زندہ پیدا ہوتا ہے اور زندہ سے مردہ‘ جیسا کہ بے جان مادہ خاص شرائط کے ساتھ جاندار اور جاندار بے جان میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ مگر آخرت میں محض زندگی کارفرما ہے‘ وہاں مادی جسم بھی جاندار ہے‘ زمین و آسمان بھی جاندار ہیں‘ وہاں کا باغ اور میوہ انسان کے مجسم اعمال کی طرح سے جاندار ہیں‘ وہاں کی آگ اور عذاب بھی ذی شعور اور آگاہ ہیں۔
دنیا میں اسباب و علل اور خاص زمانی شرائط کی حکمرانی ہے۔ حرکت اور کمال کی طرف سے سفر (تکامل) کا وجود ہے۔ مگر عالم آخرت میں صرف ملکوت الٰہی اور ارادہ الٰہی کا ظہور ہے۔ اس دنیا میں انسان کا ادراک‘ اس کا شعور اور آگاہی اور بطور مطلق دیکھنا اور سننا دنیا سے زیادہ طاقتور ہے‘ دوسرے لفظوں میں پردے اور حجاب عالم آخرت میں انسان کے سامنے سے اٹھا دیئے جائیں گے اور انسان اپنی باطن بین نگاہوں سے حقائق کا ادراک کرے گا‘ جیسا کہ قرآن کریم میں آیا ہے:
فکشفنا عنک غطائک فبصرک الیوم حدید(سورئہ ق‘ آیت ۲۲)
"ہم نے اب پردے تجھ سے اٹھا لئے ہیں‘ پس آج تیری نظر خوب تیز ہے۔"
اس دنیا میں خستگی و ملال خصوصاً یکسانیت کی وجہ سے کارفرما ہے‘ انسان کی حالت کسی شے کو گم کرنے والے کی طرح ہوتی ہے‘ جو ہمیشہ اپنی گم کردہ شے کی تلاش میں سرگرداں رہتا ہے۔ جب کوئی چیز مل جائے‘ تو خیال کرتا ہے‘ مقصود مل گیا ہے اور اسی پر خوش ہو جاتا ہے‘ مگر کچھ دیر بعد اسے احساس ہوتا ہے کہ یہ وہ نہیں جو "مطلوب" تھا تو دل گیر ہو جاتا ہے اور پھر کسی نئی شے کی طلب میں لگ جاتا ہے۔ اسی لئے دنیا میں انسان ہر اس چیز کا طالب ہے‘ جو اس کے پاس نہیں اور اس چیز سے بیزار ہونے لگتا ہے‘ جو اس کے پاس موجود ہے۔
مگر اخروی دنیا میں دل کی گہرائیوں اور فطرت و شعور کی عمق سے جس چیز کو چاہتا تھا اور جسے اپنی گم شدہ متاع حقیقی سمجھتا تھا‘ یعنی "دربار رب العالمین" میں "جاوداں اور ابدی" جانتا تھا‘ اس کو پا لیتا ہے‘ لہٰذا اسے کسی قسم کا ملال و خستگی و پریشانی نہیں ہوتی۔ قرآن کریم اسی نکتہ کی طرف اشارہ کرتا ہے اور کہتا ہے:
لا یبغون عنھا خولا(سورئہ کہف‘ آیت ۱۰۸)
"یعنی (دنیا کے برعکس) آخرت میں انسان تبدیلیوں اور جدید ماحول کے طالب نہیں ہوں گے اسی لئے اگرچہ اہل بہشت ہمیشہ بہشت ہی میں رہیں گے‘ لیکن کبھی سیر نہیں ہوں گے۔
علاوہ ازیں وہاں جو چیز چاہیں گے‘ ارادہ الٰہی سے اسی وقت ان کے لئے پیدا ہو جائے گی‘ لہٰذا ایسی چیز کی آرزو انہیں پریشان نہیں کرتی‘ جو ان کے پاس نہیں۔"

قرآنی استدلال
اگرچہ قیامت پر ہمارے ایمان و اعتقاد کا سرچشمہ قرآن کریم اور گفتار انبیاءپر ہمارا ایمان ہے اور ضروری نہیں کہ قیامت کو ثابت کرنے کے لئے استدلال قائم کیا جائے یا علمی شواہد و قرائن بیان کریں‘ لیکن چونکہ قرآن کریم نے خود ہی (مطلب کو اذہان کے قریب کرنے کیلئے) استدلال کا ایک سلسلہ بیان کیا ہے اور چاہتا ہے کہ ہمارے اذہان از روئے استدلال اور براہ راست بھی قیامت کا اعتقاد پیدا کریں۔ ہم بھی مختصراً ان دلائل کو ذکر کر رہے ہیں۔ قرآنی استدلال درحقیقت منکرین قیامت کے اشکالات کا جواب دیں۔ بعض میں یہ بیان ہوتا ہے کہ قیامت کے آنے میں کوئی مانع اور رکاوٹ نہیں‘ یہ درحقیقت ان کا جواب ہے‘ جو قیامت کو امرناممکن سمجھتے تھے۔
بعض آیات اس سے بھی ایک درجہ آگے بڑھ کر کہتی ہیں کہ اسی دنیا میں قیامت کے مشابہ چیزوں کا وجود تھا اور ہے اور ایسی چیزوں کو دیکھنے کے بعد انکار کا کوئی جواز نہیں‘ بعض آیات اس سے ایک درجہ اور آگے کی بات کرتی ہیں اور وجود قیامت کو لازم اور ضروری امر اور خلقت حکیمانہ کا ایک قطعی اور یقینی نتیجہ قرار دیتی ہیں۔
بنابرایں قیامت کے بارے میں استدلال کرنے والی تمام آیتوں کو تین حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔
۱۔ سورئہ یٰس آیت ۷۸ و ۷۹ میں ارشاد ہوتا ہے:
و ضرب لنا مثلاً و نسی خلقہ قال من یحیی العظام و ھی رمیم قل یحیھا الذی انشاء ھا اول مرة وھوبکل خلق علیم
"اب وہ ہم پر مثالیں چسپاں کرتا ہے۔ اپنی پیدائش کو بھول گیا ہے‘ کہتا ہے ان بوسیدہ ہڈیوں کو کون زندہ کرے گا؟ اس سے کہو انہیں وہی زندہ کرے گا‘ جس نے پہلے انہیں پیدا کیا تھا‘ وہ ہر مخلوق سے آگاہ ہے۔"
یہ آیت اس کافر کے جواب میں ہے‘ جس نے بوسیدہ ہڈی کو اپنے ہاتھ میں لیا اور نرم کر کے پاؤڈر کی صورت بنا کر ہوا میں بکھیر دیا اور پھر کہا ان کے بکھرے ہوئے ذرات کو کون زندہ کرے گا۔ قرآن جواب میں کہتا ہے کہ وہی جس نے پہلی بار اسے پیدا کیا۔ انسان کبھی اپنی قدرت و توانائی کو معیار بنا کر امور کو ممکن اور ناممکن میں تقسیم کرتا ہے۔ جب کسی کام کو اپنی طاقت و تصور سے ماوراء پاتا ہے‘ تو سمجھتا ہے کہ اس کام کا ہو جانا ذاتاً ناممکن ہے۔
قرآن کہہ رہا ہے‘ بشری طاقت کے معیاروں کو دیکھتے ہوئے تو یہ کام ناممکن ہے‘ لیکن قوت اور طاقت کے معیاروں کے پیش نظر جس نے پہلی بار مردہ جسم میں زندگی کو پیدا کیا‘ آپ کیا کہیں گے؟ اس طاقت کے معیارات کے لحاظ سے یہ امر ممکن اور قابل انجام ہے۔
قرآن کریم میں متعدد آیتیں ایسی آئی ہیں‘ جن میں الٰہی طاقت کی بنیاد پر قیامت کے بارے میں گفتگو کی گئی ہے۔
تمام آیات کا مفہوم یہ ہے کہ خدائے عادل و حکیم کی مشیت کا تقاضا یہ ہے کہ قیامت موجود ہو اور اس کی مشیت کی راہ میں کوئی مانع بھی نہیں ہے۔ جیسا کہ پہلی بار حیات و خلقت کا معجزہ اس مشیت سے سرزد ہوا اور اس نے عالم‘ انسان اور حیات کو پیدا کیا۔ دوسری مرتبہ بھی قیامت میں انسان کو زندہ کرے گا۔
۲۔ وہ آیات جنہوں نے نمونوں کا ذکر کیا ہے۔ یہ آیات بذات خود دو حصوں میں منقسم ہیں:
(الف)وہ آیات جن میں ماضی کے ایک خاص واقعہ کا ذکر ہے کہ جس میں ایک مردہ نئے سرے سے زندہ ہوا‘ جیسے وہ آیات جو حضرت ابراہیم کے قصے میں آئی ہیں۔ حضرت ابراہیم نے خدا سے مخاطب ہو کر کہا:
"پروردگار تو مردہ کو کس طرح زندگی دیتا ہے‘ مجھے دکھا دے۔"
جواب میں فرمایا:
"کیا اس پر تیرا ایمان نہیں؟ کہا کیوں نہیں؟ ایمان تو ہے‘ اطمینان قلب کا خواہش مند ہوں۔ ان سے کہا گیا کہ چار پرندے لے کر ان کا سر قلم کر دو‘ بدن کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے ہر حصہ ایک پہاڑ پر رکھ دو‘ پھر پرندوں کو بلاؤ‘ دیکھو گے کہ خدا کے امر سے پرندے زندہ ہو کر تیرے پاس آئیں گے۔"
(ب) ایسی آیات جن میں کسی استثنائی اور غیر معمولی واقعہ (جیسے واقعہ ابراہیم) کو بنیاد نہیں بنایا گیا‘ بلکہ نظام شہود اور موجود پر استناد کیا گیا ہے‘ جس میں ہمیشہ زمین اور جڑی بوٹیاں موسم خزاں اور سرما میں مردہ ہو جاتی ہیں‘ پھر موسم بہار میں نئی زندگی ملتی ہے۔
قرآن کہتا ہے کہ طول عمر میں بارہا آپ مشاہدہ کر چکے ہیں کہ زمین تر و تازگی و شادابی کے بعد موت کی طرف بڑھتی ہے اور اس پر افسردگی چھا جاتی ہے۔ پھر موسم کی تبدیلی سے ماحول بدل جاتا ہے اور زمین درخت اور پودے اپنی حیات نو کا جامہ پہن لیتے ہیں۔
عالم کے کلی نظام میں بھی یہ عالم خاموشی اور افسردگی کی طرف چلا جائے گا۔ سورج‘ چاند‘ ستارے سب ریزہ ریزہ ہو کر بکھر جائیں گے۔ تمام عالم موت کی آغوش میں ہو گا‘ لیکن یہ موت دائمی نہیں ہو گی‘ دوسری طرف عالم کے تمام موجودات نئی وضع اور جدید کیفیت کے ساتھ زندگی کا آغاز کریں گے۔
اس کی وضاحت یہ ہے کہ ہم انسان اس وقت ایسی زمین پر زندگی گذار رہے ہیں جو ۳۶۵ دنوں میں موت و حیات کا ایک دور طے کرتی ہے‘ چونکہ معمولاً ہماری عمر پچاس ساٹھ سال اور زیادہ سے زیادہ ۱۰۰ سال یا کچھ زیادہ ہوتی ہے۔ ہم درجنوں بار نظام موت و حیات کا مشاہدہ کرتے ہیں‘ لہٰذا یہ دیکھ کر کہ زمین مردہ ہونے کے بعد پھر زندہ ہوتی ہے اور نئی زندگی کا آغاز کرتی ہے۔ ہمیں تعجب اور حیرانگی نہیں ہوتی‘ اگر فرض کریں کہ انسان کی عمر چند ماہ ہوتی‘ جیسے بعض حشرات الارض کی عمر ہے‘ بالفرض ہم ان پڑھ بھی ہوتے اور پڑھنا لکھنا نہ جانتے‘ تاریخ زمین اور گردش سالانہ کے بارے میں آگاہ نہ ہوتے‘ ہم نے زمین کی موت اور تجدید حیات کا مشاہدہ نہ کیا ہوتا‘ تو ہم کبھی یقین نہ کرتے کہ زمین مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہو سکتی ہے‘ مسلم امر ہے کہ ایک مچھر جو موسم بہار میں پیدا ہوتا ہے اور خزاں اور سردیوں میں مر جاتا ہے۔ اس کے لئے جدید زندگی کا تصور مفہوم نہیں رکھتا‘ کیا درخت میں رہنے والا کیڑا اور ایک باغ میں رہنے والا مچھر‘ جس کی تمام دنیا وہی درخت اور باغ ہیں‘ تصور کر سکتا ہے‘ یہ درخت اور یہ باغ ایک عظیم تر نظام کے جزو اور تابع ہیں‘ جس کا نام مزرع اور کھیت ہے اور اس کا مقدر کھیت کے مقدر سے وابستہ ہے؟ اور یہ کھیت بھی ایک اور نظام کے تابع ہے‘ جس کا نام شہر ہے‘ یہ شہر بھی ایک بڑے نظام یعنی صوبے کے تابع ہے‘ صوبے کا نظام بھی تابع مملکت ہے اور نظام مملکت زمین کے کلی نظام کے تابع ہے اور نظام زمین سورج کے نظام کے تابع ہے؟
ہمیں کیا معلوم شاید یہ نظام شمسی تمام ستارے اور کہکشاں اور ہر وہ چیز جسے ہم نظام طبیعت سمجھتے ہیں‘ ایک کلی تر اور عظیم تر نظام کے تابع ہو اور فطرت اور طبیعت کے گذشتہ کرداروں اور اربوں سال کی عمر جس کا ہمیں علم ہے‘ صرف ایک موسم یا موسم کے ایک دن کے برابر ہو‘ جو ایک بڑے نظام کا حصہ ہو اور یہ موسم جو کہ حیات و زندگی کا موسم ہے‘ ایک نئے موسم میں تبدیل ہو جائے‘ جو خاموشی و افسردگی کا موسم ہو‘ پھر یہ نظام کلی جس کا ایک جزو نظام شمسی‘ ستارے اور کہکشاں ہیں۔ زندگی کو ایک نئی صورت میں پھر سے شروع کرے۔
انبیاء و رسل نے خدا کی جانب سے ہمیں تمام جہاں کی بربادی و خرابی کے بعد زمین میں ایک جدید نظام کے تحت مردوں کے زندہ ہونے کی خبر دی ہے‘ چونکہ متعدد دلائل سے ہمیں ان کی سچائی کا علم ہو چکا ہے۔ اس لئے تمام عالم کی تباہی کے بعد ایک کلی تجدید حیات اور نئی زندگی کا بھی اعتراف کرتے ہیں۔
قرآن کریم زمین پر موت و حیات کے نظام کی مثال اس لئے پیش کرتا ہے کہ ہم اسے ایک کلی حیات کا ادنیٰ نمونہ سمجھیں اور قیامت کے امور کو غیر ممکن نہ سمجھیں اور اسے ان نظاموں اور آفرینش کی روایات سے خارج قرار نہ دیں۔
قرآن کریم کا فرمان ہے:
"قیامت نئی زندگی کا نام ہے۔"
تجدید حیات وہ چیز ہے‘ جس کا ایک چھوٹا سا نمونہ زمین میں ہم دیکھ رہے ہیں۔ حدیث میں آیا ہے کہ پیغمبر اکرم نے فرمایا:
اذا رأیتم الربیع فاکثروا و اذکروا النشور
"جب موسم بہار کو دیکھو تو قیامت کا ذکر زیادہ کرو۔"
یعنی موسم بہار قیامت کی ایک روشن مثال اور نمونہ ہے۔
مولانا رومی فرماتے ہیں:

این بہار نو ز بعد برگ ریز
ہست برہان بر وجود رست خیز

آتش و باد ابر و آب و آفتاب
رازہا را می بر آرند از سرآب

در بہاراں سر ھا پیدا شود!
ہرچہ خوردہ است این زمین رسوا شود

بردمد آن ازدھان و ازلبش
تا پدید آید ضمیر و مذھبش!

رازھا رامی کند حق آشکار
چون بخواہد رست تخم بدہکار

"پتوں کے جھڑنے کے بعد یہ نئی بہار قیامت کے وجود کی دلیل ہے‘ آگ‘ ہوا‘ پانی‘ بادل اور دھوپ یہ سب چیزیں سرآب میں رازوں کو افشا کر دیتی ہیں۔ بہار میں سر نکلنے لگتے ہیں اور زمین نے جو بھی چیز کھائی تھی‘ نکال دیتی ہے اور رسوائی ہوتی ہے‘ وہ اپنے لبوں اور منہ سے پھونکتی ہے اور اس طرح اس کا مذہب اور اس کا ضمیر وجود میں آتا ہے‘ حق رازوں سے پردہ اٹھاتا ہے‘ جب برا بیج اگنا چاہتا ہے۔"
دیوان شمس میں مولانا رومی فرماتے ہیں:

فرو شدن چو بدیدی بر آمدن بنگر
غروب شمس و قمر را چرا زیان باشد

کدام دانہ فرو رفت در زمین کہ نرست
چرابہ دانہ انسانت این گمان باشد

"جب تو نے ڈوبنا دیکھ لیا ہے‘ تو پھر ابھرنا بھی دیکھ لے‘ سورج اور چاند کے ڈوبنے میں کیوں کر نقصان ہو سکتا ہے‘ کونسا بیج ایسا ہو سکتا ہے‘ جو زمین میں دفن ہونے کے بعد نہ اگا ہو؟ پھر تو انسان کے بارے میں کیوں کر ایسا سوچتا ہے‘ وہ آیتیں جو موت و حیات کے موجودہ مشہود نظام پر استناد کرتی ہیں‘ بہت ہیں‘ ان میں سے ایک یہ ہے":
(۱) واللہ الذی ارسل الریاح فتثیر سحابا فسقناہ الی بلد میت فاحینیا بہ الارض بعد موتھا کذلک النشور
(سورئہ فاطر‘ آیت ۹)
"خدا وہ ہے‘ جس نے ہواؤں کو بھیجا‘ بادل کو پراگندہ اور دگرگوں کیا‘ پس ہم اس بادل کو مردہ زمین کی طرف لے گئے اور مردہ زمین کو زندہ کیا۔ قیامت میں زندہ ہونا بھی اسی طرح سے ہے۔"
(۲) وتری الارض ھامدة فاذا انزلنا علیھا الماء اھتزت و ربت و انبتت من کل زوج بھیج‘ ذلک بان اللہ ھو الحق وانہ یحیی الموتی وانہ علی کل شئی قدیر و ان الساعة آتیة لاریب فیھا و ان اللہ یبعث من فی القبور(سورئہ الحج‘ آیات ۵ تا ۷)
"زمین کو دیکھ رہے ہو کہ افسردہ و مردہ اور ساکن ہے‘ لیکن جیسے ہی ہم نے بارش برسائی پس حرکت میں آتی ہے اور ہر قسم کے نباتات پیدا کرتی ہے‘ یہ اس لئے کہ ذات خدا برحق ہے‘ وہی مردوں کو زندہ کرتا ہے اور وہی ہر شے پر قادر ہے‘ قیامت بدون شک آنے والی ہے اور قبر یں رہنے والوں کو خدا اٹھائے گا۔"
وہ آیات جن میں اس قیامت کو عالم ہستی کے اس نظام موت و حیات سے خارج نہیں سمجھا گیا‘ جس کے نمونے ہم زمین میں دیکھ رہے ہیں‘ ان کی تعداد زیادہ ہے‘ ہم نے فقط دو پر اکتفا کیا ہے۔
اس قسم کی آیات کا پہلی قسم کی آیات سے فرق یہ ہے کہ ان میں صرف اللہ کے قادر ہونے پر ہی تکیہ نہیں کیا گیا بلکہ اس محسوسات کی دنیا میں اس سے مشابہ نمونوں کا بھی ذکر کیا گیا ہے‘ یعنی محسوسات کی دنیا میں اللہ کی قدرت کا جلوہ ایسی صورت میں بھی ظہور پذیر ہوا ہے۔
(ج) تیسری قسم ان آیتوں کی ہے‘ جو قیامت کو ضروری اور قطعی امر قرار دیتی ہیں اور قیامت کے نہ ہونے کا لازمہ اللہ کی ذات کے بارے میں ایک ناروا اور محال امر سمجھتی ہیں۔ اس مطلب کو دو طریقوں سے بیان کیا گیا ہے۔
ایک طریقہ عدل الٰہی کا ہے‘ یعنی خداوند عالم اپنی ہر مخلوق کو وہی کچھ عنایات کرتا ہے‘ جس کی وہ مستحق ہے۔
دوسرا طریقہ حکمت الٰہی کا ہے‘ یعنی خداوند عالم نے مخلوق کو ایک ہدف و مقصد کے لئے پیدا کیا ہے۔ حکمت الٰہی کا تقاضا ہے کہ موجودات عالم کو ان کے لائق کمال اور ممکنہ مقصد کی طرف لے جائے۔ قرآن کریم کہتا ہے:
"اگر قیامت ابدی زندگی‘ دائمی سعادت اور اخروی جزا و سزا نہ ہو‘ تو یہ عدل الٰہی کے خلاف ہے اور ایک طرح کا ظلم ہے‘ جو خدا کی نسبت سے محال ہے۔"
اسی طرح کہتا ہے کہ
"اگر جاوداں زندگی اور ابدی انجام موجود نہ ہو‘ تو خلقت عبث اور کھوکھلی ہو گی جبکہ عبث اور بے ہودہ کام خدا کے لئے محال ہے۔"
وہ آیات جو عدل الٰہی اور حکمت خداوندی پر استناد کرتے ہوئے خدا کی جانب بازگشت اور جاوداں زندگی کو حتمی قرار دیتی ہیں‘ تعداد کے لحاظ سے بہت زیادہ ہیں۔
اب ہم قرآن کریم کی دو سورتوں میں سے دو آیات کا ذکر کریں گے‘ جن میں عدل الٰہی اور حکمت خداوندی دونوں پر استناد کیا گیا ہے:
۱۔ سورئہ مبارکہ ص میں یہ بیان کرنے کے بعد کہ
"جو لوگ راہ خدا سے منحرف ہو چکے ہیں اور سزا کو بھول چکے ہیں‘ ان کے لئے سخت عذاب ہو گا۔"
آیت ۲۷ اور ۲۸ میں روز قیامت کے بارے میں یوں ارشاد ہوتا ہے:
وما خلقنا السماء والارض وما بینھما باطلا ذلک ظن الذین کفروا فویل للذین کفروا من النار۔ ام نجعل الذین آمنوا و عملوا الصالحات کالمفسدین فی الارض ام نجعل المتقین کالفجار
"ہم نے آسمان و زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے‘ کو بے فائدہ پیدا نہیں کیا‘ یہ خیال (کہ خلقت بلا فائدہ ہے) ان لوگوں کا ہے‘ جن کو حقیقت سے عناد ہے‘ پس وائے ہو ان لوگوں پر آتش جہنم سے‘ کیا ہم ان لوگوں کو جو (خدا معاد و انبیاء) پر ایمان لائے اور اچھے کام انجام دیتے ہیں‘ مفسدوں کی طرح قرار دیں گے یا پرہیزگاروں کو بدکاری کی طرح سمجھیں گے؟"
جیسا کہ ہم دیکھ رہے ہیں‘ پہلی آیت میں خدا کا حکیم اور خلقت کا حکیمانہ ہونا مذکور ہے اور دوسری آیت میں عدل الٰہی اور خلقت کے عادلانہ ہونے کا بیان ہے۔
۲۔ سورہ مبارکہ جاثیہ‘ آیت ۲۱۔۲۲ میں اس طرح سے آیا ہے:
ام حسب الذین اجتر حوا السیات ان نجعلھم کالذین آمنو و عملوا الصلحات سواء محیاھم و مماتھم ساء مایحکمون۔ وخلق اللہ السموات والارض بالحق ولتجزی کل نفس بما کسبت وھم لایظلمون
"کیا بدکاروں کا یہ گمان ہے کہ ہم انہیں ایماندار اور اچھے کام کرنے والوں کی طرح قرار دیں گے جبکہ ان کی زندگی و موت یکساں ہے۔ ان کا یہ حکم برا حکم ہے‘ خدا نے آسمانوں و زمین کو حق پیدا کیا ہے (نہ باطل اور بلا فائدہ) اس لئے کہ ہر شخص اپنے کئے کی (جزا و سزا) تک پہنچ جائے‘ ان پر ظلم کبھی بھی نہیں ہو گا۔"
ان دو آیات میں سے پہلی میں عدل الٰہی اور دوسری میں حکمت خداوندی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے‘ دوسری آیت کے ذیل میں دوسری مرتبہ عدل الٰہی کو قیامت کا ہدف اور مقصد قرار دیا گیا ہے۔

وضاحت
ان دو اصولوں کے بارے میں یہاں وضاحت ضروری ہے کہ عدل الٰہی کا تقاضا کیوں جاوداں زندگی ہے؟
اگر ہم فرض کریں کہ اس محدود زندگی کے بعد ابدی زندگی نہ ہو‘ جس میں ہر شخص اپنے اعمال کے دائمی نتیجہ تک پہنچ جائے‘ تو پھر عالم اور انسان کی خلقت عدل الٰہی اور حکمت خداوندی کی رو سے کیوں بے فائدہ ہے؟
ہم عدل الٰہی سے آغاز کرتے ہیں: