پہلا سبق
مچھلی
کیا آپ کے گھر میں مچھلی ہے ؟
کیا آپ مچھلی کو پسند کرتے ہیں ؟
مچھلی کہاں زندگی گزارتی ہے ؟
کیا آپ جانتے ہیں کہ مچھلی کس ذریعہ سے پانی میں تیر تی ہے ؟
اگر مچھلی کے پر نہ ہوں تو کیا وہ پانی میں تیر سکے گی ؟
کیا مچھلی نے اپنے لۓ پر خود بناۓ ہیں؟
نہیں مچھلی نے اپنے پر خود نہيں بناۓ اور نہ ہی کسی انسان نے اس کے پر بناۓ ہیں۔
بلکہ خدا وند قادر و مہربان جانتا تھا کہ اس خوبصورت حیوان کے لۓ پر ضروری ہیں اس لۓ اسے پر عطا کۓ تاکہ وہ پانی میں تیر سکے۔
گھر میں کسی برتن میں مچھلی ڈالۓ اور اپنے دوست کے ساتھ مل کر دیکھۓ اور دیکھۓ کہ مچھلی کس طرح سانس لیتی ہے ؟ کس طرح تیر تی ہے ؟ کس طرح پانی میں اوپر نیچے جاتی ہے ؟ کس وقت اپنی دم ہلاتی ہے ؟ اس وقت اپنے دوست سے پوچھۓ کہ مچھلی کو کس نے پیدا کیا ہے ۔

دوسرا سبق
پانی میں مچھلی کا دم کیوں نہیں گھٹتا
ایک دن احمد بچوں کے ساتھ گھر میں کھیل رہا تھا ۔ اس کی ماں نے کہا بیٹا احمد! ہوشیار ! حوض کے نزدیک نہ جانا ڈرتی ہوں کہ تم حوض میں نہ گرپڑو کیا تم نے ہمساۓ کے لڑکے حسن کو نہیں دیکھا تھا کہ وہ حوض میں گر کر مر گیا تھا ؟
احمد نے کہا ! اماں جان ! ہم اگر حوض میں گر جائیں تو مر جاتے ہیں ۔ اور مچھلیاں پانی کے نیچے دجتے ہوۓ کیوں نہیں مرجاتیں؟ دیکھۓ وہ پانی میں کتنا اچھا تیر رہی ہیں؟ اس کی ماں نے جواب دیا انسان کے لۓ سانس لینا ضروری ہے تاکہ وہ زندہ رہ سکے ۔ اسی لۓ ہم پانی کے نیچے زندہ نہیں رہ سکتے لیکن مچھلی کے اندر ایک ایسی چیز ہے کہ جس کے ذریعہ پانی میں سانس لے سکتی ہے اور جو تھوڑی بہت ہوا پانی کے اندر موجود ہے اس سے استفادہ کرتی رہتی ہے ۔ اسی لۓ وہ پانی کے اندر زندہ رہ سکتی ۔
کون مچھلی کے لۓ فکر کررہاتھا
احمد نے ماں سے پوچھا : اماں جان ! کون مچھلی کے لۓ ایسی فکر کررہا تھا ۔ مچھلی از خود تو نہیں جانتی تھی کہ کہاں اسے زندہ رہنا چاہۓ ؟ اور کون سی چیز اس کے لۓ ضروری ہے ۔
اس کی ماں نے جواب دیا : بیٹا خداۓ علیم اور مہربان مچھلی کے لۓ فکر کررہا تھا ۔ اللہ تعالی جانتا تھا کہ اس خوبصورت جانور کو پانی کے اندر زندگی گزارنا ہے ۔ اس لۓ اس نے مچھلی کے اندر ایسا وسیلہ رکھ دیا کہ جس کے ذریعہ سے وہ سانس لے سکے مچھلی پانی میں آبی پھیپھڑوں کے ذریعے سانس لیتی ہے۔

سوالات:
احمد کی ماں کو کس چیز کا خوف تھا ؟
ہمساۓ کے لڑکے کا کیا نام تھا ؟
کیا وہ تیرنا جانتا تھا ؟
کیا انسان پانی میں زندہ رہ سکتا ہے ؟
پانی میں مچھلی کیوں نہیں مرتی ؟
کون سی ذات مچھلی کے فکر میں رہتی ہے ؟
کسی نے مچھلی کو پیدا کیا ؟

تیسراسبق
داؤود اور سعید سیر کو گۓ
داؤود اور سعید باغ میں باپ کے ساتھ سیر کرنے گۓ ۔ باغ بہت خوبصورت تھا درخت سرسبز اور بلند تھے ۔ رنگا رنگ عمدہ پھول تھے ۔ باغ کے وسط سے ایک نہر گزرتی تھی کہ جس میں بطخیں تیر رہی تھیں ۔ بطخیں بہت آرام سے پانی میں تیر رہی تھیں ۔ اچانک سعید نے ایک چڑیا دیکھی کہ جس کے پر تر ہوچکے تھے اور وہ نہیں اڑ سکتی تھی اس نے داؤود سے کہا :
بھائی جان ! دیکھۓ ! اس بیچاری چڑیا کے پر پھیگ چکے ہیں اور وہ نہیں اڑ سکتی داؤود نے ایک نگاہ چڑیا پر اور دوسری نگاہ بطخوں پر ڈالی اور تعجب سے کہا کہ بطخوں کے پر کیوں نہیں بھیگتے ! کتنی آرام سے پانی میں تیر رہی ہیں اور جب پانی سے باہر آتی ہیں تو اس کے پر اس طرح خشک ہوتے ہیں ۔ جیسے وہ پانی میں گئی ہی نہیں ۔ سعید نے ایک نظر بطخوں پر ڈالی اور کہا آپ سچ کہہ رہے ہیں ۔ لیکن مجھے یہ علم نہیں کہ ایسا کیوں ہے ؟ بہتر یہی ہے کہ یہ بات اپنے والد سے پوچھیں کہ بطخوں کے پر کیوں نہیں بھیکتے اور چڑیوں کے پر کیوں بھیگ جاتے ہیں۔
بطخوں کے پر کیوں نہیں بھیگتے
سعید اور داؤود ڈرتے ہوۓ والد کے پاس گۓ اور ان سے کہا ۔ ابا جان ! آئیے بطخوں کو پانی میں تیرتے دیکھۓ کہ ان کے پر بالکل نہیں بھیگتے ۔ ابا جان ! بطخوں کے پر کیوں بھیگتے ؟ یہ سب نہرکے کنارے آۓ ۔ والد نےکہا : شاباش ! ابھی سے ان چیزوں کے سمجھنے کی فکر میں ہو ؟ انسان کو چاہۓ کہ وہ جس چیز کو دیکھے اس میں غور و فکر کرے اور جسے نہیں جانتا وہ اس سے پوچھے کہ جو اسے جانتا ہے ۔ تاکہ یہ بھی اس سے آگاہ ہوجاۓ۔
خوبصورت بطخوں کو خدا نے پیدا کیا ہے
چونکہ بطخوں کے پر چکنے ہوتے ہیں اس لۓ پانی کا ان پر اثر نہیں ہوتا ہے اگر بطخوں کے پر چکنے نہ ہوتے تو پانی میں بھیگ جاتے اور مرغابی پانی میں نہ تیر سکتی اور نہ ہوا میں اڑ سکتی ۔
سعید نے کہا : ابا جان ! یہ حکمت کس ذات کی تھی ؟ بطخیں خود تو نہیں جانتی تھیں کہ کس طرح اور کس ذریعے سے وہ اپنے پروں کو چکنا بنائیں ۔ باپ نے جواب دیا : عالم اور مہربان خدا نے کہ جس نے تمام چیزوں کو پیدا کیا ہے ۔ وہ جانتا تھا کہ بطخوں کو پانی میں تیر نا ہے انہیں اس طرح پیدا کیا کہ ان کے پر ہمیشہ چکنے رہیں تاکہ وہ آسانی کے ساتھ پانی میں تیر سکیں ۔ اور ہوا میں اڑ سکیں۔

سوالات :
1- سعید اور داؤود باغ میں کس لۓ گۓ تھے ؟
2- انہوں نے باغ میں کیا دیکھا ؟
3- نہر کے کنارے چڑیاکیوں گری پڑی تھی اورآڑ نہیں سکتی تھی ؟
4- سعید کو کس چیز سے تعجب ہوا ؟
5- انسان کو جب کسی چیز کا علم نہ ہو تو کیا کرے ؟
6- سوال کرنے کا کیا فائدہ ہے ؟
7- جب کسی چیز کو نہ جانے تو کس سے پوچھے ؟
8- اگر بطخ کے پر چکنے نہ ہوتے تو کیا ہوتا ؟
9- کیا بطخیں جانتی تھی کہ اس کے پروں کو چکنا ہونا چاہۓ ؟
10- کس نے بطخ کو اس طرح پیدا کیا ہے کہ اس کے پر ہمیشہ کیلۓ چکنے ہوتے ہیں؟
11- ان چیزوں کو کس نے پیدا کیا ؟

چوتھاسبق
خوبصورت نو مولود بچہ
زہرا کا ایک بھائی پیدا ہوا جس کا نام مجید تھا ۔ زہرا بہت خوش تھی اور اسے اپنے نو مولود بھائی سے بہت محبت تھی ۔ ایک دن اپنے بھائی کے گہوارے کے پاس کھڑی ہوئی اسے دیکھ رہی تھی تھوڑی دیر کے بعد اپنی ماں سے کہنے لگی اماں جان ! مجید کب بڑا ہوگا تاکہ وہ مجھ سے کھیل سکے: میں اپنے بھائی کو بہت چاہتی ہوں اس کی ماں نے کہا : پیاری زہرا ! صبر کرو ۔ انشاء اللہ مجید بڑا ہوگا اور تم آپس میں کھیلوگی اچانک مجید جاگ اٹھا اور اپنی نحیف آواز سے رونا شروع کردیا ۔ زہرا بیتاب ہوکر ماں سے کہنے لگی : اماں جان مجید کیوں رورہا ہے ۔ اس کی ماں نے جواب دیا ۔ شاید یہ بھوکا ہے ۔ زہرا دوڑی اور تھوڑی سی مٹھائی لے کر اس کے منھ میں ڈالنے لگی : جلدی سے ماں نے کہا ! پیاری زہرا ! مجید مٹھائی نہیں کھا سکتا کیا تمہیں نہیں معلوم کہ اس کے دانت نہیں ہیں ؟ خبردار کوئی چیز اس کے منھ میں نہ ڈالنا ۔ کیونکہ ہوسکتا ہے کہ وہ گلے میں پھنس جاۓ اور اس کا دم گھٹ جاۓ ۔ زہرا نے پوچھا ! پھر مجید کی غذا کون سی ہے ماں نے کہا : بیٹی ! مجید کی غذا دودھ ہے ۔ وہ دودھ پی کر سیر ہوتا ہے ۔ ماں اٹھی اور اس نے نو مولود کو دامن میں لے کر اپنے پستان اس کے منھ میں دے دۓ ۔ مجید نے ماں کے پستان منہ میں لے کر اپنے نازک لبوں سے انہیں چوسنا شروع کردیا ۔ زہرا نے تھوڑی دیر کو مجید اور ماں کو دیکھا : اور پھر تعجب سے بولی ! اماں جان ! کیا آپ کے پستانوں میں اس سے پہلے بھی دودھ تھا ؟ ماں نے کہا : نہیں : ان میں پہلے دودھ نہ تھا لیکن جس دن سے مجید نے دنیا میں قدم رکھا ہے میرے پستانوں میں دودھ بھر گیا ہے۔ زہرا بولی ! اماں جان ! آپ کیسے مجید کے لۓ دودھ بناتی ہیں : ماں نے کہا کہ دودھ بن جانا میرے ہاتھ میں نہیں ہے میں غذا کھاتی ہوں : غذا سے دودھ بن جاتا ہے ۔ زہرا بولی ! کہ آپ پہلے اس سے بہلے بھی غذا کھاتی تھیں تو اس وقت یہ دودھ کیوں نہیں بنتا تھا ؟ ماں نے جواب دیا ! صحیح ہے : میں اس سے پہلے بھی غذا کھاتی تھی اور دودھ نہیں رکھتی تھی ۔ لیکن جب سے مجید دنیا میں آیا میرے پستان دودھ سے بھر گۓ ہیں ۔ زہرا نے تعجب سے پوچھا ! پس کون مجید کی فکر میں تھا ؟ ماں نے جواب دیا زہرا جان : جس خدا نے مجیدکو پیدا کیا ہے اسی کو اس کی غذا کی فکر تھی ۔ خدا جانتا تھا کہ جب بچہ دنیا میں آتا ہے تو اسے غذا کی ضرورت ہوتی ہے ۔ اور خدا یہ بھی جانتا تھا کہ مجید کے دانت نہیں ہیں اور وہ ہماری طرح غذا نہیں کھا سکتا اسی لۓ خدا نے اس کی ماں کے پستانوں کو دودھ سے بھر دیا تاکہ ناتواں بچہ بہتر اور سالم غذا کھا سکے ۔ پیاری زہرا ! دودھ ایک مکمل غذا ہے جس میں بچہ کے بدن کی تمام ضروریات موجود ہیں ۔ اور بچہ آسانی سے اسے ہضم بھی کرسکتا ہے ۔ زہرا نے کہا ! اماں جان ! ہمارا خدا کتنا مہربان اور جاننے والا ہے ۔ اگر دودھ نہ ہوتا تو چھوٹا بچہ کیا کھاتا ، ماں نے کہا ! جی ہاں بیٹا ! خدا ہی تو ہے جس نے بچہ کو پیدا کیا ہے اور اسے غذا دیتا ہے ۔ خداۓ مہربان ہی صحیح اور سالم دودھ بچے کے لۓ بناتا ہے ۔ خداوند عالم کو بچے کی کمزوری کا علم تھا اسی لۓ اسنے بچہ کی محبت ماں کے دل میں ڈالی تاکہ وہ اس کی نگہداشت اور پرورش کرے خداوند عالم نے کمزور اور بے زبان بچے کو یہ سکھایا ہے کہ جب وہ بھوکا ہو تو وہ رونا شروع کردے تا کہ ماں اس کی مدد کرے۔
سوچ کر ان سوالوں کا جواب دیجۓ
1- جب زہرا نے مجید کو دیکھا تھا تو اس نے اپنی ماں سے کیا کہا ؟
2- کیا زہرا اپنے بھائی سے محبت کرتی تھی ؟ اس کی دلیل دیجۓ ؟
3- کیا دودھ کا بنانا ماں کی قدرت میں ہے ۔ اور کیوں ؟
4- یہ بات تمہیں کہاں سے معلوم ہوئی کہ خدا وند عالم کو مجید کے مستقبل کا علم تھا ؟
5- کیسے معلوم ہوا کہ خداوند : عالم اور مہربان ہے ؟
6- اگر دودھ نہ ہوتا تو نو مولود بچے کیا کھاتے ؟
7- اگر ماں کو بچے سے محبت نہ ہوتی تو کیا ہوتا ؟
8- کس نے بچے کی محبت ماں کے دل میں ڈالی ہے ؟
9- اگر بچہ بھوک کے وقت نہ روتا تو کیا ہوتا ؟
10-اگر بچہ چوسنا نہ جانتا تو ماں اسے کیسے دودھ دیتی ؟
11-رونا اور چوسنا کس نے بچہ کی فطرت میں رکھاہے ؟

پانچواں سبق
چرواہے نے درس دیا
اکبر اور حسین چھٹی کے دن علی آباد نامی گاؤں میں گۓ ۔ علی آباد بہت خوبصورت اور آباد گاؤں ہے اس میں بڑے بڑے باغ اور سبز کھیت ہیں گاۓ او بھیڑ وں کے گلے آبادی کے اطراف میں چررہے تھے ۔ بکریوں اور بھیڑوں کے بچے اپنی ماؤوں کے ساتھ کھیل کود رہے تھے ۔ اکبر اور حسین ان کا تماشا دیکھ کر لطف اندرز ہورہے تھے ۔ اچانک اکبر کی نگاہ ایک خوبصورت بھیڑ پر پڑی جس نے ابھی بچہ جنا تھا اور اسے چاٹ رہی تھی ۔ اکبر نے چرواہے سے کہا کہ یہ بھیڑ کیوں اپنے بچے کو چاٹ رہی ہے ؟ چرواہے نے کہا : اس بھیڑ نے ابھی بچہ جنا ہے ۔ بچے کو دوست رکھتی ہے اور وہ اسے صاف کرنا چاہتی ہے ۔ بچہ صاف ستھرا ہوگیا اور ماں کے تھنوں کی طرف لپکا ۔ تھن کو منہ میں لیا اور دودھ پینا شروع کردیا ۔ اکبر نے حسین سے کہا : اس بچے کو دیکھو ! ابھی دنیا میں آیا ہے لیکن فورا ماں کے تھن معلوم کرلۓ ہیں ۔۔۔۔۔ اسے کہاں سے معلوم ہوگیا کہ تھنوں میں دودھ ہے ؟ اور تھن ماں کے پیٹ کے نیچے ہے ؟ کس نے اسے بتلایا ہے ۔ اس چھوٹے بچے نے اس فہم اور دانائی کو کس سے سیکھا ہے ؟
چرواہا اکبر اور حسین کی یہ بات سن رہا تھا ۔ اس نے کہا : پیارے بچو! اللہ تعالی جو مہر بان اور علیم ہے اس نے ایسی سمجھ چھوٹے بچے کو عطا کردی ہے یہ بچہ بھوکا ہے اور علم ہے کہ ماں کے تھنوں میں دودھ ہے اور وہ ماں کے پیٹ کے نیچے ہیں اور وہ یہ بھی جانتا ہے اسکے علاوہ اور غذا اس کے لۓ اچھی نہیں ہے ۔ یہ تمام چیزیں اللہ تعالی نے اسے سکھائی ہیں اگر بچے کو ان چیزوں کا علم نہ ہو تو ممکن ہے کہ یہ مر جاۓ ۔
حسین نے کہا : اچھا ہے کہ دودھ اس کے گلے میں نہیں پھنستا ورنہ یہ مر جاتا ۔
چرواہے نے کہا : پیارے بچو ! اللہ بہت دانا اور مہربان ہے ۔۔۔ اس نے تھنوں میں بڑا سوراخ نہیں رکھا تاکہ اس سے زیادہ دودھ نہ نکل آۓ اور بچے کے گلے میں پھنس جاۓ تھنوں کے سر پر کئی ایک چھوٹے چھوٹے سوراخ ہیں کہ بچے کے چوسنے سے اس سے دودھ باہر آتا ہے ۔ اس کے علاوہ تھنوں کے سر ے کو اس طرح بنا دیا گیا ہے کہ بچہ بہت آسانی سے اس کو منہ میں لے کر دودھ پی لیتا ہے ۔

سوچ کر جواب دیجۓ
1- تم نے جب بچہ پیدا ہوتا دیکھا تو وہ کیا کرتا ہے ؟
2- اگر بچہ کو علم نہ ہوتا کہ تھن کہاں ہیں تو کیا ہوتا ؟
3- اگر بچہ چوسنا نہ جانتا تو کیا ہوتا ؟
4- جب بچہ بھوکا ہوتا ہے تو کیا کرتا ہے؟
5- کس نے یہ ہوش اور دانائی بھیڑ کے بچے کو عنایت کی ہے ؟
6- آیا تم نے کبھی بھیڑ کے بچے کو بغل میں لیا ہے کیا تم نے کبھی اسے بوتل سے دودھ پلایا ہے ؟
7- اگر تھنوں کا سوراخ بڑا ہوتا تو کیا ہوتا ؟
8- چرواہے نے اکبر اور حسین کو کون سا درس دیا ؟

چھٹاسبق
ہوشیار لڑکا
حسن تیسری جماعت میں پڑھتا تھا وہ بہت چالاک تھا ، وہ اپنا سبق اچھی طرح سمجھنا چاہتا تھا اور ہر چیز میں غور و فکر کرتا تھا ۔ اگر اسے کوئی چیز ومجھ نہ آتی تو پوچھا کرتا تھا ۔
ایک دن استاد کلاس میں کہہ رہا تھا کہ ہمارے بدن کے لۓ مختلف مقسام کی غذا کی ضرورت ہوتی ہے ۔ ہر ایک غذا ہماری بھوک کو دور کرنے کے علاوہ ہمارے بدن کو بھی فائدہ پہنچاتی ہے ۔ ہر ایک عذا کی علیحدہ خاصیت ہوتی ہے ۔ ہم کو دوڑ نے اور کھیلنے کودنے کے لۓ طاقت کی ضرورت ہوتی ہے ۔ بدن کی طاقت ہمیں گرم رکھنے کے ساتھ ہمیں کام کرنے اور کھیلنے کی طاقت بھی پہنچاتی ہے ۔ بعض غذائیں ہمیں طاقت بہم پہنچاتی ہیں جیسے آلو ، چاول ،مٹھاس ، روغن ، کھجور ، سیب ،کشمش ، بادام وغیرہ ہر آدمی کو ان چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے لیکن جو لوگ زیادہ کام کرتے ہیں انہیں ان کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے بعض غذائیں بدن کے بڑا ہونے اور طاقت پیدا کرنے کے لۓ بہت ضروری ہیں ، جیسے گوشت ، انڈا ، دودھ وغیرہ ہمارا بدن وٹامن اور معدنی اجزاء کا بھی محتاج ہے ۔ پھل فروٹ اور سبزیوں میں معدنی اجزا ہوتے ہیں ۔ ہمارے بدن کو سالم رہنے اور غور کرنے کے لۓ بہت سی چیزوں کی ضرورت ہے اور جن کی بھی اسے ضرورت ہوتی ہے وہ تمام کی تمام مختلف غذاؤں میں پائی جاتی ہیں ۔ ہمیں مختلف قسم کے میوے اور غذائیں کھانی چاہۓ تاکہ بڑھ سکیں اور صحیح و سالم رہ سکیں ۔ حسن نے استاد سے اجازت لیتے ہوۓ کہا : میرا خیال تھا کہ غذا صرف بھوک کو ختم کرتی ہے لیکن اب سمجھ میں آیا کہ ہمارے بدن کی طاقت اور سلامتی میں بھی مختلف غذاؤں کی ضرورت ہوتی ہے ۔ اب میں متوجہ ہوا کہ ہمیں بہت سی چیزوں کی ضرورت ہے ۔ استاد نے کہا کہ یہ ہماری خوش بختی ہے کہ جن چیزوں کی ہمارے بدن کو ضرورت ہوتی ہے وہ اس دنیا میں موجود ہیں ۔ مختلف قسم کے میوے ۔ مختلف قسم کی سبزیاں ، چاول ، گیہوں ، چنے ، دالیں ، بادام یہ تمام چیزیں موجود ہیں ۔ درخت ہم کو میوے دیتے ہیں ۔ حیوانات ہمیں دودھ اور گوشت دیتے ہیں ۔ بچو ! کون ذات ہے جو ہمارے لۓ ان چیزوں کو فراہم کرتی ہے ۔ اور ہماری تمام ضروریات سے واقف ہے جن چیزوں کی ہم کو ضرورت تھی اسے پہلے پیدا کردیا ہے ۔ تمام شاگردوں نے بیک آواز کہا : خدا خدا خدا ۔ استاد کہنے لگا ۔ ہاں ۔ وہی خدا دانا اور قادر ہے۔

سوالات :
1- جب ہمیں کوئی چیز سمجھ نہ آۓ تو کیا کریں اور کس سے پوچھیں ؟
2- آج تم نے صبح کیا غذا کھائی تھی کیا اس غذا کے فوائد بتلا سکتے ہو؟
3- اگر کچھ دن غذا نہ کھائیں تو کیا حالت ہوجاۓ گی ۔۔۔اور کیوں ؟
4- تم اپنے بدن کی ضرورت کو گنواسکتے ہو ؟
5- اپنے بدن کی ضرورت کو کس طرح پورا کروگے ؟
6- حیوان اور سبزیاں ہمارے کس کام آتی ہیں ؟
7۔ کون سی ذات ہمارے ان چیزوں کو فراہم کرتی ہے ؟
8 – اس عالم میں ہمارے ذمے کو ن سی خدمت انجام دینی لازم قرار دی گئی ہے ؟

ساتواں سبق
اس کی نعمتیں
ہم منہ رکھتے ہیں کہ جس سے غذا کھاتے ہیں اور اس سے باتیں کرتے ہیں ۔۔۔۔۔۔
ہم ہاتھ رکھتے ہیں کہ جس سے غذا اٹھاتے ہیں اور کام کرتے ہیں ۔
ہم آنکھ رکھتے ہیں کہ جس سے دیکھتے ہیں ۔
ہم کان رکھتے ہیں کہ جس سے سنتے ہیں ۔
ہم پاؤں رکھتے ہیں کہ جس سے چلتے اور دوڑتے اور کھیلتے ہیں ۔
آیا تمھیں علم ہے کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کون سی ذات ہے کہ او ہماری تمام ضروریات کو جانتی تھی اور انکو ہمارے لۓ ضروری جانتے ہوۓ خلق کیا ہے ۔
جو چیز بھی ہماری زندگی کے لۓ ضروری تھی اس نے عنایت کی ہے ۔ اب ان تمام نعمتوں کے عوض ہمارا فرض کیا ہے ؟

مہربان خدا
خدا ہمیں دوست رکھتا ہے ۔ اس نے ہمیں پیدا کیا ہے اور یہ تمام نعمتیں ہمیں عنایت کی ہیں ۔ آنکھ دی ہے تاکہ ہم دیکھ سکیں ۔ کان دئیے ہیں تاکہ ہم سن سکیں ۔ زبان دی ہے تاکہ ہم بول سکیں اور غذا کا مزا چکھ سکیں ۔ پاؤں دئیے ہیں تا کہ چل سکیں ۔ ہاتھ دئیے ہیں تاکہ کا م کرسکیں اور دوسروں کی مدد کرسکیں عقل دی ہے تاکہ اچھائی اور برائی کو سمجھ سکیں ۔ اگر ہم آنکھ ، کان ، زبان ، ہاتھ ، پاؤں اور عقل نہ رکھتے تو کس طرح زندگی بسر کرسکتے تھے ؟؟

سوالات:
1-آنکھ سے کیا کام لیتے ہیں ؟
2- کان سے کیا کام لیتے ہیں ؟
3- زبان سے کیا کام لیتے ہیں ؟
4- ہاتھ سے کیا کام لیتے ہیں ؟
5- پاؤں سے کیا کام لیتے ہیں ؟
6- عقل سے کیا کام لیتے ہیں ؟
7- یہ تمام نعمتیں کس نے ہمیں دی ہیں ؟
8- کیا خدا ہمیں دوست رکھتا ہے ؟
9- کہاں سے معلوم ہوا ہے کہ خدا ہمیں دوست رکھتا ہے ؟
10- اگر آنکھ نہ ہوتی تو کیا ہوتا ؟
11- اگر کان نہ ہوتے تو کیا ہوتا ؟
12- اگر زبان نہ ہوتی تو کیا ہوتا ؟
13- اگر ہاتھ نہ ہوتا تو کیا ہوتا ؟
14- اگر پاؤں نہ ہوتے تو کیا ہوتا ؟
15- اگر عقل نہ ہوتی تو کیا ہوتا ؟

آٹھواں سبق
اللہ کی نعمتیں
خدا مہربان ہے اس نے ہمیں بہت سی نعمتیں دی ہیں ۔ ہوا پیدا کی تاکہ سانس لے سکیں ۔ پانی پیدا کیا تاکہ اسے پئیں اور اپنے آپ کو دھوئیں ۔ درخت اور جڑی بوٹیاں پیدا کیں تاکہ میٹھے اور خوش ذائقہ میوے کھائیں اور عمدہ غذائیں بنائیں ۔ اگر ہوا ، پانی ، درخت نہ ہوتے تو ہم کیسے زندہ رہتے ۔ خدا ہم پر بہت مہربان ہے کہ جس نے ہمیں یہ نعمتیں فائدہ حاصل کرنے کے لۓ عنایت کیں ۔ ہم بھی شفیق اور مہربان خدا سے محبت کرتے ہیں ۔ اور اس کا شکر ادا کرتے ہیں ۔ خدا ہم پر مہربان ہے اور ہماری اچھائی اور ترقی چاہتا ہے ۔ ہم بھی اللہ تعالی کے دستور کی پیروی کرتے ہیں تاکہ ہمیشہ کے لۓ سعادت مند زندگی بسر کرتے رہیں ۔

سوالات:
1-کس طرح ہمیں معلوم ہوا ہے کہ خدا ہم پر مہربان ہے ؟
2- خدا کا شکر کیوں ادا کریں ؟
3- اللہ تعالی کی پانچ نعمتوں کا نام بتائیے ؟
4- اگر سعادت مند ہونا چاہیں تو کس کے دستور پر عمل کریں ؟

نواں سیق
علیم اور قادر خدا
ہمارا جسم مختلف قسم کی غذاؤں کا محتاج ہے ۔ اگر مختلف غذا ئیں نہ ہوتیں تو ہم کیا کرتے ؟
بدن کی سلامتی کے لۓ کچھ مقدار پانی پیتے ہیں اگر پانی نہ ہوتا تو ہم کیا کرتے ؟
اگر منہ نہ ہوتا : کہ جس سے پانی پیتے ہیں اگر پانی نہ ہوتا تو ہم کیا کرتے ؟
اگر دانت نہ ہوتے : کہ جس سے غذا ئیں چباتے ہیں تو کیا کرتے ؟ لیکن خوش بختی سے ہماری زندگی کے تمام وسائل اور ضروریات اس دنیا میں موجود ہیں ۔ مختلف قسم کے میوے کہ جن کی ضرورت ہے موجود ہیں ۔ مختلف قسم کی سبزیاں کی جن کی ضرورت ہے موجود ہیں ۔ پیاسے ہوتے ہیں تو پانی موجود ہے ۔ منہ موجود ہے کہ جس سے غذا کھاتے ہیں ۔ ہاتھ ہیں کہ جس سے غذا اٹھاکر منہ میں رکھتے ہیں ۔ معدہ اور آنتیں موجود ہیں جو غذا کو ہضم کرتی ہیں ۔ آنکھیں ہیں جس سے دیکھتے ہیں ۔ کان ہیں جس سے سنتے ہیں ۔ زبان رکھتے ہیں جس سے بولتے اور غذا کا مزا لیتے ہیں ۔ جو چیز بھی ہماری سلامتی اور رشد کے لۓ ضروری تھی اس دنیا میں موجود ہے ۔
ان روابط اور ترتیب اور نظم سے جو ہمارے اور دوسرے جہاں میں موجودات کے ساتھ برقرار ہے اس سے ہم سمجھتے ہیں کہ ۔۔۔۔
کوئی ذات عالم اور قادر ہے کہ جس نے ہمیں خلق کیا ہے اور وہ ذات ہماری فکر میں پہلے سے تھی اور ہماری تمام ضروریات کو جانتی تھی اور وہ ذات خداوند عالم کی ہے کہ جو دانا اور توانا ہے اگر دانا اور عالم نہ ہوتا تو اسے معلوم نہ ہوتا کہ ہمیں کن چیزوں کی ضرورت ہے ۔ اگر توانا اور قادر نہ ہوتا تو ان چیزوں کو کہ جن کی ہمیں ضرورت تھی پیدا نہیں کرسکتا تھا ۔ اب ہم سمجھے کہ خدا عالم ہے یعنی دانا ہے اور خدا قادر ہے یعنی توانا ہے ۔

نظم و ترتیب
سورج نکلتا ہے گھاس اگتی ہے ۔ حیوانات گھاس کھاتے ہیں اور ہم انکے دودھ اور گوشت سے استفادہ کرتے ہیں ۔ پس سورج ، گھاس ۔ حیوان اور انسان کے درمیان ایک ربط ہے ۔
اگر سورج نہ نکلے تو کیا ہوگا ؟
اگر گھاس نہ اگے تو کیا ہوگا ؟
اگر حیوانات نہ ہوں تو کیا ہوگا ؟
یہ ربط جو ہمارے اور دنیا کے دوسرے موجودات کے درمیان ہے اس سے کیا سمجھتے ہیں :
کون سی ذات ہماری ضروریات کو جانتی تھی اور ان کو ہمارے لۓ خلق کیا ہے ۔
کیا وہ ذات عالم و قادر ہے ۔
کیسے جانا کہ وہ دانا اور توانا ہے ؟
اگر وہ دانا نہ ہوتا تو اسے معلوم نہ ہوتا کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر توانا اور قادر نہ ہوتا تو وہ قدرت نہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جی ہاں : وہ ذات دانا بھی ہے اور توانا بھی اور وہ ذات خدا کی ہے :
وہ مہربان ہے اور عطا کرنے والا ہے ۔
ہم بھی اسے بہت دوست رکھتے ہیں اور اس کے حکم اور فرمان کو مانتے ہیں تاکہ ہمیشہ زندگی با سعادت بسر کرسکیں ۔

دسواں سیق
بطخیں کب واپس لوٹیں گی
داؤود اور سعید اپنے باپ کے ساتھ باغ گۓ ۔ سردی کا زمانہ تھا درختوں کے پتے خشک اور بے جان ہوکر زمین پر گر پڑے تھے ۔ باپ نے کہا پیارے بیٹو! درختوں کو دیکھو ! یہ سر سبز نہیں ہیں ۔ ان کے سرسبز پتے تمام خشک ہوچکے ہیں ۔ اور بے جان ہوکر زمین پر کر پڑے ہیں ۔ وہ خوبصورت بطخیں بھی یہاں سے چلی گئی ہیں ۔ داؤود نے پوچھا ۔ ابا جان ! کیا بطخیں کب پھر یہاں نہیں آئیں گی ؟ ہم بطخوں کو نہیں دیکھ سکیں گے ؟ باپ نے جواب دیا کیوں نہیں ! جب بہار کا موسم آۓ گا اور خدا اس باغ کو دوبارہ شاداب کرے گا ۔اور یہ سرسبز ہوجاۓ گا ۔ تو بطخیں بھی دوبارہ لوٹ آئیں گی ۔ سعید نے پوچھا ! ابا جان : ہم بھی جب مرجائیں گے تو خدا ہمیں دوبارہ زندہ کرے گا ؟ باپ نے کہا ۔ جی ہاں ۔ ہم بھی مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہوں گے اور اپنے کۓ کا نتیجہ دیکھیں گے ۔ نیک جنت میں اور برے لوگ جہنم میں جائیں گے ۔

سوالات :
1- داؤود اور سعید باپ کے ساتھ کس موسم میں باغ میں گۓ ؟
2- کیا سردی کے موسم میں باغ سرسبز اور شاداب تھا ؟
3- درختوں کے پتے کس موسم میں بے جان ہوکر گرپڑتے ہیں ؟
4- باپ نے درختوں کے بارے میں داؤود اور سعید سے کیا کہا ؟
5- اس باغ سے بطخیں کیوں چلی گئی تھیں ؟
6- باغ کس موسم میں سرسبز ہوتا ہے ؟
7- کیا بطخیں دوبارہ لوٹ آئیں گی ؟
8- کون سی ذات باغ کو دوبارہ سرسبز و شاداب کرتی ہے ؟
9- جب ہم مرجائیں گے تو دوبارہ کو ن زندہ کرے گا ؟
10-جب خدا ہمیں دوبارہ زندہ کرے گا تو ہم کہاں جائیں گے ؟