روايت ابي مخنف كي تحقيق كا طريقۂ كار
ابو مخنف كي روايات كے متن كے صحيح يا غلط ھونے كے بارے ميں فيصلہ كرنا آسان كام نہيں ھے كيونكہ ابو مخنف كو تاريخي روايات نقل كرنے والوں ميں ايك بنيادي حيثيت حاصل ھے لھٰذا دوسري روايات كے پيش نظر ان كي روايت كے صحيح يا غلط ھونے كا فيصلہ نہيں كيا جاسكتا اس لئے كہ تاريخ كے تمام راوي جيسے ھشام كلبى، واقدى، مدائنى، ابن سعد وغيرہ يہ سب ان كے دور كے بعد سے تعلق ركھتے ھيں اور اسي كے مرھون منت ھيں۔
كافي غور و فكر اور جستجو كے بعد اس كتاب ميں تحقيق كا جو طريقۂ كار اپنايا گيا ھے وہ كچھ اس طرح ھے كہ سب سے پھلے ابو مخنف كي اس روايت كے مضمون كو تاريخ كي اھم كتابوں سے، جو تاريخ طبرى سے پہلے اور اس كے بعد لكھي گئي ھيں نيز خود تاريخ طبرى كي متعدد روايات سے اس كا موازنہ كيا جائے اس كے بعد تمام قرائن و شواھد كي روشني ميں اس كے صحيح يا غلط ھونے كا فيصلہ كيا جائے، اس سلسلے ميں جن كتابوں سے استفادہ كيا گيا ھے وہ تاريخ كي معتبر، معروف و مشھور كتابيں ھيں جن ميں سے اكثر كتابيں اھل سنت كي ھيں۔ ھم آپ كي معلومات كے لئے ان كتابوں كے نام كے ساتھ ساتھ ان كا مختصر تعارف كرانا بھي ضروري سمجھتے ھيں 40
البتہ اس سے پہلے كہ تاريخ طبرى سے پہلے لكھي جانے والي كتابوں كا تعارف كرايا جائے سب سے پہلے خود تاريخ طبرى كا تعارف پيش كرتے ھيں كيونكہ يہ ھماري بحث كا محور ھے اور تاريخ كي ايك جامع كتاب ھے۔
تاريخ طبرى:
اس كتاب كا نام "تاريخ الامم والملوك يا تاريخ الرسل والملوك" ھے جس كے مولف ابو جعفر محمد بن جرير طبري ھيں وہ 224 ھجري ميں آمل طبرستان (مازندران: ايران كا ايك شہر) ميں پيدا ھوئے اور تحصيل علوم كے سلسلے ميں مقامات كا سفر كيا پھر بغداد ميں سكونت اختيار كرلي اور 310 ھجري ميں وھيں انتقال كر گئے 41۔
آپ كا شمار فقہ، تفسير اور تاريخ كے عظيم علماء ميں ھوتا تھا خاص طور پر آپ كي تاريخ اور تفسير كي كتابيں تو علماء اھل فن كي توجہ كا مركز رھي ھيں۔
طبري نے اپني كتاب ميں اكثر روايات اپنے سے پہلے والے راويوں سے نقل كي ھيں اور طبري كے پاس ان كے ما قبل لكھي جانے والي كتابوں كا كافي ذخيرہ موجود تھا جن سے انھوں نے خوب استفادہ كيا اور چونكہ ان ميں سے بعض كتابيں زمانے كے گزرنے كے ساتھ ساتھ ناپيد ھوگئيں تو ان كتابوں كے مطالب كو نقل كرنے كا واحد مآخذ فقط تاريخ طبرى ھي ھے اسي لئے يہ كتاب ايك خاص اھميت كي حامل ھے اور ابو مخنف كي كتاب "مقتل حسين (ع)" جو اپني نوعيت كي واحد كتاب تھي اور اس بات كا زندہ ثبوت ھے كيونكہ اس كتاب كي روايتيں تاريخ طبرى ميں متعدد مقامات پر كثرت سے ذكر كي گئي ھيں 42
تاريخ طبرى نے خلقت كي ابتداء، اس كے بعد حضرت آدم عليہ السلام سے ليكر خاتم الانبياء تك اور پھر ان كي ھجرت سے ليكر 302 ھجري تك كے ھر سال كے حالات و واقعات كو الگ الگ بيان كيا ھے۔
طبري كا كسي بھي واقعہ يا حادثہ كو نقل كرنے كا طريقہ جس كا تذكرہ انہوں نے اپنے مقدمہ ميں كيا ھے 43 يہ ھے كہ كسي واقعہ كے بارے ميں راويوں سے روايتوں كو سند كے ساتھ نقل كرنے كے بعد اس كے بارے ميں اپني رائے دئے بغير اسے قارئين كي نظر پر چھوڑ ديتے ھيں، البتہ يہ بات قابل ذكر ھے كہ طبري كے پاس جو روايتيں موجود تھيں ان ميں سے انہوں نے صرف چند روايتوں كا انتخاب كر كے انہيں اپني كتاب ميں ذكر كيا ھے ليكن واقعہ غدير كے بارے ميں انہوں نے ايك روايت بھي ذكر نہيں كي ھے۔
وہ تمام راوي جن سے طبري نے روايتوں كو نقل كيا ھے وثاقت كے اعتبار سے برابر نہيں ھيں۔ جيسے ابن اسحاق، ابو مخنف، مدائنى، زُھري اور واقدى يہ تمام افراد وہ ھيں جنہوں نے تاريخي واقعات كو نقل كرنے ميں ايك خاص طريقۂ كار اپنايا ھے اور اسي طبري كے راويوں ميں سے ايك سيف بن عمر بھي ھے جو صرف روايتيں گڑھتا تھا اور نہايت ھي جھوٹا آدمي تھا 44۔
اگر چہ طبري سني مذھب تھے مگر زندگي كے آخري لمحات ميں ان كے تشيع كي طرف مائل ھونے كا احتمال ديا جاسكتا ھے۔
طبري سے پھلے لكھي جانے والي وہ كتابيں جو اس گفتگو كے لئے منتخب كي گئي ھيں
1۔ السيرة النبويہ لابن ھشام:
در اصل اس كتاب كے مولف ابن اسحاق ھيں، اور سيرت نبوي پر لكھي جانے والي اھم اور مصادر كي كتابوں ميں اس كا شمار ھوتا ھے اس سے پہلے سيرت نبوي پر اتني جامع كتاب نہيں لكھي گئي تھي۔ عبدالملك بن ھشام (وفات 213 يا 218 ھجري) نے اس كتاب كي تلخيص كي اور اپنے خيال ميں اس كي كچھ غير ضروري عبارتوں كو حذف كرنے كے ساتھ ساتھ اس ميں كچھ مطالب كا اضافہ بھي كيا 45 اس كے بعد يہ كتاب "السيرة النبويہ ابن ھشام" كے نام سے مشہور ھوگئي۔
2۔ المغازي واقدى:
اس كتاب كے مولف محمد بن عمر واقدى (ولادت 130 ھجري وفات 207 ھجري) ھيں ان كا تعلق عثماني مذھب سے تھا وہ مدينہ سے تعليم حاصل كرنے كے بعد 180 ھجري ميں بغداد تشريف لائے اور مامون كي طرف سے بغداد كے قاضي مقرر ھوئے اور اسي شہر ميں انتقال كرگئے، وہ غزوات اور فتوحات كے سلسلے ميں اچھي خاصي معلومات ركھتے تھے انہوں نے ھجرت سے ليكر پيغمبر اسلام صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كي رحلت تك كي روايات كے بارےميں عمدہ تحقيق كي ھے جس كي وجہ سے وہ پيغمبر اسلام (ص) كي جنگوں كو تفصيل كے ساتھ بيان كرنے ميں كافي حد تك كامياب رھے۔
3۔ الطبقات الكبريٰ:
اس كتاب كے مولف محمد بن سعد (ولادت 168 ھجري وفات 230 ھجري) ھيں وہ كاتب واقدى كے نام سے مشہور تھے اور ايك نہايت ھي متعصب قسم كے سني تھے ان كا تعلق بصرہ سے تھا اور پھر بغداد جاكر واقدى كے پاس ان كے كاتب كي حيثيت سے تعليم ميں مشغول ھوگئے، انھوں نے اپني كتاب كي پھلي دو جلدوں ميں پيغمبر اسلام صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كي سيرت اور اس كے بعد كي جلدوں ميں صحابہ اور تابعين كے بارے ميں بحث كي ھے جو اس سلسلے كي ايك اھم ترين كتاب سمجھي جاتي ھے۔
4۔ تاريخ خليفہ بن خياط (وفات 240 ھجري):
خليفہ بن خياط تيسري صدي ھجري كے ايك اھم مورخ سمجھے جاتے ھيں جو سني مذھب سے تعلق ركھتے ھيں، ابن كثير نے انہيں امام تاريخ كہہ كر ياد كيا ھے 46 يہ كتاب تاريخي كتابوں ميں قديم ترين كتاب ھے كہ جس نے تاريخي حالات و واقعات كو ھر سال كے اعتبار سے پيش كيا ھے۔
5۔ الامامہ والسياسة:
يہ كتاب ابن قتيبہ دينوري (ولادت 213 ھجري وفات 276 ھجري) كي طرف منسوب ھے جن كا شمار تيسري صدي ھجري كے اھل سنت سے تعلق ركھنے والے اديبوں اور مورخين ميں ھوتا ھے، ان كي ولادت بغداد ميں ھوئي مگر كچھ عرصہ دينور ميں قاضي رھے اگر چہ اس كتاب كي نسبت دينوري كي طرف مشكوك ھے ليكن بہر حال يہ كتاب سن تين ھجري كے آثار ميں سے ايك اھم كتاب ھے۔
6۔ انساب الاشراف:
يہ كتاب احمد بن يحييٰ بلاذُري (ولادت 170 ھجري سے 180 ھجري كے درميان، وفات 279 ھجري) نے لكھي ھے جو تيسري صدي ھجري كے برجستہ مورخين اور نسب شناس افراد ميں سے ايك تھے وہ سني مذھب اور عباسيوں كے ھم خيال افراد ميں سے تھے، اس كتاب ميں تاريخ اسلام سے متعلق خاندانوں كا نام اور ان كا نسب وغيرہ بيان كيا گيا ھے۔
7۔ تاريخ يعقوبى:
اس كتاب كے مولف احمد بن ابي يعقوب اسحاق بن جعفر بن وھب بن واضح ھيں 284 ھجري ميں انتقال ھوا، آپ كا تعلق شيعہ مذھب سے تھا يہ كتاب تاريخ كي موجودہ قديم ترين كتابوں ميں سے ايك ھے۔
تاريخ طبرى كے بعد لكھي جانے والي وہ كتابيں جن سے اس گفتگو ميں استفادہ كيا گيا ھے يہ ھيں۔
1۔ السقيفہ و فدك:
يہ كتاب ابوبكر جوھري (وفات 323 ھجري) نے لكھي مگر زمانے كے گذرنے كے ساتھا ساتھ گم ھوگئي اس كتاب كے عمدہ مطالب دوسري كتابوں ميں موجود ھيں، يہ كتاب ابن ابي الحديد كے پاس موجود تھي انہوں نے شرح نہج البلاغہ ميں اس كتاب سے بہت كچھ نقل كيا ھے، اب يہ كتاب محمد ھادي اميني كي كوششوں سے مآخذ سے جمع آوري كے بعد "السقيفہ و فدك" كے نام سے شائع ھوچكي ھے۔
2۔ مروج الذھب:
يہ كتاب علي بن حسين مسعودي (وفات 346 ھجري) نے لكھي ھے، ممكن ھے كہ وہ شيعہ اثنا عشري ھوں مگر اس بات كا اندازہ "مروج الذھب" ميں موجود مطالب سے نہيں لگايا جاسكتا بلكہ اس سے فقط ان كے مذھب شيعہ كي طرف مائل ھونے كا اندازہ لگايا جاسكتا ھے يہ كتاب مقامات كے سفر كر كے نہايت تحقيق اور جستجو كے بعد لكھے جانے كي وجہ سے كافي اھميت كي حامل ھے، انہوں نے اپني كتاب ميں ابو مخنف كا بہت ذكر كيا ھے۔
3۔ الارشاد:
اس كتاب كے مولف شيخ مفيد (ولادت 336 ھجري وفات 413 ھجري) ھيں وہ ايك شيعہ متكلم، فقيہ اور نامور مورخ ھيں، يہ كتاب اگر چہ شيعوں كے آئمہ (ع) كي زندگي كے بارے ميں لكھي گئي ھے ليكن اس كے باوجود اس كتاب ميں پيغمبر اسلام صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كي زندگي سے متعلق بھي بہت سے واقعات ملتے ھيں۔ شيخ مفيد كے علمي مقام و مرتبہ اور تقويٰ و پرھيز گاري كي وجہ سے انكي تحريريں شيعہ علماء كے نزديك ايك معتبر سند كي حيثيت ركھتي ھيں۔
4۔ المنتظم في تاريخ الملوك والامم:
يہ كتاب ابن جوزي (ولادت 508 ھجري وفات 597 ھجري) نے لكھي ھے، وہ چھٹي صدي ھجري كے مفسرين، خطباء اور مورخين ميں سے ايك تھے، يہ كتاب عام طور سے بعد ميں آنے والے مورخين كے لئے بہت زيادہ قابل استفادہ قرار پائي۔
5۔ الكامل في التاريخ:
يہ كتاب ابن اثير (ولادت 555 ھجري وفات 630 ھجري) نے لكھي ھے، انہوں نے اس كتاب ميں ايسي دلچسپ روش اور طريقۂ كار كا انتخاب كيا ھے كہ جس نے اس كتاب كو تاريخ سے دلچسپي ركھنے والے تمام افراد كے لئے قابل استفادہ بنا ديا ھے، انہوں نے مطالب كي جمع آوري اور انھيں نقل كرنے كے سلسلے ميں بہت محنت اور توجہ سے كام ليا ھے۔
6۔ البدايہ والنھايہ:
يہ كتاب ابن كثير (ولادت 701 ھجري وفات 774 ھجري) نے لكھي ھے۔ اور قابل ذكر بات يہ ھے كہ وہ ابن تيميہ 47 كے شاگردوں ميں سے ھيں۔
اس كتاب ميں بعض بحثيں جيسے سيرت نبوي كو مختصر طور پر بيان كرنے كے بعد نظريات پر تنقيد كے علاوہ ان كي تحقيق كي گئي ھے۔
يھاں اس بات كا ذكر ضروري ھے كہ يہ جتني بھي كتابيں ذكر كي گئي ھيں يہ ھماري بحث كے تاريخي مآخذ ھيں اور اس سے ھرگز مراد يہ نھيں ھے كہ ھم نے فقط ان ھي كتابوں پر اكتفا كي ھے۔ بلكہ بعض مقامات پر احاديث كي كتابوں سے بھي استفادہ كيا ھے جيسا كہ اھل سنت كي احاديث كي كتابوں ميں سے صحيح بخارى، مسند احمد بن حنبل اور شيعہ احاديث كي كتابوں ميں سے كافي اور بحار الانوار كو اس گفتگو كے لئے منتخب كيا گيا ھے۔
اگر چہ بعض مخصوص مطالب كے سلسلے ميں ان كتابوں سے استفادہ كيا گيا ھے جو انہيں موضوعات پر لكھي گئي ھيں مجموعي طور پر يہ كھا جاسكتا ھے كہ اس كتاب ميں تحقيق كا جو طريقۂ كار اپنايا گيا ھے اگر چہ وہ بہت مشكل اور سنگين كام ھے ليكن ممكن ھے كہ يہ طريقۂ كار بہت سي تاريخي مباحث كي تحقيق كے سلسلے ميں مفيد ثابت ھو۔
----------------
43. طبري۔ ج1 ص7، 8
45. السيرة النبويہ ابن ھشام ج1 ص4 (ابن اسحاق نے ايسے مطالب كا ذكر نہيں كيا كہ جو رسول خدا (ص.سے متعلق نہيں تھے يا يہ كہ بعض مطالب غير مناسب تھے)
46. منابع تاريخ اسلام۔ ص121
47. ابن تيميہ كے افكار ھي در حقيقت وھابيت كي بنياد ھيں۔
|