٤_ رسول کے بعد ہونے والا گواہ
قرآن میں اس بات کی صراحت ملتی ہے کہ رسول کے بعد بھی مسلمانوں پر کوئی گواہ ہوگا۔ قرآن کہتا ہے :
(َفَمنْ کَانَ عَلَی بَیِّنَةٍ مِنْ رَبِّہِ وَیَتْلُوہُ شَاہِد مِنْہُ)(٣)
''کیا جو شخص اپنے مالک کی طرف سے ایک دلیل رکھتا ہے اس کے پیچھے اس کی طرف سے شاہد ہے ۔''
..............
(١) سورہ احزاب،آیت٤٥۔
(٢) سورہ نسائ،آیت٤١۔
(٣) سورہ ہود ،آیت١٧۔
یہاں پر '' یَتْلُوہُ'' کے معنی ''یخلفہ'' ہے۔ یعنی وہ (رسول کا جانشین اور امام المومنین ) اس کی خلافت و نیابت کرے گا یہی اس لفظ کا ظاہری معنی ہے اور خلافت کا مفہوم یہ ہے کہ وہ نبوت کے سوا تمام چیزوں میں اس کے قائم مقام کی حیثیت رکھتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے اس شاہد یعنی گواہ کا تعین کبھی تو اشارہ صفت کے ذریعہ کیا ہے کہ وہ رسول کی نسب سے ہوگا۔ جیساکہ اس آیت میں مذکورہ ہے اور کبھی اس کی صفت یہ بیان کی ہے کہ اس کے پاس کتاب اللہ کا علم ہوگا جیسا کہ قرآن کہتا ہے:
(قُلْ کَفَی بِاﷲِ شَہِیدًا بَیْنِی وَبَیْنَکُمْ وَمنْ عِنْدَہُ عِلْمُ الْکِتَابِ)(١)
حقیقت یہ ہے کہ یہ دونوں صفات اہل بیت (رضوان اللہ علیہم اجمعین) پر ہی صادق آتی ہیں۔ جس میں سرفہرست حضرت علی ابن ابی طالب ہیں۔
پہلی صفت: گواہ کا تعلق رسول کے خاندان سے ہے۔ اور آیت مباہلہ سے یہ بات پورے طور پر واضح ہوگئی ہے اور اس پر تمام مسلمانوں کا اتفاق بھی ہے کہ اہل بیت سے مراد ''علی،فاطمہ اور حسن و حسین٪ '' ہیں جیسا کہ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے :
(فَمنْ حَاجَّکَ فِیہِ مِنْ بَعْدِ مَا جَائَکَ مِنْ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ ا بْنَائَنَا وَ ا بْنَائَکُمْ وَنِسَائَنَا وَنِسَائَکُمْ وَا اَنْفُسَنَا وََا اَنْفُسَکُم ثُمَّ نَبْتَہِلْ فَنَجْعَلْ لَعْنَةَ اﷲِ عَلَی الْکَاذِبِینَ)(٢)
''پھر جب تجھ کو عیسیٰ کا حال معلوم ہوچکا۔ اب بھی کوئی تجھ سے اس کے بارے میں جھگڑے تو کہہ دے ،آئو ہم اپنے بیٹوں کو بلائیں گے ،تم اپنے
بیٹوں کو بلائو اور ہم اپنی عورتوں کو اور تم اپنی عورتوں کو اور ہم اپنی ذاتوں سے شریک ہوں اور تم اپنی ذاتوں سے، پھر خدا کے سامنے گڑگڑائیں (روئیں اور عاجزی سے دعا کریں) اور جھوٹوں پر اللہ کی لعنت بھیجیں۔''
..............
(١) سورہ رعد،آیت٤٣۔
(٢) سورہ آل عمران،آیت٦١۔
یہ آیت حسن ،حسین ،فاطمہ اور علی ٪کے بارے میں نازل ہوئی ہے ایک حدیث متواتر میں یہ قصہ مذکور ہے کہ یوم مباہلہ میں رسول اللہ نے علی ،حسن ،حسین٪ کا ہاتھ پکڑا اور فاطمہ کو ان کے پیچھے کر لیا، پھر کہا یہ ہمارے بیٹے، ذاتیں اور عورتیں ہیں تم اپنے بیٹوں ،اپنی جانوں اور اپنی عورتوں کے ساتھ آجائو، پھر ہم اللہ کے سامنے عاجزی کے ساتھ دعا کرتے ہیں اور جھوٹ بولنے والے پر لعنت بھیجتے ہیں۔(١)
ایک حدیث صحیح میں اللہ کے رسول کا قول مذکور ہے کہ ''علی مجھ سے ہیں اور میں علی سے ہوں'' (٢)میری طرف سے امور کی انجام دہی علی کے ذمے ہے۔اسی طرح کی ایک خبر متواتر آیت برائت کے سلسلے میں بھی وارد ہوئی ہے۔ رسول اللہ نے آیت برائت دے کر ابو بکر کو بھیجا تاکہ اس کے مشمولات کو مکہ والوں کے سامنے بیان کردیں کہ اس سال کے بعد کوئی مشرک حج نہیں کر سکے گا اور نہ ہی کوئی عریاں شخص بیت اللہ کا طواف کرے گا اور حرم میں داخلے کے مستحق صرف مسلمان ہوں گے۔ اور جس کسی کا اس کے اور اللہ کے رسول کے درمیان میں معاہدہ ہو تو
..............
(١) صحیح المسلم کتاب الفضا ئل باب فضا ئل علی۔
صحیح الترمذی ٤/٢٩٣ حدیث ٣٠٨٥ ۔
(٢) سنن ابن ماجہ کی کتاب المقدمہ باب فضائل الصحا بہ،
ترمذی کتاب ا لمنا قب، حدیث ٢٥٣١ ،ص١٥٣، ج١، طبع اولی۔
مسند احمد ص١٦٤ ،١٦٥، ج٤۔
وہ ایک خاص مدت تک ہی محدود ہوگا۔ اللہ اور اس کا رسول مشرکین سے بری ہیں۔ حضرت ابوبکر اس آیت کو لے کر تین بار گئے۔ پھر رسول اللہۖ نے حضرت علی سے کہا: تم ان کو لے کر جائو، اور ابوبکر کو میرے پاس بھیج دو، اور اس آیت کی تبلیغ تم خود کرو۔جب حضرت ابو بکر نبی کریمۖ کے پاس آئے تو رونے لگے اور کہا یا رسول اللہ کیا مجھ میں کوئی چیز پیدا ہوگئی ہے ؟رسول اللہۖ نے جواب دیا تمہارے اندر صرف بھلائی ہی پیدا ہوئی ہے۔ لیکن مجھے یہ حکم ملا ہے کہ اس کی تبلیغ یا تو میں کروں یا کوئی ایسا شخص جو مجھ سے ہو۔(١)
ایک اور حدیث میں وارد ہے کہ رسول اللہ نے حضرت حسن کو آغوش میں رکھا اور کہا : یہ مجھ سے ہیں۔(٢)
اور مزید فرمایا : حسین مجھ سے ہیں اور میں حسین سے ہوں۔ اور اللہ کا محبوب وہ ہے جو حسین کا سب سے زیادہ محبوب ہو، اور حسین نواسے بھی ہیں۔(٣)
..............
(١) مسند احمد ١ /٣۔ سنن الترمذی ١٣ /١٦٤ تا ١٦٥۔
مستد رک الصحیحین ٣/٥١ ،٥٢۔
(٢) مسند احمد ص٤/١٣٢۔
(٣) صحیح البخاری فی الادب المفرد باب معانقہ الصب،حدیث ٣٦٤،
ترمذی باب منا قب الحسن و ا لحسین١٣ /١٩٥۔
دوسری صفت میں یہ بات کہی گئی ہے کہ رسول کے بعد وہ شخص گواہ ہوگا جو کتاب کا علم رکھتا ہو۔ یہ مفہوم بھی صرف علی اور ان کی طاہر اولاد پر صادق آتا ہے اسی سلسلے میں ایک حدیث منقول ہے۔
''میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ،جو شخص علم حاصل کرنا چاہتا ہے تو
اسے دروازے پر آنا چاہیے۔'' (١)
حاکم نے اس کی سند کو صحیح مانا ہے ۔علی سے یہ روایت منقول ہے:
''خدا کی قسم ،میں ان کا یعنی رسول اللہ کا بھائی ہوں اور ان کا ولی یعنی نائب، اور ان کا چچا زاد بھائی ہوں اور ان کے علم کا وارث ہوں۔ مجھ سے زیادہ ان کی وراثت کا کون حقدار ہوسکتا ہے؟'' (٢)
ایک اور روایت اللہ کے رسول سے منقول ہے:
''تمام تعریف اللہ کے لئے ہے جس نے حکمت (کا مصداق) ہمارے درمیان اہل بیت کو بنایا ہے۔'' (٣)
ایک دوسری حدیث میں ہے : جس شخص کو اس بات سے خوشی حاصل ہو کہ وہ میری زندگی جئے اور میری موت مرے اور میرے رب کے لگائے ہوئے جنت عدن میں رہے تو اسے علی کو میرے بعد ولی بنانا چاہئے اور ان کی ولایت کو تسلیم کرنا چاہیے۔ اور میرے بعد اہل بیت کی اقتداء کرنا چاہیے ۔کیوں کہ وہ لوگ میری عترت یعنی میرے خمیر سے پیدا کئے گئے ہیں ۔اور انہیں میرا علم و فہم دیا گیا ہے ۔ان لوگوں کے لئے ہلاکت ہو جو ان کے فضائل کو جھٹلاتے اور ان کے درمیان قطع رحمی کرتے ہیں، اللہ انہیں میری شفاعت سے دور رکھے۔(٤)
..............
(١) مستد رک الصحیحین ١٣/١٢٦۔
(٢) اس کا مصدر وہی ہے جسے حاکم اور ذہبی نے بیان کیا ہے۔خصائص ا لنسائی:١٨۔
(٣) احمد بن حنبل نے مناقب میں اور طبری نے ریاض النضرة ٢/١٩٤ میںذکر کیا ہے ۔
(٤) کنز ا لعمال ٦/٢١٨ حدیث ٣٨١٩۔
اس بات کی توضیح و اثبات کے لئے کہ رسول اللہۖ کے علم کے وارث اہل بیت ہیں جن میں سرفہرست حضرت علی ،حسن ،حسین ہیں اور جو صحیح معنوں میں کتاب اللہ کی معرفت رکھتے ہیں ،یہ حدیث متواتر کافی ہے کہ:
''میں نے تمہارے درمیان ایسی چیزیں چھوڑی ہیں کہ جب تک تم مضبوطی کے ساتھ پکڑے رہو گے ہرگز ہرگز میرے بعد گمراہ نہ ہوگے۔ ان میں سے ایک دوسرے سے بڑھ کر ہے ۔کتاب اللہ جو ایک ایسی رسی ہے جو آسمان سے لے کر زمین تک یہاں تک کہ یہ حوض کوثر پر میرے پاس پیش کئے جائیں۔ دیکھو! کسی طرح سے تم لوگ ان دونوں کے تعلق سے میرے پیٹھ پیچھے عمل کرتے ہو۔'' (١)
طبرانی میں مذکور ہے:
'' نہ تم ان دونوں سے آگے قدم بڑھائو کیونکہ اس میں ہلاکت ہے اور نہ پیچھے اس لئے کہ اس میں بھی ہلاکت ہے اور انہیں مت سکھائو کیونکہ وہ لوگ تم سے زیادہ جانتے ہیں ۔'' (٢)
..............
(١) سنن ترمذی ٥/٣٢٩۔
(٢) کنز ا لعمال ١٦٨۔
آیات شہادت سے جو نتائج مستفاف ہوتے ہیں مندرجہ ذیل ہیں:
(١) رسولۖ اپنی امت کے اولین گواہ ہیں جس طرح ان سے پہلے کے انبیاء اپنی اپنی امتوں کے گواہ تھے۔
(٢) مسلمانوں پر گواہی اللہ کے رسول کے بعد بھی جاری رہے گی اور اس باب میں لوگ رسول اللہ کی جگہ برحق شہادت ادا کرتے رہیں گے، اور اللہ کی کتاب کے مطابق معاملات میں فیصلہ کریں گے جیساکہ اللہ کا ارشاد ہے:
(یَحْکُمُ ا بِہَا النَّبِیُّونَ الَّذِینَ َسْلَمُوا لِلَّذِینَ ہَادُوا وَالرَّبَّانِیُّونَ وَالَْاحْبَار بِمَا اسْتُحْفِظُوا مِنْ کِتَابِ اﷲِ وَ کَانُوا عَلَیْہِ شُہَدَائَ فَلاَتَخْشَوْا النَّاسَ وَ اخْشَوْنِی وَلاَ تَشْتَرُوا بِآیَا تِی ثَمَنًا قَلِیلًا وَ منْ لَمْ یَحْکُمْ بِمَا َنزَلَ اﷲُ فَُوْلَئِکَ ہُمْ الْکَافِرُونَ) (١)
''خدا کے تابعدار پیغمبر یہودیوں کو اسی کے موافق حکم دیتے رہے اور (پیغمبروں کے علاوہ) درویش (مشائخ) او رمولوی(بھی اسی پرحکم دیتے رہے) اس واسطے کہ وہ اللہ کی کتاب کے حافظ بنائے گئے تھے ۔(امانتدار) اور اس کی نگہبانی کرتے تھے۔ تو(اے یہودیو) لوگوں سے مت درو، او رمجھ سے ڈرو اور میری آیتوں کے بدلے (دنیا کا) تھوڑا مال مت لو(رشوت کھا کر میرے حکم مت چھپائو) اور جو لوگ اللہ تعالیٰ کی اتاری ہوئی کتاب کے موافق حکم نہ دیں وہی کافر ہیں۔''
..............
(١) سورہ مائدہ،آیت ٤٤۔
یہ شہداء یا گواہ رسول کے بعد آئیں گے اور تمام امور سوائے امر نبوت کے ان کی جانشینی کا فریضہ انجام دیں گے۔ جیساکہ خدا کا ارشاد ہے۔ (وَیَتْلُوہُ شَاہِد مِنْہُ) اللہ کی طرف سے ایک گواہ بھی اس کو پہنچادو۔
(٣) گواہ یا گواہان وہ لوگ ہوں گے جو کتاب اللہ کے عالم اور رسول اللہ کی اولاد میں سے ہوں گے۔
(٤) حضرت علی اور ان کی اولاد اطہار جنہیں عترت رسول ہونے کا شرف حاصل ہے انہی پر مذکورہ دونوں صفتیں منطبق ہوتی ہیں کیونکہ ''کتاب اللہ کے علم سے پوری طرح بہرہ ور ہیں اور انہیں کے بارے میں رسول اللہ نے فرمایا ہے کہ وہ مجھ سے ہیں۔''
ہم نے علیاور ان کی اولاد اطہار کی امامت سے متعلق چند قرآنی آیات یہاں بطور نمونہ ذکر کی ہیں اس موضوع پر اللہ کے رسول سے بکثرت احادیث بھی منقول ہیں، باوجود اس کے کہ عباسی اور اموی دور حکومت میں ان لوگوں کو سخت سزا دی جاتی تھی جو لوگ اہل بیت سے متعلق احادیث کی روایت کرتے تھے او ریہ سلسلہ تقریباً چار صدیوں تک چلتا رہا، نیز اس بات سے سبھی واقف ہیں کہ احادیث کی کتابوں کی جمع و تدوین کا کام ظالم حکومتوں کے زیر سرپرستی ہوا، جو اہل بیت سے متعلق روایت کے سخت مخالف تھیں اور روایت کرنے والوں کو سخت سے سخت عذاب دیتی تھیں۔ اموی اور عباسی حکمرانوں نے صرف اہل بیت کی امامت سے متعلق احادیث روایت کرنے سے منع نہیں کیا بلکہ ان لوگوں نے کچھ کمزور ایمان والوں کو اس بات پر مجبور کیا کہ وہ لوگ اہل بیت کے دشمنوں کی فضیلت میں کچھ احادیث گھڑ کر بیان کریں اور اس کی نسبت رسول کی طرف کردیں حالانکہ یہ باتیں نص قرآن اور صریح متواتر حدیثوں کے بالکل برعکس اور متناقص ہیں۔
یہ ایک اہم بحث ہے ۔ اس کتاب میں ہمارا مقصد علی اور ان کی اولاد کی امامت پر بحث کرنا نہیں تھا۔ علمائے صالحین نے اس موضوع پر مفصل اور جامع کتابیں تالیف کی ہیں،جو اس موضوع کی تفصیلی واقفیت کے خواہاں ہیںانہیں اس موضوع پر با ضابطہ طور پر لکھی گئی کتابوں کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔
ہم اللہ سے یہ دعا کرتے ہیں کہ وہ ہمیں دنیا و آخرت کی زندگی میں صحیح بات کہنے کی توفیق عطا کرے اور ہماری اس ادنیٰ خدمت کو قبولیت حسنہ سے نوازے ۔
انہ کریم سمیع مجیب
|