٣_ آیت قربیٰ
ان آیات میں بھی رسول کے بعد اہل بیت کی امامت پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ خدا تعالیٰ فرماتا ہے:
(قُلْ لاَ َسَْلُکُمْ عَلَیْہِ َجْرًا ِلاَّ الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبَی) (١)
''(اے رسول) تم کہہ دو میں تم سے رسالت کا کوئی اجر نہیں مانگتا سوائے ا پنے اقرباء کی دوستی کے۔''
اس آیت کریمہ سے یہ بات واجب ہوجاتی ہے کہ رسول اکرم کے اعزہ و اقرباء سے محبت و عقیدت اور ان کا پاس و لحاظ رکھا جائے۔ اور اللہ نے رسول کی رسالت و پیغام کیلئے اس محبت و عقیدت کو اجر اور بدلہ قرار دیا ہے ،ظاہر ہے ایسی صورت میں اس مودت کی اہمیت اور قدر و منزلت اصل رسالت سے کم تر نہیں ہوگی بلکہ اس کے مساوی ہوگی ۔کیوں کہ ہر عمل کا بدلہ قدر و قیمت میں اس عمل کے برابر ہونا ضروری ہے ورنہ وہ مساوی اجر نہیں ہوگا۔ نعوذ باللہ یہ کیسے ممکن ہے کہ اللہ تعالی دنیا کی اہم ترین شیٔ نبی خاتم کی رسالت کا اجر غیر مساوی متعین کرے، قرآن کی دوسری آیتوں میں اس اجر کے مفہوم و معنی پر روشنی ڈالی گئی ہے قرآن کہتا ہے:
(قُلْ مَا َسَْلُکُمْ عَلَیْہِ مِنْ َجْرٍا ِلاَّ منْ شَائَ اَنْ یَتَّخِذَا ِلَی رَبِّہِ سَبِیلًا) (٢)
''اے پیغمبر کہہ دیجئے کہ میں تم سے اس خوشخبری سنانے پر اور ڈرانے پر کوئی
مزدوری نہیں مانگتا مگر جس کا جی چاہے وہ اپنے مالک تک پہنچنے کا راستہ اختیار کرلے۔''
..............
(١) سورہ شوریٰ،آیت٢٣۔
(٢) سورہ فرقان،آیت٥٧۔
اس آیت میں اجر سے مراد سبیل الی اللہ ہے یعنی اللہ تک پہنچانے والا راستہ ۔اور یہی بات دوسری آیت میں بھی مذکور ہے:
(ِنَّ ہَذِہِ تَذْکِرَة فَمنْ شَائَ اتَّخَذَا ِلَی رَبِّہِ سَبِیلاً ) (١)
''یہ آیتیں نصیحت کی باتیں ہیں پھر جس کا جی چاہے اپنے مالک کی طرف راستہ بنالے۔''
یہاں قرآن نے رسول کے اقرباء کو قرآن کریم کے مساوی قرار دیا ہے کیونکہ دونوں چیزیں اللہ تک پہنچنے کا راستہ ہیں جیساکہ رسول اللہ تک پہنچنے کا راستہ اور ذریعہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
(وَیَوْمَ یَعَضُّ الظَّالِمُ عَلَی یَدَیْہِ یَقُولُ یَالَیْتَنِی اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُولِ سَبِیلًا ں یَاوَیْلَتِی لَیْتَنِی لَمْ َتَّخِذْ فُلَانًا خَلِیلًا ں لَقَدْ َضَلَّنِی عاَنْ الذِّکْرِ بَعْدَ ِذْ جَائَنِی وَکَانَ الشَّیْطَانُ لِلِْنسَانِ خَذُولًا) (٢)
''اور جس دن ظالم و گنہگار (مارے افسوس کے) اپنے ہاتھ کاٹ کھائے گا، کہے گا کاش میں بھی (دنیامیں) پیغمبر کے ساتھ اسلام کا راستہ لیتا (یا کوئی نجات کی راہ حاصل کرلیتا) ہائے میری کم بختی ،کاش میں فلاں (ابی بن خلف) کو دوست نہ بناتا، اس نے مجھ کو نصیحت پہنچنے کے بعد بہکا دیا (یعنی قرآن سننے کے بعد) اور
شیطان تو آدمی کو (وقت پر )دغا دیتا ہے۔''
..............
(١) سورہ مزمل،آیت١٩۔
(٢) سورہ فرقان،آیت٢٧ تا ٢٩۔
ان آخری آیات میں غور طلب بات یہ ہے کہ یہ آیت بتاتی ہے کہ خلوت و مودت ہی وہ شیٔ ہے جو انسان کے راستہ کا رخ متعین کرتی ہے ۔نیز یہ آیتیں ظالم و گناہ گار لوگوں کی حسرت و ندامت کی تصویر کشی کرتی ہے کہ انہوں نے رسول اللہ کے ساتھ چلنے کی راہ کیوں اختیار نہیں کی؟ اور کیوں آپۖ کے علاوہ دوسروں کو اپنا دوست یا رہنما بنایا ؟ گویا رسول کے علاوہ دوسروں کو دوست بنانا یہاں اسے قائد اور امام بنانے کے معنی میں ہے۔ نیز آیت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ''خلت'' و مودت اتباع و اقتداء کا معنی رکھتی ہے۔ اس سے یہ سمجھ میں آسکتا ہے کہ قیامت کے دن ان ظالموں کی حسرت و ندامت کی کیا انتہا ہوگی؟ جنہوں نے غیر رسول کو اپنا پیشوا اور دوست بنایا ہوگا۔
مذکورہ بالا تمام باتوں سے یہ معلوم ہوا کہ قرابت داروں کی محبت اللہ تعالیٰ تک پہنچنے کا ذریعہ وراستہ ہے۔ لہٰذا انہیں آئمہ مطاع مانتے ہوئے امر و نہی میں رسول کی طرح ان کی اقتداء و اتباع لازم ہے۔قرآن کا ارشاد ہے :
(یَاَیُّہَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا ُنزِلَا ِلَیکَ مِنْ رَبِّکَ واَنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَہُ وَاﷲُ یَعْصِمُکَ مِنْ النَّاسِ) (١)
''اے پیغمبرۖ جو کچھ تیرے پروردگار کی طرف سے نازل ہوا ہے اسے کامل طور سے (لوگوں تک) پہنچادو اور اگر تم نے (ایسا) نہ کیا تو گویا تم نے کار رسالت سر انجام نہیں دیا اور خداوند تعالیٰ تمہیں لوگوں کے (ان تمام خطرات) سے (جن کا احتمال ہے) محفوظ رکھے گا۔''
..............
(١) سورہ مائدہ،آیت ٦٧۔
سورئہ مائدہ کی اس آیت کے بارے میں متواتر احادیث سے یہ بات ثابت ہے کہ یہ آیت کریمہ یوم غدیر خم کے موقع پر حضرت علی کے بارے میں نازل ہوئی جس میں اللہ کے رسول کو حضرت علی کی امامت کو مجمع عام میں پہنچانے کا حکم دیا گیا اور ہم آیت میں دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے تبلیغ کو اپنے تمام پیغام رسالت کے ابلاغ کے مساوی قرار دیا ہے ۔کیوں کہ آیت میں یہ تاکید کی گئی ہے کہ اگر رسولۖ نے علی کی امامت کی تبلیغ نہیں کی تو گویا کہ انہوں نے اللہ کے پیغام کو ہی نہیں پہنچایا جیساکہ یہ بات آیت مودت اور آیت سبیل میں بھی کہی گئی ہے کہ قرابت داروںسے مودت رسول کی رسالت کے لئے مساوی اجر اور اللہ تک پہنچنے کا ذریعہ ہے۔ گویا مودت اور سبیل الی اللہ دونوں ایک امر ہے ،اب اگر کوئی یہ کہے کہ فلاں کی محبت اور کسی غیر کو مراد لے تو اللہ اور اس کے رسول کے راستہ سے اعراض ہوگا ۔اور تا قیامت حسرت و ندامت کا باعث ہوگا۔
متواتر اور صحیح روایات کے مطابق اور اس پر اہل علم کا بھی اتفاق ہے کہ قربیٰ سے مراد علی، فاطمہ، الحسن والحسین ہیں ،علامہ امینی نے اپنی کتاب ''الغدیر'' میں، احمد نے ''مناقب'' میں ، ابن منذر ،ابن ابی حاتم ،طبرانی ،ابن مردویہ الواحدی ،ثعلبی، ابو نعیم اور البغوی نے اپنی تفسیر میں اور ابن المغازلی نے ابن عباس کی سند سے یہ روایت نقل کی ہے ۔جب یہ آیت نازل ہوئی تو کہا گیا کہ اے اللہ کے رسول ! آپ کے قرابت دار کون لوگ ہیں؟ جن کی مودت ہم پر واجب ہے تو انہوں نے فرمایا : ''علی ،فاطمہ اور ان کے دونوں بیٹے ...... '' (١)
..............
(١) تفصیل کیلئے ملاحظہ کیجئے کتاب الغدیر ج٢ ص٣٠٦۔
یہاں پر اس بات کو واضح کردینا بھی مناسب ہوگا کہ یہ اجر جس کااوپر ذکر آیا ہے اس اجر

کی قبیل سے نہیں جو لوگوں میں یا عرف عام میں مشہور ہے جسے لوگ کسی کی خدمت کر کے حاصل کرتے ہیں بلکہ اجر ثمرہ اور نتیجہ ہے۔ ،یہ بات اس مثال سے بخوبی واضح ہوجاتی ہے کہ کاشتکار جو زمین کی کاشت کرتا ہے اور وہ کسان جو درخت کو سیراب کرتا ہے اور اس کی دیکھ بھال کرتا ہے اس کا اجر و نتیجہ وہ ماحصل ہے جو اس کھیت یا اس درخت سے اس کو حاصل ہوتا ہے ۔ہر عمل اور کوشش کا متوقع نتیجہ اجر حقیقی ہوتا ہے جسے عامل اپنی کوشش کے نتیجہ میں پاتا ہے۔ چنانچہ آیت میں مذکور اجر اسی معنی و مفہوم میں ہے جیسا کہ سبیل کا مفہوم بھی اجر کے اس معنی میں ہونے پر دلالت کرتا ہے۔
اس آیت کاخلاصہ یہ ہے کہ تمام مومنین رسول کی دعوت کو قبول کریں اور اللہ سبحانہ کے بتائے ہوئے طریقہ کی اتباع کریں اور رسول کے بعد اہل بیت رسول کی اتباع اور اطاعت کر کے اس راستہ پر ثابت قدم رہیں تاکہ رسول کی کوشش بار آور ہوسکے۔ جس کا ثمرہ اور نتیجہ یہ ہو کہ پوری دنیا میں عدل و انصاف کا قیام عمل میں آسکے اور ربّانی ہدایت پوری دنیا میں پھیل جائے اور اللہ کا وعدہ سچ ہوجائے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ۔
(وَعَدَ اﷲُ الَّذِینَ آمَنُوا مِنْکُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّہُم فِی الَْرْضِ)(١)
''جو لوگ تم میں سے ایمان لے آئے اور اچھے کام کئے اللہ نے ان سے وعدہ کیا ہے کہ (ایک نہ ایک دن ) ان کو ضرور اس زمین میں حکومت دے گا۔''
(وَلَوْ َنَّ اَہْلَ الْقُرَی آمَنُوا وَاتَّقَوْالَفَتَحْنَا عَلَیْہِمْ بَرَکَاتٍ مِنْ السَّمَائِ وَالَْرْضِ)(٢)
''اگر یہ بستی والے ایمان لاتے اور بچے رہتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین کی برکتیں کھول دیتے۔''
..............
(١) سورہ نور،آیت٥٥۔
(٢) سورہ اعراف،آیت٩٦۔
ایک جگہ اور ارشاد ہے:
(ہُوَ الَّذِی َرْسَلَ رَسُولَہُ بِالْہُدَی وَدِینِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہُ عَلَی الدِّینِ کُلِّہِ وَلَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُونَ) (١)
'' وہی خدا ہے جس نے اپنے پیغمبرۖ کو ہدایت کی باتیں اور سچا دین (اسلام) دے کر بھیجا تاکہ اس کو ہر دین پر غالب کرے گو مشرکین اس کو برا مانیں۔''
یہ تمام کی تمام چیزیں اللہ کے رسول کی کوششوں کا اس دنیاوی زندگی میں ثمرہ اور نتیجہ رہیں، بہرحال آخرت کا ثمرہ و نتیجہ تو وہ اس آیت سے ظاہر ہے۔
(وَمنْ یُطِعْ اﷲَ وَالرَّسُولَ فَُوْلَئِکَ مَعَ الَّذِینَ اَنْعَمَ اﷲُ عَلَیْہِمْ مِنْ النَّبِیِّینَ وَ الصِّدِّیقِینَ وَالشُّہَدَائِ وَالصَّالِحِینَ وَحَسُنَ ُوْلَئِکَ رَفِیقًا ں ذَلِکَ الْفَضْلُ مِنْ اﷲِ وَکَفَی بِاﷲِ عَلِیمًا) (٢)
اس آیت کے مفہوم سے یہ واضح ہوگیا کہ جو اللہ اور اس کے رسول کا کہا مانیں گے انہیں آخرت میں یہ ثمرہ اور نتیجہ حاصل ہوگا کہ انہیں جنت میں انبیائ،صدیقین، شہداء اور صلحاء کا ساتھ نصیب ہوگا۔ اور یہ اجر ایسا اجر ہے جس کا فائدہ خود ایمان والوں کو پہنچتا ہے نہ کہ رسول کی ذات کو، چنانچہ قرآن نے یہ بات نہایت تاکید کے ساتھ بیان کی ہے اس اجر سے مراد وہ اجر نہیں ہے جو لوگوں کے درمیان مشہور و معروف ہے جس کا نفع و فائدہ عامل و اجیر کو ہوتا ہے۔
..............
(١) سورہ توبہ،آیت٣٣۔
(٢) سورہ نسائ،آیت٦٩ ،٧٠۔
ان آیات میں اس نوعیت کے اجر کی اللہ کے رسول کے لئے نفی کردی گئی ہے اللہ کا ارشاد ہے۔
(قُلْ لاََسَْلُکُمْ عَلَیْہِ َجْرًا ِنْ ہُوَا ِلاَّ ذِکْرَی لِلْعَالَمِینَ) (١)
''اے پیغمبرۖ! کہہ دیجئے کہ میں قرآن سنانے پر تم سے اجرت (مزدوری) نہیں مانگتا ،قرآن تو کچھ نہیں سارے جہان کے لئے نصیحت ہے۔''
مزیدبر آں اس اجر کی وضاحت و تفسیر کرتے ہوئے اللہ نے فرمایا جس کی وضاحت کیلئے رسول اللہ نے اللہ سے کوئی استفسار نہیں کیا:
(َمْ تَسَْلُہُمْ َجْرًا فَہُمْ مِنْ مَغْرَمٍ مُثْقَلُونَ) (٢)
'' تو ان سے مزدوری مانگتا ہے پھر یہ اس تاوان کے بوجھ سے دبے جاتے ہیں۔''

٤_ آیات تبلیغ
ارشاد خداوندی ہے :
(یَاَیُّہَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا ُنزِلَا ِلَیکَ مِنْ رَبِّکَ ......) (٣)
''اے رسول وہ تمام باتیں لوگوں کو پہنچا دیجئے جو آپ پر آپ کے رب کی طرف سے نازل کی گئی ہیں۔''
..............
(١) سورہ انعام،آیت٩٠۔
(٢) سورہ طور،آیت٤٠۔
(٣) سورہ مائدہ ،آیت٦٧۔
اس آیت میں اللہ نے اپنے رسول کو یہ حکم دیا ہے کہ وہ لوگوں کو ہر بات بتا دیں کہ حضرت

علی ان کے بعد امت مسلمہ کے ولی و قائد ہوں گے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کا تعلق امامت و قیادت کے مسئلے سے ہے۔ اس لئے کہ یہ آیت رسول اللہ کی زندگی کے آخری ایام میں حجة الوداع کے موقع پر نازل ہوئی جبکہ تمام دینی و شرعی امور کی تبلیغ مکمل ہوچکی تھی امامت کے سوائے، شریعت کے واجبات و احکام میں سے کوئی چیز ایسی باقی نہیں رہ گئی تھی جس کو رسول اللہ نے بیان نہ کردیا ہو۔ امامت کا ذکر اس سے پہلے خاص خاص موقعوں پر آیا تھا اور عام مسلمانوں کو اس کا علم نہیں تھا۔ لہٰذا اسی بات کو برملا بتانے کیلئے یہ آیت نازل ہوئی اور اس آیت میں یہ تاکید بھی موجود ہے کہ رسالت بغیر امامت کی تبلیغ کے نامکمل ہے۔اس لئے کہ امامت کے ذریعے ہی رسالت کے اہداف و مقاصد کی تکمیل ہوسکتی ہے۔ جس کا سب سے اہم ترین مقصد پوری دنیا میں عدل و انصاف کا قیام ہے۔
علامہ الامینی نے اپنی تصنیف ''کتاب الغدیر'' کے حصہ اول ص٢١٤ میں صحیح روایت سے یہ بات نقل کی ہے کہ یہ آیت علی کے بارے میں نازل ہوئی۔اس بات کو سیوطی نے در منثور (١) وغیرہ نے اپنی اپنی کتابوں میں ابن مسعود کی سند سے نقل کیا ہے ،ابن مسعود نے کہا کہ ہم لوگ رسول کریمۖ کے سامنے اس آیت کی تلاوت اس طرح کرتے تھے ((یَاَیُّہَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا ُنزِلَا ِلَیکَ مِنْ رَبِّکَ اَنَّ عَلِیّاً مَوْلیٰ اَمِیْرَ اَلْمُؤمِنِیْنِ))کہ علی مسلمانوں کے ولی اورامیر ہیں، ((واَنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَہُ وَ اﷲُ یَعْصِمُکَ مِنْ النَّاسِ)) حافظ ابو جعفر محمد بن جریر طبری نے کتاب الولایہ میں زید ابن ارقم کی سند سے نقل کیا ہے کہ زید بن ارقم نے کہا ''رسول اللہ حجة الوداع کے موقع پر غدیر خم میں تشریف فرماتے تھے، دوپہر کا وقت تھا شدید گرمی تھی ،انہوں نے سایہ دار

درخت کے پاس جانے کا حکم دی اور ''الصلا ة جامعة'' کی آواز لگا کر لوگوں کو بلایا ،ہم لوگ جمع ہوئے اور انہوں نے ہمارے سامنے نہایت بلیغ انداز میں یہ خطبہ دیا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھ پر یہ آیت نازل کی ہے۔
(یَا َیُّہَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا ُنزِلَا ِلَیکَ مِنْ رَبِّکَ وَ ِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَہُ وَاﷲُ یَعْصِمُکَ مِنْ النَّاسِ)
'' جو کچھ تمہارے رب نے نازل کیا ہے اس کو پہنچادو۔ اور اگر آپ نے یہ بات نہیں پہنچائی تو گویارسالت کی تبلیغ نہیں ہوئی۔''
..............
(١) الدر المنثور ج٢ ص٣٩٨۔
اور جبرئیل نے میرے رب کی طرف سے مجھے یہ حکم دیا ہے کہ میں اس مقام پر کھڑے ہو کر سیاہ و سفید انسان کو یہ بتادوں کہ علی بن ابی طالب میرے بھائی جانشین ، وارث اور میرے بعد مسلمانوں کے امام ہیں۔ مزید فرمایااے لوگو !اﷲ نے اس کو تمہارے لئے ولی اور امام مقرر کیا ہے اور اس کی اطاعت کو تم میں سے ہر ایک پر واجب کر دیا ہے اس کا فیصلہ قابل نفاذ اور اس کی بات معقول و مناسب ہے۔جو اس کی مخالفت کرے وہ ملعون ہے اور جو اس کی تصدیق کرے وہ رحم کا سزاوار ہے،سنو اور اطاعت کرو،بے شک خدا تعالیٰ تمہارا آقا ہے اور علی تمہارے امام ہیں،منصب امامت میری اولاد میں اسی کی نسل سے تا قیامت جاری رہے گا،جس چیز کو اﷲ اور رسول نے حلال کردیا وہ حلال ہے اور جسے حرام کر دیا وہ حرام ہے۔پھر فرمایا:قرآن کی واضح آیات کو سمجھو اور اس کے متشابہات کے پیچھے نہ پڑو،ا ن آیات(متشابہات) کی تفسیر و وضاحت تمہارے لئے صرف وہی کر سکتا ہے جس کا میں ہاتھ پکڑ لوں اور اس کے بازو کو بلند کروں۔
میں تمہارے سامنے اعلان کرتا ہوں کہ بیشک جس کا میں آقا ہوں علی بھی اس کے آقا ہیں اور ان کی یہ ولایت جو مجھ پر نازل کی گئی ہے منجانب اﷲ ہے،گواہ رہو! میں نے اپنی ذمہ داری ادا کردی، گواہ رہو! میں نے اپنا پیغام پہنچا دیا۔سنو! میں نے بتا دیا اور ہر چیز کی وضاحت کردی، سوائے اس (حضرت علی) کے مسلمانوں پر کسی کی امامت جائز نہیں۔
پھر انہوں نے ان کو آسمان کی طرف اٹھایا،یہاں تک کہ ان کا پیر رسول کے گھٹنے سے ملا ہوا تھا اور فرمایا:
''لوگویہ میرا بھائی،میرا وارث اور میرے علم کا محافظ ہے اور ان لوگوں کا خلیفہ ہے جو میرے اوپر اور میرے رب کی کتاب کی تفسیر یعنی حدیث پر ایمان رکھتے ہیں۔'' (١)
..............
(١) کتاب الغدیر ج١ ص٢١٤ تا ٢١٦۔
ابو اسحاق ثعلبی نے اپنی کتاب تفسیر کبیر میں سورة المعارج کی تفسیر کرتے ہوئے اس کی اس طرح تخریج کی ہے کہ رسول کریم نے غدیر خم کے دن لوگوں کو پکارا تو لوگ جمع ہوئے، انہوں نے علی کا ہاتھ پکڑا اور کہا میں جس کا مولیٰ ہوں علی بھی اس کے مولیٰ ہیں،تو یہ بات پورے ملک میں مشہور ہوگئی،اور جب حارث بن نعمان فہری کو اس کا پتہ چلا تو اپنے اونٹ پر سوار ہو کر آئے، اور نیچے اتر کر کہا اے محمدۖ! آپ نے ہم کو یہ حکم دیا کہ ہم صرف اﷲ کو معبود مانیں اور آپ کو اس کا رسول،تو ہم نے یہ بات مان لی۔آپ نے ہمیں نماز پنجگانہ،زکوٰة دینے اور رمضان کے روزہ رکھنے کا حکم دیا،ہم نے وہ بھی قبول کر لیا اور آپ نے حج کرنے کا حکم دیا اسے بھی تسلیم کرلیا۔ پھرآپ اتنی باتوں سے راضی نہیں ہوئے،یہاں تک کہ اپنے چچا زادبھائی کو ہمارے اوپر فضیلت دے ڈالی،اور کہہ دیا کہ جس کے مولیٰ و آقا آپ ہیں علی بھی اس کے مولیٰ ہیں۔کیا یہ چیز اﷲ کی طرف سے ہے یا آپ کی طرف سے ۔اﷲ کے رسول نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے سوا

کوئی معبود نہیں بے شک یہ حکم اس کی طرف سے ہے۔پھر حارث اپنی سواری کا ارادہ کرتے ہوئے مڑا اور کہہ رہا تھا کہ اے اﷲ جو کچھ محمد کہہ رہے ہیں اگر سچ ہے تو ہمارے اوپر آسمان سے پتھروں کی بارش کر دے یا سخت عذاب میں مبتلا کر دے۔ابھی وہ اپنی سواری تک پہنچا بھی نہیں تھا کہ اﷲ نے اس پر ایک پتھر مارا جو اس کے سر پر لگا اور اس کی سرین سے نکل گیا اور وہ اس سے ہلاک ہوگیا۔
اس پر اﷲ نے یہ آیت نازل فرمائی
(سََلَ سَائِل بِعَذَابٍ وَاقِعٍ ں لِلْکَافِرینَ لَیْسَ لَہُ دَافِع)
''ایک مانگنے والے نے(جلدی کر کے)وہ عذاب مانگا جو(بلند) درجے والے اﷲ کی طرف سے کافروں کو(ضرور) ہونے والا ہے کوئی اس کو روک نہیں سکتا۔'' (١)
..............
(١) سورہ معارج،آیت١،٢۔
علامہ شبلنجی کی نور البصائرص٧١۔ سیرت حلبیہج٣ص٢٧٤۔