|
١_ آیت ولایت
خدا تعالیٰ فرماتا ہے :
(اِنَّمَا وَلِیُّکُمْ اﷲُ وَرَسُولُہُ وَالَّذِینَ آمَنُوا الَّذِینَ یُقِیمُونَ الصَّلاَةَ وَیُؤْتُونَ الزَّکَاةَ وَہُمْ رَاکِعُونَ) (١)
'' تمہارے دوست تو اللہ اور اس کا رسول اور ایمان والے ہیں جو درستی سے نماز ادا کرتے ہیں اور زکوٰة دیتے ہیں اور جھکے رہتے ہیں۔''
..............
(١) سورہ مائدہ،آیت ٥٥۔
امام ثعلبی نے اس آیت کی تفسیر میں ابوذر غفاری کی سند سے ایک روایت نقل کی ہے، ابوذر غفاری نے کہا: ایک روز میں نے رسول اللہۖ کے ساتھ ظہر کی نماز پڑھی ،وہاں مسجد میں ایک فقیر نے دست سوال دراز کیا، لیکن کسی نے اس کو کچھ نہیں دیا۔ چنانچہ اس نے اپنے ہاتھ آسمان کی طرف اٹھائے اور کہا: اے اللہ تو گواہ رہنا میں نے نبیۖکی مسجد میں دست سوال دراز کیا اور مجھے کسی نے کچھ نہیں دیا، حضرت علی اس وقت نماز میں مشغول تھے اور رکوع کی حالت میں تھے، انہوں نے اپنے دائیں ہاتھ کی چھوٹی انگلی سے اس کی طرف بڑھا دی ،جس میں انگوٹھی تھی، سائل نے آگے بڑھ کر وہ انگوٹھی انگلی سے نکال لی، یہ سب کچھ رسول اللہۖ کی نظروں کے سامنے
ہورہا تھا، کیوں کہ اس وقت آپۖ بھی مسجد میں موجود تھے ،پھر رسول اللہ نے اپنی نگاہ آسمان کی طرف اٹھائی اور کہا: اے اللہ میرے بھائی موسیٰ نے تجھ سے سوال کر کے کہا تھا:
(قَالَ رَبِّ اشْرَحْ لِی صَدْرِی ں وَیَسِّرْ لِیامرِی ں وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِنْ لِسَانِی ں یَفْقَہُوا قَوْلِی ں وَاجْعَلْ لِی وَزِیرًا مِنْ َہْلِی ں ہَارُونَ َخِی ں اشْدُدْ بِہِ َزْرِی)
''عرض کیا خداوندا (میں ماننے کو تیار ہوں)میرا سینہ کھول دے اور میرا کام (پیغمبری کا حق ادا کرنا) مجھ پر آسان کردے۔ میری زبان میں جو گرہ ہے وہ کھول دے (تاکہ) وہ میری بات سمجھیں اور میرے گھر میں سے ایک کو میرا وزیر بنادے ہارون کو جو میرا بھائی ہے اس سے مریی پیٹھ مضبوط کردے۔''
تو توُ نے اس پر یہ نازل کیا:
((سنشدعضدک بأخیک و نجعل لکما سلطاناً فلا یصلون الیکما))
اے اللہ میں محمد، آپ کا نبی اور صفی(خالص دوست) ہوں، میرا سینہ کھول دے اور میرے لئے میرا کام آسان کردے اور میرے اہل خاندان میں سے علی کو میرا وزیر بنادے اور اس کے ذریعے سے میری پیٹھ مضبوط کردے ،ابو ذر نے کہا کہ ابھی ان کی دعا پوری بھی نہیں ہوئی تھی کہ حضرت جبرئیل اللہ کے پاس سے آئے اور کہا اے محمد پڑھئے (اِنَّمَا وَلِیُّکُمْ اﷲُ وَ رَسُولُہُ وَالَّذِینَ آمَنُوا الَّذِینَ یُقِیمُونَ الصَّلاَةَ وَ یُؤْتُونَ الزَّکَاةَ وَہُمْ رَاکِعُونَ) (١)اس بات پر اکثر مفسرین کا اتفاق ہے کہ یہ آیت حضرت علی کے بارے میں نازل ہوئی جس میں مطلق کوئی پوشیدگی نہیں ہے۔اس آیت کے معنی امامت کے سلسلے میں واضح اور صریح ہیں،اس آیت کے مفہوم سے ولایت و سلطنت کے علاوہ دیگر تمام معانی کا احتمال ختم ہوجاتا ہے ،اور ولایت کے اس معنی کو اﷲ اس کے رسول اور حضرت علی کے ساتھ مختص تصور کیا جا سکتا ہے۔
..............
(١) کتاب الغدیر ج٢ ص٥٢ ، ٥٣۔
٢_ آیت تطہیر
اس آیت میں امامت اہل بیت کی صراحت موجود ہے۔آیت کے نزول کے وقت جو لوگ زندہ موجود تھے وہ حضرت علی، حسن اور حسینتھے۔اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے:
(اِنَّمَا یُرِیدُ اﷲُ لِیُذْہِبَ عاَنْکُمْ الرِّجْسَ اَہْلَ الْبَیْتِ وَیُطَہِّرَکُمْ تَطْہِیرًا) (١)
''(پیغمبر کے) گھر والو!اﷲ تعالیٰ صرف یہ چاہتا ہے کہ تم سے (ہر طرح کی) گندگی (ناپاکی) دور کرے اور تم کو خوب ستھرا و پاک صاف بنادے۔''
یہ آیت اس بات کی دلیل ہے کہ اہل بیت سے ہر طرح کی نجاست و گندگی اور ناپاکی دور کر دی گئی۔''رجس'' کے معنی گندگی اور گناہ کے ہیں خواہ گناہ کبیرہ ہو یا صغیرہ۔ایسی گندگی و ناپاکی جس سے بچنا ضروری ہو اسے لغت میں''رجس'' کہتے ہیں۔ابن منظور نے کہا کہ رجس گندگی کو کہتے ہیںاور قرآن میں جس گندگی کے معنی میں وارد ہوا ہے۔جیسا کہ اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
(اِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَیْسِرُ وَالَْنصَابُ وَالَْزْلاَمُ رِجْس مِنْ عَمَلِ الشَّیْطَانِ فَاجْتَنِبُوہُ)(٢)
''شراب، قمار بازی، بت اور ازلام(ایک قسم کی لاٹری) پلید ہیں یہ شیطانی کام ہیں اس لئے اس سے بچتے رہو۔''
..............
(١) سورہ احزاب،آیت٣٣۔
(٢) سورہ مائدہ،آیت٩٠۔
دوسری جگہ مذکور ہے:
(وََمَّا الَّذِینَ فِی قُلُوبِہِمْ مَرَض فَزَادَتْہُمْ رِجْسًا ِلَی رِجْسِہِمْ) (١)
''جن لوگوں کے دل میں (نفاق و کفر) کی بیماری ہے ان کی گندگی پر اور گندگی بڑھا دی گئی۔''
ایک اور جگہ خدا تعالیٰ کا فرمان ہے۔
(ِلاَّ اَنْ یَکُونَ مَیْتَةً َوْ دَمًا مَسْفُوحًا َوْ لَحْمَ خِنزِیرٍ فَِنَّہُ رِجْس) (٢)
''مگر یہ کہ مردار یا بہتا خون یا سور کا گوشت وہ نجس ہے۔''
..............
(١) سورہ توبہ،آیت١٢٥۔
(٢) سورہ انعام،آیت١٤٥۔
اس بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ''رجس'' کا اصل معنی معصیت سے بچنا ہے خواہ وہ چھوٹی ہو یا بڑی اور یہیں سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اہل بیت کو ان تمام صغیرہ و کبیرہ گناہوں سے پاک کر دیا گیا ہے۔
اس بات پر تقریباً پوری امت اسلامیہ کا اتفاق ہے اور متواتر صحیح حدیثوں سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیت رسول اﷲۖ، فاطمہ،علی،حسن اور حسین کے بارے میں نازل ہوئی،مسلم اور ترمذی نے بھی اہل بیت نبی کے فضائل کے باب میں ذکر کیاہے کہ اس کا تعلق اہل بیت سے ہے نہ کہ ازواج نبی ۖ سے،جیسا کہ ام سلمہ سے منقول ایک صحیح متواتر حدیث میں آیا ہے کہ یہ آیت (اِنَّمَا یُرِیدُ اﷲُ لِیُذْہِبَ عاَنْکُمْ الرِّجْسَ اَہْلَ الْبَیْتِ وَیُطَہِّرَکُمْ تَطْہِیرًا) میرے گھر میں نازل ہوئی اور اس وقت گھر میں یہ سات افراد، جبرائیل،میکائیل،محمد،علی،فاطمہ،حسن اور حسین موجود تھے اور میں گھر کے دروازہ پر تھی،تو میں نے عرض کی،یا رسول اﷲ! کیا میں اہل بیت
میں سے نہیں ہوں۔ آپۖ نے فرمایا:تم میرے نزدیک سب سے اچھی اور نیک ہو اور تم نبی کی بیویوں میں سے ہو۔
اس آیت سے امامت اہل بیت پر دلالت اس طرح قائم ہوتی ہے کہ قرآن کی ایک دوسری آیت(لاَ یَنَالُ عَہْدِی الظَّالِمِینَ) میں امام کیلئے عصمت کی شرط لگائی گئی ہے اور عصمت کو اﷲ کے ذریعہ جانا اور سمجھا جا سکتا ہے۔چنانچہ یہ آیت اہل بیت کی عصمت پر دلالت کرتی ہے تو اس طرح وہ ان کی امامت کیلئے بھی دلیل بن جاتی ہے۔یہ تفصیلات اور دلائل اس کے علاوہ ہیں جو ہم اس سے قبل آیت(َطِیعُوااﷲَ وََطِیعُواالرَّسُولَ وَُوْلِی الَْمْرِ مِنْکُمْ) (١)کے ذیل میں بیان کر چکے ہیں۔
اس آیت میںاطاعت رسول اور اطاعت اولوالامر کو بیان کرنے کیلئے امر کا ایک ہی صیغہ مذکور ہے اور اﷲ کی اطاعت کیلئے امر کا دوسرا صیغہ استعمال کیا گیا،کیونکہ اس کی اطاعت کو مستقل امر کا درجہ حاصل ہے اوراطاعت رسول اور اولوالامر کی اطاعت کیلئے ایک ہی صیغہ لا کر بتانا مقصود ہے کہ رسول اور اولوالامر کی اطاعت نفس وجوب میں یکساں ہے اور رسول اﷲ کی اطاعت مطلقاً واجب ہے جس کی کوئی حد نہیں۔جیسا کہ قرآن کی اس آیت سے مترشح ہے۔
(وَمَا آتَاکُمْ الرَّسُولُ فَخُذُوہُ وَمَا نَہَاکُمْ عاَنْہُ فَانْتَہُوا) (٢)
''مسلمانوں! جو بات (یا حکم) پیغمبرۖ تم کو دیں تو لے لو اور جس سے منع کریں اس سے باز رہو۔''
..............
(١) سورہ نسائ،آیت٥٩۔
(٢) سورہ حشر،آیت١٧۔
(فَلْیَحْذَرْ الَّذِینَ یُخَالِفُونَ عاَنْامرِہِ اَنْ تُصِیبَہُمْ فِتْنَة َوْ یُصِیبَہُمْ عَذَاب َلِیم)(١)
''پھر جو لوگ پیغمبر کا حکم نہیں مانتے ان کو ڈرنا چاہیے (دنیا میں) ان پر کوئی مصیبت نہ آن پڑے یا(آخرت میں) کوئی تکلیف کا عذاب ان کو نہ پہنچے۔''
(منْ یُطِعْ الرَّسُولَ فَقَدْ َطَاعَ اﷲَ) (٢)
''جو رسول کا کہا مانے اس نے اللہ کا کہا مانا۔ ''
اس طرح کی دوسری آیات بھی ہیں جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ رسول کی ہر بات وحی کے ہی حکم میں ہوتی ہے جس کو بجالانا تمام مومنین کیلئے ضروری ہے۔ جیسا کہ اللہ کا ارشاد ہے :
(وَمَا یاَنْطِقُ عاَنْ الْہَوَی ں ِنْ ہُوَا ِلاَّ وَحْی یُوحَی) (٣)
'' اور(رسولۖ) جو کچھ بھی بات کہتا ہے اپنی خواہش سے نہیں کہتا بلکہ وہ وحی ہوتی ہے جو اس پر بھیجی جاتی ہے۔''
..............
(١) سورہ نور،آیت٦٣۔
(٢) سورہ نسائ،آیت٨٠۔
(٣) سورہ نجم ،آیت٣،٤۔
اس آیت سے یہ علم حاصل ہوا کہ ہر چھوٹے بڑے امر میں رسول کی اطاعت واجب ہے اور اس طرح کا وجوب محض گناہ سے منزہ (پاک) شخص کے لئے ہی ہوسکتا ہے ۔اس وجوب کی روشنی میں اللہ تعالیٰ کا فرمان (َطِیعُوا الرَّسُولَ وَُوْلِی الَْمْرِ مِنْکُمْ)اولوالامر کے معصوم ہونے اور انہیں ہر طرح کے گناہ و گندگی و ناپاکی سے پاک کردیئے جانے پر دلالت کرتا ہے ۔جس کا صاف طور سے یہ مطلب نکلتا ہے کہ اولو الامر سے مراد اہل بیت رسول ہیں۔ کیوں کہ آیت تطہیر ان ہی لوگوں کی عصمت و ناپاکی و گندگی سے پاک ہونے کی دلیل ہے۔ لہٰذا ان کی اطاعت
واجب اور ان کی مخالفت ممنوع۔
|
|