٤_ (ِانَّ اﷲَ اصْطَفَی آدَمَ وَ نُوحًا وَآلَا ِبْرَاہِیمَ وَ آلَ عِمْرَانَ عَلَی الْعَالَمِینَ ذُرِّیَّةً بَعْضُہَا مِنْ بَعْضٍ وَاﷲُ سَمِیع عَلِیم) (٢)
''بے شک اللہ نے سارے جہان کے لوگوں میں آدم اور نوح کو اور ابراہیم اور عمران کی اولاد کو چن لیا ہے ایک خاندان دوسرے خاندان کی نسل لے اور اللہ سنتا جانتا ہے۔''
..............
(٢) سورہ آل عمران،آیت٣٣،٣٤۔
اس آیت میں اصطفائے الٰہی کی دو قسمیں بیان کی گئی ہیں:
اول_ اصطفائے فردی:
اس سے مراد حضرت آدم اور نوح کا انتخاب ہے ۔
دوم_ اصطفائے عائلی اور خاندانی :
یعنی پورے کنبہ اور خاندان کا انتخاب، اس کے مصداق آل ابراہیم اور آل عمران ہیں اس آیت میں خاص کا عام پر عطف ہے، جس سے اس بات کی وضاحت کردی گئی کہ آل عمران ابراہیم کی نسل سے ہیں انتخاب خاندانی بھی دو مرحلوں میں منقسم ہے۔
١_ ابراہیم کی اولاد کا انتخاب۔
٢_ ابراہیم کی تمام اولاد میں سے عمران کی اولاد کا انتخاب ۔
اگلی آیت کا تعلق آل عمران کے انتخاب سے ہے:
اگلی آیت کا تعلق آل عمران کے انتخاب سے ہے،ارشاد خداوندی ہے:
(ِاِذْ قَالَتْ امْرََةُ عِمْرَانَ رَبِّ اِِنِّی نَذَرْتُ لَکَ مَا فِی بَطْنِی مُحَرَّرًا فَتَقَبَّلْ ماِِنِّی انَّکَ اَنْتَ السَّمِیعُ الْعَلِیمُ)
''(اے پیغمبر وہ وقت یاد کرو )جب عمران کی بیوی (حسنہ بنت فاقوذام) نے پروردگار سے عرض کیا میرے مالک جو بچہ میرے پیٹ میں ہے میں نے اس کو آزاد کر کے تیرے لئے نذر کردیا، اب میری یہ نذر قبول کر، بے شک تو سنتا جانتا ہے۔''
دوسری آیت :
(اِذْ قَالَتْ الْمَلاَئِکَةُ یَامَرْیَمُ انَّ اﷲَ یُبَشِّرُکِ بِکَلِمَةٍ مِنْہُ اسْمُہُ الْمَسِیحُ عِیسَی ابْنُ مَرْیَمَ وَجِیہًا فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَةِ وَمِنْ الْمُقَرَّبِینَ) (١)
''جب فرشتوں نے کہا اے مریم اللہ تجھ کو اپنے ایک کلمہ کی خوشخبری دیتا ہے اس کا نام مسیح عیسی ابن مریم ہوگا دنیا و آخرت میں بڑے مرتبے والا اور مقرب بندوں میں سے ہے۔ ''
..............
(١) سورہ آل عمران،آیت ٣٥ تا ٤٥۔
مذکورہ بالا اس آیتوں سے عمران کی اولاد کے انتخاب کی تائید ہوتی ہے۔
ان آیتوں سے ہمیں یہ بھی معلوم ہوا کہ ایک انتخاب کا تحقق دوسرے کے ضمن میں ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر بعض آل ابراہیم یعنی آل عمران کا انتخاب تمام آل ابراہیم سے ہے جب ان آیتوں کو اس آیت سے ملا کر دیکھا جائے جس میں حضرت ابراہیم نے اپنی ذریت میں امامت کو جاری کرنے کی دعا کی تھی تو یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ اللہ حضرت ابراہیم کی دعا قبول کر لی مگر اسے صلاحیت ولیاقت سے مشروط کردیا گیا۔
یہ بات بھی پیش نظررہنی چاہیے کہ منصب امامت انہیں نسل یا خاندان کی ہی بنیاد پر نہیں عطا کی گئی ہے بلکہ ان کے اندر وہ تمام تر صفات اور قابلیتیں بدرجہ اتم موجود تھیں جو اصطفائے الٰہی کیلئے مطلوب اور ضروری ہیں۔ حضرت ابراہیم کی اولاد میں سے غیر ظالمین، اہل عدل و انصاف اور معصوم لوگوں کو اصطفاء کی تمام تر صلاحیت اور لیاقت کے حامل ہونے کی بنا پر ہی اس عہد الٰہی سے سرفراز کیا جائے گا، آل عمران میں بھی چوں کہ یہ تمام خوبیاں بدرجہ اتم موجود تھیں اسی لئے ان کو اس عہد الٰہی کا مستحق قرار دیا گیا ،اسی طرح محمدۖکی اولاد کو بھی اس اصطفاء خاص کی قابلیت کی بنیاد پر منصب عطا کیا گیا۔ ارشادخداوندی ہے۔
(اِنَّمَا یُرِیدُ اﷲُ لِیُذْہِبَ عنْکُمْ الرِّجْسَ اَہْلَ الْبَیْتِ وَیُطَہِّرَکُمْ تَطْہِیرًا) (١)
''(پیغمبرکے) گھر والو اللہ تعالیٰ تو یہ چاہتا ہے کہ تم سے (ہر طرح) کی گندگی (ناپاکی) دور کرے اور تم کو خوب صاف ستھرا پاک صاف بنادے۔''
انتخاب خاندانی کی بنیاد بھی یہی صلاحیت و استعداد ہے نہ کہ محض نسبی تعلق، قرآن کی یہ آیت اسی کی تائید کرتی ہے (ذُرِّیَّةً بَعْضُہَا مِنْ بَعْضٍ)اس آیت میں بعضیت کا تعلق نسب سے نہیں ہے بلکہ رسالت سے ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ ان لوگوں کو اس منصب کیلئے منتخب کیا جائے گا جو اعلیٰ صلاحیتوں و قابلیت کے مالک ہوں جس کے حامل اس خاندان کے مورث و پیشوا تھے۔ اگلی آیت سے بھی اس بات کی تصدیق ہوجاتی ہے کہ اس بعضیت کا تعلق رسالت سے ہے نہ کہ نسب سے۔ اللہ نے نوح سے فرمایا: جب انہوں نے خدائے تعالیٰ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا۔
(وَنَادَی نُوح رَبَّہُ فَقَالَ رَبِّ انَّ ابْنِی مِنْ اَہْلِی وَِانَّ وَعْدَکَ الْاحَقُّ وَاَنْتَ ا َحْکَمُ الْحَاکِمِینَ) (٢)
''اور نوح نے اپنے رب کو پکارا اور کہا مالک (آخر) میرا بیٹا میرے گھر ہی والوں میں سے ہے اور تیرا وعدہ سچا ہے اور تو سب حاکموں میں سے بڑا حاکم ہے۔''
..............
(١) سورہ احزاب،آیت٣٣۔
(٢) سورہ ھود،آیت٤٥۔
اس آیت کا مفہوم یہ ہے کہ جس فرد کا تعلق خاندان نبوی کے پیشوا سے روحانی ہوگا صرف وہی ولایت کا اہل ہوگا یہ ضروری نہیں کہ ہر شخص جس کا نسلی تعلق نبی سے ہو وہ قیادت کا اہل بھی ہوگا۔حقیقت یہ ہے کہ نبی کی جس اولاد کو اس کیلئے منتخب کیا جاتا ہے وہ اس نبی کی شخصیت کا عکس
اور پرتو ہوتا ہے۔ جس کی پوری شخصیت اطاعت خداوندی کے قالب میں ڈھل جاتی ہے۔ قرآن میں اس کیفیت کو لفظ ''اسلام'' سے تعبیر کیا گیا ہے یعنی خدا کے آگے خود کو پوری طرح خاضع کرنا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کی نظر میں اسلام ایک عہد و اقرار تھا جس کو ابراہیم کی اولاد نسلاً بعد نسل ایک دوسرے کو منتقل کرتی رہی۔قرآن کہتا ہے:
(وَمنْ یَرْغَبُ عنْ مِلَّةِا ِبْرَاہِیمَا ِلاَّ منْ سَفِہَ نَفْسَہُ وَلَقَدْاصْطَفَیْنَاہُ فِی الدُّنْیَا وَانَّہُ فِی الْآخِرَةِ لَمِنْ الصَّالِحِینَ ں اِذْ قَالَ لَہُ رَبُّہُ ا َسْلِمْ قَالَ َسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعَالَمِینَ ں وَ وَصَّی بِہَا بْرَاہِیمُ بَنِیہِ وَیَعْقُوبُ یَابَنِیَّاانَّ اﷲَ اصْطَفَی لَکُمْ الدِّینَ فَلاَ تَمُوتُنَّا ِلاَّ وَ اَنْتُمْ مُسْلِمُونَ ںام کُنتُمْ شُہَدَائَ ِذْ حَضَرَ یَعْقُوبَ الْمَوْتُ اِذْ قَالَ لِبَنِیہِ مَا تَعْبُدُونَ مِنْ بَعْدِی قَالُوا نَعْبُدُ ِلَہَکَ وَ ِلَہَ آبَائِکَا ِبْرَاہِیمَ وَِسْمَاعِیلَ وَِسْحَاقَ ِلَہًا وَاحِدًا وَنَحْنُ لَہُ مُسْلِمُونَ) (١)
''اور ابراہیم کے طریقے سے وہی نفرت کرے گا جو احمق ہوگا اور ہم نے اس کو دنیا میں چن لیا (اس کو پیغمبری عنایت کی)اور آخرت میں وہ نیک ہے، جب پروردگار نے اس سے فرمایا اسلام پر مضبوط ہوجائو تو کہنے لگا اللہ کا تابعدار بن گیا جو سارے جہاں کا مالک ہے اور ابراہیم نے اپنے بیٹوں(اسماعیل و اسحق) کو اور یعقوب نے بھی (اپنے بارہ بیٹوں کو) اسی دین کی وصیت کی، بیٹا اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے یہ دین(یعنی اسلام) پسند کیا ہے تو (مرتے وقت) مسلمان ہی مرنا، بھلا یہودیوں کیا تم اس وقت موجود تھے جب یعقوب مرنے لگے جب انہوں نے اپنے بیٹوں سے کہا تم میرے بعد کس کی عبادت کرو گے ؟ انہوں
نے کہا ہم تیرے اور تیرے باپ دادائوں ،ابراہیم اور اسماعیل اور اسحاق کے خدا کی عبادت کریںگے۔ ایک ہی خدا ہے اور ہم اس کے فرمانبردار ہیں۔''
..............
(١) سورہ آل عمران،آیت ١٣٠ تا ١٣٣۔
مذکورہ بالا آیات سے ہمیں اس بات کا علم حاصل ہوتا ہے کہ امامت ربانی کا قیام انتخاب الٰہی پر موقوف ہے اور امامت و قیادت کا یہ سلسلہ مختلف زمانوں میں صرف حضرت ابراہیم کی نسل میں جاری رہا ہے۔جیسا کہ ارشاد خداوندی ہے (وَمِنْ ذُرِّیَّتِی قَالَ لاَ یَنَالُ عَہْدِی الظَّالِمِینَ) میرے نسل و خاندان سے (آئمہ قرار دے) خدا نے فرمایا میرا عہد (مقام امامت) ظالموں کو نہیں پہنچتا۔ اسی طرح دوسری جگہ (ِانَّ اﷲَ اصْطَفَی ..... وَآلَا ِبْرَاہِیمَ .....) دوسری آیت (وَآتَیْنَاہُمْ مُلْکًا عَظِیمًا)۔جن کی آخری کڑی حضرت محمدۖ کی اولاد ہیں۔اس سے متعلق مزید بحث ہم آئندہ کریں گے۔
٥_ قرآن میں ہے :
(َامْ یَحْسُدُونَ النَّاسَ عَلَی مَا آتَاہُمْ اﷲُ مِنْ فَضْلِہِ فَقَدْ آتَیْنَا آلَ ا ِبْرَاہِیمَ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَةَ وَآتَیْنَاہُمْ مُلْکًا عَظِیمًا) (١)
..............
(١) سورہ نسائ،آیت ٥٤۔
آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آل ابراہیم کو نبوت کے ساتھ ''ملک عظیم'' سے بھی نوازا تھا جس سے مراد حکومت و اقتدار ہے۔ یہاں اس آیت سے متعلق یہ سوال اٹھتا ہے کہ ''محسودین''سے کون لوگ مراد ہیں جس سے متعلق قرآن کہتا ہے کہ انھیں دوسروں کے معاملے میں اضافی فضیلت دی گئی ہے۔سیاق و سباق سے پتہ چلتا ہے کہ ''محسودین''سے مراد کچھ مخصوص مومنین ہیں جو زمانہ نبوت میں اللہ کے رسول کی معیت میں رہتے تھے اور جن کا تعلق ابراہیم کی
نسل سے ہے۔اس لئے کہ مفسرین نے اس ''فضل''کی تفسیر جسے اللہ نے ان مومنین ''محسودین'' کو عطا کیا ہے کتاب'حکمت اور ملک عظیم سے کی ہے ان تمام صفات سے اللہ نے اولاد ابراہیم کو سرفراز فرمایا ہے۔
اس آیت اور بعض دوسری آیتوں کے مفہوم سے پتہ چلتا ہیے کہ محسودین کے مصداق آل محمدۖ ہیں اور اصول کافی (١)میں جو روایت امام محمد بن علی باقر کی سند سے منقول ہے اس سے اس کی توثیق ہوجاتی کہ محسودین آل محمد کے آئمہ ہیں۔انھوں نے (َمْ لَہُمْ نَصِیب مِنْ الْمُلْکِ) میں''ملک''کی تفسیر امامت و خلافت سے کی ہے اور (َمْ یَحْسُدُونَ النَّاسَ عَلَی مَا آتَاہُمْ اﷲُ) کی تفسیر کرتے ہو ئے کہا کہ اس میں محسودین سے مراد ہم ہی لوگ ہیں جن کو اللہ نے امامت کے فضل سے نواز ہے نہ کہ دیگر لوگ۔
..............
(١) اصول کافی:باب ''آئمہ ٪والیان امر اور وہ محسود ہیں جن کا ذکر قرآن میں ہے ۔''ج١ص٣٩٥ ۔
مذکورہ آیت کے شان و نزول سے اس بات کا علم ہو تا ہے کہ اس وقت لوگوں کی ایک جما عت ایسی بھی تھی جو اس وقت محسودین کے مصداق مومنین یعنی آل محمد سے حسد اور بغض و عداوت رکھتی تھی جبکہ یہ لوگ پہلے ہی اس بات کا اقرار کرچکے تھے کہ اللہ نے اس فضل یعنی منصب امامت و نبوت کو حضرت ابراہیم کی ذریت و اولاد کے ساتھ مختص کردیا ہے اور آل محمد انہی کی نسل سے تعلق رکھتے ہیں تو انہیں اب کیا ہو گیا ہے کہ اس فضل کو (یعنی منصب امامت ،نبوت)کو آل محمدۖکے لئے ماننے سے انکار کرتے ہیں اور ان سے حسد بھی رکھتے ہیں۔
پھر یہ کہ قرآن کریم کی تصریحات سے یہ بات پورے طور پر عیاں ہو جاتی ہے کہ منصب
امامت و قیادت حضرت ابراہیم کی اولاد میں سے صرف بعض لوگوں کو ان کی ربانی قدرت و صلاحیت کی بنیاد پر دی گئی ہے جو اس منصب کے استحقاق کے لئے شرط تھی۔اسی طرح قرآن کی آیات سے معلوم ہو تا ہے کہ امامت کو ابراہیم کی بعض اولاد سے سلب کرکے ان کی دوسری اولاد کو دی جاسکتی ہے۔جب پہلی جماعت اس کا استحقاق کھودے۔قرآنی آیات میں عموم کے صیغے میں بعض اوقات اس کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جیسے(تُؤْتِی الْمُلْکَ منْ تَشَائُ وَتاَنْزِعُ الْمُلْکَ مِمنْ تَشَائُ)وہ جسے چاہتا ہے بادشاہ بنادیتا ہے اور جس سے چاہتا ہے اس سے بادشاہت چھین لیتا ہے۔
دوسری جگہ ارشاد باری ہے:
(ُوْلَئِکَ الَّذِینَ اَنْعَمَ اﷲُ عَلَیْہِمْ مِنْ النَّبِیِّینَ مِنْ ذُرِّیَّةِ آدَمَ وَمِمنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوحٍ وَ مِنْ ذُرِّیَّةِا ِبْرَاہِیمَ وَ ِسْرَائِیلَ وَ مِمنْ ہَدَیْنَا وَ اجْتَبَیْنَا ِذَا تُتْلَی عَلَیْہِمْ آیَاتُ الرَّحْمَانِ خَرُّوا سُجَّدًا وَ بُکِیًّا ں فَخَلَفَ مِنْ بَعْدِہِمْ خَلْف َضَاعُوا الصَّلَاةَ وَاتَّبَعُوا الشَّہَوَاتِ) (١)
'' یہ (پیغمبر) وہ لوگ ہیںجن پر اللہ تعالیٰ نے فضل کی آدم کی اولا دمیں سے اور ان لوگوں کی (اولاد) میں سے جن کو ہم نے نوح کے ساتھ کشتی میں چڑھا لیا تھا اور ابراہیم اور یعقوب کی اولاد میں سے اور یہ ان لوگوں میں سے ہیں جن کو ہم نے ہدایت کی (سچی راہ بتلائی) اور ان کو ساری خلقت میں سے پیغمبری کیلئے چن لیا جب ان لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی تھیں تو سجدے میں گرپڑتے اور روتے جاتے ، پھر ان کے بعد ایسے نالائق پیدا ہوئے جنہوں نے نماز کو گنوا دیا اور دنیا کے مزے میں لگ گئے۔''
..............
(١) سورہ مریم،آیت ٥٨،٥٩۔
ایک اورآیت میں کہا گیا
(فَبِمَا نَقْضِہِمْ مِیثَاقَہُمْ وَکُفْرِہِمْ بِآیَاتِ اﷲِ وَقَتْلِہِمْ الْاَنْبِیَائَ بِغَیْرِ حَقٍّ وَقَوْلِہِمْ قُلُوبُنَا غُلْف) (١)
''تو انہوں نے اپنا اقرار توڑا ،اور اللہ کی آیتوں کا انکار کیا اور پیغمبروں کو ناحق قتل کیا اور کہنے لگے ہمارے دل پر غلاف چرھے ہوئے ہیں حالانکہ اللہ نے کفر کی وجہ سے ان پر مہر لگادی ،وہ ایمان لائیں گے مگر تھوڑے۔ ''
..............
(١) سورہ نسائ،آیت ١٥٥۔
قرآن کی ان آیات میں اس بات پر روشنی ڈالی گئی ہے کہ وہ امامت و فضیلت جس سے اللہ نے حضرت ابراہیم کے بیٹوں اسحق و یعقوب کی ذریت کو سر فراز کیا تھا،جب ان ہی میں سے کچھ لوگوں نے ضلالت و گمراہی اور کفر و ظلم کا راستہ اختیار کیا تو اللہ نے ان سے یہ نعمت چھین لی۔ اور وہ لوگ نعمت الٰہی کے بجائے لعنت الٰہی کے مستحق ہوگئے، جس کو اللہ نے اپنے قول میں ذکر کیا ہے۔(فَبِمَا نَقْضِہِمْ مِیثَاقَہُمْ لَعنّاہُمْ)اور (ضُرِبَتْ عَلَیْہِمْ الذِّلَّةُ وَالْمَسْکَنَةُ وَبَائُوا بِغَضَبٍ مِنْ اﷲِ)
ان آیات سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ حضرت ابراہیم کے بیٹے اسحق ـ کی ذریت کو امامت سے محروم رکھا گیا اور ابراہیم کے دوسرے بیٹے اسماعیل کی طاہر و پاکباز معصوم و مطیع اولاد سے یعنی آل محمد ۖ میں امامت کا سلسلہ جاری رہا۔
ایک اور آیت میں فرمان باری ہے ۔
(ِانَّ َوْلَی النَّاسِ بِِبْرَاہِیمَ لَلَّذِینَ اتَّبَعُوہُ وَہَذَا النَّبِیُّ وَ الَّذِینَ آمَنُوا وَ اﷲُ وَلِیُّ الْمُؤْمِنِینَ) (١)
'' سب لوگوں میں ابراہیم سے زیادہ قریب وہ لوگ ہیں جنہوں نے ان کی پیروی کی اور وہ نبی اور ایمان لانے والے ہیں۔''
..............
(١) سورہ آل عمران،آیت ٦٨۔
اس آیت سے بھی یہی پتہ چلتا ہے کہ حضرت ابراہیم کی بعض ذریت کو امامت الٰہیہ کا مستحق محض ان کی ربانی لیاقت و صلاحیت کی بنیاد پر قرار دیا گیا، اور اس ربانی لیاقت و صلاحیت کے اعتبار سے حضرت ابراہیم سے قریب ترین اور ان کی شخصیت ربانی میں سب سے زیادہ مشابہ نبی اور ان پر ایمان لانے والے لوگ ہیں کیوں کہ قرآن میں (الذین امنوا) کا لفظ آیا ہے جس سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ ایمان والوں سے مراد وہ لوگ ہیں جو ایمان کے اعلیٰ درجہ پر فائز ہیں اس وجہ سے انہیںبقیہ تمام مسلمانوں کا امام بنا دیا گیا ۔اور اللہ نے ان مخصوص مومنین کو رسول کے بعد باقی دیگر تمام مسلمانوں اور ایمان والوں کی قیادت و امامت کے لئے منتخب کر لیا اور اپنی کتاب میں ان کے اوصاف و کمالات کو بیان کر کے اس کی وضاحت و تعین کردی چنانچہ اب ان کی حیثیت ایک مکمل رہنما ء قائد مطاع (وہ قائد جس کی مکمل اطاعت کی جائے)کی ہوگئی ،اس بات کو اللہ نے سورئہ مائدہ کی آیت نمبر ٥٥ (اِنَّمَا وَلِیُّکُمْ اﷲُ وَرَسُولُہُ.....) اور سورہ توبہ کی آیت نمبر ١٦ (َمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تُتْرَکُوا وَلَمَّا .....)میں بیان کیا ہے۔
تیسرا صیغہ: اس ضمن میں بعض ایسی آیتیں ہیں جن میں اشارہ و کنایہ کے اسلوب کے
ذریعے اس بات کی وضاحت کر دی گئی کہ منصب امامت کے اہل اور مستحق اہل بیت رسول٪ اس میں سب سے بڑی حکمت یہ تھی کہ اگر منصب امامت کے لئے کسی فرد معین کا نام صراحتاً ذکر
کر دیا جاتا تو اس بات کا امکان تھا کہ کوئی بادشاہت و سلطنت اور امامت کا خواہشمند اور حریص انسان قرآن میں تحریف کرنے کی ناکام کوشش کرتا جس سے قرآن کی حفاظت ممکن نہ ہوتی اور اس کی نقاہت مخدوش ہوجاتی، اس لئے حکمت الٰہیہ کا یہی تقاضا تھا کہ ایسا اسلوب اختیار کیا جائے جس سے قرآن کی حفاظت پر آنچ نہ آئے کیوں کہ اللہ نے بالذات قرآن کی حفاظت کا وعدہ کیا ہے اور اگر یہ اسلوب نہ اختیار کیا جاتا تو مسلمانوں میں انتشار و خلفشار پیدا ہوجاتا۔ کیوں کہ اس طرح کے واقعات خود رسول کریم کی ان احادیث کے ساتھ پیش آچکے ہیں جن میں یہ بات صراحتاً مذکور ہے کہ منصب امامت کے حق دار صرف اہل بیت ہیں، ان کے ناموں کی وضاحت بھی کر دی گئی تھی۔ جس کا نتیجہ یہ سامنے آیا کہ ان کے دشمنوں اور مخالفین کے اندر نا راضگی کی آگ بھڑک اٹھی اور انہوں نے ایسی حدیثوں کی کتابت سے انکار کردیا جیساکہ ابو دائو اور دارمی نے اپنی سنن اور احمد ابن حنبل نے اپنی مسند میں عبد اللہ بن عمر بن عاص سے ایک روایت نقل کی ہے کہ انہوں نے کہا : میں جوکچھ بھی اللہ کے رسول سے سنتا تھا لکھ لیا کرتا تھا تو قریش نے مجھے منع کیا اور کہا جو کچھ بھی تم اللہ کے رسول سے سنتے ہو لکھ لیتے ہو جبکہ رسول اللہ بھی ایک انسان ہیں کبھی ان پر غصہ کی حالت ہوتی ہے اور کبھی رضامندی اور خوشی کی تو میں لکھنے سے رک گیا۔ اس کے بعد میں نے اس بات کا تذکرہ رسول اللہ ۖکے سامنے کیا تو انہوں نے اپنی انگلی سے اپنے منہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: لکھ لو، خدا کی قسم جو کچھ بھی نکلتا ہے حق ہے (١) بخاری اور مسلم نے بھی ایک روایت نقل کی ہے جب نبی ۖ کی وفات کا وقت قریب آیا اس وقت گھر
..............
(١) سنن الدارمی ج١ ص١٢٥۔ باب من رخص فی الکتابہ من المقدمہ،
سنن ابی داود ج٢ ص١٢٦۔ باب کتابة العلم و مسند احمد ج٢ ص١٢٦۔
میں بشمول عمر بہت سے لوگ موجود تھے آپۖ نے فرمایا : لائوتمہارے لئے ایک تحریر لکھ دوں اس کے بعد تم لوگ ہرگز گمراہی کا شکار نہ ہوں گے۔ عمر نے کہا نبی ۖ پر درد و تکلیف کا غلبہ اور تمہارے پاس کتاب اللہ موجود ہے اور کتاب اللہ ہماری رہنمائی کیلئے کافی ہے ۔اس بات میں اہل بیت کے اندر بھی اختلاف پیدا ہوگیا چنانچہ بعض لوگ عمر کے مؤید ہوئے اور بعض لوگ مخالف۔ جب اختلاف زیادہ بڑھ گیا تو آپۖ نے فرمایا میرے پاس سے دور ہوجائو۔ میرے پاس جھگڑنا مناسب نہیں ہے۔(١) ذہبی نے تذکرة الحفاظ میں ایک روایت نقل کی ہے کہ نبی ۖ کی وفات کے بعد ابوبکر نے لوگوں کو جمع کیا کہ تم لوگ رسول اللہۖسے حدیثیں نقل کر رہے ہو اور اس میں اختلاف بھی کر رہے ہو ،لوگ تمہارے بعد زیادہ اختلاف میں پڑ جائیں گے تم رسول اللہۖسے کوئی بھی بات بیان مت کرو۔ جب کوئی تم سے سوال کرے تو کہو کہ ہمارے درمیان کتاب اللہ ہے۔ اس کی حلال کی ہوئی چیز کو حلال سمجھو اور حرام کی ہوئی چیز کو حرام،(٢)اسی طرح حضرت عمر اور عثمان نے بھی اپنے اپنے عہد خلافت میں کہا ۔(٣)اور جب بنو امیہ نے عہد خلافت سنبھالا تو بات صرف یہیں تک محدود نہیں رہی بلکہ رسول اللہ کی طرف موضوع احادیث کا چلن عام ہوگیا۔ بنو امیہ کے لوگوں نے اہل بیت کی دھڑ پکڑ کی اور ان کی اولادوں کو تہہ تیغ اور خانماں برباد کردیا ،کربلا کا واقد(طف)اس پر شاہد ہے جبکہ رسول اللہ کو دنیا سے رخصت ہوئے
..............
(١) البخاری،کتاب العلم ،ج١ ص٢٢۔ کتاب المرض ،باب قول المریض قوموا عنی
صحیح مسلم آخر کتاب الوصیة۔
(٢) تذکرة الحفاظ الذھبی فی ترجمہ ابی بکر،ج١ ص٢۔
(٣) ملاحظہ کریں کتاب معالم المد رستین ج٢ ص٥٠ ۔
ابھی نصف صدی بھی نہیں گزری تھی انہیں باتوںکے پیش نظر اللہ نے حکمت سے کام لیتے ہوئے وصف و اشارہ کے اسلوب کو اختیار کیا اور اہل بیت میں سے کسی کا نام صراحتاً ذکر نہیں کیا تاکہ قرآن کی حفاظت اللہ کے وعدے کے مطابق تا قیامت ہوتی رہے۔ ذیل میں قرآن کی بعض آیات پیش کی جارہی ہیں جن سے امامت کا ثبوت ملتا ہے۔
|