|
دوسرا صیغہ:
جس کے ضمن میں بعض وہ آیتیں ذکر کی جا ئیں گی جس میں حضرت ابراہیم کو ان کی اولاد کو آئمہ صالحین بنانے کی بشارت دی گئی ہے ۔اس حوالے سے بہت ساری مختلف آیات ہیں۔ ارشاد خداوندی ہے:
١_ (وَ اتْلُ عَلَیْہِمْ نَبََا ِبْرَاہِیمَ ں اِذْ قَالَ لَِبِیہِ وَ قَوْمِہِ مَا تَعْبُدُونَ ں قَالُوا نَعْبُدُ َصْنَامًا فَنَظَلُّ لَہَا عَاکِفِینَ ں قَالَ ہَلْ یَسْمَعُونَکُمْ ِذْ تَدْعُونَ ںَوْ اَنْفَعُونَکُمْ َوْ یَضُرُّونَ ں قَالُوا بَلْ وَجَدْنَاآبَائَنَا کَذَلِکَ یَفْعَلُونَ ں قَالَ َفَرََیْتُمْ مَاکُنْتُمْ تَعْبُدُونَ ں اَنْتُمْ وَآبَاؤُکُمْ الَْقْدَمُونَ ں فَِنَّہُمْ عَدُوّ لِیا ِلاَّ رَبَّ الْعَالَمِینَ ں الَّذِی خَلَقَنِی فَہُوَ یَہْدِینِی ں وَالَّذِی ہُوَ یُطْعِمُنِی وَیَسْقِینِی ں وَِذَا مَرِضْتُ فَہُوَ یَشْفِینِی ں وَالَّذِی یُمِیتُنِی ثُمَّ یُحْیِینِ ں وَالَّذِی َطْمَعُ اَنْ یَغْفِرَ لِی خَطِیئَتِی یَوْمَ الدِّینِ ں رَبِّ ہَبْ لِی حُکْمًا وََلْحِقْنِی بِالصَّالِحِینَ) (١)
'' (اے پیغمبر) ان لوگوں کو ابراہیم کا قصہ سنا دیجئے جب اس نے اپنے باپ اور اپنی قوم سے کہا: تم کس کی عبادت کرتے ہو، انہوں نے کہا ہم بتوں کی عبادت کرتے ہیں، انہیں کے سامنے پڑے رہتے ہیں، تب ابراہیم نے پوچھا جب تم ان کو پکارتے ہو تو کیا وہ تمہاری سنتے ہیں (یا اگر تم ان کی عبادت کرو تو )وہ کچھ فائدہ پہنچاسکتے ہیں یا اگر نہ کرو تو کچھ نقصان پہنچا سکتے ہیں، کہنے لگے کہ ہم نے اپنے باپ دادائوں کو یہی کرتے پایا۔ ابراہیم نے کہا تم کچھ سمجھے جس کو تم اور تمہارے اگلے باپ دادا پوجتے آئے ،وہ (سب) میرے مخالف (دشمن ہیں) یعنی میں ان کا دشمن ہوں مگر وہ جو سارے جہان کا مالک ہے جس نے مجھ کو
پیدا کیا۔ پھر وہی مجھ کو (دین اور دنیا کی) سمجھ دیتا ہے اور وہ مجھ کو کھلاتا اور پلاتا ہے، اور جب میں بیمار پڑتا ہوں تو وہی مجھ کو شفا عطا (تندرست) کرتا ہے، اور وہ مجھ کو (ایک دن) مارے گا پھر (حشر کے دن) زندہ کرے گا اور وہ جس سے مجھ کو یہ امید ہے کہ انصاف کے دن میرا قصور معاف کرے گا، اے میرے مالک مجھ کو سمجھ عنایت فرما (یا نبوت) اور نیک بندوں سے مجھ کو ملادے (آخرت میں ان کے ساتھ رکھ)۔''
..............
(١) سورہ شعرائ،آیت ٦٩ تا ٨٣۔
اس آیت میں حضرت ابراہیم کی اس دعا کا ذکر ہے جو انہوں نے اپنے زمانہ شباب میں مانگی تھی ،اس وقت ان کے والد بھی بقید حیات تھے مگر بتوں کی عبادت کی وجہ سے ان کے درمیان شدید اختلاف رونما ہوگیا تھا۔ اور وہ اس وقت مقام بابل میں تھے اور وہیں انہوں نے یہ دعا مانگی کہ اللہ تعالیٰ ان کو حاکم و امام بنادے تاکہ وہ لوگوں کے درمیان عدل و انصاف کو قائم کر سکیں اور ان کو اللہ کے عدل اور سیدھے راستہ کی طرف رہنمائی کر سکیں یہ دعا ان کی دوسری دعا سے ملتی جلتی ہے جس میں انہوں نے نیک اولاد کی دعا کی تھی تاکہ نیک اولاد ان کے پیغام کو آنے والی تمام نسلوں تک پہنچاتی رہے، باری تعالیٰ کا ارشاد ہے :''اور آنے والے لوگوں میں ذکر خیر باقی رکھا'' دوسری آیت میں آیا ہے ''میرے پروردگار مجھے نیک اور صالح اولاد عطا کر'' ۔ان دونوں آیتوں میں مانگی جانے والی دعائیں ایک دوسرے سے مشابہ ہیں ،اللہ نے اپنے اس قول سے حضرت ابراہیم کی دعا کی قبولیت کی طرف اشارہ کیا ہے۔
قرآن میں دوسری جگہ آیا ہے :
(وَ وَہا بْنَا لَہُ ِسْحَاقَ وَیَعْقُوبَ وَجَعَلْنَا فِی ذُرِّیَّتِہِ النُّبُوَّةَ وَالْکِتَابَ وَآتَیْنَاہُ َجْرَہُ فِی الدُّنْیَا وَِنَّہُ فِی الْآخِرَةِ لَمِنْ الصَّالِحِینَ) (١)
''اور ہم نے وطن چھوڑنے کے بعد اس کو اسحاق (بیٹا) اور یعقوب (پوتا) دیا اور اس کی اولاد میں پیغمبری (اور اللہ تعالیٰ کی کتاب اترنا) قائم رکھا۔ اور ہم نے اس کو دنیا میں (اس کی نیکیوں کا ) بدلہ دیا اور آخرت میں تو وہ نیک بندوں میں ہی ہے۔ ''
یہ آیت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ دنیا میں اجر سے مراد امامت ہے اور دنیا میں اجر الٰہی کی تفسیر حکومت اور بادشاہت ہے جیسا کہ دوسری آیت سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے ،اللہ نے حضرت یوسف کے قصہ کو نقل کرتے ہوئے فرمایا:
(وَ کَذَلِکَ مَکَّنَّا لِیُوسُفَ فِی الَْرْضِ یَتَبَوَُّ مِنْہَا حَیْثُ یَشَاء نُصِیبُ بِرَحْمَتِنَا منْ نَشَائُ وَلاَ نُضِیعُ َجْرَ الْمُحْسِنِینَ) (٢)
''اور ہم اسی طرح سے (مصر کے) ملک میں یوسف کو جمایا وہ جہاں چاہتا تھا اس ملک میں رہتا تھا ہم جس پر چاہتے ہیں اپنی رحمت پہنچاتے ہیں اور نیکوں کی محنت ہم برباد نہیں ہونے دیتے۔''
..............
(١) سورہ عنکبوت،آیت٢٧۔
(٢) سورہ یوسف،آیت٥٦۔
امام خمینی نے اس آیت (رَبَّنَاآتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَةً)کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا: نیکی اور بھلائی سے مراد امامت و قیادت اور بادشاہت ہے ۔اللہ اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے
عطا کرتا ہے پھر وہ اس کے ذریعے اللہ کے حکم کو زمین پر قائم کرتے ہیں اور اس کے عدل کو پھیلاتے ہیں اس حکومت کے ذریعے اللہ کی زمین کو شرک و ظلم سے پاک کرتے ہیں۔ باری تعالیٰ فرماتا ہے:
٢_ (وَ ِذْ ابْتَلَیا ِبْرَاہِیمَ رَبُّہُ بِکَلِمَاتٍ فََ تَمَّہُنَّ قَالَ اِِنِّی جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ ِمَامًا قَالَ وَمِنْ ذُرِّیَّتِی قَالَ لاَیَنَالُ عَہْدِی الظَّالِمِینَ) (١)
'' اور (یاد کرو) جب ابراہیم کو اس کے پروردگار نے کئی باتوں سے آزمایا، اس نے باتوں کو پورا کیا ،پروردگار نے فرمایا بس تجھ کو لوگوں کا سردار بنائوں گا (قیامت تک لوگ تیری پیروی کریں) ابراہیم نے کہا اور میری اولاد کو فرمایا،جو ظالم (بے انصاف) لوگوں ہیں ان تک یہ اقرار نہیں پہنچے گا۔''
..............
(١) سورہ بقرہ،آیت ١٢٤۔
مذکورہ بالا آیت میں بھی حضرت ابراہیم کی ایک دوسری دعا کا ذکر ہے چونکہ انبیاء کرام ان چیزوں کی دعائیں مانگتے ہیں جو اللہ کی رضا اور خوشنودی کا باعث ہوں اور جس کی انہیں مانگنے کی اجازت دی گئی ہو۔ چنانچہ حضرت ابراہیم کو اس بات کی اجازت دی گئی کہ وہ امامت کو اپنی اولاد میں جاری رکھنے کی دعا کریں، کیوں کہ اللہ تعالیٰ نہایت حکمت والا اور دعا قبول کرنے والا ہے اور نہایت ہی مہربان اور عطا کرنے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم کی اس دعا کو قبول کرلیا جسے انہوں نے اللہ کی اجازت سے مانگی تھی مگر اللہ نے اس دعا کو عدالت نامہ کے ساتھ مشروط کردیا کہ تمہاری ذریت میں وہ شخص منصب امامت کا مستحق ہوگا جو عدالت تامہ کا حامل ہو، اور اللہ کے اس قول (لاَ یَنَالُ عَہْدِی الظَّالِمِینَ) سے اس بات کی نفی کردی گئی کہ
حضرت ابراہیم کی اولاد میں جو لوگ ظالم اور بے انصاف اور عدالت نامہ کے حامل نہ ہوں گے ان کو منصب امامت کا اہل قرار نہیں دیا جائے گا کیوں کہ حضرت ابراہیم کی دعا ان کی اولاد میں سے صرف نیک اور غیر ظالم لوگوں کے حق میں قبول ہو ئی ہے۔
اگر کسی کو اس دعا کی قبولیت میں شبہ ہو اور وہ یہ سوال کرے کہ ہم کیسے کہہ سکتے ہیں کہ حقیقت میں ان کی دعا قبول ہو گئی اور اللہ نے امامت کو ان کی ذریت میں جاری کرنے کا فیصلہ کردیا ہے تو یہ کہا جا ئے گا کہ قرآن کی بعض دوسری آیتوں میں اس کا جواب مو جود ہے جس سے اس بات کی صراحت ملتی ہے کہ اللہ نے منصب امامت کو حضرت ابراہیم کی اولاد میں ان کی دعا کے نتیجے میں جاری کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
اللہ نے فرمایا:
(وَنَجَّیْنَاہُ وَلُوطًا ِلَی الَْرْضِ الَّتِی بَارَکْنَا فِیہَا لِلْعَالَمِینَ ں وَوَہا بْنَا لَہُ ِسْحَاقَ وَ یَعْقُوبَ نَافِلَةً وَکُلًّا جَعَلْنَا صَالِحِینَ ں وَجَعَلْنَاہُمْ َئِمَّةً یَہْدُونَ بَِمْرِنَا وَ اَوْحَیْنَا ِلَیہِمْ فِعْلَ الْخَیْرَاتِ وَِقَامَةِ الصَّلَاةِ وَِیتَائَ الزَّکَاةِ وَکَانُوا لَنَا عَابِدِینَ)
''اور ہم نے ابراہیم(اور ان کے بھتیجے)لوط کو نجات دے کر اس سرزمین میں پہنچایا جس میں ہم نے سارے جہاں کے لئے برکت رکھی ہے اور ہم نے ابراہیم کو (ان کی دعا پر)اسحاق دیا(بیٹا)اور یعقوب دیا(پوتا)اور سب کو نیک بخت کیا،اور ہم نے ان (چاروں)کو پیشوا بنایا،وہ ہمارے حکم سے(لوگوں کو) ہدایت کرتے تھے اور ہم نے ان کو نیک کام کرنے اور نماز درستی سے ادا کرنے اور زکوٰة دینے کی دعا کے نتیجے میں امام بنایا۔''
اور یہ بخشش یعنی نیک ذریت کو امام بنایا کہ (میری ذریت)اس دعا کی قبولیت کی تائید اس آیت سے بھی ہو تی ہے۔
(وَجَعَلْنَاھُمْ أَئِمَةً یَھْدُونَ بِأَمْرِنَا وَ أَوْھَیْنَا ِلَیھِمْ فِعْلَ الْخَیْرَاتِ وَاِقَامَ الصَّلاةٍ وَ اِیْتَائَ الزَّکَاةِ وَکَانُوا لَنَا)
''اور ہم نے ان کو ہمارے حکم پہنچانے کے لئے امام بنایا........''
٣_ نیز اس آیت سے بھی:
(َامْ یَحْسُدُونَ النَّاسَ عَلَی مَا آتَاہُمْ اﷲُ مِنْ فَضْلِہِ فَقَدْ آتَیْنَا آلَ ا ِبْرَاہِیمَ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَةَ وَآتَیْنَاہُمْ مُلْکًا عَظِیمًا) (١)
''جو اللہ نے اپنے فضل سے لوگوں کو دیا اس پر چلتے ہیں(تو یہ کوئی نئی بات نہیں ہے)ہم نے ابراہیم کی اولاد (داؤد اور سلیمان)کو کتاب اور پیغمبری دی تھی اور ہم نے ان کو بڑی سلطنت بھی دی تھی۔''
اس میں بھی یہ صراحت موجود ہے کہ اللہ نے ابراہیم کی دعا قبول کرلی اور ان کی اولاد کو بڑی سلطنت یعنی امامت و نبوت سے سرفراز کیا جو کتاب و حکمت سے الگ چیز ہے،جسے اللہ نے اس آیت میں ''فضل''کے لفظ سے ذکر کیا ہے قرآن میں دوسری جگہ مزکور ہے۔
..............
(١) سورہ نسائ،آیت٥٤۔
|
|