تیسری بحث
قرآن کی روشنی میں آئمہ کا تعیین
پہلی بحث میں ہم نے قرآنی نقطۂ نظر سے امامت کے معنی و مفہوم کی وضاحت پیش کی کہ امامت انسان کو اس کے تمام اختیاری افعال میں عروج وکمال تک پہنچاتی ہے۔ دوسری بحث میں ہم نے منصب امامت کو اپنا موضوع بحث بنایا اور اس سلسلے میں یہ بات سامنے آئی کہ یہ ربانی منصب ہے اللہ جسے چاہتا ہے اس منصب سے سرفراز کرتا ہے اس میں کسی اور کو شریک ٹھہرانا درست نہیں ہے اور ہم نے اس حوالے سے قرآن کی متعدد آیات سے استشہاد کیا جس سے نص اور تعین الٰہی کے نظریے کی تائید ہوتی ہے۔ یہاں پر تیسری بحث میں ہم اختصار کے ساتھ قرآن میں مذکور صفات کی روشنی میں نظریہ امامت کو موضوع گفتگو بنائیں گے قرآن میں یہ صفات تین صیغوں میں ذکر کی گئی ہے۔
پہلا صیغہ جس سے مراد بعض وہ آیتیں ہیں جن میں یہ بات نہایت تاکید کے ساتھ ذکر کی گئی ہے کہ پوری تاریخ انسانی میں امام کا تعین و تقرر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتا آرہا ہے ۔اور اللہ نے ہمیشہ ان آئمہ کی اطاعت کا حکم دیا ہے۔
دوسرا صیغہ سے مراد چند ایسی آیتیں ہیں جن سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ آئمہ حضرت ابراہیم کی اولاد میں سے ہی ہوں گے اور یہ کہ امامت الٰہیہ کا یہ سلسلہ ابراہیم کی اولاد اور ان کی نسل میں جاری رہے گا۔
تیسرا صیغہ سے مراد وہ قرآنی نصوص ہیں جو اس بات کی دلیل فراہم کرتی ہیں کہ رسول اللہ ۖ کے بعد امامت کی باگ ڈور اہل بیت ٪ کے افراد کے قبضہ میں ہوگی اور وہ علی ـ اور ان کی اولادمیں سے کچھ مخصوص اشخاص ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے ہر طرح کی نجاست و گندگی سے دور رکھا ہے اور ہر طرح کی پاکیزگی سے نوازا ہے۔
تعین کے ان ہی تین صیغوں کے دائرے میں رہتے ہوئے ہم قرآن کریم کی روشنی میں امامت کے موضوع پر گفتگو کو آگے بڑھائیں گے ہم ان احادیث شریفہ سے صرف نظر بھی نہیں کرسکتے جو منصب امامت کی تائید میں مختلف صیغوں اور تعبیرات کے ساتھ وارد ہوئی ہیں ۔لیکن ان کا ذکر یہاں پر ممکن نہیںکیوں کہ ہمارا موضوع قرآن کی روشنی میں امام کے تعین و تقرر کی بحث ہے امامت کے موضوع پر وارد ہونے والی چند آیات بطور نمونہ پیش کریں گے۔ تاکہ مسئلہ امامت کی مکمل وضاحت ہوجائے۔جہاں تک امامت کے موضوع پر وارد ہوئی ہیں تو وہ نصوص قرآن ہی کی ایک قسم ہیں کیوں کہ احادیث نبویہ درحقیقت قرآن کریم کی آیات کی تفسیر ہیں۔ قرآن کی یہ آیت (َطِیعُوا الرَّسُولَ)رسول کی اطاعت کے وجوب پر دلالت کرتی ہے اور اس نص سے اللہ کے اس قول (وَ مَا یاَنْطِقُ عاَنْ الْہَوَی ں ِنْ ہُوَا ِلاَّ وَحْی یُوحَی) کے مفہوم کی تائید ہوتی ہے خلاصہ کلام یہ ہے کہ امامت کے موضوع پر وارد احادیث متواترہ بھی کلام الٰہی کے درجہ میں ہیں کیوں کہ ان کی روح و جوہر اور مرجع قرآن کریم ہے۔مگر جو نصوص قرآنی کے نمونے اپنے تینوں صیغوں کے ذریعے دلالت کرتی ہیں وہ مندرجہ ذیل ہیں۔
پہلا صیغہ:
میں یہ بات واضح طور پر کہہ دی گئی ہے کہ اللہ نے ہر زمانے میں انسانوں کی رہنمائی کے لئے آئمہ کو بھیجا ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
١_ (وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِی کُلِّامَّةٍ رَسُولاً اَنْ اُعْبُدُوا اﷲَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوتَ) (١)
''اور ہم تو ہر قوم میں ایک پیغمبر(یہ حکم دے کر) بھیج چکے ہیں کہ اللہ کی اطاعت کرو اور طاغوت سے بچے رہو۔''
..............
(١) سورہ نحل،آیت ٣٦۔
پوری تاریخ انسانی اس بات پر شاہد ہے کہ اللہ نے ہر قوم میں ایک رسول بھیجا ہے او ریہ حکم دیا ہے کہ وہ لوگ اللہ کی عبادت کریں اور طاغوت کی عبادت سے گریز کریں ۔لغوی اعتبار سے عبادت کا مفہوم و مقصود اللہ کی مکمل اطاعت و تابعداری ہے او ریہ معنی انسان کے تمام تر اختیاری افعال کو شامل کرتی ہے۔ امامت کے اس معنی کا ذکر پہلے آچکا ہے انسانی استطاعت کی حد تک تمام افعال اختیاریہ میں اسے عروج و کمال تک پہنچانا ہے ۔کمال مطلوب سے مراد اللہ کی مکمل تابعداری ہے۔
امر واقعی میں امامت یہ ہے کہ انسان اپنی زندگی کے تمام امور میں اللہ کی عبادت کو ملحوظ رکھے اور امامت کا یہی معنی طاغوت کے منافی ہے۔ کیوں کہ طاغوت کا معنی بہت زیادہ سرکش کے ہیں۔ اور اس کے مصادیق ،ابلیس، آئمہ کفر و ضلال او رظالم سیاسی قائدین اور وہ تمام ارباب قوت و اقتدار ہیں جو اللہ کی عبادت سے لوگوں کو باز رکھتے ہیںاور غیر اللہ کی اطاعت و فرمانبرداری کی دعوت دیتے ہیں۔ چند آیتیں بطور مثال پیش کی جارہی ہیں جس سے ایک طرف طاغوت کے مفہوم کا تعین ہو سکے گا اور دوسری طرف عبادت کے معنی کی تاکید و تائید ہوجائے گی۔ قرآن
کہتا ہے:
(َلَمْ تَرَِلَی الَّذِینَ یَزْعُمُونَ َنَّہُمْ آمَنُوابِمَاُنزِلَا ِلَیکَ وَمَاُنزِلَ مِنْ قَبْلِکَ یُرِیدُونَ اَنْ یَتَحَاکَمُوا ِلَی الطَّاغُوتِ وَقَدْ ُمِرُوا اَنْ یَکْفُرُوا بِہِ) (١)
''(اے پیغمبر) کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو (منہ سے) کہتے ہیں ہم اس پر ایمان لائے جو تجھ پر اترا (یعنی قرآن پر) اور جو تجھ سے پہلے (اور پیغمبروں پر) اترا باوجود اس کے وہ چاہتے ہیں کہ اپنا مقدمہ شیطان کے پاس لے جائیں حالانکہ ان کو حکم ہوچکا ہے کہ شیطان کی بات نہ مانیں۔''
نیز اس سے پہلے والی آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
(یَا َیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا َطِیعُوا اﷲَ وَ َطِیعُوا الرَّسُولَ وَ ُوْلِی الَْمْرِ مِنْکُمْ فَِانْ تَنَازَعْتُمْ فِی شَیْئٍ فَرُدُّوہُا ِلَی اﷲِ وَ الرَّسُولِ ِنْ کُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاﷲِ وَ الْیَوْمِ الْآخِرِ ذَلِکَ خَیْر وََحْسَنُ تَْوِیلًا) (٢)
''اے ایمان والو!اللہ تعالیٰ کا حکم مانو اور اس کے رسول کا حکم مانو اور صاحبان امر کا جو تم میں سے ہو ،پھر اگر تم میں اور حاکم وقت میں کسی مقدمہ میں جھگڑا ہو تو اس کو اللہ اور رسول کی طرف پلٹائو اگر تم کو اللہ اور آخرت پر ایمان ہے یہ (تمہارے حق میں)بہتر ہوگا اور اس کا انجام بہت اچھا ہے۔''
..............
(١) سورہ نسائ،آیت٦٠۔
(٢) سورہ نسائ،آیت٥٩۔
اس آیت اور دوسری آیتوں کے سیاق سے پتہ چلتا ہے کہ طاغوت سے مراد اللہ کے سوا اور کوئی حاکم ہے جو لوگوں کو غیر اللہ کی حاکمیت کی طرف بلاتا ہے اور اللہ کے اس قول (وَلَقَدْ بَعَثْنَا
فِی کُلِّامَّةٍ رَسُولاً اَنْ اُعْبُدُوا اﷲَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوتَ) (١)کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ نے ہر امت میں ربانی او رسیاسی قائدین کو بھیجا جو اللہ کے امر کی اطاعت کا حکم اور لوگوں کو اللہ کی عبادت اور اس کے حکم کی تابعداری کی دعوت دیتے ہیں اور طاغوتوں کی تابعداری سے باز رکھتے ہیں۔
باری تعالیٰ کا ارشاد ہے:
٢_ (وَمَا َرْسَلْنَا مِنْ رَسُولٍا ِلاَّ لِیُطَاعَ بِِذْنِ اﷲِ) (٢)
''اور ہم نے جو رسول بھیجا وہ اسی لئے کہ اللہ کے حکم سے اس کا کہا مانا جائے۔''
..............
(١) سورہ نحل،آیت٣٦۔
(٢) سورہ نسائ،آیت٦٤۔
اس آیت کریمہ میں اس بات پر مکمل روشنی ڈالی گئی ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ سے پوری تاریخ انسانی میں لوگوں کے مابین رسولوں کو قائد اور حاکم بناکر بھیجا اور ان کی اطاعت و فرمانبرداری کا حکم دیا اللہ نے رسول کو بھیجا ہی اسی لئے ہے کہ ان کی اطاعت کی جائے تاکہ انہیں قائد مطاع کی حیثیت حاصل ہوجائے ۔اس آیت میں ''باذن اللہ'' کے لفظ سے ایک نکتہ کی طرف اشارہ ہے۔ اس لفظ کے ذریعے یہ بتانا مقصود ہے کہ رسول کی اطاعت و تابعداری ان کو حاکم اور قائد مان کر کی جائے نہ صرف اللہ کے احکامات کے مخبر اور امر و نواہی کے مبلغ کی حیثیت سے۔اس لفظ سے پتہ چلتا ہے کہ اللہ نے رسول کو قائد مطاع کا منصب عطا کیا ہے بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ یہ اطاعت، اطاعت حکم و قیادت اور اطاعت امارت ہے نہ کہ صرف اطاعت تبلیغ ورنہ تو بہتر یہ ہوتا کہ کہا جائے ''وَمَا َرْسَلْنَا مِنْ رَسُولٍا ِلاَّ لِیُطَاعَ اللّٰہُ''۔
اللہ نے فرمایا:
٣_ (لَقَدْ َرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَیِّنَاتِ وَاَنْزَلْنَا مَعَہُمْ الْکِتَابَ وَالْمِیزَانَ لِیَقُومَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ) (١)
''ہم تو اپنے پیغمبروں کو کھلی کھلی نشانیاں دے کر بھیج چکے اور ان کے ساتھ کتاب اتاری (تورات ،انجیل ،زبور ،قرآن) اور انصاف کا ترازو اتارا۔ اس لئے کہ لوگ انصاف پر قائم رہیں۔''
..............
(١) سورہ حدید،آیت ٢٥۔
اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ تاریخ انسانی کے ہر مرحلے میں رسولوں کو دلائل ،کتاب اور میزان دے کر بھیجا گیا اور ان تمام لوگوں کا مقصد دنیامیں اللہ کی حکومت اور لوگوں کے مابین عدل و انصاف کا قیام تھا اس ارشاد خداوندی میں کتاب بحیثیت قانون اور دستور الٰہی کے مذکور ہے۔(لَقَدْ َرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَیِّنَاتِ وَاَنْزَلْنَا مَعَہُمْ الْکِتَابَ)
اس آیت میں کتاب سے مراد قانون اور دستور الٰہی ہے اور لغت میں کتاب کے معنی مکتوب کے ہیںاو رمکتوب کتابت سے مآخوذ ہے جس کے معنی وجود و ثبوت کے ہیں لہٰذا کتاب سے مراد واجب اور ثابت شدہ اوامر و نواہی کے ہیں۔ میزان ایسا ترازو ہے جس سے چیزوں کی پرکھ کی جائے ،تاکہ اچھی اور خراب ،صحیح اور غلط چیزوں کے درمیان فرق ہوسکے۔ لیکن یہاں پر اس سے مراد اعمال کا میزان ہے نہ کہ عام چیزوں کو تولنے کا میزان۔ نیز اللہ تعالیٰ کی غرض عدل و انصاف کے افعال و اعمال کو ظلم و فساد کے افعال و اعمال سے الگ کرنا ہے اور اس بات کا تحقق صرف عدل کی قدرت اور عصمت کی قوت کی صورت میں ہی ممکن ہے۔ اور یہ دونوں صفات انبیاء کرام٪
کی ذات میں بدرجہ اتم موجود تھیں، ہر حاکم کیلئے ان دونوں صفات کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسی طرح اسے قانون کی معرفت اور عدل و انصاف کی قدرت و مہارت کی بھی ضرورت ہوتی ہے تاکہ اس کے تمام امور و معاملات اور اعمال عدل کے مطابق ہوں اس طرح سے اسے اللہ کے حکم کو نافذ و جاری کرنے کی قدرت حاصل ہوجائے۔
٤_ قرآن کہتا ہے :
(وَوَہا بْنَا لَہُ ِسْحَاقَ وَیَعْقُوبَ کُلًّا ہَدَیْنَا وَنُوحًا ہَدَیْنَا مِنْ قَبْلُ وَمِنْ ذُرِّیَّتِہِ دَاوُودَ وَسُلَیْمَانَ وََیُّوبَ وَیُوسُفَ وَمُوسَی وَہَارُونَ وَکَذَلِکَ نَجْزِی الْمُحْسِنِینَ ں وَزَکَرِیَّا وَیَحْیَی وَعِیسَی وَِلْیَاسَ کُلّ مِنْ الصَّالِحِینَ ں وَ ِسْمَاعِیلَ وَالْیَسَعَ وَیُونُسَ وَلُوطًا وَکُلًّا فَضَّلْنَا عَلَی الْعَالَمِینَ ں وَمِنْ آبَائِہِمْ وَ ذُرِّیَّاتِہِمْ وَِخْوَانِہِمْ وَاجْتَبَیْنَاہُمْ وَہَدَیْنَاہُمْا ِلَی صِرَاطٍ مُسْتَقِیمٍ ں ذَلِکَ ہُدَی اللَّہِ یَہْدِی بِہِ منْ یَشَاء مِنْ عِبَادِہِ وَلَوْ َشْرَکُوا لَحَبِطَ عاَنْہُمْ مَا کَانُوا یَعْمَلُونَ ں ُوْلَئِکَ الَّذِینَ آتَیْنَاہُمْ الْکِتَابَ وَالْحُکْمَ وَالنُّبُوَّةَ فَِانْ یَکْفُرْا بِہَا ہَؤُلاَئِ فَقَدْ وَکَّلْنَاا بِہَا قَوْمًا لَیْسُواا بِہَا بِکَافِرِینَ ں ُوْلَئِکَ الَّذِینَ ہَدَی اللَّہُ فَبِہُدَاہُمْ اقْتَدِہِ قُلْ لاََسَْلُکُمْ عَلَیْہِ َجْرًا ِنْ ہُوَا ِلاَّ ذِکْرَی لِلْعَالَمِینَ) (١)
''اور ہم نے ابراہیم کو (بیٹا) اسحاق اور (پوتا) یعقوب دیئے اور ہر ایک راہ پر لگایا اور نوح کو تو ہم پہلے ہی راہ پر لگا چکے تھے اور ابراہیم (یا نوح) کی اولاد میں سے (ہم نے)داؤد، سلیمان اور ایوب اور یوسف اور موسی و ہارون کو راہ پر لگایا اور نیکی کرنے والوں کو ہم ایسا ہی بدلہ دیتے ہیں اور ذکریا اور یحییٰ (بن ذکریا)
اور عیسیٰ (بن مریم بنت عمران) اور الیاس، تو یہ سب نیک بختوں میں سے تھے اور اسماعیل (بن ابراہیم) اور یسع اور یونس( بن متی) اور لوط (بن ہارون) کو اور ان سب کو ہم نے سارے جہاں پر بزرگی دی، اور ان کے بعض باپ، دادائوں ، اولاد اور بھائیوں کو بھی ،اور ہم نے ان کو چن لیا اور ان کو سیدھی راہ بتلائی، یہ اللہ تعالیٰ کی ہدایت ہے اپنے بندوں میں جس کو چاہے سوجھائے، اور اگر وہ لوگ شرک کرتے تو ان کا کیا کرایا (سب) اکارت ہوتا، انہیں لوگوں کو (پیغمبروں کو)ہم نے کتاب ،شریعت اور پیغمبری دی، اگر یہ لوگ ان چیزوں کو نہ مانیں تو(کچھ پرواہ نہیں) ہم نے ان پر(ایمان) لانے کے لئے ایسے لوگوں کو تیار کردیا ہے جو انکار نہیں کرتے، یہی (اٹھارہ) پیغمبر کہہ دیجئے کہ میں قرآن سنانے پر تم سے اجرت (مزدوری) نہیں مانگتا، قرآن تو اور کچھ نہیں سارے جہاں کے لئے نصیحت ہے۔ ''
..............
(١) سورہ انعام،آیت ٨٤ تا ٩٠۔
مذکورہ بالا آیات سے ہم کو معلوم ہوا کہ اللہ نے پوری تاریخ انسانی میںلوگوں کے لئے کسی نہ کسی قائد او رحاکم کا تعیین کرتا رہا ہے اور انہیں منصب قیادت ، حکومت اور نبوت سے بھی سرفراز کیا جاتا رہا اور یہ سلسلہ حضرت نوح سے لے کر آخری نبی محمد ۖ تک جاری رہا اور اللہ تعالیٰ کے قول '' ہَؤُلاَئِ اَلَّذِیْنَ الخ '' کا مطلب یہی نکلتا ہے کہ اس نے انبیاء کرام ٪ کو پوری تاریخ انسانی کے لئے لوگوں کا قائد اور حاکم بنا کر بھیجا تاکہ ان کے ذریعے لوگوں کے مابین عدل و انصاف کا قیام عمل میں آسکے ۔یہاں یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ یہ سلسلہ قیادت و امامت کی ایک زمانہ کے ساتھ مقید نہیں ہے بلکہ یہ پوری تاریخ انسانی میں جاری رہے گی۔
|