٨_آیات ایتائ
یہ وہ آیتیں ہیں جو آیت ایتاء کے صیغوں کے ساتھ وارد ہوئی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
(وَاﷲُ یُؤْتِی مُلْکَہُ منْ یَشَاء) (١)
''اللہ جسے چاہتا ہے ملک و بادشاہت عطا کرتا ہے۔''
..............
(١) سورہ بقرہ،آیت ٢٤٧۔
دوسری جگہ فرمایا :
(قُلْ اللّٰھُُمَّ مَالِکَ الْمُلْکِ تُؤْتِی الْمُلْکَ منْ تَشَائُ وَتاَنْزِعُ الْمُلْکَ مِمنْ تَشَائُ) (١)
''اے پیغمبر کہہ دیجئے میرا خدا سارے ملک کا مالک ہے تو جسے چاہے بادشاہ بنادے اور جس سے چاہے بادشاہت چھین لے۔''
ایک اور جگہ فرمایا:
(فَقَدْ آتَیْنَا آلَا ِبْرَاہِیمَ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَةَ وَآتَیْنَاہُمْ مُلْکًا عَظِیمًا) (٢)
''ہم نے ابراہیم کی اولاد (دائود و سلیمان) کو کتاب اور پیغمبری دی اور ان کو بڑی سلطنت بھی دی۔''
..............
(١) سورہ آل عمران،آیت٢٦۔
(٢) سورہ نسائ،آیت٥٤۔
لفظ ''ایتائ'' کا لغت میں استعمال اسی وقت ہوتا ہے جب '' مؤتی'' یعنی دینے والا کسی چیز کا مالک ہو۔ آیات ایتاء کے مطالعے سے واضح شکل میں یہ بات سامنے آتی ہے کہ ملک و بادشاہت صرف اللہ کی ذات کے ساتھ مختص ہے اور اللہ ہی جسے چاہتا ہے اپنے طور پر اس کو عطا کرتا ہے۔ اللہ کا ارشاد ہے: ''اے نبی کہہ دیجئے خدا تمام ملک کا مالک ہے تو جسے چاہتا ہے بادشاہت عطا کرتا ہے۔''ایتاء کے معنی و مفہوم کی وضاحت کیلئے جن آیات کو ہم نے پیش کیا ہے ان میں سے بعض آیتوں کا ذکر تعیین امام کے باب میں آچکا ہے اس موضوع پر اور بھی بہت سی آیات ہیں مگر اختصار کی بنا پر ہم ان کو یہاں پیش نہیں کریں گے پھر ان بہت ساری آیات میں سے جیساکہ ارشاد خداوندی ہے:

(وَلَوْ رَدُّوہُا ِلَی الرَّسُولِ وَِلَی ُوْلِی الَْمْرِ مِنْہُمْ) (١)
''اگر وہ لوگ یہ خبر اڑانے سے پہلے پیغمبر یا صاحبان امر کے پاس لے جاتے۔''
یا دوسری آیت
(َطِیعُوا اﷲَ وََطِیعُوا الرَّسُولَ وَُوْلِی الَْمْرِ مِنْکُمْ) (٢)
''مسلمانو! اللہ کا حکم مانو اور اس کے رسول کا حکم مانو اور حکومت والوں کا جو تم میں سے ہوں۔''
..............
(١) سورہ نسائ،آیت٨٣۔
(٢) سورہ نسائ،آیت٥٩۔
یہ دونوں آیتیں اس بات کی دلیل ہیں کہ رسول اللہ کی وفات کے بعد امامت کا تعین اللہ کے رسول کے زمانہ میں ہی ہوچکا تھا اور مومنین کو اس امام کی اطاعت کا مکلف اور مامور بھی بنا دیا گیا تھا۔ نیز اللہ کے رسول کے زمانے میں عملی طور پر مسلمانوں پر یہ فرض تھا کہ وہ رسول اللہ کی عدم موجودگی میں اس امام سے رجوع کریں ،کہ یہ رجوع اللہ اور اس کے رسول سے رجوع کے ہی معنی میں ہوگا حقیقت میں ''تشیع'' یہی ہے تشیع کا مطلب اللہ اور اس کے رسول اور ان کے آئمہ سے رجوع کرنا ہے جنہیں اللہ اوراس کے رسول کی مرجعیت حاصل ہو، تشیع در حقیقت رسول اللہۖ اور اس کے خلفاء معصومین کی شکل میں موجود ربانی قیادت کی مکمل اطاعت کا نام ہے او ریہ عین اسلام ہے۔
تشیع کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو اللہ کے رسولۖ کے بعد ظہور پذیرہوئی ہو۔ تشیع اسی اسلام اور ایمان کامل کا نام ہے جس پر صحابہ رسول کی منتخب جماعت آپ کے زمانے اور آپ کے دنیا

سے رخصت ہوجانے کے بعد تھے۔ یہی تشیع در حقیقت اللہ کے رسول کے زمانے میں موجود تھی اور اس کی جھلک صحابہ کی اس منتخب جماعت میں ملتی ہے۔قرآن کی متعدد آیات کو اس سلسلے میں شاہد کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے مثلاً قرآن کی یہ آیت اس باب میں بالکل صریح ہے:
(وَِذَا جَائَہُمْامر مِنَ الَْمْنِ َوْ الْخَوْفِ َذَاعُوا بِہِ وَلَوْ رَدُّوہُا ِلَی الرَّسُولِ وَا ِلَی ُوْلِی الَْمْرِ مِنْہُمْ لَعَلِمَہُ الَّذِینَ یَسْتاَنْبِطُونَہُ مِنْہُمْ) (١)
''جب ان کے پاس کوئی امن کی یا ڈر کی خبر آتی ہے تو وہ اس کو اڑا دیتے ہیں اور اگر اڑانے سے پہلے اس کو پیغمبر اور اپنے سرداروں کے پاس لے جاتے (ان سے تحقیق کرتے) تو جن لوگوں کو خبر کی تلاش رہتی ہے (ان اڑانے والوں میں سے) وہ خود ان سے ( یعنی پیغمبر یا سرداروں سے) اس خبر کو اچھی طرح معلوم کر لیتے۔''
..............
(١) سورہ نسائ،آیت٨٣۔
اس آیت میں ایک واقعہ کی طرف اشارہ ہے جو اللہ کے رسولۖ کے زمانے میں پیش آیا تھا۔ نیز یہ آیت اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ کے رسولۖ کے زمانے میں بھی کوئی ایک مومن یا مومنین کی ایک جماعت تھی جس سے رسولۖ کے بعد یا ان کی عدم موجودگی میں رجوع کرنے کا حکم اللہ نے دیا تھا اور یہ کہ مومنین میں کچھ لوگ عملی طور پر رسول کی عدم موجودگی میں ان لوگوں سے رجوع کرتے تھے جن سے اللہ نے رجوع کا حکم دیا تھا یہی وہ لوگ ہیں جن کو اللہ نے اولوالامر سے خطاب کیا ہے اور انہیں اللہ کے رسول کے زمانے میں ہی مسلمانوں کا مرجع قرار دیا تھا۔ مذکورہ بالا آیت میں اس بات کی وضاحت ہے کہ الو الامر یعنی حکومت والے رسول اللہ

کے زمانے میںبھی ایسے معلوم و معین اشخاص تھے جن سے اللہ نے اپنے مومن بندوں کو اختلافی امور میں رجوع کرنے کاحکم دیا تھا۔
قرآن کریم کی دوسری آیتوں سے بھی اس کی توثیق ہوتی ہے
(َمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تُتْرَکُوا وَ لَمَّا یَعْلَمْ اﷲُ الَّذِینَ جَاہَدُوا مِنْکُمْ وَ لَمْ یَتَّخِذُوا مِنْ دُونِ اﷲِ وَلاَرَسُولِہِ وَلاَالْمُؤْمِنِینَ وَلِیجَةً وَاﷲُ خَبِیر بِمَا تَعْمَلُونَ) (١)
''(مسلمانو) کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ تم (یونہی) چھوڑ دیے جائو گے اور ابھی تک اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو نہیں ظاہر کیا جنہوں نے تم سے جہاد کیا اور اللہ اور اس کے رسول کے سوا کسی کو اپنا راز دار نہیں بنایا اور اللہ تعالی کو جو تم کرتے ہو اس کی خبر ہے۔''
..............
(١) سورہ توبہ،آیت ١٦۔
اس آیت کے مخاطب عام مسلمان ہیں نہ کہ منافقین و کفار و مشرکین۔ اس آیت میں عامة المومنین کو مخاطب کرکے کہا گیا ہے کہ تمہیں یوں ہی چھوڑ نہیں دیا جائے گا بلکہ تمہیں آزمائش و ابتلاء سے گزرنا ہوگا تاکہ اس شخص کی پہچان ہوسکے جو اللہ اور اس کے رسول کے بتائے ہوئے حدود اور ان مومنین کے طریقہ کار پر عمل کرتا ہو، جن مومنین کی اتباع اور طریقہ پر چلنے کیلئے بقیہ مسلمانوں کو اللہ نے حکم دیا ہے چنانچہ یہاں یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ مبتلی اور مبتلی بہ ایک چیز نہیں ہے مبتلی سے مراد عام مومنین اور مسلمان ہیں اور مبتلی بہ وہ شئے ہے جس کے ذریعہ مسلمانوں کو آزمایا جائے گا۔ اس سے مراد کوئی خاص چیز یا مسلمانوں کی مخصوص جماعت ہے۔ اورلفظ ''وَلِیجَةً'' کا معنی مدخل یا وہ راستہ ہے جس پر چلایا جانا ہے۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ ہم تمہیں آزمائیں گے اور

آزمائش میں مبتلا کریں گے تاکہ اللہ اور اس کے رسول کے بتائے ہوئے حدود اور مومنین کے طریقے پر باقی رہنے والے کی پہچان ہوسکے وہ مومنین جو اس آیت کے مصادیق ہیں ان کے بارے میں اللہ نے دوسری آیت میں فرمایا:
(اِنَّمَا وَلِیُّکُمْ اﷲُ وَ رَسُولُہُ وَ الَّذِینَ آمَنُوا الَّذِینَ یُقِیمُونَ الصَّلاَ ةَ وَیُؤْتُونَ الزَّکَاةَ وَہُمْ رَاکِعُونَ ں وَ منْ یَتَوَلَّ اﷲَ وَرَسُولَہُ وَالَّذِینَ آمَنُوا فَِنَّ حِزْبَ اﷲِ ہُمْ الْغَالِبُونَ) (١)
''تمہارے دوست اللہ اور اس کا رسول ۖ اور ایمان والے ہیں جو درستی سے نماز ادا کرتے ہیں اور زکوٰة دیتے ہیں اور وہ جھکے رہتے ہیں اور جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ۖ اور ایمان والوں سے دوستی رکھے گا اور اللہ کا ہی گروہ غالب رہے گا۔''
..............
(١) سورہ مائدہ ،آیت ٥٥،٥٦۔
قرآن کریم نے یہاں پر ولایت و امامت کے سلسلے میں کسی خاص شخص کے نام کو ذکر کیا ہے اور ایک ایسی نصّ کو پیش کرتا ہے جس سے اللہ کے رسول کے بعد اشارہ اور کنایہ سے امام کے تعین کا ثبوت ملتا ہے نام نہ ذکر کرنے کی حکمت بالکل واضح اور اس پر وہ واقعہ شاہد ہے جس سے امت اسلامیہ اللہ کے رسول کے زمانے کے بعد اموی دور حکومت اور عباسی دور حکومت میں دوچار ہوئی اگر قرآن، علی اور آئمہ کے اسمائے گرامی کو رسول کریم کی زندگی میں ہی صریحاً بیان کرتا تو قرآن کو پھاڑ پھاڑ کر ٹکڑے ٹکڑے کردیا جاتا۔ اسی طرح عترت رسول کو بھی فنا کے گھاٹ اتار دیا جاتا۔

کیا حسین ـ آپ کی اولاد اطہار میں سے نہیں ہیں جنہیں قرآن نے وصی بنایا تھا۔
(قُلْ لاَ َسَْلُکُمْ عَلَیْہِ َجْرًا ِلاَّ الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبَی) (١)
''آپ کہہ دیجئے کہ میں تم سے کسی اجرت کا مطالبہ نہیں کرتا سوائے میری قرابت داروں ''
کیا پہلی اور دوسری صدی کی تاریخ کی واضح شہادت نہیں ؟کہ آپ کی اولاد کو کس تیزی کے ساتھ ختم کیا گیا۔ اگر قرآن نے حضرت علی کا نام ذکر کردیا ہوتا تو قرآن کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا جاتا اور اس کا نام و نشان باقی نہیں رہتا۔ چنانچہ حفاظت کی حکمت اس بات کی داعی بھی ہوئی جیسا کہ قرآن کہتا ہے :
(ِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَِنَّا لَہُ لَحَافِظُونَ) (٢)
'' ہم نے قرآن کو نازل کیا اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔''
..............
(١) سورہ شوریٰ،آیت٢٣۔
(٢) سورہ حجر،آیت٩۔
کہ قرآن حق اور امام کی طرف اس انداز میں اشارہ کرے کہ اس کے ذریعہ قرآن تحریف سے بچ جائے اور اس کا تقدس پامال نہ ہو۔
چنانچہ جس نے بھی منصب امامت کے سلسلے میں حق جاننے کی نیت سے قرآن سے رجوع کیا حق اس کے سامنے واضح ہوگیا۔ اب قرآنی آیات اور احادیث میں کسی طرح کا التباس باقی نہ رہا اور اللہ نے موقع پرستوں ،اور دشمنوں کے لئے کوئی راستہ نہیں چھوڑا جس سے وہ قرآن کی عظمت و شرافت کو تار تار کردیں۔ ایک طرف اللہ نے قرآن کی حفاظت کی اور دوسری طرف

امام کی حقیقت کو واضح کردیا ۔یہی سبب ہے کہ قرآن نے حضورۖ کے بعد امام کے تعین کے سلسلے میں کنایہ کے اسلوب کو اختیار کیا۔ بعض اسی آیات بھی ہیں جن میں امام کے تعین کا ثبوت ملتا ہے جو رسول کی عدم موجودگی میں ان کے زمانے میں ہی مسلمانوں کے امور کو انجام دیتے تھے۔ اللہ نے فرمایا:
(اِنَّمَا وَلِیُّکُمْ اﷲُ وَرَسُولُہُ وَالَّذِینَ آمَنُوا الَّذِینَ یُقِیمُونَ الصَّلاَ ةَ وَیُؤْتُونَ الزَّکَاةَ وَہُمْ رَاکِعُونَ) (١)
''بے شک تمہارے دوست اللہ اور اس کے رسول اور ایمان والے ہیں جو درستی سے نماز پڑھتے ہیں اور زکوة ادا کرتے ہیں اور جھکے رہتے ہیں۔''
تمام مسلمانوں کا اس پر اجماع ہے کہ یہ آیت اس وقت نازل ہوئی جب حضرت امیر المومنین نے ایک مسکین کو اپنی انگوٹھی صدقے میں دے دی تھی اور وہ نماز میں مشغول تھے،(2) جو اس بات کی دلیل ہے کہ امیر المومنین علی وہ امام تھے جن کی اطاعت رسول کے زمانے میں بھی واجب تھی۔
..............
(١) سورہ مائدہ،آیت٥٥۔
(٢) تفاسیر عامہ و خاصہ کی طرف رجوع کیا جائے تو علی کی شان میں روایات متواترہ ملتیں ہیں۔مثلاً
تفسیر طبری ج٦ص١٨٦۔ اسباب الترول 'واحدی ص١٣٣،١٣٤۔
شواھد التتریلص ١٦١تا١٦٤۔ تفسیر سیوطی ج٢ص٢٩٣۔
لباب العقول فی اسباب الترول ص٩٠۔
جیسا کہ ارشاد خداوندی (اِنَّمَا وَلِیُّکُمْ اﷲُ)سے پتہ چلتا ہے کہ ان لوگوں کیلئے آیت کے نزول کے زمانے میں ہی ولایت ثابت ہوگئی تھی ۔نیز امیر المومنین کی امامت کا تعین بھی رسول اللہ کے زمانے میں ہوگیا تھا سابقہ تمام آیتوں سے اس کی تائید ہوتی ہے اور جو اس بات کی دلیل ہیں کہ رسول کے بعد مسلمانوں کے لئے کوئی مرجع بنایا جائے، ان آیات میں یہ بھی مذکور ہے کہ اللہ نے بقیہ تمام مسلمانوں کو ان سے رجوع کرنے کا حکم دیا ہے اور علم مسلمانوں کیلئے ان کی اطاعت و اتباع کو لازم قرار دیا ہے اور ان کو بقیہ مومنین کے ایمان کو آزمانے کے لئے میزان بنایا ہے قرآن کی بعض آیتوں میں رسول اللہ کے زمانے میں ہی امام سے رجوع کرنے کے عمل کو واجب قرار دیا گیا تھا جیسا کہ قرآن کہتا ہے ۔
(َطِیعُوا اﷲَ وََطِیعُوا الرَّسُولَ وَُوْلِی الَْمْرِ مِنْکُمْ) (١)
''تم اللہ ،رسول اور صاحبان امر کی اطاعت کرو۔''
..............
(١) سورہ نسائ،آیت ٥٩۔
یہ آیت اولی الامر کی اطاعت کے وجوب پر ایسے دلالت کرتی ہے جیسے کہ اللہ اور رسول کی اطاعت پر پھر ''مِنْکُمْ'' کی عبارت کے ذریعے یہ بات اور واضح ہوتی ہے کہ اولی الأمر ایک زندہ انسان ہے۔اس آیت میں صراحت کے ساتھ اختیار کے نظریہ کا انکار ہے۔ کیوں کہ اس آیت کے مطابق رسول کے زمانے میں ہی صاحب امر کی اطاعت کو واجب کر دیا گیا جس کا مطلب یہ ہے کہ ولی امر کا تعین پہلے ہی ہوچکا ہے اب لوگوں کے لئے اس میں کوئی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی کہ وہ کسی اور کو اس منصب کیلئے منتخب کریں۔ پھر قرآن میں نزاع اور اختلاف کے وقت اولوالامر سے رجوع کرنے کی تاکید بذات خود اس بات پر دلیل ہے کہ اللہ نے کوئی بھی ایسا امر نہیں چھوڑا ہے جس میں مسلمانوں کے درمیان نزاع و اختلاف کا امکان ہو یہاں تک کہ ان کیلئے ایک مرجع اور فیصل کا تعین و تقرر کردیا جس سے وہ نزاعی و اختلافی امور میں رجوع کریں۔
یہ بات ناقابل فہم ہے کہ امامت کے معاملہ کو جس میں نزاع و اختلاف کا سب سے زیادہ

امکان تھا کیسے بغیر تعین کے چھوڑا جاسکتا ہے ۔چنانچہ مسلمانوں کے مابین شدید ترین اختلافات جو اس باب میں رونما ہوئے (جس کی تفصیل کی یہاں ضرورت نہیں) کو دیکھتے ہوئے اس کا تصور نہیں کیا جاسکتا کہ امامت کے معاملے میں مسلمانوں کے درمیان نزاع و جدال کے باب کو یوں ہی کھلا چھوڑا جاسکتا ہے۔
آنے والی آیات میں اس بات کی تاکید کی گئی ہے کہ امامت کی تعین و تفویض من جانب اللہ ہوگی اور اس کا مستحق معاصی سے پاک و منزہ شخص ہی ہوسکتا ہے ۔اللہ سبحانہ و تعالیٰ فرماتا ہے:
(وَِذْ ابْتَلَیا ِبْرَاہِیمَ رَبُّہُ بِکَلِمَاتٍ فََتَمَّہُنَّ قَالَ اِِنِّی جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ ِمَامًا قَالَ وَمِنْ ذُرِّیَّتِی قَالَ لاَیَنَالُ عَہْدِی الظَّالِمِینَ) (١)
''اور یاد کرو جب ابراہیم کو اس کے پروردگار نے کئی باتوں سے آزمایا، اس نے باتوں کو پورا کیا۔ پروردگار نے کہا میں تجھ کو لوگوں کا سردار بنائوں گا(تاکہ قیامت تک لوگ تیری پیروی کریں) ابراہیم نے کہا اور میری اولاد کو ،فرمایاجو ظالم (بے انصاف) ہیں ان تک یہ اقرار نہیں پہنچے گا۔''
ظلم معصیت اور اطاعت انہی سے روگردانی کا نام ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے :
(وَمنْ یَتَعَدَّ حُدُودَ اﷲِ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَہُ) (٢)
''اور جو کوئی اللہ تعالی کے حکموں سے باہر ہوجائے اس نے اپنے آپ کو برباد کیا۔''
..............
(١) سورہ بقرہ،آیت١٢٤۔
(٢) سورہ طلاقئ،آیت١۔
اس آیت میں یہ بات شرط کے طور پر ذکر کی گئی ہے کہ ظالم و بدکار اور نا انصاف شخص امامت

کا مستحق نہیں ہوسکتا، اگرچہ اس کا ظلم و گناہ لوگوں کی آنکھوں سے پوشیدہ ہی کیوں نہ ہو۔ اللہ کے اس قول (لاَ یَنَالُ عَہْدِی الظَّالِمِینَ)نے قطعی طور پر ظالم اور بدکار شخص کی امامت کو یکسر مسترد کر دیا ہے۔ منافق بھی امامت کا مستحق نہیں ہوسکتا اگرچہ وہ اپنے گناہ سے ناواقف ہوتا ہے کیوں کہ اللہ تعالیٰ منافق کے گناہ سے بذریعہ وحی لوگوں کو مطلع کرتا ہے۔
اگلی آیت بھی امام کے معصوم ہونے کے وجود پر شاہد و گواہ ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
(َفَمنْ یَہْدِیا ِلَی الْحَقِّ َاحَقُّ اَنْ یُتَّبَعَ َمنْ لاَ یَہِدِّیا ِلاَّ اَنْ یُہْدَی فَمَا لَکُمْ کَیْفَ تَحْکُمُونَ) (١)
'' کیا جو سچی راہ پر لگاتا ہے اس کی تابعداری بہتر ہے یا اس کی جس کو خود راہ معلوم نہیں مگر ہاں جب وہ راہ پر لگایا جائے۔ تو تم لوگوں کو کیا ہوا ہے کیسا انصاف کرتے ہو۔''
اس آیت میں یہ بات صاف طور پر بیان کر دی گئی کہ جو شخص دوسرے کی ہدایت و اقتداراور رہنمائی کا محتاج ہو ،وہ لوگوں کا قائد اور امام نہیں بن سکتا۔ قائد و امام وہ ہے جس سے دوسرے لوگ رہنمائی و ہدایت حاصل کریں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ظالم و بدکار اور نا انصاف شخص اس بات کا محتاج ہوتا ہے کہ دوسرا شخص اس کو صحیح راہ دکھائے، لہٰذا ایسے شخص کی اتباع و اقتدار قطعاً درست نہیں ہے۔ امام کے معصوم ہونے کے ساتھ ''من جانب اللہ ''تعین کی شرط اس لئے بھی ضروری ہے کہ اللہ انسانوں کے تمام راز سے واقف ہے اور ظالم کے ظلم کو خوب اچھی طرح جانتا ہے خواہ وہ ظلم و گناہ لوگوں کی نظروں سے پوشیدہ ہو، وہی سچی راہ دکھانے والا اور ہر چیز سے مستغنی ہے۔
..............
(١) سورہ یونس،آیت ٣٥۔