دوسری بحث
امامت کی تکمیل و تعیین الٰہی ذریعہ سے ہی ممکن ہے
ہم نے گذشتہ صفحات میں قرآن کی روشنی میں امامت کی تعریف کی وضاحت کی ہے اور امام اور امامت کے سلسلے میں قرآن کریم کے متعین کردہ مفہوم کو پیش کیا ،نیز ہم نے واضح و روشن دلائل اور قرآنی نصوص کی بنیاد پر یہ بتایا کہ امامت کا مفہوم انسان کو اس کی زندگی کے تمام اختیاری امور میں عروج کمال تک پہنچانا ہے۔ اب ہم یہاں پر قرآن میں موجود نظریۂ امامت پر بحث کریں گے چوں کہ امامت ایک ربانی منصب ہے لہٰذا خدا جسے چاہتا ہے منتخب کرتا ہے۔لہٰذا امامت کی تعیین و تحدید کا اختیار صرف اللہ کیلئے ہے اور یہ اختیار لوگوں کے پاس نہیں ہے اور ہم دیکھیں گے کہ قرآن میں یہ بات نہایت تاکید کے ساتھ بیان کی گئی ہے کہ امامت ایک ربانی امر ہے۔ اس منصب کو انجام دینے کیلئے اللہ لوگوں کو منتخب کرتا ہے اور اللہ نے امامت کے امور کو لوگوں کی اپنی پسند اور اختیار پر نہیں چھوڑا ہے گزشتہ صفحات میں مذکورہ باتیں بذات خود اس بات کی دلیل ہیں کہ منصب امامت کا تعیین و تقرر خدا کی طرف سے ہونا چاہیے کیوں کہ امامت سے مراد انسان کی اس کے تمام اختیاری امور میں اللہ کے متعین کردہ حدود کے مطابق قیادت کرنا ہے۔ اس مفہوم سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ منصب امامت کے فرائض کو انجام دینے کیلئے انتخابِ امام کا امر اللہ کے ساتھ مختص ہے۔ عام انسانوں کے لئے یہ ممکن نہیں کہ خود امامت کی اہلیت و صلاحیت رکھنے والوں کا انتخاب کردیں۔ بہرحال یہ بات واضح ہے کہ منصب امامت کی تحدید و تعین صرف اللہ کے ذریعہ ہی ممکن ہے۔
قرآن کی تحدید کے مطابق امامت کا یہ مفہوم بذات خود نظریہ النص اور تعین الٰہی کیلئے لازمی حیثیت رکھتا ہے تاہم اس نکتے سے قطع نظر قرآن میں یہ بات بالکل صاف اور واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ قرآن نے صرف منصب امامت کیلئے کسی فرد کے من جانب اللہ تعین و تقرر کی تاکید و تصریح پر ہی اکتفا نہیں کیا ہے بلکہ قرآن نے عملی طور پر بھی برت کر دکھایا ہے ۔ہم مناسب جگہ پر اس پر روشنی ڈالیں گے۔
یہاں پر ہمارا موضوع بحث قرآن میں منصب امامت کی تعین کا نظریہ ہے اور ہم اس حوالے سے قرآن کی چند ایسی آیتوں کا ذکر کریں گے جن میں اس کی تاکید کی گئی ہے کہ منصب امامت کیلئے کسی شخص کے تعین و تقرر کا اختیار صرف اللہ کی ذات کے ساتھ مختص ہے۔اس ضمن میں قرآن میں بہت ساری آیات وارد ہوئی ہیں۔ ہم نمونے کے طور پر مندرجہ ذیل آیات کو بیان کریں گے۔

١_ آیات امر
یہ آیتیں اس بات پر دلالت کرتی کہ امر و حکومت صرف اللہ کی ذات کے ساتھ مختص ہے جیساکہ اللہ تعالیٰ کے اس قول سے ظاہر ہے ۔
(بَلْ لِلَّہِ الَْمْرُ جَمِیعًا) (١)
''بلکہ اللہ ہی کے لئے تمام حکومت ہے۔''
..............
(١) سورہ رعد ،آیت٣٦۔
دوسری جگہ ہے :
(لَہُ الْخَلْقُ وَالَْمْرُ) (١)
''اس نے سب کچھ بنایا اور اس کیلئے حکومت ہے۔''
اس عبارت میں حصر کا معنی پایا جاتاہے کیوں کہ اس میں تقدیم کو تاخیر کیا گیا ہے جیساکہ جار اور مجرور کو عامل پر مقدم کرنا اور مفعول کو فاعل پر مقدم کرنا جیساکہ اس آیت میں :
(ِیَّاکَ نَعْبُدُ وَِیَّاکَ نَسْتَعِینُ) (٢)
'' ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں۔ ''
حصر پر دلالت کرتی ہے۔
اللہ کے اس قول (لَہُ الْخَلْقُ وَالَْمْرُ)کا مفہوم یہ ہے کہ خلق وامر صرف اللہ کی ذات کے ساتھ مختص ہے ۔اس میں اس کا کوئی شریک کار نہیں ۔اب ہم اس پوری آیت کو دیکھتے ہیں جیساکہ قرآن کریم میںوارد ہے کہ :
(ِنَّ رَبَّکُمْ اﷲُ الَّذِی خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالَْرْضَ فِی سِتَّةِ َیَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَی عَلَی الْعَرْشِ یُغْشِی اللَّیْلَ النَّہَارَ یَطْلُبُہُ حَثِیثًا وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ وَالنُّجُومَ مُسَخَّرَاتٍ بَِمْرِہِ َلاَلَہُ الْخَلْقُ وَالَْمْرُ تَبَارَکَ اﷲُ رَبُّ الْعَالَمِینَ) (٣)
''بے شک تمہارا مالک اللہ ہے جس نے آسمانوں و زمین کو چھ دن میں پیدا کیا پھر وہ جہاں کے انتظام کی طرف متوجہ ہوا۔وہ رات سے دن کو ڈھانپتا ہے اور
رات دن کے پیچھے لگی دوڑی آرہی ہے اور سورج اور چاند تاروں کو پیدا کیا کہ وہ سب اس کے حکم کے تابعدار ہیں۔ سن لو اسی نے سب کچھ پیدا کیا اسی کی حکومت ہے اللہ تعالیٰ کی بڑی برکت ہے جو سارے جہان کا مالک ہے۔''
..............
(١) سورہ اعراف،آیت٥٤۔
(٢) سورہ حمد،آیت٥۔
(٣) سورہ اعراف ،آیت٥٤۔
اس آیت کے مفہوم کا خلاصہ یہ ہے کہ اس کائنات میں ہر چیز اللہ کے حکم کے تابع ہے لہٰذا خلق اور امر و حکومت بھی اسی کیلئے ہے چنانچہ امرونہی اللہ کے لئے ہے لہٰذا کسی اور کوامر ونہی کرنے کا حق نہیں ہے۔اللہ کی ذات کے ساتھ امر کے خاص ہونے کا مقصود یہ ہے کہ اقتدار و سلطنت صرف اسی کے قبضہ و قدرت میں ہے نہ کہ اس کے غیر کے۔لہٰذا امر کا معنی سلطنت اور حکم کے ہے اور اسی لئے ان دونوں کیلئے امارت کا لفظ استعمال ہوتا ہے اور قائد او رحاکم کیلئے ''امیر کا لفظ'' آیا ہے۔یہ آیت حاکمیت کے ذات باری تعالیٰ پر موقوف و منحصر ہونے پر دلالت کرتی ہے اور جب یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ حاکمیت و اقتدار اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے تو یہ بات بھی خودہی واضح ہوجاتی ہے کہ اللہ ہی انسانی معاشرے کا حاکم مطلق ہے۔ وہی اپنی نیابت میں انسان کیلئے امام و قائد کا انتخاب کرتا ہے اور حاکم و امام اور امیر کے تعین کا حق صرف اللہ تعالیٰ کی ذات کو حاصل ہے۔