پہلی بحث

قرآن میں امامت کا مفہوم
قرآن کریم میں امامت کا معنی انسانی استطاعت کی حد تک اسے عروج کمال تک پہنچانا۔
امامت قرآن کریم کے مفہوم کے مطابق صرف دینی امور میں عبادت کا معنی نہیں رکھتا اور عبادات کے علاوہ اس سے صرف دنیاوی امور کی امامت مراد نہیں ہے بلکہ امامت سے مراد انسان کی اس کے تمام افعال اختیاری میں قیادت و رہنمائی ہے۔ بالفاظ دیگر وہ فعل امامت کے دائرے میں آتا ہے جو عدل و ظلم کا احتمال رکھتا ہو خواہ وہ فعل اجتماعی ہو یا انفرادی ، اس کا تعلق دنیا سے ہو یا آخرت سے۔ اسی طرح اس پر حق کا اطلاق ممکن ہو یاباطل کا ،اس میں ضلالت کا پہلو ہو یا ہدایت کا، اس فعل میں امامت کی ضرورت ہے۔

قرآن کریم میں امامت کی تفصیلات و صفات کا ذکر
قرآن کی روشنی میں امامت کے مفہوم کی یقین و تحدید کرنے کیلئے اس بات کی طرف اشارہ مناسب ہوگا کہ قرآن کریم میں امامت سے متعلق تفصیلات تین طرح کی ہیں۔
پہلی صفت: امامت ان تمام شرائط کو شامل کرتی ہے جن میں لوگوں کا اختلاف پایا جائے اس کا مطلب یہ ہے کہ امامت ہر قسم کے ارادی فعل پر مشتمل ہوگی، کیونکہ اختلاف کا تعلق ارادہ سے ہی ہے۔ اس کے بغیر اس کا تحقق ممکن نہیں اور فعل ِغیر ارادی میں اختلاف کا وجود نہیں ہوتا۔ چنانچہ غیر ارادی طور پر وجود پذیر ہونے والی تمام چیزیں اپنے اثرات و نتائج میں یکساں اور متحد ہوتی ہیں اور جب ایک انسان دوسرے سے اختلاف کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک شخص کسی اور چیز کا خواہشمند ہوتا ہے اور دوسرا شخص دوسری چیز کا۔ چنانچہ اس طرح دونوں کے درمیان اختلاف کا ظہور ہوتا ہے اختلاف کا مفہوم یہی ہے جو انسانی ارادے کے تحت وجود میں آتا ہے۔ بہرحال جہاں تک فعل غیر ارادی کا تعلق ہے تو اس میں اختلاف کا امکان نہیں ۔بلکہ اس کی حیثیت ایک طبیعی عمل کی ہوتی ہے۔
دوسری صفت: امامت ہر اس شے کو شامل کرتی ہے جس میں عدل و ظلم کا احتمال ہو۔
تیسری صفت: امامت الٰہیہ کا تعلق یکساں طور پر فرد اور معاشرے سے ہے ۔ دینی اور دنیوی امور سے بھی اور مادی و معنوی امور سے بھی۔ گویا کہ اس کا تعلق انفرادی و اجتماعی سطح پر انسان کے تمام تر افعال اختیاریہ سے ہوتا ہے۔قرآن میں ایسی متعدد آیات ہیں جن سے امامت کے مفہوم میں شامل ان تینوں صفات یا شرائط کی توثیق و تائید ہوتی ہے۔ پھر یہ کہ قرآن کا متعین کردہ امامت کا یہ مفہوم بنفسہ منصب امامت کی تعیین کی ضرورت پر دلیل کے طور پر کافی ہے۔ نیز یہ بھی کہ امام کا تقرر اللہ سبحانہ کی طرف سے ہو۔ کیونکہ انسان کو اس کے افعال اختیاریہ میں خوبی و کمال تک پہنچانا نص اور وحی الٰہی کے بغیر ممکن نہیں۔اللہ عزوجل کا ارشاد ہے:
(فَلاَ تُزَکُّوا َنفُسَکُمْ ہُوَاعْلَمُ بِمنْ اتَّقَی) (١)
''تو اپنی پاکیزگی مت جتائو وہ خوب جانتا ہے کون پرہیزگار ہے۔ ''
..............
(١) سورہ نجم ،آیت ٣٢۔
دوسری جگہ باری تعالیٰ نے فرمایا :
(بَلْ اﷲُ یُزَکِّی منْ یَشَاء) (١)
''بلکہ اللہ جس کو چاہتا ہے پاک اور مقدس کرتا ہے۔''
سب سے پہلے یہاں قرآن کی چند آیتیں پیش کی جاتی ہیں جن سے امامت کے مفہوم مذکورہ تین صفات کی روشنی میں تعیین ہوسکے، باری تعالیٰ فرماتا ہے ۔
(َامْ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِہِا َوْلِیَاء فَاﷲُ ہُوَ الْوَلِیُّ وَہُوَ یُحْیِ المَوْتَی وَہُوَ عَلَی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیر ں وَ مَا اخْتَلَفْتُمْ فِیہِ مِنْ شَیْئٍ فَحُکْمُہُ ا ِلَی اﷲِ ذَلِکُمْ اﷲُ رَبِّی عَلَیْہِ تَوَکَّلْتُ وَِالَیْہِ اُنِیبُ) (٢)
''کیا ان لوگوں نے اللہ تعالیٰ کے سوا (دوسروں) کو سرپرست بنایا۔ تو سرپرست اللہ ہی ہے اور وہی مردوں کو زندہ کرے گا اور وہی سب کچھ کرسکتا ہے۔اور جس بات میں تم اختلاف کرو تو اس کا آخری فیصلہ اللہ تعالیٰ کے حوالے ہے۔ (لوگوں) یہی تو اللہ ہے میرا مالک ،اسی پر میرا بھروسہ ہے اور اسی کی طرف میں رجوع کروں گا۔''
..............
(١) سورہ نساء ،آیت٤٩۔
(٢) سورہ شوریٰ ،آیت٩،١٠۔
بلاشہ یہ آیت دو بنیادی مفاہیم کی توثیق کرتی ہے۔
(١) بے شک اللہ ہی ولی ہے ،اور انسان کیلئے جائز نہیں ہے کہ وہ اللہ کے علاوہ کسی دوسرے کو ولی بنائے۔
(٢) ہر وہ چیز جس میں لوگ اختلاف کرتے ہوں، اس کا فیصلہ کرنے کا حق صرف اللہ کو حاصل ہے۔
اور جب ہم ان دونوں مفاہیم کو ایک دوسرے کے ساتھ ملا کر دیکھتے ہیں تو یہ بات پورے طور پر واضح ہوجاتی ہے کہ حکومت و ولایت کا اصل حقدار صرف اللہ ہی ہے۔ اور اس کا کوئی شریک نہیں۔ لوگوں کے امور کی انجام دہی اور اس کی ولایت اور اس کا حکم و فیصلہ زندگی کے کسی ایک میدان میں منحصر نہیں ہے بلکہ وہ تمام مختلف فیہ اشیاء کو محیط ہے۔ اور مختلف فیہ شی، ہر وہ فعل ارادی ہے جسے انسان ایسے اسباب و عوامل کے تحت اختیار کرتا ہے جو اس کے ارادہ کا رخ متعین کرتے ہیں۔ فعل ارادی وہ شیٔ ہے جس میں لوگ اپنی خواہشات ،ضروریات ،طریقۂ کارمیں اختلاف کرتے ہیں اور مائدہ کی دوسری دو آیتوں کو ملاکر دیکھتے ہیں تو ہمارے سامنے قرآنی امامت کی شکل مکمل طو رپر واضح ہوجاتی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
(اِنَّمَا وَلِیُّکُمْ اﷲُ وَ رَسُولُہُ وَ الَّذِینَ آمَنُوا الَّذِینَ یُقِیمُونَ الصَّلاَ ةَ وَیُؤْتُونَ الزَّکَاةَ وَہُمْ رَاکِعُونَ ں وَ منْ یَتَوَلَّ اﷲَ وَرَسُولَہُ وَالَّذِینَ آمَنُوا فَِانَّ حِزْبَ اﷲِ ہُمْ الْغَالِبُونَ) (١)
''تمہارے دوست اللہ اور اس کا رسول ۖ اور ایمان والے ہیں جو درستی سے نماز ادا کرتے ہیں اور زکوٰة دیتے ہیں اور وہ جھکے رہتے ہیں اور جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ۖ اور ایمان والوں سے دوستی رکھے گا اور اللہ کا ہی گروہ غالب رہے گا۔''
..............
(١) سورہ مائدہ ،آیت ٥٥،٥٦۔
ان دونوں آیتوں سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اللہ کی ولایت اور اس کے رسول کی ولایت اور مومنین کی ولایت مطلق ہے کسی ایک میدان یا کسی ایک موضوع کے ساتھ مقید نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔
(وَاِذْ ابْتَلَیاا ِبْرَاہِیمَ رَبُّہُ بِکَلِمَاتٍ فََاتَمَّہُنَّ قَالَ اِِنِّی جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ ا ِمَامًا قَالَ وَمِنْ ذُرِّیَّتِی قَالَ لاَ یَنَالُ عَہْدِی الظَّالِمِینَ) (١)
''اور(یاد کرو) جب ابراہیم کو اس کے پروردگار نے کئی باتوں سے آزمایا اس نے باتوں کو پورا کیا ۔پروردگار نے فرمایا میں تجھ کو لوگوں کا سردار بنائوں گا (تاکہ قیامت تک لوگ تیری پیروی کریں) ابراہیم نے کہا اور میری اولاد کو فرمایا جو ظالم (بے انصاف) ہیں ان تک میرا یہ اقرار نہ پہنچے گا۔''
پس اللہ تعالیٰ نے یہاں امامت کو تمام کیلئے شامل مطلق قرار دیا جن کیلئے امام ہونا ممکن ہے ۔اور آیت (اِِنِّی جَاعِلُکَ ِمَامًا)سے مراد ہر وہ شیٔ جس میں لوگوں کو کسی امام و رہنما کی ضرورت ہو اور یہ صرف دنیا و آخرت فردی اور اجتماعی امور وغیرہ تک محدود و مقید نہیں ہے۔
(ِانَّا َنزَلْنَااِلَیکَ الْکِتَابَ بِالْحَقِّ لِتَحْکُمَ بَیْنَ النَّاسِ بِمَااَرَاکَ اﷲُ) (٢)
''(اے پیغمبر) ہم نے تجھ پر جو سچی کتاب اتاری تو اس لئے کہ لوگوں کا فیصلہ تو اس طرح کرے جس طرح اللہ تعالیٰ نے رجھ کو دکھلایا۔''
..............
(١) سورہ بقرہ ،آیت١٢٤۔
(٢) سورہ نساء ،آیت١٠٥۔
اس خطاب کے مخاطب رسول اللہ ۖ ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ آپۖ لوگوں کے

درمیان تمام امور میں فیصلہ فرمائیں جن میں لوگ فیصلے کے محتاج ہوں۔ یہاں بھی لفظ ''جَعَلَ'' مطلق ہے کسی امر خاص کے ساتھ مقید نہیں ہے چنانچہ آپ ۖ لوگوں کے درمیان ان کے ہر پیش آمدہ مسئلہ میں فیصلہ کرتے ہیں۔اللہ تعالیٰ نے مزید فرمایا:
(یَاَایُّہَا الَّذِینَ آمَنُوااطِیعُوا اﷲ ا وََطِیعُوا الرَّسُولَ وَُاوْلِی الَْا مْرِ مِنْکُمْ) (١)
''مسلمانو! اللہ کا حکم مانو اور اس کے رسول کا اور حکم مانو اور حکومت والوں کا جو تم میں سے ہوں۔''
..............
(١) سورہ نساء ،آیت ٥٩۔
یہاں بھی ''َطِیعُوا'' کا صیغہ مطلق ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ہر اس چیز میں اطاعت کرو جس کا وہ لوگ تمہیں حکم دیتے ہیں اور اطاعت کا موضوع کسی امر معین کے ساتھ مقید نہیں۔ چنانچہ وہ اطاعت و فرماں برداری جس کا ہمیں حکم دیا گیا ہے اس کاتعلق تمام اوامر و نواہی سے ہے۔
یہ بات بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ توحید کی طرح ہی امامت کو مرکز توجہ بنایا ہے۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ امامت سے متعلق آیات ان سے کم نہیں ہیں جن کا تعلق توحید سے ہے۔ قرآن میں اکثر جگہوں پر توحید کے ذکر کے فوراً بعد امامت اور قیادت الٰہیہ کا ذکر ملتا ہے جیسا کہ مندرجہ زیل آیات سے واضح ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
(ِانَّ اﷲَ لاَ یَغْفِرُ اَنْ یُشْرَکَ بِہِ وَیَغْفِرُمَادُونَ ذَلِکَ لِمنْ یَشَاء وَمنْ یُشْرِکْ بِاﷲِ فَقَدْ افْتَرَی اِثْمًا عَظِیمًا ںالَمْ تَرَا ِلَی الَّذِینَ یُزَکُّونَ اَنفُسَہُمْ بَلْ اﷲُ یُزَکِّی منْ یَشَاء وَلاَ یُظْلَمُونَ فَتِیلًا ں انظُرْ کَیْفَ یَفْتَرُونَ عَلَی اﷲِ الْکَذِبَ وَکَفَی بِہِ ِثْمًا مُبِینًا ں َلَمْ تَرَا ِلَی الَّذِینَ ُوتُوا نَصِیبًا مِنْ الْکِتَابِ یُؤْمِنُونَ بِالْجِبْتِ

وَ الطَّاغُوتِ وَیَقُولُونَ لِلَّذِینَ کَفَرُوا ہَؤُلاَئِ َہْدَی مِنْ الَّذِینَ آمَنُوا سَبِیلًا ں ُوْلَئِکَ الَّذِینَ لَعَنَہُمْ اﷲُ وَمنْ یَلْعاَنْ اﷲُ فَلاَنْ تَجِدَ لَہُ نَصِیرًا ںام لَہُمْ نَصِیب مِنْ الْمُلْکِ فَِذًا لاَیُؤْتُونَ النَّاسَ نَقِیرًا ںام یَحْسُدُونَ النَّاسَ عَلَی مَا آتَاہُمْ اﷲُ مِنْ فَضْلِہِ فَقَدْ آتَیْنَا آلَا ِبْرَاہِیمَ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَةَ وَآتَیْنَاہُمْ مُلْکًا عَظِیمًا ں فَمِنْہُمْ منْ آمَنَ بِہِ وَ مِنْہُمْ منْ صَدَّ عاَنْہُ وَکَفَی بِجَہَنَّمَ سَعِیرًا انَّ الَّذِینَ کَفَرُوا بِآیَاتِنَا سَوْفَ نُصْلِیہِمْ نَارًا کُلَّمَا نَضِجَتْ جُلُودُہُمْ بَدَّلْنَاہُمْ جُلُودًا غَیْرَہَا لِیَذُوقُوا الْعَذَابَاانَّ اﷲَ کَانَ عَزِیزًا حَکِیمًا ں وَالَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ سَنُدْخِلُہُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِی مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہَارُ خَالِدِینَ فِیہَا َبَدًا لَہُمْ فِیہَا َزْوَاج مُطَہَّرَة وَ نُدْخِلُہُمْ ظِلًّا ظَلِیلًا انَّ اﷲَ یَْمُرُکُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الَْمَانَاتِا ِلَی َہْلِہَا وَ ِذَا حَکَمْتُمْ بَیْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْکُمُوا بِالْعَدْلِاانَّ اﷲَ نِعِمَّا یَعِظُکُمْ بِہِاانَّ اﷲَ کَانَ سَمِیعًا بَصِیرًا ں یَاَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا َطِیعُوا اﷲَ وََطِیعُوا الرَّسُولَ وَُوْلِی الَْمْرِ مِنْکُمْ فَِانْ تَنَازَعْتُمْ فِی شَیْئٍ فَرُدُّوہُا ِلَی اﷲِ وَالرَّسُولِ ِنْ کُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاﷲِ وَ الْیَوْمِ الْآخِرِ ذَلِکَ خَیْر وَ َحْسَنُ تَْوِیلًا ں َلَمْ تَرَا ِلَی الَّذِینَ یَزْعُمُونَ َنَّہُمْ آمَنُوا بِمَا ُنزِلَا ِلَیکَ وَ مَا ُنزِلَ مِنْ قَبْلِکَ یُرِیدُونَ اَنْ یَتَحَاکَمُوا ِلَی الطَّاغُوتِ وَ قَدْ ُمِرُوا اَنْ یَکْفُرُوا بِہِ وَ یُرِیدُ الشَّیْطَانُ اَنْ یُضِلَّہُمْ ضَلاَلًا بَعِیدًا ں وَِذَا قِیلَ لَہُمْ تَعَالَوْا ِلَی مَا َنزَلَ اﷲُ وَِلَی الرَّسُولِ رََیْتَ الْمُنَافِقِینَ یَصُدُّونَ عاَنْکَ صُدُودًا ں فَکَیْفَ ِذَا َصَابَتْہُمْ مُصِیبَة بِمَا قَدَّمَتْ َیْدِیہِمْ ثُمَّ جَائُوکَ یَحْلِفُونَ بِاﷲِ ِنْ َرَدْنَا ِلاَّ ِحْسَانًا وَ تَوْفِیقًا ں ُوْلَئِکَ الَّذِینَ یَعْلَمُ اﷲُ مَا فِی قُلُوبِہِمْ فََعْرِضْ عاَنْہُمْ وَعِظْہُمْ وَقُلْ لَہُمْ فِی َنفُسِہِمْ قَوْلًا بَلِیغًا ں وَمَا َرْسَلْنَا مِنْ رَسُولٍا ِلاَّ لِیُطَاعَ بِِذْنِ اﷲِ وَلَوْ َنَّہُمْ ِذْ ظَلَمُوا َنفُسَہُمْ جَائُوکَ فَاسْتَغْفَرُوا اﷲَ وَاسْتَغْفَرَلَہُمْ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اﷲَ تَوَّابًا رَحِیمًا ں فَلاَ وَرَبِّکَ لاَ یُؤْمِنُونَ حَتَّی یُحَکِّمُوکَ فِیمَا شَجَرَ بَیْنَہُمْ ثُمَّ لاَ یَجِدُوا فِی َنفُسِہِمْ حَرَجًا مِمَّا قَضَیْتَ وَ یُسَلِّمُوا تَسْلِیمًا ں وَ لَوْ َنَّا کَتا بْنَا عَلَیْہِمْ اَنْ اقْتُلُوا َنفُسَکُمْ َوْ اخْرُجُوا مِنْ دِیَارِکُمْ مَا فَعَلُوہُ ا ِلاَّ قَلِیل مِنْہُمْ وَ لَوْ َنَّہُمْ فَعَلُوا مَا یُوعَظُونَ بِہِ لَکَانَ خَیْرًا لَہُمْ وَ َشَدَّ تَثْبِیتًا ں وَ ِذًا لَآتَیْنَاہُمْ مِنْ لَدُنَّا َجْرًا عَظِیمًا ں وَ لَہَدَیْنَاہُمْ صِرَاطًا مُسْتَقِیمًا ں وَمنْ یُطِعْ اﷲَ وَالرَّسُولَ فَُوْلَئِکَ مَعَ الَّذِینَ اَنْعَمَ اﷲُ عَلَیْہِمْ مِنْ النَّبِیِّینَ وَالصِّدِّیقِینَ وَ الشُّہَدَائِ وَ الصَّالِحِینَ وَ حَسُنَ ُوْلَئِکَ رَفِیقًا ں ذَلِکَ الْفَضْلُ مِنْ اﷲِ وَکَفَی بِاﷲِ عَلِیمًا) (١)
''بے شک اللہ تعالیٰ شرک کو تو بخشنے والا نہیں اور شرک کے سوا (جو گناہ) ہیں جس کو چاہے بخش دے (اور جس کو چاہے نہ بخشے عذاب کرے) اور جس نے اللہ کے ساتھ شرک کیا اس نے بڑا گناہ باندھا۔ (اے پیغمبر) کیا تو نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو اپنے تئیں آپ پاک (اور مقدس)کہتے ہیں (یہ سب غلط ہے)بلکہ اللہ جس کو چاہتا ہے پاک (اور مقدس) کرتا ہے۔ اور ایک تاگے برابر بھی ان پر ظلم نہ ہوگا۔(اے پیغمبر) دیکھ اللہ پر کیسا جھوٹ باندھتے ہیں او ریہی(یعنی جھوٹ) کھلا گناہ ہونے کے لئے کافی کرتا ہے۔(اے پیغمبر) کیا تو نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جن کو(اللہ کی) کتاب کا ایک ایک حصہ ملا وہ بت اور شیطان کو ماننے لگے اور کافروں(مکہ کے مشرکوں) کو کہتے ہیں کہ مسلمانوں سے تو یہ زیادہ ٹھیک راہ پرہیں۔ انہی لوگوں پر اللہ نے لعنت کی ہے اور جس پر اللہ لعنت کرے اس کا کوئی مددگار تو نہ پائے گا( جو اس کو عذاب سے بچائے)بھلا ان کے پاس سلطنت کا کوئی حصہ ہے اگر ہو تو لوگوں کو کھجور کی گھٹلی کے شگاف برابر بھی نہ دیں۔یا

جو اللہ نے اپنے فضل سے لوگوں کو دیا۔ ان سے حسد کرتے ہیں ۔یہ (کوئی نئی بات نہیں) ہم نے ابراہیم کی اولاد (دائود اور سلیمان٪) کو کتاب اور پیغمبری دی تھی اور ہم نے ان کو بڑی سلطنت بھی دی تھی پھر ان میں سے کوئی تو اس پر ایمان لایا اور کوئی اس پر ایمان لانے سے رک رہا(یا لوگوں کو روک دیا) اس کو دوزخ کی دھکتی ہوئی آگ کافی ہے جن لوگوں نے ہماری آتیوں سے انکار کیا ان کو ہم آگ میں ڈالیں گے۔ ہر بار جب ان کی کھال گل جائے گی تو ہم ان پر دوسری کھالیں چڑھائیں گے اس لئے کہ عذاب کا مزہ چکھتے رہیں۔ بے شک اللہ تعالیٰ زبردست ہے حکمت والا ہے۔ اور جو ایمان لائے اور نیک کام کئے ان کو ہم باغوں میں لے جائیں گے جن کے تلے نہریں بہہ رہی ہیں اور وہ ہمیشہ ہمیشہ ان میں رہیں گے ان کو صاف ستھری بیویاں ملیں گی۔ اور ہم ان کو گھنے ہوئے سائے میں لے جائیں گے۔ (مسلمانو)اللہ تم کو حکم کرتا ہے کہ امانتیں امانت والوں کو پہنچائو۔ اور جب لوگوں کا(مقدمہ) فیصلہ کرو تو انصاف سے فیصلہ کرو۔ اللہ تعالیٰ تم کو اچھی نصیحت کرتا ہے۔ بے شک اللہ تعالیٰ سنتا اور دیکھتا ہے۔ مسلمانو اللہ تعالیٰ کا حکم مانو اور اس کے رسول کا حکم مانو اور حکومت والوں کا جو تم میں سے ہوں ۔پھر اگر تم میں کسی مقدمہ میں جھگڑا ہو تو اس کو اللہ تعالیٰ اور رسول کی طرف رجوع کرو اگر تم کو اللہ اور پچھلے دن پر ایمان ہے۔ یہ (تمہارے حق میں)بہتر ہے اور اس کا انجام بہت اچھا ہے۔ (اے پیغمبر)کیا تو نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو (منہ سے)کہتے ہیں ہم اس پر ایمان لائے جو تجھ پر اترا (یعنی قرآن پر)اور جو تجھ سے پہلے (اور پیغمبروں پر) اترا (باوجود اس کے) وہ چاہتے ہیں کہ اپنا مقدمہ شیطان کے پاس لے جائیں۔ حالانکہ ان کو حکم ہو چکا ہے کہ شیطان کی بات نہ مانیں اور شیطان چاہتا ہے کہ ان کو بہکا کر دور پھینک دے۔اور جب ان سے کہا جاتا ہے اس طرف آئو جو اللہ نے اتارا اور رسول کی طرف تو منافقوں کو دیکھتا ہے تو رک کر منہ پھیر لیتے ہیں پھر اس وقت ان کا کیا حال ہوگا (کیسے ذلیل و خوار ہوں گے) جب انہی کے کاموں کی سزا میں ان پر کوئی مصیبت آن پڑے گی اور اللہ کی قسم کھاتے ہوئے تیرے پاس آئیں گے کہ ہم تو صرف سلوک اور میل جول چاہتے تھے۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کے دلوں کی باتیں اللہ تعالیٰ جانتا ہے۔ تو ان سے درگذر کر اور ان کو سمجھا دے۔ اور ایسی بات کہہ جو ان کے دل پر چوٹ لگائے۔ اور ہم نے جو رسول بھیجا وہ اسی لئے کہ اللہ کے حکم سے اس کا کہا مانا جائے اور اگر یہ لوگ جس وقت انہوں نے قصور کیا تھا تیرے پاس آ کر اللہ تعالیٰ سے معافی مانگتے اور(پیغمبر بھی) یعنی تو بھی ان کیلئے معافی چاہتا تو بے شک اللہ تعالیٰ کو بڑا معاف کرنے والا مہربان پاتے۔(اے پیغمبر)قسم ہے تیرے پروردگار کی وہ مومن نہ ہوں گے جب تک اپنے جھگڑوں کا فیصلہ تجھ سے نہ کرائیں پھر تیرے فیصلہ سے ان کے دلوں میں کچھ اداسی نہ ہو اور (خوشی خوشی) مان کر منظور کرلیں۔ اور اگر ہم ان کو (یعنی ان منافقوں کو) حکم دیتے کہ اپنے آپ کو مار ڈالو یا اپنے دیس سے نکل جائو تو ان میں چند لوگوں کے سوا کوئی اس پر عمل نہ کرتا اور اگر یہ لوگ (یعنی منافق) جو ان کو نصیحت کی جاتی ہے اس پر چلتے تو ان کے حق میں بہتر ہوتا اور دین پر خوب جمے رہتے۔ اور اس وقت (جب وہ ایسا کرتے) ہم ان کو اپنے پاس سے بڑا ثواب دیتے اور ان کو سیدھی راہ پر ضرور لگادیتے اور جو لوگ اللہ تعالیٰ اور رسولۖ کا کہا مانیں وہ جنت میں ان لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن کو اللہ تعالیٰ نے سرفراز کیا یعنی پیغمبر اور سچے لوگ اور شہید اور نیکوں کے ساتھ اور وہ بہتر رفیق ہیں یہ فضل اللہ کی طرف سے ہے اور یہ بات کافی ہے کہ وہ(بندوں کے حالات نیتوں اور اعمال) سے آگاہ ہے۔ ''
..............
(١) سورہ نساء ،آیت ٤٨ تا ٦٩۔
ان آیات میں قرآن کریم نے پہلے توحید کے مفہوم سے اپنی بات کی ابتداکی ہے پھر امامت کے موضوع کی طرف منتقل ہوا۔ جس سے اس بات کی توثیق ہوتی ہے کہ توحید الٰہی کی تکمیل عملی طور پر صرف اور صرف ربّانی قیادت کے ضمن میں ہی ہوتی ہے۔
قرآن کریم نے امامت کے مقاصد اور اس کے مضمون و مصداق اور حدود و واجبات کو مدنظر رکھتے ہوئے بکثرت آیات میں امامت پر زور دیا ہے' جیساکہ سورئہ حدید میں اللہ تعالیٰ فرماتاہے:
(لَقَدْ َرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَیِّنَاتِ وَاَنْزَلْنَا مَعَہُمْ الْکِتَابَ وَالْمِیزَانَ لِیَقُومَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ) (١)
''ہم تو اپنے پیغمبروں کو کھلی کھلی نشانیاں دے کر بھیج چکے اور ان کے ساتھ کتاب اتاری (تورات ،انجیل ،زبور ،قرآن) اور انصاف کا ترازو اتارا۔ اس لئے کہ لوگ انصاف پر قائم رہیں۔''
..............
(١) سورہ حدید،آیت ٢٥۔
چنانچہ ان کی قیادت و رسالت اور امامت کا مقصد یہ ہے کہ لوگ انصاف کو قائم کریں اور وہ چیز جس کا اس بات میں دخل ہوکہ لوگ اس میں انصاف کی روش اختیار کریں،تو وہ ان میں آئمہ کیوں کہ انہیں اس بات کا ذمہ دار بناکر بھیجا گیا ہے کہ لوگ انصاف قائم کریں۔ ہر وہ چیز جو لوگوں کیلئے انصاف فراہم کرے، اور عدل قائم کرے یا لوگوں سے ظلم کا خائمہ کرے تو وہ اس میں امام ہیں۔
اسی طرح وہ آیات بھی مطلق ہیں جن میں اللہ اور نبی کریم ۖ اور دیگر رسولوں کی اطاعت پر زور دیا گیا ہے۔
اللہ نے فرمایا:
(َطِیعُوا اﷲَ وَالرَّسُولَ) (١)
''اللہ اور رسول کی اطاعت و فرمانبرداری کرو۔''
اللہ نے بڑے بزرگ انبیاء اور رسل کی زبان سے یہ کہلوایا:
(فَاتَّقُوا اﷲَ وََطِیعُونِی) (٢)
''اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔''
..............
(١) سورہ آل عمران ،آیت٣٢۔
(٢) سورہ شعراء ،آیت١٥٠۔
ہمیں ہرگز ہرگز ایک بھی ایسی آیت نہیں ملتی ہے جس سے یہ معلوم ہوکہ اللہ کی اطاعت صرف اخروی امور میں یا قبر کے بعد کی زندگی میں صرف عبادت میںخدا کی عبادت کا حکم دیا گیا ہے۔ ''َطِیعُونِی'' کا لفظ مطلق مذکور ہے اور دینی اور دنیاوی تمام امور پر مشتمل ہے اللہ نے اپنے نبی صالح ـ کی زبان سے کہلوایا :

(فَاتَّقُوااﷲَ وََطِیعُونِی ں وَلاَ تُطِیعُواَمْرَالْمُسْرِفِینَ ں الَّذِینَ یُفْسِدُونَ فِی الَْرْضِ وَلاَ یُصْلِحُونَ) (١)
''اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو اور مسرفین کے حکم کی اطاعت مت کرو جو لوگ زمین میںفسادوبگاڑپھیلاتے ہیںاوراصلاح نہیںکرتے ہیں۔''
..............
(١) سورہ شعراء ،آیت ١٥٠ تا ١٥٢۔
یعنی میری اطاعت کرو فساد پھیلانے والوں کی اطاعت مت کرو اس آیت شریفہ میں نبی صالح ـ اپنی قوم کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔
''میں تمہارے پاس آیا تاکہ اس زندگی میں تمہاری قیادت و امامت کروں اور تمام امور کی باگ ڈور میرے ہاتھ میں ہو او رمیں متکبرین اور مفسدین کی اطاعت کرنے سے تمہیں روکوں۔''
چنانچہ امامت قرآنی مفہوم کے اعتبار سے دنیاوی اور دینی ا مور میں ریاست عامہ سے عبارت ہے یا جیساکہ ہم نے پہلے کہا امامت انسان کو اس کے افعال اختیاریہ میں عروج کمال تک پہنچاتی ہے۔ قرآن کی نظر میں امامت کا مفہوم ہے۔