قرآن کی روشنی میں نظریہ امامت



مقدمہ
اسلام میں امامت کی بحث محض عقیدے کی بحث نہیں ہے، بلکہ وہ حقیقت میں اسلام کے مفہوم کی تحدید و تعیین اور اس کے مصداق کے عملی اجراء کی بحث ہے۔ یہ ان چیزوں کے علاوہ جو کلامی، فلسفیانہ اور فقہی نتائج کی شکل میں امامت کی بحث میں غور و خوض سے نظریاتی اور تحقیقی سطح پر سامنے آتے ہیں۔
نص کے قائلین کا یہ نظریہ انفرادی اور اجتماعی دونوں سطحوں پر خالق و مخلوق کے مابین ایسا ربط قائم کرتا ہے جو اس کی تمام تر حرکاتِ ارادیہ و اختیاریہ کو شامل ہوں۔ نیز خدا کے لئے عبودیت کے حق کو وہ اس انداز و اسلوب میں واضح کرتا ہے کہ ممکنہ حد تک اس کے ذریعے انجام پانے والے تمام ارادی اعمال و افعال اللہ کی مرضی کے تابع ہوجاتے ہیں۔
اس تصور کے تحت خدا یا پروردگار کسی ایسی ہستی کا نام نہیں جس کی محض مذہبی اور روایتی رسم و رواج کے تحت عبادت کر لی جائے، وہ ایسا خدا بھی نہیں ہے جو مساجد و معابد کی دیواروں میں مقید ہو، نہ ہی وہ آباواجداد کی طرح کی کوئی خیالی ہستی ہے جس کی اس حیثیت سے تقدیس و تکریم کی جائے اور اس کے زمانۂ ماضی میں گزر جانے والی شخصیتوں کا تصور ذہن میں بٹھا کر یہ سمجھ لیا جائے کہ ان کی طرح سے اللہ تعالیٰ کی ذات بھی موجودہ کائنات و مخلوقات میں کسی قسم کا کوئی عمل دخل نہیں رکھتی۔ اسی طرح اس کی شخصیت کسی دیومالائی کہانی کے کردار کی مانند بھی نہیں جس کے ساتھ مافوق الفطرت اور خارق العادہ قوت و طاقت کا تصور شامل ہوتا ہے لیکن وہ محض فرضی اور خیالی ہوتے ہیں۔
اسی طرح یہ خدا صرف مردوں ،کمزروروں ،مصیبت زدگان اور پریشان حال لوگوں کا ہی خدا نہیں ہے اور نہ ہی وہ ایسا ہے کہ خود کو انسان اور اس کے اعمال و افعال سے کنارہ کش کرلے۔ آسمان کی بلندیوں سے وہ زمین پر پیش آنے والے احوال و واقعات کا مشاہدہ تو کرتا رہے لیکن ان میں دخل انداز نہ ہو، یہ خدا اس تصور سے بھی بالا و برتر ہے کہ وہ صرف نرم کلائی اور پند و نصائح کے ساتھ انسان کو مخاطب کرنے والا ہو۔ کوئی سخت بات یا موقف اس پر نہ اپنائے کہ مبادا اس سے ''شرفائے مغرورپن'' کے جذبات مجروح ہوجائیں یا اپنی مرضی کے مطابق زمین کو روندنے والے طاغوتوں کے دلوں کو ٹھیس پہنچ جائے۔
بہرحال یہ نظریہ کہ اللہ تعالیٰ زمین کے انتظام و انصرام سے دست کش ہوگیا اور زمانہ رسالت و وحی کے بعد اللہ تعالیٰ کو اس سے کوئی مطلب نہیں رہ گیا۔ چنانچہ وہ رسول اللہۖ کی وفات کے بعد سیاسی قیادت کے معاملے میں ''دخل نہیں دیتا'' ایک ایسا نظریہ ہے جو تناقص و تضاد سے خالی نہیں۔کہ ان کے اس واقعی قرآنی تصور کے درمیان جس کے تحت خدا کیلئے اس کامل و مکمل عبودیت کا اظہار ہوگاجس کے مطابق ان لوگوں کو ڈھالنا اور جس کی بنیاد پر انسانی معاشرہ کا قیام چاہتا ہے، اور اس تصور کے درمیان کہ قیادت کا معاملہ رسول اللہ کی وفات کے بعد ہر کس و ناکس کی مرضی و منت پر چھوڑ دیا گیا ہے ،کوئی منطقی جوڑ محسوس نہیں ہوتا........
رسول اللہ ۖ کی حیات مبارکہ کے بعد جو حوادث و واقعات پیش آئے۔ صرف تین دہائیاں گذرنے کے بعد ہی امت مسلمہ جس ابتر حالات کو پہنچی تھی کہ قوم کے جابر ،ملکی اقتدار پر قابض ہوکر عوام کی گردنوں پر سوار ہوگئے، لوگوں کو انہوں نے بے آبرو کیا۔ صالحین اور نیکوکاروں ، امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دینے والوں کا جس طرح انہوں نے قلع قمع کیا ۔ملکی ثروت اور قومی دولت کو تباہ و برباد کرنے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا۔ اور اس طرح امت مسلمہ ذلت و پسماندگی اور اختلاف و انتشار کی انتہا کو پہنچ گئی اس سے اس گمراہ کن اور فساد انگیز نظریہ کی حیثیت معلوم ہوجائے گی کہ اگر صاحبِ بصیرت اپنی دونوں آنکھوں کو کھول کر نبی کریم ۖ کے وفات کے بعد ہونے والے واقعات کا مشاہدہ کریں تو انہیںتلخ نتیجہ نظر آئے گا اور امامت و قیادت کے نظریے کو اہمیت نہ دینے کے اسباب خود بخود یقین کے ساتھ معلوم ہو جائیں گے۔جیساکہ باری تعالیٰ کا ارشاد ہے:
(وَرَبُّکَ یَخْلُقُ مَا یَشَاء وَیَخْتَارُ مَا کَانَ لَہُمْ الْخِیَرَةُ سُبْحَانَ اﷲِ وَ تَعَالَی عَمَّا یُشْرِکُونَ ں وَرَبُّکَ یَعْلَمُ مَا تُکِنُّ صُدُورُہُمْ وَمَا یُعْلِنُونَ ں وَ ہُوَ اﷲُ لاَِلَہَا ِلاَّ ہُوَ لَہُ الْحَمْدُ فِی الُْولَی وَالْآخِرَةِ وَلَہُ الْحُکْمُ وَِالَیْہِ تُرْجَعُونَ) (١)
''(اور اے پیغمبرۖ اصل بات تو یہ ہے)تیرا مالک جو چاہتا ہے وہ پیدا کرتا ہے اور جس کو چاہتا ہے (پیغمبری کیلئے) چن لیتاہے۔ بندوں کو کوئی (مستقل) اختیار نہیں ہے یہ جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ کا شریک بتاتے ہیں۔ اللہ تو ان سے کہیں پاک و برتر ہے۔ اور (اے پیغمبرۖ) جو باتیں اپنے دل میں چھپاتے ہیں اور جو کھولتے ہیں تیرا مالک ان (سب کو) جانتا ہے۔ اور وہی اللہ تو ہے جس کے
سوا کوئی سچا خدا نہیں دنیا اور آخرت میں اسی کو تعریف سجتی ہے اور (دونوں جگہ) اسی کی حکومت ہے اور اسی کے پاس تم کو لوٹ جانا ہے۔''
..............
(١) سورہ قصص ،آیت ٦٨ تا ٧٠۔
رسول اللہ ۖ کے بعد ربانی قیادت کے حاملین دین کی اصل شکل کو ہر حال میں باقی و محفوظ رکھنا چاہتے تھے ،اس کیلئے انہیں غیر شرعی اور غیر قانونی اقتدار رکھنے والوں کے ساتھ محتاط اور روشن سلوک اختیار کرنا پڑا۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ دین کی اصل حیثیت پارہ پارہ نہ ہوجائے اور اس میں کسی کو کوئی شک پیدا نہ ہو۔ یہ ربانی قائدین وفات رسول کے بعد سخت پیچیدہ معاملوں کے مابین تھے سچائی کا راستہ زیادہ کٹھن اور دشوار تھا۔یا تو وہ امامت بالنص کے اعلان پر قائم اور اس ذیل میں رسول اللہۖ کی احادیثِ مبارکہ پر زور دیتے رہیں۔ جن کو لوگوں نے بگوشِخود سنا تھا اور رسول اللہ ۖ کے مقربین کی طرف سے اس سلسلے میں انکار و مخالفت کا بچشمِ خود مشاہدہ کیا تھا اور اس نظریے کو غالب کرنے سے قاصر رہے تھے۔ یا پھر وہ دین کے اس رکنِ عظیم امامت و قیادت سے آنکھیں بند کرلیں۔ لیکن اس چشم پوشی میں دین کا ضیاع اور مستقبل میں اسلامی معاشرے کے زبردست مفاسد و خطرات سے دوچار ہونے کا اندیشہ تھا۔
لیکن دوسری طرف اقتدار میں وہ لوگ تھے جو رسول اللہ کی زندگی میں بھی آپ کی مخالفت اور آپ کی آراء میں اعلانیہ شک پیدا کرنے کی کوششوں سے باز نہیں آتے تھے۔ جیساکہ واقعہ مشہور ہے کہ مرض الوفات میں رسول اللہ ۖ نے اپنے پاس موجود بعض لوگوں سے کہا کہ ''وہ آپ کے پاس کاغذ اور دوات لے آئیں تاکہ رسول اللہ ۖ لوگوں کیلئے ایک ایسی تجویز لکھ دیں جس کے بعد لوگ کبھی گمراہی کا شکار نہ ہوں۔ تو بعض لوگوں نے اسے یہ کہہ کر رد کر دیا کہ رسول اللہ ۖ ہذیان گوئی کر رہے ہیں ،یا آپ پر شدت تکلیف کا غلبہ ہے۔ اور یہ کہ ہمارے لئے کتاب اللہ کافی ہے۔ اس کے بعد کسی اور تحریر کی ضرورت نہیں۔ چنانچہ ایسے لوگوں کے سامنے اگر وہ اعلان حق(امامیہ الٰہیہ) پر قائم رہتے اور ان اقتدار نشین جابروں کے ساتھ برسرپیکار ہونے کی کوشش کرتے تو لا محالہ یہ صورتحال پیش آتی کہ اقتدار سے زبردستی چپک جانے والے یہ لوگ اپنی اس غلط روش میں مزید پختہ ہوجاتے کہ وہ نہ صرف رسول اللہ ۖ سے متعلق بیان کی جانے والی باتوں بلکہ آپ کی احادیث مبارکہ میں شک پیدا کریں۔ اور آپ پر نعوذ باللہ ،ایسی تہمت لگائیں جو آپ کی شخصیت اور آپ کی حق گوئی کے منافی ہو۔
رسول اللہ ۖ کے قریب سمجھے جانے والے لوگوں کی طرف سے اگر ایسا ہوتا تو رسول اللہ اور آپۖ کی رسالت کے بارے میںشک کا دروازہ چوپٹ ہوجاتا اور یوں رسالت اسلامیہ اور دین کی بنیادیں جڑ سے اکھڑ جاتیں۔ لیکن دین کے اس اہم اور عظیم رکن کی حقیقت کو دنیا کی نگاہوں کے سامنے نہ لانے میں بھی اسلام کا مستقبل اور اسلامی اجتماعیت خطرے میں پڑتی نظر آرہی تھی جو حقیقی معنوں میں دین کی اصل بنیادوں کے ڈھہہ جانے سے کسی بھی طرح کم خطرناک نہ تھا۔ اس لئے ان الٰہی اور ربانی قائدین کے لئے ضروری تھا کہ وہ توسط و اعتدال کی راہ اختیار کریں۔ ایک طرف وہ مسلمانوں کو حکومت وقت کے ساتھ ٹکرائو سے دور رکھیں تو دوسری طرف وہ ان کے سامنے صحیح اسلامی امامت و قیادت کی حقیقت واشگاف کریں۔
چنانچہ انہوں نے اور ان لوگوں نے جن کے ایمان راسخ تھے اور رسول اللہ کے مقربین شمار کئے جاتے تھے ،رسول اللہ کی احادیث کو لوگوں کو ایسی نرم کلامی اور غیر نزاع انداز میں بتانا شروع کیا کہ جو حکومت وقت کو مشتعل کرنے کا باعث نہ ہو۔ ان میں سے کچھ تو امامت و خلافت کے ذیل میں قرآن میں وارد شدہ آیات کی تطبیق کی حیثیت رکھتی تھیں اور کچھ وہ تھیں جن میں رسول اللہ نے امامت کے مسئلہ میں حقائق وحی کی تشریح کی تھی ۔اور اس مسئلے کو سمجھایا تھا۔
اسی اسلوب کو رسول اللہۖ کی وفات کے بعد مسئلہ امامت کے اطہار و اعلان کیلئے قرآن کریم نے اختیار کیا ۔
چنانچہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں رسول اللہ کی وفات کے بعد امامت کے سلسلے میں ایسا اسلوب اختیار کیا جس میں ایک طرف فن کے متلاشیوں کے لئے پوری وضاحت و صراحت بھی ہو اور دوسری طرف ان لوگوں کے ساتھ براہ راست ٹکرائو سے بچا جاسکے جو رسول اللہ کے بعد حکومت کے پہلے سے ہی خواہشمند اور اس کے منتظر تھے اور اہل بیت یعنی دن لوگوں کی قیادت کو قبول کرنا ان پر گراں تھا جنہیں اللہ تعالیٰ نے منصب امامت کے لئے منتخب فرمایا تھا اور انہیں تمام عیبوں سے پاک فرمایا تھا۔
اگر کوئی شخص کتاب اللہ میں اچھی طرح غور و فکر کرے اور اپنی آنکھوں پر پڑے ہوئے ہوس اور عصبیت کے پردے کو ہٹائے تو اسے قرآن کریم میں بکثرت ایسی آیتیں نظر آئیں گی جن میں سے بعض میں اصول و قواعد اور بعض میں اس کے فروغ و مصادیق کے ساتھ امامت و ریاست کی حقیقت پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ اور اسے محسوس ہوگا کہ قرآن میں توحید کے نظریے کا خلاصہ یہی ولایت اور امامت الٰہیہ ہے جو ہمیشہ سے ہر عہد اور ہر دور میں جاری رہا اور آخر تک جاری رہے گا۔
رمضان ١٤١٨ ھ ق میں لندن میں مجھے بعض اسلامی اسکالرز اور اہل علم و دانش کے ساتھ امامت کے موضوع پر قرآن کریم میں موجود آیتوں سے متعلق بحث و مباحثہ کرنے کا موقع ملا۔ پھر میں نے اس سلسلے میں چار محاضرے تیار کئے جو دار الاسلام ہال میں ''امامة النص ف القرآن الکریم '' (نصب امامت کا نظریہ قرآن کی روشنی میں) کے عنوان کے تحت دیئے گئے ۔پھر حاضرین میں سے ہی کچھ لوگوں نے اسے ٹیب کی مدد سے قلم بند کرلیا۔
کچھ تغیر و تبدل اور اضافوں کے ساتھ وہ موجودہ شکل میں آپ کے سامنے ہے۔ ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے اپنی قبولیت حسنہ سے نوازے اور مومنین اور طالبانِ حق کو اس سے نفع پہنچائے۔
ان سمیع الدعاء قریب مجیب
محسن الآراکی