نام کتاب قرآن کی روشنی میں نظریہ امامت
مؤلف حجة الاسلام و المسلمین آیت اﷲ الحاج الشیخ محسن الآراکی
ترجمہ حجة الاسلام و المسلمین الحاج ذو القدر الرضوی النجفی
نظر ثانی محمد تقی
ناشر
طبع اوّل جون ٢٠١١ ء بمطابق
رجب المرجب ١٤٣٢ ھ ق
پیش لفظ
امامت اسلام کی نظر میں
رہبرِ شہید علامہ سید محمد باقر الصدر امت مسلمہ کیلئے امامت کی اہمیت اور اس کے عظیم کردار پر روشنی ڈالتے ہوئے فرماتے ہیں: امامت کے ذریعے دو قسم کے استناد ،ریاست و مرجعیت یا سربراہی مراد ہوتے ہیں۔ اول فکری استناد ، دوم سیاسی و اجتماعی معاملات میں مطلوب استناد، اور یہ دونوں استناد و اعتبار ِ رسول اللہۖ کی ذاتِ اقدس میں موجود ہیں ۔پھر حالات کے پیش نظر یہ بھی ضروری تھا کہ رسول اللہۖ اس استناد یا مرجعیت کو آگے بھی جاری رکھیں تاکہ فکری استناد کے ذریعے ان مشکلات پر قابو پایا جاسکے جو آگے چل کر مسلمانوں کو فکری طور پر پیش آسکتی ہیں۔ نیز جدید پیش آنے والے مسائل کا اسلامی نقطہ نظر سے جائزہ اور قرآن کریم کے پیچیدہ اور قرآن کریم کے مشکل مفاہیم کی صحیح توضیح کی جاسکے کیونکہ ظاہر ہے کہ قرآن کریم ہر قسم کے استناد اور مراجعیت کیلئے اساسی حیثیت رکھتا ہے اس کی ضرورت اس لئے بھی تھی کہ سیاست و معاشرت کے میدانوں میں یہ مراجعیت باقی رہے اور اجتماعی خطوط پر اسلامی فکر و فلسفہ کا کام بہتر طور پر انجام پذیر ہوتا رہے۔(١)
..............
(١) محمد باقر الصدر،بحث حول الولایة ،ص١٥۔
امام صدرکا خیال ہے کہ : اسلام کوئی بشری نظریہ نہیں ہے کہ جس کی فکری حد بندی عمل کے ذریعے کی جاسکے اور تجربات کے ذریعے اس کے معانی ظاہر ہوتے ہوں بلکہ وہ اللہ کا پیغام ہے جس میں تمام احکام کو تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے اور انہیں ان عام قوانین سے جوڑ دیا گیا ہے جن کی انسانی عمل کے تجربے میں ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ چنانچہ اس عمل کی رہنمائی کیلئے اس پیغام کی تمام تر تفصیلات اور اس کے احکام و مفاہیم کو شرح و بسط کے ساتھ ذہن میں رکھنا ضروری ہے ورنہ یہ عمل نا پختہ آراء اور پیش پا افتادہ فکری محوروں کو اختیار کرنے پر مجبور ہوگا اور یہ چیز اس عمل کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ بن جائے گی۔ خاص طور پر جب ہم یہ سوچیں کہ اسلام خدا کا آخری دین ہے جو زمان و مکان کی تمام تر قید و بندش سے آزادہوکر قیامت تک باقی رہنے کیلئے آیا ہے۔ یہی وہ چیز ہے جو اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ اسلام کی فکری قیادت جو مذکورہ جاری رہنے والے عمل کی بنیاد ہے ،ایسی غلطیوں کا شکار ہوجائے جو زمانے کے ساتھ مزید پیچیدہ اور خطرناک ہوکر اس عمل کے بالکل تعطّل کا باعث ہوں۔
اسلام اور امامت
اسلام اور امامت کے مفہوم کے درمیان قرآن اور منطقی نقطۂ نظر سے لازم و ملزوم کا تعلق پایا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے:
(شَرَعَ لَکُمْ مِنْ الدِّینِ مَا وَصَّی بِہِ نُوحًا وَالَّذِی اَوْحَیْنَا ا ِلَیْکَ وَمَا وَصَّیْنَا بِہِ ا ِبْرَاہِیمَ وَ مُوسَی وَ عِیسَی اَنْ َقِیمُوا الدِّینَ وَ لاَ تَتَفَرَّقُوا فِیہِ کَبُرَ عَلَی الْمُشْرِکِینَ مَا تَدْعُوہُمْا ِلَیْہِ) (١)
''(لوگوں) اس خدا نے تمہارے لئے وہ دین ٹھہرایا جس دین پر نوح (پیغمبر) کو چلنے کا حکم دیا اور جس دین کا حکم ہم نے تجھے (اے محمدۖ) دیا اور جس دین کا ہم نے ابراہیم اور موسیٰ اور عیسیٰ (پیغمبروں) کو حکم دیا دین کو قائم رکھو اور اس میں پھوٹ نہ ڈالو ( اے پیغمبرۖ) جس دین کی طرف تو مشرکوں کو بلاتا ہے وہ ان پر بھاری ہے۔''
..............
(١) سورہ شوریٰ ،آیت ١٣۔
اور چونکہ اللہ تعالیٰ نے اسلام کو ایک ابدی دین کی حیثیت سے قیامت تک آنے والی نسلوں کیلئے منتخب فرمایا ہے جیساکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
(ِانَّ الدِّینَ عِنْدَ اﷲِ الِْسْلاَمُ) (١)
''اللہ تبارک و تعالیٰ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے۔''
خدا کی حاکمیت کے یہ عین مطابق تھا کہ(وہ امت مسلمہ کے وسیع تر مفاد میں )ایسے آئمہ ہدایت کا تعین فرمادے جو زمین پر اس کے قانون کی عملی تطبیق کا نمونہ بن سکیں۔ ارشاد خداوندی ہے۔
(وَرَبُّکَ یَخْلُقُ مَا یَشَاء وَیَخْتَارُ مَا کَانَ لَہُمْ الْخِیَرَةُ) (٢)
''(اور اے پیغمبرۖ اصل بات تو یہ ہے) تیرا مالک جو چاہتا ہے وہ پیدا کرتا ہے اور جس کو چاہتا ہے (پیغمبری) کیلئے چن لیتا ہے بندوں کو کوئی (مستقل) اختیار نہیں ہے۔''
..............
(١) سورہ آل عمران ،آیت ١٩۔
(٢) سورہ قصص،آیت٦٨۔
قرآن کریم میں موجود امامت کے نظریہ کو ''علامہ شیخ محسن آراکی '' نے جن دلائل اور وضاحتوں کے ساتھ بیان کیا ہے، انہیں بلاشبہ احادیث ِ الٰہیہ کے مفہوم کی مضبوط قرآنی بنیاد تصور کیا جاسکتا ہے۔ اور ان سے اسلامی فکر کو روشنی اور جِلا مل سکتی ہے ۔درحقیقت امامت کے تعلق سے رسول اللہ ۖ کی وفات کے بعد لوگ دو گروہ میں بٹ گئے تھے ایک گروہ کا خیال تھا کہ امامت ایک خدائی منصب ہے جو متعلقہ شخص کیلئے متعین اور منصوص ہوتا ہے۔جبکہ دوسرے گروہ کا ماننا تھا کہ امامت یا تو اجماعِ امت، یا پہلے والے کی وصیت، جانشینی یا شوریٰ کے توسط سے قائم ہوگی یا پھر اس کاحصول تسلط اور غلبے کے ذریعے ممکن ہوگا۔
امامتِ منصوص کے قائلین کیلئے ضروری ہوگا کہ وہ اس نظریے کی ترجیح کے سلسلے میں ''علامہ آراکی''کی قرآنی توجیہات کو سامنے رکھیں تاہم حقیقت میں یہ بے نظیر توجیہات پوری فکر اسلامی کیلئے ایک فتح سے کم نہیں ۔یہ بات کسی باشعور شخص سے مخفی نہیں کہ امامت کا نظریہ شروع سے ہی نبی کریمۖکی وفات کے بعد سے امت کے اندر زبردست اختلاف و انتشار اور خونریزی کا باعث رہا ہے جیساکہ شہرستانی نے ''الملل و النحل '' میں لکھا ہے۔
''اسلام میں کسی دینی مسئلہ میں اس طرح تلواریں نہیں نکالی گئیں جس طرح امامت کے مسئلے میں یہ بات پیش آئی۔''
اس کے ساتھ ساتھ موجودہ دور کے مسلمان اس انتشار و خونریزی کے بنیادی اسباب کو سمجھنے کیلئے جو تحقیق اٹھاتے ہیں انہیں بھی ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ ان اسباب میں سب سے اہم سبب امامتِ الٰہیہ اور اس کے مصادیق سے صحیح طور پر ادراک سے قاصر رہنا اور انہیں ان کے صحیح مقام سے دور کردینا ہے۔ اس کا جو تلخ نتیجہ نکل سکتا تھا وہ سامنے ہے کہ امت اسلامیہ چھوٹی چھوٹی جماعتوں اور گروہوں میں بٹ چکی ہے۔ کافروں کا ان پر تسلط قائم ہوچکا اور جو نعمتیں خدا کی جانب سے اس امت کو حاصل ہوئی تھیں وہ اس کو دونوں ہاتھوںسے لوٹ رہے ہیں۔ حالانکہ یہ امت قرآن کے لفظوں میںخیر امت یعنی بہترین قوم تھی جسے لوگوں کے لئے میدان میں لایا گیا تھا۔
علامہ شیخ آراکی امامت الٰہیہ کی نصیّت کے ذیل میں اپنی باتوں کو قرآنی دلائل کے ساتھ اس اسلوب و انداز میں پیش کرتے ہیں جو موضوع سے متعلق ان کے عمیق تجربے اور گہری قرآنی بصیرت کی غمازی کرتے ہیں ۔مطالعے کے دوران آپ دیکھیں گے کہ وہ کس قوت اور رسوخ کے ساتھ اس مسئلے پر بحث کرتے ہیں ۔غالباً ان کی شخصیت کا ایک نمایاں وصف جو ان کے علمی امتیاز کی اصل ہے ،وہ یہ ہے کہ وہ جامعة النجف العلمیہ جیسے عظیم اور معتبر ادارے کے فاضل ہیں۔ فقہ، اصول اور فلسفے کی تعلیم انہوں نے عصر جدید کے دو نامور اور اسلامی نشاة ثانیہ کے نقیبوں سے حاصل کی ہے۔ ان میں پہلی شخصیت امام سید باقر الصدر کی ہے اور دوسری شخصیت قائد انقلاب اسلامی اورجمہوریہ اسلامی ایران کے بانی امام اکبر روح اللہ الموسوی الخمینی رضوان اللہ علیہ کی ہے۔
چوں کہ قرآن کریم کی حیثیت تمام تر دینی مسائل و معاملات میں فیصلہ کن مرجع کی ہے اور امت مسلمہ کا اس بات پر اجماع بھی ہے اس لئے مصنف ''علامہ آراکی'' نے امامت الٰہیہ پر قرآن کے ذریعے اس کی منصوصیت کے اثبات اور خدا تعالیٰ کے علاوہ اس میں ہر کسی کے اختیار کی نفی پر بحث و گفتگو کے لئے قرآنی آیات کے ذریعے استدلال کو ہی ترجیح دی ہے۔
آئمہ کا انتخاب صرف خدا تعالیٰ کا حق ہے
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آئمہ ہدیٰ کے انتخاب و تعیین کے حق کا اللہ کے ساتھ مخصوص ہونا بہت سے انسانوں کو پسند نہیں آیا۔ حتیٰ کہ اس ابلیس کو بھی جسے ''طاووس الملائکہ'' کے وصف سے متصف کیا جاتا تھا اور یہ مخلوقاتِجن میں سے ہے اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :
(اِذْ قَالَ رَبُّکَ لِلْمَلاَئِکَةِ اِِنِّی خَالِق بَشَرًا مِنْ طِینٍ ں فَِاذَا سَوَّیْتُہُ وَنَفَخْتُ فِیہِ مِنْ رُوحِی فَقَعُوا لَہُ سَاجِدِینَ ں فَسَجَدَ الْمَلاَئِکَةُ کُلُّہُمْ اَجْمَعُونَ ںِا ِلاَّ ِبْلِیسَ اسْتَکْبَرَ وَکَانَ مِنْ الْکَافِرِینَ ں قَالَ یَاِبْلِیسُ مَا مَنَعَکَ اَنْ تَسْجُدَ لِمَا خَلَقْتُ بِیَدَیَّ َاسْتَکْبَرْتَام کُنتَ مِنْ الْعَالِینَ ں قَالَ اََنَا خَیْر مِنْہُ خَلَقْتَنِی مِنْ نَارٍ وَخَلَقْتَہُ مِنْ طِینٍ) (١)
''جب تیرے مالک نے فرشتوں سے فرمایا میں کیچڑ سے ایک انسان بنانا چاہتا ہوں پھر جب میں اس کو تیار کرلوں اور اس میں اپنی (پیدا کی ہوئی) جان پھونک دوں تو تم اس کے سامنے سجدے میں گر پڑنا تو سارے فرشتوں نے سجدہ کیا مگر ابلیس نے (سجدہ نہ کیا) وہ شیخی میں آگیا اور منکر ہو بیٹھا پروردگار نے فرمایا ابلیس تو نے اس کو کیوں سجدہ نہیں کیا جس کو میں نے اپنے (خاص) دونوں ہاتھوں سے بنایا۔ کیا تو شیخی میں آگیا یا (حقیقت) میں تیرا درجہ بلند ہے۔ ابلیس نے کہا (اسے کیونکر سجدہ کروں) میں تو اس سے بہتر ہوں مجھ کو تو نے آگے سے بنایا اور اس کو تو نے کیچڑ سے بنایا۔''
..............
(١) سورہ ص،آیت ٧١ تا ٧٦۔
خدا تعالیٰ کی جانب سے طالوت کو بادشاہ متعین کیا جانا بھی بنی اسرائیل کو پسند نہیں آیا جیسا کہ قرآن میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
(وَ قَالَ لَہُمْ نَبِیُّہُمْ انَّ اﷲَ قَدْ بَعَثَ لَکُمْ طَالُوتَ مَلِکًا قَالُوا َنَّی یَکُونُ لَہُ الْمُلْکُ عَلَیْنَا وَنَحْنُ َاحَقُّ بِالْمُلْکِ مِنْہُ وَلَمْ یُؤْتَ سَعَةً مِنْ الْمَالِ قَالَ انَّ
اﷲَ اصْطَفَاہُ عَلَیْکُمْ وَزَادَہُ بَسْطَةً فِی الْعِلْمِ وَالْجِسْمِ وَ اﷲُ یُؤْتِی مُلْکَہُ منْ یَشَاء وَاﷲُ وَاسِع عَلِیم) (١)
'' اور ان کے پیغمبر نے ان سے کہا اللہ نے طالوت کو تمہارا بادشاہ بنایا ہے۔وہ کہنے لگے طالوت ہمارا بادشاہ کیونکر ہوسکتا ہے طالوت سے تو ہم زیادہ حقدار ہیںبادشاہت کے۔ اور اس کو مال و دولت کی فراغت بھی نہیں۔ پیغمبرۖ نے کہا اللہ نے تم پر(حکومت کرنے کیلئے) اس کو پسند کیا ہے۔ اور(دوسرے یہ کہ) اللہ نے اس کو علم اور جسم کی گنجائش (تم سے) زیادہ دی ہے۔ اور (تیسرے یہ کہ) اللہ جس کو چاہتا ہے اپنی سلطنت دیتا ہے۔ اور (چوتھے یہ کہ) اللہ بڑی گشائش والا ہے اور سب کچھ جانتا ہے (کہ کون سلطنت کے لائق ہے)۔''
ٹھیک اسی طرح جاہل عربوں کو رسول اللہۖ کا رسول منتخب ہونا اور آپ پر قرآن جیسی عظیم کتاب کا نازل کیا جانا اچھا نہیں لگا۔ جیساکہ قرآن کریم اس کو ہمارے لئے یوں بیان کرتا ہے:
(وَقَالُوا لَوْلاَ نُزِّلَ ہَذَا الْقُرْآنُ عَلَی رَجُلٍ مِنْ الْقَرْیَتَیْنِ عَظِیمٍ) (٢)
'' اور کہنے لگے (اگر) یہ قرآن (اللہ کا کلام ہے تو) دونوں بستیوں (مکہ اور طائف) کے کسی بڑے (امیر) آدمی پر کیوں نہیں اترا۔''
..............
(١) سورہ بقرہ،آیت٢٤٧۔
(٢) سورہ زخرف،آیت٣١۔
امامت الٰہیہ کی اس اہمیت اور بے پناہ حساسیت کی بناء پر اللہ تعالیٰ نے امامت کے تعیین و انتخاب کو اپنے ساتھ مخصوص رکھا اور اس میں بشمول انبیاء و رسل، کسی کو بھی شامل نہیں کیا۔
نصّ کی پیشکش
علامہ آراکی زیر نظر کتاب کی تمہید اس نظریۂ امامت سے متعلق لکھتے ہیں کہ یہ نظریہ انفرادی اور اجتماعی دونوں سطحوں پر خالق و مخلوق کے درمیان ایسا ربط قائم کرتا ہے جو اس کی تمام تر ارادی و اختیاری حرکات کو شامل کرتا ہے ۔نیز خدا کیلئے عبودیت کو وہ اس انداز سے واضح کردیتا ہے کہ اس کے ذریعے سچی عبودیت کھل کر انسان کے اعمال و افعال میں سمٹ آتی ہے۔ علامہ آراکی نے اس نظریہ پر بھی جم کر تنقید ہے کہ رسول اللہ ۖ کی وفات کے بعد(خلافت و قیادت خود انسانی ارادہ و انتخاب پر موقوف ہے) نہ اس پر کہ اوپر (خدا کی جانب سے )اس کا کوئی باضابطہ حکم نازل ہوا ہو۔
پہلی بحث میں علامہ آراکی نے قرآنی مفہوم کے اعتبار سے امامت الٰہیہ کی تعریف بیان کی ہے کہ امامت الٰہیہ ممکنہ حد تک انسان کو عروج وکمال تک پہنچانے کا نام ہے۔
یعنی وہ ریاست عامہ جس کا تعلق دین ودنیا کے تمام امور و معاملات سے ہے۔
پھر مؤلف موصوف قرآنی آیات سے استدلال کرتے ہوئے اس کی شرائط کی وضاحت کرتے ہیں۔ وہ شرائط یہ ہیں:
اول_ امامت ان تمام امور کو شامل کرتاہے جس میں انسان اختلاف کرتا ہے (یعنی انسانی ارادے کے ذریعے صادر ہونے والا ہر ایک انسانی فعل)۔
دوم_ یہ ہر ممکنہ ظلم یا عدل پر حاوی ہے۔
سوم_ امامت انسان کے تمام اختیاری افعال کو خواہ وہ انفرادی ہوں یا اجتماعی ،شامل کرتا ہے۔ مولف موصوف امامت اور حقیقت توحید کے درمیان ایک مضبوط اور مستحکم ربط قائم کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
''عبادت میں توحید کی حقیقت توحید اطاعت یعنی اطاعت و فرمانبرداری کیلئے بھی خدائے وحدۂ کو ہی مخصوص کرلیتا ہے اور یہ خدا کی طرف سے منتخب امام کی پیروی کے بغیر ممکن نہیں۔ جو امر و نہی میں اللہ کی مرضی کا پابند ہوتا ہے۔''
مؤلف موصوف مختلف قسم کے قرآنی شواہد پیش کرتے ہیں جیسے: آیات عبادت، آیات امر، آیات حکم اور آیات ملک وغیرہ ان آیات سے نہایت واضح طور پر یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ اطاعت صرف اللہ کیلئے مخصوص ہے۔ اور حکم، امر، ملک اور ولایت اللہ جل شانہ کے ہی ہاتھوں میں ہے۔ اللہ تعالیٰ ہی جسے چاہتا ہے فرمانروائی و سلطنت کیلئے منتخب کرتا ہے۔ رہا لوگوں کی خواہش یا رائے کا سوال تو اس سے متعلق مصنف کہتے ہیں۔
''اقتدار کے استحکام اور اسے قوت و طاقت پہنچانے کیلئے لوگوں کی رائے ضروری ہے لیکن اقتدار یا ولایت ملکی کے قانونی جواز کیلئے یہ شرط نہیں ہے۔''
دوسری بحث میں مؤلف نے موضوع کے مرکزی نقطے کو اپنی گفتگو کے لئے مخصوص کیا ہے اور وہ یہ کہ امامت الٰہیہ تعیین خداوندی کے تحت ہی ظہور میں آتی ہے ۔یہ ایک مقدس منصب ہے جس کیلئے اللہ اپنی مرضی سے جس کو چاہتا ہے منتخب کرتا ہے۔
اس ضمن میں انہوں نے متعدد آیات پیش کی ہیں۔ جن کی ترتیب حسب ذیل ہے:
١۔ آیات امر، جو اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ امر صرف اللہ کیلئے خاص ہے اس میں اس کا کوئی شریک نہیں۔
٢۔ آیات حکم ،یہ اس بات پر دلالت کرتی کہ حکم اور فرمان صرف اللہ کیلئے ہے۔ کسی اور کیلئے ہرگز نہیں۔
٣۔ آیات الملک، جن کے ذریعے اقتدار اعلیٰ صرف اللہ کیلئے خاص ہونا معلوم ہوتا ہے۔
٤۔ آیات ولایت، وہ آیات جو اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ ولایت اللہ کے ہاتھوں میں ہے۔
٥۔ آیاتِ طاعت، ان کی دو قسمیں ہیں۔ پہلی قسم میں وہ آیات شامل ہیں جن سے رسولۖ کے متعلق اطاعت کے حکم کا اظہار ہوتا ہے۔ دوسری قسم ان آیات پر مشتمل ہے جو اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ معاملے کو اولو الامر کی طرف لے جانا چاہیے۔
٦۔ آیت اختیار، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اختیار صرف اللہ کے حکم میں ہے۔
٧۔ آیت تحکیم
٨۔ آیات ایتائ
آیت شوریٰ۔ (وَامرُہُمْ شُورَی بَیْنَہُمْ) کی تفسیر میں آراکی کے کمال علم کی خوبیاں سامنے آتی ہیں۔ آیت شوریٰ بظاہر آیت اختیار سے معارض معلوم ہوتی ہے۔ اس تعلق سے وہ لکھتے ہیں:
آیت شوریٰ کے تحت رسول اللہ کو لوگوں سے مشورہ طلبی کا پابندی بنایا گیا ہے۔ تاہم فیصلے عزم شوریٰ کا اختیار بھی انہی کے لئے چھوڑ دیا گیا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مشورہ فیصلے کی بنیاد پر نہیں بلکہ وہ باہمی تبادلۂ خیال کا نام ہے جو آخری فیصلے کی تمہید یا مقدمے کی حیثیت رکھتی ہو۔
تیسری بحث میں مؤلف نے ''نص علٰی الآئمہ '' ( منصب ولایت کی الٰہی تعیین) پر قرآن کی روشنی میں بحث کی ہے اور اس کیلئے تین صیغے متعین فرمائے ہیں:
(١) صیغۂ اول: وہ آیات قرآنی جن کے ذریعے تاریخی طور پر آئمہ کے وجود پر روشنی پڑتی ہے۔
(٢) صیغۂ دوم: وہ آیات قرآنی جن کے ذریعے تاریخی طور پر آل ابراہیم میں سے ائمہ کی تعیین اور آپۖ کی نسلوں میں امامت الٰہیہ کے جاری و ساری ہونے کا اظہار ہوتا ہے۔
(٣) صیغۂ سوم: وہ آیات قرآنی جن کے ذریعے رسول اللہۖکی وفات کے بعد ان کے اہل بیت میں سے امامت کی تعیین پر روشنی پڑتی ہے ۔اور وہ حضرت علی اور اہل بیت ٪ ہیں جن سے قرآن کے الفاظ میں گندگی کو دور کردیا گیا اور انہیں پاک و مطہر بنادیا گیا ہے۔
مؤلف موصوف نے پے در پے چار قرآنی آیات سے استشہاد کیا ہے جن سے تاریخ میں آئمہ پر نص عام کا ثبوت ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر زمانے میں انسانوں کیلئے آئمہ کی تعیین فرمائی ہے۔ جیساکہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے۔
(وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِی کُلِّ امَّةٍ رَسُولاً اَنْ اُعْبُدُوا اﷲَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوتَ)
'' ہم نے ہر قوم کے اندر رسول مبعوث کئے تاکہ لوگ اللہ کی عبادت کریں اور طاغوت سے بچیں۔''
یعنی ہم نے ہر قوم کے اندر خدا کے معین کردہ ایسے سیاسی قائدین اٹھائے جو اللہ کے حکم کے مطابق فیصلہ کرتے ہیں اور لوگوں کو اللہ کی عبادت'اس کے حکم کی تابعداری'طاغوت کی فرمانبرداری اور اس کے آگے جھکنے سے انکار کی دعوت دیتے ہیں مزید بر آں یہ کہ امامت الٰہیہ کسی خاص وقت اور زمانے کے ساتھ مختص نہیں بلکہ یہ پوری انسانی تاریخ میں جاری و ساری ہے۔
اس کے بعد محقق آراکی صیغۂ دوم کی طرف لوٹتے ہیں یعنی وہ آیات قرآنیہ جن کے توسط سے آل ابراہیم میںسے آئمہ کے انتخاب پر روشنی پڑتی ہے اس ضمن میں انہوں نے نہایت خوبصورتی کے ساتھ پے در پے پانچ قرآنی شواہد پیش فرمائے ہیں۔ اس کی ابتداء اللہ تعالیٰ کی جانب سے ابراہیم اور آل ابراہیم کے حق میں اس بشارت سے ہوتی ہے جس کے تحت حضرت ابراہیم کی دعا کو شرف قبولیت عطا کرتے ہوئے انہیں امامت کے منصب سے سرفراز کیا گیا ہے جب وہ جوان تھے اور مشرکین اور کافرین سے نبرد آزما تھے۔
لہٰذا اللہ تعالیٰ ابراہیم کی زبان سے ارشاد فرمایا:
(رَبِّ ہَبْ لِی حُکْمًا وََلْحِقْنِی بِالصَّالِحِینَ)
''اے پروردگار! مجھے ایک حاکم فرزند عطا فرما اور مجھے نیکوکاروں میں شامل
فرما۔''
نیز اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
(وَ وَہا بْنَا لَہُ ِسْحَاقَ وَ یَعْقُوبَ وَجَعَلْنَا فِی ذُرِّیَّتِہِ النُّبُوَّةَ وَ الْکِتَابَ وَ آتَیْنَاہُ اَجْرَہُ فِی الدُّنْیَا وَِانَّہُ فِی الْآخِرَةِ لَمِنْ الصَّالِحِینَ)
''اور ہم نے اس کو اسحاق (بیٹا) اور یعقوب (پوتا) دیا اور اس کی اولاد میں پیغمبری اور(اللہ کی کتابیں اترنا) قائم رکھا اور ہم نے اس کو دنیا میں بھی (اس کی نیکیوں کا) بدلہ دیا۔ اور آخرت میں تو وہ نیک بندوں میں ہی ہے۔''
اور جب ابراہیمـ نے اللہ تعالیٰ سے امامت کو اپنی اولاد کیلئے عطا کرنے کی دعا کی تو اللہ تعالیٰ نے اس شرط کے ساتھ دعا کوقبولیت بخشی کہ امامت کی ذمہ داری اسے دی جائے گی جس کے اندر مکمل شکل میں عدالت کی صفت موجود ہو۔ چنانچہ جب اللہ تعالیٰ سے اپنے امام بنائے جانے کی خوشخبری سن کر حضرت ابراہیم نے اللہ تعالیٰ سے سوال کیا:
(وَمِنْ ذُرِّیَّتِی) (١) ''اور میری اولاد کو۔''
تو اللہ نے جواب میں فرمایا:
(لاَ یَنَالُ عَہْدِی الظَّالِمِینَ) (٢) ''میرا وعدہ ظالموں سے نہیں۔''
..............
(١) ، (٢) سورہ بقرہ ،آیت ١٢٤۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عدالت تامہ کی شرط ہی عصمت (معصوم ہونا) کی حد ہے۔
پھر اس ربانی انتخاب کی مصنف نے دو قسمیں کی ہیں:
اول_ افراد کا انتخاب جیسے آدم و نوح۔
دوم_ خاندان کا انتخاب جیسے آل ابراہیم اور آل عمران کا امامت کیلئے منتخب کیا جانا اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
(ِانَّ اﷲَ اصْطَفَی آدَمَ وَنُوحًا وَآلَ ا ِبْرَاہِیمَ وَآلَ عِمْرَانَ عَلَی الْعَالَمِینَ ں ذُرِّیَّةً بَعْضُہَا مِنْ بَعْضٍ وَاﷲُ سَمِیع عَلِیم)
''بے شک اللہ نے سارے جہاں کے لوگوں میں آدم اور نوح کو اور ابراہیم ٪ اور عمران کی اولاد کو چن لیا ہے (یا پسند کرلیا ہے) ۔ایک خاندان دوسرے خاندان کی نسل ہے اور اللہ سنتا اور جانتا ہے۔''
پھر مصنف انتخاب امامت کے سلسلے میں ایک اہم نقطے کی وضاحت کرتے ہیں اور وہ امام کے اندر صلاحیتوں اور قیادت کی ربّانی استعداد کا پایا جانا ہے اور یہ کہ یہ منصب نسل اور خاندان کی بنیاد پر قائم نہیں ہے۔ وہ مزید فرماتے ہیں:
''یہ اور اس نوع کی دوسری آیات آل ابراہیم میں اس ربّانی انتخاب کے جاری
و باقی رہنے پر دلالت کرتی ہیں۔ مختلف زمانوں میں آل ابراہیم میں سے مخصوص لوگوں کو اس عہدہ سے سرفراز کیا گیا جس کی آخری کڑی رسول اللہۖ ہیں۔''
یہ بات بھی واضح ہے کہ ابراہیمـ کی بعض اولادوں سے جب اس منصب کے تحمل کی صلاحیت مفقود ہوگئی تو امامت خاندان ابراہیم کی دوسری شاخ کی طرف منتقل ہوگئی۔ جیساکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے:
(فَخَلَفَ مِنْ بَعْدِہِمْ خَلْف اَضَاعُوا الصَّلَاةَ وَاتَّبَعُوا الشَّہَوَاتِ)
'' پھر ان کے بعد ایسے نالائق پیدا ہوئے جنہوں نے نماز کو تو گنوادیا اور (دنیا کے) مزوں میں لگ گئے۔''
اللہ تعالیٰ کا قول ہے:
(فَبِمَا نَقْضِہِمْ مِیثَاقَہُمْ وَ کُفْرِہِمْ بِآیَاتِ اﷲِ وَ قَتْلِہِمْ الْاَنْبِیَائَ بِغَیْرِ حَقٍّ وَ قَوْلِہِمْ قُلُوبُنَا غُلْف)
'' تو انہوں نے جو اپنا اقرار توڑااور اللہ کی آیتوں کا انکار کیا اور پیغمبروں کو ناحق قتل کیا اور کہنے لگے کہ ہمارے دلوں پر غلاف چڑھے ہوئے ہیں۔''
چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اسحاق سے امامت چھین کر آل اسماعیل کی پاکیزہ اولاد میں اسے جاری فرمادیا۔ اور وہ محمد رسول اللہ ۖ کی آل و اولاد ہیں۔
مگر تیسرے صیغہ میں وہ آیات ہیں جو اہل بیت ٪ کی امامت پر دلالت کرتی ہیں تو اس کی ابتداء مصنف نے حکمت الٰہیہ کی توضیح سے کی ہے جس میں قرآن اور اہل بیت کی حفاظت و بقاء کے پیش نظر امامت اہل بیت کی حقیقت پر اشارتی اسلوب میں روشنی ڈالی جائے۔
پھر موصوف چھ ایسی بلیغ قرآنی شہادتیں پیش کرتے ہیں جو اہل بیت٪ کی امامت پر روشن دلیلیں ہیں ۔
ان میں سے پہلی شہادت آیت ولایت ہے جیساکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے۔
(اِنَّمَا وَلِیُّکُمْ اﷲُ وَ رَسُولُہُ وَالَّذِینَ آمَنُوا الَّذِینَ یُقِیمُونَ الصَّلاَةَ وَ یُؤْتُونَ الزَّکَاةَ وَہُمْ رَاکِعُونَ)
''تمہارے دوست صرف اللہ اور اس کا رسول ۖ اور ایمان والے ہیں جو درستگی سے نماز ادا کرتے ہیں اور زکوٰة دیتے ہیں اور وہ جھکے رہتے ہیں۔''
دوسری: آیت تطہیر ہے۔
تیسری: آیت قربیٰ ہے۔
چوتھی:آیت تبلیغ ہے۔
پانچویں:آیت شہادت ہے ۔جس میں مؤلف نے مندرجہ ذیل چار اہم مفاہیم پر روشنی ڈالی ہے۔
(١) ہر قوم میں اللہ کا گواہ موجود ہوتا ہے۔
(٢) گواہوں کی شرائط و خصوصیات۔
(٣) زمانہ نبوت میں رسول اللہۖ کی مسلمانوں پر گواہی۔
(٤) رسول اللہ ۖ کے بعد خود ان کیلئے گواہ۔
خاتمہ
بہرحال یہ کتاب فکر اسلامی کی ہی ایک گہری فکری سفر ہے اور اس میں کوئی مبالغہ نہیں کہ زیرِ نظر کتاب مضبوط فکری اساس رکھنے والی اپنے موضوع پر پہلی کتاب ہے۔ امید ہے کہ یہ کتاب علماء و اہل دانش اور دونوں مکتب فکر یعنی امامت کی من جانب اللہ تعیین کو ماننے والے اور وہ جو اسے خود امت کے اختیار پر موقوف تصور کرتے ہیں کے لئے مرجع اور اساس کا کام کرے گی۔ اسلامی فکر پر اس کے مثبت اثر کے ساتھ تمام اسلامی اعمال و افکار اور تصورات پر بھی اس کا اچھا اثر قائم ہوگا۔
واللّٰہ تعالیٰ من وراء المقصد
مؤسسة بوک اکسترا العالمیہ
للنشر والتوزیع
|