نسیم غدیر


تینتالیسویں حدیث
(۴۳)عن علیٍّ علیہ السلام: امّا کاٰن الیوم الرّابع من عرسنٰا جٰاء نا رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) و امرنی با لخروج من البیت وخلا بابنتہ وقٰال : کیف انتِ یا بنیّۃ یٰا فاطمۃ وکیف رایتِ زوجکِ؟قٰالت :یٰا ابہ خیر زوجٍ ، الاّ اَنّہ دخل علیّ نسٰاء من قریش وقلنَ لی زوّجک رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) من رجلٍ فقیر لا مالَ لہ ۔
فقال لھٰا رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) مٰا ابوک بفقیرٍ ولاٰ بعلک بفقیرٍ ، ولقد عرضت علیّ خزائن الارض من الذّھب والفضّۃ فاخترت ما عند ربّی عزّوجلّ ، یٰابنیّۃ لو تعلمین ما یعلمُ ابوکِ لسمجتِ الدّنیٰا فی عینک ، واللہ یا بنیّۃ ما الوتکِ نصحاً ان زوّجتکِ اقدمھم سلماً واکثرھم علماً و اعظمھم حلماً ، یٰا بنیّۃ انّ اللہ عزّ وجلّ اطّلع الی الارض اطّلاٰعۃ فاختٰار من اھلھٰا رجلین فجعل احدھماابٰاک والاخر بعلکِ ، یٰا بنیّۃ نعم الزّوج زوجکِ لاٰ تعصی لہ أمراً ۔
ثمّ صٰاح بی رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) فقلتُ : لبّیک یٰا رسول اللہ ، قال: ادخل بیتک والطف بزوجک وارفق بھٰا فانّ فٰاطمۃ بضعۃمنّی یؤلمنی مٰا یؤلمھٰا ویسُرُّنی مٰا یسرُّھٰا استودعکما اللہ واستخلفہ علیکمٰا ۔
قال علیّ علیہ السلام فوا للہ مٰا اغضبتھٰا ولاٰ اکرھتُھٰا بعد ذٰلک علیٰ امرٍ حتّیٰ قبضھٰا اللہ عزّوجلّ الیہ ، ولاٰ اغضبتنی ولاٰ عصت لی امراً ، ولقد کنت انظر الیھا فتنجلی عنّی الغموم والاحزٰان بنظرتی الیھٰا ۔
قال علی علیہ السلام : ثمّ قال رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) لینصرف فقٰالت لہ فاطمۃ: یٰاابہ لاٰ طاقۃ لی بخدمۃ البیت فاخدمنی خٰادماً یخدمنی ویعینُنی علیٰ امرِالبیت ، فقٰال لھٰا رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) : یا فاطمۃ ایّمٰا احبّ الیکِ خٰادم او خیر من الخادم ،فقال علی علیہ السلام فقلت قولی خیر من الخادم فقالت بابۃ خیر من الخادم ، فقٰال لھٰا رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) :
تکبّرین اللہ فی کلّ یومٍ اربعاً و ثلاثین تکبیرۃ ، وتحمّدینہ ثلاثاً وثلاثین مرّۃ وتسبحینہ ثلاث وثلاثین مرّۃ فتلک ماء ۃ با للّسان والف فی المیزان ، یٰافاطمۃ ان قلتھا فی صبیحۃ کلّ یومٍ کفٰاک اللہ مٰا اھمّکِ من امر الدنیا والاخرۃ ۔

ترجمہ:
علی علیہ السلام سے روایت ہے کہ جب جناب زہراء سے میری شادی ہوئی تو چوتھے دن رسولخدا ہمارے گھر تشریف لائے اور رسول نے مجھے گھر سے باہر جانے کو کہا اور جناب فاطمہ کے پاس بیٹھے اور حضرت فاطمۃ سے احوال پوچھنے لگے اور سوال کرتے ہیں آپ نے اپنے شوہر کو کسطرح پایا جناب فاطمہ سلام اللہ علیھا نے کہا بہترین شوہر ہے لیکن بعض قریش کی عورتوں نے میرے پا س آکر کہا ہے کہ رسول خدا نے تیری شادی ایک فقیر شخص سے کی ہے تو رسول خدا نے فرمایا نہ تیرا باپ فقیر ہے اور نہ تیرا شوہر فقیر ہے خدا نے زمین وآسمان کے خزانے میرے سامنے پیش کئے ہیں لیکن میں نے اس چیز کو اختیار کیا ہے جو خدا کے پاس ہے اور دنیا کے مال کی میں نے پروا نہیں کی اے بیٹی اگر تو جان لے جو تیرا والد جانتا ہے تو دنیا تیرے سامنے بے ارزش ہو جائے گی اے بیٹی میں نے تیری خیر خواھی میں کوتاہی نہیں کی میں نے تیری شادی ایسے مرد سے کی ہے جو ایمان لانے میں سب سے سبقت لینے والا ہے اور علم میں سب سے آگے ہے اور حلم وبردباری میں سب سے زیادہ ہے اے بیٹی خدا نے زمین کی طرف دیکھا اور اھل زمین سے دو مردوں کاخدا نے انتخاب کیا ایک کو خدا نے تیرا باپ قرار دیا اور دوسرے کو تیرا شوہر بنایا تیرا شوہر بہترین شوہر ہے اور اسکی کسی چیز میں مخالفت نہ کرنا پھر رسو ل خدا (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) نے (علی علیہ السلام سے فرماتے ہیں )مجھے آواز دی میں نے لبیک کہتے ہوئے رسول کو جواب دیا لبیک یا رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) اپنے گھر میں داخل ہو اور اپنی بیوی سے مہربانی سے پیش آنا اور اچھا سلوک کرنا کیونکہ فاطمہ میرا ٹکڑا ہے جس نے اس کو اذیت پہنچائی اس سے مجھے اذیت ہوتی ہے اور خو ش کیا اس نے مجھے جس نے فاطمہ کو خوش کیا میں تمہیں خدا کے حوالے کرتا ہوں اور خدا تمہارا محافظ ہے ۔
علی علیہ السلام نے کہا میں نے کبھی فاطمہ کو ناراض نہیں کیا ہے ااور نہ ہی کسی کام کیلئے مجبور کیا ہے اور اس نے بھی کبھی مجھے ناراض نہیں کیا اور کسی کام میں اس نے میری مخالفت نہیں کی یہاں تک کہ خدا نے فاطمہ کو مجھ سے جدا کر دیا خدا کی قسم میں جب بھی فاطمہ کو دیکھتا میرے سب کے سب غم و حزن فاطمہ کو دیکھنے سے دو ر ہو جاتے علی علیہ السلام کہتے ہیں جب رسول خدا نے چاہا کہ جائیں تو فاطمہ عرض کی، اے بابا جان میں گھر کے کام نہیں کر سکتی مجھ میں اتنی طاقت نہیں میرے لئے ایک خادمہ معین کریں جومیری گھر کے کاموں میں مدد کرے تو پیغمبر نے فرمایا کس کو پسند کرتی ہو خادمہ کو یا خادمہ سے بہتر کو علی علیہ السلام کہتے ہیں کہ میں نے زہراء سے کہا کہ اپنے بابا سے کہو خادمہ سے بہتر کو پسند کرتی ہوں تو فاطمہ نے کہا خادمہ سے بہتر کو پسند کرتی ہوں تو پیغمبر نے فرمایا روزانہ ۳۴مرتبہ اللہ اکبر ۳۳مرتبہ الحمد اللہ اور ۳۳ مرتبہ سبحان اللہ یہ سوکلمے ہیں زبان پر سو ہیں اور عمل میں ہزار کلمے ہیں اے فاطمۃ اگر روزانہ صبح کے وقت یہ پڑھیں گی تو خدا دنیا کے اور آخرت کے تمام مہم کاموں کیلئے کافی رہے گا ۔ (۱)
*****
(۱) ( سبط ابن الجوزی تذکرۃ الخواص ب۱۱ ص۳۰۸ ، لمناقب خوارزمی فصل ۲۰ ، ص۲۵۶ ، عقائد الانسان ج۴، ص۱۵۸ ، ح۸ )
چونتالیسویں حدیث
(۴۴)عن ابی الجارود رفعہ الی النبیّ (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) قال: حلقۃ بٰاب الجنۃ من یاقوتہ حمراء علیٰ صفائح الذّھب ، فا ذا دقّت الحلقۃ علیٰ الصّفحۃ طنّت و قٰالت : یا علیّ ۔

ترجمہ:
ابی جارود کسی واسطے سے رسولخدا (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) سے نقل کرتا ہے کہ آنحضرت نے فرمایا جنت کے دروازے پر سرخ یاقوت سے ایک حلقہ ہے سونے کی تختی پرجب اس حلقہ کو ا مارا جاتا ہے تو آواز آتی ہے اور کہتی ہے یا علی یا علی یا علی یا علی ۔(۱)
*****
(۱) (مدینۃ المعاجز،ج۲،ص۳۶۴،ح۶۰۶۔علی والمناقب ،ص۲۱۶ )
پینتالیسویں حدیث
(۴۵)۔ عن امّ سلمۃ ( زوج النبیّ ) و اسماء بنت عمیس و جٰابر بن عبد اللہ وابی سعید الخدریّ فی جمٰاعۃ من الصحابۃ انّ النبیّ (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) کان ذات یوم فی منزلہ و علیّ بین یدیہ اذجاء جبرئیل یناجیہ عن اللہ عزّوجلّ ، فلمّا تغشّاہ الوحی توسّد فخذ امیر المومنین علیہ السلام فلم یرفع رأسہ ( عنہ) حتّیٰ غٰابت الشّمس ، وصلّیٰ صلٰاۃ العصر جٰالساًبالایمٰاء ۔
فلمّا افٰاق النبیّ (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) قال لہ : ادع اللہ لیردّ علیک الشّمس فانّ اللہ یجیبک لطاعتک اللہ ورسولہ ، فسأل اللہ عزّوجلّ امیر المومنین فی ردّ الشّمس ، فردّت علیہ حتّٰی صارت فی موضعھا من السماء وقت العصرفصلّی امیر المومنین الصلاۃ فی وقتھا ، ثمّ غربت،وقالت اسماء بنت عمیس : امٰا واللہ سمعنٰا لھٰا عند غروبھٰا ( صریراً) کصریر المنشار فی الخشب ۔

ترجمہ:
ام سلمہ ، اسماء بنت عمیس ، جابر بن عبد اللہ انصاری ، ابوسعید خدری او ر باقی بعض صحابہ سے نقل ہوا ہے ایک دن رسول خدا (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) علی علیہ السلام کے گھر میں تشریف فرما تھے اور علی علیہ السلام رسول خد اکے سامنے بیٹھے تھے کہ جبرائیل رسول (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) پر نازل ہوا اور خدا کی طرف سے رسول کیساتھ مناجات کرنے لگا جب وحی کی حالت پیغمبر (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) پر عارض ہوئی تو رسول نے علی کے زانو پراپنا سر رکھا اور پھر رسول نے اپنا سر نہ اٹھایا یہاں تک کہ سورج غروب ہو گیا اور علی نے نماز عصر بیٹھ کر اشارہ سے پڑی جب رسول خدا بیدا ر ہوئے تو علی علیہ السلام سے فرمایا دعا کریں تاکہ خدا سورج کو پلٹا دے اور خدا تیری دعا کو اس لئے قبول کرے گا کہ تو نے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کی ہے پس علی نے خد ا سے سورج پلٹنے کی دعا کی یہاں تک کہ سورج اپنے عصر کے مقام تک پلٹ آیا امیرالمومنین نے نماز عصر ادا کی اپنے وقت پر اور پھر سورج غروب ہوگیا اور اسماء بنت عمیس کہتی ہیں کہ خدا کی قسم ہم نے سورج کے غروب ہونے کی آواز سنی کہ جس طرح آراہ چلتا ہے اور لکڑی کٹتی ہے ۔ (۱)
*****
(۱) (مدینۃ المعاجز ،ج۱،ص۲۰۵،ح۱۲۵ )