نسیم غدیر


اکتالیسویں حدیث
(۴۱) حدّثنٰا الحسن بن محمّد بن سعید الھٰاشمی قٰال حدِّثنٰا فرٰات بن ابرٰاھیم فرٰات الکوفی قٰال حدّثنٰا محمّد بن ظھیر قٰال حدّثنٰا عبد اللّہ بن الفضل الھٰاشمی عن الصّادق جعفر بن محمّد (علیہ السلام)عن ابیہ عن آباۂ (علیہم السلام)قٰال ،قٰال رسول اللّہ (صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) یومُ غدیر خم افضلُ اَعیادِامّتی وھو الیومُ الّذی امرنی اللّہ تعٰالیٰ ذکرہ فیہ بنصبِ اخی علیّ بن ابی طالبٍ (علیہ السلام)علماً لاُمّتی یھتدون من بعدی وھو الیوم الذی اکمل اللہ فیہ الدین واتم علی امتی فیہ النِّعمۃ ورضِیَ لھم الاسلامَ دیناً ثمّ قٰال : ( صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم)معٰاشر النّاس انّ علیاً منّی وانا من علیٍّ خُلق من طینتی وھو امٰام الخلق بعدی یبیّنُ لھم مَا اختلفوا فیہ من سنّتی وھو امیرُالمؤمنین وقٰائد الغرَّ المحجّلین ویعسوب المؤمنین وخیر الوصین وزوج سیّدۃ نسٰاء العٰالمین واَبوالاَئمّۃ المھدیین معٰاشر النّاس من احبّ علیاً احببتُہ ومن ابغض علیاً ابغضتہ ومن وصل علیاً وصلتہ ومن قطع علیاً قطعتہ ومَن جفٰا علیّاً جفوتہ ومن وٰالیٰ علیّاً وٰالیتُہ ومن عاد علیّاً عٰادیتہ ، معاشر النّاس أنا مدینۃالحکمۃ وعلیّ بن ابیطالبٍ بٰابھٰا ولن تُؤتی المدینۃ الاّ من قِبَلِ البٰاب وکذب من زعم انّہ یحبّنی ویبغض علیّاً۔
معٰاشر النّاس والّذی بعثنی بالنّبوّۃ واصطفانی علیٰ جمیع البریّۃ مٰا نصبتُ علیّاًعلماً لاُمّتی فی الارض حتّیٰ نوّہ اللّہ باسمہ فی سمٰوٰاتہ واوجب ولاٰیتہ علیٰ ملائکتہ (والحمدُ للّہ ربّ العٰالمین والصّلاۃعلیٰ خیر خلقہ محمّدٍ وآلہ)

ترجمہ:
رسول گرامی اسلام (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم)نے فرمایا میری امت کی بہترین عیدوں میں سے ایک عید غدیر خم کی عید ہے اور یہ وہ دن ہے کہ جس دن خدا نے مجھے حکم دیا کہ اپنی امت کی امامت کیلئے اپنے بھائی علی ابن ابی طالب (علیہ السلام )کو منصوب کروں تاکہ لوگ میرے بعد اس کی اتباع کریں یہ وہ دن ہے کہ جس دن خدا نے اپنے دین کو مکمل کیا اور میری امت کیلئے اس دن نعمتوں کوتمام کیا اور دین اسلام لوگوں کیلئے انتخاب کر نے پر راضی ہوا اور پھر پیامبر(صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) نے فرمایا اے لوگو آگا ہ ہو جاؤ کہ علی (علیہ السلام ) مجھ سے ہے اور میں علی (علیہ السلام ) سے ہوں خدا نے علی (علیہ السلام ) کو میری طینت سے خلق فرمایا اور میرے بعد میری امت کا امام ہے اور جب لوگ میری سنت کے بارے میں اختلاف کریں گے تو ان کیلئے میری سنت کو بیان کرے گا ۔ اور علی(علیہ السلام ) مؤمنوں کا امیر ہے سفید پیشانی والوں کا رہبر ہے اور یعسوب المومنین ہے یعنی مومنوں کا سردار ہے اور خیر الوصیین ہے اور عالمین کی عورتوں کی سردار کا شوہر ہے اور ابولآئمہ ہے یعنی گیارہ اماموں کا باپ ہے اے لوگوں جو علی (علیہ السلام ) سے محبت کرے گا میں اس سے محبت کروں گا اور جو علی (علیہ السلام ) سے بغض رکھے گا میں اس سے ناراض ہونگا اور جو علی (علیہ السلام ) سے دوستی رکھے گا میں اس سے دوستی رکھوں گا اور جو علی (علیہ السلام ) سے قطع تعلقی کرے گا میں اس سے قطع تعلقی کروں گا اور جو علی پر ظلم کرے گا میں اس پر جفا کروں گا اور جو علی (علیہ السلام ) کی ولایت کا اقرار کرے گا میں اس کا ولی ہو نگا جو علی (علیہ السلام ) سے دشمنی کرے گا میں اس سے دشمنی کروں گا اے لوگو آگاہ رہو میں حکمت کا شہر ہوں علی(علیہ السلام ) اس کا دروازہ ہے اور کوئی شہر میں نہیں آسکتا مگر دروازے سے اور جھوٹ بولتا ہے وہ شخص جو کہے کہ میں رسول سے محبت کرتا ہوں جبکہ علی (علیہ السلام ) سے بغض رکھتا ہو۔
اے لوگومجھے قسم ہے اس ذات کی جس نے مجھے نبی بنایا اور تمام لوگوں سے مجھے منتخب کیا میں نے علی(علیہ السلام) کو اس زمین پر اپنی امت کا عَلَم نہیں بنایا یعنی امام نہیں منصوب کیا مگر خدا نے علی (علیہ السلام)کے نام کو آسمانوں پر بلند کیا اور ملائکہ پر علی(علیہ السلام) کی محبت وولایت کو واجب کردیا ہے حمد ہے اس اللہ کیلئے جو عالمین کا رب ہے اور درود وسلام ہوں خدا کی بہترین مخلوق حضرت محمد(صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) پر اور اس کی پاک آل پر ۔ (۱)
*****
(۱) ( امالی شیخ صدوق)
بتالیسویں حدیث
(۴۲)معراج رسول خدا
عن ابی ذرّ الغفاری قال: کنتُ جالساً عند النبیّ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم)ذات یومٍ فی منزل اُمّ سلمۃ ورسول اللّہ (صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم)یُحدّثنی وانا اسمعُ،اذدخل علیّ بنُ ابیطالبٍ(علیہ السلام)، فاَشرَق وجھہُ نوراً فرَحاً باَخیہ وابن عمِّہ ، ثمّ ضمَّہ الیہ و قبَّل بین عینہ ، ثمّ التفت الیّ فقٰال : یا اباذر اتعرف ھٰذا الدّاخل علینا حقّ معرفتہ؟ قال ابوذرّ: فقلت : یارسول اللّہ ھٰذا اَخوک وابنُ عمّک وزوج فاطمۃ البتول وابوالحسن والحسین سیّدی شباب اھل الجنّہ فقٰال رسول اللّہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم)

۱۔ یا ابٰاذرھٰذا الامٰام الازھر ، ورُمح اللّہ الاَطوَل وبٰاب اللّہ الاکبر فمن اراد اللّہ فلیدخلُ البٰاب۔

۲۔ یٰا ابٰا ذرٍّھٰذا القائم بقسط اللّہ والذّابّ عن حریم اللّہ والنّاصر لدین اللّہ وحجّۃ اللّہ علیٰ خلقہ انّ اللّہ تعٰالیٰ لم یزل یحتجّ بہ علیٰ خلقہ فی الامم کلّ یبعث فیھٰا نبیّاً ۔

۳۔ یٰا اباذرانّ اللّہ تعٰالیٰ جعل علیٰ کلّ رکنٍ من ارکان عرشہ سبعین الف ملکٍ لیس لھم تسبیح ولاٰ عبٰادۃ الاّ الدّعٰاء لعلیٍّ وشیعتہ والدّعا ءَ علیٰ اعدٰاۂ۔

۴۔یا ابٰا ذر لولاٰ علیّ مٰا بٰان الحقّ من الباطل ولاٰ مؤمن من الکافر و لاٰ عبد اللّہ ، لأنّہ ضَرَبَ رؤُس المشرکین حتّیٰ اسلموا وعبدواللّہ ، ولولاٰ ذٰلک لم یکن ثواب ولاٰ عقٰاب ولاٰ یسترہ من اللّہ ستر ولاٰ یحجبہ من اللّہ حجٰاب وھوالحجٰابُ والسّترُ ثمّ قراءَ رسول اللّہ (صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم ):شرع لکم من الدّین مٰا وصّیٰ بہ نوحاً والذّی اوحینٰا الیک ومٰا وصّینٰا بہ ابراھیم وموسیٰ وعیسیٰ ان اقیموا الدّین ولاٰ تتفرّقوا فیہ کبُر علی المشرکین مٰا تدعوھم الیہ اللّہ یجتبی الیہ من یشٰاءُ و یھدی الیہ مَن ینیب۔

۵۔یٰا ابٰا ذرٍّ انّ اللّہ تبارک وتعٰالیٰ تفرّد بمُلکہ ووحدانیّتہ ، فعرّف عبٰادَہ المخلصین لنفسہ ، وابٰا ح لھم الجنّۃ ، فمن ارٰاد ان یھدیہ عرّفہ ولاٰ یتہ ومن ارٰاد ان یطمس علیٰ قلبہ اَمسک عنہ معرفتہ ۔

۶۔یٰا ابٰاذرٍّ ھٰذا رٰایۃ الھدیٰ ، وکلمۃ التّقویٰ ، والعروۃ الوثقیٰ ، وامٰامُ اولیٰائی ، ونور من اطٰا عنی، وھو الکلمۃ الّتی الزمھا اللّہ المتّقین فمن احبّہ کان مؤمناً، ومن ابغضہ کٰان کافراً ومن ترک ولاٰیتہ کٰان ضٰالاً مضلاًّ ، ومن جحد ولاٰیتہ کاٰن مشرکاً۔

۷۔یٰا ابٰاذرٍّ یؤ تیٰ بجٰاحد ولٰایۃ علیٍّ یوم القیامۃ اصمّ واعمیٰ وابکم فَیُکَبکَبُ فی ظلمٰات القیٰامۃ یُنٰادی یٰا حسرتٰا علیٰ مٰافرّطتُ فی جنبٍ اللّہ وفی عنقہ طوق من النّار ، لذٰلک الطّوق ثلاٰ ثُماءۃ شعبَۃٍ علیٰ کلّ شعبۃ منھٰاشیطٰان یتفلُ فی وجھہ ویکلح من جوف قبرہ الیٰ النّار ، قٰال ابوذر : فقلتُ : فداک ابی وامّی یٰا رسول اللّہ ملأت قلبی فرحاً وسروراً فزدنی۔ فقٰال: نعم انّہ لمّا عرج بی الیٰ السّمٰاء الدّنیا اذّن ملک من الملائکۃ واقام الصلاۃ، فاخذ بیدی جبرائیل (علیہ السلام) فقدّ منی ،
فقٰال لی : یٰا محمّد(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم ) صلّ بالملائکۃفقد طٰال شوقھم الیک ،فصلّیت بسبعین صفّاًمن الملائکۃ ، الصّفّ مٰا بین المشرق والمغرب لاٰ یعلم عددھم الاّ الذی خلقھم ، فلمّا قضیت الصّلاۃ اقبل الیّ شر ذمۃ من الملائکۃ یسلّمون علیَّ یقولون : لنٰا الیک حٰاجۃ ، فظننت انّھم یساَلوننی الشّفاعۃ لاَنّ اللّہ عزّوجلّ فضّلنی بالحوض والشّفاعۃ علیٰ جمیع الانبیاء فقلتُ : مٰا حٰا جتکم ملائکۃ ربّی ؟ قالوا : اذٰا رجعتََ الی الارض فاقرأ علیّاًمنّا السّلام واَعلمہ باِنّا قد طٰال شوقنٰا الیہ ، فقلتُ : ملائکۃ ربّی! تعرفوننٰا حقّ معرفتنٰا ؟ فقٰالوا:یا رسول اللہ لا نعرفکم انتم اول خلق خلقہ اللہ خلق کم اللہ اشباح نورٍفی نورٍ من نور اللّہ وجعل لکم مقاعدَ فی ملکوتہ بتسبیح وتقدیسٍ وتکبیرٍ لہ ثمّ خلق الملائکۃ ممّا اراد من انواٰر شتّیٰ ، کنّٰا نَمُرُّ بکم وانتم تسبّحون اللّہ وتقدّسون وتکبّرون وتحمدون وتھلّلون ، فنسبِّحُ و نقدّس و نحمدُ ونھلّل ونکبّر بتسبیحکم وتقدیسکم وتحمیدکم وتھلیلکم وتکبیرکم فمٰا نزل من اللّہ تعٰالیٰ فالیکم ومٰا صعد الیٰ اللّہ تعٰالیٰ من عند کم ، فلم لاٰ نعرفکم ؟
ثمّ عُرجَ بی الیٰ السّمٰاء الثّانیۃ ، فقٰالت الملائکۃ مثل مقٰالۃ اصحٰابھم فقلتُ: ملائکۃ ربّی؟ ھل تعرفوننٰا حقَّ معرفتنٰا ، قٰالوا: ولم لاٰ نعرفکم وانتم صفوۃ اللّہ من خلقہ وخزّان علمہ والعروۃ الوثقیٰ ، والحجّۃ العظمیٰ ، وانتم الجنب والجٰانب وانتم الکَراسیّ واصول العلم ؟فاقرأ علیاً منّا السّلام۔
ثمّ عرج بی الیٰ السمآء الثالثۃ فقٰالت لی الملائکۃ مثل مقٰالۃ اصحابھم فقلت : ملاٰئکۃ ربّی ! تعرفوننٰا حقّ معرفتنٰا ؟ قٰالوا: ولِمَ لاٰ نعرفکم وانتم بٰاب المقٰام وحجّۃ الخصٰام وعلیّ دٰابّۃ الارض وفٰاصل القضٰاء وصٰاحب العصٰا، قسیم النّار غداً وسفینۃ النّجاۃ مَن رکبھا نجیٰ ومَن تخلّف عنھا فی النّار تردّیٰ یوم القیامۃ انتم الدّ عائم ونجوم الاقطار فلِمَ لا نعرفکم فاقرأ علیّاً منّا السّلاٰم۔
ثمّ عرج بی الیٰ السّماء الرّابعۃ ، فقٰالت لی الملائکۃ مثل مقٰالۃ اصحٰابھم فقلتُ: ملاٰ ئکہ ربّی ! تعرفوننٰا حقّ معرفتنٰا ؟ فقالوا: ولِمَ لاٰ نعرفکم وانتم شجرۃ النّبوّۃ ، وبیت الرّحمۃ ومعدن الرّسالۃ ومختلف الملاٰئکۃ وعلیکم ینزل جبرٰائیل بالوحی من السماء ، فاقرأ علیاً منّا السّلام ۔
ثمّ عرج بی الی السماء الخامسۃ ، فقٰالت لی الملائکۃ مثل مقٰالۃ اصحابھم فقلتُ : ملائکۃ ربّی! تعرفوننا حقّ معرفتنٰا؟ قالوا: ولِمَ لا نعرفکم ونحن نمرّ علیکم بالغدٰاۃ والعشیّ بالعرش ، علیہ مکتوب ،،لاٰ الہ الاّ اللہ محمد رسول اللہ وایّدہ بعلیّ بن ابی طالبٍ علیہ السلام،، فعلمنٰا عند ذٰلک انّ علیاًولیّ من اولیاء اللہ تعالیٰ فاقرأ علیاً منّا السّلام۔
ثمّ عرج بی الی السماء السّٰادسۃ ، فقٰالت الملائکۃ مثل مقٰالۃ اصحابھم ، فقلت : ملائکۃ ربّی ! تعرفوننٰا حقّ معرفتنا؟ قالوا ولِمَ لاٰ نعرفکم وقد خلق اللہ جنّۃ الفردوس وعلیٰ بٰابِھٰا شجرۃ ولیس فیھٰا ورقۃ الاّ وعلیھا حرف مکتوب بالنّور ،، لا الہ الاّ اللہ ومحمد رسول اللہ وعلیّ بن ابی طالبٍ عروۃ الوثقیٰ وحبل المتین وعینہ علیٰ الخلاٰئق اجمعین،،فاقرأ علیاً منّا السّلام۔
ثمّ عرج بی الی السّماء السّٰابعۃ ، فسمعت الملائکۃ یقولون : الحمد للہ الذی صدقنٰا وعدہ ، فقلتُ : بمٰاذا وعدکم؟ قالوا: یا رسول اللہ لمّا خلقکم اشباح نورٍ فی نورٍ من نور اللہ تعالیٰ عرضت ولاٰیتکم علینافقبلنٰاھا وشکونا مَحَبّتکُم الی اللہ تعالیٰ فامّا انت فوَعَدَنٰا باَن یرینٰاک معنٰا فی السّماء وقد فعل ،
وامّا علیّ علیہ السلام فشکونٰا محبّتہ الی اللہ تعالیٰ فخلق لنا فی صورتہ ملکاً واقعدہ عن یمین عرشہ علیٰ سریر من ذھبٍ مرصّع بالدّرٍّو الجوھر علیہ قبّۃ من لؤلؤۃٍ بیضٰاءَ ، یُریٰ بٰاطنھا من ظاھرھاو ظاھرھا من باطنھٰا ، بلاٰ دعٰامۃ من تحتھا ولاٰ علاٰقۃ من فوقھٰا ، قٰال لھٰا صاحبُ العرش قومی بقدرتی فقٰالت ، فکلّمٰا اشتقنٰا الیٰ رؤیۃ علیٍّ نظرنٰا الیٰ ،، ذٰلک الملک فی السّمٰاء فاقرأ علیاً منّا السّلام ۔

ترجمہ:
ابو ذر غفاری کہتے ہیں ایک دن میں ام سلمہ کے گھر رسول خدا (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم)کے پاس بیٹھا تھا رسول خدا (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم)میرے لئے حدیث بیان کر رہے تھے اور میں سن رہا تھا کہ اتنے میں حضرت علی(علیہ السلام) تشریف لاتے ہیں جب رسول کی نظر حضرت علی(علیہ السلام) پر پڑی تو پیامبر کے چہرے پر نور چمکا خوشحال اور مسرور ہوئے کہ پیامبر نے اپنے بھائی اور چچا زاد کاد یدار کیا رسول(صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) نے علی(علیہ السلام) کو اپنے سینے سے لگا یا اور رسول نے علی(علیہ السلام) کا ماتھا(پیشانی) کا بوسہ دیا اور مجھے دیکھ کر پیامبر نے فرمایا اے ابوذر یہ جو ہمارے پاس آیا ہے اسکو جس طرح پہچاننے کا حق ہے پہچانتا ہے ؟ ابو ذر نے عرض کی اے اللہ کے رسول وہ آپکا بھائی اور آپکے چچے کا بیٹا اور فاطمہ کا شوہر حسن(علیہ السلام) و حسین (علیہ السلام)جنت کے جوانوں کے سردار کا باپ ہے پھر رسول نے فرمایا :

(۱)اے ابوذر یہ نورانی امام ہے خدا کا بلند بالا نیزہ ہے یہ خداوند تبارک وتعالیٰ کا دروازہ ہے اور جو بھی خدا تک پہچنے کا ارادہ رکھتا ہے اسے چاہئے کہ اس دروازے سے داخل ہو۔

(۲) اے ابوذریہ خدا کے عدل پر قیام کرنے والا ہے اور خدا کے حرم کا دفاع کرنے والا ہے
دین خدا کی مدد کرنے والا ہے اور خدا کی مخلوق پر خدا کی حجت ہے اور خدا نے جس قوم میں بھی کوئی نبی بھیجا ہے اس امت کے درمیان خدا نے علی(علیہ السلام) کے وسیلے سے حجت تمام کی ۔

۳۔ اے ابوذر خدا کی قسم خدا نے اپنے عرش کے ہر ستون پر ستر ہزار فرشتے مقرر کیئے ہیں اسکی تسبیح و عبادت سوائے اس کے نہیں کہ وہ علی(علیہ السلام) اور اسکے شیعوں کیلئے دعا کرتے ہیں ۔ اور انکے دشمنوں پر لعنت کرتے ہیں ۔

۴۔ اے ابوذر اگر علی (علیہ السلام) نہ ہوتے تو حق باطل سے روشن نہ ہوتا مومن کافر سے پہچانا نہ جاتا اور خدا کی عبادت نہ ہوتی کیونکہ اس نے مشرکوں کے سروں کوکا ٹا تاکہ اسلام لے آئیں اور خدا کی عبادت کریں اگر علی (علیہ السلام) نہ ہوتے تو نہ ثواب ہوتا نہ عقاب ہوتا، علی(علیہ السلام) اور خدا کے درمیان نہ کوئی پردہ ہے اور نہ کوئی حجاب بلکہ علی (علیہ السلام) ہی پردہ ہے اور حجاب ہے پھر رسول نے اس آیت کی تلاوت فرمائی ،،شرع لکم من الدین ۔۔۔۔۔۔۔۔۔،،خدا نے تمہارے لئے دین سے اس چیز کو مقررکیا کہ جسکی نوح(علیہ السلام) کو خدا نے وصیت کی اور وہ جو ہم نے تمہاری طرف وحی کی ہے اور جسکی سفارش کی ہم نے ابراھیم (علیہ السلام) و موسیٰ (علیہ السلام) و عیسیٰ(علیہ السلام) کو کہ دین کو قائم کریں اور متفرق نہ ہو ں مشرکوں کیلئے بہت ہی سخت تھا جو تم انکوخدا کی دعوت دیتے ہو اور خدا جسکو چاہتا ہے اپنے لئے چن لیتا ہے اور اپنی طرف اسکی ھدایت کرتا ہے جسکو اپنا نائب بناتا ہے

۵۔ اے ابوذر خدا اپنی مملکت ووحدانیت میں یکتا ہے اور اپنے مخلص بندوں کو اپنی معرفت عطا کرتا ہے اور جنت کو ان کیلئے خلق فرمایا ہے اور جس کی ھدایت کا خدا ارادہ کرتا ہے اسکو ولایت علی(علیہ السلام) کی معرفت عطا کرتا ہے اور جس کے گمراہ ہونے کا ارادہ کرتا ہے تو اس سے معرفت وولایت حضرت علی(علیہ السلام) کو سلب کر لیتا ہے ۔
( لیکن یاد رہے کہ خدا کا جس کے متعلق ارادہ ہوتا ہے اس چیز کی لیاقت ذاتی کے مطابق ہوتا ہے )

۶۔ اے ابوذر یہ ھدایت کا پرچم ہے حضرت علی (علیہ السلام)کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پیامبر نے ارشاد فرمایا یہ کلمہ تقویٰ ہے یہ عروۃ الوثقیٰ اور میرے اولیاء کا امام ہے اور جو بھی میری ا طاعت کریگا اس کا نور ہے یہ وہ کلمہ ہے کہ جس سے خدا نے متقین کو متمسک رہنے کا حکم دیا ہے پس جو بھی علی (علیہ السلام)سے محبت کرے گا وہ مومن ہے اور جو بھی علی(علیہ السلام) سے دشمنی کرے گا وہ کافر ہے اور جو بھی علی (علیہ السلام)کی ولایت کو ترک کرے گا وہ گمراہ ہے اور گمراہ کرنے والا ہے اور جو بھی اس کے حق سے انکار کرے گا وہ مشرک ہے ۔

۷۔ اے ابوذر علی(علیہ السلام)کی ولایت کا انکار کرنے والا قیامت کے دن بہرا اندھا اور گونگا محشور ہو گا اور قیامت کی ظلمت میں الٹا چلے گا اور فریاد کرے گا کہ ھائے افسوس کہ میں نے خدا کے حق میں کوتا ہی کی اور اس کی گردن میں آگ سے بنا ہوا طوق ہوگا کہ جس کے تین سو کنڈے ہونگے او ر ہر کنڈے پر شیطان مسلط ہے اور اس شخص کے منہ میں اپنے دھان سے آب دھان یعنی تھوکتا ہے جب قبر سے نکل کر جہنم کی آگ میں جاتا ہے تو اس کا چہرہ قبیح اور زشت ہو چکا ہوتا ہے ابوذر نے عرض کی یا رسول اللہ میرے ماں باپ آپ پر قربان ہو جائیں آپ نے میرے دل کو بہت خوش کیا اور بھی ارشاد فرمائیں تو پیامبر گرامی اسلام نے اپنے واقع معراج کو ایک آسمان سے ساتویں تک کو بیان کیا کہ سات آسمانوں کے ملائکہ نے حضرت علی (علیہ السلام)کے دیدار کے شوق کا اظہار کیا ،
پہلا آسمان :
رسول (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) نے ارشاد فرمایا جب مجھے دنیا کے آسمان پر لے جایا گیا ایک فرشتے نے اذان و اقامت کہی اور پھر جبرائیل نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے آگے کردیا ۔
اور کہا کہ ملائکہ کو نماز پڑھاؤ کہ کافی عرصے سے تمہارے دیدار کے مشتاق ہیں ۔
میں نے نماز پڑھائی جبکہ ملائکہ کی سترصفیں تھیں ایک صف کی لمبائی مشرق سے مغرب تک تھی اور انکی تعداد کو کوئی نہیں جانتا سوائے خالق اکبر کے کہ جس نے ان کو خلق کیا جب ہم نماز پڑھ چکے اور تسبیح اور تقدیس میں مشغول تھے کہ ملائکہ کا ایک گروہ میرے پاس آیااور مجھ پر سلام کیا اور کہنے لگے اے محمد(صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) ہم تجھ سے سوال کرتے ہیں کیا ہماری حاجت کو پوراکرو گے ؟ رسول(صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) فرماتے ہیں کہ مجھے گمان ہوا کہ ملائکہ خدا سے شفاعت چاہتے ہیں کیونکہ خدا نے مجھے بوسیلہ حوض کوثر اورشفاعت، تمام انبیاء پر فضیلت برتری دی ہے میں نے کہا اے خدا کے فرشتے اپنی حاجت بیان کریں،تو ملائکہ کہنے لگے جب زمین پر واپس جائیں تو حضرت علی (علیہ السلام)کو ہماری طرف سے سلام پہنچا دینا اور ساتھ یہ کہنا کہ ہم تیرے دیدار کے بہت مشتاق ہیں تو میں نے کہا اے خدا کے ملائکہ کیا تمہیں جس طرح ہماری معرفت رکھنی چاہئے معرفت حاصل ہے؟کہنے لگے اے رسو ل خدا (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) کس طرح تمہیں نہ پہچانیں جبکہ آپ خدا کی پہلی مخلوق ہیں خدا نے تمہیں نور کی شکل میں نور کے پردوں میں خلق کیا اورتمہیں اپنے عرش کے پاس جگہ عطا کی تاکہ خدا کی تسبیح وتقدیس و تکبیر بیان کرتے رہیں اور پھر خدا نے ملائکہ کو جس سے ارادہ کیا خلق کیا یعنی مختلف انوار سے خلق کیا اور ہم آپکے پاس سے گزرتے تو آپ کی تسبیح و تقدیس و تکبیر و تہلیل کی آواز سنتے تھے تو ہم نے بھی آپکی طرح خدا کی تسبیح و تقدیس و تکبیر بیان کی پس جو بھی خدا کی طرف سے نازل ہوتا ہے وہ آپکی طرف نازل ہوتا اور جو بھی خدا کی طر ف زمین سے بلند ہوتا ہے وہ بھی آپکی طرف سے ہوتا ہے پس کیسے ہم آپکو نہ پہچانیں؟
دوسرا آسمان:
رسول فرماتے ہیں پھر مجھے دوسرے آسمان پر لے جایا گیا تو وہاں کے رہنے والوں
فرشتوں نے بھی پہلے آسمان پر رہنے والے فرشتوں کی طرح سوال کئے میں نے کہا اے خدا کے ملائکہ کیا جس طرح ہماری معرفت کا حق ہے ہماری معرفت رکھتے ہو تو ملائکہ نے جواب دیا ہم کیسے آپ کو نہ پہچانیں جبکہ خدا نے اپنی مخلوق سے آپکو منتخب کیا اور آپ خدا کے علم و معرفت کا خزانہ و منبع ہیں وعروۃ الوثقیٰ ہیں یعنی اللہ کی مضبوط رسی ہیں اور خدا کی عظیم حجت ہیں آپکا مقام خدا کے ساتھ ملا ہوا ہے اور آپ علم کا تخت اور مخزن ہیں اور جب زمین پر جائیں تو علی کو ہمارا سلام پہنچا دینا ۔
تیسرا آسمان:
پھر مجھے تیسرے آسمان پر لے جایا گیا وہاں پر رہنے والے ملائکہ نے بھی مجھ سے پہلے کی طرح سوال کیا میں نے جواب دیا کہ جس طرح ہماری معرفت رکھنے کا حق ہے معرفت رکھتے ہیں؟ کہنے لگے کیوں نہ ہم آپ کی معرفت رکھتے ہوں جبکہ آپ کا مقام بلند دشمنوں پر حجت ہیں ۔ اور علی دابۃ الارض ہے قضا کو جدا کرنے والا اور صاحب عصا ہے قیامت کے دن جہنم کو تقسیم کرنے والاہے ۔اور نجات کی کشتی ہے جو سوار ہوا نجات پا گیا اور جس نے تخلف کیا اور روگردان ہوا روز قیامت جہنم میں داخل ہو گاتم دین کے ستون ہو زمین پر روشن ستا رے ہوہم کیسے تمہیں نہ پہچانیں علی کو ہمارے سلام پہنچا دینا ۔
چوتھا آسمان:
پھر چوتھے آسمان پر رہنے والے ملائکہ نے اسی طرح سوال کیا میں نے جواب دیا کیا ہماری معرفت جس طرح معرفت رکھنے کا حق ہے رکھتے ہو؟تو ملائکہ نے ایک زبان ہو کر کہا ہم کیسے تمہیں نہ پہچانیں جبکہ تم نبوت کا شجرہ ہو اور رحمت کا گھر ہو اور رسالت کا خزانہ ہو اور ملائکہ کے آنے و جانے کا مقا م ہو اور تم پر جبرائیل آسمان سے وحی لیکر نازل ہوتا ہے علی کو ہمارا سلام پہنچا دینا ۔
پانچواں آسمان :
پھر مجھے پانچویں آسمان پر لے جایا گیا وہاں پر بھی ملائکہ نے مجھ سے وہی سوال کیا میں نے انکو کہا کہ جس طرح انکو پہچاننے کا حق ہے پہچانتے ہو تو کہنے لگے کیسے آپ کو نہ پہچانیں جبکہ صبح وشام عرش پر تمہارے پاس سے گزرتے ہیں اور وہاں پر لکھا ہوا ہے لا الہ الاّ اللہ محمد الرسول اللہ اور خدا نے اپنے رسول کی علی بن ابی طالب کے ذریعے تائید کی ہے اس وقت ہم نے پہچانا کہ علی ولی خدا ہے علی کو ہماری طرف سے سلا م پہنچا دینا ۔
چھٹا آسمان:
پھر مجھے چھٹے آسمان پر لایا گیا پھر ملائکہ نے مجھ سے وہی سوال کیا میں نے ملائکہ سے کہا کیا تم ہماری معرفت رکھتے ہو جس طرح رکھنے کا حق ہے تو کہنے لگے ہم کیسے تمہاری معرفت نہ رکھتے ہوں تحقیق خدا نے جب جنّت الفردوس کو خلق کیا اور اس کے دروازے پر ایک شجرہے اور اس کے تمام پتوں پر نور سے لکھا ہوا ہے ،،لا الہ الاّ اللہ و محمد رسول اللہ و علی بن ابی طالب عروۃ اللہ وحبل اللہ المتین وعینہ علی الخلائق اجمعین ،،علی عروۃ الوثقیٰ ہے علی خدا کی مضبوط رسی ہے علی خدا کی مخلوق پر خدا کی آنکھ ہیں علی کو ہماری طرف سے سلام پہنچا دینا ۔
ساتواں آسمان:
پھر مجھے ساتویں آسمان پر لے گئے میں نے سنا ملائکہ کہہ رہے تھے کہ حمداس اللہ کی جس نے اپنا وعدہ سچا کر دکھایا میں نے ان کو کہا کس چیز کا خد ا نے تم سے وعدہ کیا تھا تو سب نے کہا اے رسول خدا جب خدا نے آپ کونور کی اشباء میں اور اپنے نور سے خلق کیا تو خدا نے تمہاری ولایت کو ہمارے سامنے پیش کیا ہم نے تمہاری ولایت کو قبول کیاا ور شدت محبت کی وجہ سے ہم نے تمہاری جدائی کے بارے خدا سے شکایت کی تو خدا نے تمہارے بارے ہم سے وعدہ کیا کہ ایک دن میں تمہیں دکھاؤں گا اور آج ہم آسمان پر آپ کی زیارت کر رہے ہیں اور خدا نے اپنے وعدہ کو پورا کیا ہے۔
اور ہم نے علی کے بارے میں بھی خدا سے شکایت کی تو خدا نے ایک فرشتے کو علی کی شکل میں خلق کیا اور اپنے عرش کے دائیں طرف سونے کے تخت پر جو لا ل و جواہر سے مزیّن ہے پر بٹھایا اور اس تخت پر سفید موتیوں سے ایک قبّہ ہے کہ جس کے اندر باہر دونوں طرف سے دیکھا جا سکت
ہے اور اس قبہ کا کوئی ستون نہیں اور نہ اوپر سے کوئی سہارا دیا گیا ہے خدا نے اس کو حکم دیا اور وہ خدا کے حکم سے قائم ہے اور جب ہمیں علی کی محبت کی شدت ہوتی ہے تو ہم آسمان پر اس فرشتے کی زیارت کرتے ہیں جو علی کی شکل میں ہے اور جب زمین پر تشریف لے جائیں تو علی کو ہماری طرف سے سلام پہنچا دینا ۔ (۱)
*****
(۱) ( بحار الانوار ج۴۰ ص۵۵تا ۵۸ح۹۰ تفسیر فرات کوفی ص۳۷۰تا ۳۷۴کمی اختلاف علی والمناقب ج ۳ ص۹۴ تا )