|
(۴)عن ابن مسعود قال قلت : یا رسول اللّہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) ما منزلۃ علیّ منک ؟ قال: منزلتی من اللّہ عزّ وجلّ۔
ترجمہ:
عبد اللہ بن مسعود کہتاہے کہ میں نے رسول خدا ( صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم)سے عرض کی اے اللہ کے رسول علی (علیہ السلام ) کے مقام و منزلت کی نسبت آپ کے ساتھ کیا ہے ؟ تو رسول گرامی اسلام نے فرمایا علی (علیہ السلام ) کا مقام و منزلت میری نسبت ایسا ہے جیسے مجھے خدا سے نسبت ہے ۔(۱)
*****
(۱)
(عقائد الانسان ج۳ص۷۸ ح۲۴)
(۵)عن الصادق جعفر بن محمد (علیہ السلام) عن آباۂ عن امیرالمؤ منین
(علیہ السلام) قال، قال لی رسول اللّہ (صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم)علی منبرہ یا علیّ انّ اللّہ عزّوجلّ وھب لک حبّ المسٰاکین والمستضعفین فی الارض فرضیت بھم اخواناً ورضوا بک امٰاماً فطوبیٰ لمن احبّک وصدّق علیک و ویل لمن ابغضک و کذّب علیک یا علیّ انت العالم ((العلم ))لھذہ الامۃ من احبّک فاز و من ابغضک ھلک یا علیّ انا مدینۃ العلم وانت بابُھا وھل تؤ تی المدینۃ الاّ من بٰابھا یا علیّ أھل مودّ تک کلّ اوّابٍ حفیظ وکلّ ذی طمرٍ لو قسم علی اللّہ لأبرّ قسمہ یا علیّ اخوٰ انک کلّ طاھرٍ زاکٍ ((زکی))مجتھدٍٍ یحبّ فیک و یبغض فیک محتقر عند الخلق عظیم المنزلۃ عند اللّہ عزّو جلّ یا علیّ محبّوک جیٰران اللّہ
فی دار الفردوس لا یأسفون علیٰ ما خلقوا من الدّ نیا یا علیّ انا ولیّ لمن والیت وانا عدوّ لمن عادیت یا علیّ من احبّک فقد احبّنی ومن ابغضک فقد ابغضنی یا علیّ اخوانک ذبل الشّفاہ تعر ف الرّ ھبانیّۃ فی وجوھھم یا علیّ اخوٰانک یفرحون فی ثلٰثہ موٰاطن عند خروج أنفسھم وانا شٰاھدھم وانت وعند المسائلۃ فی قبورھم وعند العرض الاکبر وعند الصراط اذٰا سئل الخلق عن ایمانھم فلم یجیبوا یا علیّ حربک حربی و سلمک سلمی وحربی حرب اللّہ ومن سٰالمک فقد سالمنی ومن سٰالمنی فقد سالم اللّہ یا علیّ بشّر اخوانک فانّ اللّہ عزّوجلّ قد رضی عنھم اذا رضیک لھم قائداً ورضوا بک ولیّاً یا علیّ انت امیر المؤمنین وقائد الغرّ المحجّلین یا علیّ شیعتک المنتجبون ولولاانت وشیعتک ما قام اللّہ عزّوجلّ دین ولولا من فی الارض منکم لمٰا انزلت السّماء قطرھا یا علیّ لک کنز فی الجنّۃ وانت ذ و قرنیھا و شیعتک تعرف بحزب اللہ عزّوجلّ
یا علیّ انت و شیعتک القائمون بالقسط وخیرۃ اللّہ من خلقہ یا علیّ انا اوّل من ینفض التّراب عن رأسہ وانت معی ثمّ سائر الخلق یا علیّ انت و شیعتک علی الحوض تسقون من احببتم وتمنعون من کرھتم وانتم الآمنون یوم الفزع الاکبر فی ظلّ العرش یفزع النّاس ولاٰ تفزعون ویحزن النّاس ولاٰ تحزنون فیکم نزلت ھذہ الایۃ انّ الّذین سبقت لھم منّا الحسنیٰ اولءٰک عنھا مبعد ون و فیکم نزلت لا یحزنھم الفزع الاکبرو تتلقّاھم الملائکۃ ھذا یومکم الذی کنتم توعدون یاعلیّ انت وشیعتک تطلبون فی الموقف وانتم فی الجنان تتنعّمون یاعلیّ انّ الملٰائکۃوالخزّان یشتاقون الیکم وانّ حملۃ العرش والملٰائکۃ المقرّبین لیخصّو نکم با لدّعاء و یسألون اللّہ لمجیّکم ویفرحون بمن قدم علیھم منکم کما یفرح الاھل بالغائب القادم بعد طول الغیبۃ یا علیّ شیعتک الّذین یخافون اللّہ فی السّر وینصحونہ فی العلانیّۃ یا علیّ شیعتک الّذین یتنافسون فی الدّرجٰات لأنّھم یلقون اللّہ عزّوجلّ وما علیھم من ذنب یا علیّ أ عمال شیعتک ستعرض علیّ فی کلّ جُمُعۃ
فأفرح بصالح مٰا یبلغنی من أعمالھم وأستغفر لسیّأتھم یا علیّ ذکرک فی التورٰیۃ و ذکر شیعتک قبل ان یخلقوا بکلّ خیرو کذٰلک فی الانجیل فسل اھل الانجیل وأھل الکتاب عن أِلیٰا یخبروک مع علمک بالتّورٰیۃوالانجیل ومٰا أ عطاک اللّہ عزّوجلّ من علم الکتاب و انّ اھل الانجیل لیتعٰاظمون أِلیٰا ومٰا یعرفونہ ومٰا یعرفون شیعتہ وانّمٰا یعرفوھم بمٰا یجدونھم فی کُتُبھم یا علیّ انّ اصٰحابک ذکرھم فی السّمٰاء أَکبر وأَعظم من ذکر اھل الارض لھم بالخیر فلیفرحوا بذٰلک و لیزدٰادوا اجتھٰاداً یا علیّ انّ اروٰاح شیعتک لتصعد الیٰ السمٰاء فی رقادھم و وفاتھم فتنظر الملائکۃ الیھٰا کمٰا ینظر النّاس الیٰ الھلال شوقاً الیھم ولمٰا یرون من منزلتھم عند اللّہ عزّوجلّ یاعلیّ قل لأصحٰابک العارفین بک ینتزھون عن الأعمال الّتی یفارقھٰا عدوّھم فمٰامن یوم و لیلۃ الاّ ورحمۃً من اللّہ تبارک وتعالیٰ تغشٰاھم فلیجتنبواالدّنس یاعلیّ اشتدّ غضب اللّہ عزّوجلّ علیٰ من قلاٰھم وبرأمنک ومنھم واستبدل بک وبھم ومٰال الیٰ عدوّک وترکک و شیعتک واختار الضّلاٰل ونصب الحرب لک و لشیعتک
و ابغضنا أھل البیت وابغض من والاٰ ک ونصرک واختارک و بذل مھجتہ ومٰالہ فینٰا یا علیّ اقراٌھم منّی السّلام من لم أرَ منھم ولم یرنی واعلمھم انّھم اخوٰانی الّذین اشتاق الیھم فلیلقوا علمی الیٰ یبلغ القرون من بعدی ولیتمسّکوا بحبل اللّہ ولیعتصموا بہ ولیجتھدوا فی العمل فانّا لاٰ نخرجھم من ھدی الی ضلالۃ واخبرھم أنّ اللّہ عزّوجلّ عنھم راضٍ وأنّہ یبٰاھی بھم ملائکتہ وینظر الیھم فی کلّ جمعۃ برحمتہ ویأمر الملآئکۃ ان تستغفر لھم یا علیّ لاٰ ترغب عن نصرۃ قوم یبلغھم أو یسمعون أنّی اُحبّک فأحبّوک لحبّی ایّاک و دانوا للّہ عزّوجلّ بذلک واعطوک صفوالمودّۃ فی قلوبھم واختاروک علیٰ الاباء والاخوۃ والاولاٰد وسلکوا طریقک وقد حملوا علی المکارہ فینا فأبوا الاّ نصرنا وبذل المھج فینا مع الاذی وسوء القول ومٰا یقٰا سونہ من مضٰاضۃ ذاک فکن بھم رحیماً واقنع بھم فانّ اللّہ عزّوجلّ اختارھم بعلمہ لنا من بین الخلق و خلقھم من طینتنٰا واستودعھم سرّنٰا والزم قلوبھم معرفۃ حقّنا وشرح صدورھم وجعلھم مستمسکین بحبلنٰا لا یؤثرون علینا من خٰالفنٰ
مع مٰا یزول من الدنیا عنھم ایّد ھم اللّہ و سلک بھم طریق الھدیٰ فاعتصموا بہ فالنّاس فی غمّۃ الضّلال متحیّرون فی الأھواء عموا عن الحجّۃ ومٰا جاء من عند اللّہ عزّوجلّ فھُم یصبحون ویمسون فی سخط اللّہ و شیعتک علی منھاج الحقّ و الاستقامۃ لاٰ یستأنسون الی من خٰالفھم ولیست الدنیا منھم ولیسوا منھا اولٰئک مصابیح الدّجیٰ ، اولٰئک مصابیح الدجیٰ ، اولٰئک مصابیح الدجیٰ۔
ترجمہ:
حضرت علی (علیہ السلام ) فرماتے ہیں کہ رسول خدا نے ممبر پر خطبہ ارشاد فرماتے ہوئے مجھے مخاطب کرتے ہوئے فرمایا اے علی (علیہ السلام ) خدا نے روئے زمین پر مساکین اور مستضعفین سے محبت کرنا تجھے ھبہ کر دیا اور تو ان کی بھائی چارہ پر راضی ہو جا اور وہ تمہاری امامت پر خوش ہیں اور خوش خبری ہو اس کیلئے جو تجھ سے محبت کرتا ہے اور تیری تصدیق کرتا ہے اور ویل و بربادی ہے اس کیلئے جو تجھ سے دشمنی کرتاہے او ر تجھے جھٹلاتا ہے اے علی (علیہ السلام )تو اس امت کا عالم ہے اور جو تجھ سے محبت کرنیوالا ہے کامیاب ہے اور تجھ سے دشمنی کرنے والا ھلاک ہو ااے علی (علیہ السلام ) میں علم کا شہر او ر تو اس کا دروازہ ہے اور جو شہر علم میں آنا چاہے اسے چاہیے دروازے سے آئے اے علی (علیہ السلام ) تجھ سے محبت کرنیوالا خدا کی تسبیح کرنے والے اور اس کی حفاظت کرنے والے ہیں اگر وہ قسم اٹھاتے ہیں تو خدا ا نکی قسم کو قبول کرتا ہے اے علی (علیہ السلام ) تجھ سے محبت کرنے والا طاھر و پاک و کوشش کرنے والا ہے تیری خاطر کسی سے محبت کرتا ہے اور تیری ہی خاطر دشمنی کرتا ہے لوگوں میں حقیر اور خدا کے ہاں عظیم مقام رکھتا ہے اے علی (علیہ السلام ) تجھ سے محبت کرنے والے خدا کے پڑوسی ہونگے
(جنت میں)اور دنیا میں جو چھوڑ کے آتے ہیں اس پر انکو افسوس نہیں ہوتا اے علی (علیہ السلام ) میں محبت کرتا ہوں اس سے جو تجھ سے محبت کرتا ہے اور دشمنی کرتاہوں اس سے جو تجھ سے دشمنی کرتاہے
اے علی (علیہ السلام)جو تجھ سے محبت کرتا ہے وہ مجھ سے محبت کرتا ہے اور جو تجھ سے دشمنی کرتا ہے وہ مجھ سے دشمنی کرتا ہے اے علی (علیہ السلام)تجھ سے محبت کرنے والے لب تشنہ ہیں الہی روپ ان کے چہروں سے آشکار ہوتا اے علی (علیہ السلام)تیرے محب تین مقام پر بہت خوش ہوتے ہیں۔
۱۔جب انکی روح کو بدن سے قبض کیا جاتا ہے اور میں انکو دیکھ رہا ہوتا ہوں اور تو بھی شاھد ہوتا ہے
۲۔جب قبر میں سوال و جوا ب ہوتا ہے اور بہت سخت مقام ہے ۔
۳۔پل صراط سے عبور کرتے وقت کہ جب لوگوں سے باز پر س ہو گی ایمان کے متعلق اور لوگ جواب نہیں دے سکیں گے۔
اے علی (علیہ السلام)تجھ سے جنگ کرنے والا مجھ سے جنگ کرنے والا ہے تجھ سے صلح کرنے والا مجھ سے صلح کرنے والا ہے اور مجھ سے جنگ کرنے والا خدا سے جنگ کرنے والا ہے اور تجھ سے صلح کرنے والا مجھ سے صلح کرنے والا ہے اور مجھ سے صلح کرنے والا خدا سے صلح کرنے والا ہے اے علی(علیہ السلام) اپنے شیعوں کو بشارت دو کہ تحقیق خدا ان سے راضی ہے کیونکہ تو نے ان کو اپنا مقتدی بنا لیا اوراپنے آپ کو ان کا امام بنا لیا اے علی(علیہ السلام) تو مومنوں کا امیر ہے اورسفیدپیشانیوں والوں کا قاعد ہے اے علی(علیہ السلام) تیرے شیعہ پاک طینت سے ہیں اے علی(علیہ السلام) اگر تو اور تیرے شیعہ نہ ہوتے تو اللہ کا دین قائم نہ ہوتا اے علی(علیہ السلام) اگر زمین پر تو اور تیرے شیعہ نہ ہوتے تو آسما ن سے کبھی بارش نہ ہوتی اے علی (علیہ السلام)تیرے لئے جنت میں خزانے ہیں اور تیرا اس دنیا اور آخرت پر کنٹرول ہے اور تیرے شیعہ حزب اللہ کے نام سے پہچانے جاتے ہیں
اے علی(علیہ السلام) تو اور تیرے شیعہ اس امت سے حساب وکتاب لینے والے ہیں۔اور خدا کی بہترین مخلوق تیرے شیعہ ہیں اے علی(علیہ السلام) میں وہ پہلا شخص ہوں جو قبر سے زندہ ہو کر باہر آؤں گا تو میرے ساتھ ہوگا ۔اور پھر دوسرے لوگ زندہ ہوں گے ۔اے علی (علیہ السلام) تو اور تیرے شیعہ حوض کوثر پر ہوں گے اور اپنے محبوں کو پانی پلائیں گے اور اپنے دشمنوں کو پانی سے روک دیں گے اور تم ہی قیامت کے دن عرش الہیٰ کے زیر سایہ امان میں ہو گے اور لوگ خوف کی حالت میں ہوں گے اور تمہیں اور تمہارے شیعوں کو کوئی خوف نہیں ہو گا لوگ غم زدہ ہوں گے اور تمہیں کوئی غم نہ ہوگا اور تمہارے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی ہے ،،تحقیق وہ لوگ جن کو ہماری طرف سے نیکی اور اچھائی پہنچی وہ جہنم سے محفوظ ہونگے ،،انبیاء آیت اور یہ آیت بھی تمہارے بارے میں نازل ہوئی ہے ،،کہ انہیں قیامت کے خوفناک دن میں کوئی حزن وملال نہیں ہوگا اور ملائکہ ان سے ملاقات کریں گے اور کہیں گے کہ یہ دن ہے کہ جس کے بارے تمہیں وعدہ دیا گیااے علی (علیہ السلام)ملائکہ اور خزائن جنت تم سے ملنے کے مشتاق ہو نگے اور وہ فرشتے جو حاملان عرش ہیں اور خدا کے مقرّب فرشتے ہیں تمہارے لئے دعا کرتے ہیں اور تمہارے محبوں کیلئے خدا سے سوال کرتے ہیں اور تمہارے جنت میں داخل ہونے سے خوشحال ہونگے جس طرح جب کوئی لمبے سفر سے واپس اپنے گھر آتا ہے تو گھر والے اس کے آنے سے خوشحال ہوتے ہیں اے علی(علیہ السلام) تیرے شیعہ خلوت میں خدا سے ڈرتے ہیں اور جلوت میں خوش رہتے ہیں اے علی (علیہ السلام) تیرے شیعوں کو خدا تک پہنچنے کیلئے اور درجات حاصل کرنے کیلئے ایک دوسرے سے سبقت لینی چاہئے کیونکہ جب خدا سے ملاقات کریں گے تو ان کے نامہ اعمال میں کوئی گناہ نہیں ہو گا اے علی شیعوں کے اعمال ہر جمعہ کے دن میرے سامنے پیش کئے جاتے ہیں۔
اور ان کے نیک اعمال دیکھ کر میں خوش ہوتا ہوں اور ان کے برے اعمال دیکھ کر میں ان کے لئے خدا سے استغفار کرتا ہوں۔اے علی(علیہ السلام) تیرا ذکر تورات میں ہے اور تیرے شیعوں کا ذکر ان کے خلق ہونے سے پہلے انجیل میں آیا ہے اھل انجیل اور اھل کتاب تجھے الیا کے نام کے بارے خبر دیتے ہیں جبکہ تو تورات و انجیل کا علم رکھتا ہے ،اور خدانے تجھے کتاب کا علم عطا کیا ہے تحقیق اھل انجیل الیا ء کو عظیم المرتبت سمھتے ہیں لیکن تجھے اور تیرے شیعوں کو پہچانتے نہیں ، اپنی کتابوں میں جب تمہارے اور تمہارے شیعوں کے بارے میں پڑھتے ہیں تو ان کو جانتے ہیں اے علی (علیہ السلام) تیرے شیعوں کا ذکر آسمانوں میں بہت عظیم ہے اس سے کہ ان کو زمین میں اچھائی کے ساتھ یاد کیا جائے اور انہیں چاہئے کہ سدا خوش رہیں اور اس زیادہ ان کو ان مقام کے حصول کیلئے کوشش کرنی چاہئے اے علی(علیہ السلام) تیرے شیعوں کی ارواح خواب میں یا وفات کے وقت آسمان کی طرف اٹھا لی جاتی ہے اور ملائکہ ان کو اس طرح دیکھتے ہیں جس طرح لوگ عید کے چاند کو دیکھتے ہیں اور بڑے شوق سے ان کو دیکھتے ہیں وہ مقام جو خدا کے ہاں ان کو ملا اور نصیب ہوا اے علی(علیہ السلام) اپنے شیعوں کو جو بامعرفت ہیں کہہ دیجئے کہ برے کاموں سے پرہیز کریں کہ جن سے انکا دشمن بھی پرہیز کرتا ہے کیونکہ دن ورات میں کسی وقت انکو خدا کی رحمت اپنے اندر سمیٹ سکتی ہے انہیں چاہئے کہ گناہوں کی غلاظت سے اپنے آپکو بچائیں اے علی (علیہ السلام) جنہوں نے تیرے شیعوں کے فضائل سے انکار کیا خدا کا غضب بہت سخت ہے جو ان فضائل کا انکار کرتے ہوئے تجھ سے دور ہوگئے اور خدا کا غضب بہت سخت ہے ان کیلئے جنہوں نے تیرے اور تیرے شیعوں کی بجائے تیرے دشمنوں کو پکڑا اور تیرے دشمنوں کی طرف جھک گئے اور رغبت پیداکی اور گمراہی و ضلالت میں پڑ گئے اور تیرے اور تیرے شیعوں سے جنگ کرنے پر تلے رہے۔
اور ہم اہل بیت کو انہوں نے غضبناک کیا تجھ سے دشمنی کرتے ہیں اور تیرے شیعوں سے دشمنی کرتے ہیں ۔ اوران سے دشمنی کرتے ہیں کہ جنہوں نے تیرے لئے اپنی جان ومال کو ہماری راہ میں قربان کیا ان کو میرا سلام پہنچا دو کہ جنہوں نے مجھے نہیں دیکھا اور میں نے انکو نہیں دیکھا اور ان کو بتا دو کہ وہ میرے بھائی ہیں میں ان کے دیدار کا مشتاق ہوں اور میرے بعد آنے والے لوگوں تک میرے علم کو پہنچا دو اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ لیں اور اپنے اعمال میں کوشش کرتے رہیں کہ کہیں گمراہی و ضلالت میں نہ پڑ جائیں اور اپنے شیعوں کو بتاد و کہ خدا ان سے راضی ہے اور ملائکہ کے سامنے ان کے سبب خدا فخر و مباحات کرتا ہے اور ہر شب جمعہ خدا رحمت کی نظر کرتا ہے اور ملائکہ کو حکم دیتا ہے کہ ان کیلئے استغفار کرتے رہیں اے علی( علیہ السلام) اس قوم کی نصرت سے رو گردان نہ ہونا کہ جن کو معلوم ہو جائے کہ میں تمہیں دوست رکھتا ہوں تو وہ میری خاطر تجھ سے محبت کرتے ہیں اور اسی وجہ سے خدا کے دین پر ثابت قدم رہتے ہیں اور تمہارے ساتھ دل سے محبت کرنے والے ہیں اور تمیں اپنے اباء واجداد و بہن بھائیوں سے مقدم سمجھتے ہیں اور تیری سیرت پر عمل کرتے ہیں اور ہماری خاطر مصیبتوں پر صبر کرتے ہیں اور ہماری مدد کرتے ہیں اور اپنی پوری قوت و توانائی سے ہماری راہ میں تحمل کرتے ہیں اذیتوں کو برداشت کرتے ہیں میری باتیں سنتے ہیں اور مصیبتیں جھیلتے ہیں پس ان پرہمیشہ مہربان رہو اور انہیں پر قناعت کرو خدانے ان کو چناہے اپنی مخلوق میں سے اپنے علم کے سبب ہماری فاضل اور باقی ماندہ طینت سے خدانے ان کو خلق کیا اور ہمارے اسرار خدانے ان کے سپرد قلب کئے ہیں اور خدا نے ہمارے حق کی معرفت کو ان کے دلوں میں جگہ دی ہے اور ان کے سینوں کو ہماری معرفت کیلئے گشادہ کر دیا ہے اور خدا نے قرار دیا ہے کہ وہ حبل (ہماری محبت ) سے متمسک رہیں اور ہمارے مخالفین کو ہم سے مقدم نہیں کرتے۔
باوجود اس کے کہ دنیا میں نقصان اٹھاتے ہیں اور خدا نے ان کی تائید کی ہے اور ان کو راہ ھدایت پر قائم رکھا ہے اور انہیں چاہئے کہ اس پر قائم رہیں اور لوگ ضلالت و گمراہی میں سرگردان ہیں ھواء نفس کا شکار ہو چکے ہیں اور جو خدا نے نازل کیا ہے اس سے انکار کرتے ہیں اور خدا کی محبت کو ماننے سے انکار کرتے ہیں اور اندھے ہیں صبح و شام خدا کے قہر و غضب کے مستحق ہیں اور تمہارے شیعہ راہ حق پر گامزن ہیں اور اپنے مخالفوں سے نفر ت اور بیزاری کرتے ہیں اور ان کی طرف میل پیدا نہیں کرتے دنیا سے توقع نہیں رکھتے اور نہ دنیا ا ن سے امید رکھتی ہے اور یہ ھدایت کے چراغ ہیں یہ ھدایت کے چراغ ہیں ،یہ ھدایت کے چراغ ہیں ۔
(۱)
*****
(۱)
(امالی شیخ صدوق مجلس ۸۳ ج۲)
(۶)عن علی بن ابی طالب ( علیہ السلام) قال:قال لی رسول اللّہ (صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم)یوم فتحتُ خَیبرَیاعلیّ لولاان تقول فیک طوائف من اُمّتی ما قالت النّصاریٰ فی عیسیٰ بن مریم لقلتُ فیک الیوم مقٰالاً لاٰ تمرُّ بملاءٍ من المسلمین الاّ و أخذُوا تُراب نَعلَیک و فضلَ طھورک یستشفون بہ ولٰکن حسبُک اَن تکون منّی واَنا منک ترثنی واَرثک وانت منّی بمنزلۃ ھٰارون من موسیٰ الاّ اَنّہ لانبیّ بعدی واَنت تُؤَدّی دینی وتقٰاتل علیٰ سنّتی واَنت فی الاخرۃ اقرب النّاس منّی وانّک غداً علی الحوض خلیفتی تذوذ عنہ المنافقین
وانّک اوّل مَن یردُ علیَّ الحوض وانّک اوّل داخلٍ یدخلُ الجنّۃ من امّتی وانّ شیعتک علیٰ منٰابر من نور رواء مرویّین مبیضّۃ وجوھھم حولی اشفعُ لھم فیکونون غداً فی الجنّۃ جیرانی وانّ عدوّک غداًظماءً مظمَئین مسودّۃً وجوھھم مقمحین ۔
یا علیّ حربک حربی و سلمک سلمی وعلانیتک علانیتی وسریرۃ صدرک کسریرۃ صدری وانت باب علمی وانّ ولدک ولدی ولحمک لحمی ودمُک دمی وانّ الحقّ معک والحقّ علیٰ لسانک مانطقت فھو الحقّ وفی قلبک وبین عینیک والایمان مخٰالط لحمک ودمک کمٰا خٰالط لحمی و دمی۔
وانّ اللّہ عزّوجلّ امرنی ان اُبشّرک :اَنت و عترتک ومحبیک فی الجنّۃ وانّ عدوّک فی النّار یا علیّ لاٰ یردُ الحوض مبغض لک ولاٰ یغیب عنہ محبّ لک ۔ قال: قال علیّ (علیہ السلام)فخررت ساجداًللّہ سبحانہ وتعٰالیٰ و حمدتہ علیٰ ما انعم بہ علیّ من الاسلام والقران وحبّبنی الی خاتم النبیّین وسیّد المرسلین( صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم)۔
ترجمہ:
حضرت علی ( علیہ السلام ) فرماتے ہیں کہ جب میں نے خیبر فتح کیا تو اس دن رسول خدا (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم ) نے فرمایا اے علی( علیہ السلام ) اگرمجھے اس بات کا ڈر نہ ہوتا کہ تیرے بارے میں امت میں سے بعض وہی کہیں گے جو نصاریٰ نے حضرت عیسیٰ بن مریم کے بارے میں کہا تھا توآج میں آپ کے بارے میں کہتااور تو مسلمانوں کے کسی گروہ کے پاس سے نہ گزرتا مگر یہ کہ تیرے قدمو ں کی خاک اور تیرے وضو کے بچے ہوئے پانی کو اٹھا تے اوراسے اپنے لئے شفا سمجھتے لیکن تیرے لئے یہی کافی ہے کہ تو مجھ سے ہے اور میں تجھ سے ہوں تو مجھ سے ارث لے گا اور میں تجھ سے ارث لونگا اور تجھے مجھ سے وہی نسبت ہے جو ہارون کو موسیٰ تھی مگر یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں آئیگا تو میرے دین و قرض کو ادا کریگا ۔ اور میری سنت پر جہاد کریگا اور آخرت میں تو سب سے زیاد ہ نزدیک تر ہوگا مجھ سے اور حوض کو ثر پر میرا جانشین ہو گا اور منافقوں کو حوض کوثر سے دور کرے گا اور تو سب سے پہلے حوض کوثر پر میرے پاس آئے گا ۔
اور تو سب سے پہلے حوض کوثر پر میرے پاس آئے گا تو سب سے پہلے میری امت میں بہشت میں داخل ہو گا اور تیرے شیعہ قیامت کے دن نورکے ممبروں پر سیراب ا ورحشاش وبشاش نورانی چہرے کے ساتھ میرے گرد ہونگے میں ان کی شفاعت کرونگا اور جنت میں میرے پڑوسی ہونگے ۔ اور تیرے دشمن قیامت کے دن بھوکے وپیاسے اور تھکے ہوئے سیاہ چہرے کے ساتھ سر جھکائے ہوئے اور گردن میں طوق و زنجیر پہنے ہوئے ہونگے ۔ اے علی (علیہ السلام ) تیرے ساتھ جنگ کر نا میرے ساتھ جنگ کرنا ہے تیرے ساتھ صلح کرنا میرے ساتھ صلح کرنا ہے تیرا ظاہر میرا ظاہر ہے تیرا باطن میرا باطن ہے تو میرے علم کا باب ہے تیرے بیٹے میرے بیٹے ہیں تیرا گوشت میرا گوشت ہے تیرا خون میرا خون ہے حق تیرے ساتھ ہے اور جو بھی تو کہے گا حق ہوگا تیرے د ل میں حق ہے تیری دونوں آنکھوں کے درمیان میں حق ہے اور تیرے گوشت میں ایمان مخلوط ہو چکا ہے تیرے خون میں حق مخلوط ہو چکا ہے جس طرح میرے گوشت و خون میں ایمان مخلوط ہو چکا ہے خدا فرماتا ہے میں تمہیں خوشخبری دوں تو اور تیری رعیت اور تیرے شیعہ جنت میں ہونگے اور تیرے دشمن جہنم میں ہونگے اے علی (علیہ السلام ) جو بھی تجھ سے دشمنی کرتا ہے حوض کوثر پر حاضر ووارد نہیں ہو سکتا اور تیرا محب حوض کوثر سے غایب نہیں ہو سکتا حضرت علی (علیہ السلام ) نے خدا کا شکر کرتے ہوئے سجدہ کیا اور خدا کی حمد بجالائے کیونکہ خداوند عالم نے حضرت علی(علیہ السلام ) پر اسلام اور قرآن سے بہت زیادہ انعامات فرمائے اور مجھے حضرت خاتم النبین اور سیدالمرسلین سے محبت کرنے والا بنایا ہے (۱)
*****
(۱)
(شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج ۹ ص۱۶۸خطبہ ۱۵۴)
|
|