٣۔ تحقق امامت کے مراحل :
کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں چونکہ خدا وند عالم نے امام کو چنا اور معیّن فرمایا تھا اور رسول اسلام ۖ نے بھی اس امر کی تبلیغ کر دی تھی تو بس یہ کافی ہے ، ائمّہ معصومین علیہم السّلام (حضرت امیرالمؤمنین ـ سے لے کر حضرت مہدی 'عجل فرجہ الشریف ' تک ) انسانوں کے امام ، رہبر اور پیشوا خدا کی طرف سے منصوب کئے گئے ہیں ۔ُمّت مسلمہ کے حقیقی اور واقعی رہبر تو ائمّہ ہیں ؛ چاہے لوگ انکو منتخب کریں یا نہ کریں ،چاہے ظاہری امامت کے حامل ہوں یانہ ہوں سیاسی قدرت کواسلامی معاشرے میں اسلامی آئین و قوانین کا اجرا کر یں یا نہ کریں یہ نظریہ اور طرز تفکّر '' شخصی اعتقاد ' 'کے لحاظ سے تو صحیح ہے حضرت علی ـ اور دیگر ائمہ معصومین علیہم السّلام جہان کی خلقت کے شروع ہونے سے بھی پہلے منتخب ہو چکے تھے اور انکے بابرکت اور نورانی اسماء دیگر آسمانی کتابوں بھی ذکر کئے گئے ہیں چاہے لوگ ان بزرگوں اور رہبران حق کو پہچانے یا نہ پہچانے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
جب حضرت علی ـ کو غربت و فقر کی ہی زندگی گزارنی ہے اور سیاسی طاقت اپنے ہاتھ میں نہیں لینی ہے تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ لوگ انکو پہچانے یا نہ اور ا ن کے مقام و منزلت سے واقف ہوں یا نہ؟کیونکہ امام علی ـ کو خدا وندعالم نے منتخب کیا ہے اور وہ تمام لیاقتیں اور اوصاف جو ایک امام بر حق میں ہونا ضروری ہیں ان سب کے حامل ہیں ، اس بات پر یقین اور اعتقاد بھی محکم ترین عقائد میں سے ایک ہے، لیکن اس عقیدے کا اجتماعی فائدہ کیا ہے ؟مقام جراء میں اس کی کیا حیثیت ہے؟
اس کی مثا ل بالکل ایسی ہی ہے جیسے ایک ما ہر طبیب اور قابل ولائق ڈاکٹر ایک شہر میں گوشہ نشینی اختیار کر لے اور غریبانہ ، تنہا اور گمنام زندگی گزارے جبکہ مختلف امرا ض میں مبتلا ہزاروں مریض اس طبیب کے علاج و درمان سے محروم رہیں معا لجے کے لئے اس کا انتخاب نہ کریں ، اس کے پا س نہ جا ئیں اور اس کے علم ودانش سے استفادہ نہ کر یں ۔
سب سے اہم بات تو یہ ہے کہ امام اسلامی حکومت کی سیاست میں عمل دخل رکھتا ہو سیاسی قدرت اس کے ہا تھ میں ہو اور احکام دین کا اجرا ہو ، اجتماعی عدالت کاتحقق اور اس میں توسیع ہو،
وہ کون ہے جسے احکام الہی کی تفسیر کرنی چاہیے،
وہ کو ن ہے جسے اسلامی اقتدار کو اسلامی معاشرے پر حاکم بنانا چاہیے ،
وہ کون ہے جسے حدود الہی کا پاس رکھتے ہوئے اسلامی معاشرے پر قانون لاگو کرنا چاہیے وہ کون ہے جو قصاص کرے ، شرعی حد جاری کرے ،وجوہات شرعی کی جمع آوری کرے اور صلح وجنگ میں رہنمائی کرے، خدا اور اسکے فرشتے تو مسلمانوں کی سیاسی اور اجرائی قدرت کو عملاً اپنے ہاتھ میں نہیں لیتے ، لہذا خدا کے منتخب بندوں کو ہونا چاہیے جومعاشرے میں یہ سارے امور خوش اسلوبی کے ساتھ انجام دیں لیکن کو ن اور کیسے ؟۔
یہیں پر لوگوں کا انتخاب اپنا کردار ادا کرتا ہے لوگوں کا قبو ل کرنا امام کی سیاسی اور اجرائی قدرت کیے لئے موثر ہو تا ہے لھذا اس بنا پر امامت کا تحقق پانا چند مراحل میں بہت اہم اور ضروری ہے جیسے۔
اوّل ۔ انتخاب الٰہی :
کیونکہ لوگ انسان شناس نہیں ہیں اور دوسروں کے باطنی رموزو اسرارسے واقفیت نہیں رکھتے ، لہٰذا امام بر حق کا انتخاب خدا وند عالم کو کرنا چاہیے جو کہ خالق انسان بھی ہے اور اسکی باطنی کیفیت سے بھی آگاہ ہے ۔ ( اَﷲ ُ َعْلَمُ حَیْثَ یَجْعَلَ رِّسٰا لَتَہُ )
(خدا وند عالم بہتر جانتا ہے کہ رسالت و امامت کو کس خاندان میں قرار دے ، خدا وند عالم نے ہی تمام قوموں کے لئے پیغمبروں اور اماموں کا انتخاب کیا ہے اور انکا تعارف کرایا ہے ۔
دوّم۔ پیغمبرا ن خدا کا اعلان :
خدا وند عالم کے انتخاب کر لینے کے بعد آسمانی رہنماؤں اور ائمّہ معصو مین علیہم السّلام کا تعارف خدا کے پیغمبروں کے توسّط سے ہونا چاہیے ،انکی اخلاقی خصوصیات کا ذکر ہونا چاہیے ،انکی اجرائی اور سربراہی طاقت کو لوگوں کے درمیان بیان ہونا چاہیے،تاکہ یہ بر گزیدہ ہستیاں پیغمبر خاتم ۖکے بعد سے تا قیام قیامت امت کی رہنمائی کر سکیں اور احکام خدا وندعالم کو معاشرے میں عام کر سکیں۔
چنانچہ جناب امیر المؤمنین ـ نے ارشاد فرمایا:
'' وَخَلَّفَ فیْکُمْ مٰاخَلَّفَتِ الَْنْبِیٰاء ُفیْ ُمَمِھٰا،ِذْلَمْ یَتْرُکُوْھُم ھَمَلاً، بِغَیْرٍ طَریْقٍ وَاضِحٍ وَلَا عَلَمٍ قٰائِمٍ.'' رسول گرامی اسلام ۖ نے تمہارے درمیان ایسے ہی جانشین مقرر کئے جیسے کے گذشتہ پیغمبروں نے اپنی اپنی امت کے لئے مقرّر کئے کیونکہ وہ اپنی امت کو سر گردان اور لاوارث چھوڑ کر نہیں گئے ، واضح و روشن راستہ نیز محکم نشانیاں بتائے بغیرلوگوں کے درمیان سے نہیں گئے ۔(١)
لیکن اب بھی منتخب َئمّہ کی ولایت عمل و اجرا کے لحاظ سے نامکمّل ہے کیونکہ اگر خدا وند عالم معصوم رہنماؤں کا انتخاب بھی کرلے اور اسکا رسول ۖ انکا ابلاغ بھی کر دے لیکن مقام عمل اور میدان زندگی میں لوگ انکو قبول نہ کرتے ہوں تو ولایت کا وقوع معاشرے میں نا تمام و نا مکمّل ہے ۔ اس لئے ایک تیسرے عامل ( لوگوں کا انتخاب ) کا وجود لازمی و ضروری ہے۔
..............
( ١)۔ خطبۂ ١/ ٤٤ : نہج البلاغہ معجم المفہرس مؤلّف ۔ اسناد و مدارک
١۔ عیون المواعظ والحکم : واسطی ( ٤٥٧ میں لکھی گئی )
٢۔ بحار الانوار ، ج ٧٧ ، ص ٣٠٠ / ٤٢٣ : مرحوم علّامہ مجلسی ( متوفّیٰ ١١١٠ ھ )
٣۔ ربیع الابرار ( باب السماء والکواکب ) : زمخشری ( متوفّیٰ ٥٣٨ ھ )
٤۔ شرح نہج البلاغہ ، ج ١ ،ص ٢٢ : قطب راوندی ( متوفّیٰ ٥٧٣ ھ )
٥۔ تحف العقول : ابن شعبۂ حرانی ( متوفّیٰ ٣٨٠ ھ )
٦۔ اصول کافی ، ج ١، ص ١٤٠/١٣٨ : مرحوم کلینی ( متوفّیٰ ٣٢٨ ھ )
٧۔ الاحتجاج ، ج ١ ،ص ١٥٠ /١٩٨ /٢٠٩ : مرحوم طبرسی ( متوفّیٰ ٥٨٨ ھ )
٨۔ مطالب السؤول : محمّد بن طلحہ شافعی ( متوفّیٰ ٦٥٢ ھ )
٩۔ دستور معالم الحکم ، ص ١٥٣ : قاضی قضاعی ( متوفّیٰ ٤٥٤ ھ )
١٠۔ تفسیر فخر رازی ، ج ٢، ص ١٦٤ : فخر رازی ( متوفّیٰ ٦٠٦ ھ )
١١۔ الحکمة و المواعظ : ابن شاکر واسطی ( ٤٥٢ میں تدوین ہوئی )
١٢۔ ارشاد ، ج ١، ص ١٠٥/٢١٦/٢١٧ : شیخ مفید ( متوفّیٰ ٤١٣ ھ )
١٣۔ توحید ، ص ٢٤ : شیخ صدوق ( متوفّیٰ ٣٨٠ ھ )
١٤۔ عیون الاخبار : شیخ صدوق ( متوفّیٰ ٣٨٠ ھ )
١٥۔ أمالی ، ج ١ ،ص ٢٢ : شیخ طوسی ( متوفّیٰ ٤٦٠ ھ )
١٦۔ کتاب أمالی ، ص ٢٠٥ : شیخ صدوق ( متوفّیٰ ٣٨٠ ھ )
١٧۔ اختصاص ، ص ٢٣٦ : شیخ مفید ( متوفّیٰ ٤١٣ ھ )
١٩۔ تذکرة الخواص ، ص ١٥٧ : ابن جوزی ( متوفّیٰ ٦٥٤ ھ )
٢٠۔ کتاب البدء والتاریخ ، ج ١، ص ٧٤ : مقدّسی ( متوفّیٰ ٣٥٥ ھ )
٢١۔ بحار الانوار ، ج ٤، ص ٣٢/٤٤/ ٥٣/ ٥٤ : علامہ مجلسی ( متوفّیٰ ١١١٠ ھ )
٢٢۔ کتاب محاسن : علامہ برقی ( متوفّیٰ ٢٧٤ ھ )
٢٣۔ بحارالانوار ، ج ٤ ، ص ٢٤٧/٢٨٥/٣٠٤/٣٢/٤٤/٥٢/٥٣/٥٤ : علامہ مجلسی ( متوفّیٰ ١١١٠ ھ )
٢٤۔ بحارالانوار ، ج ١٠ ،ص ١١٨/ ج ١١ ،ص ٦٠/١٢٢ : علامہ مجلسی ( متوفّیٰ ١١١٠ ھ )
٢٥۔ بحارالانوار ، ج ١٦، ص ٢٨٤ / ج ٥٤ ، ص ١٧٦ : علامہ مجلسی ( متوفّیٰ ١١١٠ ھ )
٢٦۔ بحارالانوار ، ج ٦٠ ،ص ٢١٢ : علامہ مجلسی ( متوفّیٰ ١١١٠ ھ )
٢٧۔ غررالحکم ، ج ٣، ص ٣٠١/ ج ٤ ،ص ٣٨٩ : مرحوم آمدی ( متوفّیٰ ٥٨٨ ھ )
٢٨۔ غررالحکم ، ج ٥ ،ص ٩٩/١٠٢/ ج ٦ ،ص ٤٢١ : مرحوم آمدی ( متوفّیٰ ٥٨٨ ھ )
٢٩۔ بحارالانوار ، ج ٤ ،ص ٢٤٨ / ج ٥٧ ،ص ١٧٨ : علامہ مجلسی ( متوفّیٰ ١١١٠ ھ )
٣٠۔ بحارالانوار ، ج ١٨ ، ص ٢١٧ / ج ١١ ،ص ١٢٣ /٦١طبع جدید : علامہ مجلسی ( متوفّیٰ ١١١٠ ھ )
٣١۔ اصول کافی ، ج ١، ص ١٣٥ / ١٣٩/ ١٤١ : مرحوم کلینی ( متوفّیٰ ٣٢٨ ھ )
٣٢۔ روضۂ کافی ، ج ٨، ص ٣١ : مرحوم کلینی ( متوفّیٰ ٣٢٨ ھ )
سوّم۔لوگوں کی بیعت عام:
اگر لوگ انتخاب الٰہی اور پیغمبر خدا ۖ کے ابلاغ کے بعد راستے کو پہچان لیں ، اپنے اما م بر حق کو چن لیں ، کارہائے امامت میں ممد و معاون ہوں ، اپنے امام کا دل وجان سے انتخاب کریں،اسلامی اقدار کے تحقق کے لئے سر دھڑ کی بازی لگا دیں اور شہادت کی آرزو کے ساتھ امام کے حکم جہاد کو بجا لانے میں دریغ نہ کریں ، عقیدے و یقین میں بھی اور زندگی کے میدان عمل میں بھی امام پر ایمان رکھتے ہوں تب ہی امامت کا تحقق اور ایک واقعی وجودقائم ہوتا ہے ،امام کو احکام الٰہی کے اجراء کی قدرت و طاقت ملتی ہے اور انسانوں کی میدان زندگی میں دین خدا کو وجود ملتا ہے ۔
جیسا کہ امام ـ نے فرمایا !
'' َمٰاوَالَّذِیْ فَلَقَ الْحَبَّةَ،وَبَرََالنَّسَمَةَ،لَوْلاَحُضُوْرُالحٰاضِر وَقِیٰامُ الْحُجَّة بِوُجُوْ دِ ا لنّٰاصِرِ،وَمٰا َخَذَاﷲ ُعَلیَ الْعُلَمٰائِ َلا یُقٰا رُّوْا عَلیٰ کِظَّة ظٰالِمٍ، وَلاَ سَغَبِ مَظْلُوْمٍ،لََ لْقَیْتُ حَبْلَہٰا عَلیٰ غٰارِبِہٰا،وَلَسَقَیْتُ آخِرَھٰا بِکَْسِ َوَّلِھٰا،وَلََلْفَیْتُمْ دُنْیٰاکُمْ ھٰذِہ َ زْھَدَعِنْدِیْ مِنْ عَفْطَةِ عَنْزٍ!.''(١)
اس خدا کی قسم! کہ جس نے دانے میں شگاف ڈالا اور جان کو خلق کیا ، اگر بیعت کرنے
..............
(١)نہج البلاغہ خطبۂ ٣/١٦
والوں کی بڑی تعداد حاضر نہ ہوتی اور چاہنے والے مجھ پر حجّت تمام نہ کرتے اور خدا وند عالم نے علماء سے عہد و پیمان نہ لیا ہوتا کہ وہ ظالموں کی ہوس اور شکم پری، اور مظلوموں کی گرسنگی پر خاموشی اختیار نہ کریں تو میں آج بھی خلافت کی رسّی انکے گلے میں ڈال کر ہا نک دیتا اور خلافت کے آخر کو اول ہی کے کاسہ سے سیراب کرتا اور تم دیکھ لیتے کہ تمہاری دنیا میری نظر میں بکری کی چھینک سے بھی زیادہ بے قیمت ہے ۔ (١)
..............
(١)۔ اسناد و مدارک خطبۂ /٣
١۔ کتاب الجمل ، ص ٦٢/٩٢ : شیخ مفید ( متوفّیٰ ٤١٣ ھ )
٢۔ الفہرست ، ص ٩٢ : نجاشی ( متوفّیٰ ٤٥٠ ھ )
٣۔ الفہرست ، ص ٢٢٤ : ابن ندیم ( متوفّیٰ ٤٣٨ ھ )
٤۔ الانصاف فی الامامة : ابی جعفر ابن قبۂ رازی ( متوفّیٰ ٣١٩ ھ )
٥۔ معانی الاخبار ، ص ٣٤٣ : شیخ صدوق ( متوفّیٰ ٣٨٠ ھ
٦۔ علل الشرایع ، ص ١٤٤ : شیخ صدوق ( متوفّیٰ ٣٨٠ ھ )
٧۔ العقد الفرید ، ج ٤ : ابن عبد ربہ ( متوفّیٰ ٣٢٨ ھ )
٨۔ بحار الانوار ، ج ٨ ص ١٢٠ ( کمپانی ؛متوفّیٰ ١٠٣٧ ھ ) : مرحوم مجلسی ( متوفّیٰ ١١١٠ ھ )
٩ شرح نہج البلاغہ : قطب راوندی ( متوفّیٰ ٥٧٣ ھ )
١٠۔ المناقب : ابن جوزی ( متوفّیٰ ٦٥٤ ھ )
١١۔ الغارات : ابن ہلال ثقفی ( متوفّیٰ ٢٨٣ ھ )
١٢۔ الفرقة الناجیة : قطیفی ( متوفّیٰ ٩٤٥ ھ )
١٣۔ ارشاد ، ج ١ ص ١٣٥/٢٨٤/٢٨٦ : شیخ مفید ( متوفّیٰ ٤١٣ ھ )
١٤۔ المغنی : قاضی عبدالجبّار ( متوفّیٰ ٤١٥ ھ )
١٥۔ نثرالدرر : وزیر ابو سعید آبی ( متوفّیٰ ٤٢٢ ھ )
١٦۔ نزہة الادیب : وزیر ابو سعید آبادی ( متوفّیٰ ٤٢٢ ھ )
١٧۔ الشافی ، ص ٢٠٣ : سیّد مرتضیٰ ( متوفّیٰ ٤٣٦ ھ )
١٨۔ الامالی : ہلال بن محمد بن الحفار ( متوفّیٰ ٤١٧ ھ )
١٩۔ الامالی : شیخ الطائفة طوسی ( متوفّیٰ ٤٦٠ ھ )
٢٠۔ تذکرة الخواص ، ص ١٣٣ : سبط ابن الجوزی ( متوفّیٰ ٦٥٤ ھ )
٢١۔ تحف العقول ، ص ٣١٣ : ابن شعبۂ حرانی ( متوفّیٰ ٣٨٠ ھ )
٢٢۔ شرح الخطبة الشقشقیة : سیّد مرتضیٰ ( متوفّیٰ ٤٣٦ ھ )
٢٣۔ الافصاح فی الامامة ، ص ١٧ : شیخ مفید ( متوفّیٰ ٤١٣ ھ )
٢٤۔ الاحتجاج ، ج ١، ص ٢٨١/١٩١ : طبرسی ( متوفّیٰ ٥٨٨ ھ )
٢٥۔ المحاسن والادب : علّامہ برقی ( متوفّیٰ ٢٨٠ ھ )
٢٦۔ المستقصیٰ ، ج١ ،ص ٣٩٣ : زمخشری ( متوفّیٰ ٥٣٨ ھ )
٢٧۔ مجمع الامثال ، ج ١، ص ١٩٧ : میدانی ( متوفّیٰ ٥١٨ ھ )
٢٨۔ المجلی ، ص ٣٩٣ : ابن ابی جمہور احسائی ( متوفّیٰ ٩٠٩ ھ )
٢٩۔ المواعظ ولزواجر ( کتاب الغدیر ، ج ٧، ص ٨٢ سے نقل ) : ابن سعید عسکری ( متوفّیٰ ٢٩١ ھ )
٣٠۔ ابن خشاب کہتا ہے ! خدا کی قسم میں نے اس خطبے کو ان کتابوں میں پڑھا ہے جو سیّد رضی کی پیدائش سے ٢٠٠/سال پہلے تدوین ہو ئی ہیں : ماھو نہج البلاغہ ، ص ٩٨ : شہرستانی
٣١۔ کتاب الانصاف : ابن کعبی بلخی ( متوفّیٰ ٣١٩ ھ )
٣٢۔ الاوائل : ابن ہلال عسکری ( متوفّیٰ ٣٩٥ ھ )
٣٣۔ غرر الحکم ، ج ٣ ، ص ٤٦ : مرحوم آمدی ( متوفّیٰ ٥٨٨ ھ )
٣٤۔ غرر الحکم ، ج ٦ ،ص ٢٣٢/ ٢٥٦ : مرحوم آمدی ( متوفّیٰ ٥٨٨ ھ )
٣٥۔ رسائل العشر ، ص ١٢٤ : شیخ طوسی ( متوفّیٰ ٤٦٠ ھ )
اگرانتخاب الھی وابلاغ ر سا لت کے بعدلوگ ائمہ معصومین کو قبول نہ کریں اور امام برحق کو تنہا چھوڑ دیں یا قتل کر دیں تو اس صورت میں امامت اور ولایت کا تحقق نہیں ہو گا اور امام سیاسی طور پر لوگوں میں حاضر نہیں ہو سکتے اور کوئی بھی ان کے امر باالمعروف اور نہی عن المنکر پر عمل نہیں کرے گا اور اگرفرمان صادرفرمائیں گے تو کوئی اطاعت نہیں کرے گا۔
حضرت علی ـ نے فرما یا :
دَعُونِِِِِِِِِ وَالَتمِسُوا غَیرِی ،فَاِنََّا مُستَقبِلُون اَمراً لَہُ وُجُوہُ وَاَلوَانُ، لَاتَقُومُ لَہ القُلُوبُ،وَلَاتَثبُتُ عَلَیہِ العُقُولُ وَاِن الافَاقَ قَد اَغَامَت،وَالمحَجَّةَ قَدتَنَکَّرَت وَاعلَمُوا اَنَّ اِن اَجَبتُکُم رَکِبتُ بِکُم مَااَعلَمُ وَلَم اُصغِ اِ لَی قَولِ اَلقَائَل وَعَتبِ اَلعَا تِب وَاِن تَرَکتُمُونِ فَاَنَاکَاَحَدِکُم،وَلَعَلِّ اَسمَعُکُم وَاَطوَعُکُم لِمَن وَلَّیتُمُوہُ اَمرَکُم،وَ اَنَا لَکُم وَزِیراً ،خَیرُلَکُم مِنِّی اَمِیراً :(١)
جب لوگوں نے قتل عثمان کے بعد آپ کی بیعت کا ارداہ کیا تو آپ نے فرما یا: مجھے چھوڑ دو جائو کسی اور کو تلاش کر لو (٢) ہمارے سامنے وہ معاملہ ہے جس کے بہت سے رنگ اور رخ ہیں جن کی نہ دلوں میں تاب ہے اور نہ عقلیں انہیں برداشت کر سکتی ہیں دیکھو افق کس قدر ابر آلودہے اور راستے کس قدر انجانے ہیں ، یاد رکھو اگر میں نے تمہاری بیعت کی دعوت کو قبول کر لیا تو تمہیں اپنے علم ہی کے
..............
(١)۔خطبہ ٩٢، نہج البلاغہ معجم المفھرس
(٢)۔اس میں کوئی شک نہیں کہ حضرت علی ـ خدا وند عالم کی طرف سے امامت پر منصوب ہوئے اور اسلامی ممالک سے آئے ہوئے ایک لاکھ بیس ہزار حاجیوںنے غدیر خم کے میدان میں خدا وند عالم کے حکم سے اور پیغمبر ۖ کے ابلاغ کے بعد امام کے ساتھ بیعت کی ، لیکن ٢٥سال بعد ،ان تینوں کی خلافت کے دور میں لوگوں کے سیاسی انحراف اوراقدار میں تغییر کے سبب اس وقت اتمام حجّت کرتے ہوئے فرما رہے ہیں کہ '' مجھے چھوڑ دو'یعنی تم لوگ عدل کی حکومت کا تحمّل نہیں کر سکتے۔
راستے پر چلاؤں گا اور کسی کی کوئی بات او ر سرزنش نہیں سنوں گا لیکن اگر تم نے مجھے چھوڑ دیا تو تمہارے ہی ایک فرد کی طرح زندگی گزاروں گا بلکہ شاید تم سب سے زیادہ تمہارے حاکم کے احکام کا خیال رکھوں میں تمہارے لئے وزیر کی حیثیت سے ا میر کی بہ نسبت ز یادہ بہتر رہوں گا(١) نا پختہ اور سست عقائد کے مالک کوفیوں کی سرزنش کرتے ہوئے ایک تقریر میں حضرت امیر المؤمنین ـ نے واضح طور پر اساسی اور بنیادی اصل کی طرف اشارہ فرمایا کہ اگر لوگ امام کی اطاعت نہ کریں تو امام عملاً ایک اسلامی معاشرہ میں معاشرہ ساز فعالیّت نہیں انجام دے سکتا۔
..............
(١)۔ خطبۂ / ٩٢ کے اسناد و مدارک :
١۔ تاریخ طبری ، ج ٦ ص ٣٠٦ : طبری ( متوفّیٰ ٣١٠ ھ )
٢۔ النّہایة ( ٣٥ ھ کے حوادث سی مربوط ) : ابن اثیر ( متوفّیٰ ٦٠٦ ھ )
٣۔ کتاب جمل ، ص ٤٨ : شیخ مفید ( متوفّیٰ ٤١٣ ھ )
٤۔ تذکرة الخواص ، ص ٥٧ : ابن جوزی ( متوفّیٰ ٥٦٧ ھ )
٥۔ شرح قطب راوندی ، ج ١ ص ٤١٨ : ابن راوندی ( متوفّیٰ ٥٧٣ ھ )
٦۔ نسخۂ خطّی ٤٩٩ ھ ، ص ٧٣ : مؤلفہ ابن مؤدب، پانچویں صدی کے عالم دین
٧۔ نسخۂ خطّی نہج البلاغہ ، ص ٧٠ : مؤلّفہ ٤٢١ ھ
٨۔تجارب الامم:، ج ١ ، ص ٥٠٨ : ابن مسکویہ ( متوفّی ٤٢١ ھ)
٩۔ بحارالانوار ، ج ٣٢ ،ص٣٥۔ مرحوم مجلسی ( متوفی ١١١٠ ھ )
٭ : امیر المؤ منین ـ کے اس ارشاد سے تین باتوں کی مکمّل وضاحت ہوتی ہے۔ (خطبہ ٩٢ نہج البلاغہ)
١۔ آپ ـکو خلافت کے سلسلے میں کوئی حرص اور طمع نہیں تھی اور نہ ہی آپ ـ اس سلسلے میں کسی قسم کی تگ و دو کرنے کے قائل تھے ۔ الٰہی عہدہ عہدیدار کے پاس آتا ہے عہدیدار خود اسکی تلاش میں نہیں جاتا۔
٢۔ آپ ـ کسی قیمت پر اسلام کی تباہی برداشت نہیں کر سکتے تھے آپ کی نظر میں خلافت کا لفظ اپنے اندر مشکلات اور مصائب لئے تھا اور قوم کی طرف سے بغاوت کا خطرہ نگاہ کے سامنے تھا لیکن اسکے باوجود اگر ملت کی اصلاح اور اسلام کی بقا ء کا دارومدار اس خلافت کو قبول کرنے میں ہے تو آپ اس راہ میں ہر قسم کی قربانی دینے کے لئے آمادہ و تیارہیں ۔
٣۔ آ پ ـ کی نگاہ میں امت کے لئے ایک درمیانی راستہ وہی تھا جس پر آج تک چل رہی تھی کہ اپنی مرضی سے ایک امیر چن لے اور وقتاً فوقتاً ضرورت پڑنے پر آپ ـ سے مشورہ کرتی رہے آپ ـ مشورہ دینے سے بہر حال گریز نہیں کرتے ہیں جس کامسلسل تجربہ ہو چکا ہے ، اور اس مشاورت کو آپ نے وزارت سے تعبیر کیا ہے ، وزارت فقط اسلامی مفاد تک بوجھ بانٹنے کے لیے حسین ترین تعبیر ہے ، ورنہ جس حکومت کی امارت قابل قبول نہیں اسکی وزارت بھی قابل قبول نہ ہوگی ۔(مترجم)
'' یٰاَشْبٰاہَ الرِّجٰالِ وَلاَرِجٰالَ!حُلُوْمُ الَْطْفٰالِ،وَعُقُوْلُ رَبَّات الْحِجٰالِ لَوَدِدْتُ َ نِّیْ لَمْ َ رَکُمْ وَلَمْ َعْرِفکُمْ مَعْرِفَةً وَاﷲجَرَّتْ نَدَماً وََ عَقَبَت سَدَ ماً قَا تَلَکُمُ اﷲ ُ! لَقَدْ مَلَْتُمْ قَلْبی قَیْحاً وَشَحَنْتُمْ صَدْری غَیْظاً وَجَرَعْتُمُوْنیْ نُغَبَ التَّہْمٰام َنْفٰاساً وََفْسَدْتُمْ عَلَیَّ رْٰیِیْ بِالْعِصْیٰان وَالْخِذْلاَنِ حَتّیٰ لَقَد قٰالَتْ قُرَیْش ِنَّ أبْنَ َبیْ طٰالِبٍ رَجُل شُجٰاع ، وَلٰکِنْ لاَعِلْمَ لَہُ بِالْحَرْبِ لِلّٰہِ َبُوْھُمْ وَھَلْ َحَدمِنْھُمْ َشَدُّلَھٰامِرٰاسا وََ قْدَمُ فیْھٰامَقٰاماً مِنِّیْ لَقَدْنَھَضْتُ فِیْھٰاوَمٰابَلَغْتُ الْعِشْرِیْنَ وَھٰاَنَذَا قَدْذَرَّفْتَ عَلَی السِّتِّیْنَ وَلٰکِنْ لاَ رَْیَ لِمَنْ لاَ یُطٰاعُ .''(١)
ترجمہ ( اے مرد وں کی شکل وصورت والو! اور واقعا نا مردو ، تمہاری فکریں بچوں جیسی اور تمہاری عقلیں حجلہ نشین دلہنوں جیسی ہیں میری خواہش تھی کاش میں تمہیں نہ دیکھتا اور تم سے متعارف نہ ہوتا، جس کا نتیجہ صرف ندا مت اور رنج و ا فسوس ہے اﷲ تمہیں غارت کرے تم نے میرے دل کو پیپ سے بھر دیا، اور میرے سینہ کو رنج وغم سے چھلکا دیا ہے ، تم نے ہر سانس میں ہم و غم کے گھونٹ پلائے ، اور اپنی نافرمانی ا ور سر کشی سے میری رائے کو بھی بیکار و بے ا ثر بنا دیا ہے ،یہاں تک کہ اب قریش والے یہ کہنے لگے ہیں کہ فرزند ابو طالب ـبہادر تو ہیں لیکن انھیں فنون جنگ کا علم نہیں ہے ،
ا ﷲ ان کا بھلا کرے ، کیا ان میں کوئی بھی ایسا ہے ، جو مجھ سے زیادہ جنگ کا تجربہ رکھتا ہو ، اور مجھ سے پہلے سے کوئی مقام رکھتا ہو ، میں نے جھاد کے لئے اس وقت قیام کیا ہے جب میری عمر ٢٠ سال بھی نہیں تھی اور اب تو(٦٠) سال ہو چکی ہے لیکن کیاکیا جائے جس کی ا طاعت نہیں کی جاتی اس کی رائے بھی کوئی رائے نہیں ہوتی ۔
اب اس مقام پر یعنی انتخاب الہی اور ابلاغ پیغمبر اکرم ۖ کے بعد لوگوں کی عمومی بیعت اور ملت کا انتخاب احکام الہی کے اجرا میں اپنا اہم کردار ادا کرتا ہے اور حکومت امام کے لئے عملی راہ فراہم کر تی ہے ، غدیر خم کے ر وزیہ تینوں مراحل بخوبی اور تمام تر ز یبایوں کے ساتھ ا پنے ا نجام کو پہنچے یہاں تک کہ حکومت کے پیاسوں کے د لوںمیں دشمنی کی آگ بھڑک ا ٹھی ا نہوں نے جو کچھ بھی چاہا انجام دیا ، اور تاریخ میں ہمیشہ کے لئے اپنے آپ کو بد نام کر لیاکیونکہ :
الف: خدا وند عالم کے انتخاب کا تحقق فرشتہ وحی کے توسّط سے آیات کی صورت میں (بلّغ ما اُنزِل اِلیک)اور( الیوم اکملت لکم دینکم) کے نزول کے ساتھ ہوا۔
ب: وحی الہی کا ابلاغ اس عظیم و کم نظیر اجتماع میں پیغمبر اکرم ۖ کے توسط سے انجام پایا:
ج: مردوں اور عو ر توں پر مشتمل عمومی بیعت تا دم صبح جاری رہی اور بخیر و خوبی انجام پذ یر ہوئی کیونکہ امامت کو اس کا صحیح وارث اور مقام مل گیا اور لوگوں کی عمومی بیعت بھی انتخاب الٰہی کے لئے حامی واقع ہوئی ؛ لوگوں کا انتخاب ، انتخاب الٰہی اور رسول ِ خدا ۖ کی ابلاغ و اعلان نے ایک ساتھ مل کر امامت کو پائدار اور زندہ و جاوید کیا ؛ تو اس وجہ سے منافقین اور حاسدین غضبناک ہوگئے ، یہاں تک کہ ایک شخص نے موت کی آرزو کی اور آسمان سے ایک پتھر نے آکر ا س کو نیست ونابود کر دیا۔
بعض گروہ آپ ۖ کے قتل کے درپے ہوگئے لیکن خدائی امداد نے انہیں ناکام اور رسوا کردیا اور بعض دوسروں نے وہ شرمناک اور قابل مذمّت تحریر لکھی کہ جس کے ذریعہ لوگوں کو گمراہ کرنا چاہتے تھے ؛ لیکن آخر کار ان کے پاس سکوت اختیار کرنے ،بغض و نفاق اور شیطانی انتظار کے علاوہ کوئی اورچارہ نہ تھا یہاں تک کہ جناب رسول ِ خدا ۖ کی وفات کے بعدتمام بغض اور کینہ توزیوں کو یکجا کرکے جو بھی چاہا ایک مسلّحانہ بغاوت (فوجی بغاوت) کی صورت میں انجام دیا۔
لہٰذا یہ غدیر کا دن صرف'' امام کے تعیّن '' کا دن نہ تھا کیونکہ مسلمانوں کا امام غدیر کے عظیم واقعہ سے پہلے ہی معیّن ہو چکا تھا اور حضرت امیر المؤمنین ـ کے بعد آنے والے ائمہ علیہم السّلام کا ناموں کے ساتھ تعارف کروایا جاچکا تھا ؛ کسی کو امامت اورائمہ علیہم السّلام کے ناموں میں کوئی شک و شبہ نہیں تھا، غدیر کے دن ( مسلمانوں کی عمومی بیعت) اور خود جناب رسول خدا ۖ کی حضرت علی ـ کے ساتھ بیعت نے حقیقت کا روپ اختیار کیا اور منکرین ولایت کے لئے تمام راستے بند کر د ئے تاکہ آفتاب ولایت کا انکار نہ کر سکیں ۔
..............
( ١)۔اسناد و مدارک خطبۂ / ٢٧
١۔ البیا ن و التبیین ، ج ١ ،ص ١٧٠ : جاحظ ( متوفّیٰ ٢٥٥ ھ )
٢۔ البیا ن و التبیین ، ج ٢ ، ص ٦٦ : جاحظ ( متوفّیٰ ٢٥٥ ھ )
٣۔ عیون الاخبار ، ج ٢ ،ص ٢٣٦ : ابن قتیبة ( متوفّیٰ ٢٧٦ ھ )
٤۔ اخبار الطوال ، ص ٢١١ : دینوری ( متوفّیٰ ٢٩٠ ھ )
٥۔ الغارات ، ج ٢ ، ص ٤٥٢/٤٩٤ : ابن ہلال ثقفی ( متوفّیٰ ٢٨٣ ھ )
٦۔ الکامل ، ج ١ ، ص ١٣ : مبرد ( متوفّیٰ ٢٨٥ ھ )
٧۔ اغا نی ، ج ١٥ ، ص ٤٥ : ابو الفرج اصفہانی ( متوفّیٰ ٣٥٦ ھ )
٨۔ مقاتل الطالبین ، ص ٢٧ : ابو الفرج اصفہانی ( متوفّیٰ ٣٥٦ ھ )
٩۔ معانی الاخبار ، ص ٣٠٩ : شیخ صدوق ( متوفّیٰ ٣٨٠ ھ )
١٠۔ انساب الاشراف ، ج ٢ ص ٤٤٢ : بلاذری ( متوفّیٰ ٢٧٩ ھ )
١١۔ مروج الذہب ، ج ٢ ص ٤٠٣ : مسعودی ( متوفّیٰ ٣٤٦ ھ )
١٢۔ عقدالفرید ، ج ٢ ص ١٦٣ : ابن عبد ربہ ( متوفّیٰ ٣٢٨ ھ )
١٣۔ فروغ کافی ، ج ٥ ص ٤/٦/٥٣/٥٤ : مرحوم کلینی ( متوفّیٰ ٣٢٩ ھ )
١٤۔ دعائم الاسلام ، ج ١ ص ٤٥٥ : قاضی نعمان ( متوفّیٰ ٣٦٣ ھ )
١٥۔ احتجاج ، ج ١ ص ٢٥١ / ١٧٤ : مرحوم طبرسی ( متوفّیٰ ٥٨٨ ھ )
١٦۔ تہذیب ، ج ٦ ص ١٢٣ : شیخ طوسی ( متوفّیٰ ٤٦٠ ھ )
|