تیسری فصل
آیا غدیر کا ہدف امام کاتعین تھا ؟
غدیر کے مختلف پہلوؤں پرلوگوں کی جانب سے تنگ نظری
پہلی بحث : پہلے سے تعیین شدہ امامت
دوسری بحث : لوگ اور انتخاب
تیسری بحث : تحقق امامت کے مراحل
واقعۂ غدیر کے مقاصد کے اذہان سے پوشیدہ رہنے کی ایک اور افسوسناک وجہ یہ ہے کہ بعض لوگ اپنے قصیدوں یا تقاریر میں یہ کہتے ہیں کہ روز غدیر اسلامی امّت کے لئے امامت کی تعیین کا دن ہے ، روز غدیر '' حضرت امیر المؤمنین ـ '' کی ولایت کا دن ہے ۔
یہ تنگ نظری اور محدودفکر اس قدر مکرّر بیان ہوئیں کہ بہت سے لوگ غدیر جیسے عظیم واقعہ کے دیگر نکات کی طرف توجّہ دینے سے قاصر رہے ۔
کوتہ نظر ببین کہ سخن مختصر گرفت:
غدیر کے مختلف پہلوؤں پر لوگوںکی جانب سے تنگ نظری :
ا فسوس کہ آج بھی اگر مشاہدہ کیا جائے تو جب بھی روزغدیر کا تذکرہ ہوتا ہے تو ہمارے لوگ اس دن کو صرف 'امام علی ـ کی ولایت ' کی نسبت سے یاد کرتے ہیں اور غدیر کے دیگر اہم اور تاریخ ساز پہلوؤں سے غافل نظر آتے ہیں ۔
غدیر کے اصلی اہداف، نہ ہونے کے برابر تصانیف اور کتابوں میں ذکر ہوئے ہیں اور جس طرح غدیر کے وسیع اور با مقصد جہتوں کو منابر کے ذریعے اور نماز جمعہ کے خطبوں میں بیان کیاجانا چاہیے بیان نہیں کئے جاتے ، مجلّوں اور اخباروں میں بھی صرف ''ولایت امام ـ کے ذکر پر اکتفاء کیا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ روز غدیر لوگوں کے درمیا ن فقط ولایت علی ـ کے ساتھ خاص ہو کر رہ گیا ہے۔
١۔ پہلے سے تعیین شدہ امامت :
شیعہ نظریہ ،یہ ہے کہ حضرت علی ـ اور انکے گیارہ بیٹوں کی امامت غدیر سے پہلے ہی معیّن ہو چکی تھی اس دن کہ جب موجودات اور ہماری اس کائنات کی خلقت کی کوئی خبر نہ تھی اس دن کہ جب ابھی تک پیغمبر ان ِ الٰہی کی ارواح بھی خلق نہ ہوئی تھیں ۔
جناب رسول ِ خدا ۖ اور پنجتن آلِ عباء علیہم السلام کی ارواح خلق ہوچکی تھیں ، جناب رسول خدا ۖ اور حضرت علی ـ کے وجود کے انوار اس وقت خلق کئے جا چکے تھے کہ جب بھی آدم خلق نہ ہوئے تھے ۔
سارے پیغمبران خدا اپنے خدا ئی انقلاب کی ابتدا میں پنجتن آلِ عباء علیہم السلام کے اسمائے مبارک کی قسم کھاتے تھے ،اور سخت مشکلات کے وقت خدا وند عالم کو محمّد ، علی فاطمہ ، حسن اور حسین صلوٰةُ اﷲ ِ عَلیہِم َجمعینکے ناموں کا واسطہ قسم دیتے اور انکی برکت سے توبہ کرتے اور خدا وند منّان کی بارگاہ میں عفو اور بخشش طلب کرتے تھے ۔
حضرت آدم ـ نے ان اسمائے مبارک کو جب عرش معلّیٰ پر دیکھا؛انکی نورانیّت کیو جہ سے حضرت آدم ـ کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں اورخدا وند عالم سے ان ناموںکے ذریعے بات کی۔
حضرت نوح ـ نے ا نھیں مبارک اسما ء کو اپنی کشتی کے تختے پر لکھا اور جب شدید اور سخت طوفان میں گھر گئے تو ان ہی ناموںکا واسطہ دے کر خدا وند عالم سے مدد طلب کی، تمام پیغمبران خدا جانتے تھے کہ ایک پیغمبر خاتم ۖ آئیں گے اور انکے اس راستے کو کمال کے درجہ تک پہنچائیں گے ،اور اس بات سے بھی واقف تھے کہ آپ ۖ کے بعد آنے والے امام کون ہونگے اور دین و بشریت کو کمال تک پہنچانے میں اُن َئمّہ کو کن کن ناگوار حوادث کا سامنا کرنا پڑے گا ۔
انہوں نے حضرت علی ـ کی مظلومیت پر گریہ و زاری کی اور امام حُسین ـ کی کربلا کو یاد کر کے اشک بہائے ،ا ن کے نام اور پیش آنے والے حوادث کواپنی امّتوں کے لئے بیان کئے؛ اسی لئے جب یہودی عالم نے امام حُسین ـ کو گہوارہ میں دیکھا تو اس کو وہ تمام نشانیاں یاد آگئیں جوذکرکی گئیں تھیں ؛وہ اسلام لے آیا اور امام حُسین ـ کے بوسے لینے لگا۔
تو معلوم ہو اکہ روز غدیر صرف'' تعیین امامت ''کا دن نہیں تھا ؛بلکہ آغاز بعثت میں ہی پیغمبر گرامی ۖ نے امام کو معیّن کر دیا تھا ، جس وقت عالم شیر خواری میں حضرت علی ـ کو پیغمبر ۖ کے مبارک ہاتھوں میں دیا گیا تو حضرت علی ـ نے پیغمبر گرامی ۖ پر درود و سلام بھیجا اور قرآن مجید کی کچھ آیات کی تلاوت فرمائی جب کہ بظاہر ابھی قرآن نازل نہیں ہوا تھا۔
آپ ۖ نے جب بھی اور جہاں بھی ضرورت محسوس کی بارہ ا ئمہ علیہم السّلام کے اسمائے مبارک ایک ایک کرکے بیان فرمائے ، اور اپنے بعد آنے والے امام ـ کو مختلف شکلوں اور عبارتوں کے ذریعے بیان فرمایا، ائمہ علیہم السّلام کے ادوار میں رونما ہونے والی سیاسی تبدیلییوں کو آشکار کیا ؛مدینہ کے منبر سے بار بار ائمّہ علیہم السّلام کے اسماء مبارک انکی تعداد،حالات زندگی ، انکے زمانے کے ظالم حکمرانوںاور انکے نابکار قاتلوں کا تعارف کروایا۔
حضرت مہدی عجل اﷲ تعالیٰ فرجہ الشریف کے زمانۂ غَیبت کے بارے میں بار بار بات کی اورغَیبت کے دوران انکی راہنمائی کے بارے میں سننے والوں کے اعتراضات کے جواب دئے ؛ حضرت مہدیعجل اﷲ تعالیٰ فرجہ الشریف کی ساری دنیا پر حکومت کے بارے میں اتنا بیان کیا کہ اُمَوی و عبّاسی دور میں بعض لوگوں نے اس خیال سے کہ وہ اُمّت کے مہدی ہو سکتے ہیں قیام کیا تاکہ جو لوگ حضرت مہدی عجل اﷲ تعالیٰ فرجہ الشریف کے انتظار میںہیں ا ُن کو آسانی سے گمراہ کیاجا سکے۔ لہٰذا امامت کا عہدہ خدا وند عالم کی جانب سے مقرّر کردہ ہے جو ہمیشہ سے انسانوں کی ہدایت اور راہنمائی کرتا رہا ہے اور تا قیام قیامت انسانوں کی ہدایت اور راہنمائی کرتا رہے گا،اگر انسان کی ہدایت ضرور ی ہے تو امام کا وجود بھی ضروری ہے ؛ اور صرف خدا وند عالم کی پاک اور بابرکت ذات ہی پیغمبروں اور ائمہ ـ کاتعین اور انتخاب کر سکتی ہے۔ ( وﷲ ُ َعْلَمُ حَیْثُ یَجْعَلُ رِسٰالَتَہُ)
خداوند عالم سب سے زیادہ آگاہ ہے کہ اپنی رسالت کو کہاں قرار دے) کیونکہ ایک انسا ن کے لئے دوسرے انسان کی شناخت مشکل ہے اور وہ ایک دوسر ے کے باطن سے آگاہی حاصل نہیں کر سکتے، لہٰذا اسی دلیل کے تحت کہ جس کے تحت خدا کے پیغمبروں کاانتخاب اور چناؤ خدا کی طرف سے ہوتا ہے ائمّۂ معصومین علیہم السّلام کا تعیّن اور انتخاب بھی خدا وند عالم کی جانب سے ہے اور فرشتۂ وحی کے توسّط سے رسول خدا ۖ پر ابلاغ حکم ہوا۔
واقعیت یہ ہے کہ ا س حقیقت (تعیین امامت )کا غدیر کے دن سے کوئی تعلّق نہیں ہے بلکہ آغاز بعثت ہی میں اس کو ذکر کیا جا چکا تھا،ہجرت کے دوران اور مختلف جنگوں کے درمیان رسول گرامی اسلام ۖ نے امامت کا تعیّن اور تعار ف کروا دیا تھا جب حضرت زہرا علیہا سلام کے یہاں امام حسین ـ کی ولادت کا وقت نزدیک آیا تو جناب ختمی مرتبت ۖ نے حضرت زہرا علیہا سلام کو خبر دی کہ تمہارے یہاں بیٹے کی ولادت ہو گی اور اسکا نام حُسین ـ ہوگا جس کا ذکر گذشتہ آسمانی کتابوںمیں آچکا ہے جناب زہرا علیہا سلام کے چہرے پر خو شی کے آثار نمودار ہوے ا ور جب آپ ۖ نے امام حُسین ـکی کربلا میں شہادت کی خبر دی تو جناب زہراعلیہا سلام نے فرمایا:
'' یٰا َبَتٰاہُ مَنْ یَقْتُلُ وَلَدیْ وَ قُرَّةَ عَیْنیْ وَثَمَرَةَ فُؤَادیْ ؟ قٰالَ ۖ ! شَرُّ ُمَّةٍ مِنْ ُمَّتیْ .قٰالَتْ! یٰا َبَتٰاہُ ِقْرَْ جِبْرَئیْلَ عَنّیْ السَّلٰامَ وَقُلْ لَہُ فی َیِّ مَوْضِعٍ یُقْتَلُ ؟(١) قالۖ فیْ مَوْضِعٍ یُقٰالَ لَہُ کَرْبَلٰا!! )
اے بابا جان! میری آنکھوں کے قراراوردل کے ثمر بیٹے کو کون قتل کریگا ؟ آپ ۖ نے فرمایا: میری امت کے سب سے زیادہ بدترین اور برُے لوگ، دوبارہ پوچھا ؛اے بابا جان: جبرئیل کو میرا سلام کہیے اور پوچھیے کہ میرے بیٹے حُسین ـ کو کس جگہ شہید کیا جائے گا ؟ جناب رسولِ خدا ۖ نے فرمایا اس سر زمین پر جس کو کربلا کہا جاتا ہے ایک دوسری روایت میں ہے کہ حضرت زہراعلیہا سلام نے فرمایا :
'' یٰا َبَةَ سَلَّمْتُ وَ رَضیْتُ وَ تَوَکَّلْتُ عَلَی اﷲ''اے بابا جان: میں خواستہ خدا پر تسلیم اور راضی ہوں اور خدا وند عالم کی ذات پر توکّل کرتی ہوں (٢) جب جناب زہر کے یہاں حضرت امام حُسین ـ کی ولادت ہونے والی تھی خدا کے رسول ۖ نے اپنی بیٹی کو اطلاع دیتے ہوئے فرمایا کہ: (حضرت جبرئیل نے مجھے خبر دی ہے کہ ؛ تمہار ا بیٹا کربلا میں شہید کر دیا جائے گا ۔)
جناب فاطمہ علیہا سلام نے انتہائی غم و اندوہ کے عالم میں ارشاد فرمایا:
( لَیْسَ لیْ فیْہِ حٰاجَة یٰا َبَةَ ) اے بابا جان ! مجھے ایسے بیٹے کی کوئی حاجت نہیں ہے ۔
جناب رسول خد ا ۖ نے فرمایا :(میری بیٹی تمہارا یہ بیٹا حُسین ـ ہے اور نو معصوم امام اسکے وجود سے پیدا ہونگے جودین خدا کی بقا کا سبب ہونگے ۔)
..............
( ١)۔جعفر بن محمّد القراری معنعناً عن ابی عبداﷲ ـ
(٢)۔ ( الف ) تظلم الزہراء علیہا سلام ، ص ٩٥
(ب) بحارالانوار ، ج ٤٤ ص ٢٦٤ : علّامہ مجلسی ( متوفّیٰ ١١١٠ ھ )
(ج) تفسیر فرات الکوفی ، ص ٥٥ : فرات الکوفی ( متوفّیٰ ٣٠٠ ھ )
جناب زہرا علیہا سلام نے فرمایا:'' یٰا رَسُوْلَ اﷲ ِ قَدْ رَضیْتُ عَنِ اﷲ ِ عَزَّ وَ جَلَّ'' (اے خدا کے رسول ۖ! میںخدا وند بزرگ و برتر سے راضی ہوں )(١) اس قسم کے اظہارات بہت سطحی فکر اور کوتاہ نظری ہیں کہ یہ کہا جائے :
غدیر خم کے دن لوگوں کی امامت مشخّص ہوئی، غدیر کا دن امامت کے تعیّن کا دن ہے ۔ غدیر کا دن ولایت کے تعیّن کا دن ہے ،کیونکہ امامت، رسالت ہی کی طرح الٰہی اصولوں میں سے ایک اصل ہے جو خلقت کے آغاز میں ہی معین ہو گئی تھی اور گذشتہ پیغمبروں کی لائی ہوئی آسمانی کتابوں میں اس کو بیان کر دیا گیا تھا ،اور بعثت سے غدیر تک سینکڑوں بار بے شمار احادیث وروایات میں پیغمبر گرامی اسلام ۖ نے جہان والوں کی رہنمائی کرتے ہوئے امامت کا تعارف کر وا دیا تھا۔
٢۔ لوگ اور انتخاب :
یہ درست ہے کہ شیعوں کے امام خدا وند عالم کی طرف سے پہلے سے ہی منتخب ہو گئے تھے اور بعثت کے بعد سے ہر اہم مقام اورموقع پر خود رسول گرامی اسلام ۖ کی زبانی انکا تعارف ہو چکا تھا لیکن ابھی بھی یہ کام مکمّل نہیں ہوا کہیں لوگ خود امام کا انتخاب نہ کرلیں ، اور اپنی کج فکری اور گمراہی کے سبب ائِمّہ معصومین علیہم السّلام کی امامت کو قبول نہ کریں نیز اسلام کی اصلی ثقافت اور امامت کے درمیان فاصلہ ڈال دیں اور حضرت علی ـاوربا قی ا ماموں کی بیعت نہ کریں تو رسول اکرم ۖ کا
..............
( ١)۔ (الف) بحار الانوار ، ج ٢٥ ص ٤٤ /٢٢١/٣٣٣ اور ج ٢٣ ص ٢٧٢ اور ج ٣٦ ص ١٥٨ : علامہ مجلسی
(ب) علل الشرایع ، ص ٧٩ : شیخ صدوق ( متوفّیٰ ٣٨١ ھ )
( ج ) کمال الدّین ، ج ٢ ص ٨٧ : شیخ صدوق ( متوفّیٰ ٣٨١ ھ )
( د ) تفسیر البرہان ، ج ٤ ص ١٧٣ : علامہ بحرانی اصفہانی ( متوفّیٰ ١١٠٧ ھ )
بتا یا ہوا راستہ خطرے میں پڑجائیگا اور پیغمبر اسلام ۖ کی رسالت ان تمام ز حمتوں اور قربا نیو ں کے باوجود نامکمّل ر ہے، چنانچہ خدا وند عالم نے بھی ہوشیار کرنے والے کلمات کے ساتھ فرمایا:
(وَ ِنْ لَم تَفْعَلْ فَمٰا بَلَّغْتَ رِسٰا لَتَکَ )
اور اگر تم نے یہ کام نہ کیا تو میری رسالت کا کوی کام نہیں کیا اگر لوگ امام بر حق کی بیعت نہ کریں اور امام کو لوگوں کی حمایت حاصل نہ ہو تو امام سیاسی طاقت اور قدرت اپنے ہاتھ میں نہیں لے سکتا ،بعنوان امام اور حاکم دستور نہیں دے سکتا؛ امر و نہی نہیں کرسکتا حکومتی کام انجا م دینے والے افراد کا تعیّن نہیں کرسکتا۔
یہ جو سیاسی جما عتوں کے سربراہوں ، جاہ طلب منافقوں اور سقیفہ کے مکاّروں نے غدیر کے دن تک سکوت اختیار کیا اور کوئی خطرناک اقدام نہیں کیا صرف اس وجہ سے تھا کہ ابھی تک امّت کی رہنمائی و رہبری کا مسئلہ تحریرو تقریر تک محدود تھا، صرف رسول خدا ۖ کی تقاریر میں ولایت امیرالمؤمنین ـ کا ذکر ہوا تھا اور وہ لوگ بھی تحمّل کر رہے تھے ۔
لیکن غدیر کے دن ، اس عظیم اور کم نظیر اجتماع کے درمیان اور چونکا دینے والی خصوصیات کے ساتھ ؛ سب نے دیکھا کہ جناب رسول خدا ۖ نے صرف خطبہ اور بیان پر اکتفا نہیں کیا بلکہ عملاً سب سے پہلے حضرت علی ـ کا ہاتھ بلند کرکے خود بیعت کی اور اسکے بعد سب لوگوں کو حضرت علی ـ کی بیعت کرنے کا دستور دیا اور آخر کار ایک زیبا اور شانداربیعت وجود میں آئی، مخالفین اور منافقین بھی ایسے حالات اور شرائط سے دُچار ہو گئے تھیکہ اب انکے پاس سوائے بیعت کرنے کے اور کوئی چارہ باقی نہ رہ گیا تھا،یہاں انکی خواہشات کو ٹھیس پہنچی اور انہوں نے اپنی تمام سیاسی آرزوؤں اور شیطانی امیدوں پر پانی پھرتا محسوس کیا ،وہ یہ بات صاف طور پر محسوس کر رہے تھے کہ اب انکے لیے اور حکومت کے پیاسے سیاستدانوں کی لئے کوئی مقام نہیں ہے اوریہ کہہ رہے تھے کہ!
علی ـ خدا کی طرف سے بھی معیّن ہوئے ہیں اور پیغمبر اسلام ۖ نے بھی انکی بیعت کی ہے اور سارے مسلمانوں نے بھی انکی بیعت کی ہے ،عقلی اور عقیدتی حمایت کے ساتھ ساتھ لوگوں کی سیاسی حمایت بھی ہے ، او ر پھر فرشتۂ وحی نے بھی ا نہی کو معیّن کیا ہے اور اس طرح حضرت علی ـکے لیے عمومی بیعت نے حقیقت کا روپ بھی دھارا ہے ۔ لہٰذا پیغمبر اسلام ۖ کے بعد سیاسی طاقت اور حکومت حاصل کرنے کے تمام راستے اور طریقے بند ہیں،اب اسکے سوا کوئی چارہ نہیں کہ پیغمبر ۖ کو قتل کر دیا جائے اور (سازشی اور قابل نفرین ) تحریر لکھی جائے، اسکے علاوہ کوئی چارہ باقی نہیں رہ گیا کہ ایک فوجی بغاوت کی جائے اور مخالفوں کا قتل عام کیا جائے ، اگر غدیر کے دن عمومی بیعت نہ ہوئی ہو تی تو منا فق اور سیاسی جماعتوں کے سربراہ اتنے غضب ناک نہ ہوتے اور رسول خدا ۖ کے مسلّحانہ قتل کا منصوبہ نہ بناتے، لہٰذ ا غدیر کا دن صرف تعیین امامت کا دن نہیں تھا بلکہ: روز غدیر '' امام اور عترت کی ولایت' کے تحقق کا دن تھا، غدیر کا دن مسلمانوں کی حضرت علی ـ کے ساتھ اور دوسرے َئمّہ کے ساتھ تا قیامت عمومی بیعت کا دن تھا۔
غدیر کا دن وہ دن ہے ! جس دن رسول خدا ۖ کے بعد مسلمانوں کی رہبری اور امامت کا مسئلہ روشن ہوا ؛ خاندان علی ابن ابی طالب ـ سے گیارہ ائمّہ کی تا قیامت جاری رہنے والی امامت کا اعلان ہو ا اور اس سلسلے میں عمومی بیعت لی گئی ،ولایت کے غاصبوں پر لعنت ملامت ہوئی اور امامت و رہبری کے تعیّن اور مسلمانوں کی قیامت تک کے لئے بیعت عام نے راہ رسالت کو دو ا م بخشا ۔
|