منزلت غدیر


٥ ۔ پرہیزگا روںکے امام حضرت علی ـ :
رسولِ خدا ۖ سے نقل ہوا ہے کہ
(ُ وْحِیَ ِلِیَّ فی ثَلٰاثٍ،َنَّہ سَیَّدُالْمُسْلِمیْنَ وَِمٰامُ الْمُتَّقیْنَ وَقٰائِدُ الْغُرِّالْمُحَجَّلیْنَ ) رسولِ خدا ۖ نے فرمایا:
تین بار حضرت علی ـ کے بارے میں مجھ پر وحی نازل ہوئی : علی ـ مسلمانوں کے سردار ، پرہیزگاروں کے امام اور با ایما ن خو اتین کے رہبر ہیں(١) اس طرح واضح اور روشن انداز میں ولایت کا اظہار بھی واقعۂ غدیر سے پہلے ہو چکا تھااور کسی سے پوشیدہ نہ تھا ۔

٦۔ علی ـ امیرُالمؤمنین :
ایک اور بہت واضح اور روشن حقیقت یہ ہے کہ رسولِ گرامی اسلام ۖ نے واقعۂ غدیر سے پہلے حضرت علی بن ابیطالب ـ کو ( امیرُالمؤمنین )کا لقب دیا جوکہ حضرت علی ـ کی امامت اور خلافت کی حکایت کرتا ہے اور یہ لقب آپ ـ کی ذات اقدس کے ساتھ مخصوص ہے۔

انس بن مالک :
ا نس بن مالک نے نقل کیا ہے کہ میں جناب رسولِ خدا ۖ کا خادم تھا ؛ جس رات آنحضرت ۖ کو اُمِّ حبیبہ کے گھرمیں شب بسر کرنا تھی ، میں آنحضرت ۖ کے
..............
( ١ )۔مستدرک صحیحین ،ج٣، ص ١٣٦ و صحیح بخاری ، مختصر کنزالعمال حاشیۂ مسند احمد ،ص ٣٤ و المراجعات ،ص١٥٠
لئے وضوء کا پانی لے کر آیا تو آپ نے مجھ سے مخاطب ہو کر ارشاد فرمایا :''یا َنَسُ یَدْ خُل عَلَیْکَ السّٰاعَة مِن ھٰذاالباب امیرالْمؤمِنیْنَ وَخَیْرالْوَصِیّیْن ، َ قْدَمُ النّٰاسَ سِلْماً وَ َ کْثِرُ ھُمْ عِلْماً و َ رْ جَحُھُم حِلْما''
اے انس ! ابھی اس دروازے سے امیرالمؤمنین و خیر الوصیّین داخل ہونگے؛ جو سب سے پہلے اسلام لائے جنکا علم سب انسانوں سے زیادہ ہے؛ جو حلم ا ور بردباری میں سب لوگوں سے بڑھ کر ہیں)(١) انس کہتے ہیں کہ! میں نے کہا کہ خدایا کیا وہ شخص میری قوم میں سے ہے؟ ابھی کچھ دیر نہ گذری تھی کہ میں نے دیکھا علی بن ابیطالب ـ دروازے سے داخل ہوئے جبکہ رسولِ خدا ۖ وضو کرنے میں مشغول تھے ،آپ ۖ نے وضوکے پانی میں سے کچھ پانی حضرت علی ـ کے چہرۂ مبارک پرڈالا۔
..............
١۔ ارشاد ، ص ٢٠ : شیخ مفید ابن مالک سے نقل کرتے ہیں ۔

نقل شیخ مفید:
ایک اور روایت میں شیخ مفید بہ سند خود ابن عبّاس سے نقل کرتے ہیں : رسولِ خدا ۖ نے اُمِّ سلمیٰ سے فرمایا :
(ِسْمَعی وَ شْھَد یْ ھٰذا ؛ عَلِیُّ َ میْرُالْمُؤْ مِنیْنَ وَ سَیَّدُ الْوَ صِیّّیْنَ)
( اے امّ سلمیٰ میری بات سنو اور اسکی گواہ رہنا کہ یہ علی]بن ابیطالب ـ[مؤمنوں کا امیراوروصیّوں کا سردار ہے۔ )

نقل ابن ثعلبہ :
شیخ مفید تیسری روایت میں بہ سند خود معاویةبن ثعلبہ سے نقل کرتے ہیںکہ ( ابو ذر سے کہا گیا کہ وصیّت کرو۔
ا بوذرنے کہا:میں نے وصیّت کردی ہے ۔
انہوں نے کہا: کس شخص کو؟
ابوذر نے کہا :امیرُالمؤمنین ـ کو،؟
انہوں نے کہا :کیا عثمان بن عفّان کو؟
ابوذر نے کہا: نہیں امیرُالمؤمنین علی بن ابیطالب ـ کو جنکے دم سے زمین ہے اور جواُمّت کی تربیت کرنے والے ہیں ۔ )

نقل بریدة بن اسلمی :
برید ہ بن خضیب اسلمی کی خبر جو علما ء کے درمیان مشہور ہے بہت سی اسناد کے ساتھ (کہ جنکا ذکر کلام کو طولا نی کرے گا ) بُریدہ کہتا ہے کہ: جناب رسولِ خدا ۖ نے مجھے اور میرے ساتھ ایک جماعت ( ہم لوگ سات افراد تھے ان میں سے منجملہ ابو بکر ،عمر ، طلحہ ، زبیر تھے کو حکم دیا کہ: ''سَلِّمُوا عَلیٰ عَلِیٍّ بَِ مْرَةِ الْمُؤْمِنیْنَ'' علی ـ کو امیر المؤمنین کے کلمہ کے ساتھ سلام کیا کرو) ہم نے پیغمبر ۖکی حیات اور ان کی موجودگی میں ا ن کو یا امیر المومنین کہکر سلام کیا۔(١)
..............
(١)۔ارشاد ِ شیخ مفید ، ص ٢٠ : شیخ مفید و بحارُالانوار ، ج٣٧ ،ص ٢٩٠ تا ٣٤٠ : علامہ مجلسی ، الغدیر ج٨ ،ص ٨٧۔ ج٦، ص ٠ ٨ : علّامہ امینی و حلیة الا ولیاء ، ج ١، ص ٦٣ : ابو نعیم

نقل عیّاشی:
عیّاشی اپنی تفسیر میں نقل کرتا ہے کہ ایک شخص امام صادق ـ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا:( اَلسَّلاٰمُ عَلَیْکَ یٰا َمیْرَالْمُؤمِنیْن) امام صادق ـ کھڑے ہوگئے اور فرمایا :یہ نام امیرُالمؤمنین علی ـ کے علاوہ کسی اور کے لئے مناسب نہیں ہے اور یہ نام خدا وند عالم کا رکھا ہوا ہے ا س نے کہا کہ آپکے امامِ قائم کو کس نام سے پکارا جاتا ہے ؟
ا مام صادق ـ نے فرمایا :
(السَّلاٰمُ عَلَیْکَ یٰا بَقْیَةَ اﷲ ِ ،السَّلاٰمُ عَلَیْکَ یَابنَ رَسُوْل اﷲِ )(١)
اور امام باقر ـ نے فُضیل بن یسار سے فرمایا:
( یٰا فُضَیْلُ لَمْ یُسَمَّ بِہٰا وَاﷲ ِ بَعْدَ عَلِیٍّ َمیْرِالْمُؤْمِنیْنَ ِلا مُفٰتِرٍ کَذّٰابِلیٰ یَوْمَ النّٰاسِ ھٰذٰا )(٢)
اے فضیل !خدا کی قسم علی ـکے علاوہ کسی کو بھی اس نام (امیر المؤمنین )سے نہیں پکارا گیا اور اگر کسی کو پکارا گیا تو وہ خائن اور جھوٹا ہے۔ )
واقعۂ غدیر سے قبل حضور اکرم ۖ سے اتنی فراوان اور وسیع روایات و احادیث کی روشنی میں یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ روز غدیر ( ولایت )کے اعلان کے لئے مخصوص نہیں تھا ، بلکہ اس سے بھی بڑھ کر اور اہم چیز حقیقت کے روپ میںسامنے آئی اوروہ حقیقت حضرت علی ـ کیلئے لوگوں کی بیعت عمومی تھی ،کیونکہ اگر لوگوں کی عمومی بیعت نہ ہو توامام ـ کی قیادت و راہنمائی قابل اجرا اور قابل عمل نہ رہے گی ۔
..............
(١)۔ تفسیر عیّاشی ، ج ١، ص ٢٨٦ ( سورۂ نساء کی آیت /١١٧ کے ذیل میں )
(٢)۔بحار الانوار ، ج٣٧، ص ٣١٨

٧۔اعلان ولایت بوقت نزول وحی:
جب آنحضرت ۖ پر وحی کا نزول ہو رہا تھا تو آپ ۖ کی طرف سے حضرت علی ـ کی امامت اور وصایت کا بھی اعلان ہوا۔ امیرُالمؤمنین ـ نہج البلاغہ میں ارشاد فرماتے ہیں کہ: جب وحی نازل ہو رہی تھی تو میں نے شیطان کی گریہ وزاری کی آواز سنی اور پیغمبر ۖ سے اس کی وجہ
پوچھی ؛ جناب رسولِ خدا ۖ نے میرے سوال کے مناسب جواب کے ساتھ میری وصایت اور ولایت کو بھی بیان فرمایا۔)
( وَلَقَدْ کُنْتُ َتَّبِعُہُ أتِّبٰاعَ الْفَصیْلِ َثَرَ ُمِّہ ٭ یَرْفَعُ لی فی کُلِّ یَوْمٍ مِن ْ ِخْلَاقِہ عَلَماً وَ یَْ مُرُنی بِا لِْ قْتِدَائِ بِہ وَ لَقَدْکٰان یُجٰاوِرُ فی کُلِّ سَنَةٍ بِحِرٰائَ فََرٰاہ ُ، وَلٰا یَرٰاہ ُ غَیْری؛ وَلَمْ یَجْمَع بَیْت وَاحِد یَوْمَئِذ فی الِْ سْلٰامِ غَیْرَرَسُوْلِ اﷲ ِۖ وَخَدیْجَة وَ َنٰا ثٰالِثُہُمٰا َرَیٰ نُوْرَ الْوَحْیِ وَ الرِّسٰالَةِ ، وَ َشُمُّ ریْحَ النُّبُوَّةِ وَلَقَدْ سَمِعْتُ رَنَّةَ الشَّیْطٰانِ حیْنَ نَزَل الْوَحْیُ عَلَیْہِ فَقُلْتُ؛ یٰا رَسُوْلَ اﷲ ِ ۖ مٰا ھٰذِہِ الرَّنَّةُ ؟ فَقٰالَ! ( ھٰذَا الشَّیْطٰانُ قَدْ َیِسَ مِنْ عِبٰادَ تِہ ِنَّکَ تَسْمَعُ مٰا َسْمَعُ،وَتَرَیٰ مٰا َ رَیٰ ، ِلّٰاَنَّکَ لَسْتَ بِنَبِیٍّ ،وَلٰکِنَّکَ لَوَزِیْر وَ ِنَّکَ لَعَلیٰ خَیْرٍ.)) (١)
میں ہمیشہ ؛پیغمبرگرامی ۖ کے ساتھ تھا جس طرح ایک بچہ اپنی ماں کے ساتھ ہوتا ہے، پیغمبر ۖ ہر روز اپنے پسندیدہ اخلاق میں سے ایک نمونہ مجھے دکھاتے اورمجھے اپنی اقتدا کا حکم دیتے تھے ، آپ ۖ سال کے کچھ مہینے غار حرا میں بسرکرتے تھے صرف میں ہی ان سے ملاقات کرتاتھا ،اور میرے علاوہ کوئی بھی ان سے نہیں ملتا ان دنوں کسی مسلمان کے گھر میں را ہ نہ تھی؛ سوائے خانہ رسولِ خدا ۖ کے جنابِ خدیجہ علیہا سلام بھی وہاں ہوتیںاور میں تیسرا شخص ہوتا تھا ، میں نور وحی اور رسالت کو دیکھتا اور بوئے نبوّت کو محسوس کرتا تھا۔
..............
( ١)۔ خطبۂ ، ١٩٢ / ١١٩ ، نہج البلاغہ
٭ ( اونٹنی کا بچہ ہمیشہ اسکے ساتھ ہے )یہ ایک ضرب المثل ہے ، جب یہ بتانا چاہتے تھے کہ وہ دو لوگ ہمیشہ ساتھ رہتے ہیں تو ،اسطرح کہتے تھے۔

جب آنحضرت ۖ پر وحی نازل ہو رہی تھی تو میں نے شیطان رجیم کی آہ و زار ی کی آوازسنی ، جنابِ رسولِ خدا ۖ سے دریافت کیا کہ یہ کس کی آہ و زاری کی آواز ہے ؟ پیغمبرگرامی ۖ نے ارشاد فرمایا :
یہ شیطان ہے جو اپنی عبادت سے نا اُمید ہو گیا ہے ، اور ارشاد فرمایا: یاعلی ـ ! جو کچھ میں سنتا ہوں آپ سنتے ہیں اورجو کچھ میں دیکھتا ہوں آ پ دیکھتے ہیں لیکن فرق اتنا ہے کہ آپ نبی نہیں بلکہ آپ میرے وزیر ہیں اور راہ خیر پر ہیں (١)
..............
( ١) ۔اس خطبے کے اسناد و مدارک اور ( معجم المفہرس ) مؤلّف درج ذیل ہے :
١۔کتاب الیقین ، ص ١٩٦ : سیّد ابن طاؤوس ( متوفیٰ ٦٦٤ ھ )
٢۔فروع کافی ، ج٤، ص ١٩٨ و ١٦٨ / ج١، ص٢١٩ : مرحوم کلینی ( متوفیٰ ٣٢٨ ھ )
٣۔ من لا یحضرہ الفقیہ ، ج١، ص ١٥٢ : شیخ صدوق ( متوفیٰ ٣٨٠ ھ )
٤۔ربیع الابرار ، ج١، ص ١١٣ : زمخشری ( متوفیٰ ٥٣٨ ھ )
٥۔اعلام النبوة ، ص ٩٧ : ماوردی ( متوفیٰ ٤٥٠ ھ )
٦۔بحار الانوار ، ج١٣ ،ص ١٤١ / ج٦٠ ،ص ٢١٤ : مر حوم مجلسی ( متوفیٰ ١١١٠ ھ )
٧۔ منہاج البراعة ، ج٢،ص٢٠٦ : ابن راوندی ( متوفیٰ ٥٧٣ ھ )
٨۔ نسخۂ خطی نہج البلاغہ ، ص ١٨٠ : لکھی گئی ٤٢١ ھ
٩۔ نسخۂ خطی نہج البلاغہ ، ص ٢١٦ : ابن مؤدّب : لکھی گئی ٤٩٩ ھ
١٠۔دلائل النبوة : بیہقی ( متوفیٰ ٥٦٩ ھ )
١١۔کتاب السّیرة و المغازی : ابن یسار
١٢۔ کتاب خصال ، ج ١، ص ١٦٣ حدیث ١٧١ / ص ٦٥٥ و ٥٠٠ : شیخ صدوق ( متوفیٰ ٣٨٠ ھ )
١٣۔غرر الحکم ، ج ١،ص٢٩٤ / ج٢ ،ص ١١٠ : مرحوم آمدی ( متوفیٰ ٥٨٨ ھ )
١٤۔ بحار الانوار ، ج٦٣، ص ٢١٤ / ج١١٣،ص ١٤١ : مرحوم مجلسی ( متوفیٰ ١١١٠ ھ )
١٥۔ بحار الانوار ، ج١٤،ص ٤٧٧ : مرحوم مجلسی ( متوفیٰ ١١١٠ ھ )
١٦۔ غررالحکم ، ج٤،ص ٤٣٥ /٤٣٨/٤٧٧ : مرحوم آمدی مرحوم مجلسی ( متوفیٰ ٥٨٨ ھ )
١٧۔غررالحکم ، ج٣ ص ٢٠ /٣٩/٣٠٠/٣١١/٣٧٣ : مرحوم آمدی مرحوم مجلسی ( متوفیٰ ٥٨٨ ھ )
١٨۔غررالحکم ، ج٦،ص ٢٧٦ /٢٧٩/٤٣١ : مرحوم آمدی مرحوم مجلسی ( متوفیٰ ٥٨٨ ھ )
١٩۔غررالحکم ، ج٢ ،ص ٢٦٢/٣٤٢ : مرحوم آمدی مرحوم مجلسی ( متوفیٰ ٥٨٨ ھ )
٢٠۔غررالحکم ، ج٥ ،ص ١١٩ /١٥٦ : مرحوم آمدی مرحوم مجلسی ( متوفیٰ ٥٨٨ ھ )
٢١۔ارشاد ، ج١ ،ص ٣١٥ : شیخ مفید ( متوفیٰ ٤١٣ ھ )
٢٢۔ احتجاج ، ج ١، ص ١٤١ : مرحوم طبرسی ( متوفیٰ ٥٨٨ ھ )

٨ ۔ حدیث ثقلین :
پیغمبر اسلام ۖ غدیر سے بہت پہلے معروف حدیث (ثقلین )میں بھی حضرت علی ـاور دوسرے َئِمّہ معصومین علیہم السّلام کی امامت کا واضح اعلان کر چکے تھے ، ارشاد فرمایا: '' ِنِّیْ تٰا رِک فیْکُمُ الثِّقَلَیْن کِتٰابَ اﷲ ِ وَ عِتْرَتیْ''(١) میں تمہارے درمیان'' دو گراں قدر' چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں؛ ایک کتاب خدا اور دوسری اپنی عترت ۔)
..............
(١)۔ حدیث ثقلین کے اسناد و مدارک :
١۔بحار الانوار ، ج٢٢، ص ٤٧٢ : علّامہ مجلسی ( متوفیٰ ١١١٠ ھ )
٢۔ کتاب مجالس : شیخ مفید ( متوفیٰ ٤١٣ ھ )
٣۔ صحیح ترمذی ، ج٥ ،ص ٣٢٨ / ج١٣ ص ١٩٩ : محمد بن عیسیٰ ترمذی ( متوفیٰ ٢٧٩ ھ )
٤۔نظم درر السمطین ، ص ٢٣٢ : زرندی حنفی
٥۔ ینابیع المؤدّة ، ص ٣٣/٤٥ : قندوزی حنفی
٦۔ کنزالعمّال ، ج ١، ص ١٥٣ : متّقی ہندی
٧۔ تفسیر ابن کثیر ، ج٤، ص ١١٣ : اسماعیل بن عمر ( متوفیٰ ٧٧٤ ھ )
٨۔ مصابیح السنّة ، ج ١ ،ص ٢٠٦ / ج٢ ،ص ٢٧٩
٩۔ جامع الاصول ، ج ١،ص ١٨٧ : ابن اثیر ( متوفیٰ ٦٠٦ ھ )
١٠۔ معجم الکبیر ، ص١٣٧ : طبرانی ( متوفیٰ ٣٦٠ ھ )
١١۔ فتح الکبیر ، ج ١ ، ص ٥٠٣ / ج ٣ ص ٣٨٥
١٢۔عبقات الانوار ، ج١، ص ٩٤/١١٢/١١٤/١٥١ :
١٣۔ احقاق الحق ، ج٩ : علّامہ قاضی نوراﷲ شوشتری
١٤۔ ارجح المطالب ، ص٣٣٦ :
١٥۔ رفع اللّبس و الشّبہات ، ص١١/١٥ : ادریسی
١٦۔الدرّ المنثور ، ج٤ ،ص ٧/٣٠٦ : سیوطی ( متوفیٰ ٩١١ ھ )
١٧۔ذخائر العقبیٰ ، ص١٦ : محب الدّین طبری ( متوفیٰ ٦٩٤ ھ )
١٨۔ صوا عق المحرّقة ، ص١٤٧/٢٢٦ : ابن حجر ( متوفیٰ ٨٥٢ ھ )
١٩۔ اسد الغابة ، ج٢ ،ص ١٢ : ابن َثیر شافعی ( متوفیٰ ٦٣٠ ھ )
٢٠۔ تفسیر الخازن ، ج ١ ،ص٤ : ٢١ ۔ الجمع بین الصحّاح ( نسخۂ خطّی)
٢٢۔ علم الکتاب ، ص٢٦٤ : سیّد خواجہ حنفی
٢٣۔ مشکاة المصابیح ، ج٣ ،ص ٢٥٨ :
٢٤۔ تیسیر الوصول ، ج١، ص ١٦ : ابن الدیبع
٢٥۔مجمع الزوائد ، ج٩ ،ص ١٦٢ : ہیثمی ( متوفیٰ ٨٠٧ ھ )
٢٦۔جامع الصغیر ، ج١ ،ص ٣٥٣ : سیوطی ( متوفیٰ ٩١١ ھ )
٢٧۔ مفتاح النّجاة ، ص٩ ( نسخۂ خطّی )
٢٨۔ مناقب علی بن ابی طالب ـ ، ص٢٣٤/٢٨١ : ابن المغازلی
٢٩۔ فرائد السّمطین ، ج٢، ص١٤٣ : حموینی ( متوفیٰ ٧٢٢ ھ )
٣٠۔مقتل الحسین ـ ، ج١ ،ص ١٠٤ : خوارزمی ( متوفیٰ ٩٩٣ ھ )
٣١۔طبقات الکبریٰ ، ج٢، ص١٩٤ : ابن سعد ( متوفیٰ ٢٣٠ ھ )
٣٢۔ خصائص امیرُ المؤمنین ـ ، ص٢١ : نسائی ( متوفیٰ ٣٠٣ ھ )
٣٣۔ مسند احمد ، ج٥، ص ١٢٢/١٨٢ : احمد بن حنبل ( متوفیٰ ٢٤١ ھ )
٣٤۔ الغدیر ، ج١ ،ص ٣٠ : علّا مہ امینی