منزلت غدیر


دوسری فصل
آیا واقعۂ غدیر ولایت کے اعلان کے لئے تھا؟
پہلی بحث : سطحی طر ز تفکّر اور پیام غدیر
دوسری بحث: ولایت کا اعلا ن غدیر سے پہلے
تیسری بحث : اثبات امامت تا رجعت و قیامت
بعض لوگوں نے اپنی تقاریر اور تحریروں میں بغیر کسی تحقیق اور تدبّر کے واقعۂ غدیرکے بارے میں لکھا اور کہا کہ ( غدیر کا دن اعلان ولایت کا دن ہے ۔ )
اور اس بات کی اتنی تکرار کی گئی کہ قارئین اور سامعین کے نزدیک یہ بات ایک حقیقت بن گئی اور سب نے اس کو عقیدے کے طور پر قبول کر لیا۔

1 سطحی طرز تفکّر اور پیام غدیر:
واقعاً کیا غدیر کے دن صرف اعلان ولایت کیا گیا؟
مشہور اہل قلم و بیان کے قلم و بیان سے یہی بات ثابت ہوتی ہے جو غلط فہمی کا سبب بنی جسکے نتیجے میں لوگوں کو واقعۂ غدیر سے صحیح اور حقیقی آگاہی حاصل نہ ہو سکی درست ہے کہ عید غدیر کے دن ( ولایت ِ عترت ) کا اعلان بھی کیا گیا ،لیکن روز غدیر کو صرف ولایت کے اعلان سے ہی مخصوص نہیں کیا جاسکتا ۔
اگر کسی نے کم علمی ، عدم آگاہی یا اپنی سطحی سوچ کی وجہ سے اس قسم کا دعویٰ کیاہے اور اخباروں رسالوں اور مختلف جرائد میں ایسا لکھا گیا ہے تو کوئی بات نہیں ، لیکن اس کے بر طرف کرنے کی ضرورت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا غدیر کی حقیقت کو شائستہ اور دلنشین انداز میں بیان کر کے امت مسلمہ کی جان و دل کو پاک کیا جائے ۔

2۔ ولایت کا اعلان غدیر سے پہلے:
روز غدیر رسول اکرم ۖ کے اہم کاموں میں سے ایک کام اعلان ولایت تھا نہ صرف روز غدیر بلکہ آغاز بعثت سے غدیر تک ہمیشہ آپ ۖ حضرت علی ـ کی( ولایت ) اور ( وصایت ) کے بارے میں لوگوں کو بتاتے رہے۔
اگر غدیر کا دن صرف اعلان ولایت کے لئے تھا توفرصت طلب منافقین ا تنا ہاتھ پاؤںنہ مارتے اور پیامبر گرامی ۖ کے قتل کا منصوبہ نہ بناتے،کیونکہ آپ ۖ بارہا مدینہ میں ، اُحُد میں، خیبر میں ، بیعت عقبہ میں، بعثت کے آغاز پر، ہجرت کے دوران،غزوہ ٔ تبوک کے موقع پر اور کئی حساس موقعوں پر علی ـ کی ولایت کا اعلان کر چکے تھے۔
اپنے بعد کے امام اور حضرت علی ـ کے فرزندوںمیں سے آنے والے دوسرے اماموںکا تعارف ناموں کے ساتھ کروا چکے تھے، مگر کسی کو دکھ نہ ہوا، کچھ منافق چہرے بھی وہاں موجود تھے لیکن انھوں نے کسی قسم کی سازش نہیں کی، کوئی قتل کا منصوبہ نہیں بنایا کیوں ؟ اس لئے کہ صرف اعلان ولایت انکے پوشیدہ مقاصد کے لئے کوئی خطرے والی بات نہیں تھی ،غدیر سے پہلے اعلان ولایت کے چند نمونے پیش خدمت ہیں :

١۔ ولایت ِ علی ـ کا اعلان آغاز بعثت میں:
حضرت امیر المؤمنین ـ کی ولایت کا اعلان غدیر کے دن پرمنحصر نہیں بلکہ آغاز بعثت کے موقع پر ہو چکا تھا، سیرۂ ابن ہشّام میں ہے کہ بعثت کو ابھی تین سال بھی نہ گذرے تھے کہ خدا وند عالم نے اپنے حبیب سے فرمایا :
( َنْذِرْ عَشِیْرَتَکَ الَْقْرَبیْنَ )سورۂ شعراء / ٢١٤
( اے رسول تم اپنے قرابت داروں کو عذاب الہی سے ڈراؤ )
اس آیت کے نازل ہو تے ہی پیغمبر ۖ کی اسلام کے لئے مخفیانہ دعوت تمام ہو گئی اور وہ وقت آگیا کہ اپنے قریبی رشتہ داروں اور قرابت داروں کو اسلام کی دعوت دیں تمام مفسّرین اور مؤرّخین تقریباً بالاتفاق یہ لکھتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو پیغمبر ۖ نے اپنے رشتہ داروں کو اسلام کی دعوت دینے کا بیڑہ اٹھا لیا ،اور یہی وجہ تھی کہ آپ ۖ نے حضرت علی ـ کو گوشت اور شیر (دودھ) سے غذا بنانے کا حکم دیا اور کہا کہ بنی ہاشم کے بڑے لوگوں میں سے چالیس یا پینتالیس لوگوں کو کھانے پر دعوت دیں(١)
دعوت کی تیاریاں ہو گئیں ، سب مہمان مقررہ وقت پر آنحضرت ۖ کی خدمت میں حاضر ہو گئے ، لیکن کھانے کے بعد ( ابو لہب) کی بیھودہ اور سبک باتوں کی وجہ سے مجلس درہم برہم ہو گئی اور کوئی خاطر خواہ نتیجہ حاصل نہ ہو سکا ، تمام مدعوّین کھانا کھا کر اور دودھ پی کر واپس چلے گئے۔
حضوراکرم ۖ نے فیصلہ کیا کہ اسکے دوسرے دن ایک اور ضیافت کا انتظام کیا جائے اور ایک بارپھر ان سب لوگوں کو دعوت دی جائے ، رسولِ خدا ۖ کے حکم سے حضرت علی ـ نے ان لوگوں کو دوبارہ کھانے اور آنحضرت ۖ کے کلمات سننے کی دعوت دی سارے مہمان ایک مرتبہ پھر مقررہ وقت پر حاضر ہو گئے ، کھانے وغیرہ سے فارغ ہونے کے بعد جناب رسولِ خدا نے فرمایا:
..............
(١)۔مجمع البیان ج ٧،ص ٢٦٠، و کامل ابن اثیر ج ٢، ص ٦١، و تفسیر کشّاف ج ٣ ،ص ٣٤١ ، و تفسیر کبیر امام فخر رازی ج ٢٤، ص ٧٣ ١ ، و تاریخ دمشق ج ١، ص ٨٧ ، و الدرالمنثور ج ٥، ص ٩٧ ، کقایة الطالب ص ٢٠٥،
( جو اپنی اُمّت کا حقیقی اور واقعی راہنما ہوتا ہے وہ کبھی ان سے جھوٹ نہیں بولتا اس خدا کی قسم کہ جس کے سوا کوئی خدا نہیں ، میں اسکی طرف سے تمہارے لئے اور سارے جہان والوں کے لئے بھیجا گیا ہوں ہا ں اس بات سے آگاہ ہو جاؤ کہ جس طرح سوتے ہو اس ہی طرح مرجاؤگے ، اور جس طرح بیدار؛ ہوتے ہواس ہی طرح قیامت کے دن زندہ ہو جاؤ گے اعمال نیک بجا لانے والوں کو جزائے خیر اور بُرے اعمال و الوں کو عذاب میں مبتلا کیا جائے گا ،نیک اعمال والوں کے لئے ہمیشہ رہنے والی جنت اور بدکاروں کے لئے ؛ ہمیشہ کے لئے جہنّم تیّا ر ہے میں پورے عرب میں کسی بھی شخص کو نہیں جانتا کہ جو کچھ میں اپنی امّت کے لئے لایا ہوں اس سے بہتر اپنی قوم کے لئے لایا ہو ؛جس میں بھی دنیا وآخرت کی خیر اور بھلائی تھی میں تمہارے لئے لے کر آیا ہوں میرے خدا نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں تم لوگوں کو اسکی وحدانیّت اور اپنی رسالت پر ایمان لانے کی دعوت دوں۔)
اسکے بعد فرمایا :
( وَِنَّ اﷲ َ لَمْ یَبْعَثْ نَبِیّاً ِلَّا جَعَلَ لَہ مِنْ َھْلِہ َخاً وَ وَزِیْراً وَ وٰارِثاً وَوَصِیََّا َخَلِیْفَةً فی َ ھْلِہ فََ یُّکُمْ یَقُوْمُ فَیُبٰایِعْنی عَلیٰ َنَّہ َخی وَوٰارِثی وَ وَزِیْری وَ وَصِیّ وَیَکُوْنُ مِنّی بِمَنْزِلَةِ ھٰارُوْنَ مِنْ مُوْسی ِلَّا َنَّہُ لَا نَبِی َّبَعْدی)
بتحقیق خدا وند عالم نے کوئی نبی نہیں بھیجا کہ جسکے قریبی رشتہ داروں میں سے اس کے لئے بھائی ، وارث ، جانشین ، اور خلیفہ مقرر نہ کیا ہو پس تم میں سے کون ہے جوسب سے پہلے کھڑا ہو اور اس امر میں میری بیعت کرے اورمیرا بھائی ، وارث ،وصی اوروزیر بنے تو اسکا مقام اور منزلت میری نسبت و ہی ہے جو موسیٰ کی نسبت ہارون کی تھی فرق صرف اتناہے کہ میرے بعد کوئی پیامبر نہیں آئے گا ۔) (١)
..............
(١)۔مجمع البیان ، ج ٧ ،ص ٢٠٦ / تفسیر المیزان ، ج ١٥، ص ٣٣٥ / تاریخ دمشق ابن عساکر ، ج ١٩، ص ٦٨ المنا قب فی ذرّیّة ِ اطائب ۔
آپ ۖ نے اس جملے کو تین بار تکرار فرمایا :ایک اور روایت میں ہے کہ فرمایا :
(فََیُّکُمْ یُوَازِرُنی عَلیٰ ھٰذَاالَْمْرِ؟ وََ نْ یَکُوْنَ َخی وَوَصیّی وَخَلِیْفَتی فِیکُمْ؟)(١)
( پس تم میں سے کون ہے جو اس کام میں میری مدد کرے اور یہ کہ وہ تمہارے درمیان میرا بھائی ، وصی اور خلیفہ ہو گا؟ ) آنحضرت ۖ نے یہ جملہ ارشاد فرمانے کے بعد کچھ دیر توقّف کیا تاکہ دیکھ سکیں کہ ان لوگوں میں سے کس نے انکی دعوت پر لبّیک کہا اور مثبت جواب دیا؟سب لو گ سوچ میں ڈوبے ہوئے تھے کہ اچانک حضرت علی ـ کو دیکھا( جنکا سن اس وقت ١٥سال سے زیادہ نہ تھا۔ ) کہ وہ کھڑے ہوئے اور سکوت کو توڑتے ہوئے
پیغمبر ۖ کی طرف رخ کر کے فرمایا: (اے خدا کے رسول ۖ!میں اس راہ میںآپکی مدد کروں گا ۔)
اسکے بعد وفاداری کی علامت کے طور پر اپنے ہاتھ کو جناب ختمی مرتبت ۖ کی طرف بڑھا دیا ، رسولِ خدا ۖ نے بیٹھ جانے کا حکم دیا ؛ اور ایک بار آپ ۖ نے اپنی بات دہرائی،پھر حضرت علی ـ کھڑے ہوئے اور اپنی آمادگی کا اظہار کیا ،اس بار بھی آپ ۖ نے بیٹھ جانے کا حکم دیا ؛تیسری دفعہ بھی حضرت علی ـ کے علاوہ کوئی کھڑانہ ہوا،اس جماعت میں صرف حضرت امیرُالمؤمنین ـ تھے جو کھڑے ہوئے اور آنحضرت ۖ کے اس مقدّس ہدف کی حمایت اور پشت پناہی کا کھلا اظہار کیا اور فرمایا:
..............
(١)۔حیات ِ محمّد ۖ ، ڈاکٹر ھیکل ص ١٠٤ / کامل ابن اثیر ، ج ٢ ،ص ٦٣کفایةالمطالب ، ص ٢٥٠ و تاریخ مشق ج ١، ص ٨٩/ شرح ابن ابی الحدید ، ج ٣ ١ ،ص ٢١١۔
( یا رسول اﷲ ۖ میں اس راہ میں آپکا مدد گار و معاون رہونگا۔ )
آنحضرت ۖ نے اپنا دست مبارک حضرت علی ـ کے دست مبارک پر رکھا اور فرمایا: ''ِنَّ ھٰذ َا َ خی وَ وَ صیّ وَ خَلِیْفَتی عَلَیْکُمْ فَاسْمَعُوْا لَہُ وََطِیْعُوْہُ .''
بے شک یہ علی ـ تمہارے درمیا ن میرا بھائی ،وصی اور جانشین ہے اسکی بات سنو اور اسکی اطاعت کرو، پیغمبر ۖ کے اپنوں نے اس موضوع کو بہت سادہ اور عام سمجھا اور یہاں تک کہ بعض نے تو مذاق اڑا یا اور جناب ابوطالبـ سے کہا آج کے بعداپنے بیٹے علی ـ کی بات غور سے سنو اور اسکی اطاعت کرو۔) لہٰذا ولایت کا اعلان ،رسول اﷲ ۖ کی بعثت کے ٣سال بعداور اسلام رائج ہوتے وقت ہی ہو گیا تھا اور غدیرخُم سے پہلے ہی آنحضرت ۖ کے قرابت داروں اور بزرگانِ قریش کے کانوں تک پہنچ گیا تھا ۔

٢۔ جنگ تبوک کے موقع پر اعلان ولایت : (حدیث ِ منزلت )
٩ ہجری میں آنحضرت ۖ نے تبوک کی طرف لشکر کشی فرمائی ، چونکہ یہ لشکر کشی بہت طولانی تھی اور آپ ۖ کو اسلامی حکومت کے دارُالخلافہ سے بہت دور شام کی سرحدوں تک جانا تھا، اس امر کی ضرورت تھی کہ ایک قدرت مند اور بہادر مرد مدینہ میں آپ ۖ کا جانشین ہو ؛تاکہ حکومت کے مرکزاور صدر مقام پر امن و امان کی فضا بحال رہے اس لئے حضور اکرم ۖ نے بہتر یہ سمجھا کہ حضرت علی ابن ابی طالب ـ کو مدینہ میں اپنا جانشین مقرّر کریں ۔
آپ ۖ کی تبوک کی طرف روانگی کے فوراً بعد ہی منافقوں نے شہر مدینہ میںچر چا شروع کردیا کہ( نعوذباﷲ) رسولِ خدا ۖ حضرت علی ابن ابی طالب ـ سے ناراض ہیں اور اب ان سے محبّت نہیں کرتے ،اور اس بات کی دلیل یہ ہے کہ اپنے ساتھ لے کر نہیں جا رہے، یہ بات حضرت علی ـ پر گراں گذر ی ا ور آپ ـاس کو برداشت نہ کر سکے اس لئے تبوک کے راستے میں پیغمبر ۖ کی خدمت میں پہنچے اور عرض کی :
یا رسول اﷲ ۖ یہ لوگ ایسی ایسی بات کر رہے ہیں حضرت ختمی مرتبت ۖ نے فرمایا :
( َنْتَ مِنِّیْ بمنزِلَةِ ھٰارُوْنَ مِن مُوْسیٰ ، ِلَّا َنَّہ لا نَبِیَّ بَعْدی )
اے علی ـ! تمہاری نسبت میرے ساتھ ایسی ہی ہے جیسے ہارون ـ کی موسیٰ ـکے ساتھ تھی لیکن فرق صرف اتنا ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔ )(١)
یعنی : تمہیں اس لئے مدینہ میں رہنا ہے کہ جب بھی موسیٰ اپنے پروردگار کے امر کی بجاآوری کے لئے جاتے تھے ،تواپنے بھائی کو اپنی جگہ پر بٹھا کرجاتے تھے۔
( وَ قٰالَ مُوسیٰ لَِ خِیْہ ھٰا رُوْنَ ُخْلُفْنی فی قَوْمی وَ َصْلِحْ ولاَ تَتَّبِع سَبیلَ الْمُفْسِدِیْن )(٢)
..............
(١)١۔ معانی الاخبار ،ص٧٤ ، جابر ابن عبداﷲ اور سعد ابن ابی وقّاص سے نقل کیا ہے۔
٢۔ مناقب آل ِ ابن طالب ـ ، ج٣، ص ١٦
٣۔ صحیح بخاری ، ج٥ ،ص ٢٤ ، ( باب مناقب علی )
٤۔ صحیح مسلم ، ج٢، ص٣٦٠ ، ( باب فضائل علی ـ )
٥۔ الغدیر ،ج١ ،ص ١٩٧ ،ج٣، ص١٩٩
٦۔ کتاب احقاق الحق ، ج٢١ ،ص ٢٦ و ٢٧
٧۔ الغدیر ،ج١ ،ص ١٩٧ ، ج٣ ،ص١٩
٨۔َسنی المطالب فی مناقب علی بن ابیطالب ـ : شمس الدین ابوالخیر جزری
٩۔الضوء اللّامع ، ج٩ ،ص ٢٥٦
١٠۔البدر الطالع ،ج٢، ص ٢٩٧
(٢) سورۂ اعراف/١٤٢
اور موسیٰ نے اپنے بھائی ہارون سے کہا : میری اُمّت میں میرے جانشین رہو ، اور انکی اصلاح کرنااور مفسدین کی راہ پر مت چلنا، مذکورہ حدیث میں بھی واقعۂ غدیر سے پہلے حضرت امیرُالمؤمنین ـ کی وصایت و ولایت کا اعلان ہو چکا تو پھر کیا ضرورت تھی کہ اتنے تپتے ہوئے صحرا میں صرف ولایت کے اعلان کے لیے لوگوں کو روکا جائے ۔

٣۔ حضرت علی ـکے رہبر ہونے کا اعلان غدیر سے پہلے:
لفظِ( یعسوب ) کے معنیٰ رئیس ، بزرگ اور ا سلام کے سرپرست کے ہیں ۔(١)
رسولِ اکرم ۖ نے حضرت علی ـ کے بارے میں کچھ اس طرح ارشا د فرمایا !
( یٰا عَلِیُّ ِنَّکَ سَیِّد ُالْمُسْلِمیْنَ وَیَعْسُوْبُ الْمُؤمِنیْنَ وَِمٰامُ الْمُتَّقیْنَ وَ قٰا ئِدُالْغُرِّالْمُحَجَّلیْنَ)(٢)
اے علی ـ ! تم مومنین کے بزرگ اور رہبر ہو اور پرہیز گاروں کے امام ہو اور با ایمان عورتوں کے رہبر ہو ) جناب ِ امیرالمؤمنین نے ارشاد فرمایا :( َنَا یَعْسُوْبُ الْمُؤْ مِنیْنَ وَ الْمٰالُ یَعْسُوْبُ الْفُجَّارِ)ابنِ ابی الحدید امیرالمؤمنین کے کلام کی شرح کرتے ہوئے لکھتا ہے ! یہ کلمہ خدا کے رسول ۖ نے امام علی ـ کے بارے میں ارشاد فرمایا:ایک بار '' َنْتَ یَعْسُوْ بُ الدّیْن'' کے لفظوں کے ساتھ اور دوسری بار''َنْتَ یَعْسُوْبُ الْمُؤْمِنیْنَ '' کے لفظوں کے ساتھ، اور ان دونوں کے ایک ہی معنیٰ ہیں گویا امیرُالمؤمنین ـ کومؤمنین کا رئیس اور سیّد و سردار قرار دیا ہے (٣) نیز
..............
(١)۔ لغت میں ہے کہ ( الیعسوب ؛ الرّئیس الکبیر ، یقال ھو یعسوب قومہ) اصل میں شہد کی مکھیوں کے امیر اور نر کو (یعسوب ) کہتے ہیں، جیسا کہ اہل لغت کہتے ہیں ( الیعسوب ؛ ذَکَرُ النَّحْلِ وَمیرھا ) ۔
(٢)۔بحار الانوار ، ج٣٨ ص ١٢٦ تا ١٦٦ تقریباً ١٠/روایتیں شیعہ اور سنّی سے اس سلسلے میں نقل ہوئی ہیں ۔
(٣) ۔ شرح ابن ابی الحدید ، ج ،١٩ص ٢٢٤ حکمت ٣٢٢ کے ذیل میں
اپنی شرح کے مقدمہ میں لکھتاہے : اہل حدیث کی روایت میں ایک کلام نقل ہوا ہے جسکے معنیٰ امیرُالمؤمنین کے ہیں،اور وہ یہ ہے کہ فرمایا:
'' َنْتَ یَعْسُوْبُ الدّیْنِ وَالْمٰالُ یَعْسُوْبُ الظُّلْمَةِ .''اے علی ـ !تم دین کے رہبر اور مال گمراہوں کا رہبر ہے ) ایک دوسری روایت میں ہے کہ فرمایا :
ہٰذٰا یَعْسُوْبُ الدیْنِ ( یہ علی ـ دین کے رہبر ہیں ) ان دونوں روایتوں کو احمد بن حنبل نے اپنی کتاب ( مسند) میں اور ابو نعیم نے اپنی کتاب حلیة الاو لیاء میں نقل کیا ہے ( ١)
یاد رہے کہ یہ فضائل اور مناقب امام علی ـ کے ساتھ مخصوص ہیںاور منحصر بہ فرد ہیں ،انکی خلافت کے دلائل میں سے ہیںاور واقعۂ غدیر سے پہلے بیان کئے جاچکے ہیں ۔

٤۔حضرت علی ـ کی امامت کا اعلان :
حدیث اعلان ولایت حضرت امیرُالمؤمنین ـ کی ایک ایسی فضیلت ہے کہ جو آپ ـ کی ذات سے مخصوص ،منحصر بہ فرد اور آپ ـ کی خلافت اور امامت کے دلائل میں سے ہے ، ابن عبّاس نقل کرتے ہیں کہ رسولِ خدا ۖنے حضرت علی ـ سے مخاطب ہو کر ارشاد فرمایا: یا علی ـ ''َنْتَ وَلِیُّ کُلِّ مُؤْمِنٍ بَعْدیْ وَمُؤْمِنَةٍ .''(٢)
آپ میرے بعد ہر مؤمن مرد و زن کے ولی اور رہبر ہیں ) یہ حدیث بھی غدیر خُم کے اہم واقعہ سے پہلے رسولِ اکرم ۖ کی جانب سے صادر ہوئی سب لوگوں نے اسکو سنا بھی تھا اورحفظ بھی کر لیا تھا۔
..............
(١)۔ شرح ابن ابی الحدید ، ج١ص ١٢ : مقدمہ کنز العمال ، حاشیہ مسند احمد
(٢)۔ تلخیص مستدرک ، ج٣، ص ٣٤ ١ : ذہبی مسندِ حنبل ، ج١ص ٣٣١ : احمد ابن حنبل
٣۔صحیح ترمذی ، ج٥ص ٦٣٢ (باب مناقب علی بن ابی طالب ـ ) : ترمذی
٤۔کنزالعمال حاشیہ مسند احمد
٥۔ الغدیر ، ج٣ ص ٢١٥تا ٢١٧ : علّامہ امینی
٦۔ مناقب ابن شہر آشوب ، ج٣ ص ٤٦تا٥٢
٧۔مستدرک حاکم ، ج٣ ص ١٣٤