سوّم۔رسولِ اکرم ۖ اور علی ـ کی دوستی
ا مام علی ـ کا دوست رکھنا اور پیغمبر اسلام ۖ کی حضرت علی ـ کے ساتھ دوستی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں تھی ،علی ـ پیغمبر ۖ کی جان او ر پیغمبر اکرم ۖ حضرت علی ـ کی جان تھے آغاز بعثت کے وقت سے سب لوگ یہ دیکھتے رہے کہ علی ـ اور حضرت خدیجہ سلامُ اﷲ ِ علیہا حجر اسمٰعیل کے برابر میں آپ ۖ کی اقتدا میں نماز پڑھ رہے ہیںیہ سب نے دیکھا کہ حضرت علی ـ پیغمبرۖ کے بستر پر سوئے اور اپنی جان کی پرواہ نہ کی تاکہ آپ ۖ کی جان بچا سکیں سب نے دیکھا کہ حضرت علی ـ بعثت وھجرت میں ایک پروانے کی طرح شمع رسالت کے گرد چکر لگاتے رہے سب نے یہ بارہا سنا کہ حضرت رسول اکرم ۖنے حضرت علی ـ کے ساتھ اپنی دوستی کا اعلان کیا : جن میں سے چند نمونے مندرجہ ذیل ہیں
١۔ جنگ اُحُد میں دوستی کا اعلان :
ابن اثیر اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں پیغمبر ۖ نے مشرکوں کے ایک گروہ کو دیکھا کہ حملے کے لیے تیّار ہے حضرت علی ـ کو حکم دیا کہ اس گروہ پر حملہ کریں ، حضرت علی ـ نے حکم کی اطاعت کی اور ان لوگوں پر حملہ کرکے کا فی کو قتل اور باقی کو فرار پر مجبور کر دیا بعد ایک اور گروہ کو دیکھا اور حضرت علی ـ کو حملہ کا حکم دیا علی ـ نے انکو بھی مار بھگایا اس وقت فرشتۂ وحی نے پیغمبراکرم ۖ سے کہا کہ یہ فداکاری کی انتہا ہے جو حضرت علی ـ دکھا رہے ہیں رسول ِ خدا ۖ نے فرمایا ! ( وہ مجھ سے ہے اور میں اس سے ہوں ) ا س وقت آسمان سے یہ آواز آئی، لاَ فَتیٰ ِلّٰا عَلِی ّ ،لاَ سَیْفَ ِلّٰا ذُوالْفِقٰار ( علی ـ جیسا شجاع جوان اور ذوالفقار جیسی تلوار وجود نہیں رکھتی)۔
ابن ابی الحدید بھی لکھتے ہیں : جب اصحاب پیغمبر ۖ میں سے اکثریت فرارہو رہی تھی تو دشمن کے مختلف دستے آپ ۖ کے گرد گھیرا تنگ کرنے لگے قبیلۂ بنی کنانہ کا ایک گروہ ،اور ایک گروہ قبیلہ عبد مناة کا جس میں چار نامور جنگجو بھی؛ تھے جب پیغمبر ۖ کی طرف بڑھنے لگے توآپ نے حضرت علی ـ سے فرما یا : ان لوگوں کے حملے کو رفع دفع کرو علی ـ جو پا پیادہ جنگ میں مصروف تھے ، پچاس افراد پر مشتمل اس گرو ہ پر حملہ کر کے انھیں پسپا کر دیا انھوں نے کئی بار جمع ہو کر حملہ کیا لیکن پسپائی انکا مقدّر تھی ان حملوں میں چار مشہور جنگجو اور دس دوسرے افراد جنکا نام تاریخ میں نہیں ملتا علی ـ کے ہاتھوں قتل ہوئے جبرَئیل نے رسولِ خدا ۖ سے کہا:( حق یہ ہے کہ علی ـ فدا کاری کر رہے ہیں ، فرشتے انکی اس جاں فشانی سے تعجب میں مبتلا ہیں )
پیغمبر ۖ نے فرمایا : ایسا کیوں نہ ہو حضرت علی ـ مجھ سے ہیں اور میں علی ـ سے ہوں، جبر ئیل نے کہا : میں بھی آپ سے ہوں۔
اس وقت آسمان سے دوبارہ یہ آوازآ ئی '' لَا سَیْفَ ِلَّا ذُوالْفَقٰاروَلاَ فَتیٰ ِلَّا عَلِیّ'' لیکن کہنے والا دکھائی نہیں دے رہا تھا، جب پیغمبر ۖ سے سوال کیا گیا یہ کس کی آواز ہے ؟ توآپ نے فرمایا جبرئیل کی آواز ہے ۔(١)
٢۔ جنگ خیبر میں دوستی کا اعلان :
جنگ احزاب میں کامیابی کے بعد جب یہودیوں نے خیانت کی اور عہدو پیمان کا پاس نہ کیا تو مسلمان رسولِ خدا ۖ کی قیادت میں جنگ خیبر کے لئے تیّار ہوئے اور حملے کے آغازمیںہی یہودیوں کے بعض قلعوں کو فتح کرلیا حضرت علی ـ آشوب ِ چشم میں مبتلا تھے ۔
..............
(١)۔ ابن ا بی الحدید نے شرح نہج البلاغہ ،ج١٤ ص ٢٥٣میں اور خوارزمی نے کتاب المناقب' ص ٢٢٣ میں روایت کی ہے اپنی اس فداکاری (کہ جس کے نتیجے میں آسمان سے یہ ندا آئی) کو حضرت علی ـ نے شوریٰ کی تشکیل کے وقت اعضا کے سامنے دلیل کے طور پر پیش کیا۔
چھوٹے چھوٹے قلعوں کو فتح کرنے کے بعدمسلمان سپاہیوں نے بڑے قلعوں '' وطیع 'اور ''سلالم''کی طرف پیش قدمی کی لیکن قلعہ کے باہر ہی یہودیوں کی سخت مقاومت کا سامنا ہوا ، یہی وجہ تھی کہ اسلام کے دلیر سپاہی اس تمام جاں نثاری ،فداکاری اور سنگین نقصانات ( جنکا ذکر اسلامی مورخ ابن ہشام نے مخصوص باب میں کیاہے )کے با وجود کامیابی حاصل نہ کر سکے ، لشکر ِ اسلام کے سپاہی دس دن سے زیادہ نبرد آزما ئی کرتے رہے۔
لیکن ہر روز بغیر کامیابی کے لوٹتے رہے ایک دن جلیل القدر صحابی رسول ۖ، ابو بکر سفید پرچم لے کر قلعہ خیبر کو فتح کرنے کے لئے روانہ جنگ ہوے مسلمانوں نے بھی ان کی سالاری میں حرکت کر دی لیکن کچھ دیر بعد بغیر کسی نتیجہ کے واپس لشکر گاہ کی طرف پلٹ آئے سالار اور سپاہی سب ایک دوسرے کو قصور وار ٹھراتے ہوئے بزدلی اور فرار کا الزام لگارہے تھے ۔
ایک دن لشکر کی سالاری عمر کو دی گئی انہوں نے بھی اپنے دوست کی کہانی دہرائی اورجیسا کہ طبری(١) نے نقل کیا ہے،میدانِ جنگ سے پلٹنے کے بعد قلعۂ خیبر کے سردارمرحب کی غیر معمولی دلاوری اور شجاعت کے ذکر سے پیغمبر ۖ کے ساتھیوں کو ہرا ساں کرتے رہے اس صورت حال نے پیغمبر ۖ اور مسلمان سرداروں کو سخت پریشانی میں مبتلا کردیا، ان حسّاس حالات میں پیغمبر اکرم ۖ نے فوج اسلام کے سپاہیوں اور سرداروں کو جمع کیا اور یہ قیمتی کلمات ا رشاد فرمائے :
''لََعْطَیَنَّ الرَّایَةَ غَدَاً رَجُلاًیُحِبُّ اﷲ َ وَرَسُوْلَہ وَیُحِبُّہ اﷲوَ رَسُوْ لُہ یَفْتَحُ اﷲ عَلیٰ یَدَیْہ ِ، لَیْسَ بِفَرَّارٍ.''(٢)
..............
( ١)۔تاریخ طبری ، ج٢ ،ص ٣٠٠
(٢)۔ مجمع البیان ، ج ٩، ص ١٢٠ ۔ سیرۂ حلبی ، ج ٢، ص ٤٣ ۔ سیرۂ ابن ہشام ، ج ٣ ، ص ٣٤٩
( یہ علم میں کل اس مردکے ہاتھوں میں دونگا جو خدا اور اسکے رسول ۖ کو دوست رکھتا ہوگا اورخدا اور پیغمبر ۖاس کودوست رکھتے ہونگے ،اﷲ اسکے ہاتھوں پرفتح (قلعہ پر غلبہ ) دیگاوہ مردہرگز میدان جنگ سے دشمن کی طرف پشت کر کے بھا گنے و الا نہ ہو گا۔)
طبری اور حلبی کی ایک روایت کے مطابق اس طرح فرمایا:''کَرّارٍ غَیْرَ فَرَّار'' (دشمن پر حملہ کرتا ہے اور ہر گز فرار نہیں ہوتا)(١) یہ جملہ اس سردار کی فضیلت، معنوی برتری، شہامت اور شجاعت کی حکایت کرتاہے کہ فتح و کامرانی جسکا مقدّر ہے اور کامیابی جسکے ہاتھوں حاصل ہوگی؛ سپاہیوں اور سرداروں کے درمیان خوشی ، اضطرا ب اور پریشانی کی ملی جُلی کیفیت ہے کہ کل یہ اعزاز کس کو ملنے والا ہے ؟ ایک عجیب غوغا خیموں اور اطراف میں بلندتھا، ہر شخص کے دل میں یہ آرزو تھی کہ کل یہ اعزاز مجھے مل جائے۔(٢)
..............
(١)۔ ابن ابی الحدید نے ان دو سرداروں کے فرار سے سخت متثر ہوتے ہوئے اپنے معروف قصیدہ میں اس طرح بیان کیا
وما انس لا انس اللّذینَ تقدما و فر ھما و الفر ، قد علما
(اگر ہر چیز کو بھول بھی جاؤں لیکن ان دو سرداروں کے فرار کو نہیں بھول سکتا کیونکہ وہ تلواریں ہاتھ میں لے کر دشمن کی طرف گئے اور یہ جاننے کے باوجود کہ جہاد سے فرار کرنا حرام ہے دشمن کی طرف پیٹھ کرکے فرار ہو گئے ۔)
و للر ایة العظمیٰ و قد ذھبابہا ملابس ذل فوقہا و جلابیب
(وہ لوگ بڑا پرچم لے کر دشمن کی طرف گئے لیکن معنوی طور پر ذلّت اور خواری کے پردے میں لپٹاہوا تھا۔)
یَشلّہمامن آل موسیٰ شمردل طویل نجاد السّیف ،اجید یعبوب
فرزندانِ موسیٰ میں سے ایک تیز و طرّار اور بلند قامت جوان انکو میدانِ جنگ سے دور کر رہا تھا وہ بہترین اور تند رو سوار تھا۔
( ٢)۔ جب حضرت علی ـ نے خیمہ میں آپ ۖ کے اس فرمان کو سنا تو بڑے شوق دل کے ساتھ فرمایا!
'' اللّٰہُمَّ لَا معطی لما منعت ولا مانع لما َ عطیت'' سیرۂ حلبی ،ج٣، ص ٤١
اے پرودگا ر جس سے تو منع کیااسے انجام نہیں دوں گا اور جس کاامر فرمایااسے انجام دوں گا۔
رات کی تاریکی نے ہر جگہ کو اپنی آغوش میںلے لیا تھا مسلمان سپاہی اپنے اپنے خیموں میں تھے سب جلداز جلد یہ جاننا چاہتے تھے کہ کل یہ اعزاز کس کو دیا جائے گا؟ (١)
نا گاہ پیغمبر ۖ نے فرمایا ! علی ـ کہاں ہیں ؟ جواب دیا گیا کہ ؛ وہ آشوب ِ چشم میں مبتلا ہیں اور ایک گوشے میں آرام فرما رہے ہیں پیغمبر ۖ نے فرمایا ! انکو بلایا جائے لہٰذا امیر المؤمنین ـ کے ساتھ دوستی کا اعلان تو غدیر ِ خم سے کئی سال پہلے ہو چکا تھا جب علی ـ دشمن کی صفوں کو توڑتے اور سردارانِ قریش کے سروں کو کچلتے ؛جب جنگ ِ اُحُد میں قریش کے طاقتو ر علمداروں کو خاک میں ملایاجب جنگِ احزاب میں قریش کے د لیر پہلوان عمرو ابن عبد ِ ود کو مغلوب کیا ۔
جب جنگ ِ ذاتُ السّلاسل میں دشمن کی طاقت کو خاک میں ملایامسلمانوںنے دیکھا اور سنا کہ پیغمبر ۖ دل و جان سے علی ـ کو چاہتے ہیں اور انکے زخموں پر آنسو بہاتے ہیں اور ان کا تعارف اپنی جان کہکر کراتے ہیں، جب علی ـ میدان جنگ کی طرف جاتے تو اشک آلودہ آنکھوں کے ساتھ ہاتھ دعا کے لئے بلند کرتے اور علی ـکی خدا سے سلامتی طلب کرتے ہیں، پیغمبر ۖ کی حضرت علی ـ کے ساتھ دوستی کوئی ایسی ڈھکی چھپی اور پوشیدہ بات نہیں تھی جو غدیر میں عام کی گئی ہو ا میر المؤمنین ـ کی پیغمبر ۖ سے دوستی اور محبت کی شدّت سے ہر خاص و عام واقف تھا اور مہاجرین و انصار میں سے بہت سارے بزر گ افراد اس دوستی اور محبت پر رشک کرتے تھے ۔
سیاسی جماعتوں کے سربراہ اور منافقین اس موقع کی تلاش میں رہتے تھے کہ اعتراض کر سکیں اور حسد کی آگ بجھا سکیں، لہٰذاکوئی بھی دانشمند مورّخ یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ '' غدیر خم''صرف دوستی کا اعلان تھا اور کوئی خاص بات رونما نہیں ہوئی۔
..............
(١)۔ تاریخ طبری کی عبارت اس بحث میں کچھ ایسی ہے : فتطاول ابو بکر و عمر
٣۔امام ـ کے دوستوں کی پہچان :
نہ صرف یہ کہ حضور ِ اکرم ۖ امیر المؤمنین ـ کے ساتھ اپنی دوستی کا بارہا و بارہا اعلان کر چکے تھے بلکہ انکے دوستوں کو بھی پہچنواچکے تھے اور انکے دشمنوںکے چہروں سے بھی پردے اُٹھاچکے تھے۔
٤۔حضرت علی ـ کی دوستی مؤمن اور منافق کی پہچان کا معیار:
غدیر خم سے کئی سال پہلے پیغمبر اکرم ۖ نے حضرت علی ـ کی دوستی کو ''حق و باطل'' اور مؤمن و منافق ''کی پہچان کا معیار قرار دیا، اس حدیث کا خلاصہ یہ ہے کہ علی بن ابی طالب ـ ایمان اور کفر کا معیار ہیں۔ صرف مؤمنین ہی آنحضرت ـ کے دوست ہو سکتے ہیں اور صرف منافقین ہی آپ ـ سے دشمنی کر سکتے ہیں۔
یہ حدیث شریف جس سے شیعہ اور سُنّی کتابیں بھری ہوئی ہیں حد تواتر سے گذر چکی ہے،اور امیرُالمؤمنین ـ کے لئے ایسی فضیلت کا درجہ رکھتی ہے کہ جو آپ ـ کے علاوہ کسی اور کے پاس نہیں۔ اس حدیث کو مختلف تعابیر کے ساتھ پیغمبر اکرم ۖ سے نقل کیا گیا کہ آپ ۖ نے فرمایا:'' قٰالَ رَسُوْلُ اﷲِ ۖ : یٰا عَلِیُّ لَا یُحِبُّکَ ِلّٰا مُؤْمِن وَلَا یُبْغِضُکِلّٰا مُنٰافِق ''(١) ( یا علی ! سوائے مؤمن کے کوئی تمہارا محب اورچاہنے والا نہیں اور سوائے منافق کے کوئی تم سے بغض وکینہ نہیں رکھتا۔)
..............
١۔ارشاد مفید ۔ص ١٨ ، بحار الانوار ۔ ج٣٩ ص ٣٤٦ ۔ ٣١٠ ، صحیح مسلم ۔ ج١ ص ٤٨ ( باب الدّ لیل علی حسب الانصار ) ، صواعق محرّقہ ۔ابن حجر ص١٢٠ ، حدیث ۔(ہشتم از فضائل آنحضرت ـ ) ، شرح ابن ابی الحدید ج١٨ ص ١٧٣ حکمت ٤٢ کے ذیل میں کہتا ہے کہ ( ہٰذالخبر مرویّ فی الصّحاح)
حارث ہمدانی کہتے ہیں :
میں نے ایک دن حضرت علی ـ کو دیکھا کہ ممبر پر تشریف فرما ہیں اور پروردگار کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا : '' قَضٰاء قَضٰاہ ُاﷲ ُ تَعٰالیٰ عَلیٰ لِسٰانِ النَّبِیِّ ۖ، ِنَّہ قٰالَ: لاَ یُحِبُّنِی ِلّٰامُؤمِن و لَا یُبْغِضُنِیْ ِلّٰامُنٰافِق وَ قَدْ خَابَ مَنِ افْتَریٰ''(١)
( یہ منظورِ خدا تھا جو رسولِ اکرم ۖ کی زبانِ مبارک پر یہ کلمات جاری ہوئے کہ مجھے دوست نہیں رکھے گا سوائے مؤمن کے اور مجھے دشمن نہیں جانے گا سوائے منافق کے جس نے باطل دعویٰ کیا وہ جھوٹا ہے ۔)
..............
(١)ارشاد مفید ، ص ١٨ ، بحار الانوار ، ج ٣٩ ص ٣٤٦ / ٣١٠ ، صحیح مسلم ، ج ١ ص ٤٨ ( باب الدّ لیل علی حسب الانصار ) صواعق محرّقہ ، ابن حجر ص ١٢٠ ، حدیث ، (ہشتم از فضائل آنحضرت ـ ) ، شرح ابن ابی الحدید ، ج ١٨ ص ٧٣ ١ حکمت ٤٢ کے ذیل میں کہتا ہے کہ : ( ہٰذالخبر مرویّ فی الصّحاح)
٥۔امام ـکی دوستی نہج البلاغہ کی زبانی :
امیرُ المؤمنین ـ خود نہج البلاغہ میں فرماتے ہیں !
''لَوْضَرَبْتُ خَیْشُوْمَ الْمُؤْمِنِ بِسَیْفِیْ ھٰذَا عَلَیٰ َن ْیُبْغِضَنِی مَا َبْغَضَنِیْ ؛ وَ لَوْصَبَبْتُ الدُّنْیَا بِجَمَّاتِہَاعَلَیٰ المنافق علٰی َنْ یُحِبَّنِیْ مَا َحَبَّنِیْ وَذٰلِکَ َنَّہ قُضِی فَانْقَضَیٰ عَلَیٰ لِسَانِ النَّبِیِّ الُْمِّیّ ِ ۖ ؛ َنَّہ قَال: یَا عَلِیُّ لا یُبْغِضُکَ مُؤْ مِن ، وَ لاَ یُحِبُّک مُنٰافِق.''
( میں اگر اپنی شمشیر سے مؤمن کی ناک پر وار کروں تاکہ وہ میرا دشمن ہو جائے وہ کبھی بھی مجھ سے دشمنی نہیںکرے گا ا ور اگر ساری دنیا منافق کو دے دوں تا کہ وہ میرا دوست ہوجائے ، وہ کبھی
بھی میرا دوست نہیں ہو گایہ ِ خداوند عالم کی مرضی تھی جو پیغمبر ۖ کی زبان سے جاری ہوئی ،اے علی ! مومن تم سے دشمنی نہیں کرے گااور منافق تمہارا دوست نہیں ہو گا۔)(١)
..............
(١)۔وہ مصنِّفین جنہوں نے اس کلام ِ امام کو اپنی کتابوں میں ذکر کیا مندرجہ ذیل ہیں :
١۔بشارة المصطفیٰ ، ص ١٣٠ و ١٨١ : مرحوم طبری ( متوفّیٰ ٥٥٣ ھ)
٢۔ کتاب ِامالی ، ج ١ ،ص ٢٠٩ : شیخ طوسی ( متوفّیٰ ٤٦٠ ھ)
٣۔ ربیع الابرار ، ج ١، ص ١٣٨ : زمخشری ( متوفّیٰ ٥٣٨ ھ)
٤۔ روضۂ کافی ، ص ٢٦٨ : مرحوم کلینی ( متوفّیٰ ٣٢٨ ھ)
٥۔مشکاة الانوار ، ص ٧٤ : مرحوم طبرسی ( متوفّیٰ ٥٤٨ ھ)
٦۔مقتلِ امیرُ المؤمنین ـ ، ص ٣ : ابن ابی الدنیا ( متوفّیٰ ٢٨١ ھ)
٧۔ تاریخ دمشق ، ج٢ ، ص ١٩٠ : ابن عساکر ( متوفّیٰ ٦٧٣ ھ)
٨۔ علل الشّرایع ، ص ٥٩/٥٨ : شیخ صدوق ( متوفّیٰ ٣٨٠ ھ)
٩۔ بحار الانوار ، ج٣٦ ، ص ٢١٦ : مرحوم مجلسی ( متوفّیٰ ١١١٠ ھ)
١٠۔ کتاب احتجاج ( بہ نقل بحار ) : مرحوم طبرسی ( متوفّیٰ ٥٤٨ ھ)
١١۔ بحار الانوار ، ج٣٩ ، ص ٢٥٢ تا ٢٥٦ : مرحوم مجلسی ( متوفّیٰ ١١١٠ ھ)
١٢۔ کتاب محاسن ، ص ١٥٠ و ١٥١ : علَّامہ برقی ( متوفّیٰ ٢٧٤ ھ)
١٣۔ کتاب ارشاد ، ص ٣٥ / ١٧ و ١٨ : شیخ مفید ( متوفّیٰ ٤١٣ ھ)
٭ مندرجہ ذیل منابع بحارالانوار ( ج٣٩ ، ص ٢٦٢ تا ٣٢٦ ) میں نقل کئے گئے ہیں ۔
١٤ ۔ کتاب حلیة : سمعانی ١٥۔ کتاب الفضائل ص ١٠٠ : سمعانی
١٦۔ مسند احمد : احمد بن حنبل ( متوفّیٰ ٢٤١ ھ)
١٧۔ جامع ترمذی : ترمذی ( متوفّیٰ ٢٧٩ ھ)
١٨۔ کتاب مسند : موصلی
١٩۔ تاریخ بغداد : خطیب بغدادی ( متوفّیٰ ٤٦٣ ھ)
٢٠۔سنن ابن ما جہ : ابن ما جہ ( متوفّیٰ ٢٧٥ ھ)
٢١۔ کتاب صحیح بخاری : بخاری ( متوفّیٰ ٢٥٦ ھ)
٢٢۔کتاب صحیح مسلم : مسلم ( متوفّیٰ ٢٦١ ھ)
٢٣۔کتاب الغارات : ابن ہلال ثقفی ( متوفّیٰ ٢٨٣ ھ)
٢٤۔ شرح الالکانی : الکانی
٢٥۔ اعیان ، ج٢ ص ٢٦٩ : ابن عقدہ
٢٦۔ کتاب الغریبین : ہروی ( متوفّیٰ ٤٠١ ھ)
٢٧۔کتاب الولایة : طبری ( متوفّیٰ ٤٦٠ ھ )
٢٨ ۔ احتجاج : طبرسی ( متوفّیٰ ٥٨٨ ھ)
٢٩۔ کتاب امالی ، ص ٣٨ و ٣٩ و ١٧٣ : شیخ مفید ( متوفّیٰ ٤١٣ ھ)
٣٠۔ تفسیر البرہان ، ج٣ ص٢٠٧ : بحرانی ( متوفّیٰ ١١٠٧ ھ)
٣١۔کشف ا لغمہ : مرحوم اربلی ( متوفّیٰ ٦٨٧ ھ)
٣٢۔ کشف الیقین : علّامہ حلّی ( متوفّیٰ ٧٥٧ ھ)
٣٣۔ کتاب طرائف : ابن طاؤوس …… ٣٤۔ الجمع بین ا لصححین : حمیدی
٣٥۔ کتاب صحیح ابی داؤود : ابی داؤود ( متوفّیٰ ٢٥٧ ھ)
٣٦۔ عیون اخبار الرّضا ، ص ٢٢١ : شیخ صدوق ( متوفّیٰ ٣٨٠ ھ)
٣٧۔کتاب العمدة : ابن البطریق ( متوفّیٰ ٦٠٠ ھ)
٣٨۔ کتاب الجمع بین صحاح الستّہ : عبدری
٣٩۔ کتاب الفردوس : ابن شیرویہ … ٤٠۔ غرر الحکم ، ج٥ ص ١٠٩ : مرحوم آمدی ( متوفّیٰ ٥٨٨ ھ)
٤١۔کشف الغمہ ، ج١ ص ٥٢٦ : مرحوم اربلی ( متوفّیٰ ٦٨٧ ھ)
چہارم ۔ خطبۂ حجةُ الوداع پر ایک نظر
غدیر خم کے اصلی پیغام کی شناخت کا ایک طریقہ اور ہے وہ یہ کہ رسول اﷲ ۖ کے اس دن کے خطبہ کا عمیق نظروں سے جائزہ لیا جائے جو اس تاریخ ساز دن بیان ہوا !
( آفتاب آمد دلیل آفتاب)
موجب اختلاف ابحاث اور کسی ایک فرقہ یا گروہ کے اظہار نظر پر بات کرنے سے پہلے اس بات پر غور و فکر کرنا چاہیے کہ آنحضرت ۖ نے غدیر خم کے دن اپنے خطبہ میں کن اہم مسائل کی طرف لوگوں کی توجّہ مبذول کرائی ؟
اگر آنحضرت ۖ کا ہدف و مقصد صرف یہ تھا کہ علی ـ کی دوستی کا اعلان فرمائیںتو سورۂ مائدہ کی آیة / ٥٥ ( بَلِّغْ مَا ُنْزِلَِلَیْکَ)کا تعلق سے حضرت علی ـ کی خلافت اور امامت سے کیوں ہے ؟
جیسا کہ ارشاد فرمایا : ( بِسْمِ اﷲ ِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم:یٰا َیُّہَا الرَّسُوْلُ! بَلِّغْ مَاُنْزِلَ ِلَیْکَ مِنْ رَبِّکَ )]فِی عَلِیٍّ ،یَعْنِی فِی الْخِلٰافَةِلِعَلِیِّ بْنِ َبِی طاٰلِب ٍ [( وَِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمٰا بَلَّغْتَ رِسٰالَتَہ وَاﷲ یَعْصِمُکَ مِن النّٰاسِ)
پیغمبر اکرم ۖکے خطبۂ حجّة الوداع کا کچھ حصہ اے رسولِ خدا ۖ! جو کچھ] حضرت علی ـ کے بارے میں [ تمہارے خدا کی طرف سے تم پر نازل ہوا ہے اس کو لوگوں تک پہنچا دو،یعنی حضرت علی ـ کی خلافت اور امت مسلمہ سے رہبری کے بارے میں مسلمانوں کو بتا دو ، اپنے خطبے میں حضرت علی ـ کی وصایت اورامامت کوواضح طور پر بیان کیوں فرمایا :
فَُعْلِمَ کُلَّ َ بْیَضٍ وََ سْوَدٍَ نَّ عَلِیَّ بْنَ َبِیْ طٰالِب ٍ، َخِیْ و وَصِیِّی و خَلِیْفَتی عَلیٰ ُمَّتی وَالِْمٰامُ مِنْ بَعْدِی (١)
(لہٰذا سارے ! سیاہ و سفید یہ جان لیں کہ علی بن ابی طالب ـ میر ے بھائی ، خلیفہ ، وصی اور جانشین اور میرے بعد اُمّت کے امام و رہبر ہیں ۔)
کیا اس قسم کے جملے دوستی کا پیغام پہنچانے کے لئے تھے ؟
اگر ہدف، دوستی کا اعلان تھا تو کیوں فرمایا:
''وَاعْلَمُواَنَّ اﷲ َقَدْ نَصَبَہ لَکُمْ وَلِیّاً وَِمَاماً،فَرَضَ طٰا عَتَہ عَلَی الْمُہٰاجِرِیْن وَالَْنْصٰارِ، وَعَلَی التَّابِعِیْنَ لَہُمْ بِِحْسٰانٍ، وَعَلَی الْبٰادِی وَالْحٰاضِرِ،وَعَلَی الْعَجَمِیِّ وَا لْعَرَبِیِّ ، وَالْحُر وَالْمَمْلُوْکِ، وَالصَّغِیْرِ وَالْکَبِیْرِ،وَعَلَی الَْبْیَض وَالْسْوَدِ، و عَلیٰ کُلِّ مُوَحِّدٍ،مٰاضٍ حُکْمُہ،جٰازَ قَوْلُہ،نٰافِذ َمْرُہ ،مَلْعُوْن مَنْ خٰالَفَہ ، مَرْحُوْم مَنْ تَبِعَہ ، وَصَدَقَہ ، فَقَدْ غَفَرَاﷲ ُ لَہ وَلِمَنْ سَمِعَ مِنْہ وََطٰاعَ لَہ.''
اے لوگو ! جان لو کہ خدا وند ِ عالم نے علی ـ کو تمہارا امام اور سرپرست بنایا ہے،انکی اطاعت تمام مہاجرین و انصار، اسلام کے نیک پیروکار، شہری و دیہاتی، عرب و عجم ، غلام و آزاد ،چھوٹے بڑے ، کالے گورے اور ہر اس خداپرست پر جو ایک خدا کی پرستش کرتا ہے واجب قرار دی ہے؛ انکے فرمان پر عمل ، کلام کا سننا اور حکم کی بجا آوری واجب ہے؛ ملعون ہے وہ شخص جو انکی مخالفت کرے اور اس پر خدا کی رحمت جو انکی اطاعت کرے، انکی تصدیق کرنے والا مومن ہے جو بھی ان سے سنے اور ان کی اطاعت کرے خدا اس کو بخش دے گا۔) اگر روزِ غدیر صرف دوستی کے اعلان کے لئے تھا تو پھر حضرت علی ـاور انکے فرزندوں کی امامت اور رہبری ِ کی بات کیوں کر رہے ہیں ؟
..............
(١)پیغمبر اکرم ۖ خطبۂ حجّةُالْوداع کا کچھ حصّہ
انکی اطاعت کو سب مسلمانوں پر واجب کیوں کر رہے ہیں ؟ امامت اور رہبری کو تا روزِ قیامت علی ـ اور انکے فرزندوں میں کیوں قرار دے رہے ہیں؟
جیسا کہ فرمایا:'' ثُمَّ مِنْ بَعْدِیْ عَلِیّ وَ لِیُّکُمْ، وَِمٰامُکُمْ بَِمْرِاﷲ ِ رَبِّکُمْ، ثُم الامٰا مَةُ فِیْ ذُرِّیَتِیْ مِنْ وُلْدِہ ِلیٰ یَوْمِ الْقِیٰامَةِ،یَوْمَ تَلْقُوْنَ اﷲ َ وَ رَسُوْلَہ.''
( خدا وندِ عالم کے حکم سے میرے بعد علی ـ تمہارے امام اور ولی ہونگے اور انکے بعد اما مت میری ذرّیت میں ہے کہ جو علی ـ سے ہو گی او رتا روزِ قیامت برقرار رہے گی وہ دن کہ جس دن تم لوگ خدا اور اسکے رسول سے ملاقات کرو گے ۔)
اگر غدیر کا دن صرف دوستی کے اعلان کے لیے تھا تو پیغمبر ۖ نے خود حضرت علی ـ کی بیعت کیوںکی ؟ اور تمام مسلمانوں کو بیعت کا حکم کیوں دیا ؟دوستی کا اعلان تو بیعت کاتقاضا نہیں کرتا ۔
'' َلَا وَِنِّیْ عِنْدَ انْقِضٰائِ خُطْبَتیْ َدْعُوْکُمْ ِلیٰ مُصٰافَقَتی عَلی بَیْعَتِہ وَالِْقْرَارِ بِہ ثُمَّ مُصٰافَقَتِہ مَنْ بَعْدی؛؛؛َلَا وَ ِنِّی قَدْ بٰا یَعْتُ اﷲ َ،وَ عَلِیّ قَدْ بٰایَعْنِیْ وَ َنٰا آخِذْ کُمْ بِالْبَیْعَةِ لَہ عَنِ اﷲ ِ عَزَّ وَجَل( ِنَّ الَّذِیْن َ یُبٰایِعُوْنَکَ ِنَّمٰا یُبٰایِعُوْنَ اﷲ َ یَدُاﷲ فَوْقَ َیْدِیْہِمْ فَمَنْ نَکَث فَِنَّمٰا یَنْکُث عَلیٰ نَفْسِہ وَمَنْ َوْفیٰ بِمٰا عٰاھَدعَلَیْہِ اﷲ َ فَسَیُوْ تِیْہِ َجْراً عَظِیْماً) ( سورةُ الْفَتْح/ ١٠)
تم سب آگاہ ہو جاؤ کہ میں اپنے خطبے کے اختتام پر تم لوگوں کو حضر ت علی ـکی بیعت کے لئے بلاؤں گا تو تم سب انکی بیعت کرنا اور انکی امامت کا اعترا ف کرنا ،اور پھرانکے بعد آنے والے اماموں کی بھی بیعت کرنا ۔
آگاہ ہو جاؤ اس کے سوا کچھ نہیںکہ میں نے خدا کی بیعت کی اور علی ـ نے میری بیعت کی میں خدا وند ِعالم کی طرف سے تم لوگوں کو حضرت علی ـ کی بیعت کرنے کے لئے دعوت دیتاہوں، آیہ /١٠ سورۂ الفتح : ( بتحقیق جو لوگ تمہاری بیعت کرتے ہیں اس کے سوا کچھ نہیں کہ وہ خدا کی ہی بیعت کرتے ہیں خدا کی قوّت اور قدرت تو سب کی قوّت پر غالب ہے ، جو عہد شکنی کرے گا اسکو نقصان ہوگا ،اور جو عہد و پیمان کو وفا کرے گا خدا وند ِ منّان ا س کو عنقریب اجر عظیم عطا فرمائے گا ۔)
جو شخص بھی عہد کو توڑے گا اسنے اپنے نقصان میں کام کیا، خداوند عالم کی جانب سے مجھے یہ کام سونپا گیا ہے کہ تم لوگوں سے علی ـ کے لئے بیعت لوں ، لہٰذاجو کچھ خدا وند عالم کی طرف سے ولایت علی ـ کے سلسلے میں نازل ہوا ہے اسکا اعتراف کرو اور ان کوامیرُالمؤمنین جانو ، اور علی ـ کے بعد آنے والے میرے خاندان میں سے اور علی ـ کے فرزندوں کی ا مامت کو قبول کرو ، اور انکے قائم حضرت مہدی ـ ہونگے جو تا روزِ قیامت حق سے قضاوت کریں گے ۔)
اگر سارے اسلامی فرقے آنحضرت ۖ کے خطبہ حجة الوداع کو ہر قسم کے تعصب سے ہٹ کر دیکھیں اور اس میں غور و فکر کریں تو حقیقت کو نور خورشید کے مانند پائیںگے،اور حق کے مزے سے آشنا ہو جائیں گے ۔
|