٣۔ پیغمبر اکرم ۖ کی پریشانی:
اگر غدیر کا مقصد صرف علی ـ کی دوستی کا پیغام پہنچانا تھا تواس پیغامِ الٰہی کے پہنچا دینے میں آپ ۖ کی پریشانی کا کیا سبب ہے؟آپ ۖ نے تین بار پس و پیش کیوں کی؟ اور جِبرَئیل ـ کا مسلسل اصرار کرنا اور اس آیت کاپڑھناکہ(یٰا َیُّہَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مٰا ُنْزِلَ ِلَیْکَ مِنْ رَبِّکْ وَِنْ لَمْ تَفْعَل فَمٰا بَلَّغْتَ رِسٰالَتَہُ)(١)
( اے پیغمبر ۖ !جو حکم خدا کی طرف سے آپ پر نازل کیا گیا ہے اسے لوگوں تک پہنچا دیں اگر آج آپنے یہ کام انجام نہیں دیا تو گویا آپنے اپنی رسالت کو ادھورا چھوڑ دیا ۔(٢)
..............
(١) مائدہ ٥/٦٧
(٢)بہت سارے مسلمان عُلماء نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ ! یہ آیۂ مبارکہ غدیر کے دن حضرت ِ علی ـ کی ولایت کے ا علان کے لئے نازل ہوئی۔
١۔ الولایة فی طرق حدیث الغدیر : طبری
٢۔ ما نزل القرآن فی امیرالمؤمنین ـ : ابو بکر فارسی
٣۔ ما نزل القرآن فی علی ـ : ابو نعیم
٤۔ الدرایة فی حدیث الولایة : سجستانی
٥۔ الخصائص العلویّة : نطنزی
٦۔ تفسیر شاہی : محبوب العالم
٧۔ ارجح المطالب ، ص ٦٧/٦٨/٢٠٣/ ٥٦٦ : امرتسری
٨۔ اسباب النزول ، ص ١٣٥ : واحدی
٩۔ تاریخ دمشق ، ج ٢ ، ص ٨٥ : ابن عساکر
١٠۔ فتح القدیر ، ج ٣ ، ص ٥٧ : شوکانی
١١۔ مفاتیحُ الغیب ، ج ١٢ : فخر رازی
١٢۔ تفسیر المنار ، ج ٦ ، ص ٤٦٣ : رشید رضا
١٣۔ حبیبُ السَّیر، ج ٢ ،ص ١٢ : خواند میر
١٤۔ الدرّ المنثور ، ج ٢ ص ٢٩٨ : سیوطی
١٥۔ شواھدالتنزیل ، ج ١، ص ١٨٧ / ١٩٢ : حسکانی
١٦۔ فرائد ا لسّمطین : حموینی
١٧۔ فصول المہمّة ، ص ، ٢٣ /٧٤ : ابن صبّاغ
١٨۔ مطالب السؤول : ابن طلحہ
١٩۔ ینا بیع المودّة : ص ،١٢٠ قندوزی
٢٠ ۔ روح المعانی : ج ٢ ص، ٣٤٨ آلوسی
٢١۔ عمدة القاری ، ج ٨ ، ص٥٨٤: عینی
٢٢۔ غرایب القرآن ، ج ٦، ص ١٧٠ : نیشا بوری
٢٣ ۔: مودّة القربی : ھمدانی
یہ اتنا بڑااور اہم کام کیا تھا؟حضرت علی ـ کی دوستی کا پیغام تو کوئی اتنا بڑا کام نہیں تھا !اور یہ کام کسی خاص خطرہ کا حامل بھی نہیں تھا کہ رسول خدا ۖ کو اتنا پریشان کرتا یہاں تک کہ ٣ بار حضرت جبرئیل ـ نازل ہوں اور آپ ۖ اس کام کو انجام دینے سے عذر خواہی کریں ،اس بات کا اظہا ر خود آپ ۖ نے اس دن کے خطبہ میں کیا !
وَسََلْتُ جِبْرَئِیْل ـَنْ یَسْتَعْفِیَ لِیَ السَّلٰامَ عَنْ تَبْلِیْغِ ذٰلِکَ ِلَیْکُمْ؛ َیُّہَاالنّٰاسُ؛ لِعِلْمِیْ بِقِلَّة ِ الْمُتَّقِیْنَ وَکَثْرَةِالْمُنٰافِقِیْنَ ، وَِدْغٰال َالا ثْمِیْنَ وَحِیَل ِالْمُسْتَہْزِئِیْن ِ بِالاِسْلٰامِ َلَّذِیْن َوَصَفَھُم ُاﷲ فِیْ کِتٰابِہ:
(بَِنَّہُمْ یَقُوْ لُوْنَ بَِلْسِنَتِہِمْ مٰالَیْسَ فِیْ قُلُوْبِہِمْ وَیَحْسَبُوْنَہ ھَیِّنا ً وَ ھُوَ عِنْدَاﷲ ِعَظِیْم)(١)
وَکَثْرَ ةِ َ ذٰا ھُمْ لِیْ غَیْرَ مَرَّة ِ، حَتّیٰ سَمُّوْنِی ُذُناً، وَزَعَمُوْاَنِّیْ کَذٰلِک لِکَثْرَةِ مُلٰازِمَتِہ ا ِیّٰایَ، وَِقْبٰالِیْ عَلَیْہِ، وَھَوٰاہُ وَقَبُوْلِہ حَتّیٰ َنْزَلَ اﷲ ُ عَزَّ وجَلَ َّفِیْ ذٰلِکَ قُرْآناً
( وَمِنْھُمُ الَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ النَّبِیَّ وَیََقُوْلُوْنَ ھُوَُذُ ن قُلْ ُذُنخَیْرٍلَکُم )(٢)
وَلَوْ شِئْتُ َنْ ُسَمِّیَ القٰائِلیْنَ بِذٰلِکَ بَِسْمٰئِھِمْ لَسَمَّیْتُ، وَِنْ َوْمَیئَ ِلَیْھِمْ بَِعْیٰانِھِم ْ لاَوْمْتُ،وََنْ َدُلَّ عَلَیْھِمْ لَدَلَلْتُ،وَلٰکِنِّیْ وَاﷲ ِ فِیْ ُمُوْرھِمْ قَدْ تَکَرَّمْتُ۔
میں نے جبرَئیل ـ سے درخواست کی کہ مجھے علی ـ کی ولایت کے اعلان سے معاف رکھے کیوںکہ اے لوگو !میں اس بات سے بخوبی واقف ہوں کہ ،پرہیزگار بہت کم اور منافقوں کی تعداد
..............
(١) نور،٢٤/١٥
(٢) توبہ / ٦١
بہت زیادہ ہے ، مکّار گنہگار اور اسلام کا مذاق اڑانے وا لے موجود ہیں وہ لوگ کہ جن کے بارے میںخدا وندِعالم نے اپنی کتاب میں فرمایا: (وہ لوگ اپنی زبانوں سے ایسی باتیں کہتے ہیں کہ جن پر دل میں یقین نہیں رکھتے اور انکا خیال یہ ہے کہ یہ آسان اور بہت سادہ سی بات ہے جبکہ منافقت خدا کے نزدیک سب سے بڑاگناہ ہے )
ان منافقوں نے بارہا مجھے تکلیف پہنچائی یہاں تک کہ مجھ پر تہمتیں لگائیں اور کہا کہ ( پیغمبر ۖ معاذاﷲ دوسروں کے کہنے پر عمل کرتے ہیں اور اس میں انکا اپنا کوئی ا رادہ شامل نہیں ہوتا) کیونکہ! میں ہمیشہ علی ـ کے ساتھ تھا اور وہ زیادہ تر میری توجّہ کے مرکز تھے لہٰذا منا فقین حسد کی وجہ سے اس بات کو تحمّل نہ کر سکے یہاں تک کہ خداو ندِ بزرگ و بر تر نے ایک آیت نازل کی جسکے ذریعہ اُنکی ان بیہودہ باتوںکامُنہ توڑ جواب دیا فرمایاکہ:( بعض منافقین ، پیغمبر ۖ کو تکلیف پہنچاتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ سرا پاگوش ہیں، اے رسول کہدو کہ پیغمبر اچھی باتیںسننے والا ہے یہی تمہارے لئے بہتر ی ہے) اگر ابھی چاہوں تو منافقوں کونام اور پتے کے ساتھ پہچنوا دوں، یا انکی طرف ا نگلی کا اشارہ کر دوںیا لوگوں کو انکو پہچاننے کے لئے راہنمائی کردوںتوجو چاہوں کر سکتا ہوںلیکن خداکی قسم میں ان کیلئے کریم ہوں اور بزرگواری سے کا م لیتا ہوں(١)
اگر اُس دن پیغمبر ۖ حضرت علی ـ کی دوستی کا پیغام نہ پہنچاتے تو آپ ۖ کی رسالت پر کیا حرف آتا ؟یہ کام ایسا کونسا کام ہے کہ اگر پیغمبر گرامی ۖ انجام نہ دیں تو انکی رسالت نا مکمّل رہ جائے گی؟ اور پھر فرشتۂ وحی آ نحضرت ۖ کی تسلّی کے لئے پیغام الٰہی لے کر آئے کہ ( وَاﷲ ُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ )(٢)
..............
١۔ یہ آنحضرت ۖ کے حجّةُ الوداع کے موقع پر معروف خطبہ کا کچھ حصّہ ہے مکمّل خطبہ اس کتاب کے آ خر میں اسناد و مدارک کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے رجوع فرمائیں:
(٢)مائدہ ٥/٦٧
( خدا آپ ۖ کو انسانوں کے شر سے محفوظ رکھے گا )
وہ رسول جن پر آغاز بعثت سے لے کر حجّةُ الوداع تک کبھی بھی خوف غالب نہیں آیا ،ہمیشہ میدان جنگ میں موجود رہے (١) کارِ رسالت کے مشکل اور کٹھن راستے میں آپ ۖ کے قدم کبھی متزلزل نہیں ہوئے اب آ پ ۖ کو کیا بات پریشان کئے ہوئے ہے ؟
آپ ۖ کو کونسا کام انجام دینا ہے کہ جسکے انجام دینے میں آپ ۖ دشمن کے مخالفانہ پروپیگنڈے، منکروں کے انکار ،کافروں کے کفر اور منافقوں کے نفاق سے خوفزدہ ہیںاور تین بارجبرَئیل ـ سے اس کام کو انجام نہ دینے کی درخواست کرتے ہیں ؟
پیغمبر ۖ تو کبھی خوف میں مبتلا نہیں ہوتے تھے ،اور وحیِّ الہی کے پہنچانے میں ایک لحظہ پس و پیش سے کام نہیں لیتے تھے،حقیقت میں پیغمبر ۖ ُمّت کے بکھر جانے سے خوفزد ہ تھے،رسولِ اکرم ۖ کوداخلی اختلاف اور جھگڑوں کا ڈر تھاکہ کہیں لوگ آپ ۖ کے مقابلہ میںکھڑے نہ
..............
١ ۔آنحضرت ۖ کی شجاعت اور خط شکنی کے سلسلے میں امیرُالمؤمنین ـ نے فرمایا:
( کُنَّا ِذَا أحْمَرَّالْبَْس ُأتَّقَیْنَا بِرَسُوْلِ اﷲِ ۖ،فَلَمْ یَکُنْ َحَد مِنَّاَقْرَبَ ِلَیٰ الْعَدُوِّمِنْہُ )
(جب بھی شعلۂ جنگ بھڑکتا ہم رسولِخدا ۖ کی پناہ میں چلے جاتے تھے کیوںکہ ایسے نازک وقت میں ہم لوگوںمیں سب سے زیادہ رسولِخدا ۖ دشمن کے نزدیک ہوتے تھے ۔ )
١۔ کشف الغمة : مرحوم اربلی( متوفیٰ ٦٨٩ ھ)…
…٢۔غریب الحدیث ، ج٢ ص١٨٥ : ابن سلام ( متوفیٰ ٢٢٣ھ )
٣۔کتاب النہایة ، ج١ ص ٨٩ ، ٤٣٩ : ابن اثیر ( متوفیٰ ٦٣٠ھ )
٤۔تاریخ طبری ، ج٢ ص١٣٥ : طبری ( متوفیٰ ٣١٠ھ )
٥۔بحار الانوار ، ج٥ ص ٢٢٠ : مرحوم مجلسی ( متوفی١١١٠ھ )
٦۔بحار الانوار ، ج١٦ص ١١٧، ٢٣٢، ٣٤٠ : مرحوم مجلسی ( متوفی١١١٠ھ )
ہوجائیں اور آپ ۖ کی کہیں موجودگی میں امّت کے درمیان خونریزی شرو ع نہ ہو جائے، احترام جاتا رہے،جو کچھ جہاد کی قربانیوںاور شہادتوں سے حاصل ہوا تھا بھلا دیا جائے آیا یہ سب کچھ حضرت علی ـ سے دوستی کے اعلان کی وجہ سے تھا ؟ پیغمبر اکرم ۖنے ماضی میں آغاز بعثت سے لے کر غدیر کے موقع تک بارہا و بارہا فرمایا تھا کہ میں علی ـ کو دوست رکھتا ہوں ۔
یہ تو کوئی اتنا اہم مسئلہ نہیں تھا کہ امّت مسلمہ کی صفوں میں تزلزل اور دراڑ کا باعث ہو دوستی کا اعلان کوئی خاص اہمیت کا حامل مسئلہ نہ تھا کہ صاحب عزّت و جلال خدا اپنے پیغمبر اکرم ۖ کو اطمینان دلائے اور کہے کہ ( وَ اﷲ ُ یَعصِمُکَ مِنَ النَّاسِ)
اور تم ڈر و نہیں خداوند عالم آپ کو لوگوںکے شر سے محفو ظ رکھے گا اگر ہدف صرف یہ تھا کہ ''دوستی کا ابلاغ '' ہو جائے تو پیغمبر اسلام ۖ نے حضرت علی ـکا ہاتھ بلند کرکے انکی بیعت کیوں کی ؟ اور تمام مسلمانوں کو بیعت کا حکم کیوں دیا کہ حضرت علی ـ کی بیعت کریں !! اور حاضرین میں سے مرد آدھی رات تک اور خواتین اگلے دن کی صبح تک حکم بیعت کی بجاآوری میں مشغول رہیں ۔ حضرت علی ـ کی د وستی یا اسکا ابلاغ تو اس بات کا متقاضی نہیں ہے کہ بیعت طلب کی جائے اور لوگ بھی امتثال حکم کرتے ہوئے مشغول ہوجائیں ۔
پیغمبر اسلام ۖ مختلف اسلامی ممالک سے آئے ہوئے ایک لاکھ بیس ہزار حجاج کو ایک دن اور رات کے لئے غدیر خم کے میدان میں روکے رہیں صرف یہ کہنے کے لئے کہ ( اے لوگو ! میں علی ـ کو دوست رکھتا ہوں ) آیا یہ دعویٰ قابل ِ قبول ہے ؟
٤۔ تکمیلِ دین کا راز :
یہاں ایک سوا ل اور پیدا ہوتا ہے کہ آیا حضرت علی ـکی دوستی کے اعلان کے ساتھ دین کامل ہو جائے گا؟اگر پیغمبر گرامی ِ اسلام ۖ روزِغدیر اپنے ساتھ علی ـ کی دوستی کا اعلان نہ کرتے تو کیا دین ناقص تھا ؟ اور چونکہ اُس دن آپ ۖ نے لوگوں سے کہا کہ ( میں علی ـ کو دوست رکھتا ہوں ) تو دین ِ خدا کامل ہو گیا ؟ اور خدا کی نعمتیں لوگوں پر تمام ہو گئیں ؟ اور جیسا کہ بہت سارے شیعہ اور سُنّی علماء (١) نے اس بات کااعتراف کیا ہے
غدیر کے دن آپ ۖ کے اعلان ِ ولایت اور لوگوں کے بیعت کر لینے کے بعد ختمی مرتبت ۖ پر یہ آیۂ مبارکہ نازل ہوئی !
( ا لْیَوْ مَ یَئِسَ ا لَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ دِ یْنِکُمْ ، فَلاَ تَخْشَوْ ھُم وَاخْشَوْنِ،الْیَوْمَ أَکْمَلْت لَکُم ْدِیْنَکُمْ وَ أَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتی وَرَضِیْتُ لَکُم ُالِسْلٰامَ دِیْناً )(٢)
(مسلمانوں ) اب تو کفّار تمہارے دین سے( پھر جانے سے ) ما یوس ہو گئے ہیں ، لھذا تم ان سے تو ڈرو ہی نہیں بلکہ صرف مجھ سے ڈرو آج ( غدیر کے دن )میں نے تمہارے دین کو مکمّل کر دیا اور تم لوگوںپر اپنی نعمتیں پوری کر دیں ،اور تمارے اس دین اسلام کو پسندکیا غدیر کے دن ایسا کونسا کام انجام پایا کہ فرشتۂ وحی مذ کورہ آیت کوبشارت و خوشخبری کے سا تھ لیکر نازل ہوا ؟
وہ عظیم واقعہ کیا تھا کہ جس کی وجہ سے
الف۔ کافر دین کی نابودی سے مایوس ہو گئے ۔
..............
١۔تمام مؤرّخوں اور بہت سارے اہل ِ سنّت مفسِّروں نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ سورۂ مبارکہ ٔ مائدہ کی آیت شمارہ /٣ (الْیَوْمَ َکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ) غدیر کے دن حضرت علی ـ کی اعلان ِ ولایت اور لوگوں کی بیعت ِعمومی کے بعدآنحضرت ۖپر نازل ہوئی ۔مورخوں اور مفسّروں کے نام مندرجہ ذیل ہیں !
١۔تاریخ دمشق ، ج٢ ص ٧٥ و ٥٧٧ : ابن عساکر شافعی ( متوفّیٰ ٥٧١ ھ )
٢۔ شواہدُ التنزیل ، ج١ ص ١٥٧ : حسکانی حنفی ( متوفّیٰ ٥٠٤ ھ )
٣۔ مناقب ،ص١٩ : ابن مغازلی شافعی
٤۔ تاریخ بغداد ، ج٨، ص ٢٩٠ :خطیب ِ بغدادی ( متوفّیٰ ٤٨٤ ھ )
٥۔ تفسیرِدرّالمنثور ،ج٢، ص ٢٥٩ : سیوطی شافعی ( متوفّیٰ ٩١١ ھ )
٦۔ الِتقان ، ج ١، ص ٣١ و٥٢ : سیوطی شافعی ( متوفّیٰ ٩١١ ھ )
٧۔ مناقب ،ص٨٠ : خوارزمی حنفی ( متوفّیٰ ٩٩٣ ھ )
٨۔تذکرةُ الخواص ، ص ٣٠ و ١٨: ابن جوزی حنفی ( متوفّیٰ ٦٥٤ ھ )
٩۔ تفسیر ِ ابن کثیر ، ج٢ ،ص ١٤ : ابن کثیر ِ شافعی ( متوفّیٰ ٧٧٤ ھ )
١٠۔ مقتلُ الحُسین،ج١ ، ص٤٧ : خوارزمی حنفی ( متوفّیٰ ٩٩٣ ھ )
١١۔ینابیعُ المودة، ص١١٥ : قندوزی حنفی
١٢۔ فرائدُ السّمطین ،ج ١ ،ص، ٧٢ و ٧٤ و٣١٥: حموینی ( متوفّیٰ ٧٢٢ ھ )
١٣۔ تاریخ یعقوبی ،ج ٢، ص ٣٥ : یعقوبی ( متوفّیٰ ٢٩٢ ھ )
١٤۔ الغدیر ، ج ١، ص ٢٣٠ : علّامہ امینی
١٥۔ کتاب الولایة : ابن جریر طبری ( متوفّیٰ ٣١٠ ھ )
١٦۔ تاریخ ابن کثیر،ج٥، ص ٢١٠ : ابن کثیر ِ شافعی ( متوفّیٰ ٧٧٤ ھ )
١٧۔ مناقب ،ص ١٠٦: عبداﷲ ِ شافعی
١٨ ۔ ارجح المطالب ،ص ٥٦٨ : عبداﷲ ِ حنفی
١٩۔ تفسیر ِ روحُ المعانی ، ج٦ ص٥٥: آلوسی
٢٠ ۔ البدایة والنہایة ،ج٥، ص٢١٣وج٧ ص ٣٤٩ :ابن کثیر ِ شافعی ( متوفّیٰ ٧٧٤ ھ )
٢١۔ الکشف و البیان :ثعلبی ( متوفّیٰ ٢٩١ ھ ) ٢٢۔بحارُ الانوار ،ج٣٧ باب ٥٢ : علّامہ مجلسی
اور بہت ساری تفاسیر اہل سنّت ، اور تمام شیعہ علماء کی تفاسیر جن کے ذکر کے لئے ایک الگ کتاب کی ضرورت ہے ۔
(٢) مائدہ ٥/ ٣
ب ۔ جس کے بعد کافروں کی سازشوں سے نہ ڈرا جائے ۔
ج ۔ دین اسلام کامل ہوگیا۔
د۔ اﷲ کی نعمتیں پوری ہو گئیں ۔
ھ ۔ اسلام کے پائندہ رہنے کی ضمانت دی گئی ۔
کیا یہ سب کچھ صرف دوستی کا پیغام پہنچانے کے لئے تھا ؟
آیا اس قسم کے دعوے تمام دنیا کے مسلمانوں کے لئے قابلِ قبول ہیں ؟
ہم غدیر کے پر نور خورشید کے مقابلے میں جہل کی تاریکی اور کینہ پروری کی پناہ کیوں لیں؟
بلکہ غدیر کاواقعہ تو کوئی بہت بڑا واقعہ ہونا چاہیے کہ جس نے آیاتِ الٰہی کے( بہت سی بشارتوں اور پیغاموں کے ساتھ) نزول کی راہ ہموار کی۔
اُس واقعہ کو تو بہت اہم واقعہ ہونا چا ہیے کہ جسکا نتیجہ ''اکمالِ دین '' اور '' اتمامِ نعمت ہو۔
ایسا واقعہ کہ جس نے راہ رسالت کو رنگ جاویدانی بخشا اور آپ ۖ کی آغاز ِ بعثت سے لے کر ہجرت اور اسکے بعد کی زحمتوں کا پھل دیا۔
آیا یہ عظیم واقعہ '' عام مسلمانوں کا حضرت علی ـ کی بیعت کرنے'' کے علاوہ کچھ اور ہے؟ آیا یہ عظیم واقعہ '' حضرت علی ـ اور انکے گیارہ بیٹوں کی ''قیامت تک کے لئے بیعت عمومی کے علاوہ کچھ اور ہے ؟
کیایہ عظیم واقعہ پیغمبر ۖکے بعدسے قیامت تک کے لئے مسلمانوں کے رہبراور پیشوا معیّن ہونے کے علاوہ کچھ اور ہے؟
یہ اہل سنّت مصنّفین، تاریخ کا مطالعہ کیوں نہیں کرتے کہ روزِ غدیر کے بعد کس قسم کے تلخ حوادث رونما ہوئے ؟
٥۔ آپ ۖ کے قتل کی نا کام سازش :
اگر پیغمبر ۖ کا ہدف غدیر کے دن صرف حضرت علی ـ کی دوستی کا پیغام پہنچانا تھا تو ایک گروہ نے آپ ۖ کے قتل کا ارادہ کیوں کیا ؟ اور مدینے کے راستے میں اپنے اس باغیانہ ارادے کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کیوں کی لیکن خدا وند عالم نے آپ ۖ کی حفاظت کی ؟ دوستی کا پیغام تو آپ ۖ کے قتل کا سبب نہیں ہو سکتا ؟
امیرُ المؤمنین ـ کی ولایت کے مخالفوں نے سوچا کہ اب اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ آپۖ کو قتل کر دیا جائے ، اور اس قتل کوطبیعی موت ظاہر کرنے کے لئے ان لوگوںنے آپس میںسازش یہ کی کہ جب آپ ۖ کی سواری '' عقبہ'' (جو کہ پہاڑی علاقہ ہے اور وہاں بہت گہری گہری کھائیّاں ہیں) کے قریب پہنچے تو پتھر اور لکڑیاں وغیرہ ان کھائیّوں میں پھینکی جائیں جن سے مختلف قسم کی خوفناک آوازیں پیدا ہو ںگی جن آوازوں سے ڈر کر آپ ۖ کی سواری کسی گہری کھائی میں جا گرے گی۔ اور ہم تاریکی شب سے فائدہ اٹھاتے ہوئے وہاں سے فرار ہو جائیںگے پھر کل سب لوگوں میں یہ بات مشہور کر دیں گے کہ آپ ۖ کی وفات کا سبب طبیعی حادثہ ہے ۔
پھر یہ سارے مخالفین تیزی سے اس مقام پر جمع ہوکر گھات لگا کر بیٹھ گئے اور آپ ۖ کی سواری کا انتظار کرنے لگے ،لیکن خدا وند ِعالم نے فرشتہ ٔ وحی کو نازل کرکے اپنے حبیب ۖ کو دشمن کی اس سازش سے آگاہ فرما دیا،جب آپ ۖ کی سواری اس مقام کے نزدیک پہنچی تو آپ ۖ نے حذیفہ ٔ یمانی اور عمّار یاسر سے کہا کہ اُن میں سے ایک اونٹ کی مھار تھامے اور ایک سواری کو ہنکائے، گھات لگائے ہوئے منافقوں نے جو کچھ بھی ہاتھ میں آیا کھائی کی طرف پھینکنا شروع کر دیا اور مختلف قسم کی خوفناک آوازوں سے اُونٹ کو ڈرانے کی کوشش کی ، لیکن خدا کی مدد آپ ۖ کے شامل حال رہی اور اُونٹ پر کوئی اثر نہ ہوا ۔
اور اس طرح دشمن کی سازش ناکام ہوئی ، مگر یہ منافقین اس سنہرے موقع کو ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہتے تھے اور جب اس سازش کو ناکام ہوتے دیکھا تو تلواریںلے کر پیغمبر گرامیِ اسلام ۖپر حملہ آور ہو گئے لیکن ان کے سامنے حذیفہ ٔ یمانی اور عمار ِ یاسر جیسے عاشقانِ ولایت تھے جن کے بے نظیر اور شجاعت سے بھرپور دفاع کے سبب اس سازش میں بھی ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ، اب اگر یہ منافقین تھوڑی سی دیر کرتے تو قافلے میں شامل عاشقان ِ ولایت سر پر پہنچ جاتے اور منافقوں کا کام تمام کر دیتے ۔
لہٰذا اب منافقین کے پاس فرار کے علاوہ کو ئی چارہ نہیں تھا ، حذیفہ ٔ یمانی نے پوچھا یا رسول اﷲ ۖ یہ کون لوگ تھے ؟ آپ ۖ نے فرمایا خود ہی دیکھ لو، اُس وقت بجلی چمکی اور منافقوں کے چہرے تاریکی کے پردے سے بے نقاب ہوئے اور حذیفہ نے اُن افراد کو آسانی سے پہچان لیا ! جن کی تعداد پندرہ (١٥) ہے اور ان کے نام در ج ذیل کتب میں درج ہیں۔(١)
٦۔ نفرین آمیز طو مار کا انکشاف :
روزِ غدیر پیغمبر ۖ کا ہدف صرف حضرت علی ـ کی دوستی کا اعلان اور لوگوں سے حضرت علی ـ کی بعنوان امام اور رہبربیعت لینا نہیں تھا تو ایک گروہ نے اس دن کے بعد اُمّت ِ اسلامی کی امامت اور رہبری کے متعلّق مخفیانہ تحریر کیوں لکھی کہ جسکے ذریعہ رسولِ خدا ۖ کے بعد قدرت و حکومت اپنے ہاتھ میں لے لیں ؟
جب یہ گروہ آنحضرت ۖ کو قتل کرنے اور مسلمانوں کے درمیان تفرقہ ڈالنے میں کامیاب نہ ہوسکا تو انہوں نے احتیاط کا دامن تھاما اور تا حیات ِ رسول خدا ۖ اس قسم کی حرکتوں
..............
(١) کشف الیقین ، ص ١٣٧ : علّامہ حلّی ٢۔ ارشادالقلوب ، ص ١١٢ و ١٣٥ : دیلمی ٣۔ بحارالانوار ، ج٢٨ ص ٨٦ و ٤ ١١ : علّامہ مجلِسی
سے اجتناب کرنے کا فیصلہ کیا، لیکن ایک دوسرے گر وہ نے ولایتِ علی ـ کی کھلّم کھلّا مخالفت کی ا ور اس طرح ایک تحریر لکھی جس پر بہت سارے لوگوں کے دستخط لئے تاکہ یہ ظاہر کر سکیں کہ ہمار ی مخالفت بہت منظّم اور مستحکم ہے ۔
اس مقصد کے لئے ابو بکر کے گھر پر جمع ہوئے باہم گفتگو کے بعد اس نتیجے پر پہنچے کہ ایک عہد نامہ لکھا جائے ،چنانچہ سعید بن عاص نے ایک عہد نامہ لکھا ، اس عہد نامے پر جن لوگوں نے دستخط کئے ان کے ناموں سے قریش اور امیرُالمؤ منین ـ کے مخالفوں کے سینوں میں کینے اور بغض کی شدت ثابت ہو جاتی ہے ،ان ناموں میں سرِ فہرست ابو سفیان ، فرزندِ ابی جہل اورصفوان بن ُمیّہ جیسے نام دیکھنے میں آتے ہیں، یعنی مشرکوں اور کافروں کے سردار منافقوں ( نام نہاد مسلمانوں ) کے ہاتھوں میںہاتھ دئے ہوئے ہیں تاکہ خورشیدِ ولایت کا انکار کیا جاسکے ۔
عہد نامہ
بِسْمِ اﷲ ِالرَّحْمٰن ِالرَّحِیمِ
یہ وہ عہد نامہ ہے کہ جس پر اصحابِ رسول میں سے انصار و مہاجر ین پر مشتمل ایک گروہ نے اتفاق کیا ہے، یہ وہ لوگ ہیں کہ جن کی تعریف خدا وندِ عالم نے اپنی آسمانی کتاب میں رسول کے ذریعہ اور بزبانِ رسالت کی ہے،اس گروہ نے ولایت وامامت کے مسئلے میں مختلف آراء اور مشوروں کی روشنی میں اجتہاد اور کوشش کرنے کے بعد اسلام اور مسلمانوں کی بھلائی کے لئے جو کچھ دین اور لوگوں کے لئے مناسب تھا اس عہد نامے میں تحریر کر دیا ہے تاکہ آئندہ آنے والی نسلیں بھی اس سے فائدہ اُٹھا سکیں اور اسکے دستورالعمل کی پیروی کرتے ہوئے دنیا اور آخرت کی سعادت حاصل کر سکیں ۔
امّا بعد! خداوند ِ منّان نے اپنے کرم اور مہربانی کے ساتھ حضرت محمّد ۖ کو لوگوں کی طرف بھیجا تاکہ اسکے پسندیدہ دین کو لوگوں تک پہنچائیں ، اور رسول ِ اکرم نے اپنے اس تبلیغی وظیفے کو انجام دینے میں کسی قسم کی کوتاہی نہیں کی ،جن جن امورکی تبلیغ پر مامور کئے گئے تھے ان کو بخیر وخوبی لوگوں تک پہنچایا،یہاں تک کہ دین کامل ہو گیا اور اسلامی معاشرے میں واجبات و سنن ِلٰہی رائج ہوگئے ۔
اس کے بعد خدا وند ِ عالم نے اپنے رسول ۖ کو اپنی طرف بُلا لیااور آنحضرت ۖ مکمّل عزّت و احترام کے ساتھ دعوت حق کو لبّیک کہا اور اپنی جا نشینی کے لئے کسی شخص کی نشان دہی کئے بغیر اس دار ِفانی سے دار بقا ء کی طرف کوچ کر گئے ، بلکہ خلیفہ وجانشین چننے کا اختیار لوگوں کو سونپ گئے تاکہ جس کو بھی مورد وثوق واطمنان پائیں اسے جانشین رسول اور ولایت امرالمسلمین کے لئے منتخب کر لیں اور رسول خدا ۖ کی اطاعت مسلمانوں کے لئے باعث افنخار ہے جیسا کہ قرآن کریم میں ارشاد فرمایا:
( جو بھی روز ِ قیامت اپنے پروردگار سے ملاقات کرنا چاہتا ہے اسے چاہیے کہ رسول کی اطاعت کرے ) حقیقت میں رسول اکرم ۖ نے اس لئے اپنا جانشین مقرّر نہیں کیا کہ خلافت ِ رسول ایک ہی خاندان میںمنحصر نہ رہے بلکہ دوسرے خاندان بھی خلافت سے کچھ فائدہ حاصل کر سکیںمیراث کی طرح ایک شخص سے دوسرے شخص کی طرف منتقل نہ ہوتی رہے،اور اس لیے کہ دلتمندوں کے ہاتھوں کا کھلونا نہ بن جائے اور کوئی خلیفہ بھی قیامت تک کے لئے اپنی نسل میں خلافت کا دعوے دار نہ ہو۔
ہر عہد اور زمانے میں تمام مسلمانوں پر واجب ہے کہ ایک خلیفہ کے مرنے کے بعد صاحبان ِ حلّ و عقدمل کر بیٹھیں اور باہمی صلاح و مشورے سے جس کو بھی صالح اور خلافت کے لائق سمجھیں مسلمانوں کے تمام امور کی لگام اسکے سپرد کردیں اور اسکو ولی ِامرِ مسلمین اور ان کے اموال و نفوس کا مختار قرار دیں،کیو نکہ اصحابِ حل ّ و عقد ایسے امور کی پوری صلاحیّت رکھتے ہیں اس لئے یہ کبھی بھی خلافت کے لئے انتخاب سے قاصر نہیں ہوں گے، لہٰذا اگر کوئی اس بات کا دعوے دار ہو کہ رسول ِخدا ۖ نے ایک خاص شخص کو اپنی جانشینی کے لئے چن لیاتھا اور اسکے نام اور حسب و نسب سے سب کو آگاہ فرمادیا تھا ، اسکی یہ بات بیہودہ اور اصحابِ رسول کی رای کے خلاف ہے ، اور ا س نے مسلمانوں کی جماعت میں اختلاف ڈالاہے اوراگر کوئی دعو ی کرے کہ رسول خدا ۖ کی خلافت اور جانشینی وراثت ہے اور اسکے بعد دوسرے کو ملے گی تو اسکی یہ بات بے معنیٰ ہے کیونکہ رسول ِخدا ۖ نے فرمایا: ( ہم انبیاء کسی کو ار ث نہیں دیتے اور جو کچھ ہم سے باقی بچے صدقہ ہے ۔ )
اور اگر کوئی اس بات کا دعوے دار ہو کہ خلافت ِ رسو ل خدا ۖ ہر کسی کو زیب نہیں دیتی بلکہ مسلمانوں میں سے ایک معیّن شخص اس مقام کے لائق ہے ، اور خلافت اسکا حق ہے کوئی دوسرا خلافت کا مستحق نہیں ہے کیونکہ خلافت نبوّت کے بعد بالکل ویسا ہی ایک سلسلہ ہے، یہ بات قابل ِ قبول نہیں ہے اور اسکا کہنے والا جھوٹا ہے ،اس لئے کہ خود رسول اﷲ ۖ نے فرمایا! ( میرے صحابہ آسمان کے ستاروں کے مانند ہیں جس کی بھی پیروی کروگے ہدایت پا جاؤ گے۔)
اور اگر کوئی کہے کہ وہ خلافت کا مستحق ہے وہ بھی اس لئے کہ حسب و نسب کے لحاظ سے پیغمبر ۖ کے قریب ہے اور یہی معیار رہتی دنیا تک خلافت کا ملاک ا ور معیار ہے، اسکا یہ کلام بے جا ہے کیونکہ ملاک اور معیار تقویٰ ہے ،نہ رسول ۖ سے رشتہ داری،
جیسا کہ خدا وند ِ عالم نے فرمایا :( ِنَّ َکْرَمَکُمْ عِنْدَاﷲ ِ َتْقٰاکُمْ)
تم میں سے خدا کے نزدیک صاحب عزت وہ ہے جس کا تقوی ز یادہ ہواور ایسے ہی رسول ِ اکرم ۖ نے ارشاد فرمایا:( سارے مسلمان ایک ہیں اور مخالفوں کے سامنے ایک صف میں ہیں ۔
لہٰذا جو بھی کتاب خدا پر ایمان لائے اور سُنّت ِ رسول کو قبول کرتے ہوئے اس پر عمل کرے وہ حق کے راستے پر ہے اور اسکے نیک اور صالح ہونے میں کوئی شک نہیں اور جو بھی قرآن و سُنّت کے بر خلاف عمل کرے اور مسلمانوں کی جماعت سے الگ ہو جائے اسے قتل کر دو کیونکہ اسکے قتل میں ہی اُمّت کی صلاح پوشیدہ ہے۔ کیونکہ پیغمبر اکرم ۖنے بھی یہی فرمایا:
( جو بھی میری اُمّت میں تفرقہ ڈالے ، انکو ایک دوسرے سے جدا کرے اورانکی صفوں میں شگاف ڈالے تو اس کو قتل کر دو، چاہے وہ کوئی بھی ہو ؛ کیونکہ اجتماع اُمّت رحمت ہے اور اُمّت کی جدائی عذاب ہے اور میری اُمّت ضلالت اور گمراہی پر متّفق نہیں ہوسکتی ،اور یہ سب دشمن کے مقابلے میں بہت زیادہ متّحد اور یکدست ہیں معاندین کے گروہ کے علاو ہ کوئی بھی مسلمانوں کی جماعت سے جدا نہیں ہوگا جو جدا ہو اس کا خون مباح ہے۔
تاریخ:محرّمُ الحرام ١٠ ھ(١)
اس دستاویز کو سعید بن عاص نے لکھا اور تیرہ لوگوں (کہ جنہوں نے اس دستاویز پر دستخط کئے )کو اس کا گواہ بنایا جن کے اسماء ذیل کتب میں موجود ہیں(٢)
غدیر کے روز ایسا کونسا اہم کام انجام دیا کہ جس کی وجہ سے ہمیشہ موقع کی تلاش میں رہنے والے نا اُمّید ہو گئے ،اُنکے تمام منصوبے خاک میں مل گئے اور تمام سازشوں پر پانی پھر گیا، مزید صبر نہ کر سکے اور جتنی مخالفت کر سکتے تھے کی اور کھل کر سامنے آگئے ، یہاں تک کہ ان میں سے ایک نے عذاب طلب کیا۔
..............
(١)١۔بحارُ الانوار ، ج٢٨ ص ١٠٥۔١٠٣
(٢)ارشاد القلوب دیلمی ،ص ١٣٥۔ ١١٢،کشف الیقین،ص١٣٧، مسند احمد ،ج ١ ۔ ص ١٠٩
٧۔بعض حاضرین کی علی الاعلان مخالفت :
ایک شخص جسکا نام ''حارث بن نعمان فہری''تھا اور امام علی ـ کے خلاف دل میں بغض لئے تھا اپنے اونٹ پر سوار ہو کر رسول ِ خدا ۖ کے خیمے کے سامنے آیا اور کہا !
(اے محمّد ۖ ! تم نے ہمیں ایک خدا کی تعلیم دی ہم نے تسلیم کیا ، اپنی نبوت کا دعویٰ کیا ہم نے لاالٰہَ الّا اﷲ وَ محمّد رسول ُ اﷲ کہا ، ہمیں اسلام کی دعوت دی ہم نے قبول کی اور اسلام لے آئے ، تم نے کہا پانچ وقت نماز پڑھوہم نے پڑھی ،زکوٰة و روزہ و حج و جہاد کا حکم دیا ہم نے اطاعت کی ، اب اپنے چچا زاد بھائی کو ہمارا امیر بنا دیا معلوم نہیںیہ حکم خدا کا ہے یا تمہارے ذاتی ارادے کی پیداوار ہے ۔ )
رسولِ خدا ۖ نے فرمایا ( خدا کی قسم کہ جس کے سوا کوئی خدا نہیں ،یہ حکم اس خدا ہی کی طرف سے ہے میرا کام فقط اس حکم کو تم لوگوں تک پہنچانا تھا) حارث آپ ۖ کا یہ جواب سن کر غضبناک ہو گیا اور آسمان کی طرف سر اٹھا کر کہا !
( خدا یا ! اگر جو کچھ محمّد ۖ نے علی ـ کے بارے میں کہا ہے تیری طرف سے ہے اور تیرے حکم سے ہے تو ایک پتھر آسمان سے مجھ پر گرے اورمیں ہلاک ہو جائو ں )
ابھی حارث بن نعمان کے یہ جملے ختم نہیں ہوئے تھے کہ آسمان کی طرف سے ایک پتھر آیااور اس کو ہلاک کر دیا،تو اس وقت سورۂ معارج کی آیات نمبر ١ و ٢ نازل ہوئی۔(١)
..............
(١)۔ ( سََلَ سَآئِل بِعَذَابٍ وَاقِعٍ لِلْکٰافِرِیْنَ لَیْسَ لَہ دَافِع )
١۔ غریب ُالقرآن : ہروی
٢۔شفاء الصدور : موصلی
٣۔الکشف والبیان:ثعلبی
٤۔رعاة الھداة:حسکانی
٥۔الجامع لاحکام القرآن : قرطبی
٦۔ تذکرة الخواص ،ص١٩ : سبط ابن جوزی
٧۔ الاکتفاء : وصابی شافعی
٨۔ فرائد السّمطین ،باب١٣ : حموینی
٩۔ معارج الاصول : زرندی
١٠۔ نظم درر السمطین : زرندی
١١ ۔ ہدایة ا لسعداء : دولت آبادی
١٢ ۔ الفصول المہمّة ،ص٤٦ : ابن صبّاغ
١٣۔ جواہر العقدین :سمہودی
١٤۔ تفسیر ابن سعود ،ج٨ ص٢٩٢: عمادی
١٥۔السراج المنیر ،ج٤ ص ٣٦٤: شربینی
١٦۔ الاربعین فی فضائلِ امیرالمؤمنین ـ : جمال الدّین شیرازی
١٧۔ فیض ا لقدیر ،ج٦ ص ٢١٨ : مناوی
١٨۔العقدالنّبوی والسّر المصطفوی: عبد روس
١٩۔ وسیلة المآل: با کثیر مکّی
٢٠۔نزہة المجالس، ج٢ ص٢٤٢: صفوری
٢١۔السیرة الحلبیّة، ج٣ ص٣٠٢:حلبی
٢٢۔الصراط السوی فی مناقب النّبی ۖ :قاری
٣ ٢۔ معارج العلی فی مناقب المصفی: صدر عالم
٢٤۔ تفسیر شاہی :محبوب عالم
٢٥ ۔ذخیرة المآل : حفظی شافعی
٢٦۔ الروضة النّذیّة: یمانی
٢٧۔نورالابصار ،ص ٧٨: شبلنجی
٢٨۔ تفسیر المنار ،ج٦ ص ٤٦٤: رشید رضا
٢٩۔ الغدیر ،ج١ ص ٢٣٩: علّامہ امینی (اور سینکڑوں شیعہ اور سُنّی کتب ِتفسیرجنہوں نے اس حقیقت کا اعتراف کیاہے
( ایک سوال کرنے والے نے اس عذاب کا سوال کیا کہ جو کافروں پر آتا ہے اور اسکو کوئی نہیں روک سکتا۔) دوسرے نے وہ شرمناک تحریر لکھی ، اور ایک گروہ تو کھلے دشمن کی طرح برہنہ شمشیر لئے رسولِ اسلام ۖ کے قتل کے درپے ہوگئے ، اگر غدیر کے دن صرف علی ـ کی دوستی کا اعلان ہوا تھا اور کوئی بہت اہم کام انجام نہیں پایا تھا تو پھر سیاسی پارٹیوں کے سربراہ ،موقع کی تلاش میںرہنے والے حکومت اور اقتدار کے بھوکے رسول ِ خدا ۖکے قتل کی سازش میں ناکام ہونے کے بعد مسلمانوں کی منظّم صفوں کو درہم برہم کرنے کی کوششیں کیوں کرتے رہے ؟اور مکّہ سے مدینہ تک راستے بھر اس کوشش میںکیوں لگے رہے کہ پیغمبراکرم ۖ اور آپ ۖکے اصحاب پر کاری ضرب لگائیں؟
''غدیر خم'' میں ایسا کونسا اہم واقعہ رونما ہوا کہ ان سارے گروہوں نے جو سازش ممکن تھی کی اور شیطانی چالیں چلیں؟
٨۔ناکام سازشیں :
تمام مسلمانوں کے حضرت علی ـ کی بیعت کر لینے کے بعد اور مخالفوں کی پریشانی کو دیکھتے ہوئے یہ احتمال ہر آن بڑھتا جارہاتھا کہ سرزمین غدیر خم سے مدینہ تک کے طویل راستے میں کہیں ایسا نہ ہو کہ دشمن اس شیطانی سازش میں کامیاب ہو جائے اور ایسی جارحانہ حرکتوں کا مرتکب ہو جو دنیایٔ اسلام اور امت مسلمہ کے اتحاد کے لئے خوش آیند نہ ہو، لہٰذا اس خطرے کے پیش نظر پیغمبر ۖ نے حکم دیا کہ منادی یہ اعلان کردے:
( رسول خدا کا حکم ہے کہ مدینہ پہنچنے تک راستے میں دو یا تین آدمی اس بات کا حق نہیں رکھتے کہ ایک ساتھ جمع ہوں اور ایک دوسرے کے کانوں میں باتیں کریں ۔)
آپ ۖ کے اس فرمان کی وجہ سے شیطانی منصوبے خاک میں مل گئے ، تمام سازش آمیز اتحادٹوٹ گیا اور مخالفین اپنی ان شیطانی سازشوں اور حرکتوں کو عملی جامہ نہ پہنا سکے ، اس قافلے کے مدینہ کی طرف سفر کے دوران حذیفہ کے غلام( جس کا نام سالم تھا) نے دیکھا کہ ابو بکر ،عمر اور ابو عبیدہ جرّاح ایک جگہ جمع ہیں اور آپس میں گفتگو میں مشغول ہیں ، اس نے کہا کہ اگر مجھے نہیں بتاؤگے تو پیغمبر ۖ کو اطلاع دے دوں گا، انہوں نے وعدہ و وعید کے بعد سالم سے کہا کہ :
(ہم چاہتے ہیں کہ ولایت علی ـکی اطاعت نہ کرنے پر اتّحاد کرلیں تو بھی ہمارے ساتھ شامل ہو جا۔) سالم نے کہا : کیونکہ میں بنی ہاشم اور علی ـ کا دشمن ہوں اس لئے مجھے منظور ہے ۔ لیکن یہ چھوٹا سا جلسہ بھی رسولِ خدا ۖ کی نگاہوں سے پوشیدہ نہ رہ سکا اور راستے میںاُن سے مخاطب ہو کر آپ ۖ نے فرمایا : ( میں نے تم لوگوں کو جمع ہونے اورکانوں میں باتیں کرنے سے منع کیا تھا تم لوگوں نے اطاعت کیوں نہیں کی جان لو کہ خدا وند عالم تمہارے ہر عمل سے واقف ہے اور کوئی شی اس سے مخفی اور پوشیدہ نہیں ہے ۔)
اگر غدیر کے دن کی تاریخی حقیقت کا کما حقّہ مطالعہ اور تحقیق کی جائے تو یہ حقیقت واضح ہو جائے گی کہ روزِ غدیر صرف دوستی کے اعلان کے لئے نہیں تھا،اور لفظ '' مولیٰ '' اور'' ولی ''کے معنیٰ صرف (امامت اور رہبری ) ہی کئے جاسکتے ہیں ، گویا پیغمبر ۖ نے غدیر میں فرمایا : (ہر اسکا کہ جسکا میں رہبر ،امام اور مولیٰ ہوں علی ـ بھی رہبر ،امام اور مولیٰ ہے) اور کیونکہ آپ ۖ نے امت مسلمہ کی رہبری اور امامت کا واضح اور قطعی اعلان کیا اور حضرت علی ـ کے لئے بیعت لے لی تو منافقوں کی ا میدوں ، موقع کی تلا ش میں رہنے والوں کے انتظار اور انکی حد درجہ مخالفانہ کوششوں پر پانی پھر گیا۔
|