كتاب:امامت و رهبری
تألیف : آیۃ اللہ شہید مطہّری(رہ)

پیش لفظ
انسان ایک سماجی اور معاشرتی وجود ہے وہ سماجی زندگی سے الگ رہ کر زندگی بسر نہیں کرسکتا۔ اس کی سماج زندگی کا سب سے چھوٹا دائرہ ایک خانوادہ ہے اور بڑا دائرہ ہزاروں خاندانوں اور قبیلوں پر مشتمل ایک عظیمن سماج ہے۔ یہی انسان کی حقیقی پہچان ہے۔ قرآن کریم اس سلسلہ میں ارشاد فرامتا ہے : یاایھاالناس انا خلقناکم من ذکرو انثیٰ وجعلناکم شعوباً وقبائلا لتعارفوا۔
انسان کی سماجی زندگی اس کی احتیاج اور ضرورتوں کو آشکار کرتی ہے۔ ضرورتوں کی تکمیل باہمی تعاون سے ہی ممکن ہے، لیکن اگر انسان خود غرضی پر اتر آئے اور دوسروں کا خیال نہ کرتے ہوئے صرف اپنے بارے میں سوچے، اپنی احتیاجات کی تکمیل کرے اور اپنی ضرورت سے بڑھ کر اپنے لئے چاہے تو یہی وہ نقطۂ آغاز ہے جہاں سے انسان سماج میں ہر و مرج، بے اعتدال ظلم وستم ، لوٹ مار اور قتل و غارت کی ابتدای ہوتی ہے۔
آخر انسانی معاشرہ میں انسانوں کی ضرورتوں کی تکمیل کیسے ہو، انسان باہمی تعاون پر کیسے آمادہ ہو۔ سماج میں نابرابری، بے اعتدالی، ظلم وستم کو کیسے روکا جائے۔ عدل و انصاف سکون و اطمینان اور خوشحالی کی فضا کیسے قائم کی جائے، اس کے لئے سماج میں ایک قیادت کی ضرورت ہے جو سماج کو ایک نظم دے سکے اور انسانی فلاح کے لئے ایک نظام قائم کرسکے۔ یہ بدیہی سی بات ہے کہ ہر نظام کو قائم کرسکے۔ یہ بدیہی سی بات ہے کہ انسانی سماج میں نظم و ضبط کرنے کے لئے اب تک انسان کے خود ساختہ دسیوں نظام زندگی وجود مٰں آئے، لیکن کہیں نظام کا نقص نظر آیا اور کہیں قائد ورہبر کا۔
اسلام نے قرآن کی شکل میں انسانی سماج کو کامل ترین نظام حیات عطا کیا۔ خالق انسان نے انسان کی فطرت سے پوری آگاہی کے ساتھ بالکل فطری نظام زندگی انسان کے حوالے کیا لیکن اس فطری نظام کو عملی شکل دینے اور معاشرہ میں اس کے ذریعے مکمل اعتدال قائم کرنے کیلئے انسانی فطرت سے مکمل طور پر آشنا اور انسانی غلطیوں، کو تاہیوں، ظلم، ناانصافی اور بے اعتدالی سے بالکل پاک و پاکیزہ یعنی معصوم انسان ضروری ہے جو رہبر و امام کی شکل میں اس الٰہی نظام سے بخوبی آشنا ہو اور اسے یوں چلائے جو اس نظام کا حق ہے۔ کیونکہ کوئی بھی ظالم خواہ چھوٹا ہو یا بڑا انسانی معاشرہ کی حقیقت قیادت و امامت نہ کرسکتا ہے اور بنہ اس کا حقدار ہے : " قال ومن ذریتی قال لا ینال عھدی الظالمین "
جب خدا وند عالم نے حضرت ابراہیم کو امامت کا منصب عطا فرمایا تو آپ نے اپنی ذریت کے لئے بھی اس کا تقاضا کیا۔ ارشاد ہوا کہ انسانی معاشرہ کی فلاح و بہبود کے لئے ضروری ہے کہ میرا عہد یعنی یہ منصبِ امامت کسی ظالم کے ہاتھوں میں نہ جانے پائے۔ یہ تو انسانی سماجی حیثیت سے حقیقی اور واقعی امامت و قیادت کا ایک پہلو ، امامت کی اس سے کہیں بڑی تاصویر یہ ہے کہ امام کو معصوم ہونا چاہئے۔ آیت تطہیر اسی کا اعلان کرتی ہے۔ امام ولی خدا اور زمین پر اس حجّت ہوتا ہے، آیت ولایت اسی کا ثبوت فراہم کرتی ہے۔ امامت انسانوں میں محبت و دوستی اور خدا سے قرب کا ملجا و ماویٰ ہے، آیت مودت اسی کا اظہار کرتی ہے۔ امام روئے زمین پر خلیفۃ اللہ اور حجّت اللہ ہے وہ انسان اور خدا کے درمیان سب سے مضبوط رشتہ اور " جلیل اللہ المتین " ہے۔
" امامت و رہبری " کے موضوع پر مفکر اسلام حجرت آیت اللہ مطہری کی ایک پیش بہا تحریر قارئین کرام کی خدمت میں پیش کی جارہی ہے۔ موضوع کے اعتبار سے اہم، حجم کے لحاظ سے مختصر لیکن جامع، یہ کتاب ہر مکتب فکر کے قاری کے لئے ایک قیمتی ہدیہ ہے۔
" ادارہ "

پہلی بحث:
امامت کے معانی و مراتب
ھماری بحث مسئلہ امامت سے متعلق ہے ۔ سب جانتے ہیں کہ مسئلہ امامت کو ہم شیعوں کے یہاں غیر معمولی اہمیت حاصل ہے ۔ جبکہ دوسرے اسلامی فرقوں میں اسے اتنی اہمیت نہیں دی جاتی ۔ راز یہ ہے کہ شیعوں کے یہاں امامت کا جو مفہوم ہے وہ دوسرے تمام اسلامی فرقوں سے مختلف ہے ۔ اگر چہ بعض مشترک پہوبھی پائے جاتے ہیں ، لیکن شیعی عقاعد میں امامت کا ایک مخصوص پہلو بھی ہے اور یہی پہلو امامت کو غیر معمولی اہمیت کا حامل بنا دیتا ہے ۔ مثال کے طور پر جب ہم شیعہ اصول دین کو شیعی نقطہ نظر کے مطابق بیان کرتے ہیں تو کہتے ہیں کہ اصول دین ، توحید ، عدل، نبوت، امامت اور قیامت کاو مجموعہ ہے ۔ یعنی امامت کو اصول دین کا جز و شمار کرتے ہیں ۔ اہل تسنن بھی ایک طرح جو امامت کے قایل ہیں ۔ بنیادی طور سے امامت کے منکر نہیں ہیں وہ اسے دوسری شکل سے تسلیم کرتے ہیں ۔ لیکن وہ جس نوعیت سے تسلیم کرتے ہیں، اس میں امامت اصول دین کا جز ونہیں ہے بلکہ فروع دین کا جو ہے بہر حال ہم دونوں امامت کے مسئلہ میں اختلاف رکھتے ہیں وہ ایک اعتبار سے امامت کےقائل ہےیں اور ہم دوسرے اعتبار سے امامت کو تسلیم کرتے ہیں آخر یہ کیسے ہوا کہ شیعہ امامت کو اصول دین کا جزو انتے ہیں او اہل سنت اسے فروغ دین کا جزو سمجھتے ہیں ؟ اس کا سبب وہی ہے جو عرض کرچکا ہوں کہ شیعہ اور ایہل سنت کے یہاں امامت کے مفہوم میں فرق ہے ۔

امام کے معنی :
امام کے معنی ہیں پیشوا یا رہبر ۔ لفظ امام، پیشوا یا رہبر بذات خود کوئی مقدس مفہوم نہیں رکھتے پیشوا یارہبر سے مراد ہے،آگے آگے چلنے والا، جس کا اتباع یا پیروی کی جائے ۔ چاہے وہ پیشوا عادی، ہدایت یافتہ اور صحیح راہ پر چلنے والاہو یا باطل اور گمراہ ہو۔ قرآن نے بھی لفظ امام کو دونوں معنی میں استعمال کیا ہے۔ایک جگہ فرماتا ہے :۔
"وجعلنا ھم أئمۃیھدون بامرنا"(انبیاء / ۷۳ )
ہم نے ان کو امام قرار دیا ہے جو ہمارے حکم سے ہدایت و رہبری کرتے ہیں ۔
دوسری جگہ فرماتا ہے :۔
ائمہ یدعون الی النار (قصص /۷۱)
وہ امام جو لوگوں کو جہنم کی طرف بلاتے ہیں ۔
یا مثلاًفرعون کے لئےبھی امام سے ملتے جلتے مفہوم کا لفظ استعمال کیا گیا ہے : یقدم قومہ یوم لاقیامۃ [1]
"وہ قیامت کے دن اپنی قوم کے آگے چلے گا ۔" معلوم ہوا کہ لفظاامام سے مراد پیشوا یا رہبر ہے ۔ ہمیں اس وقت باطل پیشوا یا رہبر سے سروکار نہیں ہے، یہاں صرف پیشوا یا رہبر کا مفہوم عرض کرنا مقصود ہے۔
پیشوائی یا امامت کے چند مقامات ہیں جن میں سے بعض مفاہیم ہیں وہ سرے سے اس طرح کی مامت کے منکر ہیں۔نہ یہ کہ وہ امامت کو توقائل ہوں مگر مصداق میں ہم سے اختلاف رکھتے ہوں ۔ جس امامت کے وہ قائل ہیں لیکن اس کی کیفیت و شکل اور افراد میں ہم سے اختلاف رکھتے ہیں اس سے مراد معاشرہ کی رہبری و سر پرستی ہے۔ چنانچہ یہی یا اس سے ملتی جلتی تعبیر زمانۂ قدیم سے متکلمین کی کتابوں میں بھی ذکر ہوئی ہے ۔ خواجہ نصیر الدین طوسی نے اپنی کتاب "تجرید الاعتقاد" میں امامت کی تعریف ان لفظوں میں کی ہے "ریاسۃ عامۃ "یعنی "عمومی ریاست و حاکمیت" (یہاں ایک بات کی وضاحت ضروری ہے )

رسول اکرم(ص) کی حیثیت
پیغمبر اکرم، دین اسلام کی خصوصیت و جامعیت کی بنا پر قرآن اور خود اپنی سیرت طیبہ کے مطابق اپنے زمانہ میں کئی حیثیتوں اور ذمہ داریوں کے حامل تھے، یعنی ایک ہی وقت میں کئی امور آپ کے ذمہ تھے اور آپ کئی نصبوں پر کام کررہے تھے چنانچہ پہلا منصب جو خداوند عالم کی جانب سے آپ کو عطاہوا تھا اور جس پر آپ عملی طور سے کاربند تھے، پیغمبری و رسالت تھی ۔ یعنی آپ الٰہی احکام و قوانین کو بیان فرماتے تھے ۔ اس سلسلہ میں قرآن کا ارشاد ہے :"ماآتاکم الرسول فخذوہ وما نھیٰکم عنہ فانتھوا [2] "یعنی جو کچھ پیغمبر تمہارے لئےلایاہے اسے اختیار کرلواور جن چیزوں سے تمہیں منع کرتا ھے انھیں چھو ڑدو ۔ یعنی پیغمبر احکام و قوانین سے متعلق جو بھی کہتا ہے خدا کی جانب سے کہتا ہے ۔ اس اعتبار سے پیغمبر صرف ان چیزوں کا بیان کرنے والا ہے جو اس پر وحی کی شکل میں نازل ہوئی ہے ۔ دوسرا منصب جس پر پیغمبر اسلام فائز تھے قضاوت کا منصب تھا یعنی وہ تمام مسلمانوں کے درمیان قاضی کی حیثیت رکھتے تھے ۔ کیونکہ اسلام کی نظر میں منصب قضاوت بھی کوئی یوں ہی سا بے معنی منصب نہیں ہے کہ جہاں کہیں دو آدمی آپس میں اختلاف کریں ایک تیسرا آدمی قاضی بن کر فیصلہ کر دے ۔ قضاوت اسلامی نقطہ ٔنظر سے ایک الٰہی منصب ہے کیونکہ یہاں عدل کا مسئلہ در پیش ہے ، قاضی وہ ہے جو نزع و اختلاف کے درمیان عادلانہ فیصلہ کرے ۔ یہ منصب بھی قرآن کے مطابق خداوند عالم کی جانب سے پیغمبر اکرم کو تفوین ہوا اور آپ خدا کی جانب سے حق رکھتے تھے کہ لوگوں کے اختلاف کا فیصلہ فرمائیں : فلا و ربک لا یؤمنون حتیٰ یحکموک فیما شجر بینہم ثم لا یجدو ا فی انفسہم حرجا مما قضیت ویسلمو تسلیما [3] "
معلوم ہوا یہ بھی ایک الٰہی منصب ہے کوئی معمولی عہدہ نہیں ہے اور پیغمبر عملی طور پر قاضی بھی تھے ۔ تیسرا منصب جس پر پیغمبر قانونی طور سے فائز تھے یعنی قرآن کی رو سے آپ کو عطا کیا گیا تھا اور آپ اس پر عمل پیرابھی تھے ، یہی ریاست عامہ ہے یعنی وہ مسلمان معاشرہ کے حاکم و رہبر تھے ۔ دوسرے لفظوں میں آپ مسلمانوں کے نگرا ں اور اسلامی معاشرہ کے سر پرست تھے ۔ کہتے ہیں کہ : "اطیعو اللہ و اطیعو االرسول و اولی الامر منکم "کا مطلب یہ ہے کہ پیغمبر تمہارے معاشرے کا حاکم و رہبر ہے ۔ وہ تمہیں جو حکم دے اسے تسلیم کر و ۔ لہٰذا یہ تینوں صرف ظاہری اور دکھاوے کے نہیں ہیں بلکہ بنیادی طور پر پیغمبر سے ہم تک جو کچھ پہنچا ہے اس کی تین حیثیتیں ہیں ۔ ایک پیغمبر کا وہ کلام جو فقط وحی الٰہی ہے ۔ یہاں پیغمبر بذات خود کوئی اختیار نہیں رکھتے جو حکم خدا کی طرف سے نازل ہوا ہے ۔ پیغمبر اسے پہنچانے کا صرف ایک ذریعہ ہیں ۔ مثال کے طور پر جہاں وہ دینی قوانین بیان کرتے ہیں کہ نمازیوں پڑھو ، روزہ ایسے رکھو وغیرہ ۔ وہاں رسول کا ارشاد حکم خدا اور وحی ہے ۔ لیکن جب لوگوں کے درمیان قضاوت کرتے ہیں اس وقت ان کے فیصلے وحی نہیں ہوتے ۔ یعنی دو آدمی آپس میں جھگڑتے ہیں، پیغمبر اسلامی قوانین کے مطابق دونوں کے درمیا ن فیصلہ فرمادیتے ہیں کہ حق مثلا اس شخص کے ساتھ ہے یا اس شخص کے ۔ اب یہاں اس کی ضرورت نہیں ہے کہ جبرءیل پیغمبر پر نازل ہوں اور وحی کے ذریعہ بتائیں کہ اے رسول آپ کہءے کہ حق اس شخص کے ساتھ ہے یا نہٰں ہے ۔ ہا ں اگر کوئی استثنائی موقع ہوتو دوسری بات ہے ورنہ کلی طور پر پیغمبر کے فیصلہ انہیں ظاہری بنیادوں پر ہوتے ہیں جن پر دوسرے فیصلے کرتے ہیں فرق یہ ہے پیغمبر کے فیصلے بہت ہی دقیق اور اعلیٰ سطح کے ہوتے ہیں آپ نے خود ہی فرمایا ہے کہ میں ظاہر پر حکم کرنے کے لئےمامور کیا گیا ہوں یعنی مثلامدعی اور مدعیٰ الیہ اکٹھا ہوں اور مدعی کے ساتھ دو عادل گواہ بھی ہوں تو پیغمبر اسی ثبوت کی بنیاد پر فیصلہ صادر فرماتے ہیں یہ وہ فیصلہ ہے جو خود پیغمبر نے فرمایا ہے۔ آپ پر وہی نہیں نازل ہوئی ہے ۔
تیسری حیثیت بھی جس کے بموجب پیغمبر معاشرہ کے نگراں اور رہبر ہیں اگر اس کے تحت وہ کوئی حکم دے یہ حکم بھی اس فرمان سے مختلف ہوگا جس میں پیغمبر وحی خدا کو پہچانتے ہیں ۔
خدا نے آپ کو ایسی ہی حاکمیت و رہبری کا اختیار دیا ہے اور ایک حق کی صورت میں آ پ کو منصب عطا فرمایا ہے اور وہ بھی رہبر ہونے کی حیثیت سے اپنے فراءض انجام دیتے ہیں لہٰذا اکثرآپ بعض امور میں لوگوں سے مشورہ بھی فرماتے ہیں ۔ چنانچہ ہم تاریخ میں دیکھتے ہیں کہ آپ نے بدر اور احد کی جنگوں میں ۔ نیز بہت سے دوسرے مقامات پر اپنے اصحاب سے مشورہ فرمایا ۔ جب کہ حکم خدا میں تو مشورہ کی گنجاءش ہی نہیں ہوتی کیا کبھی پیغمبر نے اپنے اصحاب سے یہ مشورہ بھی لیا کہ مغرب کی نماز ایسے پڑھی جائے یا ویسے ؟ بلکہ اکثر ایسے مسائل پیش آتے تھے کہ جب آپ سے ان مو ضوعات کے متعلق پو چھا جاتا تھا تو صاف فر مادیا کرتے تھے کہ مسائل کا میری ذات سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ یہ اللہ کی جانب سے ہی ایسا ہے اور اس کے علاوہ کچھ ہو بھی نہیں سکتا لیکن (احکام خدا کے علاوہ) دوسرے مسائل میں پیغمبر اکثر مشورہ فرماتے تھے اور دوسروں کی رآئے دریافت کیا کرتے تھے اب اگر کسی موقع پر پیغمبر کوئی حکم دے کہ ایسا کرو تو یہ اس اختیار کے تحت ہے جو خدا نے آپ کو عطا فرمایا ہے ۔ ہاں اگر کسی سلسلہ میں مخصوص طور پر وحی بھینازل ہوجائے تو ایک استثنائی بات ہوگی ۔
اس کو عام مسائل سے الگ سمجھا جائے گا نہ یہ کہ تمام امور اور جزئیات میں معاشرہ کا حاکم اور رہبر ہونے کی حیثیت سے معاشرہ کے لئےپیغمبر جو کام بھی انجام دیتے تھے ۔ خدا ان کے لئےان پر وحی نازل فرماتا تھا کہ یہاں یہ کرو وہاں یہ کرو اور اس طرح کے مسائل میں بھی پیغمبر صرف اک پیغام رساں کی حیثیت رکھتا رہا ہولہٰذا پیغمبر اسلام یقینی طور پر بیک وقت ان متعدد منصبو ں پر فائز رہے ہیں ۔

امامت معاشرہ کی حاکمیت کے معنیٰ میں
جیسا کہ عرض کر چکا ہوں امامت کا مطلب اپنے پہلے معنی کے مطابق ریاست عامہ ہے ۔ یعنی پیغمبر کے دنیا سے رخصت ہونے کے بعد اس کا وہ عہدہ جسے معاشرہ کی رہبری کہتے ہیں، خالی ہوجاتا ہے ۔ اور اس سے کسی کو انکار نہیں کہ انسانی معاشرہ ایک رہبر کا محتاج ہے ۔ اب سوال یہ ہے کہ پیغمبر کے بعد معاشرہ کا حاکم و رہبر کو ن ہے ؟ یہ وہ مسئلہ ہے جسے بنیادی لو۔ پر شیعہ بھی تسلیم کرتے ہیں اور سنّی بھی ۔ شیعہ بھی کہتے ہیں کہ معاشرہ کو ایک اعلیٰ رہبر و قاعد اور حاکم کی ضرورت ہے اور سنّی بھی اس کا اقرار کرتے ہیں ۔ یہی وہ منزل ہے جہاں خلافت کا مسئلہ اس شکل میں سامنے آتا ہے ۔ سیعہ کہتے ہیں کہ پیغمبر نے اپنے بعد ایک حاکم و رہبر معین کردیا اور فرمایا کہ میرے بعد مسلمانوں کے امور کے امام علی کے ہاتھوں میں ہونی چاہیے اور اہل سنت اس منطق سے اختلاف کرتےہوئےکم از کم اس شکل میں جس شکل میں شیعہ مانتے ہیں یہ بات قبول نہیں کرتے اور کہتے ہیں کہ اس سلسلہ میں پیغمبر نے کسی خاص شخص کو معین نہیں فرمایا تھا ۔ بلکہ یہ خود مسلمانوں کا فرض تھا کہ پیغمبر کے بعد اپنا ایک حاکم ورہبر منتخب کرلیں چنانچہ وہ بھی بنیادی طور پر امامت و پیشوائیکو تسلیم کرتے ہیں کہ مسلمانوں کا ایک حاکم و رہبر ضرور ہونا چاہءے بس اختلاف یہ ہے کہ ان کے نزدیک رہبر انتخاب کے ذریعہ معین ہوتا ہے اور شیعہ کہتے ہیں کہ حاکم و رہبر کو خود پیغمبر نے وحی کے ذریعہ معین فرمادیا ہے ۔
اگر مسئلہ امامت یہیں تک محدود رہتا اور بات صرف پیغمبر کے بعد مسلمانوں کے سیاسی رہبر کی ہوتی تو انصاف کی بات یہ ہے کہ ہم شیعہ بھی امامت کو اصول دین کے بجائے فروع دین کا جزو قرار دیتےاور سمجھتے ہیں کہ یہ بھی نماز کی طرح ایک فرعی مسئلہ ہے لیکن شیعہ جس امامت کےقائل ہیں وہ اس قدر محدود نہیں ہے کہ چونکہ علی بھی دیگر اصحاب مثلاً ابوبکر، عمر، عثمان اور سیکڑوں اصحاب یہاں تک کہ سلمان و ابوذر کی طرح پیغمبر کے ایک صحابی تھے لیکن ان سب سے بر تر و افضل، سب سے زیادہ عالم، سب سے زیادہ متقی اور باصلاحیت تھے اور پیغمبر نے بھی انہیں معین فرمادیا تھا ۔ نہیں، شیعہ صرف اسی حد پر نہیں ٹھہرتے بلکہ امامت کے سلسلہ میں دو اور پہلووں کےقائل ہیں ۔ جن میں سے کسی ایک کو بھی اہل تسنن سرے سے نہیں مانتے ایسا نہیں ہے کہ امامت کی ان دوحیثیتوں کو تو مانتے ہوں لیکن علی کی امامت سے انکار کرتے ہوں، نہیں !ان میں سے یاک مسئلہ یہ ہے کہ امامت دینی مر جعیت کا عنوان رکھتی ہے ۔

امامت دینی مرجعیت کے معنی میں
ہم عرض کرچکے ہیں کہ پیغمبر وحی الٰہی کی تبلیغ کرنے والے اور اس کا پیغام پہونچانے والے تھے ۔ لوگ جب متن اسلامی کے بارے میں جاننا چاہتے تھے یا قرآن میں مطلب نہ پاتے تھے پیغمبر سے سوال کرتے تھے مسئلہ یہ ہے کہ اسلام جو کچھ معارف احکام اور قوانین بیان کرنا چاہتا تھا کیا وہ سب کے سب وہی ہے جو قرآن میں آگئے ہیں اور پیغمبر نے عام طور سے لوگوں کے سامنے بیان کردیا ہے ؟ یانہیں بلکہ قہری طور سے زمانہ اس کی اجازت نہیں دیتا تھا کہ پیغمبر تمام قوانینوں احکام عام طور سے لوگوں میں بیان کردیں علی پیغمبر کے وصی و جانشین تھے اور پیغمبر اسلام نے اسلام کی تمام چھوٹی بڑی باتیں یا کم از کم اسلام کے تمام کلیات علی سے بیان کردئےاور انہیں ایک بے مثال عالم غیر معلم اپنے اصحاب میں سے سب سے ممتاز انہیں کی طرح اپنء باتوں میں خطا و لغزش سے میری اور خدا کی جانب سے نازل ہونے والی تمام باتوں سے واقف شخصیت کے عنوان سے لوگوں کےسامنے پیش کیا ار فرمایا اے لوگوں میرے بعد دینی مسائل میں جو کچھ پوچھنا ہو میرے اس وصی و جانشین اور اس کے بعد تما م آنے والے اوصیاء سے سوال کرنا در حقیقت یہاں امامت ایک کامل اسلام شناس کی حیثیت سے سامنے آتی ہے لیکن یہ اسلام شناس ایک مجتہد کی حد سے کہیں بالا تر ہے اس کی اسلام شناسی منجانب اللہ ہے اور اءمہ علیہ السلام یعنی واقعی اسلام شناس البتہ یہ وہ افراد نہیں ہے جنھوں نے اپنی عقل اور فکر کے ذریعے اسلام کو پہچانا ہوجن کے یہاں قہری طور پر خطا اور اشتباہ کا امکان بھی پایا جاتا ہو بلکہ انھوں نے ان غیبی اور مرموز ذرائع سے اسلامی علوم پیغمبر سے حاصل کئے ہیں جو ہم پر پوشیدہ پے او ر یہ علم پیغمبر سے علی علیہ السلام تک اور علی سے بعد کے اءمہ تک پہونچا ہے اور اءمہ علیہ السلام کے پورے دور میں یہ علم خطاوں سے بری معصوم علم کی صورت میں ایک امام سے دوسرے امام تک پہونچتا رہا ہے ۔
اہل سنت کسی شخص کے لئےاس منزلت و مقام کےقائلنہیں ہیں لہٰذا وہ سرے سے اس طرح کی امامت کے حامل کسی بھی امام کے وجود کو تسلیم نہیں کرتے ۔ یعنی وہ امامت کے ہی قائل نہیں ہیں، نہ یہ کہ امامت کے توقائل ہوں اور کہیں کہ علی امام نہیں ہیں، ابوبکر اس کے اہل ہیں، نہیں بلکہ وہ لوگ ابوبکر، عمر عثمان بلکہ کلی طور پر کسی ایک صحابی کے لئےبھی اس منصب یا مقام کو تسلیم نہیں کرتے ۔یہی سبب ہےکہ خود اپنی کتابوں میں ابوبکرعمر سے دینی مسائل میں ھزاروں اشتباہات اورغلطیاں نقل کرتے ہیں لیکن شیعہ اپنے اماموں کوخطائوں سے معصوم جانتے ہیں اور امام سے کسی خطا کےسرزدہ ونےکو محال سمجھتے ہیں (مثال کے طور پر اہل سنت کی کتابوں میں مذکور ہے کہ) ابوبکرنے فلاں مقام پراشتباہ کیا اوربعد میں خود ہی کہا کہ "ان لی شیطاناً نعترینی" بلاشبہ ایک شیطان ہےجو اکثر میرے اوپر مسلط ہوجاتا ہےاور میں غلطیاں کربیٹھتا ہوں،یا عمر نےفلاں مقام پرخطااورغلطی کی اوربعدمیں کہاکہ:یہ عورتیں بھی عمر سےزیادہ عالم وفاضل ہیں۔ کہتے ہیں کی جب ابوبکر کاانتقال ہواتو ان کےاہل خاندان منجملہ ابوبکرکی صاحبزادی اورزوجہء رسول عائشہ بھی گریہ وآہ زاری کرنےلگیں۔یہ صداے گریاجب ابوبکر کے گھرسے بلند ہوئی توعمر نے پیغام کہلوایا کی جاکر عورتوںسے کہ دوکہ خاموش رہیں۔وہ خاموش نہ ہوئیںدوسری مرتبہ کہلایاکہ اگرخاموش نہ ہوئیں تو میں تازیانہ لیکرآتا ہوں یوں ہی پیغام کے بعد پیغام جاتے رہےلوگوں نے عائشہ سے کہاکہ عمرگریا کرنے پربگڑرہےہیںدھمکیاںدے رہےہیںاوررونےسےمنع کرتےہیںآپ نے کہاابن خطاب کو بلاءو،دیکھیںوہ کیا کہ رہا ہے۔عمرعائشہ کے احترام میں خودآئے،عائشہ نےپوچھاکیا بات ہےیہ باربارپیغام کییوں کہلارہےتھے؟کہنےلگےمیںنےپیغمبرص سے سناہےکہ اگر کوئی شخص مرجائےاورلوگ اس پرروءیںتو جس قدر وہ گریہ کریں گے اتنا ہی مرنے والا عذاب میں گرفتار ہوتا جائے گا، لوگوں کا گریہ اس کےلئےعذاب ہے ۔ عائشہ نے کہا : تم سمجھتے نہیں، تمہیں اشتباہ ہوا ہے ۔ مسئلہ کچھ اور ہے، میں جانتی ہوں اصل قصہ کیا ہے ۔ ایک مرتبہ ایک خبیث یہودی مر گیا تھا، اس کے اعزا اس پر رورہے تھے ۔ پیغمبر نے فرمایا :یہ لوگ رورہے ہیں، جبکہ اس پر عذاب ہوریا ہے ۔ یہ نہیں فرمایا تھا کہ ان لوگوں کو رونا عذاب کا سبب بن رہاہے ۔ بلکہ فرمایا تھا کہ یہ لوگ اس پر رورہے ہیں اور یہ نہیں جانتے کہ اس پر عذاب کیا جارہا ہے ۔ آخر اس واقعہ کا اس مسئلہ سے تعلق ہے ؟!اس کے علاوہ اگر میت پر رونا حرام ہے تو ہم گناہ کررہے ہیں خدا ایک بے گناہ پر عذاب کیوں کر رہا ہے ؟!اس کا اس میں کیا گناہ ہے کہ گریہ ہم کریں اور عذاب میں وہ مبتلا کیا جائے ؟! اگر عورتیں نہ ہوتیں تو عمر ہلاک ہو گیا ہوتا ۔
خود اہل سنت کہتے ہیں کہ عمر نے ستر جگہوں پر (یعنی ستر مقاما ت پر اور واقعہ بھی یہی ہے کہ ایسے موارد بہت زیادہ ہے کہا لولا علی لہلک عمر اور امیر المومنین علیہ السلام ان کی غلطیوں کو درست کرتے تھے اور خود بھی اپنی خطاؤں کا اقرار کرتے تھے
مختصر یہ کہ اہل سنت اس نوعیت کی امامت کےقاءل نہیں ہے اب بحث کا رخ اس مسئلہ کی طرف پلٹتا ہے بلا شبہ وحی فقط پیغمبر پر نازل ہوتی تھی ہم یہ نہیں کہتے کہ اءمہ پر نازل ہوتی ہے اسلام صرف پیغمبر نے عالم بشریت تک پہونچایا خدا نے بھی اسلام سے متعلق جو کچھ کہنا تھا پیغمبر سے فرمادیا ایسا ہر گز نہیں ہے کہ اسلام کے بعض قوانین پیغمبر سے نہ کہے گئے ہوں پیغمبر سے سب کچھ کہ دیا گیا تھا لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اسلام کے تمام احکام و قوانین عام لوگوں تک پہونچادیے گئے یا نہیں ؟ اہل سنت کہتے ہیں کہ اسلام کے جتنے احکام و قوانین تھے پیغمبر نے اپنے اصحاب تک پہونچا دءے لیکن بعد میں جب صحابہ سے کسی مسئلہ میں کوئی روایت نہیں ملتی تو الجھ جاتے ہیں کے کیا کریں ؟ اور یہیں سے دین میں قیاس کا مسئلہ داخل ہوجاتا ہے اور وہ کہتے ہیں کہ ہم ان مسائل کو قانون قیاس کے ذریعہ مکمل کرلیتے ہیں جس کے متعلق امیر المومنین علیہ السلام نھج البلاغہ میں فرماتے ہیں گویا خدا نے ناقص دین بھیجا ہے کہ تم اسے مکمل کرو گے ؟ لیکن شیعہ کہتے ہیں کہ نہ خدانے ناقص اسلامی قوانین پیغمبر پر نازل کیے اور نہ پیغمبر نے انہیں ناقص صورت میں لوگوں تک پہونچایا پیغمبر نے کامل طور پر سب کچھ بیان کردیا لیکن جو کچھ کامل شکل مین پیغمبر نے بیان کیا سب کچھ وہی نہیں ہے جو پیغمبر نے عوام کے سامنے بیان کیا ہے کتنے ہی احکام ایسے تھے جن کی ضرورت پیغمبر کے زمانے میں پیش ہی نہیں آءی اور بعد میں ان سے متعلق سوال ا ٹھا بلکہ آپ نے خدا کی جانب سے نازل ہونے والے تمام احکام اپنے شاگرد خاص کو تعلیم کیے اور ان سے فرمادیا کہ تم بعد میں ضرورت کے مطابق لوگوں سے بیان کرنا
یہیں سے عصمت کا مسئلہ بھی سامنے آتا ہے شیعہ کہتے ہیں کہ جس طرح پیغمبر اپنے بیان و گفتگو میں عمداً یا سھوا غلطی یا اشتباہ سے دو چار نہیں ہوتے یوں ہی ان کا شاگرد خاص بھی خطا یا اشتباہ سے دوچار نہیں ہوسکتا کیوں کہ جس طرح پیغمبر کو ایک نوعیت سے تائید الٰہی حاصل تھی یوں ہی ان کے خصوصی شاگرد کو بھی غیبی و الٰہی تائید حاصل تھی اور یہ گویا امامت کا ایک اور فضل و شرف ہے ۔

امامت، ولایت کے معنی
اس تیسرے مرتبہ میں اپنے امامت اپنے اوج کمال کو پہونچتی ہے ۔ اور شیعہ کتابیں اس مفہوم سے بھری پڑی ہے ۔ مزید یہ ہے کہ امامت کی یہی حیثیت تشیع اور تصّوف کے درمیان مشترک پہلو رکھتی ہے ۔ البتہ اس وجہ اشتراک کی تعبیر سے کوئی غلط مفہوم نہ لینا چاہئے ۔ کیونکہ ہو سکتا ہے اس سلسلہ میں مستشرقین کی باتیں آپ کے سامنے آئیں جو مسئلہ کو اسی حیثیت سے پیش کرتے ہیں ۔ یہ مسئلہ عرفا کے یہاں بڑے شد و مد کےساتھ پایا جاتا ہے اور شیعوں میں بھی صدر اسلام سے ہی موجود تھا ۔ مجھے یا د ہے کہ آج سے دس سال پہلے ہنری کار بن نے علامہ طباطبائی سے ایک انٹرویوکے دوران یہ سوال بھی اٹھایا تھا کہ اس مسئہ کو شیعوں نے متصوفہ کے یہاں سے لیا ہے یا متصوفہ نے شیعوں سے اپنا یا ہے؟ گویا وہ یہ کہنا چاہتا تھا کہ ان دونوں میں سے ایک نے دوسرے سے حاصل کیا ہے،علامہ طباطبائی نے جواب دیا تھا کہ صوفیوں نے اسے شیعوں سے لیا ہے، اس لئے کہ یہ مسئلہ شیعوں کے یہاں اس وقت سے موجود ہے جب نہ تصوفد کو یہ شکل حاصل ہوئی تھی اور نہ یہ مسائل ان کے یہاں پیدا ہوئے تھے ۔ بعد میں صوفیا کے یہاں بھی یہ تصور پیدا ہوگیا ۔ چنانچہ اگر سوال یہ اٹھے کہ ایک نے دوسرے سے اپنا یا تو یہی کیا جائے گا کہ تصور شیعوں سے صوفیوں کے یہاں پہنچا ہے ۔ یہ مسئلہ ایک انسان کا مل یا دوسرے الفاظ میں حجت زمانہ کا مسئلہ ہے ۔ عرفااور صوفیا اس مسئلہ کو بہت اہمیت دیتے ہیں ۔ مولانا روم کہتے ہیں
پس یہ ہر دوری و لیتی قائم است
یعنی ہو دور میں ایک ایسا انسان کامل موجود ہے جو اپنے اندر انسانیت کے تمام معنویات و کمالات رکھتا ہو ۔ کوئی عہد اور کوئی زمانہ ایسے ولی کامل سے خالی نہیں ہے، جسے وہ اکثر لفظ قطب سے بھی تعبیر کرتے ہیں ۔ اور ایسے ولی کامل کے لئے جس میں انسانیت کامل طور پر جلوہ گر ہو یہ لوگ ایسے مدارج و مراتب کے قائل ہیں جو ہمارے افکار سے بہت بعید ہیں ۔ منجملہ اس کی ایک منزلت یہ بھی ہے کہ ولی لوگوں کے ضمیروں یونی دلوں پر تسلط رکھتا ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ وہ ایک ایسی روح کلی ہے جوتمام ارواح کا احاطہ کئے ہوئے ہے ۔ یہاں بھی مولانا روم ابراہیم ادہم کی داستان میں، جو ایک افسانہ سےزیادہ حیثیت نہیں رکھتی، اس سلسلہ میں اشارہ کرتے ہیں ۔ اصل میں وہ ان افسانوں کا ذکر اپنے مطلب کی وضاحت کےلئے کرتے ہیں ان کا مقصد تاریخ بیان کرنا نہیں ہے ۔ وہ کہتے ہیں : ابراہیم ادہم دریا کےکنا رہ گئے اور ایک سوئی دریا میں ڈال دی اور پھر آپ نے اس سوئی کو واپس طلب کیا ۔ مجھلیوں نے پانی سے منھ نکا لا توع سب کےدہن میں ایک ایک سوئی موجود تھی ۔ یہاں مولانا روم کہتے ہیں
دل نگہ دار پدای بی حاصلان
در حضور حضرت صاحبدلان
یہاں تک کہ فرماتے ہیں شیخ یعنی ان پیر صاحب نے ان کے افکار سے حقیقت و واقعیت معلوم کرلی
شیخ واقف گشت از اندیشہ اش
شیخ چون شیراست و دلھا بیشہ اش
ہم شیعوں کے یہاں ولایت کا مسئلہ اس عامیانہ تصور کے مقابلہ میں بڑا دقیق اور عمیق مفہوم رکھتا ہے ۔ ولایت کا مطلب ہے حجت ِ زمان یعنی کوئی زمانہ اور کوئی عہد اس حجت سے خالی نہیں ہے : ولولا الحجۃ لساخت الارض باھلھا مطلب یہ ہے کہ نہ کوئی ایسا زمانہ گزرا اور نہ کوئی ایسا زمانہ ہوگا جب زمین کسی انسان کا مل یا حجت خدا سے خالی رہے ( ورنہ زمین اپنی تمام موجودات کے ساتھ ہی ختم ہوجوئے گی ) شیعہ اس انسان کامل کے لئے عظیم درجات و مراتب کے قائل ہیں ۔ ہم اپنی اکثر و بیشتر زیارتوں میں اس طرح کی ولایت و امامت کا اقرار و اعتراف کرتے ہیں، یعنی یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ امام ایسی روح کلی رکھتا ہے جوتما ارواح کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔ (ہم ان کلمات کو نہ صرف ہمیشہ پڑھتے ہیں بلکہ یہ ہمارے شیعی مسلمات و اصول کا جزو ہے ۔ : اشھد انک تشھد مقامی و تسمع کلامی وترد سلامی ( مزید کہ ہم یہ کلمات ان کے لئے کہتے ہیں جو مر چکے ہیں ۔ البتہ ہماری نظروں میں ان کی زندگی اور موت میں کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ یعنی ایسا نہیں ہے کہ وہ اپنی زندگی میں اس کمال پر فائز نہ تھے، مرنے کے بعد ایسے ہوگئے ہیں ) میں گوہی دیتا ہوں کہ آپ اس وقت میرے وجود کویہاں محسوس اور درک کررہے ہیں ۔ میں گوا ہی دیتا ہوں کہ اس وقت جو کچھ میں کہہ رہا ہوں السلام علیک یا علی بن موسی الرضا اسے آپ سن رہے ہیں ۔ میں اعتراف کرتا ہوں اور گوہی دیتا ہوں کہ میں آپ کو جوسلام کررہا ہوں اسلام علیک آپ اس کا جواب دیتے ہیں ۔ یہ وہ مراتب ہیں جن کاہمارے سوا کوئی کسی کے لئے قائل نہیں ہے ۔ اہل سنت ( وہابیوں کے علاوہ) صرف پیغمبر اکرم کے لئے اس مرتبہ کے قائل ہیں پیغمبر کے علاوہ دنیا میں کسی اور کے لئے اس روحی کمال اور روحانی مرتبہ کے قائل نہیں ہیں ۔ جبکہ یہ بات ہم شیعوں کو اصول مذہب میں داخل ہے اور ہم ہمیشہ اس کا اقرار کرتے ہیں ۔
بنابر این مسئلہ امامت کے تین درجے ہیں ۔ اگر ہم ان تینوں درجوں کو ایک دوسرے سے جدانہ کریں تو امامت سے متعلق دلا ئل میں ہمیشہ شبہات سے دوچار ہوں گے۔ یہی سبب ہے کہ شیعوں میں بھی الگ الگ درجے ہیں ۔ بعض شیعہ امامت کامطلب وہی انسان معاشرہ کی رہبری سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ پیغمبر نے علی کو اپنے بعد رہبری کے لئے معین فرمادیا تھا ۔ ابوبکرو عمر وعثمان ان کی جگہ پر غلط آئے ۔ یہ لوگ اسی حد تک شیعہ ہیں اوراممت کے بقیہ دونوں مرتبوں کا یا عقیدہ نہیں رکھتے یا اس سلسلہ میں سکوت اختیار کرتے ہیں ۔ بعض لوگ دوسرے مرحلے کے بھی قائل تر ہیں ( یعنی امام دینی مرجع ہوتا ہے ) لیکن تیسرے مرحلہ کو تسلیم نہیں کرتے کہتے ہیں کہ مرحوم آقا سید محمد باقر در چہ ای جو آقائے بروجردی کے استاد تھے، امامت کےاس تیسرے مرحلہ کے منکر تھے ۔ لیکن شیعہ اور علمائے شیعہ کی اکثریت اس تیسرے مرحلہ کا بھی عقیدہ رکھتی ہے ۔
ہمیں در اصل امامت کے موضوع پر تین مرحلوں میں بحث کرنی چاہئے :۔
۱۔ امامت قرآن کی روشنی میں ۔
۲۔ امامت احادیث کی روشنی میں ۔
۳۔ امامت عقل کی روشنی میں ۔
پہلے مرحلہ میں دیکھنا چاہئے کہ قرآنی آیات پر جسے شیعہ تسلیم کرتے ہیں دلالت کرتی ہیں یا نہیں ؟ اور اگر دلالت کرتی ہیں تو کیا امام و صرف معاشرہ کے سیاسی و اجتماعی رہبر کے معنی میں پیش کرتی ہیں یا اس کی دینی مرجعیت حتیٰ کہ معنوی و روحانی ولایت کو بھی بیان کرتی ہیں ؟ اس مرحلہ سے فارغ ہونے کے بعد ہم احادیث پیغمبر کا جائزہ لیں کہپ حضور نے امامت کےسلسلہ میں کیا بیان فرمایا ہے ۔ اس کے بعدعقل کی روشنی میں اس مسئلہ کا تجزیہ کریں کہ عقل ان تینوں مرحلوں میں امامت کو کس حیثیت سے تسلیم کرتی ہے؟کیا عقل یہ فیصلہ کرتی ہے کہ معاشرہ کا رہبر ہونے کی حیثیت سے حق اہل سنت کے ساتھ ہے، اور جانشین پیغمبر کو شوریٰ کے ذریعہ منتخب ہونا چاہئے، یا پیغمبر نے خود اپنا جانشین معین فرمادیا ہے ؟اس طرح امامت کی بقیہ دونوں حیثیتوں کے سلسلہ میں عقل کیا کہتی ہے ۔

امامت کے بارہ میں ایک حدیث:
امامت کے سلسلہ میں قرآنی آیات کے ذکر سے پہلے ایک مشہور و معروف حدیث پیش کرتا ہوں ۔ اس حدیث کی روایت شیعوں نے بھی کی ہے اور اہل سنت نے بھی۔ اور جس حدیث پر شیعہ و سنی متفق ہوں، اسے معمولی نہ سمجھنا چاہئے کیونکہ جب دو فریق دو الگ الگ طریقوں سے اس کی روایت کرتے ہیں تو ایک بات تقریباًیقینی ہو جاتی ہے کہ پیغمبر اکرم یا امام نے یہ بات بہر حال فرمائی ہے ۔ البتہ اگر چہ عبارتوں میں تھوڑا سا فرق ہے لیکن مضمون تقریباًایک ہی ہے۔ ہم شیعہ اس حدیث کو زیادہ تر ان الفاظ میں نقل کرتے ہیں: من مات ولم یعرف امام زمانہ مات میتۃ جاھلیۃ [4] یعنی جو شخص اپنے زمانہ کے امام یا رہبر کو پہچانے بغیر مرجائے، وہ جاہلیت کی موت مرا۔ حدیث کی یہ تعبیر بہت شدید ہے کیونکہ زمانۂ جاہلیت میں مرنے والا نہ توحید پر ایمان رکھتا تھا نہ نبوت پر بلکہ سرے سے مشترک ہوتا تھا۔ یہ حدیث شیعہ کتابوں میں کثرت سے نقل ہوئی ہے اور شیعی اصول و مسلمات سے بھی صد فیصد مطابقت و موافقت رکھتی ہے شیعوں کی معتبر ترین حدیث کی کتاب کافی میں یہ حدیث نقل ہوئی اہل سنت کی کتابوں میں بھی یہ حدیث موجود ہے لیکن اسے ایک روایت میں ان الفاظ کے ساتھ نقل کیا گیا ہے ممات بغیر امام مات میتۃ الجاھلیۃ جو شخص امام کے بغیر مر جائے گویا وہ جاہلیت کی موت مرا ایک دوسری عبارت میں اس طرح نقل ہے من مات ولیس فی عنقہ بیعۃ مات میتۃ جاھلیۃ جو شخص اس حالت میں مرے کہ اس کی گردن میں کسی امام کی بیعت کا قلادہ نہ ہو اس کی موت جاھلیت کی موت ہے ایک اور عبارت جو شیعوں کے یہاں بھی ملتی ہے لیکن اہل سنت کے یہاں کثرت سے نقل ہے من مات ولا امام لہ ما ت میتۃ جاھلیۃ جو شخص اس حالت میں مرے کہ اس کا کوئی امام نہ وہ وہ جاہلیت کی موت مرا اس طرح کی عبارتیں بہت زیادہ ہیں اور اس کا مطلب یہ ہے کہ پیغمبر اسلام نے مسئلہ امامت کے سلسلہ میں خاصہ اہتمام فرمایا ہے
جو لوگ امامت کا مطلب صرف اجتماع و معاشرے کی رہبری سمجھتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ دیکھو پیغمبر نے رہبری کو اس قدر اہمیت دی ہے کہ خود معتقد ہیں اگر امت کا کوئی رہبر پیشوا نہ ہو تو لوگوں کی موت جاہلیت کی موت ہوگی کیونکہ احکام اسلام کی صحیح تشریح اور ان کا صحیح نفا ض اسی صورت میں ہو سکتا ہے جب امت ایک صالح رہبر موجود ہواور امت اپے رہبر کے ساتھ مضبوط ارتباط قائم رکھے اسلام انفرادی دین نہیں ہے کہ کوئی یہ کہے میں خدا اور رسول پر ایمان رکھتا ہوں اب مجھے کسی اور کی ضرورت نہیںنہیں بلکہ خدا اور رسول پر ایمان رکھنے کے بعد بھی آ پ کو بہر حال یہ دیکھنا اور سمجھنا پڑے گا کہ زمانے میں رہبر اور مام کون ہے تاکہ بہر حال اسی کی سر پرستی اور رہبری میں عملی زندگی گزاریں اور جو لوگ امامت کو دینی مر جعیت کے معنی میں دیکھتے ہیں۔ وہ( اس حدیث کی روشنی میں)کہتے کہ جسے اپنا دین محفوظ رکھنا ہو اسے اپنے دینی مرجع کی معرفت حاصل کرنا ھوگی ۔ اور یہ سمجھنا ہوگا کہ حقیقی دین کہاں سے حاصل کیا جائے۔ اور یہ کہ انسان دین تو رکھتا ہے لیکن وہ اپنا دین خود اس کے مخالف منابع و مراکز سے حاصل کرے تو سراسر جہالت ھوگی۔
اور جو امامت کو ولایت معنوی کی حد تک لے جاتا ہے ، وہ کہتا ہے کہ اس حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ اگر انسان کسی ولی کامل کے لطف و کرم اور اس کی توجہ کا مرکز قرار نہ پائے تو گویا اس کی موٹ جاہلیت کی موت ہے ۔ یہ حدیث چونکہ متواترات سے ہے لہٰذا میں نے چاہا کہ پہلے عرض کردوں تاکہ ذہنوں میں باقی رہے "انشاء اللہ اس پر آئندہ بحث کی جائے گی۔

امامت قرآن کی روشنی میں:
قرآن کریم میں کئی آیتیں مذکور ہیں جن سے شیعہ امامت کے سلسلہ میں استدلال کرتے ہیں اتفاق سے ان تمام آیتوں کے سلسلہ میں اہل سنت کےیہاںبھی ایسی روایتیں موجود ہیں جو شیعہ مطالب کی تائید کرتی ہیں ۔ ان میںسے ایک آیت یہ ہے:(انما ولیکم اللہ ورسولہ والذین آمنواالذین یقیموں الصلاۃ ویوتون الزکاۃ وھم راکعون)۔[5]
"انما" کے معنی ہیں صرف اور صرف (کیونکر یہ اداۃ حصر ہے)"ولی"کے اصل معنی ہیں سر پرست ولایت یعنی تسلط و سرپرستی۔ قرآن کہتا ہے۔ تمہارا سر پرست صرف اور صرف خدا ہے، اس کارسول ہے اور وہ مومنین ہیں جو نماز قائم کرتے ہیں اور حالت رکوع میں زکوۃ دیتے ہیں۔"اسلام میں ایساکوئی حکم نہیں ہے کہ انسان ھالت رکوع میں رکوۃ دے۔ تاکہ کہا جائے کہ یہ قانون لی ہے اور تمام افراد اس حکم میں شامل ہیں۔ یہ ایک ایسے واقعہ کی طرف اشارہ ہے جو خارج میں صرف ایک بار ظہور پذیر ہوا۔ شیعہ اور سنی دونوں نے متفق طور پر اس کی روایت کی ہے، واقعہ کا خلاصہ یوں ہے کہ حضرت علی حالت رکوع میں تھے کہ ایک سائل نے آکر سوال کیا ۔ حضرت نے اپنی انگلی کی طرف اشارہ فرمایا ۔ سائل قریب آیا ، اس نے حضرت علی(ع) انگلی سے انگھوٹی اتاردی اور لیکر چلاگیا ۔ یعنی آپ نے اتنا انتظار بھی نہیں کیا کہ نماز تمام ہوجائے اس کے بعد انفاق کریں آپ اس فقیر کے سوال کو جلد از جلد پورا کرنا چاہتے تھے لہٰذا اسی رکوع کی حالت میں اسے اشارہ سے سمجھا دیا کہ انگھوٹی اتار لے جائے اور اسے بیچ کر اپنا خرچ پورا کرے ۔ اس واقعہ میں کوئی اختلاف نہیں ہے، سنی شیعہ سب متفق ہیں کہ حضرت علی نے یہ عمل انجام دیا ہے ۔ دونوں فریق اس بات پربھی متفق ہیں کہ یہ آیت حضرت علی کی شان میں نازل ہوئی ہے ۔ جبکہ رکوع کی حالت میں انفاق کرن اسلامی قوانین کا جزو نہیں ہے ۔ نہ واجب ہے نہ مستحب کہ یہ کہا جائے کہ ممکن ہے کچھ کوگوں نے اس قانون پر عمل کیا ہو۔ لہٰذا آ یت کا یہ انداز "جو لوگ یہ عمل انجام دیتے ہیں "ایک اشارہ و کنایہ ہے ۔ جسے خود قرآن میں اکثر آیا ہے "یقولون " یعنی ( وہ لوگ کہتے ہیں ) جبکہ معلوم ہے کہ ایک شخص نے یہ بات کہی ہے ۔ لہٰذا یہان اس مفہوم سے مراد وہ فرد ہے جس نے یہ عمل انجام دیا ہے ۔ بنا بر ایں اس آیت کے حکم کے مطابق حضرت علی (ع) لوگوں پر ولی حیثیت سے معین کئے گئے ہیں ۔ چنانچہ شیعہ اس آیت کو استدلال کے طور پر پیش کرتے ہیں ۔ البتہ اس پر اس سے کہیں زیادہ بحث و گفتگو ہونی چاہئے جسے ہم آئندہ پیش کریں گے ۔
دوسری آیات واقعۂ غدیر سے متعلق ہیں ۔ اگر چہ خود واقعہ غدیر احادیث کے ذیل میں آتا ہے اور ہم اس پر بعد میں بحث کریں گے لیکن اس واقعہ سے متعلق سورۂمائدہ میں جو آیتیں وارد ہوئی ہیں ۔ ان میں ایک آیت یہ ہے :"یاایتھا الرسول بلغ ماانزل الیک من ربک وان لم تفعل فما بلغت رسالتہ"[6] (یہاں لہجہ بہت تند ہو گیا ) اے پیغمبر ! جو کچھ تم پر تمہارے پروردگار کی طرف سے نازل ہوا ہے اس کی تبلیغ کردو ، اور اگر تم نے اس کی تبلیغ نہیں کی تو گویا تم نے سرے سے رسالت الٰہی کی تبلیغ نہیں کی ۔ اس آیت کا مفہوم اتنا ہی شدید اور تند ہے جتنا حدیث "من مات ولم یعرف امام زمانہ مات میتۃ جاھلیۃ " کا اجمالی طور سے خود آیت ظاہر کررہی ہے کہ موضوع اتنا اہم ہے کہ اگر پیغمبر نے اس کی تبلیغ نہ کی تو گویا کار رسالت ہی انجام نہیں دیا ۔
شیعہ و سنی اس پر متفق ہے کہ پیغمبر اسلام پر نازل ہونے والا آخری سورہ، مائدہ ہے ۔ اور یہ آیتین ان آیتوں کاجز ہے جو سب سے آخر میں پیغمبر پر نازل ہوئی یعنی اس وقت نازل ہوئی جب پیغمبر اسلام تیرہ سال مکہ کی زندگی اور دس سال مدینہ کی حیات میں اسلام کے تمام دوسرے قوانین و احکام بیان کر چکے تھے یہ حکم ان احکام کا آخر جز تھا اب ایک شیعہ سوال کرتا ہے کہ یہ حکم جو آخری احکام کا جزہے اور اس قدر اہم ہے کہ اگر پیغمبر اسے نہ پہونچائیں تو ان کی گذشتہ علم محنتوں پر پانی پھر جائے ۔ آخر ہے کون سا حکم ؟ آپ لاکھ تلاش کے بعد کسی ایسے مسئلہ کی نشان دہی نہیں کرسکتے جو پیغمبر کی زندگی کے آخر دنوں سے مربوط ہو اور اس قدر اہم ہو کہ اگر حضور اس کی تبلیغ نہ کریں تو گویا انھوں نے کچھ بھی نہیں کیا ۔ لیکن ہم یہ کہتے ہیں کہ وہ مسئلہ امامت ہے ۔ اگر وہ نہ ہوتا سب کچھ بیکا ر ہے یعنی اسلام کا شیرازہ بکھر کے رہ جاتا ہے ۔ مزید یہ کہ شیعہ خود اہل سنت کی رواہت سے یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ یہ آیت غدیرخم میں نازل ہوئی ہے ۔
اسی سورۂ مائدہ میں ایک اور آیت ہے "الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دینا "(سورہ مائدہ آیت نمبر ۳)آج میں نے دین کو تم لوگوں کےلئے کمال کی منزلوں تک پہونچا دیا ۔ اس پر اپنی نعمتیں آخر حدوں تک تمام کر دی اور آج کے دن میں نے اسلام کو ایک دین کے عنوان سے تمہارے لئے پسندیدہ قرار دیا ، خود آیت ظاہر کر رہی ہے کہ اس دن کوئی واقعہ گزرا ہے جو اتنا اہم ہے کہ دین کے کامل ہونے اور انسانیت پر خدا کی طرف سے اتمام نعمت کا سبب بن گیا ہے ۔ جس کے ظہور پذیر ہونے سے اسلام در حقیقت اسلام ہے اور خدا اس دین کو ویسا ہی پاتا ہے جیسا وہ چاہتا ہے اور اگر وہ نہ ہو تو اسلام ،اسلام ہی نہیں ہے ۔ آ یت کا لب و لہجہ بتا تھا ہے کہ واقعہ کتنا اہم ہے ۔ اسی بنا پر شیعہ اس سے استدلال کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ موضوع جو دین کی تکمیل اور اتمام نعمت کا سبب بنا اور جو اگر واقع نہ ہوتا تو اسلام در اصل اسلام ہی نہ رہتا ۔ وہ کیا تھا ؟ شیعہ کہتے ہیں کہ ہم ہی بتا سکتے ہیں کہ وہ کون سا موضوع ہے جسے اتنی اہمیت دی گئی ہے ۔ اس کے علاوہ بہت سی روایتیں اس با ت کی تائید کرتی ہے کہ یہ آیت بھی اسی موضوع امامت کے تحت نازل ہوئی ہے ۔

دوسری بحث
امامت اور تبلیغ دین:
گزشتہ بحث میں امامت کے مختلف پہلوؤں کی تشریح و توضیح کرتے ہوئے عرض کیا تھا کہ ان مختلف پہلوؤں کو کامل طور پر مشخص ہونا چاہءے ۔ جب تک امامت کے تمام پہلو مشخص و معین نہ ہونگے ، ہم اس مسئلہ پر بخوبی بحث نہیں کرسکتے ۔ہم عرض کرچکے ہیں کہ امامت میں ایک مسئلہ حکومت بھی ہے ۔ یعنی پیغمبر اسلام کے بعد حکومت کیسی ہونا چاہئے ؟ کیا حکومت کی تعیین خود مسلمانوں کے ذنمہ ہے اور عوام کا فریضہ ہے کہ اپنے درمیا ن کسی کو اپنا حاکم معین کریں یا پیغمبر نے اپنے بعد کے لئے اپنا نائب اور حاکم معین کردیا ہے ؟ ان دونوں اس مسئلہ کو کچھ اس ڈھنگ سے پیش کیا جانے لگا ہے کہ قہری طور سے ذہن پہلے اہل سنت کے نظریہ کی جانب متوجہ ہوتا ہے اور انسان سوچنے لگتا کہ ان کا نظریہ فطرت سے زیادہ فریب ہے ۔

غلط روش
یہ مطلب کچھ اس طرح بیان کرتے ہیں کہ اصل میں ہمیں ایک حکومت کا مسئلہ در پیش ہے ، اب ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ اسلامی نقطہ مظر سے حکومت کیسی ہونا چاہئے ؟ کیا حکومت موروثی اور تعیینی ہے کہ ہر حاکم اپنے بعد کے لئے ایک حاکم معین کردے اور عوام کو حکومت کے معاملات میں کسی طرح کی دخل اندازی کا حق حاصل نہ ہو ؟ پیغمبر نے ایک شخص کو معین فرمایا پھر اس شخص نے اپنے بعد کے لئے کسی تیسرے کو معین کیا ۔ اور صبح قیامت تک اور حکومت کی یہی صورت رہی کہ ہمیشہ نص وتعین کا سلسلہ چلتا رہا ۔ اب قہری طور پر یہ عمر صرف ائمہ تک مخصوص و محدود نہیں رہ سکتا ۔ کیونکہ ائمہ معصومین (ع) صرف بارہ ہیں اور شیعہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ یہ تعداد نہ کم ہوسکتی ہے نہ زیادہ ۔ اس فکر کے مطابق حکومت کے سلسلہ میں اسلامی نقطۂ مظر سے قانون کلی یہ ہوگا کہ پیغمبر جو خود حاکم ہے اپنے بعد اپنا نائب معین کرے اور وہ اپنے بعد کسی دوسرے کو حاکم معین کرسے اور یوں ہی یہ سلسلہ صبح قیامت تک چلتارہا ۔ چنانچہ اگر اسلام پوری دنیا پر حاکم ہوجائے ( جیسا کہ آج تقریبا ً آدھی دنیا اس کے زیر نگی ہے تو تقریباًایک عرب مسلمان پرچم ۔ اسلام کے سائے میں زندگی گزاررہے ہیں ) اور ی ہطے پائے کہ دنیا کے کونے کونے میں اسلامی قوانین نافذ کئے جائیں ، چاہے ایک عالمی حکومت کی شکل میں یا چند چھوٹی بڑی حکومتوں کی صورت میں قانون یہی نصی و تعیینی ہے ، پس یہ جو ہم کہتے ہیں کہ پیغمبر نے علی کو معین فرمایا تو تعیین بھی اسی کلی قانون کے تحت تھی کہ حکومت تعیینی و تنصیصی ہونی چا ہئے ۔"اور اس فلسفہ کے تحت اس کی ضرورت بھی نہیں رہ جاتی کہ پیغمبر نے علی کو خدا کی جانب سے معین فرمایا ہو۔ کیونکہ پیغمبر تو وحی کے ذریعہ، احکام خدا بیان کرسکتے تھے اور ائمہ معصومین پر بھی ایک تو ایسا الہام ہوتا ہے دوسرے انھوں نے خود پیغمبر سے علوم اخذ کئے ہیں ، لیکن ان کے بعد تو ایسا نہیں ہے ! بس اگر حکومت کے سلسلہ میں اسلامی نقطۂ نظر سے بنیادی قانون ( کہ حکومت تنصیصی تعیینی ہونی چاہئے) تو اس کی ضرورت نہیں کہ پیغمبر نے علی کو وحی کے ذریعہ معین فرمایا ہو بلکہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ حضرت نے خود اپنی صوا بدید پر معین فرمایا ہے ۔ اسی طرح ائمہ نے اپنے مصالح کے مطابق اپنے جانشین معین فرمائے ہیں ۔ بنابر ایں پیغمبر کی نظر میں خلافت کے لئے علی کی تعیین ویسی ہی ہے جیسے آپ نے کسی کو مکہ کا حاکم یا حاجیوں کے لئے امیر الحاج معین فرمایا ہو، جس طرح وہاں یہ کوئی نہیں کہتا کہ اگر پیغمبر نے فلاں شخص کو مکہ کا حاکم بنایا ۔ یا معاذ بن جبل کو تبلیغ کے لئے یمن بھیجا ، تویہ سب وحی کے حکم سے تھا ، بلکہ یہ کہا جاتا ہے کہ چونکہ پیغمبر خدا وند عالم کی جانب سے لوگوں پر حاکم و سر پرست ہیں لہٰذا جن مسا ئل میں ان پر وحی نہیں نازل ہوتی ،ان میں ذاتی تدبر و فرات سے اقدام فرماتے ہیں ( یوں ہی یہاں بھی کہا جائے گا کہ پیغمبر نے خود اپنی ذاتی تشخیص و تدبر سے علی کو خلافت و نیا بت کے لئے معین فرمایا )
اگر ہم مسئلہ امامت کو اتنی ہی سادگی سے ہیش کریں کہ یہ دنیا وی حکومت کا مسئلہ بن جائے تواسکے علاوہ ہم اور کیا کہہ سکتے ہیں کہ یہ مسئلہ اس امامت سے الگ ہے جس پر بحث کی جاری ہے کیونکہ اگر مسئلہ اسی شکل میں ہوتا تو میں عرض کرچکا ہوں کہ اس میں وحی کی کوئی ضرورت ہی نہیں رہ جاتی 'زیادہ سے زیادہ اس میں وحی کو اسی قدر دخل ہوتا کہ اے پیغمبر !تمہارا فرض ہے کہ اپنی مصلحت کے مطابق جسے چاہواپنا جانشین معین کردو اور وہ جسے بہتر سمجھے اپنا جانشین بنآئے تا صبح قیامت اگر ہم امامت کو اتنے ہی سادہ طور سے حکومت کی سطح پر پیش کریں اور کہیں کہ امامت کا مطلب حکومت ہے تو ایسی صورت میں ہم دیکھتے ہیں کہ شیعی نقطۂ نظر کے مقابل میں اہل سنت کا نظریہ زیادہ پر کشش نظر آتا ہے ۔ کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ ایک حاکم کو اپنے بعد حاکم معین کرنے کا کوئی حق نہیں ہے بلکہ یہ حق امت اور ارباب مل و عقد کو حاصل ہے ۔ عوام اس کے حقدار ہیں ، حاکم کا انتخاب ڈیمو کریسی کے اصول پر ہونا چاہئے ۔ یہ حق عوام کا ہے لہٰذا عوام ہی حاکم منتخب کریں گے ۔ لیکن حقیقتاًمسئلہ اتنا سادہ اور ہلکا پھلکا نہیں ۃے ۔ مجموعی طور سے شیعوں کے یہاں علی اور تمام ائمہ معصومین کی خلافت کا مسئلہ تنصیصی تعیینی ہے ۔ اس کا مدارا ایک دوسرے مسئلہ پر ہےاور وہ مسئلہ اس سے بھی زیادہ بنیادی حیثیت کا حامل ہے ۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ائمہ علیہم السلام کی تعداد فقط بارہ افراد پر مشتمل ہے ، پھر ان ائمہ کے بعد حکومت کی صورت کیا ہوگی ؟ ہم فرض کرلیں کہ جس طرح پیغمبر اسلام نے علی کو معین فرمایا ، آپ کے بعد امام حسن (ع) پھر امام حسین (ع) حاکم ہوئےاور یہ سلسلہ حضرت حجت تک جاری رہتا ہے ۔ ایسی صورت میں قہری طور پر اس نقظۂ نظر کے مطابق جو ہم شیعہ اس سلسلہ میں رکھتے ہیں ۔ امام زمانہ کی غیبت کی کوئی ضرورت نہیں رہتی ۔ حضرت بھی اپنے آبائے کرام کی طرح ایک مختصر سی زندگی گزار کر اس دنیا سے رخست ہوجاتے ۔ اس کے بعد کیا ہوتا؟ کیا ائمہ کی تعداد بارہ سے بڑھ جاتی ؟ نہیں لہٰذا کوئی دوسری صوعرت عوام کے سامنے ہونی چاہئے ، ایک عادی صورت بالکل ویسی ہی جیسے آج بھی موجود ہے ۔ حضرت حجت غیبت کے زمانہ میں تو مسلمانوں کے حاکم ہو نہیں سکتے ۔ لہٰذا دنیاوی حکومت کا مسئلہ اپنی جگہ پھر باقوی رہ جاتا ہے !

حکومت ، امامت کی ایک فرع:
ہمیں ہر گز اس اشتباہ اور معالطہ میں نہیں پڑنا چاہئے کہ جہاں کہیں شیعوووں کے نزدیک امامت کا مسئلہ در پیش ہو، اسے حکومت کا مسئلہ قراردیں ۔نتیجہ میں یہ مسئلہ بہت ہی معمولی صورت اختیار کر لے اور صرف ایک فرعی حیثیت رہ جئے اور یہ کہا جائے کہ اب جبکہ حکو مت اور حاکم کا مسئلہ در پیش ہے تو کیا حاکم کو سب سے افضل ہء ہونا چاہئے ؟ ممکن ہے جو شخص حاکم ہو وہ نسبی طور سے تو افضل ہو واقعی افضل نہ ہو؟ یعنی سیاست اور نظم و تتدبر میں تو دوسروں سے بہتر ہو لیکن دوسرے اعتبارات سے بہت ہی پست ہو ۔ ایک اچھا سیاست داں اور منتظم ہو خائن بھی نہ ہو لیکن کیا ضروری ہے کہ وہ معصوم بھی ہو؟ کیا ضروری ہے کہ نماز شب پڑھتا ہے یا نہیں ؟فقہی مسائل جاتا ہے یا نہیں ؟ کیا ضروری ہے کہ جانے ؟ ان مسائل میں وہ دوسروں سے معلومات حاصل کر لیتا ہے ، فقط ایک نسبی و اعتباری افضلیت ا س کے لئے کافی ہے ۔ یہ تمام باتیں اس کانتیجہ ہیں کہ ہم نے مسئلہ امامت کو فقط حکومت کی سطح پر دیکھا اور معمولی قرار دے دیا یہ بہت بڑا مغالطہ ہے اور ایسا مغالطہ ہے جس میں بعض قدیم ( علماء علم کلام ) بھی مبتلا ہوچکے ہیں ۔ آج اسی مغالطہ کو بار بار دہرایا جاتا ہے اور ہوادی جاتی ہے ۔ یہاں تک کہ جب بھی امامت کا ذکر آتا ہے اس سے حکوعمت مرادلی جاتی ہے ۔ جبکہ حکومت مسئلہ امامت کی ایک چجوٹی سء شاخ اور معمولی فرع کی حیثیت رکھتی ہے ۔ ان دونوں کو آپس میں مخلوط نہیں کرنا چاہئے ۔ پھر امامت کیا ہے ؟

امامت دین بیان کرنے میں پیغمبر کا جانشین:
امامت کے سلسلہ میں جس چیز کو سب سے زیادہ اہمیت ہے وہ یہ ہے کہ امام دین کی تشریح اور اسے باین کرنے میں پیغمبر کا جانشین ہے ، فرق صرف یہ ہے کہ امام پر وحی نہیں نازل ہوتی ۔ بلا شبہ وحی صرف پیغمبر کارم پر نازل ہوتی تھی اور ان کی رحلت کے بعد و رسالت کا سلسلہ قطعی طور ہر بند ہوگیا ۔ امت کا مسئلہ یہ ہے کہ کیا پیغمبر اسلام کے بعد وہ تمام آسمانی تعلیمات جس میں نہ اجتہاد کو دخل ہے نہ شخصی رائے کو ، ان کا بیان یا تشریح و تبلیغ کسی ایک ہی فرد تک محدود ہے ؟ اور اس طرح جسے پیغمبر کی شان تھی کہ جب لوگ ان سے دینی مسائل دریافت کرتے تھے وہ یہ جانتے تھے کہ ان کا قول حق در حقیقت پر مبنی ہے ۔ اس میں شخص فکر یا رائے کو دخل نہیں ہے جس میں اشتبا ہ یا غلطی کا امکان ہواور دوسرے روز وہ اپنی بات کی تصحیح فرمائیں ۔ ہم پیغمبر کے بارے میں ہر گز یہ بات نہیں کہتے اور نہ یہ کہ سکتے ہیں ہماری نطر میں ان کا فلاں جواب درست نہیں ہے اور یہاں پر آپ جان بوجھ کو خواہشات نفسانی سے متا ثر ہوگئے ہیں کیو نکہ یہ باتیں عقیدہ ٔنبوت کے خلاف ہیں ۔ اگر قطعی دلائل سے ثابت ہوجائے کہ یہ جملہ پیغمبراسلام کا ارشاد ہے ، تو ہر گز یہ نہیں کہہ سکتے کہ پیغمبر نے فرمایا تو ہے لیکن اس میں ان سے اشتباہ ہوگیا ہے ۔ ایک مرجع تقلید
کے لئے تو یہ کہنا ممکن ہے اس نے فلاں سوال کے جواب میںاشتباہ اور غفلت کی یا جیسا کہ اور سب کے بارے میں کہہ دیتے ہیں کہ حالات سے متاثر ہوگئے ۔ لیکن پیغمبر کے بارے میں ایسی باتیں نہین کہی جاسکتیں ۔ یوں سمجھئے کہ جس طرح ہم قرآن کی آیت کے بارے میں یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہاں وحی نے اشتباہ کیا ہے یا نفسانی خواہشات اور بے انصافی سے کام لیا ہے ، وحی کے اشتباہ کا مطلب یہ ہوا کہ یہ آیت وحی نہیں ہے ( اسی طرح پیغمبر کے اقوال کے لئے بھی یہ سب نہیں کہہ سکتے ) اب یہ سوال یہ ہے کہ کیا پیغمبر کے بعد بھی کو ئی ایسا شخص موجود تھا جو احکام دین کی تشریح و تفسیر کے لئے پیغمبر کے مونند مرکزی حیثیت کا ھامل ہو ؟ ایک انسان کامل ان خصوصیات کا حامل موجود تھا یا نہیں ؟ ہم کہتے ہیں کہ ایسا شخص موجود تھا ( اور وہ علی اور ان کے بعد ائمہ معصومین تھے ) بس فرق یہ ہے کہ پیغمبر براہ راست وحی کے ذریعہ دینی احکام بیان فرماتے ہیں اور ائمہ جو کچھ فرماتے ہیں پیغمبر سے اخذ کرکے فرماتے ہیں پیغمبر اسلام نے میرے لئے علم کا ایک باب کھولا ۔ اس باب کے ذریعہ مجھ پر علم کے ہزار باب کھل گئے ۔ ہم اس کی وضاحت نہیں کر سکتے کہ ایسا کیسے ہو ا ۔ جس طرح وحی کے لئے ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ پیغمبر اسلام خدا کی طرف سے کیسے علم حاصل کرتے تھے ۔ یوں ہی ہم اس کی وضاحت بھی نہیں کر سکتے کہ پیغمبر اکرم اور حضرت علی کے درمیان کس نوعیت کا معنوی و روحانی رابطہ تھا کہ پیغمبر اسلام نے تمام حقائق و معارف کما ھو حقہ و بتمامہ ، جو اس کا حق تھا کامل طور پر حضرت علی کو تقسیم فرمادئے اور آپ کے علاوہ کسی سے بیان نہ فرمائے ۔ حضرت علی خود نہج البلاغہ میں ( اس طرح کی عبارتیں دوسری جگہوں پر بھی بہت ہیں ) فرماتے ہیں کہ : میں پیغمبر اکرم کے ہمراہ غار حرا میں تھا ، ( اس وقت آپ کمسن تھے ) کہ میں نے ایک درد ناک گریہ کی آواز سنی ، عرض کیا یا رسول اللہ ، جب آپ پر وحی نازل ہورہی تھی میں نے شیطان کے رونے کی آواز سنی ہے ۔ آپ نے فرمایا :یا علی ! انک تسمع ما اسمع و تریٰ ما اریٰ وٰ لکنّک لست بنبیّ (۱) نہج البلاغہ ، خطبہ نمبر ۱۹۲ ،، اے علی ! جو کچھ میں سنتا ہوں تم بھی سنتے ہو اور جو کچھ میں دیکھتا ہوں تم بھی دیکھتے ہوں ، بس فرق یہ ہے کہ تم نبی نہیں ہو) اگر وہیں حضرت علی کے پاس کوئی دوسرا شخص بھی موجود ہوتا تو وہ آواز نہیں سن سکتا تھا ۔ کیونکہ یہ سماعت فضا میں گردش کرنے والی عام آواز کے سننے والی سماعت نہیں تھی جسے ہر صاحب گوش سن سکتے بلکہ ، یہ سماعت ، بصارت اور احساس کچھ اور ہی ہے ۔

حدیث ثقلین اور عصمت ائمہ علیہم السلام:
مسئلہ امامت کی بنیاد اس کا وہی معنوی پہلو ہے ۔ ائمہ یعنی پیغمبر کے بعد ایسے معنوی انسان ، جو انہیں معنوی طریقوں سے اسلام کی معرفت رکھتے ہیں اور اسے پہچانتے ہیں اور پیغمبر ہی کے مانند خطاؤں ، لغزچوں اور گناہوں سے محفوظ و معصوم ہیں ۔ امام ایک ایسے قطعی و یقینی مرجع و مرکزی کی حیثیت رکھتا ہے کہ اگر اس سے کوئی بات سنی جا ئے تو اس میں نہ کسی خطا یا لغزش کا احتمال دیا جاسکتا ہے ۔ نہ ہی اس سے جان بوجھ کر انحراف ہوسکتا ہے ۔ اور اس کو دوسرے الفاظ میں عصمت کہتے ہیں ۔ یہی وہ منزل ہے جہاں شیعہ کہتے ہیں کہ پیغمبر گرامی کا ارشاد : "الی تارک فیکم الثقلین کتاب اللہ و عترتی "[7] میں تمہارے درمیان دو گراں قدر چیزیں چھوڑے جارہا ہوں ایک قرآن ہے اور دوسرے میری عترت ) مسئلہ عصمت میں نص کی حیثیت رکھتی ہے ۔
اور جہاں تک یہ سوال ہے کیا آیا پیغمبر نے یہ بات کہی یا نہی ؟ کوئی شخص پیغمبر کی اس حدیث سے انکار نہیں کر سکتا ہے ۔ یہ ایسی حدیث نہیں ہے جسے صرف شیعوں نے نقل کیا ۔ بلکہ شیعوں سے زیادہ اہل سنت نے اپنے مقالہ میں اس حدیث کو یوں نقل کیا تھا انی تارک فیکم ثقلین کتاب اللہ وسنتی ۔ مرحوم آیۃ اللہ بروجردی جو واقعاً تمام معنی میں عالم روحانی تھے اور ان مسائل میں عاقلانہ فکر اور گہری بصیرت رکھتے تھے ۔ آ پ نے ایک فاضل طالب علم آقای شیخ قوام الدین وشنو ہ ای کی رہنمائی اس امر کی طرح فرمائی کہ مذکورہ حدیث کو اہل سنت کی کتابوں سے نقل کریں ۔ یہ بزرگ بھی کتابوں پر گہری نظر رکھتے تھے انھوں نے اہل سنت کی تقریباً دو سو سے زیادہ معتبر اور قابل اعتماد کتابوں سے اس حدیث کو انہیں لفظوں میں نقل فرمایا ۔ انی تارک فیکم الثقلین کتاب اللہ وعترتی "یہ حدیث متعدد مقامات پر نقل ہوئی ہے ۔ کیونکہ پیغمبر نے اسے مختلف موقعوں اور متعدد جگہوں پر انہیں الفاظ میں ارشاد فرمایا ہے ۔ البتہ کہنے کامطلب یہ نہیں ہے کہ پیغمبر نے ایک مرتبہ بھی یہ نہ فرمایا ہوگا کہ میں تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑے جارہا ہوں "کتاب و سنت " کیونکہ قرآن وعترت " اور" کتاب و سنت " میں کوئی ٹکراؤ نہیں ہے ۔ اس لئے کہ عترت ہی سنت کو بیان کرنے والی اور اس کی وضاحت کرنے والی ہے ۔ بات یہ نہیں ہے کہ ہم سنت و عترت میں سے کسی کی طرف رجوع کریں ۔ ایک طرف پیغمبر کی ایک سنت ( حدیث ) ہو اور ایک طرف عترت کی ایک فرد موجود ہو تو اس صورت میں کسے انتخاب کرے !بلکہ بات یہ ہے کہ عترت کی سنت پیغمبر کی صحیح اور واقعی وضاحت کرنے والی ہے اور پیغمبر کی تمام سنتیں انہیں کے پاس محفوظ ہیں ۔" کتاب اللہ وعترتی " کا مطلب یہ ہے کہ ہماری سنت کو ہماری عترت سے حاصل کرو اس کے علاوہ خود یہحدیث " انی تارک فیکم الثقلین کتاب اللہ وعترتی " سنت ہے یعنی حدیث پیغمبر ہے۔ لہٰذا ان دونوں میں کوئی ٹکراؤ نہیں ہے پھر بھی اگر کسی ایک جگہ وہ غیر قطعی طور پر ۔ پیغمبر نے " کتا ب اللہ وسنتی " فرمایا ہوتو بہت سی جگہوں پر قطعی طور سے " کتاب اللہ و عترتی " فرمایا ہے ۔ اگر کسی ایک کتاب میں حدیث اس شکل میں ذکر ہوئی ہے ، تو کم ازکم دو سوکتابوں میں یہ حدیث کتاب اللہ وعترتی " کے ساتھ ذکر ہوئی ہے
بھر حال شیخ قوام الدین وشنوہای نے وہ تمام حوالے ایک رسالے کی شکل میں تحریر فرمایا اور اسے " دارلتقریب مصر " بھیجا ہے ۔ ادارہ دارالتقریب نے بھی اسے کم و کاست چھاپ دیا کیونکہ اسیے کسی طرح رد نہیں کیا جاسکتا تھا اب اسے مرھوم آیۃ اللی بروجردی بھی دوسروں کی طرح صرف شروغوغا اور فریاد بلند کرتے اور فرماتے یہ غلط اور بکواس کرتے ہیں ۔ حق اہل بیت سے کھیلنا چاہتے ہیں ، ہمیشہ بد نیتی سے کام لیتے ہیں ؟ اب دیکھیں کہ امامت کی اصل روح کیا ہے ، اسلام جو ایک جامع ، وسیع و ہمہ گیر اور کلی دین ہے ، کیا اسی قدر ہے جتنا قرآن میں اصول و کلیات کے طور پر بیان ہوا ہے یا پیغمبر اکرم کے کلمات میں جنہیں خود اہل سنت نے بھی نقل کیا ہے ، اس کی توضیح و تفسیر بیان ہوئی ہے ؟ کیا جو کچھ تھ ایہی اسلام تھا ؟ یقیناً اسلام کا نزول پیغمبر پر تمام ہوچکا لیکن جو کچھ بیان ہوا کیا یہی کامل اسلام تھا ؟ ( یعنی تمام نازل شدہ اسلام بیان بھی ہوچکا ؟) یا آنحضرت کے بعد بھی پیغمبر پرنازل شدہ اسلام کی بہت سی باتیں ابھی اس لئے بیان سے باقی رہ گئی تھیں کہ ابھی ان کی ضرورت پیش نہیں آئی تھی اور زمانہ کےساتھ رفتہ رفتہ جب حالات و مسائل پیش آتے تو بیان نپہ شدہ مسائل بیام کئے جاتے ۔ چنانچہ یہ ساری دینی امنتیں حضرت علی کے پاس محفوظ تھیں اور ان کے اوپر انہیں عوام کے سامنے بیان کرنے کی ذمہ داری تھی ۔ یہی مامت کی روح اور اصل حقیقت ہے ۔ ایسی صورت میں یہی حدیث "کتاب اللہ وعترتی " ائمہ کی عصمت کو بھی بیان کرتی ہے ۔ کیونکہ پیغمبر اسلام فرماتے ہیں : " دین ان ہی دونوں سے حاصل کرو ۔ جس طرح قرآن معصوم ہے اور اس میں کسی خطا کا امکان نہیں ہے یوں ہی عترت بھی معصوم ہے ۔ اور یہ محال ہے کہ پیغمبر پوری قاطعیت اور یقین کے ساتھ فرمائیں کہ دین فلاں شخص سے حاصل کرو ، جبکہ وہ شخص جس کے لئے آنحضرت فرمائیں ، بعض مواقع پر اشتباہ و غلطیاں بھی کرتا ہو!
یہی وہ نقطہ ہے جہاں دین کے اخز اور بیان کرنے میں شیعہ اور سنی نظریات میں بنیادی فرق نظر آتا ہے ۔ اہل سنت یہ کہتے ہیں کہ : جہاں پیغمبر اسلام کی رحلت کے بعد وحی کا سلسلہ منقطع ہوا وہیں دین کے واقعی اور حقیقی بیان کا وہ عصمتی سلسلہ بھی جس مین کسی قسم کی خطا یا اشتباہ کا امکان نہ تھا ، تام ہوگیا ۔ اب جو کچھ ہم تک قرآن و احادیث پیغمبر اسلام کی شکل میں پہنچا اور ہم نے اس سے استنباط کیا ۔ وہی سب کچھ ہے اس کے علاوہ کچھ بھی نہیں ۔

حدیثیں نہ لکھی جائیں
ان لوگوں نے خود ایسے حالات پیدا کردئے جنھوں نے ان کے نظریہ کو کمزور بنادیا ۔ اور وہ یہ ہے کہ عمر نے پیغمبر کی حدیثیں لکھنے پر روک لگادی اور حکم دیا کہ حدیثیں نہ لکھی جائیں ۔ اور یہ یاک تاریخی وا قعیت ہے ۔ اگر ہم بد بینی کے الزام سے بچنے کی غرض سے ایک شیعہ کی حیثیت سے بات نہ کریں اور اپنی جگہ ایک یورپی مشترق کا خیال کریں ۔ تو وہ بھی اگر بہت زیادہ خوش بینی سے کام لے گا تو یہی کہے گا کہ عمر نے یہ حکم اس لئے دیا تھا کہ وہ صرف قرآن کو دینی احکام کا واحد منبع و مرجع بنانے پر بے انتہا زور دیتے تھے اور اگر لوگ حدیثوں کی طرف زیادہ مائل ہوجاتے تو قرآن سے ان کا رابطہ کم ہوجاتا ۔ اسی لئے انہوں نے حدیثیں لکھنے سے منع کردیا ۔ یہ واقعہ تاریخ کے قطعیات میں سے ہے ، صرف شیعوں کی کہی ہوئی بات نہیں ۔ عمر کے زمانہ میں لوگ نہ حدیث پیغمبر لکھنے کی جرأت کرتے تھے اور نہ یہ کہتے تھے کہ یہ پیغمبر کی حدیث ہے ۔ حتیٰ یہ کہ پیغمبر سے حدیث کی روایت بھی نہیں کرسکتے تھے ( البتہ حدیث باین کرنا منع نہ تھا ) یہاں تک کہ عمرابن عبد العزیز ( ۹۹ہجری تا ۱۰۱ ئیسوی)نے یہ جمود توڑا اور حکم دیا کہ حدیثیں لکھی جائیں ۔ اب جبکہ عمرابن عبد العزیز نے عمر ابن خطاب کی سیرت پر خچ نسخ کھینچ دیا اور کہا کہ پیغمبر کی حدیثیں ضرور لکھی جائیں تو وہ افراد جنھوں نے سینہ بہ سینہ احادیث پیغمبر سےکچھ محفوظ کر رکھا تھا ، آئے ،روایت لہ اور انھیں نو شتوں کی شکل میں محفوظ کر لیا گیا ۔ بہر حال احادیث رقم کرنے سے لوگوں کو مدت تک روک دیئے جانے کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کا ایک بڑا حصہ تلف ہوگیا ۔
سب جانتے ہیں کہ قرآن میں جو احکام بیان ہوئے ہیں بہت ہی مجمل ، مختصر اور جزئی ہیں ۔
قرآن سراسر کلی احکام کا مجموعہ ہے ۔ مثلاً قرآن جو نماز پر اس قدر زور دیتا ہے ، اس میں اس عبادت کے لئے " اقیموا الصلا ۃ " اور " اسجدو ا وارکعوا " یعنی نماز قائم کرو یا سجدہ کرو اور رکوع کرو ، سے زیادہ کچھ اور نہیں آتا ہے ۔ حتیٰ اس کی بھی وضاحت نہیں کی گئی کہ نماز کس انداز میں پڑھی جائے گی ۔ اسی طرح حج جس کے بارے میں اتنے سارے احکام بیان کئے ہیں ۔ اور پیغمبر خود بھی ان احکام کے پابند تھے لیکن قرآن میں ان سے متعلق کوئی چیز بیان نہیں کی گئے ہے ۔ دوسری طرف سنت پیغمبر یعنی حدیثوں کا جو ہول ہوا ہم اسے باین کر چکے ہیں ۔ اور فرض کریں اگر یہ صورت حال پیدا نہ بھی ہو ئی تھی ، پھر بھی پیغمبر کو اتنا موقع کہا ں ملا کہ تمام حلال و حرام کو باین فرمادیتے ۔ مکہ کی وہ تیرہ سالہ زندگی ۔ جس میں لوگ شدید دباؤ اور سختیوں کے باوجود مسلامن ہوئے تھے شاید ان کی تعداد چار سو افراد تک بھی نہیں پہونچی ۔ ایسے سخت حالات میں آنحضرت سے ملاقات بھی ڈھکے چھپے ہوا کرتی تھی ۔ ان میں سے بھی ستر خانوادوں پر مشتمل مسلمانوں کا ایک گروہ جو مسلمانوں کی نصف جمعیت یا اس سے بھی زیادہ تھے ، حبشہ ہجرت کرگیا ۔ ہاں مدینہ اس حیثیت سے امن کی جگہ تھی لیکن وہاں بھی پیغمبر کی مصروفیت بہت زیادہ تھیں اگر رسول اکرم اس پورے تیئیس سال کے عرصہ میں ایک معلم کی حیثیت سے لوگوں کو مدرسہ کی صورت میں جمع کرکے سرف احکام بیان کرنے کے لئے وقت کافی نہ ہوتا ۔ چہ جائیکہ ان حالات میں خصوصاً جبکہ اسلام انسانی زندگی کے ہر موڑ اور ہر پہلو پر ایک حکم رکھتا ہے ۔

قیاس کی پناہ میں:
نتیجہ یہ ھواکہ اہل سنت اپنے مفروضہ کے مطابق عملی طور پر احکام اسلام کی تنگ دستی کا احساس کرنے لگے۔ جب مسئلہ پیش آتا، اور دیکھتے تھے کہ قرآن میں اس سے متعلق کوئی حکم بیان نہیں ہوا ہے ، تو (باقی ماندہ محفوظ)حدیثوں میں حل تلاش کرتے تھے، جب وہاں بھی مایوسی ہوتی تھی تو ظاہر ہے مسئلہ بغیر کسی حکم کے چھوڑ ا نہیں جا سکتا ، لہٰذا کسی نہ کسی طرح مسئلہ کا حکم تلاش کرنے کے لئےقیاس کا سہار ا لیتے تھے، قیاس ، یعنی جن مسائل کا حکم قرآن یا حدیث میں یہ حکم بیان ہوا ہے اور چونکہ یہ مسئلہ بھی اس سے ملتا جلتا ہےلہذاس کا حکم بھی وہی ہوگا۔خلاصہ یہ کی احکام دین کی بنیاد،،شاید،،پرکھڑی کی گیء۔ایسےمقاماتایک دونہیی تھےجہاںحدیث ناکافی ثابت ہوئی ۔ دنیائے اسلام میں خاص طور سے عباسیوں کے زمانہ میں زیادہ وسعت پیدا ہوائی مختلف ممالک فتح ہوئے اور صرورتیں نت نئے مسائل کی شکل میں سر اٹھانے لگیں اور جب لوگ قرآن و احادیث میں ان کا حل نہین پاتے تو دھڑ ادھڑ قیاس آرائیوں سے کام لیتے تھے ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ دو گروہ بن گئے ایک فرقہ قیاس کا منکر ہوگیا جس میں احمد بن حنبل اور مالک بن انس شامل تھے ( مالک بن انس کے بارہ میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے پوری زندگی میں صرف دو مسئلہ مین قیاس کیا ) دوسرا گروہ تھا جس نے قیاس کے رہوار کو بے لگام چھو ڑدیا اور وہ ساتویں آسمان پر پہنچ گیا ۔ اس کے علم بردار ابوحنیفہ تھے ۔ ابو حنیفہ کہتے تھے کہ یہ تمام حدیثیں جو پیغمبر سے ہم تک پہنچی ہیں بالکل قابل اعتماد نہیں ہیں کیونکہ نہیں معلوم کہ واقعی پیغمبر نے یہ باتیں ارشاد فرمائی ہیں ؟ لوگ کہتے ہیں کہ آنحضرت نے ارشاد فرمایا ہے : میرے نزدیک تو آنحضرت کی صرف پندرہ حدیثیں ثابت ہیں جن کے بارے میں کہہ سکتا ہوں کہ انہیں پیغمبر نے فرمایا ہے اور بس ۔ بقیہ مسائل میں ابو حنیفہ قیاس کرتے تھے ۔ شافعی نے میانہ روی اختیار کر رکھی تھی یعنی بعض مسائل میں احادیث پر اعتقاد کرتے تھے اور بعض مواقع پر قیاس سے کام لیتے تھے ۔ نتیجہ فقہ ایک عجیب و غریب کھچڑی کی شکل می ناختیار کر گئی ۔ کہتے ہیں کہ ابوحنیفہ چونکہ نسلی طور پر ایرانی تھے اور ایرانیوں کی توجہ عقلی مسائل کی طرف زیادہ ہوا کرتی ہے مزید یہ کہ وہ مرکز حدیث یعنی مدینہ سے دور عراق میں زندگی بسر کرتے تھے لہٰذا بہت زیادہ قیاس واقع ہوئے تھے ۔ بیٹھے قیاس کے تانے بانے بناکر تے تھے ۔ خود اہل سنت نے لکھا ہے کہ ایک روز آپ حجام کے یہاں گئے ، آپ کی داڑھی کے بال کھچڑی تھے ، ابھی سفید بال زیادہ نہیں تھے ، حجام سے کہا ، سارے سفید بال اکھا ڑدو ۔ خیال یہ تھا کہ اگر تمام سفید بال جڑ سے اکھڑ جائیں گے تو انکا وجود ہی ختم ہوجا ئے گا ۔ حجام نے کہا ، اتفاق سے سفید بالوں کی خاصیت یہ ہے کہ اکر اکھا ڑدئے گئے تو اور زیادہ نکل آئیں گے ۔ آپ نے فوراً قیاس کرکے فرمایا ، تو سیاہ بالوں کو اکھاڑڈالو ، یہ قیاس ہے ۔ آپ نے قیاس یہ کیا کہ واگر سفید بال اکھاڑنے سے زیادہ اگتے ہیں تو جب سیاہ بال اکھاڑے جائیں گے وہ بھی زیادہ اگیں گے ۔ !جبکہ اگر یہ قاعدہ ہو بھی تو صرف سفید بالوں کے لئے جاری کیا جائے گا ۔ کالے بالوں کے لئے نہیں ۔ چنانچہ آپ فقہ میں بھی طریقہ عمل میں لاتے تھے ۔

قیاس اور شیعوں کا نظریہ:
جب ہم شیعوں کی روایات کو دیکھتے ہیں تو نظرآتا ہے کہ قیاس کو سرے سے قبول ہی نہیں کرتے بلکہ بنیادی طور سے اس فکر ہی کو غلط اور اشتباہ سمجھتے ہیں کہ کتاب خدا اور احادیث پیغمبر کافی و وافی نہیں ہیں ۔ قیاس کا سوال تو واہاں پیدا ہوتا ہے جب یہ کہا جائے کہ کتاب و سنت تمام احکام دین بیان کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے اور چونکہ وہ ناکافی ہیں اس لئے قیاس سے کام لیا جا۴ے ۔ جبکہ یہ سراسر غلط ہے کیونکہ خود پیغمبر اسلام سے براہ راست بالواسطہ طور پر ان کے اوصیاء کرام کے ذریعہ احادیث کا اتنا بڑا ذخیرہ ہم تک پہنچا ہے کہ ان حدیثوں کے کلیات کی طرف رجوع کرنے کے بعد قیاس کی ضرورت ہی نہیں رہ جاتی ۔ دینی نقطۂ نظر سے امامت کی روح یہی ہے کہ اس کے ذریعہ احادیث اکیہ ذخیرہ ہم تک پہنچا ۔ اسلام صرف ایک مسلک نہیں ہے ، جس کا بانی اپنے افکار و نظریات کا اجراء کرنے کے لئے حکومت کا محتاج ہوتا ہے ۔ حکومت کا اس میں کیا دخل اسلام ایک دین ہے ایک دین کی وضع اور وہ بھی اسلام جیسے دین کی اہمیت و ہمہ گیری کو پیش نظر رکھنا چاہئے ۔
معصوم کی موجودگی میں انتخاب کی گنجائش ہی نہیں
امت کی قیادت رہبری کی رو سے امامت کا مسئلہ یہ ہے کہ اب جبکہ پیغمبر کے بعد ان ہی کے زمانہ کی طرح ایک معصوم موجود ہےا ور پیغمبر نے خود ایسے شخص کو اپنا نائب و وصی معین فرمادیا ہے جو عام افراد کی سطح کا نہیں ہے بلکہ اس مٰں پیغمبر جیسی ہی استثنائی صلاحیتیں موجود ہیں ۔ چنانچہ ایسے شخص کی موجودگی میں کسی بھی انتخاب یا شوریٰ وغیرہ کی ضرورت باقی نہیں رہتی ، جس طرح پیغمبر کے زمانہ میں یہ سوال نہیں اٹھتا تھا کہ پیغمبر تو صرف پیغام لانے والے ہیں اور ان پر وحی نازل ہوتی ہےاب حکومت کا مسئلہ طے کرنا شوریٰ یا عوام کی ذمہ داری ہے ، عوام آئیں اور رائے دیں کہ خود پیغمبر کو حاکم قرار دیا جائے یا کسی دوسرے کو حاکم بنایا جائے بلکہ سب کا یہی خیال تھا کہ پیغمبر اسلام کےایسے بارہ جانشین موجود ہیں ، جو دو تین صدیوں کے عرصہ میں اسلام کی بنیادوں کو پورے طور سے مستحکم کردیں اور اسلام صاف و شفاف سر چشمہ اور معصوم افراد کے ہوتے ہو ئے کسی انتخاب یا شوری کی گنجائش بہر حال نہیں ہر جاتی ۔ کیا یہ بات عقل میں آنے والی ہے کہ ہما رے درمیان ایک ایسا شخص موجود ہو جو معصوم ہونے کے ساتھ ایسا عالم بھی ہو جس سے کسی خطا یا اشتباہ کا امکان بھی نہ پایا جاتا ہو اس کے باوجود اس کی جگہ پر ہم کسی دوسرے کا انتخاب کریں ؟!
اس کے علاوہ جب علی پیغمبر کی جانب سے ایک ایسی امامت و جانشین پر فائز ہوئے تو قہری طور پر دنیاوی حا کمیت و رہبری بھی ان ہی کے شایان شان ہوگی ۔ پیغمبر نے بھی علی کے لئے اس منصب کی صراحت کردی ہے ۔ لیکن آنحضرت نے منصب امامت کی سراحت و وضاحت اس لئے فرمائی ہے کہ وہ اس دوسرے منصب کے حقدار بھی ہیں ۔ بنا بر این غیبت امام زمانۂ کے دوران جبکہ ویسے ہی وسیع اختیار کا حامل کوئی معصوم امام موجود نہیں ہے یو اگر فرض کرلیں کہ اگر صدر اسلام میں ہو حالات پیش نہ آتے اور حضرت علی ہی خلیفہ و جانشین ہوتے ، ان کے بعد امام حسن (ع) ، پھرامام حسین اور یہ سلسلہ حضرت ولی عصر تک قائم رہتا اور وہ صورت رونما ہوتی جو امام کی غیبت کا سبب بنی اور ان کے بعد جب کوئی امام معصوم ہمارے درمیان موجود نہ ہوتا تب حکومت کا مسئلہ دوسرا ہوجاتا۔ اور اس وقت یہ سوال اٹھتے کہ یہ حکومت کس کا حق ہے ؟ کیا حاکم ، فقیہ جامع الشرائط ہی ہوسکتا ہے ؟ یایہ چیز حکومت کے لئے لازم نہیں ہے ۔ کیا عوام کو حاکم کے انتخاب کا حق ہے ؟ یا ؟!
بنابر ایں ہمیں مسئلہ امامت کو ابتدائ سے ہی حکومت جیسا سادہ اور دنیاوی مسئلہ نہیں بنا دینا چاہئے ، تاکہ پھر اس کی روشنی میں یہ سوال اٹھایا جا ئے کہ اسلام کی نظر میں حکومت زبر دستی کی تنصیص و تعیینی ہے یا انتخابی ؟اور پھر یہ سوال پیدا ہوکہ آخر شیعہ اس طرح کی حکومت پر کیوں اصرار کرتے ہیں ؟ اصل میں مسئلہ یوں نہیں ہے بلکہ شیعوں کے یہاں تو امامت کا مسئلہ ہے اور امام کی ایک شان حکومت بھی ہے ۔ اور یہ طے ہے کہ امام معصوم کے ہوتے ہوئے کسی اور کوحکومت کا حق نہیں ہے ۔ اور پیغمبر اکرم نے علی کو منصب امامت پر معین فرمایا ہے ، جس کالازمہ حکومت بھی ہے اس کے علاوہ بعض مواقع پر لفظ حکومت سے بھی علی کی حکامیت کی صراحت فرمائی ہے لیکن اس کی بنیاد بھی امامت ہی کو قرار دیا ہے ۔

روحانی و معنوی ولایت:
میں اس موضوع پرگزشتہ ث کے دوران ایک بات کرچکا ہوں ۔ البتہ میں خود ذاتی طور پر اس کا اعتقاد رکھتا ہوں اور اس کو ایک بنیادی مسئلہ سمجھتا ہوں لیکن وہ بات شاید شیعیت کے ارکان میں شمار نہیں ہوتی ۔ اور وہ یہ کہ کیا پیغمبر اکرم کی حیثیت اتنی تھی کہ آپ پر خدا کی طرف سے الٰہی احکام اوراسلام کے اصول و فروع وحی ہوتے تھے ۔ اور وہ صرف اسلام ظاہری وواقعی سے ہی متعلق معلومات رکھتے تھے ، کیا آپ کی شان یہ نہیں تھی کہ خداکی جانب سے اس کے علاوہ اور بھی کچھ جانتے اور کیا منزل عمل و تقوائے پر وردگار میں بھی وہ (صرف ) خطاؤں سے محفوظ و معصوم تھے اوربس ؟ یوں ہی کیا ائمہ معصومین علیہم السلام کا مرتبہ بھی فقط اتنا ہی ہے کہ اگر چہ ان پر وحی نازل نہیں ہوتی تھی ۔ انہوں نے اسلام کے اصول و فروع اور کلیات و جزئیات ، پیغمبر سے حاصل کئے ہیں او ر جس طرح پیغمبر سے علم و عمل میں کوئی غلطی یا اشتباہ نہیں ہوتا یوں ہی وہ بھی خطاؤں سے محفوظ و معصوم ہیں اور بس ؟یا پیغمبر اسلام اور ائمہ علیہم السلام کے مراتب اس سے بڑھ کر بھی کچھ اور ہیں ؟ یہ حضرات دین و معارف سے مظبوط اسلامی مسائل کے علاوہ اور کن علوم سے آگاہ تھے ؟ کیا یہ سچ ہے کہ انسانوں کے اعمال پیغمبر کی مبعث میں پیث کئے جاتے ہیں ؟ حتیٰ ہر امام کے زمانہ میں اس عہد کے لوگوں کے اعمال کی خدمت میں بھی پیش ہوتے ہیں ؟ مثال کے طور پر آج امام زمانہ نہ صرف شیعوں بلکہ تمام انسانوں پر حاضر و ناظر ہیں ان کے اعمال سے واقف ہیں اور کسی سے بھی غافل نہیں ہیں ؟ حد یہ ہے کہ امام کے لئے حیات اور موت میں کوئی فرق نہیں ہے ۔ یعنی جیسا کہ میں عرض کرچکا ہوں ، جب آپ امام رضا (ع) کی زیارت کو جاتے ہیں اور کہتے ہیں " السلام علیک " تو اس کامطلب یہ ہے کہ آپ اس دنیا میں ایک زندہ انسانوں کے روبرو کھڑے ہیں اور کہہ رہے ہیں :"السلام علیک " اور وہ بھی یوں ہی آپ کو دیکھتے اور محسوس کرتے ہیں ۔ یہی ولایت معنوی ہے ۔
یہ بھی عرض کرچکا ہوں کہ اس نقطہ پر عرفان اور تشیع میں مشابہت اور یک رنگی پائی جاتی ہے ، یعنی دونوں کے افکار ایک دوسرے سے کافی نزدیک ہیں ۔ اہل عرفان کا اعتقاد ہے کہ ہر دور میں ایک نہ ایک قطب اور انسان کامل ضرور ہونا چاہئے ۔ اور شیعہ کہتے ہیں کہ ہر دور میں روئے زمین پر ایک امام و حجت ضرور رہتا ہے اور وہی انسان کامل ہے اورہم فی الحال اس بحث کو چھیڑنا نہیں چاہتے کیونکہ اس مسئلہ میں ہم میں اور اہل سنت میں کوئی اختلاف نہیں ہے ۔ شیعہ اور اہل سنت میں اختلاف ان دو مسئلوں میں ہے جن کا ہم پہلے بھی ذکر کر چکے ہیں ۔ ایک یہ کہ امامت ، احکام دین بیان کرنے کی ذمہ دار ہے اور دوسرے امامت یعنی مسلمانوں کی قیادت و رہبری ۔

حدیث ثقلین کی اہمیت:
امامت کے مسئلہ میں " حدیث ثقلین " کو فراموش نہیں کرنا چاہئے ۔ ار آپ کسی عام اہل سنت یا ایک عام سنی سے ہی ملاقات کریں تو اس سے پوچھیں کہ آیا کوئی جملہ پیغمبر اسلام نے فرمایا ہے کہ نہیں ؟ اگر وہ انکار کرے تو اس کے جواب میں ان ہی کی متعدد کتابیں ان کے سامنے پیش کی جاسکتی ہیں ۔ آپ دیکھیں گے کہ علماء اہل سنت کسی طرح بھی اس حدیث کے وجود یا اس کی صحت سے انکار نہی ںکرسکتے اور حقیقتاً انکار کرتے بھی نہیں ۔ [8]
اس کے بعد آپ ان سے پوچھیں کہ یہ جو پیغمبر نے قرآن اور عترت و اہل بیت کو دین کے حصوں کے لئے الگ الگ مرجع قراردیا ہے ، آخر یہ اہل بیت (ع)کون سے افراد ہیں ؟ اصل میں یہ حضرات پیغمبر(ص) کی عترت اور غیر عترت میں کسی فرق و امتیاز کے قائل نہیں ہیں ۔ بلکہ وہ صحابہ سے روایتیں بھی نقل کرتے ہیں تو علی سے کہیں زیادہ دوسروں سے نقل کرتے ہیں اور علی سے اگر کبھی کوئی روایت نقل کی بھی ہے تو صرف ایک راوی کے عنوان سے ، نہ کہ ایک مرجع ومصدر کی حیثیت سے۔

حدیث غدیر:
ہم عرض کرچکے ہیں کہ جو دین کے منبع و مرجع کی حیثیت رکھتا ہے ، وہی دین کا رہبر بھی ہوگا ۔ پیغمبر نے علی (ع) کی رہبری کے سلسلہ میں بھی صراحت سے ذکر کیا ہے ۔ اس کا ایک نمونہ حدیث غدیر ہے ، جسے پیغمبر اکرم(ص) نے حجۃ الوداع کے دوران غدیر خم کے مقام پر ارشاد فرمایا تھا ۔ حجۃ الوداع پیغمبراسلام (ص) کا آخری حج ہے ۔ شاید آپ (ص) نے فتح مکہ کے بعد ایک سے زیادہ حج نہیں فرمایا ۔ البتہ حجۃ الوداع سے پہلے حج عمرہ ادا کیا تھا ۔ چنانچہ حجۃ الوداع کے موقع پر آپ نے عام اعلان فرمایا اور لوگوں کو خصوصیت سے اس حج میں شرکت کی دعوت دی۔ گویا مسلمانوں کے کثیر مجمع کو اپنے ہمراہ لیا اور مختلف مقامات یعنی مسجد الحرام میں، عرفات میں، منیٰ میں اور منیٰ سے باہر نیز غدیر خم وغیرہ میں تمام مسلمانوں سے خطاب کرتے ہوئے متعدد خطبے ارشاد فرمائے ۔ منجملہ غدیرخم میں جبکہ آپ جگہ سیگہ پر مغز مطالب بیان فرماچکے تھے، ایک مسئلہ کو آخری مطلب کے طور پر بڑے شدو مدکے ساتھ بیان فرمایا " یاایھالرسول بلغ ماانزل الیک من ربک وان لم تفعل فما بلغت رسالتہ"[9] (اے رسول ! آپ وہ امر لوگوں تک پہنچا دیجئے جو آپ کے پروردگار کی جانب سے آپ پر نازل ہوا ہے ۔ اور اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو گویا رسالت ہی انجام نہ دی ۔"اگر پیغمبر اکرم (ص) نے اس سے قبل عرفات، منیٰ اور مسجدالحرام میں اپنے خطبوں کے درمیان اصول و فروع کے تمام اسلامی کلیات بیان کردیئے تھے ۔ اور وہ بیانات آپ کے اہم ترین خطبات میں ہیں۔ پھر اچانک غدیر خم میں فرماتے ہیں کہ اب میں وہ بات بیان کررہاہوں کہ اگر اسے ذکر نہ کیا تو گویا رسالت ہی انجام نہ دی " فمابلغت رسالتہ " یعنی مجھ سے فرمایا گیا ہے کہ اگر اسے نہ بیان کیا تو کچھ بھی بیان نہ کیا یعنی پوری رسالت کی محنت بے کار ہوکر رہ جائے گی ۔ اس کے بعد آپ فرماتے ہیں : الست اولیٰ بکم من انفسکم ؟( کیا میں تمہارے نفسوں ( یا تم سے زیادہ حاکم نہیں ہوں ) یہ قرآن کی اس آیت کی طرف اشارہ ہے۔ " النبی اولیٰ بالمومنین من انفسہم [10] ( نبی مومنین کے نفسوں پر ان سے زیادہ حاکم و ولی ہے ) چنانچہ جب آپ نے فرمایا : کیا تم پر میرا حق تسلط اور ولایت خود تم سے زیادہ نہیں ہے ؟ سب نے ایک ساتھ کہا : بلیٰ (ہاں ) یا رسول اللہ تو حضرت (ص) نے فرمایا :" من کنت مولاہ فہٰذا علی مولاہ " یہ حدیث بھی حدیث ثقلین کی طرح بہت سے اسناد رکھتی ہے
حدیث غدیر جو متواتر ہے اگر ہم اس کے مدارک واسناد کی تحقیق کے میدان میں قدم رکھیں یایوں ہی حدیث ثقلین جس کے اسناد و مدارک میر حامد حسین طاب ثراہ نے "عبقات الانوار " میں جمع کئے ہیں جو بڑی سائز کے چار سو صفحات میں پھیلے ہوئے ہیں ۔ اگر ان حدیثوں کی تحقیق کی جائے تو بحث بہت طویل ہوجائے گی ۔ ممکن ہے اس سلسلہ میں مزید تحقیق کی ضرورت ہو پھر بھی میں چاہتا ہوں کہ مسئلہ امامت کے تحت بحث کا ایک خلاصہ آپ کی خدمت میں پیش کردوں ۔ ساتھ ہی ان ثبوت و مدارک کابھی ایک اجمالی جائزہ پیش کردوں جنھیں شیعہ امامت کے سلسلہ میں سند کے طور پر بیان کرتے ہیں

تیسری بحث
مسئلہ امامت کی کلامی تحقیق:
امامت کی بحث میں علماء شیعہ کی منطق کیا ہے اور اگر دوسرے اس بارے مٰن کچھ کہتے ہیں تو کیا کہتے ہیں اسے پورے طور سے روشن و واضح کرنے کے لئے میں نے مناسب سمجھا کہ اس سلسلہ میں خواجہ مصیر الدین طوسی کی تحریرکردہ اصل عبارت ضروری وضاحت کے ساتھ آپ کی خدمت میں پیش کروں ۔ یہ متن عبارت بہت ہی مختصر اور خلاصہ ہے اور ان کے عہد کے بعد شیعہ اور اہل سنت دونوں فرقوں کے علماء کے درمیان مورد ذکر ہی ہے۔
آپ نے اس کتاب کانام ضرور سنا ہوگا ۔ خواجہ کی تصنیف کردہ یہ کتاب "تجرید " کے نام سے مشہور ہے اس کاایک حصہ علم منطق پر مبنی ہے جسے "منطق تجرید " کہتے ہیں اور دوسرا حصہ علم کلام میں ہے جس میں توحید ، نبوت ، امامت ، معاد جیسے مسائل پر بحث کی گئی ہے ۔ توحید کا باب زیادہ تر فلسفیانہ طرز کاہے ، اوراس باب میں خواجہ نے فلاسفہ کی روش پر بحث کی ہے ۔ علامہ حلی نے اس کتاب کے دونوں حصوں کی شرح فرمائی ہے ۔ علامہ حلی بھی، جن کے بارے میں آپ نے یقیقناً بہت کچھ سنا ہوگا ، عالم اسلام کے عظیم ترین فقہامیں شمار ہوتے ہیں ۔ انھیں نہ صرف فقہائے شیعہ میں بلند مقام حاصل ہے بلکہ پورے عالم اسلام کے فقہا میں ایک عظیم درجہ پر فائز ہیں ۔ وہ منطق ، فلسفہ ، کالم اور ریاضت وغیرہ میں خواجہ نصیر الدین طوسی کے شاگرد تھے اور فقہ میں آپ کو محقق حلی صاحب کتاب " شرائع الاسلام " سے شرف تلمذ حاصل تھا ۔ جو خود بھی دنیائے شیعت میں صف اول کے فقیہ تھے ۔ علامہ اور خواجہ دنیائے علم میں نادر روزگار شمار کئے گئے ہیں ۔ خواجہ نصیر الدین طوسی دنیا کے صف اول کے ریاضی دانوں میں گنے جاتے ہیں ۔ ابھی کچھ دنوں پہلے اخباروں میں اعلان ہوا ہے کہ چاند کے کچھ حصوں کو چند ایرانی ریاضی دانوں کے نام دیئے گئے ہیں ، مثلاً عمر خیام ابن سینا ، اور خواجہ نصرالدین ۔ اس کے وجہ یہ ہے کہ ان لوگوں نے کرۂ ماہ کے بارے میں بعض فرضیات قائم کئے تھے ۔ علامہ بھی اپنے فن یعنی فقہ میں بلاشبہ نادر زمانہ ہیں ۔ آپ نے بے شمار کتابیں تصنیف فرمائی ہیں ۔ ان میں سے ایک کتاب کا نام"تذکرہ افقہا" ہے ، جو دوجلدوں پر مشتمل ہے ۔ حقیقت میں جب انسان اس کتاب کامطالعہ کرتا ہے توان کے تبحر علمی پر دنگ رہ جاتا ہے ۔
"تذکرۃ افقہا" ایک فقہی کتاب ہے ، لیکن اس میں صرف شیعہ فقہ ہی باین نہیں ہوئٰ ہے بلکہ ہر مسئلہ میں تمام علماء اہل سنت کے فتوے بھی نقل کئے گئے ہیں ۔ا ور لطف یہ ہے کہ اس میں نہ صرف اہل سنت کے چاروں امام ، ابوحنیفہ ، شافعی ، مالک اور احمد حنبل کے فتوے موجود ہیں مذہب کے ان چار اماموں میں منحصر ہونے سے پہلے کے تمام بزرگ فقہا کے فتاوے بھی اس میں نقص کئے گئے ہیں ۔ ہر مسئلہ کے تحت یہ صراحت موجود ہے کہ یہاں ابوحنیفہ نے یوں کہا ہے ، شافعی یہ کہتے ہیں اور ہم امامیہ کا قول یہ ہے ۔ اکثر کسی مسئلہ کی کاٹ یا نکتہ چینی بھی کرتے نظر آتے ہیں مثال کے طور پر شافعی نے ایک جگہ یہ کہا ہے ، دوسری جگہ اس کے مخالف مطالب بیان کیا ہے ۔ پہلے یہ کہا اور بعد میں اپمے قول سے عدوں کرکے دوسری بات کہی ہے ۔ آقائے شیخ محمد تقی فرماتے تھے جب تذکرہ جیسی کتاب چھاپنی ہوئی تو تمام مذاہب اہل سنت کے قابل و ماہر علماء کو بلایا گیا ۔ انھیں یہ کتاب دیکھ کر حیرت ہوئی کہ یہ کیسا شخص ہے ، جو ہمارے اقوال و مسائل پر ہم سے بھی زیادہ حاوی ہے ۔ آپ ایسی ہی غیر معمولی استعداد کے حامل تھے ۔
ان ہی علامہ نے کتاب تجرید کی شرح لکھی ہے ۔ منچق کا حصہ "الجوہر النضید " کے نام سے مشہور ہے جو منطق کی ایک بہترین کتاب ہے ، اور علم کلام کے حصہ کی شرح کانام " کشف المراد " ہے جسے آج کل شرح تجرید کہتے ہیں ۔ منطق اور کلام دونوں میں علامہ کی شرح بہت مختصر ہے ۔ ان کے بعد اس کتاب پر برابر شرحیں اور حاشیے لکھے جاتے رہے کسی نے اس کی رد کی تو کسی نے تائید ، اور شاید دنیائے اسلام میں کوئی کتاب ایسی نہ ہوگی جو "تجرید " کلے برابر بحث کا موضوع بنی ہو ۔ یعنی اس کتاب کے متن پر جتنی شرحیں اورحاشیے لکھے گئے کسی اور کتاب پر نہیں لکھے لگے ۔ ہر زمانہ میں یا اس کی رد میں شرحیں لکھی جاتی رہیں یا تائید میں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب خواجہ نے شیعی مزا ق کے مطابق مسائل و مطالب بیان کرنا چاہا ہے تو بڑے ہی مختصر اور جامع انداز میں اجمالی طور پر اشاروں میں بات کہتے ہوئے سرسری طور پر گزر گئے ہیں ۔ آپ نے کتاب تجرید کے آخری ابواب میں امامت کے موضوع پر بحث فرمائی ہے ۔ یہ بحث چونکہ تمام علماء شیعہ کی نگاہ میں مورد قبول واقع ہوئی ہے لہٰذا اس سے سمجھتا ہے کہ امامت کے سلسلہ میں علماء شیعہ کی منطق یہ کیا ہے ۔ اس وقت جو کتاب میرے پیش نظر ہے ۔ کتاب تجرید پر ملا علی قوشجی کی شرح ہے ۔ ملا علی قوشجی اہل سنت کے بزرگ علماء میں شمار ہوتے ہیں ۔ فطری بات یہہے کہ چانکہ وہ مخالف نظریہ رکھتے ہیں لہٰذا اس میں اہل سنت کے نظریات کو منعکس کرتے ہیں اورزیادہ تر خواجہ نصرالدین کی رد کرتے نظر آتے ہیں ۔ چنانچہ اس کتاب میں خواجہ کے شیعہ نظریات کے ساتھ اہل سنت کے نظریات بھی بیان ہوئے ہیں ۔

امامت کی تعریف:
اس میں سب سے پہلی بات جو امامت کے سلسلہ میں باین کی گئی ہے ، وہ امامت کی تعریف ہے ۔ اس تعریف میں کوئی اختلاف نہیں ہے ۔ کہتے ہیں : ( الامامۃ ) "ریاسۃ عامۃ فی امور الدین و الدنیا " یعنی (امامت ) دینی و دنیاوی امور میں ریاست وامارت عامہ کو کہتے ہیں ۔ خواجہ نصرالدین علم کلام کی تعبیر میں فرماتے ہیں : " الامام لطف " یعنی امام لطف پروردگار ہے۔ مقصد یہ ہے کہ امامت بھی نبوت کےمانند ان مسائل میں سے ہے جو بشری حدود و اختیارات سے بالاتر ہیں ، یہی وجہ ہے کہ" امام (ع) کا انتخاب " بھی انسانی استطاعت اور قوت سے باہر کی چیز ہے ۔ اسی لئے اس کا تعین خدا کی طرف سے ہے ۔ امامت بھی نبوت کی طرح ہے جسے خدا کی جانب سے وحی کے ذریعہ معین و مقرر ہونا چاہئے ۔ بس ان دونوں میں فرق یہ ہے کہ پیغمبر براہ راست خدا کی جانب سے وحی کے ذریعہ معین ہوتا ہے اور اس کا تعلق بھی خدا سے براہ راست ہوتا ہے جبکہ امامت کی تعیین خدا کی طرف سے پیغمبر کے ذریعہ عمل میں آتی ہے ۔

امامت کے بارے میں شیعہ عقلی دلیل:
خواجہ نصرالدین اس مقام پر اس ایک جملہ سے زیادہ کچھ بیان نہیں کرتے ۔ لیکن علماء شیعہ اس سلسلہ میں جو وضاحت فرماتے ہیں ۔اسکی بنیاد وہی ہےجسے میں پہلے عرض کرچکا ہوں ۔ پہلے ایک تاریخ بحث پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ سر دست بحث حضرت علی (ع) کی امامت میں ہے اگر یہ ثابت ہوگئی تو بقیہ ائمہ کی امامت بھی پہلے امام کی نص سے تمسک کے ذریعہ بد درجہ اولیٰ ثابت ہوجا۴ے گی ۔ شیعہ علماء کہتے ہیں کہ یہ بات روشن وواضح ہے کہ دین اسلام دین خاتم ہے اور یہ طے ہے کہ اس کے بعد اب کوئی دوسری شریعت آنے والی نہیں ہے ۔ اور یہ ایسا کلی اور جامع دین ہے جو انسان کی پوری زندگی پر حاوی ہے ۔ اس دین کی حقیقت بھی یہی ثابت کرتی ہے کیونکہ یہ انسانی زندگی کے ہر پہلو کو مد نظر رکھتا ہے اور تمام مسائل میں دخیل ہے۔ اس کے بعد کہتے ہیں ، کیا حیات پیغمبر اکرم (ص) کی تاریخ سے یہ ثابت ہوتا ہےکہ انھیں ذاتی طور پر اس قدر فرصت میں ملی ہو اور مواقع فراہم ہوئے ہوں کہ انھوں نے تمام اسلام لوگوں کو تعلیم فرمادیا ہو ؟ جب ہم تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں معلوم ہوتا ہے کہ اس تئیس سالہ زندگی میں پیغمبر کو اس قدر فرصت اور موقع حاصل نہ ہوسکا۔ یقیناً پیغمبر اسلام (ص) نے خود کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا اور بہت سی باتیں تعلیم فرمادیں ۔ لیکن پیغمبر اکرم (ص) کی مکی و مدنی زندگی اوراس میں آپ کی مصروفیات ، مشکلات اور دشواریوں کو دیکھتے ہوئے یہ بات ماننی پڑے گی کہ بلاشبہ یہ مختصر سی مدت پورے احکام اسلام کو کامل طور پر تمام لوگوں میں بیان کرنے کے لئے ناکافی تھی ۔ ساتھ ہی اس کابھی امکان نہیں ہے کہ یہ دین جو خاتم ہے ناقص بیان کیا گیا ہو ۔ چنانچہ ایسے کسی ایک یا چند افراد کا اسحاب پیغمبر میں ہونا ضروری ہے، جنھوں نے کامل و تام اسلام پیغمبر سے حاصل کر لیا ہو اورجو پیغمبر اسلام سے پورے آراستہ و پیراستہ شاگرد رہے ہوں تاکہ آپ کے رخصت ہونے کے بعد اسلام کے بیان اوراس کی وضاحت میں آپ ہی کے مثل و نظیر ہوں ۔ بس فرق یہ ہو کہ پیغمبر وحی کے ذریعہ دین بیان فرماتے تھے اور یہ افراد پیغمبر سے علوم حاصل کرکے بیان کرنے والے ہوں اس کے بعد علماء فرماتے ہیں ، چونکہ آپ (اہل سنت نے پیغمبر کے بعد کسی ایسے شخص کا سراغ حاصل نہیں کیا جب یہ سوال پیدا ہونے لگا کہ وہ مسائل جن کا حکم جاننا ضرورہ ہو لیکن اس سلسلہ میں کوئی حدیث پیغمبر( ص) سے ہم تک نہ پہنچی ہو تو کیا کریں ؟ کہنے لگے اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے کہ ایک موضوع کا دوسرے موضوع سے مقایسہ کرکے تلنّی اور گمانی مشابہت کی بنیاد پر ایسے مسائل کا حکم استنباط کیا جائے یہ بات علماء شیعہ کی کہی ہوئی نہیں ہے بلکہ حضرت علی (ع) کے عہد سے یہ صورت شروع ہوچکی تھی نہج البلاغہ اور دیگر ائمہ کرام کے اقوال میں بھی اس روش پر صاف اعتراف موجود ہیں کہ یہ کیا باطل خیال ہے ؟ حضرت علی (ع) فرماتے ہیں : "ام انزل اللہ دینا ناقصاً "؟کیا خداوند عالم نے ناقص دین نازل فرمایا ہے جس میں انسان کی اپنی ناقص رائے کی بھی ضرورت ہے؟ دیگر تمام ائمہ علیہم السلام نے بھی اس مسئلہ پر بڑا زور صرف کیا ہے کہ دین میں کسی طرح کا نقص ہے ہی نہیں کہ ہم سوچیں کہ بعض مسائل میں نقص ہایا جاتا ہے ، اور چونکہ بعض دینی مسائل میں نقص پایا جاتا ہے لہٰذا ہم اپنی رائے اور گمان کے ذریعہ ان کا حکم معلوم کریں ۔ اصول کافی میں [با ب الردّ الی الکتاب والسنۃ وانہ لیس شئی من الحلال والحرام الاوقد جاء فیہ کتاب اوسنۃ ] کے نام سے مستقل ایک باب موجود ہے ، جس کا مقصد یہ ہے کہ کوئی مسئلہ ایسا نہیں ہے کہ کتاب و سنت میں کم ازکم اس کی صورت میں موجود نہ ہو ۔ تمام کلی مسائل ذکر ہوچکے ہیں صرف ان کا مصداق تلاش کرنے کی ضرورت ہے ۔ شیعی نقطہ نظر سے اجتہاد اسی کو کہتے ہیں ۔ یعنی اسلام کے تمام کلی احکام موجود ہیں ۔ مجتہد کا کام یہ ہء کہ ان کلیات کو جزئیات پر منطبق کرتاچلاجائے لیکن قیاس یہ ہے کہ کلیات بھی کافی نہیں ہیں ، مسائل سے مشابہت رکھنے والے احکام کو دیکھ کر گمان اور قیاس کے ذریعہ فقط اندازہ کی بنیاد پر مسئلہ کاحکم حاصل کیا جائے ۔
چنانچہ(علماء شیعہ )کہتے ہیں کہ ہم دونوں کو اس کا اعتراف ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) اپنی تئیس سالہ زندگی میں اسلام کے تمام احکام کلی طور پر سہی لوگوں سے بیان نہیں کرسکتے ۔ البتہ آپ کہتے ہیں کہ پیغمبر اکرم (ص) یوں ہی سب کچھ ادھورا چھوڑ کر چلے گئے اور ہم کہتے ہیں کہ ایسا نہیں ہوا بلکہ جس دلیل کے تحت پیغمبر (ص) لوگوں پر مبعوث ہوئے تھے اسی دلیل سے پیغمبر (ص) کی جانب سے بھی کچھ افراد معین ہوئے جو قدسی صفات کے حامل تھے ۔ پیغمبر اسلام (ص) نے اسلام کے تمام حقائق ان میں کی پہلی فرد یعنی حضرت علی(ع) کو تعلیم کر دئے اور یہافراد بھی ہر سوال کا جواب دینے کی پورے طور سے صلاحیت و آمادگی رکھتے تھے ۔ حضرت علی (ع) ہمیشہ فرمایا کرتھ تھے ، مجھ سے اسلام کے بارے میں جو کچھ پوچھنا ہو پوچھ لو تا کہ میں اسے باین کردوں ۔

امام یعنی احکام دین کا ماہر:
اب ہم اس مفہوم کو آج کی زبان میں بیان کرتے ہیں ۔( علماء شیعی کہتے ہیں کہ یہ جو آپ ان خصوصیات کے حامل امام کے وجود کے منکر ہیں تو در حقیقت آ اسلام کی تحقیر و تذلیل کرتے ہیں ۔ ایک معمولی مشین بھی جب کہیں بھیجی جاتی ہے تو یہ ضروری ہوتا ہے کہ اس کاماہر بھی اسکے ہمراہ بھیجا جائے مثال کے طور پر اگر امریکہ نارویں اپنے فینٹم یا بگ جیسے جنگی جہاد کسی ایسے ملک کو دیتے ہیں جہاں کے لوگ اس کی مشیزی سے واقف نہیں ہوتے تو لوگوں کو اس کی باریکیوں سے آگاہ کرنے کے لئے ماہرین بھی ان کے ہمراہ روانہ کرتے ہیں ۔ ہاں کوئی عام اور سادہ سی چیز ہوتو اس کی ضرورت نہیں پڑتی مثلاًاگر کوئی ملک کسی کو کپڑا فرخت کرے تو اس کے لئے ماہرین کی ضرورت نہیں ہوتی ۔ اب آپ کیا خیال کرتے ہیں ؟ کیا وہ ایک کپڑے کی مانند سادہ اور معمولی ہے کہ جب ایک جگہ سے دوسری جگہ جائے تو اس کے ہمراہ کسی ماہر شخص کی ضرورت نہیں پڑتی ؟ یا اسے ایک پیچیدہ مشین کی طرح سمجھتے ہیں کہ جب وہ کسی دورسرے ملک میں بر آمد ہوتی ہے ، اس کے ہمراہ اس کے ماہرین کا بھیجا جانا بھی ضرورت ہوتا ہے تاکہ وہ ایک مدت تک وہاں کے لوگوں کو اس کی باریکیوں سے آگاہ کرسکیں ؟
امام یعنی امر دین کا ماہر جان کار ، ایسا حقیقی ماہر جو کسی گمان یا شبہ میں نہہ پڑتا ہو اور نہ اس سے کسی خطا کا امکان ہو ۔ پیغمبر اسلام (ص) انسانوں کے لئے اسلام لے کر آئے ہیں ۔ اب ضروری یہ ہے کہ ازکم ایک مدت تک خداوند عالم کی طرف سے دین کے ماہر افراد لوگوں کے درمیان موجود رہیں تاکہ لوگوں کو اچھی طرح سے اسلام بتا اور سمجھا سکیں ۔ ایسے شخص کو پیغمبر اکرم (ص) نے لوگوں کے لئے معین فرمایا ہے ۔ علماء شیعہ نے اس مطلب کو "لطف " سے تعبیر کای ہے ۔ یعنی یہ تعیین ، لطف پروردگار ہے ۔ جس کا مقصد یہ ہے کہ یہ اقدام انسان کی ہدایت کے لئے مفید ہے۔ کیونکہ پیغمبر کے بعد خدا کی جانب سے انسان کی راہ بند ہے ۔ اب لطف الہٰی کا تقاضا یہ ہے کہ اس کی جانب سے عنایت انسان کے شامل حال ہو ، ویسے ہی جس طرح نبوت کے سلسلہ میں اس کی عنایت کو لطف کہتے ہیں ، یہ بات اصول شیعہ میں سے ایک اصل کی حیثیت رکھتی ہے جسے دوسرے الفاظ میں امامت کے موضوع پر شیعوں کی عقلی دلیل بھی کہا جاسکتا ہے ۔

عصمت کا مسئلہ:
یہاں عصمت کامسئلہ پیش آتا ہے ۔ جب شیعہ امام [11] کو شریعت کے محافظ و نگہبان اور لوگوں کو اسلام کی تعلیم دینے کے سلسلہ میں ایک مرجع و منبع تسلیم کرتے ہیں ، تو جس طرح وہ پیغمبر کے لئے عصمت کے قائل ہیں یوں ہی امام کو بھی معصوم جانتے ہیں ۔ پیغمبر کی عصمت کے سلسلہ میں کوئی شخص شک وشبہ نہیں کرتا اور یہ ایک واضح سی بات ہے ۔اگر ہمارے لئے یہ بات یقینی ہوجائے کہ یہ پیغمر کا قول ہے تو ہم اس کی صحت میں شک نہیں کرتے ، اور صاف کہ دیتے ہیں کہ یہ ارشاد پیغمبر (ص) ہے تو درست اور حق ہے ۔ ہم کبھی یہ نہیں کہتے کہ یہاں پیغمبر(ص) نے اشتباہ یا غلطی کی ہے ۔ جس شخص کو خدا وند عالم نے لوگوں کی ہدایت کے لئے بھیجا ہو جبکہ لوگ الٰہی ہدایت کے محتاج ہوں ، وہ شخص ہر گز ایسا انسان نہیں ہو سکتا جو خود خطا کار یا گناہ گار ہوں ۔ خطا دوطرح کی ہوتی ہے : ایک یہ کہ عمداً اور جان بوجھ کر خطا کی جائے ۔ مثال کے طور پر خدا وند عالم پیغمبر (ص) کو حکم دے کہ فلاں پیغام پہنچا دو اور پیغمبر یہ دیکھے کہ اس کی اپنی مصلحت یا منفعت کا" تقاضا" کچھ اور ہے ۔ اور اس بات کو دوسرے انداز سے لوگوں سے بیان کرے ۔ ظاہر ہے کہ یہ بات نبوت کے سراسر خلاف ہے ۔ اگرہم امامت کی تعریف یوں کریں کہ امامت دین کے بیان کرنے میں نبوّت کی متمّم ہے ، یعنی اس دلیل سے اس کا وجود لازم ہے کہ احکام دین کے بیان کرنے کے سلسلہ میں پیغمبر اکرم (ص) کا معصوم اور گناہوں سے بری ہونا ضروری ہے اسی دلیل سے امام کو بھی معصوم ہونا چاہئے ۔ اگر کوئی کہے امام کو معصوم ہونا لازم نہیں ہے ، اگر وہ کوئی غلطی یا اشتباہ کرے گا تو کوئی دوسرا اسے آگاہ کردے گا ۔ تو ہم یہ کہیں گے کہ پھر ہم اسی دوسرے شخص کی طرف رجوع کریں گے ۔ اور اگر یہ سلسلہ چل پڑا تو آخر کار کوئی نہ کوئی شخص ایسا ہوگا ہی جو ( معصوم ہونے کے اعتبار سے ) شریعت کا حقیقی محافط ہوگا ۔ اس کے علاوہ ( بقول شخصے ) اگر امام خطا کارو گنہگار ہوتو دوسروں کا فریضہ ہے کہ اسے راہ راست پر لائیں ۔ جبکہ دوسروں کا فیضہ یہ ہے کہ امام کے مطیع و مرمانبردار رہیں ۔ یہ دونوں باتیں آپس میں میل نہیں کھاتیں۔

تنصیص و تعیین کا مسئلہ:
(علماء شیعہ )مسئلہ عصمت کے ذریعہ تنصیص و تعیین کے مسئلہ کو ثابت کرتے ہیں ۔ چنانچہ اس قضیہ کی کلامی صورت یہ ہے کہ اس سلسلہ کو خداسے شروع کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ امامت خدا کی جانب سے بندوں پر لطف ہے ۔ اور چونکہ لطف ہے لہٰذا اس کاوجود بھی لازمی و ضروری ہے ۔ اور یہ لطف چونکہ بغیر عصمت کے ممکن نہیں ہے لہٰذا امام کو معصوم ہونا چاہئے اوراسی دلیل کے تحت منصوص بھی ہونا چاہئے ۔ کیونکہ یہ امر ( عصمت ) ایسا مسئلہ نہیں ہے جسے عام انسان تشخیص دے سکیں ۔ بالکل یوں ہی جیسے پیغمبر کی تشخیص عوام یا بندے نہیں کرسکتے بلکہ یہ خدا کے ہاتھ میں ہے کہ وہ کس کو پیغمبری کے لئے معین کرتا ہے اور اسے دلا ئل و آثار اور معجزات کے ذریعہ پہچنواتا ہے ۔ امام کی تعیین بھی انسانوں کےہاتھ میں نہیں ہے ، وہ بھی خدا کی جانب سے معین ہونا چاہئے ۔ بس یہ دونوں میں فرق یہ ہے کہ پیغمبر(ص) کے تعارف کی منزل میں کوئی دوسراشخص دخیل نہیں ، لہٰذا معجزات کے ذریعہ اس کاتعارف کرایا جانا چاہئے ۔ لیکن امام ، پیغمبر کے ذریعہ پہچنوایا جاتا ہے ۔ یہیں سے (علماء شیعہ ) تنصیص کے مرحلہ میں قدم رکھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ مذکورہ معنی کے تحت امامت نص کے ذریعہ پیغمبر (ص) کی جانب سے معین ہونی چاہئے نہ کہ عوام کی طرف سے منتخب ۔ بنا بر ایں لطف کے مسئلہ سے مسئلۂ عصمت تک اور مسئلہ عصمت سے تنصیص کے مسئلہ تک پہنچتے ہیں ۔ یہاں تک پہنچتے ہیں تو اب چھوتا زینہ بھی طے کریں اور وہ یہ کہ یہ سب تو ٹھیک ہے لیکن اس کا علی(ع) کی ذات سے کیا تعلق ہے ؟ یہاں ( خواجہ نصرالدین طوسی ) فرماتے ہیں : " وھما مختصان بعلّی " یعنی یہ دونوں باتیں ( معصوم اور منصوص ہونا ) علی علیہ السلام سے مخصوص ہیں ۔ مراد یہ ہے کہ اس سلسلہ میں کسی ایک شخص نے بھی اختلاف نہیں کیا ہے کہ "علی (ع) کے علاوہ کوئی دوسرا منصوص نہیں ہے " یعنی بحث یہ نہیں ہے کہ دوسرے کہتے ہوں کہ پیغمبر (ص) نے کسی اور کو معین فرمایا ہے اور ہم کہیں کہ پیغمبر (ص) نے علی(ع) کو معین فرمایا ہے ۔ بلکہ بحث یہ ہے کہ آیا پیغمبر )ص) نے کسی کو معین بھی فرمایا ہے یا نہیں ؟ اگر معین فرمایا ہے تواس صورت میں علی (ع) کے علاوہ کوئی اور شخص سامنے نہیں آتا۔ یا کسی کو سرے سے معین ہی نہیں فرمایا ؟ اس صورت میں ہم کہیں گے کہ نص وتنصیص لازم و واجب ہے اور پیغمبر (ص) نے یہ فریضہ انجام دیتے ہوئے ایک شخص کو لوگوں پر معین فرمایا ہے اور وہ شخص علی (ع) کے سوا کوئی دوسرا نہیں ہوسکتا ، کیونکہ دوسروں نے ایسا کوئی دعویٰ نہیں کیا ہے بلکہ اس سے انکار ہی کرتے رہے ہیں ۔ حتی خلفاء بھی ( اپنے سلسلہ میں ) تنصیص و تعیین کا ادعا نہیں کرتے پھر دوسروں کا کیا ذکر ہے ۔ حد یہ ہے کہ خلفاء کے پیروبھی ان کی تنصیص و تعیین کے مدعی نہیں ہیں ۔ چنانچہ نص کے سلسلہ میں علی (ع) کے علاوہ کسی اور کی بحث ہی نہیں ہے ۔
عصمت کے سلسلہ میں بھی یہی بات پائی جاتی ہے ۔ خلفاء اپنی عصمت کا نہ صرف ادعا نہیں کرتے تھے بلکہ صاف لفظوں میں اپنے اشتباہات اور غلطیوں کا اعتراف بھی کرلیتے تھے اور خود اہل سنت بھی ان کی عصمت کے قائل نہیں ہیں۔ کیونکہ ہم عرض کرچکے ہیں مسئلہ امامت ان کی نطر میں حکومت کا ہم معنی ہے۔ اور حکومت کے مسئلہ میں یہ ضروری نہیں ہے کہ حاکم اشتباہ یا گناہ نہ کرے ۔ بلکہ ان ہی کے کہنے کے مطابق یہ افراد اشتباہ بھی کرتے تھے اور گناہ کے مرتکب بھی ہوتے تھے لیکن ایک عادل انسان کی حدیں جو پیش نمازی کی لیاقت رکھتا ہے اہل سنت ان کے لئے اس سے زیادہ مرتبہ کے قائل نہیں ہیں ۔ لہٰذا اس جملہ کی عام طور سے اہل سنت نے روایت کی ہے اور " ملا قوشجی " بھی اسے قبول کرتے ہیں کہ ابوبکر کہا کرتے تھے : ان لی شیطاناًیعترینی " ایک شیطان اکثر میرے اوپر مسلط ہوجاتا ہے اور مجھے بہکا دیتا ہے ۔ لوگو : اگر مجھے غلط راہ پر چلتے ہوئے دیکھو تو مجھے راہ راست پر لاکر کھڑا کردو ۔ گویا آپ خود اپنے اشتباہ و گناہ کا اعتراف کیا کرتے تھے ۔ عمر نے بہت سی جگہوں پر( اور بعض محققین کے مطابق ستر مقامات پر بہر حال شیعہ ، سنی دونوں اس پر متفق ہیں کہ بہت سی جگہوں پر) فرمایا : " لولا علی لھلک عمر" اگر علی (ع) نہ ہوتے تو عمر ہلاک ہوجاتے ۔ اکثر ایسا ہوتا تھا کہ وہ کوئی حکم دیتے تھے بعد میں حضرت علی(ع) آکر انھیں کی غلطی سے آگاہ کرتے تھے اور وہ اسے مان لیا کرتے تھے ۔ چنانچہ نہ خود خلفاء اپنی عصمت کے دعویدار ہیں اور نہ دوسرے ان کی عصمت کے مدعی ہیں ۔
اگر مسئلہ امامت کو اسی اعلیٰ سطح یعنی لطف، عصمت اور تنصیص کے معیار پر دیکھا جائے تو سوائے علی(ع) کوئی اور اس کا دعویدار نظر ہی نہیں آتا ۔ یہاں تک تو مسئلہ امامت کی کلامی بحث تھی یعنی جیسا کہ ہم عرض کرچکے ہیں بات اوپر سے شروع ہعتی ہے اور وہ یہ کہ جس دلیل سے نبوت لازم اور لطف پروردگار ہے یوں ہی امامت بھی لازم اور لطف خداہے تا آخر جیسا کہ ہم عرض کرچکے ہیں اگر چہ بات یہیں پر کامل ہوجاتی ہے پھر بھی ہم ذرا اور آگے بڑھ کر دیکھتے ہیں کہ کیا عملی طور پر بھی ایساہوا ہے اور پیغمبر (ص) نے علی(ع) کو امام منصوص فرمایا ہے یا نہیں ؟ چنانچہ یہاں سے نصوص کی بحث شروع ہوتی ہے ۔ یہاں میں ایک بات عرض کرتا چلوں کہ ہم میں بعض کہتے ہیں کہ آخر ہمیں کلامی روش اپنانے کی کیا ضرورت ہے کہ اس بلندی سے مسئلہ شروع کریں ؟ ہم نیچے ہی سے کیوں نہیں چلتے جہاں سے یہ مسئلہ وجود میں آیا ہے ۔ متکلمین اوپر سے چلتے ہوئے یہاں تک پہنچتے ہیں لیکن اگر ہم اس مشرب کی بنیاد پر گفتگو کریں تو بات یہاں سے شروع ہوتی ہے کہ ہمیں اس بحث میں پڑنے کی کیا ضرورت ہے کہ امامت خدا کا لطف ہے یو نہیں ، اور چونکہ لطف ہے اس لئے امام کو معصوم ہونا چاہئے اور جب معصوم ہے تو منصوص بھی ہونا چاہئے ؟ یہ " چاہئے چاہئے " خدا کے فرائض مشخص کرنے کے مترادف ہے ۔ ہم خدا کی ذمہ داریاں معین کرنا نہین چاہتے ، بلکہ ہمیں تو سیدھے سیدھے یہ دیکھنا چاہئے کہ پیغمبر (ص) نے کسی کو منصوص فرمایا ہے یا نہیں ؟ اگر فرمایا ہے تو یہی ہمارے لئے کافی ہے ۔ اس کے لطف ہونے اور عصمت و تنصیص کو عقلاً ثابت کرنے کے بغیر بھی مسئلہ حل ہے ۔ آیئے دیکھتے ہیں کہ پیغمبر (ص) نے کسی کو معین بھی کیا ہے یا نہیں ؟ اب ہم یہ دیکھیں گے کہ شیعہ اس سلسلہ میں کیا استدلال پیش کرتے ہیں ؟ ان دلائل کو ہم سر بستہ ذکر کرنے پر مجبور ہیں ۔ کیونکہ ان میں سے زیادہ تر شیعوں کو اہل سنت آنحضرت (ص) کی جانب سے نص کی صورت میں یا تو قبول نہیں کرتے ( البتہ صاف انکار بھی نہیں کرتے بلکہ کہ دیتے ہیں کہ یہ خبر واحد ہے متواتر نہیں ہے ) یا پھر ان کے معانی و مفاہیم کی توجیہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس کے وہ معنی نہیں جو آپ مراد لیتے ہیں ۔

رسول اکرم (ص) کی جانب سے علی(ع) کی امامت پر نصوص کی تحقیق
پہلی دلیل یہ ہے کہ رسول اکرم (ص) نے اپنے اصحاب سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا : " سلموا علیّ بامرۃ المومنین " علی امیر المومنین کی حیثیت سے سلام کرو۔ یہ جملہ واقعہ غدیر سے متعلق ہے ۔ البتہ حدیث غدیر کے اس جملہ کو علاحدہ ذکر کرتے ہیں ۔ اہل سنت اس جملہ کو متواتر حدیث کی شکل میں نہیں مانتے ۔ بعد کے علماء شیعہ نے جو کام کئے ہیں ان میں یہی ثابت کیا ہے کہ اس طرح کی حدیثیں متواتر ہیں تجرید میں مذکورہ عبارت سے زیادہ کچھ اور ذکر نہیں ہوا ہے اوریہ حدیث ارسال مسلّم قراردی گئی ہے ۔ شارح ( ملا علی قوشجی) بھی کہتے ہیں کہ ہم اسے قبول نہیں کرتے کہ یہ حدیث متواتر ہوگی ، بلکہ یہ خبر واحد ہے ، بعض نے اسے نقل کیا ہے ، سب نے نقل بھی نہیں کیا ہے ۔ " عبقا ت الانوار، اور الغدیر" جیسی کتابوں مین ان حدیثوں کو متواتر ثبت کیا گیا ہے ۔ ان دونوں کتابوں میں خصوصیت سے الغدیر میں حدیث غدیر کے ناقلین طبقہ بہ طبقہ پہلی صدی سے چودہ صدی تک ذکر کئے گئے ہیں ۔ ابتدا میں ساٹھ سے کچھ زیادہ نام اصحاب پیغمبر (ص) کے طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں ( یہ سب کے سب اہل سنت کی کتابوں سے مندرج ہیں ) اس کے بعد تابعین کا طبقہ ہے جنھوں نے اصحاب سے یہ حدیث نقل کی ہے ۔ یہ لوگ تقریباً پہلی صدی سے مربوط ہیں ۔ بعد کی صدیوں میں بھی طبقہ بہ طبقہ افراد کا ذکر ہے ۔" الغدیر " میں خاص طور سےجو کام انجام دیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ اس واقعہ کے ادبی پہلو سے استفادہ کیا گیا ہے اور یہ بہت اہم کام ہے ۔" عبقا ت الانوار " اور اس طرح کی دوسری کتابوں میں زیادہ تر اسپر زور دیاگیا ہے کہ مختلف صدیوں میں کن کن لوگوں نے یہ حدیث نقل کی ہے ۔ لیکن " الغدیر" میں واقعۂ غدیر کے ادبی پہلو کو بھی اجاگر کرکے اس سے بھر پور استفادہ کیا گیا ہے کیونکہ ہر زمانہ میں جو خاص بات لوگوں میں مشہور ہوتی ہے شعراء اپنے اشعار میں اس کی عکاسی ضرور کرتے ہیں ۔ شعر ان ہی چیزوں کو اپنے اشعار میں منعکس کرتے ہیں جو ان کے زمانہ میں پائی جاتی ہیں ۔ خود صاحب " الغدیر" کہتے ہیں کہ اگر اہل سنت کے مطابق غدیر کا مسئلہ چوتھی صدی ہجری کا مسئلہ ہوتا تو پہلی ، دوسری اور تیسری صدی ہجری میں شعرانے اس موضوع پر اس قدر شعر نہ کہے ہوتے ۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ہر صدی میں مسئلہ غدیر اس عہد کے ادبیات کا جزو بنا ہوا ہے ۔ بنا بر ایں ہم اس حدیث سے کس طرح انکار کرسکتے ہیں ۔ اور یہ تاریخی اعتبار سے واقعہ کے اثبات کی بہترین روش ہے ۔ ہم اکثر و بیشتر کسی تاریخی واقعہ یا موضوع کے وجود کو ثابت کرنے کے لئے شعراء و ادباء کی طرف رجوع کرتے ہیں اورجب دیکھتے ہیں کہ ہر صدی کے شعراء و ادبانے اس موضوع کو اپنے ادبیات میں منعکس کیا ہے تو بات صاف ہوجاتی ہے کہ یہ فکر ان لوگوں کے زمانہ میں بھی موجود تھی ۔ صاحب "عبقات " نے بھی اکثر ایک حدیث پر پوری ایک کتاب لکھ ڈالی ہے اوراس میں راویوں کے ذکر کے ساتھ ان کی چھان بین کی ہے کہ یہ راوی معتنر ہے یا غیر معتبر ، فلاں شخص نے یہ بات کہی ہے ، صحیح ہے گویا شجروں سے بھرا ہوا ایک توانا درخت کھڑا کردیا ہے جسے دیک کر انسان کی عقل دنگ رہ جاتی ہے کہ اس شخص نے کتنی تحقیق کی ہے ۔
ایک اور جملہ جو پیغمبر سے ہی نقل کیا گیا ہے ۔ اس میں آنحضرت (ص) نے علی(ع) کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا ،"انت الخلیفۃ بعدی " تم میرے بعد میرے خلیفہ ہو ۔ ان دو جملوں کے علاوہ بھی اس ضمن میں اوربہت سے جملے ہیں ۔
"سیرت ابن ہشام " ایک کتاب ہے جو دوسری صدی ہجری میں لکھی گئی ہے ۔خود ابن ہشام تو بظاہر تیسری صدی ہجری کے ہیں لیکن اصل سیرت ابن اسحاق کی ہے جو دوسری صدی کے اوائل میں موجود تھے ۔ ابن ہشام نے ان ہی کی کتاب کی تلخیص و تدوین کی ہے ۔ یہ وہ کتاب ہے جس پر اہل سنت بھر پور اعتماد کرتے ہیں۔ اس میں دو واقعےنقل ہیں جن کو (تجرید ) میں تو نقل نہیں کیا گیا ہے لیکن چونکہ موضوع وہی ہےلہٰذا میں انھیں نقل کئے دیتا ہوں ۔

دعوت ذوالعشیرہ:
واقعہ یہ ہے کہ اوائل بعثت میں پیغمبر اکرم (ص) پر آیت نازل ہوئی : "انذر عشیرتک الاقربین [12]اے رسول(ص) اپنے خاندان والوں کو ڈرایئے (دعوت اسلام دیجئے ) پیغمبر اسلام (ص) نے ابھی اس حیثیت سے عمومی تبلیغ و دعوت شروع نہیں کی تھی ۔ سب جانتے ہیں کہ اس وقت علی (ع) کافی کم سن تھے اور پیغمبر (ص) کے گھر میں ہی رہتے تھے ( علی (ع) بچپن سے ہی پیغمبر کے گھر میں ان کے زیر سایہ پروان چڑھ رہے تھے جس کا ایک الگ واقعہ ہے ) چنانچہ رسول اکرم (ص) نے علی(ع) سے فرمایا ۔ کچھ کھانے کا انتظام کرو اور بنی ہاشم و بنی عبدا لمطلب کو دعوت دیدو ۔ علی (ع) نے گوشت سے غذا درست کی اور کچھ دودھ کا بھی انتظام کیا جسے کھانے کے بعد لوگوں نے پیا ۔ پیغمبر اکرم (ص) نے اسلام کی دعوت کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا: میں خدا کا رسول ہوں اور خدا کی جانب سے مبعوث کیا گیا ہوں ۔ مجھے مامور کیا گیاہے کہ پہلے تم لوگوں کو دعوت حق دوں ، اگر تم نے میری بات مانی تو دنیا و آخرت کی سعادت تمہارا نصیب ہوگی ۔ ابو لہب ، جو پیغمبر (ص) چچا تھا ، اس نے جب یہ جملہ سنا آگ بگولہ ہوگیا اور بولا ، تم نے ہمیں اسی لئے بلایا ہے کہ ہم سے یہ فضول باتیں کہو؟ بہر حال اس نے ہنگامہ بر پاکرکے جلسہ کو درہم برہم کردیا ۔ پیغمبر نے علی (ع) کو دوسری مرتبہ پھر دعوت کا انتظام کرنے اور لوگوں کو بلانے کا حکم دیا ۔ خود امیرالمومنین (ع) جو اس واقعہ کے راوی بھی ہیں ،فرماتے ہیں ، یہ لوگ تقریباً چالیس افراد تھے ۔ دوسری مرتبہ پیغمبر(ص) نے ان لوگوں سے فرمایا ، تم میںسے جو شخص سب سے پہلے میری دعوت قبول کرے گا ۔ میرے بعد میرا وصی ، وزیر اور جانشین ہوگا ۔ علی(ع) کے سوا کسی اور نے پیغمبر (ص) کی بات کا مثبت جواب نہ دیا اورجتنی مرتبہ پیغمبر نے اعلان کیا اتنی مرتبہ علی(ع) اپنی جگہ سے کھڑے ہوئے ۔ آخر پیغمبر (ص) نے فرمایا کہ میرے بعد تم ہی میرے وصی ، وزیر اورجانشین ہوگے۔

ایک سردار قبیلہ کی پیغمبر اکرم(ص) سے ملاقات:
دوسرا واقعہ کہ یہ بھی سیرت ابن ہشام میں ہے ، مذکور واقعہ سے کہیں بڑھ کر ہے ۔ وہ زمانہ جب پیغمبر (ص) ابھی مکہ میں تھے اور قریش آپ کی تبلیغات میں اڑ چنیں ڈالتے تھے ۔ حالات بہت سخت اور دشوار تھے ۔ پھر بھی یہ لوگ محترم [13] مہینوں میں پیغمبر (ص) کو پریشان نہیں کرتے تھے یاکم ازکم زیادہ اذیتیں نہیں دیتے تھے ۔ یعنی جسمانی اذیتیں نہیں دیتے تھے لیکن تبلیغات میں رکاوٹیں ضرور پیدا کرتے تھے ۔ رسول اکرم (ص) ہمیشہ ان موقعوں سے فائدہ اٹھاتے اورجب لوگ رعفات کے بازار عکاظ میں جمع ہوجاتے( اس وقت بھی حج کئے جاتے تھے لیکن اس کا مخصوص انداز ہواکرتا تھا) تو وہاں پہنچ کر مختلف قبائل کے درمیان گھوم گھوم کر لوگوں کو دعوت حق دیاکرتے تھے ۔ مورخین لکھتے ہیں کہ اس ہنگامہ میں ابو لہب سایہ کی طرح پیغمبرکے پیچھے کگا رہتا تھا اور جو کچھ پیغمبر (ص) فرماتے تھے وہ جواب میں لوگوں سے کہا کرتا تھا یہ ( معاذاللہ ) جھوٹ بول رہے ہیں ، ان کی باتوں میں نہ آنا۔ ایک قبیلہ کا سردار جو بہت ذہین اور چالاک تھا پیغمبر (ص) سے کچھ دیر باتیں کرنے کے بعد اپنے قبیلہ والوں سے کہنے لگا ، اگر یہ شخص ہم میں سے ہوتا تو" لاکلت بہ العرب " یعنی میں اس شخص میں وہ استعداد دیکھ رہا ہوں کہ اگر یہ ہم میں سے ہوتا تو" میں اس کے ذریعہ پورے عرب کو کھاجاتا ۔" چنانچہ اس نے پیغمبر اکرم (ص) سے کہا کہ میں اورمیری قوم آپ پر ایمان لانے کے لئے تیار ہیں ( بلا شبہ ان کا ایمان حقیقی ایمان نہ تھا ) لیکن ایک شرط ہے : آپ بھی ہم سے یہ وعدہ کیجئے کہ اپنے بعد کے لئے مجھے یا ہم میں سے کسی شخص کو اپنا نائب و وصی معین کریں گے ۔ پیغمبر (ص) نے فرمایا میرے بعد کون میرا جانشین ہوگا یہ مجھ سے مربوط نہیں ہے ۔ اس کا تعلّق خدا سے ہے ( یعنی وہ جسے چاہےگا میرا جانشین مقرر کرے گا ) یہ وہ بات ہے جو اہل سنت کی تاریخی کتابوں میں ذکر ہوئی ہے ۔

حدیث غدیر اوراس کا متواتر ہونا:
ایک اور دلیل جسے شیعوں نے ذکر کیا ہے حدیث غدیر ہے ۔ (خواجہ نصیرالدین ) فرماتے ہیں : " ولحدیث الغدیر المتواتر" حدیث گدیر ، جو متواتر ہے ۔"متواتر" علم کی ایک اصطلاح ہے کہتے ہیں کہ خبرواحد اور خبر متواتر ۔ خبر واحد کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس کاناقل کوئی ایک شخص ہو بلکہ اس سے مراد ایسی خبر یا حدیث ہے جس کا نقل کیا جانا یقین کیا جانا یقین کی حد کو نہ پہنچا ہو یعنی اس کے سننے سے یقین نہ پیدا ہوتا ہو ۔ چاہے اس کا ناقل ایک ہو یا دس ہوں ۔ مثال کے طور پر ایک شخص آپ سے بیان کرتا ہے کہ میں نے فلاں خبر ریڈیو سے سنی ہے ۔ آپ کو گمان تو ہوجاتا ہے یہ بات صحیح ہوگی ۔ لیکن ابھی آپ منتظر ہیں کہ دیکھیں دوسرے کیا کہتے ہیں ۔ وہی بات آپ دوسرے سے سنتے ہیں ۔ آپ کا گمان اور قوی ہوجاتا ہے ۔ بعد میں آپ دیکھتے ہیں کہ بہت سے لوگ وہی بات کہہ رہے ہیں اب آپ یہ احتمال نہیں دے سکتے کہ یہ سب کے سب جھوٹ بولنے کا خیال ہی درست نہ ہو ، کیونکہ ایک حد تک تو ممکن ہے چند افراد کسی بات پر اتفاق کرلیں۔ لیکن اگر اس حد سے زیادہ ہوں تو با ہم اتفاق کرلینے کا امکان ختم ہوجاتا ہے ۔ تواتر کے معنی یہ ہے کہ ( نقل خبر کی تعداد) آپس میں اتفاق کرلینے کی امکانی حد سے کہیں زیادہ ہو ۔ مثلاً اسی مذکورہ مثال میں یہ تو ممکن ہے کہ دس آدمی باہم تفاہم کرکے کہیں کہ ہم نے فلاں خبر ریڈیو سے سنی ہے ۔ یہ دو سو افراد تک بھی ممکن ہے ۔ لیکن اکثر قضیہ اس حد کو پہنچ جاتا ہے کہ اس میں اتفاق و باہمی تفاہم کا احتمال یا امکان ہی نہیں رہ جاتا ۔ مثلا ً آپ کے شہر کے جنوب میں چلے جائٰیں اور وہاں آپ سے کوئی کہے کہ ریڈیو نے فلاں خبر دی ہے ، پھر آپ مشرق میں جائیں وہاں بھی کچھ افراد اسی خبر کو نقل کرتے ہوئے نظر آئیں ۔ یوں ہی آپ مغرب و شمال میں جائیں اور وہاں بھی وہی بات سنیں اب آپ یہ احتمال نہیں دے سکتے کہ سب نے آپس میں تفاہم کرکے ایک بات کہی ہے اسی کو تواتر کہتے ہیں ۔ شیعہ اس کے دعویدار ہیں کہ حدیث غدیر اس قدر نقل ہوئی ہے کہ اس میں باہمی تفاہم یا تبانی کا امکان ہی نہیں پیدا ہوتا ۔ اورہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ مثلاً اصحاب پیغمبر (ص) میں سے چالیس افراد نے باہم ایکا کرکے ایک جھوٹی بات گڑھ لی ہے ۔ خصوصاً جبکہ اس کی خبر کے بہت سے نقل کرنے والے دشمنانِ علی(ع) میں شمار ہوتے رہے ہیں ۔ یا اگر دشمن نہیں ہیں توان کے طرفدار بھی شمار نہیں ہوتے اگر اس حدیث کے نقل کرنے والے صرف سلمان ، ابوذر اور مقداد جیسے افراد ہوتے جو علی (ع) کے گرد سایہ کی طرح موجود رہتے تھے ، تو کہا جاسکتا تھا کہ چونکہ یہ افراد علی(ع) سے بے انتہا محبت رکھتے ہیں لہٰذا ان سب نے مل جل کر ایک بات کہ دی ہے ۔ جبکہ اس کبر کے نقل کرنے والے ایسے افراد ہیں جن کو علی(ع) سے کوی لگاؤ نہیں تھا ۔ ملا علی قوشجی وغیرہ کہتے ہیں کہ یہ خبر واحد ہے متواتر نہیں ہے ۔ جبکہ شیعہ کہتے ہیں کہ نہیں یہ خبر متواتر ہے اور دلیل میں کتابیں پیش کرتے ہیں ۔
حدیث غدیر میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : الست اولیٰ بکم من انفسکم [14]قالو بلی" کیا میں تم سب سے زیادہ خود تم پر اولویت نہیں رلھتا ؟
سب نے مل کر کہا : ہاں یا رسول اللہ ، تو آپ نے فرمایا : من کنت مولوہ فھٰذا علی مولاہ ، ظاہر ہے کہ پیغمبر (ص) اس حدیث کے ذریعہ علی (ع) کے لئے لوگوں پر اپنی جیسی اولویت کا اعلان کر ہرے ہیں ۔

حدیث منزلت:
یہ حدیث جسے خواجہ نصرالدین طوسی متواتر فرماتے ہیں اور ملاعلی قوشجی اس سے ایک دم انکار تو نہیں کرتے البتہ اسے خبر واحد قرار دیتے ہیں ۔ اس پر بھی میر حامد حسین نے عبقات میں اور علامہ امینی نے الغدیر میں اور خاص طورسے میر حامد حسیننے پوری ایک جلد میں بحث کی ہے ۔ ( صاحب الغدیر نے حدیث غدیر کے علاوہ دوسری حدیثوں پر زیادہ کام نہیں کیا ہے ) اس حدیث کو حدیث منزلت کہتے ہیں ، جس میں پیغمبر اسلام (ص) نے علی (ع) کومخاطب کرتے ہوئے فرمایا : انت منی بمنزلۃ ھارون من موسیٰ الّا انّہ لانبیّ بعدی " تم کو مجھ سے وہی نسبت ہے جو ہارون کو موسیٰ سے تھی بس فرق یہ ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے ۔ آنحضرت (ص) نے یہ جملہ اس وقت فرمایا جب آپ غزوہ تبوک کے لئے تشریف لے جارہے تھے ۔ غزوۂ تبوک کوئی جنگ نہ تھی بلکہ صرف ایک لشکر تھی ۔ یہ لشکر کشی غزوۂ موتہ کے بعد عمل میں آئی ، جو عرب اور رومیوں کے درمیان عہد پیغمبر(ص) میں پہلی اور آخری جنگ تھی ۔ اور مدینہ کے شمال میں لڑی گئی تھی ۔ مشرقی روم کی شہنشاہیت کامرکز اسلامیوں یعنی (قسطنطنیہ ) تھا ۔ شام کا علاقہ بھی ان ہی کی حمایت اور سر پرستی میں تھا ۔ رومی شام میں جمع ہوکر مدینہ پر حملہ کے لئے تیاریاں کررہے تھے ۔ پیغمبر اکرم (ص) نے مناسب سمجھ اکہ روم کی سر حد تک ایک لشکر کشی کی جائے ۔ چنانچہ آپ نے یہ اقدام فرمایا جو غزوۂ تبوک کے نام سے مشہور ہے ۔
سیاست دونوں کے بقول پیغمبر (ص) اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے کے لئے روم کی سر حد تک تشریف لے گئے تھے کہ آؤ ہم بھی آمادہ ہیں اور پھر واپس ہولئے ۔ آنحضرت اس سفر میں علی (ع) کو اہنے ہمراہ نہیں لے گئے بلکہ آپ کو مدینہ میں اپنا جانشین بناکر چھوڑ گئے تھے ۔ علماء شیعہ کہتے ہیں کہ پیغمبر (ص) نے یہ اقدام اس وجہ سے فرمایا تھا کہ جانتے تھے کوئی جنگ نہیں لڑے جائے گی ۔ علی جب مدینہ میں اکیلے رہ گئے تو بہت افسردہ اور دل تنگ ہوئے آپ نے آنحضرت سے عر ض کی : یا رسول اللہ ! آپ مجھے اپنے ساتھ نہ لے جا کر یہاں عورتوں اور بچوں کے درمیان چھوڑے جارہے ہیں ؟ اس پر حضرت نے فرمایا : "اماترضیٰ ان تکون ( یا انت ) منّی بمنزلۃ ھارون من موسیٰ الّا انہ لانبیّ بعدی (گویا آپ یہ کہنا چاہتے تھے کہ میں نے تم کو مدینہ میں اپنا جانشین مقرر کیا ہے ۔ یوں ہی چھوڑے نہیں جارہاہوں ) یعنی سوائے نبوت کے جو جو نسبت ہارون کو موسیٰ سے تھی وہ تمہیں مجھ سے ہے ،جب ہم ہارون اور موسیٰ کے درمیان نسبتوں کا جائزہ لینے کے لئے قرآن کی طرف رجوع کرتے ہیں تو نظر آتا ہے کہ موسیٰ ابتدائے کار میں ہی یعنی پیغمبری عطا کئے جانے کے فوراً بعد خداسے یہ درخواست کرتے ہیں : ربّ اشرح لی صدری ویسّرلی امری واحلل عقدۃ من لسانی یفقھوا قولی ( یہاں تک تو صرف اپنے لئے دعا ہے ۔ اس کا ہمارے موضوع میں سے کوئی ربط نہیں ہے ) واجعل لی ونیراً من اھلی ( اصل میں وزیر کے معنی ہمارے اور مدد کے ہیں ، وزیر یعنی بوجھ ، سنگینی ، وزیر یعنی جو ایک حد تک بوجھ بتائے ۔ یہ اصلاح بھی بعد میں اسی لئے مشہور اور رائج ہوئی کہ وزیر بادشاہ کا معاون ہوا کرتا ہے ) اے معبود ! میرے لئے میرے خاندان سے معاون و مددگار معین فرما۔ پھر خود ہی پیشکش کرتے ہیں ۔ "ھارون اخی " میرے بھائی ہارون کو ( میرا وزیر معین کردے ) "اشدد لہ ازری " اور اس کے ذریعہ سے میری پشت محکم کردے ۔" واشرکہ فی امری " اور اسے اس کام میں میرا شریک قرار دے ۔" کی نسبحک کثیراً و نذکرک کثیرا"[15] ۔ تاکہ ہم دونوں بیش از بیش تیری تسبیح پڑھیں اور تجھے یاد کریں ۔ یعنی تیرے دین کو زیادہ سے زیادہ رواج بخشیں ۔
دوسری جگہ قرآن ( مذکور واقعہ کے بعد) فرماتا ہے کہ موسیٰ نے ہارون سے کہا :" یاھارون اخلفنی فی قومی [16] " اے ہارون ! میری قوم میں میرے جانشین بن کررہو۔
چنانچہ جب پیغمبر(ص) فرماتے ہیں :" انت منی بمنزلۃ ھارون من موسیٰ " تو اس سے حضرت کی مراد یہ ہے کہ وہ تمام نسبتیں جو قرآن کی روشنی میں ہارون کو موسی سے تھیں ( مثلاً ان کے وزیر تھے ، ان کی پیٹھ ان سے محکم تھی ، شریک کار تھے ،ا ور ان کی قوم میں ان کے جانشین تھے ) وہ سب تمہیں مجھ سے ہیں الاانہ لس نبی بعدی یعنی سوائے نبوت کہ میرے بعد کوئی نبی نہ ہوگا ۔: اگر پیغمبر اکرم (ص) الاانہ لابنی بعدی نہ فرماتے تو یہ کہا جاتا کہ پیغمبر نے کسی ایک پہلو یا کسی مخصوص شباہت کی طرف اشارہ فرمایا ہے ۔ لیکن جب آپ صرف نبوت کا استشناء فرماتے ہیں تو گویا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ تمام پہلوؤں میں یہ نسبت برقرار ہے ( البتہ تمام اجتماعی مراحل میں ، طبیعی و فطری نسبت کے تحت نہیں کہ "موسیٰ و اہرون بھی بھائی تھے ۔ تم اور ہم بھی بھائی ہیں : بلکہ جو نسبت ہارون کو خدا کی طرف سے موسیٰ کے ذریعہ تمام مراحل میں حاصل تھی ، وہی تمھیں مجھ سے حاصل ہے ۔
اہل سنت اس کاجواب دیتے ہیں کہ اگر ایسی کوئی حدیث متواتر ہوتی تو ہم مان لہتے لیکن یہ متواتر نہین ہے بلکہ خبر واحد ہے ۔ لیکن جیسا کہ میں عرض کرچکا ہوں کہ میر حامد حسین جیسے علماء نے اپنی کتابوں میں اہل سنت کے جوانوں سے ثابت کیا ہے کہ یہ حدیث متواتر ہے ۔

سوال وجواب:
سوال : گزشتہ جلسہ کی اختتامی اور آج کے جلسہ کی ابتدائی گفتگو سے جو نتیجہ میں نے اخذ کیا ہے اس نے میرے ذہن میں حکومت و امامت کے درمیان ایک طرح سے حد بندی کی لکیر کھینچ دی ہے اوروہ اس طرح کہ آقای مطہری نے فرمایا کہ امامت کے کچھ فرائض ہیں جن کا ایک شعبہ حکومت بھی ہے ۔ میں نہیں سمجھ سکا کہ حکومت کے علاوہ اس کے دوسرے کون سے شعبے ہیں جن میں حکومت شامل اور دخیل نہیں ہے ۔ ہم اب تک اسلام سے جو کچھ سمجھے ہیں وہ یہ کہ ہماری دنیا و آخرت یا دینوی اور آخروی اعمال کےے درمیان حد فاصل نہیں ہے جو کچھ اخروی اعمال کے عنوان سے بیان کیا جا تا ہے وہ ہمارے دنیاوی اعمال کی ضمانت بن کر خود ہماری زندگی میں دخیل ہے اور ہمارے دنیاوی اعمال ہماری انفرادی و اجتماعی زندگی کو ارتقاع و کمال کی طرف لے جاتے ہیں ساتھ ہی معاشرہ میں ایک اجتماعی حکومت برقرار کرنے میں معاون ثابت ہوتے ہیں ۔ قرآن حکیم میں بھی ہمیں یہ بات نظر آتی ہے کہ خدا ان ہی کو بلند مقام عطاکرتا ہےجو اپنے عبادی اعمال کء ذریعہ اپنی دینوی زندگی کو سنوارتے ہیں ۔ عدل و انصاف کی حاکمیت قائم کرنے میں کوشاں رہتے ہیں اور قرآن میں جہاد کو سب سے زیادہ اہمیت دی گئی ہے ۔ ائمہ علیہم السلام کی زندگی میں بھی یہی بات نظر آتی ہے ۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ان کے تمام ارشادات اوران کی پاکیزہ سیرتیں یہ ظاہر کرتی رہتی ہیں یہ حضرات اپنے حقوق حقہ حاکمیت اورحکومت حاصل کرنے کی مسلسل جد جہد کرتے رہے چاہے وہ اعلانیہ جہاد کرتے رہے یا قید خانوں یا مخفی گاہوں میں خاموشی کے ساتھ ان تحریکوں کی سربراہی کرتے رہے یہی وجہ ہے کہ میں امامت کے لئے حکومت کے علاوہ دوسرے فرائض کی توجیہ نہیں کرپاتا کیونکہ ان کی حکومت ہی امامت کی تمام اعمال کی توجیہ کرسکتی ہے۔ برائے مہربانی وضاحت فرمادیں ؟
جواب :حد بندی کی بات تو آپ نے خود اٹھائی ہے ، میں نےاس لفظ کا ہی استعمال نہیں کیا اورنہ اسے صحیح سمجھتا ہوں ۔ میں نے عرض کیا تھا کہ امامت شیعوں کے یہاں حکومت سے بھی بالاتر ایسا مرتبہ و مقام ہے جو کا ایک پہلو حکومت بھی ہے وہ اعلیٰ منزلت تو معصوم وبے خطا ہونے کی حیثیت سے اسلام بیان کرنا اور اس کی وضاحت کرنا اور احکام دین کے لئے ان کا مرجع و منبع قرار پانا ہے ۔ ہم کہتے ہیں کہ پیغمبر (ص) کی ایک شان حکومت و حاکمیت بھی تھی ۔ یہ تو کوئی حد بندی نہیں ہوئی ۔ پیغمبر اکرم (ص) لوگوں پر حاکم تھے لیکن یہ حکومت انسانوں کی طرف سے ان کو نہیں ملی تھی اور نہ انسانوں نے انھیں یہ حق دیا تھا ۔ بلکہ یہ خدا داد حق تھا ، اس کی دلیل یہ ہے کہ وہ تمام انسانوں میں سب سے مافوق اور بلند تھے ( دوسرے لفظوں میں پیغمبر (ص) تھے ) کیونکہ احکام الٰہی کے بیان کرنے والے اور عالم غیب سے معنوی رابطہ رکھنے والے تھے ۔ میں نے نہ تو دنیا و آخرت کے درمیان کسی فاصلہ یا حد بندی کا اظہار کیا ہے اورنہ ہی حاکم وامام کے درمیان کسی جدائی کا قائل ہوں کہ یہ کہوں ، امام لوگوں کی آخرت کا ذمہ دار ہے اورحاکم لوگوں کی دنیا کے لئےہے ۔ اگر میں نے یہ کہا ہوتا تو آپ کا اعتراض بجاتھا ۔ ہم یہ کہتے ہیں کہ شیعوں کے یہاں امامت کا مسئلہ ہی دوسرا ہے ۔ اگر وہ ثابت ہوجائے تو حکومت خود بخود ثابت ہوجائے گی ۔ ہم در اصل نبوت کی ایسی جانشین کے قائل ہیں کہ اس کے ہوتے ہوئے کسی دوسرے کی حکومت کا سوال ہی نہیں اٹھتا ، جس طرح پیغمبر (ص) کی موجودگی میں کسی غیر کی حکومت کی بات مہمل ہے ، اسی طرح شیعوں کے یہاں بیان شدہ امام کی موجودگی میں کسی دوسرے کی حکومت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا آج کل رائج معنی کے مطابق حکومت اسی وقت ممکن ہے جب ہم فرض کرلیں کہ دنیا میں کوئی امام موجود ہی نہ ہو یا ہمارے زمانہ کی طرح امام پردۂ غیب میں ہو۔ ورنہ امام کی موجودگی اور اس کے ظہور کے وقت شیعہ جس سطح کی امامت کے قائل ہیں حکومت کا مسئلہ خود بخود روشن اور حل شدہ ہے ۔
سوال : اہل سنت غدیر خم والی روایت کو خبر واحد قرار دیتے ہیں اور متواتر نہیں جانتے یا آپ کی بیان کردہ اس روایت کو جس میں رسول اکرم(ص) نے فرمایا کہ : علی کو سلام کرو کیوں کہ وہ تمہارے امیر ہیں ؟
جواب : روایت غدیر کے اس فقرہ میں من کنت مولاہ فھٰذا علی مولاہ کے سلسلہ میں تو شاید اہل سنت بھی اس کے متواتر ہونے سے انکار کرسکتے، اگر چہ ملا علی قوشجی یہی کہتے ہیں کہ یہ جملہ بھی متواتر نہیں ہے ۔ در اصل یہ جملہ اتنا زیادہ نقل ہوا ہے کہ اہل سنت کو بھی اس کے ( تواترسے ) انکار کی مجال نہیں ہے (۱) اس جملہ کے بہت زیادہ نقل ہونے کی وجہ یہ ہے کہ پیغمبر (ص) کے زمانے میں آنحضرت کے اقوال اسی وقت لکھ کر محفوظ مہیں کئے جاتے تھے بلکہ ذہنوں میں محفوظ کر لئے جاتے تھے ۔ لہٰذا فطری طور پر اس حدیث کا وہی جملہ سب سے زیادہ یاد رہا جس میں علی(ع) کا نام موجود تھا : من کنت مولاہ فھٰذا علی مولاہ ۔ بہت سے لوگوں نے اس روایت کے پہلے حصہ کو بھی نقل کیا ہے جس میں پیغمب رفرماتے ہیں : "الست اولیٰ بکم من انفسکم " شیعہ اس حصہ کو بھی متوتر جانتے ہیں ۔ لیکن حدیث : "سلّموا علیٰ علیّ بامرۃ امیرالمومنین " کے تواتر کو اہل سنت ، کسی صورت قبول نہیں کرتے بلکہ اسے خبر واحد کہتے ہیں ۔ اور شاید ہم بھی اس کے متواتر ہونے کو پورے طور سے ثابت نہ کر پائیں ( مین اس سلسلہ میں زیادہ نہیں جانتا ) اور کوئی ضروری بھی نہیں ہے ۔ لیکن اس حدیث اک اصل حصہ کہ پیغمبر (ص) نے فرمایا :" الست اولیٰ بکم من انفسکم " اور لوگوں نے عرض کیا "بلیٰ" ہاں یارسول اللہ (ص) اس کے بعد حضرت نے فرمایا :ل من کنت مولاہ فھٰذا علی مولاہ اللٰھم وال من والاہ وعاد من عاداہ (۲) سفینۃ البحار ۔ جلد ۲، ص ۲۰۶ ۔ اس کا تواتر ہماری نظر میں واضح اور بد یہی ہے ۔جبکہ اہل سنت اس سلسلہ میں اختلاف نظر رکھتے ہیں ۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ حدیث متواتر ہے ، بعض کہتے ہیں کہ خبر واحد ہے ۔ اور بعض اسے متواتر تو جانتے ہیں لیکن کہتے ہیں کہ اس کا مطلب وہ نہیں ہے جو شیعہ بیان کرتے ہیں بلکہ اس کا میں پیغمبر (ص) نے یہ فرمایا ہے کہ جو شخص مجھے دوست رکھتا ہے وہ علی کو بھی دوست رکھے ۔ ہم کہتے ہیں کہ کہ یہ کون سی بات ہے کہ پیغمبر غدیر خم میں لوگوں کو جمع کریں اور یہ فرمائیں کہ جو مجھے دوست رکھتا ہے علی کو بھی دوست رکھے ! آخر یہ کون سی خاص بات ہوئی کہ علی کو صرف دوست رکھو ؟ ! جبکہ اس سے قبل خود حضرت فرماچکے ہیں : " الست اولیٰ بکم من انفسکم " کلمۂ مولا بنیادی طور پر کسی بھی جگہ دوست کے معنی میں استعمال نہیں ہوا ہے ۔
سوال : کیا آیت : " الیوم اکملت لکم دینکم و اتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دیناً " واقعہ غدیر کے بعد نازل ہوئی ہے ؟
جواب : نہیں ، غدیر خم ہی میں نازل ہوئی ہے ۔

چوتھی بحث
آیت: الیوم یئس اور مسئلہ امامت
گزشتہ بحث میں ہم عرض کرچکے ہیں کہ مسئلہ امامت کے شیعہ اور اہل سنت کے نظریوں کی بنیادی ایک دم الگ الگ ہے ۔اور یہ دونوں نظر یے بنیادی طور سے مختلف ہیں ۔ لہٰذا اس مسئلہ میں یہ بحث کرنا ہی غلط ہے کہ ہم بھی امامت کے قائل ہیں اور وہ بھی ، لیکن امامت کے شرائط میں ہم دونوں کے نظریوں میں فرق ہے ۔ کیونکہ شیعہ امامت سے جس مرتبہ و منصب کے قائل ہیں وہ اس سے بالکل جدا ہے جس کے امامت کے نام پر اہل سنت معتقد ہیں ۔ اسی طرح جیسے اس مسئلہ کویوں اٹھانا صحیح نہیں ہے کہ امامت نص کے ذریعہ معین ہوتی ہے یا شوریٰ کے ذریعہ ؟ یعنی امام کی تعیین پیغمبر(ص) کو کرنی چاہئے یالوگوں کو اس کے انتخاب کا اختیار ہے ، کیونکہ امامت کےسلسلہ میں شیعہ جو عقیدہ رکھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ امام نص کے ذریعہ معین ہوتا ہے وہ اس سے ایک دم الگ ہے جس کا اہل سنت اظہار کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس کا انتخاب شوریٰ سے ہوتا ہے ۔ ایسا نہیں ہے کہ دونوں ایک ہی چیز کے بارے میں بحث کرتے ہیں اورایک کہتا ہے کہ یہ نص کے ذریعہ ہے ، دوسرا کہتا ہےکہ شوریٰ کے ذریعہ اصل میں کہنا یہ چاہئے کہ شیعہ کی نظر میں امامت سے مراد جو کچھ ہے اہل سنت اسے سرے سے قبول ہی نہیں کرتے ، صرف اس کے شرائط ہی میں اختلاف نہیں رکھتے ۔ اس کی مثال بالکل منکرین نبوت کے نزدیک نبوت کے مانند ہے ۔ شیعہ امامت سے وہ بلند و بالامقام مراد لیتے ہیں کہ قہری طور پر اگر کوئی اس مقام کا تصور کرلے اور اسے قبول کرلے تو بہر حال اسے ماننا ہی پڑے گا کہ امام کوخدا کی جانب سے معین کیا جاناچاہئے ۔ جس طرح نبوت کے سلسلہ میں کبھی یہ نہیں کہا جاتا کہ لوگ بیٹھ کر نبی منتخب کرلیں۔ اسی طرح شیعہ نقطۂ نطرسے امام کی جو حیثیت و منزلت ہے ، اس کے لئے بھی یہ کہنے کی گنجائش نہیں ہے کہ لوگ مل بیٹھ کر ایسے کسی شخص کا انتخاب کرلیں ۔
گشتہ بحث میں ہم شیعی نقطۂ نظر سے امامت کے مراتب و شرائط کا ذکر کرتے ہوئے یہاں تک پہنچتے ہیں کہ شیعہ اس مسئلہ کو اوپر سے شروع کرتے ہیں ( یعنی خدا سے) اور وہاں سے زینہ بازینہ نیچے آتے ہیں اس کے بعد وہ یہ کہتے ہیں کہ یہ بات صرف ایک مفروضہ ہی نہ رہ جائے لہٰذا دیکھنا چاہئے کہ ہم امامت کے سلسلہ میں جو اعلیٰ معیار رکھتے ہیں ،کیا پیغمبر اکرم (ص)نے بھی کسی کو اس مقام کے لئے معین فرمایا ہے ؟ اور قرآن بھی اس سلسلہ میں کچھ فرماتا ہے یا نہیں ؟
پہلے یہ خیال تھا کہ اسی ترتیب کے ساتھ گفتگو کو آگے بڑھاؤں جس ترتیب سے خواجہ نصرالدین نے اپنی کتاب تجرید میں اس مسئلہ کو پیش کیا ہے ، لیکن چونکہ عید غدیر نزدیک ہے لہٰذا طے کیا کہ بہتر ہے پہلے غدیر سے مربوط آیا ت پر ہی کچھ روشنی ڈالی جائے ۔
آیہ الیوم یئس الذین کی تحقیق:
سورۂ مائدہ کے شروع میں یہ آیت مذکور ہے : الیوم یئس الذین کفروا من دینکم فلا تخشوھم ولخشون الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دینا(۱) " سورۂ مائدہ آیت ۳ () آیت کے یہ دونوں حصے جو "الیوم " سے شروع ہوتے ہیں ایک ہی آیت کے ضمن میں ہیں ۔ اور قدر مسلّلم یہ ہے کہ دونوں ایک ہی مطلب سے مربوط ہیں نہ کہ دو الگ الگ مطالب سے ۔ پہلے اس آیت کا ترجمہ عرض کردوں پھر قرآن کے لحاظ سے اس کی شروع و تفسیر بھی کروں گا ۔
لفظ " یوم " یعنی روز جب " الف ولام " کے ساتھ ذکر ہوتا ہے ( الف ولام عہد کے ساتھ ) تو کبھی " اُس روز"کے معنی دیتا ہے اور کبھی" آج " کے معنی ظاہر کرتا ہے ۔" اس روز" کے معنی میں وہاں استعمال ہوتا ہے جہاں پہلے ایک روز کا ذکر ہوچکا ہو ، بعد میں الیوم کہیں تو وہاں " اُس روز" مراد ہوگا ۔ اور اگر کہیں مثلاًً الیوم فلاں شخص آیا تو یہاں اس سے مراد آج ہوگا ۔ الیوم یئس الذین کفروامن دینکم ( ابھی ہم یہ نہیں کہتے کہ اس سے مراد اس روز ہے یا آج ۔ اس کی وضاحت ہم بعد میں کریں گے ) اس روز یاآج کفار تمہارے دین سے مایوس ہوگئے ۔ فلا تخشوھم لہٰذا اب ان سے کوئی خوف محسوس نہ کرو۔ تمہارے دین سے انب کے مایوس ہوجانے کا مطلب یہ ہے کہ اب وہ تمہارے دین پر غلبہ پانے اور اسے نیست نو نابود کرنے سے مایوس ہوگئے ۔ اور چونکہ مایوس ہوگئے لہٰذا اسلام مخالف اپنی کزشتہ ریشہ دوانیوں سے بھی دست بردار ہوگئے ۔ اور اب ان سے ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔ بعد کا جملہ بہت عجیب ہے ۔ ارشاد ہوتا ہے : " واخشون " اور مجھ سے ڈرو ۔ یعنی کہا یہ جارہا ہے کہ اب کفار کی طرف سے ڈرنے کی ضرورت نہیں لیکن میری طرف سے خوف زدہ رہو جبکہ بات خود دین کی ہورہی ہے ۔ کفار کی طرف سے خوف کا مطلب تو یہ تھا کہ ان سے دین کو کوئی گزند نہ پہنچے ، ان کے لئے تو خدا فرماتا ہے نہ ڈرو اب وہ کچھ نہیں کرسکتے " واخشون " لیکن مجھ سے ڈرو ۔ فطری طور پر معنی تو یہی ہوں گے کہ اب اگر دین کو کوئی گزند نہ پہنچے گا تو میری طرف سے پہنچے گا ۔ آخر یہ کون سا مفہوم ہے کہ آج کے بعد سے اپنے دین کے لئے کفار سے نہ ڈرو ۔ " اسسے کیا مقصود ہے اسے بعد میں ذکر کروں گا۔
پھر ارشاد ہوتا ہے :" الیوم اکملت لکم دینکم " اس روز (یا آج ) میں نے تمہارے دین کو کامل کیا یعنی حد کمال پر پہنچا دیا ۔" واتممت علیکم نعمتی " یعنی اپنی نعمت کو تم پر تمام کردیا ۔ یہاں دو قریب المعنی لفظ ذکر ہوئے ہیں : " اکمال " و"اتمام" یہ دونوں لفظ ایک دوسرے کے بہت قریب ہیں یعنی میں نھے کامل کیا یا تمام کیا ۔

اکمال اوراتمام کا فرق:
(فارسی میں اور خصوصاً عربی میں ) ان دونوں لفطوں کا باہمی فرق یہ ہے کہ " اتمام " اس جگہ استعمال ہوتا ہے جہاں کسی چیز کے اجزاء یکے بعد دیگرے آتے رہیں جب تک تمام اجزاء نہ آجائیں اس چیز ک وناقص کہتے ہیں اور جب اس کا آخری جزو بھی آجاتا ہے تو کہتے ہیں وہ چیز تمام ہوگئی مثلاً ایک مکان جب وہ پورا بن کر تیار ہوجاتا ہے تو (عربی میں ) کہتے ہیں تمام ہوگیا ۔ ورنہ چاہے اس کی دیواریں کھڑی کرلیں اوراس پر چھت بھی ڈال دیں مکان تمام نہ کہلائے گا جب تک اس کے تمام ضروری اجزاء اس میں الگ نہ جائیں جو اگر نہ ہوں تو مکان سے استفادہ نہیں کیا جاسکتا ۔ اس صورت میں کہتے ہیں یہ عمارت تمام نہیں ہوئی ہے ۔ جب اس میں تمام اجزاء لگ جائیں ار وہ رہنے کے قابل ہوجائے تو تب کہا جائے گا مکان اتمام کو پہنچا ۔ لیکن لفظ" کامل " میں ایسا نہیں ہے کہ (غیر کامل چیز ) کوئی نقص بھی رکھتی ہو بلکہ ممکن ہے کہ اس کاکوئی جزو بھی کسی کطرح کا نقص نہ رکھتا ہو پھر بھی ابھی کامل نہ ہو۔ مثال کے طور پر بچہ رحم مادر میں حد اتمام تک تو پہنچ جاتا ہے یعنی اس کے جسم کے تمام اجزاء مکمل ہوجاتے ہیں ، بچہ دنیا میں بھی آجاتا ہے لیکن ابھی وہ کامل انسان نہیں ہے ۔ یعنی ابھی رشد کی آخری منزلوں تک نہیں پہنچا ہے ۔ رشد کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس کے جسم کا کوئی جزو ناقص تھا ۔ در حقیقت کامل اور تمام میں باہم کمّی و کیفی فرق ہے
قرآن ایک طرف کہتا ہے : " الیوم اکملت لکم دینکم " اس روز میں نے تمہارے دین کو کامل کردیا ۔ اور دوسری طرف فرماتا ہے : " واتممت علیکم نعمتی " میں نے نعمت بھی تم پر تمام کردی " ورضیت لکم الاسلام دیناً " اور آج میں نے اسلام کو ایک دین کے عنوان سے تمہارے لئے پسند کرلیا ۔ یعنی یہ اسلام آج وہ اسلام ہے جیسا خدا چاہتا تھا ۔ ظاہر ہے کہ اس سے مراد یہ نہیں ہے کہ اسلام تو وہی پہلے ہی والا اسلام ہے لیکن اب اس کے سلسلہ میں خدا کا نظریہ بدل گیا ہے ! بلکہ اس کا مقصد یہ ہے کہ اب جبکہ اسلام کمال و اتمام کی حد تک پہنچ گیا ، اب یہوہی دین ہے جس میں رضائے خداشامل ہے ۔ خدا جیسا دین چاہتا تھا وہ یہی کامل شدہ اورتمام شدہ اسلام ہے ۔
آیت کا مفہوم اس سے زیادہ کچھ نہیں ہے ۔ صرف اس میں جوبات ہے وہ یہ کہ لفظ الیوم سے مراد کون ساروز ہے ؟ کون سا روز اس حد تک اہم ہے کہ قرآن کہتا ہے اس روز دین کامل ہوا اور نعمت خدااس پر تمام ہوگئی ۔ یہ بہر حال بہت اہم دین ہونا چاہئے یقیناًکوئی بہت ہی غیر معمولی واقعہ اس روز رونما ہوا ہوگا ۔ اور ظاہر ہے یہ بات شیعہ یا سنّی سے تعلق نہیں رکھتی ۔
اس قضیہ کے عجائبات میں سے ایک نکتہ یہ بھی ہے کہ اس آیت کے قبل اور بعد کی آیتوں سے بھی کوئی ایسی چیز سمجھ نہیں آتی جو اس روز کو ثابت کرسکے ۔ مختصر یہ ہے کہ خود آیت کے لفظی قرائن سے "وہ روز" سمجھا نہیں جاسکتا ۔ ایک موقع ہے جب آیت سے پہلے کسی بہت ایم واقعہ یا حادثہ کا ذکر ہوا ہو اور بعد میں اسی حادثہ یا واقعہ کی " مناسبت سے " آج " کہا جائے ۔ یہاں ایسا بھی نہیں ہے ۔ کیونکہ اس آیت سے پہلے بڑے عام اورسادہ سے احکام بیان کئے گئے ہیں کہ کس جانور کا گوشت تم پر حلال ہے اورکس کا حرام ہے ۔ مراد کا حکم کیا ہے ۔ خون اور سور کا گوشت تم پر حرام ہے وغیرہ وغیرہ اور پھر اچانک ارشاد ہوتا : الیوم یئس الذین کفروا من دینکم فلا تخشوھم و اخشون الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دیناً اس آیت کےتمام ہونے کے بعد ہی دوبارہ گزشتہ مطالب کا بیان ہوجاتا ہے کہ کون سا گوشت تم پر حرام ہے اور اضطرار ومجبوری کی حالت میں اس کے استعمال میں کوئی حرج نہیں ہے : فمن اضطرّ فی مخمصۃ غیر متجانف یعنی ان آیات کا سلسلہ کچھ ایسا ہے کہ اگر ہم زیر بحث آیت کو درمیان سے ہٹا بھی دیں تو اس کے ماقبل اور مابعد کی آیتیں آپس میں مربوط ہوجائیں گی اور کوئی معمولی ساخلل یا خلابھی نظر نہ آئے گا ۔ جیسا کہ اسی مضمون کی آیتیں مذکورہ آیت کے درمیان میں لائے بغیر قرآن میں مزید دوتین جگہ ذکر ہوئی ہیں اور مفہوم و مطلب بھی ایک دم کامل ہے کہیں سے کوئی نقص یا خلا ظاہر نہیں ہوتا ۔

"الیوم " سے مراد کون ساروز؟:
یہی وجہ ہے کہ اس مقام پر شیعہ اورسنی دونوں مفسرین اس کو کوشش میں سر گرداں ہیں کہ " الیوم " سےمراد کون ساروز ہے ؟ اس حقیقت کو معلوم کرنے کے دو طریقے ہیں ۔ ایک یہ کہ ہم قرائن کے ذریعہ سمجھیں یعنی مضمون کے قرینہ سے دیکھیں کہ یہ مضمون کس روز پر چسپان ہوتا ہے ؟ اور کس روز سے متعلق ایسی اہم بات بیان کی جاسکتی ہے ؟ دوسرے یہ کہ تاریخ ع حدیث کے ذریعہ سمجھیں کہ اس آیت کا شان نزول کیا ہے ؟ جو لوگ پہلی راہ کا انتخاب کرتے ہیں وہ تاریخ و سنت وحدیث کے ذریعہ آیت کے شان نزول موقع و محل اور اس کی مناسبت سے کوئی سروکار نہیں رکھتے ، وہ یہ کہتے ہیں کہ ہم نے آیت کے مضمون کودیکھ کر یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ یہ آیت زمانہ بعثت سے مربوط ہے ۔ لہٰذا " الیوم " سے مراد " اس روز" ہے نہ کہ "آج " ۔
یہاں یہ بات بھی عرض کردوں کہ یہ سورۂ مائدہ کی ابتدائی آیتیں ہیں ارویہ سورہ قرآن کا پانچواں سورہ ہے جو ، " یا ایھا لذین آمنوا اوفوا بالعقود " سے شروع ہوتا ہے ۔ اور تمام مفسرین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ سورۂ مائدہ پیغمبر (ص) پر نازل ہونے والا آخری سورہ ہے یعنی مدنی سورہ ہے ۔ حتیٰ سورہ اذاجاء نصر اللہ و الفتح " کے بعد نازل ہوا ہے ۔ البتہ مفسرین کے مطابق ایک دو آیتیں اس سورہ کے بعد بھی نازل ہوئی ہے جنھیں دوسرے سوروں میں شامل کردیا گیا ، لیکن یہ طے ہے کہ اس سورہ کے بعد کوئی سورہ نہیں نازل ہوا اوراس میں وہ آیتیں ہیں جو آخرآخر پیغمبر پر نازل ہوئی ہیں ۔

" الیوم " سے متعلق کی مختلف نظریات:
۱۔ روز بعثت : ہم عرض کرچکے ہیں کہ بعض مفسرین کے نزدیک " الیوم " سے مراد " اُس روز " سے نہ کہ " آج " ۔ جب ان سے سوال ہوتا ہے کہ اس کا قرینہ کیا ہے : تو جواب ملتا ہے کہ قرآن " الیوم " کہکر ایک روز کی اس قدر تعریف و توصیف کرتا ہے " کہ اس روز میں نے اسلام کو ایک دین کے عنوان سے تمہارے لئے پسند کرلیا " لہٰذا قاعدتاً ی ہبعثت پیغمبر (ص) کا روز ہی ہونا چاہئے ۔ اس کا جواب یہ دیا گیا کہ آپ اپنی بات کے لئے" رضیت لکم الاسلام دیناً" کو قرینہ بنارہے ہیں ، یہ قرینہ اس وقت درست ہوتا جب اس سے پہلے کے جملے اس میں موجود نہ ہوتے ۔ کیونکہ اصل میں بات یہ کہی جارہی ہے کہ آج میں نے دین کو کامل کردیا اور تم پر اپنی نعمتوں کو تمام کردیا ( جبکہ ) روز بعثت اس نعمت کے شروع ہونے کا پہلا روز تھا ۔ اور " رضیت لکم الاسلام دیناً " بھی اس وجہ سے ذکر کی اگیا ہے کہ اب جبکہ اسلام کامل ہوگیا اور اسلام کی نعمت اتمام کو پہنچ کئی تو میں نے اس " دین " کو جیسا میں چاہتا تھا تمہارے لئے پسند کرلیا ۔ اس اعتبار سے " الیوم " روز بعثت نہیں ہوسکتا ۔
۲۔ روز فتح مکہ : روز بعثت کے بعد جس دوسرے روز اک احتمال دیا جاتا ہے ( البتہ اس میں کوئی قرینہ نہیں پایا جاتا ، صرف ایک احتمال ہی ہے، اور چونکہ بیان کیا گیا ہے لہٰذا ہمبھی نقل کررہے ہیں ) وہ روز فتح مکہ ہے ۔ کہتے ہیں کہ تاریخ اسلام میں ایک اورروز بھی بہت زیادہ اہم ہے ( اور صحیح بھی ہے کہ فتح مکہ تاریخ اسلام کا بہت اہم دن ہے ) اور وہ فتح مکہ کا روز ہے جس میں یہ آیت نازل ہوئی : انّا فتحنالک فتحاً مبیناً لیغفر لک اللہ ماتقدّم من ذنبک وما تأ خر (۱) " سورۂ فتح ، آیت نمبر ۱،۲
مکہ جزیرۃ العرب میں روحانی و معنوی حیثیت سے ایک عجیب منزلت کا حامل تھا ۔ عام الفیل کے بعد یعنی جس سال اصحاب فیل نے مکہ پر حملہ کیا اور اس عجیب و غریب انداز سے شکست سے دوچار ہوئے ۔ جزیرۃ العرب کے تمام لوگ کعبہ کو ایک عظیم عبادت گاہ کی حیثیت سے بڑی ہی گہری عقیدت کی نگاہوں سے دیکھنے لگتے تھے ۔ اسی وجہ سے قریش میں غرور بھی پیدا ہوگیا تھا ۔ قریش اس (واقعہ ) کا سہرا اپنے سر باندھتے تھے اور کہتے تےتھے "دیکھو یہ کعبہ ہے جو اس قدر محترم ہے کہ اتنا عظیم لشکر جب اسے ڈھا نے آیا تو اس بُری طرح آسمانی بلا میں گرفتار ہوکہ ان میں کا ایک شخص بھی بچ نہ سکا دیکھو ! ہم کس قدر اہم اور با عظمت ہیں ! اسی کے بعد قریش میں عجیب و غرور ونخوت کا احساس پیدا ہوگیا ۔ اور عرب کے دوسرے قبائل میں بھی ایک طرح سے ان کی اطاعت و فرمانبرداری کی کیفیات پیدا ہوگئیں ۔ مکہ کے بازارکو بڑی شہرت حاصل ہوئی چنانچہ قریش جوجی چاہتا تھا لوگوں پر حکم لگایا کرتے تھے اورلوگ بھی کعبے سے اپنے اسی روحانی احساس و اعتقاد کی بنا پر چون وچرا ان کی اطاعت کرتے تھے ۔
واقعۂ فیل کے بعد لوگوں میں یہ اعتقاد پیداہوگیا تھا کہ کعبہ اس قدر عظیم ہے کہ اب اس پر کسی کا قبضہ یا تسلط ہونا محال ہے ۔ پیغمبر اکرم (ص) نے مکہ کو فتح کرلیا جبکہ نہ کوئی خونریزی ہوئی نہ کوئی دشواری پیش آئی اورنہ کسی کو ذراسا بھی گزند پہنچا ۔ شاید پیغمبر اکرم (ص) جو یہ چاہتے تھے کہ بغیر خونریزی کے فتح ہوجائے ان کی نگاہ مبارک میں حرمت کعبہ کے علاوہ یہ مسئلہ بھی در پیش تھا ۔ اگر کہیں اور جنگ ہوئی ہوتی ، اور سو مسلمان بھی قتل ہوجاتے تو کوئی محسوس کرنے والی بات نہ ہوتی ۔ لیکن اگر فتح مکہ کے دوران مسلمانوں کو کوئی نقصان پہنچتا تو یہی کہا جاتا کہ دیکھو !( معاذاللہ ) جو کچھ اصحاب فیل کے ساتھ پیش آیا وہی اصحاب محمد (ص) کے ساتھ بھی ہوا ۔ چنانچہ پیغمبر اکرم (ص) نے مکہ کو اس طرح فتح کیا کہ ایک قطرہ خون نہیں بہا ، نہ مسلمانوں کا اورنہ کفارکا ، صرف خالدبن ولید نے اپنے ذاتی کینہ کی بنا پر مکہ کے ایک گوشہ میں مقابلہ کرنے والوں میں سے دوتین افراد کو قتل کردیا لیکن جب اس کی خبر پیغمبر (ص) کو معلوم ہوئی تو آپ بری طرح ناراض ہوئے کہ تم نے ایسا کیوں کیا ؟!ساتھ ہی آپ نے اسکے اس عمل سے بیزاری و برائت کا اظہار بھی کیا :خدا یا جو عمل اس شخص نے انجام دیا ہے میں اس سے بیزاری کا اظہار کرتا ہوں میں اس عمل پر ہرگز راضی نہیں تھا۔
یہی وجہ تھی کہ فتح مکہ نے اہل عرب پر غیر معمولی نفسیاتی اثر ڈالا اوروہ کہنے لگے کہ لگتا ہے حقیقت کچھ اور ہی ہے ، محمد (ص) آئے انہوں نے مکہ کو اتنی آسانی نے فتح بھی کرلیا اور ان کوکوئی گزند بھی نہ پہنچا ۔ چنانچہ فتح مکہ کے بعد اہل عرب خود بخود تسلیم ہونے لگے ۔ گروہ آتے تھے اور اسلام اختیار کرتے تھے ۔ قرآن فرماتا ہے : لایستوی منکم من انفق من قبل الفتح وقاتل اولائک اعظم درجۃً من الذین انفقوا من بعد وقاتلوا (۱) سورہ حدید ، آیت نمبر ۱۰ جن لوگوں نے فتح مکہ کے پہلے خدا کی راہ میں جانی و مالی فداکاری کی ہے اور جنھوں نے فتح مکہ کے بعد یہ عمل انجام دیا دونوں برابر نہیں ہیں ۔ کیونکہ فتح مکہ سے قبل مسلمان اقلیت میں تھے ( اور ان کی فدا کاریاں ) ان کے کامل ایمان کے بنیاد پر تھیں ۔ لیکن فتح مکہ کے بعد لوگ خود بخود آکر اسلام قبول کرنے لگے لہٰذا فتح مکہ کے بعد والے ایمان سے قیمتی فتح مکہ کے پہلے والاایمان ہے ۔ لہٰذا فتح مکہ کا روز اسلام کی تاریخ کا بہت عظیم روز ہے اس میں کسی کو کلام نہیں ہے ، اور ہم بھی اسے قبول کرتے ہیں ۔
لیکن بعض مفسرین کہتے ہیں کہ وہ روز جس کو قرآن میں اتنی زیادہ اہمیت دی گئی ہے کہ ارشاد ہوتا ہے : الیوم یئس الذین کفروا من دینکم فلاتخشوھم واخشون الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دیناً شاید وہ فتح مکہ کا روز ہو ۔ (اورجیسا کہ عرض کرچکا ہے اس دعویٰ کی کوئی دلیل نہیں ہے نہ لفظی قرینہ کی حیثیت سے اورنہ تاریخ کی حیثیت سے )
یہاں " الیوم " سےمراد فتح مکہ کا روز ہے اس سے متعلق کسی قرینہ یاتاریخی ثبوت کے فقدان کے علاوہ خود صدر آیت اس مفہوم کی تائید نہیں کرتی ۔ کیونکہ ارشاد ہے : اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی " دین مکمل کردیا اوراپنی ساری نعمتیں تمام کردیں یعنی اب اسلام سے متعلق کوئی چیز باقی نہیں رہ گئی سب کچھ بیان کیا جاچکا ہے ۔ جبکہ ہم سب جانتے ہیں کہ اسلام کے بہت سے احکام فتح مکہ کے بعد نازل ہوئے ہیں ۔ یہ بات " اتممت علیکم نعمتی " سے میل نہیں کھاتی جب یہ کہا جاتا ہے کہ میں نے یہ مکان مکمل کردیا تو بہر حال اس سے مراد صور امکان نہیں ہے ۔ بہت سی آیتیں منجملہ ان کے پورا سورۂ مائدہ جو اتفاق سے کافی مفصل اور طویل ہے اوراس میں خاصے احکام بیان کئے گئے ہیں ،فتح مکہ کے بعد نازل ہوا ہے ۔ اور یہ آیت جو خود سورۂ مائدہ کا جزو ہے فتح مکہ کے سے متعلق کیسے ہوسکتی ہے ۔ جبکہ مکہ آٹھویں ہجری میں واقع ہوا اور سورہ مائدہ ۱۰ ھ کے اواخر میں نازل ہوا ہے ۔ اگر کہا جائے کہ صرف یہ آیت فتح مکہ کے روز نازل ہوئی ۔ پھر بھی اتمام نعمت سے میل نہیں کھاتی ۔
اس آیت میں " الیوم " کے روز فتح مکہ" قرار دیئے جانے پر ایک اعتراض اور بھی ہے ۔ وہ یہ ہے کہ آیت کہہ رہی ہے : الیوم یئس الذین کفروا من دینکم " آج کا فرین تمہارے دین سے مایوس ہوگئے ۔ یعنی اب وہ تمہارے دین پر مسلط حاصل کرنے سے مایوس ہوگئے ۔ سوال یہ ہے کہ کیا فتح مکہ کے روز ایسا ہی ہوا ؟ یہ صحیح ہے کہ اسلام کی اس کامیابی نے کفار پر بہت گہرا اثر ڈالا لیکن حقیقتاً کیاوہ ایسا ہی روز تھا کہ کفار اس دین کے نابود کرنے کے سلسلہ میں بالکل مایوس ہوگئے ؟ ہر گز نہیں ۔
۳۔ امیرالمومنین (ع) کے ذریعہ منیٰ میں سورۂ برائت کی تبلیغ کا دن : یہ دن بھی تاریخ اسلام کا بہت اہم دن مانا جاتا ہے اورمفسرین نے احتمال ظاہر کیا یہاں " الیوم " سے مراد منیٰ میں امیرا لمومنین (ع) کے ذریعہ سورۂ برائت کی قرا۴ت و تبلیغ کا دن ہے ۔ یہ واقعہ ہجرت کے نویں سال کا ظہور میں آیا ۔ فتح مکہ ایک فوجی و نظامی فتح تھی ، حتی اس فتح سے اسلام کی معنوی قوت بھی خاصی محکم ہوگئے تھی ۔ لیکن ابھی پیغمبر (ص) کفارہ کے ساتھ صلح کے طے شدہ معاہدہ کی شرطوں کے تحت زندگی گزاررہے تھے ۔ اس بنا پر وہ بھی خانہ کعبہ کے طواف اورمکہ میں زندگی کا حق رکھتے تھے ساتھ ہی انھیں حج کے مراسم میں شریک ہوئے ۔ مسلمانوں نے اسلامی دستور کے مطابق حج اداکیا اور کفار اپنے طور پر حج کے مراسم انجام دیتے رہے ۔ ہجرت کے نویں سال سورۂ برائت نازل ہوا ۔ اور طے ہوا کہ امیر المومنین (ع) منیٰ میں عام مجمع کے سامنے اس سورہ کی قرائت کریں کہاب مشرکین کو حج میں شرکت کرنے کا کوئی حق نہیں ہے ۔ اور یہ عبادت صرف مسلمانوں سے مخصوص ہے اور بس ۔
یہ بڑا مشہور واقعہ ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) نے پہلے ابوبکر کو امیر الحاج بنا کر مکہ کی جانب روانہ کیا ۔ لیکن وہ ابھی راستہ میں تھ اکہ آیت نازل ہوئی ۔ " اب یہ کہ ابوبکر وارۂ برائت بھی اپنے ہمراہ لے گئے تھے یا اس وقت تک سرے سے سورۂ برائت نازل ہی نہیں ہوا تھا اوروہ صرف امیرالحاج بنا کر بھیجے گئے تھے ۔" اس میں مفسرین کے درمیان اختلاف ہے ۔ لیکن بہر حال شیعہ و سنی سب کااس پر اتفاق ہے اور اسے فضائل علی (ع) کا جزو شمار کرتے ہیں ، کہ پیغمبر اکرم (ص) نے امیرالمومنین کو اپنے مخصوص مرکب کے ذریعہ روانہ کیا اوران سے فرمایا کہ جاؤ مجھ پر وحی نازل ہوئی ہے کہ اس کو لوگوں کے درمیان یا میں خود پڑھوں یا وہ جو مجھ سے ہو ۔ امیرالمومنین (ع) گئے اورراستہ میں ابوبکر سے ملاقات کی ۔ واقعہ یوں نقل کیا جاتاہے کہ ابوبکر خیمہ میں بیٹھے تھے کہ پیغمبر (ص) کے مخصوص شتر نے آواز بلند کی ، آپ اس آواز کو پہچانتے تھے ، کہنے لگے یہ پیغمبر کے اونٹ کی آواز ہے ۔ یہ یہاں کیسے آیا ؟ ناگاہ انہوں نے دیکھا کہ علی (ع) تشریف لائے ہیں ۔ بہت رنجیدہ ہوئے ۔ سمجھ گئے کہ کوئی اہم خبر ہے ۔ دریافت کیا ، کیا کوئی بات ہوگئی ہے ؟ آپ نے فرمایا پیغمبر (ص) نے مجھے حکم دیا ہے کہ سورۂ برائت لوگوں کے درمیان میں جوکر پڑھو ۔ پوچھا ، میرے خلاف تو کچھ نہیں نازل ہوا ہے ؟ فرمایا نہیں ۔ یہاں پر اختلاف ہے ۔ اہل سنت کہتے ہیں علی(ع) گئے اورانہوں نے وارۂ برائت کی تلاوت فرمائی ۔ ابوبکر نے بھی اپنا سفر جاری رکھا پس یہ منصب و ذمہ داری آپ کے ہاتھ میں نہ رہی لیکن شیعہ اوربہت سے اہل سنت کا عقیدہ ، جیساکہ تفسیر المیزان میں بھی نقل ہوا ہے یہ ہے کہ ابوبکر وہاں سے واپس آئے اورپیغمبر (ص) کی خدمت میں آکر دریافت کیا کہ یا رسول اللہ (ص) کیا اس سورہ میں میرے خلاف کوئی چیز نازل ہوئی ہے ؟ فرمایا ، نہیں ۔
سورۂ برائت کے اعلان کا دن بھی مسلمانوں کے لئے بڑا عظیم دن تھا ۔ اس روز یہ اعلان ہوا کہ آج سے کفار و مشرکین حج کے مراسم میں شریک نہیں ہوسکتے ، حرم کی سرزمین صرف مسلمانوں سے مخصوٓص ہے ۔ مشرکین سمجھ گئے کہ اب شرک کی حالت میں زندگی نہیں گزارسکتے ۔ اسلام شرک کو برداشت نہیں کرسکتا ۔ اسے یہودیت ، عیسائیت اور مجوسیت جیسے اسیان کے ساتھ تو معاشرتی زندگی قبول ہے لیکن شرک کے ساتھ زندگی کسی صورت برداشت نہیں ۔ چنانچہ اس روز کی اہمیت کو دیکھتے ہوئے یہ کہا گیا کہ شاید یہاں " الیوم " سے مرادیہی روز ہو ۔
اس کاجواب یوں دیا گیا کہ یہ بات : " اتممت علیکم نعمتی " میں نے اپنی نعمتیں تم پر تمام کردیں اوردین کی عمارت اتمام کو پہنچ گئی ، کے ساتھ کسی طرح میل نہیں کھاتی ، کیونکہ بہت سے تم احکام اس روز کے بعد بھی نازل ہوئے ہیں۔ یہ روز بہر حال پیغمبر (ص) کی زندگی کے آخری دنوں میں سے ہونا چاہئے کہ جس کے بعد کوئی حکم یا قانون نازل نہ ہوا ہو۔
جو افراد " الیوم " سے فلاں روز مراد لیتے ہیں ان کے پاس اپنی بات کی کوئی دلیل نہیں ہے ۔
یعنی نہ صرف تاریخ اس کی تائید نہیں کرتی ، بلکہ قرائن سے بھی ان کی بات چابت نہیں ہوتی ۔

شیعوں کابیان :
یہاں شیعہ ایک بات کہتے ہیں اور اس کا دعویٰ کرتے ہین کہ آیات کے مضمون سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے اور تاریخ سے بھی ۔ لہٰذا اس پر دو نوعیت سے بحث ہونی چاہئے ۔ ایک یہ کہ آیات کا مضمون اس کی تائید کرتا ہے ۔ اور دوسرے تاریخ بھی اس کی مؤید ہے ۔
۱۔ تاریخ کے آئینہ میں : یہ تاریخ کا بڑا ہی تفصیلی مسئلہ ہے ۔ زیادہ تر کتابیں جو اس موضوع پر لکھی گئی ہیں ان میں اکثر و بیشتر اس پر انحصار کیا گیا ہے کہ تاریخ و حدیث کی روشنی میں یہ ثابت کریں کہ آیت : " الیوم یئس الذین کفروا من دینکم فلا تخشوھم واخشون الیوم اکملت لکم دینکم وتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دیناً " غدیر خم میں نازل ہوئی ہے ۔ کتاب " الغدیر " نے اسی بات کو ثابت کیا ہے ۔حدیث کی کتابوں کے علاوہ ، مؤرخین کا نقطہ نگاہ بھی یہی ہے ۔ اسلام کی قدیم ترین ، عمومی اور معتبر ترین تاریخ کی کتاب " تاریخ یعقوبی " ہے جسے شیعہ و سنی دونوں معتبر جانتے ہیں ۔ مرحوم ڈاکٹر آیتی نے کتاب کیدونوں جلدوں کا ( فارسی میں ) ترجمہ کیا ہے ۔ کتاب بہت ہی متقن و محکم ہے ۔ اور تیسری صدی ہجری کے اوائل میں غالبا عہد مامون کے بعد متوکل کے زمانہ میں لکھی گئی ہے ۔ یہ کتاب جو فقط تاریخ کی کتاب ہے اورحدیث سے اس کاتعلق نہیں ہے ، ان بہت سی کتابوں میں سے ایک ہے جس میں غدیر خم کا واقعہ لکھا گیا ہے ۔ اس کے علاوہ اہل سنت کی لکھی ہوئی دوسری کتابیں بھی ہیں جنھوں نے غدیر کے واقعہ کو لکھا ہے ۔
روایت یوں ہے کہ پیغمبر اسلام (ص) حجۃ الوداع (۱) حجۃ الوداع ، پیغمبر (ص) کی آخر عمر میں آپ کی وفات کے دوماہ پہلے کا حج تھا ۔ پیغمبر اکرم (ص) کی وفات ۲۸ صفر یا اہل سنت کے مطابق ۱۲ ربیع الاول کو واقع ہوئی ۔ حضرت (ص) ۱۸ ذی الحجہ ک وغدیر خم پہنچے ۔ غدیر کا واقعہ شیعوں کے مطابق وفات پیغمبر اسلام (ص) سے دو ماہ دس روز قبل اور اہل سنت کے مطابق دو ماہ چوبیس روز پہلے پیش آیا ہے ۔() سے واپس ہوتے ہوئے جب غدیر خم پہنچے ،" جو جحفہ " کے (۱) شاید آپ میں سے بعض حضرات جحفہ گئے ہوں ۔ جمھے اپنے دوسرے سفر حج میں جحفہ جانے کا بھی اتفاق ہوا ۔ کیونکہ میرے مدینہ کے سفر میں تاخیر ہوئی اور مٰں حج کے بعد گیا ۔ یہاں سے ہم جدہ گئے اس جگہ فتوؤں میں اختلاف ہے کہ جدہ سے احرام باندھا جاسکتا ہے یا نہیں ۔ یہ اختلاف بھی حقیقتاً فتوائی اختلاف نہیں ہے بلکہ جغرافیائی ہے کیونکہ وہ جگہ جو کسی ایک میقات کے مقابل ہو وہاں سے احرام باندھا جاسکتا ہے ۔ ایک جغرافیہ داں جو عرب کے جغرافیہ سے بخوبی واقف ہو شاید جسہ کے کسی ایک میقات کے مقابل ہونے یا نہ ہونے کی دقیق طور سے تعیین کرسکتاہے ۔ ہم نے خود بھی پہلے عمل نہیں کیا، لیکن بعد میں مکہ اورمدینہ میں عرب کا نقشہ دیکھنے کے بعد یہ نظر آتا ہے کہ جدہ بھی بعض میقاتوں کے روبرو آتا ہے ۔ شرط یہ ہے کہ وہ نقشہ درست رہا ہو ۔ جو لوگ جدہ سے مکہ جانا چاہتے ہیں اوراحتیاط کی بنا پر کسی ایک واقعی میقات سے احرام باندھنا چاہتے ہیں وہ جدہ سے جحفہ آتے ہیں جحفہ مدینہ کی شاہراہ کے نزدیک ہے ۔ یہ اہل شام کا میقات ہے ۔ شام مکہ کے شمال مغرب میں واقع ہے ۔ چنانچہ جب لوگ شام سے مکہ کی طرف آتے تھے تو کچھ مسافت طے کرنے کے بعد جحفہ پہنچتے تھے ۔ پیغمبر اکرم (ص) نے اس طرف سے آنے والوں کے لئے اسے میقات قرار دیا ۔ غدیر خم جحفہ کے نزدیک واقع ہے اورایسی جگہ ہے کہ جب مسلمان مکہ سے واپس ہوتے ہوئے اس جگہ پر پہنچتے تھے تو وہیں سے الگ الگ سحتوں میں متفرق ہوجاتے تھے ۔ اہل مدینہ ، مدینہ کی جانب اور دوسرے شہروں والے اپنی اپنی منزلوں کی طرف ۔ () نزدیک ہے تو آپ نے قافلہ روک دیا اور اعلان فرمایا کہ : میں لوگوں سے ایک اہم بات کہنا چاہتا ہوں ۔ ( یہ آیتیں بھی وہیں نازل ہوئیں ) اس کے بعد آپ (ص) کے حکم سے اونٹوں کے کجاؤں اوردوسری چیزوں کے ذریعہ ایک اونچا منبر بنایا گیا ۔ حضرت (ص) بالائے منبر تشریف لے گئے اور ایک مفصل خطبہ ارشاد فرمایا جس میں آپ (ص) نے مسلمانوں کو خطاب کرتے ہوئے دریافت فرمایا : الست اولیٰ فیکم من انفسکم قالوا بلیٰ ۔ تب آپ (ص) نے فرمایا : " من کنت مولاہ فھۃذا علی مولاہ " اسی کے بعد یہ آیت نازل ہوئی : الیوم یئس الذین کفروا من دینکم فلا تخشوھم واخشون الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دیناً"
اگر ہم اس کے تاریخی پہلو پر بحث کرنا چاہیں تو شیعہ و سنی اورخاص طور سے اہل سنت کی ایک ایک کتاب کا تحقیقی جائزہ لینا ہوگا جنھوں نے اس واقعہ کو نقل کیا ہے ۔ ان چیزوں کا کتاب " الغدیر " یا اس کے جیسی دوسری کتابوں میں جائزہ لیا گیا ہے ۔ ابھی چند سال پہلے کانوں نشر حقائق " مشہد سے غدیر کے موضوع پر ایک مختصر اور جامع کتاب شائع ہوئی ہے جس کا مطالعہ افادیت سے خالی نہیں ہے ۔
شیعہ ، تاریخی حیثیت سے ایک استدلال یہ کرتے ہیں کہ جب آیت : الیوم اکملت لکم دینکم " سے لفظی طور پر یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ " الیوم " سے مراد کون سا روز ہے تو اس آیت کی تاریخ و شان نزول کی طرف رجوع کرتے ہیں ۔ نتیجہ میں ہم دیکھتے ہیں کہ ایک ، دویادس نہیں بلکہ متواتر طور پر روایات یہ بیان کرتی ہیں کہ یہ آیت غدیر کے روز نازل ہوئی ہے جب پیغمبر اکرم (ص) نے علی (ع) کو اپنا جانشین مقرر فرمایا تھا ۔
۲۔ آیت میں موجود قرائن کی روشنی میں : لیکن ہم یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ کیا آیت میں موجودہ قرائن بھی ان نکات کی تائید کرتے ہیں جن کی مؤید تاریخ ہے ؟ آیت یہ ہے : الیوم یئس الذین کفروا من دینکم " آج یا (اس روز) کفار تمہارے دین سے مایوس ہوگئے ۔ اسے ہم قرآن کی ان آیات کا ضمیمہ قرار دیتے ہیں ، تم کو تمہارے دین سے منحرف کردینا چاہتے ہیں اورتمہارے دین کے خلاف سازش کررہے ہیں ۔ تم کو تمہارے دین سے منحرف کردینا چاہتے ہیں اورتمہارے دین کے خلاف اقدامات میں مصروف ہیں ۔ اس کوشش میں اہل کتاب اورغیر اہل کتاب دونوں شامل ہیں : ودّ کثیر من اھل الکتاب لو یردّونکم من بعد ایمانکم کفاراً حسداً من عند انفسھم "(۱) سورہ بقرہ آیت / ۱۰۹ ( یعنی بہت سے اہل کتاب تمہارے ایمان پر حسد کرتے ہوئے اس بات کے خواہشمند ہیں کہ تمہیں دوبارہ ( ایمان سے ) کفر کی دنیا میں کھینچ لے جائیں ) چنانچہ ایک طرف خدا قرآنی آیات کے ذریعہ ظاہر کر رہاہے کہ کفار تمہارا دین مٹانے کے درپے ہیں اوردوسری طرف اس آیت میں فرماتا ہے ۔" لیکن اب آج سے جفار مایوس ہوگئے " آج سے وہ تمہارے دین کے خلاف کوئی اقدام نہیں کریں گے ۔ فلا تخشوھم اب ان کی طرف سے ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے " واخشون " مجھ سے ڈرو ۔ یونی آج کے بعد سے تمہارا دین مٹتا رہے ، ضعیف ہوجائے یو جو کچھ بھی تمہیں پیش آئے ، بس نجھ سے ڈرو ۔ یعنی آج کے بعد سے تمہارا دین مٹتا رہے ، ضعیف ہوجائے یا جو کچھ بھی تمہیں پیش آئے ، بس مجھ سے ڈرتے رہو ۔ یہ " مجھ سے ڈرو " کے معنی کیا ہیں ؟ کیا خدا خود اپنے دین کا دشمن ہے ؟ نہیں ۔ اسے مختصر سے جملہ کا مفہوم وہی ہے جس کا قرآن کی بہت سی آیتوں میں خدا کی طرف سے اپنے بندوں کو نعمتوں سے محروم کردینے کے سلسلہ میں ایک بنیادی اصول کے طور پر ذکر ہوا ہے ۔ ارشاد ہوتا ہے ؛ " انّ اللہ لا یغیّر ما یقوم حتیٰ یغیّروا ما بانفسھم " (۱) سورۂ رعد ، آیت / ۱۱ یا " ذالک بانّ اللہ لم یک مغیراً نعمۃ انعمھا علی قوم حتّی یغیروا ما بانفسھم " (۲) سورۂ انفال، آیت / ۵۳ ان آیتوں کا مفہوم یہ ہے کہ خدا وند عالم جو نعمت بھی کسی قوم پر نازل کرتا ہے اس سے وہ نعمت اس وقت تک سلب نہیں کرتا جب تک لوگ خود کو اس کے لئے نا اہل قرار نہیں دیتے یعنی جب لوگ خود اپنے ہاتھوں سے اس نعمت کو زائل کردینا چاہیں اوراس کی بے قدری کرنے لگیں تو خدا بھی اس سے وہ نعمت دور کردیتا ہے ۔ یہ قانون در اصل قرآن کا ایک بنیادی و اساسی قانون ہے ۔

محکمات و متشابہات :
زیر بحث آیت کو دیکھتے ہوئے ایک بات جو بہت سے موارد میں پیش آتی ہے عرض کردینا ضروری ہے اور وہ یہ کہ قرآن کی بعض آیتیں بعض دوسری آیتوں کی تفسیر کرتی ہیں : " القرآن یفسّر بعضہ بعضاً " قرآن ایک کھلی ہوئی اورروشن کتاب ہے ۔ خود بھی روشن اور واضح ہے اور ظاہر و آشکار کرنے والی بھی ، خود قرآن کہتا ہے کہ مجھ میں دو طرح کی آیتیں موجود ہیں ، محکمات اور متشابہات آیا ت محکمات کو قرآن " ام الکتاب " کا نام دیتا ہے ۔ جو ایک عجیب تعبیر ہے : ھو الذی انزل علیک منہ آیات محکمات ھنّ ام الکتاب واخر متشابھات " متشابہ آیت ایسی آیت ہے جس کے مفہوم کو کئی اعتبار سے معنی پہنائے جاسکتے ہیں ۔ آیت محکمہ سے صرف فقط ایک ہی مفہوم اور معنیٰ نکلتا ہے ۔ قرآن جو آیات محکمات کو "ام " یا ماں کے نام سے یاد کرتا ہے ، اس کا مطلب یہ ہے کہ متشابہ آیات کو محکم آیات کی مدد سے معنی پہنائے جاسکتے ہیں ۔ اگر قرآن کی کوئی آیت ایسی ہو جس کے چند معنی نکلتے ہوں تو ہمیں خود اس کے معنی بیان کرنے اور شرح کرنے کا کوئی حق نہیں ہے ۔ اس کی ایک ہی صورت ہے ۔ وہ یہ ہے کہ اس آیت کو سمجھنے کے لئے قرآن کی طرف جوع کرنا ہوگا اور اس کی تمام آیات کی روشنی میں ہی اس آیت کا مفہوم سمجھا جاسکے گا ۔ متشابہ آیت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ محل ہے یا اس میں جو لفظیں استعمال کی گئی ہیں اس کے معنی ہم نہیں جانتے بلکہ ایسی آیت کا مطلب یہی ہے کہ اس کے ایک دوسرے سے قریب اور متشابہ کئی معنی بیان کئے جاسکتے ہیں ۔
مثلاً قرآن کریم میں پروردگار عالم کی مشیت مطلقہ سے متعلق آیتیں ہیں جو ظاہر کرتی ہیں کہ تمام چیزیں مشیت الہٰی کے تحت ہیں ۔ اس میں کوئی استثناء نہیں ہے ۔ منجملہ ان میں سے یہ آیت ہے جو اسی بنا پر متشابہ ہے : قل اللّھم مالک الملک تؤتی الملک من تشاء و تنزع الملک ممّن تشاء وتعزّ من تشاء تذلّ من تشاء بیدک الخیر انک علی کل شیٔ قدیر " (۱) سورۂ آل عمران ، آیت / ۲۶
( اب اس سے زیادہ محکم وبالا تر تاکید نہیں ہوسکتی ) یعنی کہو کہ اے میرے خدا ! تمام ملکوں اور تمام قوتوں کا اصل مالک تو ہے ۔ جیسے چاہتا ہے تو ملک عطا کرتا ہے اور جس سے چھیننا چاہتا ہے تو چھینتا ہے جسے عزت دیتا ہے تو بخشتا ہے اورجسے ذلیل کرتا ہے تو ذلیل کرتا ہے ۔ خیر و بھلائی صرف اور صرف تیرے ہاتھ میں ہے اور تو ہر شۓ پر قادر ہے ۔" یہ آیت اس اعتبار سے متشابہ ہے کہ اس کے کئی طرح سے معنی کئے جاسکتے ہیں ۔ اجمالاً یہ آیت اتنا ہی کہتی ہے کہ ہر شیٔ مشیت الٰہی میں ہے اور یہ بات دو طرح سے ممکن ہے ، ایک یہ کہ مشیت الٰہی میں کوئی چیز کسی شیٔ کے لئے شرط نہیں ہے ، جیسا کہ بعض لوگوں سے اسی طور پر غلط نتیجہ اخذ کیا ہے اورکہا ہے کہ ممکن ہے وہ تمام حالات و شرائط جنھیں ہم عزت کے شرائط کے نام سے یاد کرتے ہیں ، فراہم ہوجائیں ، پھر بھی عزت کے بجائے ذلت ہاتھ آئے ، اور یہ بھی ممکن ہے کہ ذلت کے تمام حالات و شرائط پیدا ہوں لیکن اس کا نتیجہ عزت کی صورت میں سامنے آئے ! دنیا و آخرت کی سعادت و نیک بختی ہیں کوئی شۓ کسی چیز کے لئے شرط نہیں ہے کیونکہ تمام چیز مشیت الٰہی سے وابستہ ہے ! نتیجہ یہ نکلا کہ ممکن ہے کوئی قوم یا کوئی شخص بلا کسی سبب یا بغیر کسی مقدمہ کے دنیا میں عزت و شرف کے کمال پر پہنچ جائے یا بلا کسی سبب کے ایک دم ذلیل و رسوا ہوجائے ۔ یوں ہی ممکن ہے آخرت میں کسی قوم کو بلا کسی قید و شرط کے اعلیٰ علّیین کا مرتبہ عطا کردیا جائے اورکسی قوم کو بلا سبب اور بغیر کچھ دیکھے بھالے جہنم کے درک اسفل میں ڈال دیا جائے ۔ افسوس یہ ہے کہ بعض مسلمانوں نے جنھیں اشاعرہ کہتے ہیں اس آّیت سے یہی نتیجہ اخذ کیا ہے ، اور کہتے ہیں کہ اس میں کوئی مضائقہ نہیں اگر ( معاذاللہ ) پیغمبر اسلام (ص) جہنم میں چلے جائیں اور ابوجہل جنت میں بھیج دیا جائے کیونکہ خدا نے کہا ہے کہ سب کچھ خدا کی مشیت کے تحت ہے ۔
لیکن یہ آیت سے مفہوم و مطلب نکالنے کا ایک غلط انداز ہے ۔ آیت صرف اتنا کہہ رہی ہے کہ سب کچھ مشیت الٰہی میں ہے ۔ یہ نہیں بیان کرتی کہ مشیت کسی طرح کار فرماہوتی ہے ، اور نہ یہ بیان کرتی ہے کہ سعادت و شقاوت اور عزت و ذلت وغیرہ کے سلسلہ میں مشیت الٰہی کیا عمل کرتی ہے ۔ لہٰذا اس آیت سے کئی معنی مراد لئے جاسکتے ہیں لیکن جب ہم قرآن کی دوسری آیت کی طرف رجوع کرتے ہیں تو وہ محکم یا " ام الکتاب " کی حیثیت سے اس آیت کی تفسیر کرتی نظر آتی ہیں ۔ مثال کے طور پر یہ آیت بالکل ساف لفظوں میں کہتی ہے : " ذالک بانّ اللہ لم یک مغیّراً نعمۃً انعمھا علیٰ قوم حتّیٰ یغیّروا مابانفسھم "(۱) سورۂ انفعال / ۵۳ () یا یہ آیت جو ایک حیثیت سے عمومیت رکھتی ہے : انّ اللہ لا یغیّر مابقوم حتّیٰ یغیروا ما بانفسھم " (۲) سورۂ رعد / ۱۱ () ان دونوں آیتوں میں سے ہر ایک جو بات رکھتی ہے ، وہ دوسری میں نہیں پائی جاتی ۔ دوسری آیت یہ کہتی ہے : کہ خداوند عالم اس وقت تک کسی قوم سے اس کی کوئی چیز نہیں لیتا جب تک وہ خود سے اس چیز کو سلب نہ کرلیں جو ان کے درمیان موجود ہے ۔ یہ آیت عمومیت رکھتی ہے یعنی خداوند عالم کسی بھی قوم سے اس کی کوئی نعمت سلب نہیں کرتا اورانھیں بد بختی میں مبتلا نہیں کرتا جب تک وہ خود اپنے آپ کو بدل نہ دیں ۔ اسی طرح بدبخت قوم سے اس کی بدبختی دور نہیں کرتا جب تک وہ خود اپنے حالات نہ بدلیں جبکہ پہلی آیت میں فقط نعمتوں کا تذکرہ ہے ، بدبختی کا کوئی ذکر نہیں ہے ہاں اس میں ایک نکتہ کا اضافہ ہے ، اور وہ یہ ہے کہ ارشاد ہوتا ہے : " ذالک بانّ اللہ لم یک مغیراً " یہ اس سبب سے کہ خدا ایسا نہیں ہے یا نہیں رہا ہے ، جیسا کہ وہ قرآن میں فرماتا ہے : ماکان اللہ ، خدا ایسا نہیں رہا ہے ۔ یعنی اس کو الوہیت اسے قبول نہیں کرتی کہ وہ کسی قوم سے بلا کسی قوم سے بلا سبب کوئی سلب کرلے ۔ مشیت پروردگار بلا وجہ اور عبث کارفرما ہو اور کسی شۓ کو کسی چیز کے لئے شرط قرار نہ دے یہ وہ فکر ہے جو ذات خدا کی حکمت وکمال اوراس کی الوہیت کے سراسر خلاف ہے ۔ چنانچہ مذکورہ دونوں آیتیں اس آیت کے لئے مادر قرار پائیں جنھوں نے اس کی تفسیر کردی ۔ مشیت سے متعلق آیتیں بس اتنا بتاتی ہیں کہ تمام چیزیں خدا کے اختیار میں ہیں ۔ اور یہ دونوں آیتیں بتاتی ہیں کہ مشیت خدا دنیا میں اس طرح اوراس قانون کے تحت کارفرما ہوتی ہے ۔ معلوم ہوا کہ یہ مطلب قرآن کا بہت ہی مناسب بنیادی اوراصلی مطلب ہے اور بہت سی آیتوں میں اس بات کودہرایا گیا ہے کہ اگر ہماری نعمت کا شکر بجالاؤ گے یعنی اس سے صحیح فائدہ حاصل کرو گے تو ہم اسے تمہارے لئے باقی رکھیں گے ۔ اور اگر ہماری نعمت سے کھیلو گے اورکفران نعمت کرو گے تو ہم اسے تم سلب کرلیں گے ۔
اس اعتبار سے الیوم یئس الذین کفروا من دینکم فلا تخشوھم واخشون " کا مطلب یہ ہے کہ اب کفار ، اسلامی معاشرہ سے باہر ( تمہارے دین کو فنا کرنے سے ) مایوس ہوگئے ۔ اب دنیائے اسلام کو ان کی طرف سے کوئی خطرہ نہیں ہے ۔ اب مجھ سے ڈرو یعنی اے مسلمانو ! اب خود اپنے آپ سے ڈرو ۔ اب آج کے بعد سے اگر کوئی خطرہ ہوگا تو یہ ہوگا کہ تم لوگ نعمت اسلام کے سلسلہ میں بد عمل ہوجاؤ اورکفران نعمت کرنے لگو ، اس دنیا سے جو فائدہ اٹھانا چاہئے نہ اٹھاؤ نتیفہ میں ہمارا یہ قانون تمہارے سلسلہ میں بھی جاری ہو : ان اللہ لا یغیّر ما بقوم حتّیٰ یغیروا مابانفسھم " آج کے دن سے اسلامی معاشرہ کو کوئی باہری خطرہ نہیں رہ گیا ۔ اب جو بھی خطرہ ہے ، داخلی خطرہ ہے ۔

سوال و جواب :
سوال : جیساکہ آپ نے فرمایا ، ہمارا عقیدہ ہے کہ امام دین و دنیا دونوں کا پیشوا ہوتا ہے ۔ اور یہ منصب مذکورہ دلائل سے حضرت امیرا لمومنین علی (ع) کی ذات سے مخصوص ہے ۔ پھر قتل عثمان کے بعد جب لوگ آپ کی بیعت کرنے آئے تو آپ نے تامل کیوں فرمایا ؟ یہ کوئی تامل کی جگہ نہیں تھی ۔ اسے تو آپ کو خود بخود قبول کرنا چاہئے تھا ۔
جواب : جناب کا یہ سوال " خلافت و ولایت " نام کی کتاب میں جو کچھ عرصہ پہلے شایع ہوئی ہے اٹھایا گیا ہے ۔ اس کا جواب خود حضرت علی (ع) کے ارشاد سے ظاہر ہے ۔ جب لوگ آپ کے پاس بیعت کے لئے آئے تو آپ نے فرمایا : دعونی التمتوا غیری فانّا مستقبلون امراً وجوہ والوان " (۱) نہج البلاغہ ، فیضی الاسلام خطبہ ۹۱ مجھے چھوڑ دوکسی اور کے پاس جاؤ کیونکہ بڑے ہی ساہ و تاریک حوادث ہمیں در پیش ہیں ( عجیب و غریب تعبیر فرمائی ہے ) مجھے ایسا امر در پیش ہے ج سکے کئی چہرے ہیں یعنی ایک صورت سے اسے حل نہیں کیا جاسکتا بلکہ اس کے لئے مختلف صورتیں اختیار کرنی ہوں گی ۔ اس کے بعد فرماتے ہیں : انّ الآ فاق قد افامت والمحجّۃ قد تنکّرت ۔" مختصر یہہے کہ پیغمبر اکرم (ص) جو روشن و واضح راہ معین فرما گئے تھے وہ راہ اب انجانی ہوگئی ہے ۔ فضا ابر آلود ہوچکی ہے ۔" اور آخر میں فرماتے ہیں اگر میں تم پر حکومت کروں گا تو : کت بکم مااعلم " اس روش پر حکومت کروں گا جو میں جانتا ہوں تمہاری دلخواہ حکومت نہیں کروں گا ۔
اس بات سے پتہ چلتا ہے کہ امیرالمومنین (ع) نے یہ بات جو تاریخی حیثیت سے بھی پورے طور سے قطعی ومسلّم ہے ، اچھی طرح درک کرلی تھی کہ پیغمبر کی رحلت کے بعد کے عہد اور آج کے زمانہ مین زمین اور آسمان کا فرق ہوچکا ہے یعنی حالات بڑی ہی عجیب و غریب حد تک تبدیل اور خراب ہوچکے ہیں ، اور یہ جملہ امام نے کامل طور پر اتمام حجت کے لئے فرمایا ہے ، کیونکہ بیعت کا مطلب ان لوگوں سے پیروی کرنے کا عہد لیتا ہے ، بیعت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اگر تم لوگ بیعت نہیں کرو گے تو میری خلافت باطل ہوجائے گی ۔ بلکہ بیعت یہ ہے کہ لوگ اس بات کا قول دیتے ہیں کہ آپ جو عمل انجام دیں ہم آپ کے ساتھ ہیں ۔
یہ بات تمام شیعہ اور اہل سنت مؤرخین نے لکھی ہے کہ عمر کے بعد شوریٰ کا جو قضیہ پیش آیا ، اس شوریٰ کے چھ افراد میں سے ایک علی (ع) بھی تھے ،۔ اس میں تین افراد دوسرے تین افراد کے حق میں دست بردار ہوگئے ۔ زبیر ، علی (ع) کے حق میں الگ ہوگئے ، طلحہ ،عثمان کے حق میں اور سعد وقاص ، عبد الرحمن بن عوف کے حق میں علاحدہ ہوگئے ۔ باقی بچے تین افراد ان تین افراد مین سے عند الرحمان بن عوف نے خود کو میدان ہی سے الگ کرلیا ۔ دو شخص باقی بچے علی (ع) اورعثمان ( اور اس ایثار کے عوض ) انتخاب کی کلید عبد الرحمان بن عوف کے ہاتھ میں آگئی کہ وہ جسے منتخب کریں وہی خلیفہ ہے ۔ وہ پہلے امیرالمومنین (ع) کے پاس آئے اور کہا میں آپ کے ہاتھ پر بیعت کرنے کے لئے آمادہ ہوں لیکن ایک شرط ہے کہ آپ کتاب خدا ، سنت رسول (ص) اور سیرت شیخین کے مطابق عمل کریں گے ۔ آپ نے فرمایا میں تیار ہوں لیکن صرف کتاب خدا سنت رسول (ص) پر عمل کروں گا سیرت شیخین سے انکار کردیا ۔ عبد الرحمن بن عوف نے عثمان کے سامنے بھی بیعت کے لئے یہی شرط رکھی ۔ انہوں نے کتاب خدا ، سنت رسول (ص) اور سیرت شیخین پر عمل کی شرط قبول کرلیا ۔ جبکہ بقول آقای محمد تقی شریعتی " عثمان نے سیرت شیخین پر عمل کا وعدہ تو کیا تھا لیکن اتفاق سے ان کی سیرت پر عمل ہی نہیں کیا ۔" اگر ہم یہاں مقایسہ و موازنہ کریں تو چونکہ سیرت امیر المومنین (ع) اور سیرت پیغمبر اکرم (ص) ایک ہی تھا اس لئے آپ کی سیرت شیخین کی سیرت سے بھی بہت کچھ ملتی جلتی تھی کیونکہ شیخین کافی حد تک پیغمبر اکرم(ص) کی سیرت پر عمل کرتے تھے ۔ لیکن اگر امیر المومنین (ع) اس وقت اس شرط کو قبول کرلیتے تو گویا وہ انحراف اور غلطیاں جو شیخین کے دور میں پیدا ہوچکی تھیں ان پر صاد فرمادیتے اور پھر ان غلطیوں کے خلاف اقدام یامقابلہ نہیں کرسکتے تھے لہٰذا آپ نے اس شرط کو قبول نہیں فرمایا ۔ مثال کے طور پر تفاضل (وضائف کی تقسیم میں کمی یا زیادتی ) کا مسئلہ یعنی انصا و مہاجرین اور عرب و عجم وغیرہ کے درمیان امتیاز پیدا کرکے مساوات اسلامی کو ختم کرنے کی بنیاد عمر کے زمانہ میں ہی پڑی ہے جبکہ امیرالمومنین (ع) اس کے سخت مخالف تھے ، چنانچہ اگر آپ فرمادیتے کہ میں سیرت شیخین کے مطابق عمل کروں گا تو جو کچھ عمر کے زمانے میں ہوچکا تھا اسے باقی رکھنے پر مجبور ہوتے جبکہ آپ اس عمل پر اپنی مہر ثبت کرنا نہیں چاہتے تھے ۔ ساتھ ہی جھوٹا وعدہ بھی نہیں کرنا چاہتے تھے کہ آج کہدیں کہ ہاں میں عمل کروں گا اورکل اس سے مکر جائیں ۔ یہی وجہ تھی کہ آپ نے صاف انکار کردیا ۔
بنابر ایں جب علی (ع) ، عمر کے بعد سیرت شیخین پر عمل کرنے کو آمادہ نہیں تھے جبکہ سیرت پیغمبر سے ان کے انحرافات بہت کم تھے (تو ظاہری سی بات ہے کہ ) عثمان کے بعد جب حالات ایک دم خراب ہوچکے تھے اور خود حضرت (ع) کے بقول اسلام کا اندوھناک مستقبل کئی رخ سے سامنے آرہا تھا ۔ مزید یہ کہ مسلمان بھی یہی چاہتے تھے کہ وہ جس طرح چاہتے ہیں علی(ع) اس طرح حکومت کریں ، ایسی صورت میں آپ نے صاف طور پر واضح کردینا ضروری سمجھا کہ اگر میں حکومت کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لوں گا تو جس طرح میں مناسب سمجھوں گا عمل کروں گا نہ یہ کہ جس طرح تم چاہتے ہو چنانچہ آپ ان لفظوں میں حکومت سے انکار نہیں فرمارہے تھے بلکہ آپ مکمل طور سے اتمام حجت کردینا چاہتے تھے ۔
سوال : ہم دیکھتے ہیں کہ خود قرآن میں اتحاد کے سلسلہ میں بہت تاکید کی گئی ہے لہٰذا مسئلہ و امامت اور جانشینی امیر المومنین (ع) کی اہمیت کے پیش نظر یہ سوال اٹھتا ہے کہ اس کا ذکر صاف لفظوں میں قرآن میں کیوں نہ کردیا گیا اور خود پیغمبر اسلام (ص) نے متعدد مواقع پر اس موضوع کو کیوں بیان نہیں فرمایا ؟
جواب : یہ دو الگ الگ سوال ہیں۔ ایک یہ کہ قرآن میں اس موضوع کا صراحت سے ذکر کیوں نہ ہوا۔ اور دوسرے یہ کہ پیغمبر اکرم (ص) نے متعدد مواقع پر اس مسئلہ کو بیان فرمایا یا نہیں ؟ اس طرح قرآن کریم نے مختلف مقامات پر اس مسئلہ کا ذکر کیا ہے یا نہیں ؟ دوسرے سوال کے جواب میں ہم یہی کہتے ہیں کہ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے حتیٰ بہت سے اہل سنت بھی اسے قبول کرتے ہیں کہ پیغمبر اکرم (ص) نے یہ بات متعدد مقامات پر بیان فرمائی ہے۔ یہ بات صرف غدیر خم تک محدود نہیں رہی ہے اور یہ بات موضوع امامت سے متعلق کتابوں میں موجود ہے، جملہ : " انت منّی بمنزلۃ ھارون من موسیٰ الّا انہ لا نبیّ بعدی " آنحضرت (ص) نے تبوک کے واقعہ کے دوران فرمایا۔ یا جملہ : لاعطینّ الرّایۃ غداً رجلاً کراراً یحب اللہ ورسولہ ویحبہ اللہ ورسولہ " جو علی (ع) کے مرتبہ و منزلت کو ثابت کرتا ہے حضور (ص) نے جنگ خیبر میں ارشاد فرمایا تھا۔ یہاں تک کہ بعثت کے شروع میں ہی آپ (ص) نے قریش سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا : تم میں سے جو سب سے پہلے میری بیعت کرے گا وہ میرا وصی، وزیر ( حتیٰ وصی و وزیر اورخلیفہ ) ہوگا۔ ( اور وہ شخص علی (ع) ہی تھے )
یہی صورت حال قرآن مجید میں ہے۔ قرآن میں بھی اس مسئلہ کو ایک، دو نہیں بلکہ متعدد جگہوں پر ذکر کیا گیا ہے۔ صرف سوال اتنا سا ہے اور انفاق سے یہ سوال بھی کتاب " خلافت و ولایت " میں اٹھایا گیا ہے کہ قرآن میں سیدھے سیدھے نام کا ذکر کیوں نہیں کردیا گیا ؟ چونکہ ہم تحریف قرآن کے قائل نہیں ہیں اور ہمارے عقیدہ کے مطابق کوئی چیز قرآن میں کم یا زیادہ نہیں ہوئی ہے لہٰذا یہ طے ہے کہ کہیں بھی علی (ع) کا نام صراحت کے ساتھ ذخر نہیں ہوا ہے۔
یہاں اس مسئلہ کو دو رُخ سے بیان کیا جاتا ہے۔ ایک تو اسی کتاب " خلافت و ولایت " میں جناب محمد تقی شریعتی نے اس کی بڑے اچھے انداز میں وضاحت کی ہے قرآن ایک مخصوص طرز و روش رکھتا ہے اور وہ یہ کہ موضوعات کو ہمیشہ ایک اصل کے طور پر بیان کرتا ہے انفرادی و شخصی صورت میں ذکر نہیں کرتا اور یہ بذات خود قرآن کا ایک امتیاز ہے۔ مثلاً : " الیوم اکملت لکم دینکم " کے مسئؒہ مین، کفار اس دین سے اس وجہ سے مایوس ہوگئے کہ وہ برابر کہا کرتے تھے کہ جب تک پیغمبر (ص) موجود ہیں کچھ نہیں کیا جاسکتا۔ ہاں ان کے اٹھ جانے کے بعد کوئی مشئلہ نہیں رہے گا، سب کچھ تمام ہوجائے گا۔ مخالفین پیغمبر (ص) جء گویا یہ آخری امید تھی۔ لیکن جب انہوں نے دیکھ لیا کہ پیغمبر (ص) نے اپنی امت کی بقا کی تدبیر بھی کر ڈالی کہ میرے بعد لوگوں کا فریضہ کیا ہے تو مایوس ہوگئے۔
دوسری بات جسے اہل سنت نے بھی لکھا ہے، یہ ہے کہ پیغمبر اکرم(ص) اپنی حیات طیبہ کے آخری ایام میں قرآن کی آیت میں لفظ: " واخشون " سے متعلق کافی فکر مند اور پریشان رہتے تھے۔ یعنی خود امت کے ہاتھوں امت کے مستقبل سے متعلق فکر مند تھے۔ یہاں میں جو حدیث نقل کررہا ہوں اے اہل سنت نے بھی نقل کیا ہے۔ ابو مذیہبہ، عائشہ کے غلام کا بیان ہے کہ پیغمبر (ص) کی زندگی کی آخری شبیں تھیں ایک رات نصف شب کے وقت میں نے دیکھا کہ پیغمبنر (ص۹ اپنے حجرہ سے تنہا باہر تشریف لائے۔ کوئی شخص بیدار نہ تھا۔ آپ بقیع کی طرف روانہ ہوئے۔ میں نے جب دیکھا کہ پیغمبر باہر تشریف لے جارہے ہیں تو خیال ہوا کہ حضرت (ص) کو تنہا نہ چھوڑیں۔ اس خیال سے حضرت(ص) کے پیچھے پیچھے یوں چلنے لگا کہ دور سے آنحضرت کا ہیولا نظر آتا تھا۔ میں نے دیکھا کہ آپ (ص) نے اہل بقیع کے لئے استفادہ کیا۔ اس کے بعد کچھ جملے ارشاد فرمائے جس کا مضمون یہ ہے : " تم سب چلے گئے، کیا خوب گئے اور سعادت و نیکی سے ہمکنار ہوئے ۔ اب فتنے سر اٹھارہے ہیں " کقطع اللیل المظلم " یعنی اندھیری رات کے ٹکڑوں کی طرح۔ " اس سے پتہ چلتا ہے کہ پیغمبر اسلام (ص) اپنے بعد کے فتنوں کی پیشین گوئی فرمارہے تھے جن میں مسلم طور پر یہ مسئلہ بھی رہا ہے۔
رہی یہ بات کہ ( قرآن نے صاف طور سے جانشین پیغمبر کے نام کا ذکر کیوں نہ کردیا ) تو اس کے جواب میں پہلی بات یہ کہی جاتی ہے کہ قرآن کا اصول یہ ہے کہ وہ مسائل کو ایک اصل کی شکل میں بیان کرتا ہے۔ دوسرے نہ پیغمبر اسلام (ص) اور نہ خداوند عالم کا منشاء یہ تھا کہ یہ مسئلہ جس میں آخرکار ہوا وہوس کے دخل کا امکان ہے۔ اس صورت سے سامنے آئے اگر چہ ( جو کچھ ذکر کیا گای ہے ) اس میں بھی لوگوں نے اپنی طرف سے تو جیہ و اجتہاد کرکے یہ کہنا شروع کردیا کہ نہیں پیغمبر اکرم (ص) کا مقصد اصل میں یہ تھا اور وہ تھا۔ یعنی اگر کوئی آیت بھی ( اس مسئلہ میں نام کی صراحت کے ساتھ ) ذکر ہوئی ہوتی تو اس کی بھی توجیہ اپنے مطلب کے مطابق کردی جاتی۔ پیغمبر اکرم (ص) نے اپنے ارشاد میں پوری صراحت کے ساتھ " ھٰذا علی مولاہ" فرمایا، اب اس سے زیادہ صریح اور واضح با ت کیا ہوسکتی ہے ؟! لیکن بہر حال پیغمبر اکرم (ص) کے صریحی ارشاد کو زمین پردے مارنے اور قرآن کی ایک آیت سے نام کی صراحت کے باوجود پیغمبر اسلام (ص) کے دنیا سے اٹھتے ہی انکار کردینے اوراس کی غلط توجیہ کرنے میں بڑا فرق ہے۔ چنانچہ میں اس جملہ کو کتاب ( خلافت و ولایت ) کے مقدمہ میں نقل کرچکا ہوں کہ ایک یہودی نے حضرت امیر المومنین (ع) کے زمانہ میں صدر اسلام کے ناخوش آئند حالات کے بارے میں مسلمانوں پر طنز کرنا چاہا ( اور حقیقتاً یہ طنز کی بات بھی ہے ) اس نے حضرت سے کہا : مادفنتم نبیّکم حتیٰ اختلفتم فیہ " " ابھی تم نے اپنے پیغمبر کو دفن بھی نہیں کیا تھا کہ ان کے بارے میں چھگڑنے لگے۔ امیر المومنین (ع) نے عجیب جواب دیا۔ آپ نے فرمایا : انّما اختلفنا عنہ لا فیہ ولٰکنّکم ما جفّتارجلکم من البحر حتّیٰ قلتم لنبیّکم اجعل لنا الٰہً کما لھم الھۃً فقال انّکم قوم تجھلون۔[17]ہم نے پیغمبر کے بارے میں اختلاف نہیں کیا بلکہ ہمارا اختلاف نہیں کیا بلکہ ہمارا اختلاف اس دستور و حکم کے سلسلہ میں تھا جو ان کے ذریعہ ہم تک پہنچا تھ ، لیکن ابھیھ تمہارے پاؤں دریا کے پانی سے خشک بھی ہوئے تھے کہ تم نہ اپنے پیغمبر سے یہ تقاضہ کردیا کہ وہ دین کی پہلی اور بنیادی اصل یونی توحید کو ہی غارت کردے، تم نے اپنے نبی سے یہ خواہش ظاہر کی کہ وہ دین کی پہلی اور بنیادی اصل یعنی توحید کو ہی غارت کردے، تم نے اپنے نبی سے یہ خواہش ظاہر کی کہ دوسروں کے خداؤں کی طرح، ہمارے لئے بھی ایک بت بنادو۔ پس جو کچھ تمہارے یہاں گزرا اور جو ہمارے یہاں پیش آیا ان دونوں میں بہت فرق ہے۔ دوسرے لفظوں میں ہم نے خود پیغمبر کے بارے میں اختلاف نہیں کیا بلکہ ہمارا اختلاف یہ تھا کہ پیغمبر کے اس دستور کا مفہوم اور مطلب کیا ہے۔ بڑا فرق ہے ان دونوں باتوں میں کہ جس کام کو انھیں بہر حال انجام دینا تھا۔ اس کی توجیہ ظاہر میں اس طرح ہو ( نہ یہ کہ حقیقتاً ایسا ہی تھا ) کہ یہ کہا جائے ( جو لوگ اس خطا کے مرتکب ہوئے ) ان کا خیال یہ تھا کہ اصل میں پیغمبر کا مقصود یہی تھا نتیجہ میں انہوں نے آنحضرت کے قول کی اس شکل میں توجیہ کر ڈال یا یہ کہا جائے کہ اتنی صریح اور واضح قرآن کی نص کو ان لوگوں نے ٹھکرادیا یا قرآن کی تحریف کرڈالی۔
سوال : فلاں ڈاکٹر صاحب نے جو سوال دریافت فرمایا ہے اسے میں اس صورت میں پیش کررہا ہوں کہ یہ صحیح ہے کہ قرآن میں اصل اور بنیادی قانون ہی بیان ہونا چاہئے لیکن جانشینی کی اصل اور اسلام میں حکومت کا مسئلہ تو مسلم طور پر بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ اس لئے چاہئے یہ تھا کہ قرآن میں نام کا ذکر ہونے کی حیثیت سے نہیں بلکہ ایک دستور العمل کی حیثیت سے اس مسئلہ کو واضح طور سے بیان کردیتا ہے۔ مثلاً پیغمبر کو یہ وحی ہوجاتی کہ تمیہں اپنا جانشین معین کرنا ہے۔ اور تمہارا نائب بھی اپنا جانشین خود معین کرے گا۔ اور یوں ہی یہ سلسلہ آخر تک قائم رہتا۔ یا دستور یہ ہوتا ہے جانشین کا انتخاب مشورہ ( شوریٰ ) سے ہوگا یا انتخاب سے ہوگا ۔ یعنی اسلام جیسے دین کے لئے جس میں حکومت وہ حاکمیت لازم و ضروری ہے جانشینی کا مسئلہ کوئی ایسی معمولی بات نہیں ہے جسے اپنے حال پر چھوڑ دیا جائے اور اس کی وضاحت نہ کہ جائے۔ کوئی نہ کوئی جانشینی کا دستور تو ہونا ہی چاہئے تھا۔ مسئلہ یہ نہیں ہے کہ حضرت علی (ع) کے نام کا ذکر کیا جاتا یا نہ کیا جاتا۔ بلکہ جانشینی و حکومت کے طریقہ کار سے متعلق اس قدر اختلافات کو دیکھتے ہوئے ایک مستقل دستور العمل کی ضرورت بہر حال محسوس ہوتی ہے کہ اے پیغمبر ! تمہارا فرض ہے کہ جانشین مقرر کردو۔ انب یہاں ممکن ہے یہ اختلاف ہوتا کہ کون جانشین ہے مختلف تفسیریں کی جاتیں۔ لیکن یہ بات تو قطعی اور یقینی ہوتی کہ اپنا جانشین پیغمبر نے خود معین فرمایا تھا۔ اس کا مسلمانوں کی شوریٰ سے کوئی تعلق نہ تھا۔ اسی طرح جانشین پیغمبر اپنے بعد اپنا جانشین یا امام مقرر کرتا۔ یا لوگوں کا گروہ اس کا انتخاب کرتا یا پھر لوگ اس سلسلہ میں مشورہ کرتے ؟ بہر حال میری دانست میں یہ قضیہ قرآن کی روشنی میں بھی مبہم رہ گیا ہے۔ اور ہمارے پاس اس سلسلہ میں کوئی صریحی دستورالعمل موجود نہیں ہے۔
دوسرے یہ کہ میں نے کچھ عرصہ پہلے اسلام میں حکومت " کے موضوع پر ایک کتاب دیکھی جس میں خود حضرت علی (ع) اور دیگر اشخاص کے بہت سے اقوال نقل ہیں، جن سے پتہ چلتا ہے کہ یہ امر ( یعنی امر خلافت ) عام مسلمانوں سے مربوط ہے اور مسلمانوں کو اس میں فیصلہ کا حق ہے۔ اراباب حل و عقد کو اپنی رائے دینا چاہئے۔ امر خلافت میرا مسئلہ نہیں ہے۔ ان لوگوں کو مشورہ کرنا چاہئے اور اپنی رائے پیش کرنی چاہئے، نیز مصنف نے ایسے بہت سے دلائل اکٹھا کئے ہیں کو ثابت کرتے ہیں کہ اسلام میں حکومت کا مسئلہ ایک امر انتخابی ہےء۔ کسی کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ اپنا جانشین خود مقرر کرے اس سلسلہ میں آپ کیافرماتے ہیں؟ تیسرے یہ کہ اگر ہم فرض کرلیں کہ یہ بارہ امام جانشین کے عنوان سے یکے بعد دیگر معین ہوئے ہیں ( اس سے بحث نہیں کہ وحی کے ذریعہ معین ہوئے یا کسی اور ذریعہ سے ) یہ بتائیں کہ اسلامی معاشرہ میں ہمیشہ کے لئے کلی و قطعی طور پر جانشین کے تعیین کا ( نہ کہ انتخاب کا ) کیا اصول یا قانون ہے۔ یعنی کیا پہلے سے یہ کہا جاچکا تھا کہ وحی الٰہی کے مطابق صرف یہ بارہ ائمہ (ع) جوان خصوصیات کے حامل یعنی معصوم و ہیں یکے بعد دیگر ے تعیین ہوں گے اورا س کے بعد زمانۂ غیبت میں مثلاً یہ مسئلہ انتخاب کے ذریعہ حل ہوگا؟ کیا اس کی وضاحت کی گئی ہے ؟ یہ استنباط تو خود ہماری طرف سے ہے ککہ چونکہ اس وقت بارھویں امام حاضر و موجود نہٰں ہیں لہٰذا حکومت کا سربراہ مجتہد جامع الشرائط ہوگا یا نہ ہوگا۔ لیکن قرآن کو ایک بنیادی دستور العمل مسلمانوں کے حوالہ کرنا چاہئے کہ ( پیغمبر اکرم (ص) کے بعد شروع میں ) ہم چند معصوم اشخاص کو خصوصی طور سے تم پر حاکم مقرر کریں گے۔ ان کے بعد تم خود اپنے باہمی مشوروں سے ( کسی کا انتخاب کرو ) یا فقیہ جامع الشرائط تم پر حاکم ہوگا۔ یہ مسئلہ بھی گیارھوں امام کےبعد سے الجھ جاتا ہے اور پھر اشکالات و اختلافات اٹھ کھڑے ہوتے ہیں شیعی نقطۂ نظر سے اس مسئلہ کا کیا حل ہے ؟
جواب : ان سوالات کے جوابات ایک حد تک گزشتہ جلسوں میں عرض کرچکے ہیںؕ آپ نے مسئلہ امامت کو دوبارہ اٹھایا ہے۔ وہ بھی صرف مسئلہ حکومت کی شکل میں۔ ہم گزشتہ ہفتوں میں عرض کرچکے ہیں کہ مسئلہ حکومت مسئلۂ امامت سے الگ ہے۔ اور شیعی نقطۂ نظر سے امام کی موجودگی میں حکومت کا مسئلہ ویسا ہی ہے جیسا پیغمبر اکرم (ص) کے عہد میں تھا۔ یہاں حکومت استثناء حکم رکھتی ہے۔ یعنی جس طرح پیغمبر کے زمانے میں یہ مسئلہ نہین اٹھتا کہ پیغمبر کے ہوتے ہوئے حکومت کس کی ہوگی یوں ہی امام ( یعنی اس مرتبہ کا امام جس کے شیعہ قائل ہیں ) کی موجودگی اور اس کے حضور میں بھی حکومت کا مسئلہ ایک فرعی اور طفیل حیثیت سے زیادہ وقعت نہیں رکھتا۔ اگر ہم مسئلہ حکومت کو بالکل الگ کرکے پیش کریں تو یہ ایک علاحدہ مسلہ ہے۔ یعنی ایسے زمانہ میں جس میں امام کا وجود ہی نہ ہو ( اور ایسا کوئی زمانہ ہے ہی نہیں ) یا پھر امام غیبت میں ہو تو ایسی صورت میں البتہ یہ ایک بنیادی مسئلہ بھی ہے۔ اسی بناپر ہم :" امرھم شوریٰ بینھم " کے منکر نہیں ہیں۔ لیکن یہ "امر شوریٰ بینھم "کہاں عمل میں آئے گا ؟ کیا شوریٰ اس مسئلہ میں بھی کارفرماہوگی جس میں قرآنی نصّ موجود ہے اور فرائض و وظائف روشن و واضح ہیں ؟ ظاہر ہے کہ ایسا نہیں ہے۔ بلکہ شوریٰ ان مراحل کے لئے ہے جہاں نہ کیوئی حکم الٰہی موجود ہو اور نہ کوئی دستور ہم تک پہنچا ہو۔
رہی " حکومت در اسلام " نامی کتاب میں تحریر مسائل کی بات، البتہ میں نے اس پر کامل تحقیق نہیں کی ہے افسوس کی بات یہ ہے کہ اس کتاب میں اول تو زیادہ تر مسائل یک طرفہ بیان ہوئے ہیں یعنی دلائل کے ایک رخ کو لکھا گیا ہے اوران کے مخالف دلائل کا کوئی ذکر ہی نہیں ہے اور یہ اس کتاب کا بہت بڑا عیب ہے کیونکہ انسان اگر کچھ لکھتا ہے تو اسے ہر پہلو کو مد نظر رکھنا چاہئے اس کلے بعد دیکھنا چاہئے کہ ان تمام دلائل میں کون سی دلیلیں وزنی اور معتبر ہیں ؟ کسے اپنانا چاہئے اور کسے چھوڑنا چاہئے۔؟
اس کتاب کا دوسرا عیب یہ ہے کہ اس میں مطالب بیان کرنے کے سلسلہ میں قطع و برید سے کام لیا گیا ہے ( اگر چہ میں نے خاص طور سے اس کتاب کا مطالعہ نہیں کیا ہے، لیکن جن اہل نطر افراد نے اسے پڑھا ہے۔ وہ یہی کہتے ہیں کہ ) اس نے جملوں کو ادھر اُدھر سے کاٹ کر درمیان سے اپنے مطلب کی بات نقل کی ہے۔ نتیجہ میں جملہ کا مفہوم ہی بدل گیا ہے۔ اگر پوری بات نقل کی جاتی تو کبھی یہ معنی و مقصود ظاہر نہ ہوتے۔ اس کے علاوہ ان دلائل کا بڑا حصہ ان مسائل سے مربوط ہے جو امام کی موجودگی اور ان کے حضور کے زمانے سے تعلق نہیں رکھتے، اور امام کی عدم موجودگی یا غیبت میں شوریٰ و انتخاب کی اہمیت سے کسی کو انکار نہیں ہے۔

پانچویں بحث
امامت قرآن کی روشنی میں
اس سے قبل ہم نے آیت " الیَوۡمَ اَکۡمَلۡتُ لَکُمۡ وَاَتۡمَمۡتُ عَلَیۡکُمۡ نِعۡمَتِیۡ وَرَضِیۡتُ لَکُمُ الاِسۡلَامُ دیناً [18] کے سلسلہ میں بحث کی تھی اور یہ بھی عرض کیا تھا کہ خود آیت کے اندر موجود قرائن اور ان کے علاوہ اس سے متعلق دوسرے آثار و شواہد، یعنی آیت کی شانِ نزول کے تحت شیعہ و سنی ذرائع سے وارد ہونے والی روایات بھی یہ ظاہر کرتی ہے کہ مذکورہ آیت واقعہ غدیر خم سے تعلق رکھتی ہے۔
چونکہ اس موضوع کے ذیل میں قرآن کی آیتیں ہماری بحث کا محور ہیں یعنی وہ آیتیں جن سے شیعہ اس باب میں استدلال کرتے ہیں لہٰذا ہم مزید دو تین آیتیں جنہیں علماء شیعہ استدلال میں پیش کرتے ہیں یہاں ذکر کررہے ہیں تاکہ اچھی طرح واضح ہو جائے کہ استدلال کا طریقہ کیا ہے ؟
ان آیات میں سے ایک اسی " سورہ مائدہ کی آیت ہے جو مذکورہ بالا آیت سے تقریباً ساٹھ آیتوں کے بعد ذکر ہوئی ہے اور وہ یہ ہے: یا ایھاالرسول بلغ ما انزل الیک من ربک وان لم تفعل فما بلغت رسالتہ واللہ یعصمک من الناس (مائدہ / ۶۷ ) اے پیغمبر جو کچھ آپ کے پروردگار کی جانب سے آپ پر نازل ہوا ہے اسے لوگوں تک پہنچادیجئے اوراگر آپ نے یہ نہ کیا تو رسالت کی تبلیغ نہیں کی اور اپنا فریضہ ادا نہیں کیا۔ خدا آپ کو لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا۔
گفتگو آگے بڑھانے سے پہلے مقدمہ کے طور پر کچھ باتیں ذکر کرنا ضروری ہیں تاکہ اس آیت کے مفاد کی وضاحت ہوجائے نیز یہ مقدمہ گزشتہ آیت کے تحت بیان کئے گئے مطالب کے لئے بھی معاون و مددگار ثابت ہوگا۔

اہل بیت سے متعلق آیات کا خاص انداز
یہ بات واقعاً ایک اسرار کی حیثیت رکھتی ہے کہ مجموعی طور پر قرآن میں اہل بیت سے متعلق آیتیں اور خصوصاً وہ آیتیں جو کم ازکم ہم شیعہ کے نقطۂ نظر سے امیرالمومنین کے بارے میں نازل ہوئی ہیں، ایک خاص وضع و کیفیت کی حامل ہیں۔ اور وہ یہ کہ خود اس آیت کے اندر مطلب کی حکایت کرنے والی دلیلیں اور قرائن تو پائے جاتے ہیں لیکن ساتھ ہی یہ کوشش بھی نظر آتی ہے کہ اس بات کو دوسرے مطالب کے درمیان یا دوسری باتوں کے ضمن میں بیان کرتے ہوئے گزر جایا جائے۔ اس پہلو کو جناب محمد تقی شریعتی نے اپنی کتاب " ولایت و خلافت " کی ابتدائی بحثوں میں نسبتاً اچھے انداز سے بیان کیا ہے اگر چہ دوسروں نے بھی اس نکتہ کو بیان کیا ہے لیکن فارسی میں شاید پہلی بار انہوں نے ہی اس کا ذکر فرمایا ہے۔ آخر اس کا راز کیا ہے ؟ اس سوال کے جواب میں ان لوگوں کا جواب بھی ہوجائے گا جو یہ کہتے ہیں کہ اگر خدا چاہتا تھا کہ علی (ع) پیغمبر (ص) کے جانشین ہوں، تو پھر قرآن میں صاف صاف ان کے نام کا ذکر کیوں نہیں ہے۔

آیت تطہیر
مثال کے طور پر آیت کو لے لیں " انما یرید اللہ لیذھب عنکم الرجس اھل البیت و یطھرکم تطھیرا " ( احزاب /۳۳) اس آیت کے بارے مٰں دریافت کیا جائے توع ہم کہیں گے کہ اس کا مفہوم و مطلب بالکل واضح ہے۔ اللہ نے یہ ارادہ کیا ہے اور وہ یہ چاہتا ہے کہ ( اہل بیت ) تم سے کثافتوں کو دور کرے، تمہیں پاک و پاکیزہ رکھے، ویطھرکم تطھیراً اور تمہیں مخصوص نوعیت اور خاص انداز میں تطہیر وپاکیزہ رکھے یا کرے۔ ظاہر ہے کہ جس تطہیر کا ذکر خدا کررہا ہے وہ عرفی یا طلبی تطہیر نہیں ہے کہ یہک کہا جائے کہ خدا تم سے بیماریوں کو دور کرنا چاہتا ہے یا ( معاذاللہ ) کے تمہارے بدن کے امراض کے جراثیم کو زائل کررہا ہے۔ ہم یہ نہیں کہنا چاہتے کہ یہ تطہیر کا مصداق نہیں ہے، لیکن مسلّم طور پر جس کو خدا اس آیت میں بیان فرمارہا ہے اس سے مراد پہلی منزل میں وہ تمام چیزیں ہیں جنہیں خود قرآن جس کا نام دیتا ہے۔ قرآن کے بیان کردہ رجس و رجز وغیرہ یعنی وہ تمام چیزیں جن سے قرآن منع کرتا اور روکتا ہے اور جنہیں گناہ شمار کیا جاتا ہے چاہے وہ اعتقادی گناہ ہو، اخلاقی گناہ ہو یا عملی گناہ، یہ سب رجس و کثافت ہیں اسی بنیاد پر کہا جاتا ہے کہ اس آیت سے مراد عصمت اہل بیت ہے یعنی ان کا ہر طرح کی کثافت اور آلودگیوں سے پاک و پاکیزہ ہوتا۔
فرض کیجئے کہ نہ ہم شیعہ ہیں نہ سنی، بلکہ ایک عیسائی مستشرق ہیں، عیسائی دنیا سے نکل کر آئے ہیں اور یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ مسلمانوں کی کتاب ( قرآن ) کیا کہنا چاہتی ہے ہماری نظر قرآن کے اس جملہ پر پڑتی ہے پھر ہم اس سے متعلق مسلمانوں کی تاریخ اورسنن و احادیث کا جائزہ لیتے ہیں، ہم دیکھتے ہیں کہ نہ صرف وہ فرقہ جسے شیعہ کہتے ہیں اور جو اہل بیت (ع) کا طرفدار ہے بلکہ وہ فرقے بھی جو اہل بیت (ع) کے کوئی خصوصی طرفدار نہیں ہیں اپنی معتبر کتابوں میں جب اس آیت کی شان نزول بیان کرتے ہیں تو اسے اہل بیت پیغمبر (ص) کی فضیلت قرار دیتے ہیں، اور کہتے ہیں کہ جس واقعہ کے تحت یہ آیت نازل ہوئی اس میں حضرت علی، حضرت فاطمہ، حضرت حسن، حضرت حسینِ، اور خود حضرت رسول اکرم(ص) موجد تھے اور اہل سنت کی احادیث میں ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو زوجۂ رسول اکرم ام سلمہ [19] آنحضرت کی خدمت میں آئیں اور عرض کی یا رسول اللہ (ص) " اہل بیت (ع) " میں میرا بھی شمار ہے یا نہیں ؟ آپ نے فرمایا تم خیر پر ہو لیکن ان میں شامل نہیں ہو۔ عرض کرچکا ہوں کہ اہل سنت کی روایات میں اس واقعہ کے حوالے ایک دو نہیں بلکہ بہت زیادہ ہیں۔
یہی آیت ہمیں اپنے مفہوم سے مختلف دوسری آیات کے درمیان نظر آتی ہے۔ اس سے قبل و بعد کی آیتیں ازواج پیغمبر (ص) سے متعلق ہیں۔ اس سے پہلے کی آیت یہ ہے " یا نساء النبی لستن کاحد من انساء " [20] اے ازواج پیغمبر (ص)!تم دوسری عورتوں جیسی تمیں ہو تم اور دوسری عورتوں میں فرق ہے، ( یقیناً قرآن یہ نہیں کہنا چاہتا کہ تم دوسروں پر امتیاز رکھتی ہو )۔ تمہارا گناہ دگنا اور دُہرا ہے کیونکہ اگر تم گناہ کرو گی تو گناہ تو یہ ہے کہ تم نے وہ عمل بد انجام دیا اور دوسرے یہ کہ اپنے شوہر کی رسوائی کی مرتکب ہوئیں۔ اس طرح دو گناہ تم سے سر زد ہوئے۔ یوں ہی تمہارے نیک اعمال بھی دوہرا اجر رکھتے ہیں کیو نکہ تمہارا ہر عمل خیر دو عمل کے برابر ہے۔ بلکل یوں ہی جیسے کہا جاتا ہے کہ سادات کرام کے کار خیر کا ثواب اور بُرے عمل کا گناہ دُوہرا ہے۔ اس کا یہ مطلب یہ نہیں ہے کہ دوسروں کے مقابلہ میں ان کا ایک گناہ سنگین ہوجاتا ہے اور فرق رکھتا ہے۔ بلکہ ان کا ایک گناہ دو گناہ ہوجاتا ہے۔ مثال کے طور پر ایک سید ( معاذاللہ ) شراب پیئے۔ تو وہ شراب پینے کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے عمل کا بھی مرتکب ہوا ہے، اور وہ یہ کہ چونکہ وہ پیغمبر (ص) اور آل پیغمبر (ص) سے منسوب ہے لہٰذا اپنی شراب نوشی کے ذریعہ پیغمبر (ص) کی ہتک و رسوائی کا مرتکب بھی ہوا ہے۔ اگر کوئی شخص یہ دیکھے کہ پیغمبر (ص) کی اولاد اس قدر کھلم کھلا ان کے حکم کے خلاف عمل کر رہی ہے تو اس کی روح پر اس کا بڑا گہرا اثر ہوگا۔
ان آیات میں تمام ضمیریں مؤنث کی استعمال ہوئی ہیں " لستن کاحد من النساء ان اتقیتن " ٓصاف ظاہر ہے کہ اس سے مراد ازواج پیغمبر اکرم (ص ) ہیں۔ دو تین فرقوں کے بعد یک بیک ضمیر مذکر ہوجاتی ہے اور ہم اس آیت کی تلاوت کرتے ہیں، " انما یرید اللہ لیذھب عنکم ( عنکن نہیں ہے ) الرجس اھل البیت و یطھرکم تطھیراً" اس کے بعد دوبارہ مؤنث کی ضمیریں استعمال ہونے لگتی ہیں قرآن کا کوئی لفظ عبث اور غلط نہی ہے۔ اولاً یہاں کلمہ "اہل البیت " استعمال ہوا ہے۔ اوراس کے پہلے ازواج رسول کا تذکرہ ہے " یانساء النبی " یعنی " نساء النبی " کا عنوان " سے اہل البیت " میں تبدیل ہوگیا اور دوسرے مؤنث کی ضمیر مذکر میں تبدیل ہوگئی یہ سب لغو اور عبث نہیں ہے۔ ضرور کوئی دوسری چیز ہے۔ یعنی قرآن گذشتہ آیات سے الگ کوئی دوسری بات کہنا چاہتا ہے۔ آیت تطہیر سے قبل و بعد کی آیتوں میں ازواج پیغمبر اکرم (ص) کے لئے حکم، دھمکی اور خوف و رجاء کا انداز پایا جاتا ہے : وقرن فی بیوتکن ولا تبرجن تبرج الجاھلیۃ " اپنے گھروں میں رہو اور زمانہ جاہلیت کے مانند اپنے بناؤ سنگھار کو دکھاتی نہ پھرو۔ گویا ایک کے بعد ایک حکم اور تہدید و دھمکی ہے۔ ساتھ ہی خوف و رجاء بھی ہے کہ اگر نیک اعمال بجالاؤ گی تو ایسا ہوگا اوراگر بُرے اعمال کروگی تو ویسا ہوگا۔
یہ آیت یعنی ( آیت تطہیر ) مدح سے بالاتر ایک بات ہے قرآن اس میں اہل بیت کی گناہ و معصیت سے پاکیزگی اور طہارت کے مسئلہ کو باین کرنا چاہتا ہے۔ اس آیت کا مفہوم اس سے پہلے اور بعد کی آیتوں کے مفہوم و مطلب پہلے اور بعد کی آیتوں سے اس قدر مختلف ہے، ان آیت کے دمیان میں قرار دی گئی ہے۔ اس کی مثال اس شخص کے مانند ہے جو اپنی گفتگو کے دوران الگ سے ایک بات کہہ کر گفتگو کے سلسلہ کو پھر جوڑ دیتا ہے۔ اور اپنی بات جاری رکھتا ہے یہی وجہ ہے کہ ائمہ علیہم السلام کی روایات میں بڑی تاکید سے یہ بات کہی گئی ہے کہ ممکن ہے قرآنی آیات کی ابتدا میں کوئی ایک مطلب بیان ہوا ہو۔ درمیان میں کوئی دوسرا مطلب اور آخر میں کوئی تیسری بات کہی گئی ہو۔ اور قرآن کی تفسیر کے مسئلہ کو ان حضرات نے جو اتنی اہمیت دی ہے اس کا سبب بھی یہی ہے۔
یہ بات صرف ہماری روایات اور ائمہ کے ارشادات میں ہی نہیں پائی جاتی بلکہ اہل سنت حضرات نے بھی ان تمام مطالب کو نقل کیا ہے " انما یرید اللہ لیذھب عنکم الرجس " اپنے پہلے اور بعد کی آیتوں سے فرق رکھتی ہے۔ اس کا مضمون اور اس کے مطالب بھی الگ ہیں یہ آیت ان ہی لوگوں سے متعلق ہے جو اس واقعہ (کساء ) میں شامل ہیں۔

دوسرا نمونہ
آیت " الیوم اکملت لکم دینکم " میں بھی ہمیں یہی بات نظر آتی ہے۔
بلکہ یہاں مذکورہ بالا آیت تطہیر سے زیادہ عجیب انداز نظر آتا ہے۔ اس سے پہلے کی آیت ہی سادے اور معمولی مسائل ذکر کئے گئے ہیں " احلت لکم بھیمۃ الانعام " [21] چوپایوں کا گوشت تمہارے لئے حلال ہے، ان کا تزکیہ یوں کرو اور اگر مردار ہو تو حرام ہے۔ وہ جانور جنہیں تم دم گھونٹ کر مرڈالتے ہو ( منخنقۃ ) حرام ہیں اور وہ جانور جو ایک دوسرے کے سینگھ مارنے سے مرجاتے ہیں ان کا گوشت حرام ہے اور پھر یک بیک ارشاد ہوتا ہے " الیوم یئس الذین کفروا من دینکم فلا تخشوھم واخشون الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دیناً " اس کے بعد دوبارہ مسائل کا ذکر شروع ہوجاتا ہے جو پہلے بیان ہورہے تھے مذکورہ آیت کے یہ جملہ اپنے پہلے اور بعد کی آیتوں سے سرے سے میل نہیں کھاتے۔ یعنی یہ اس بات کی نشاندھی ہے کہ یہ وہ بات ہے جو دوسرے مطالب کے درمیان الگ سے سر سری طور سے بیان کردی گئی ہے اور پھر اسے ذکر آگے بڑھ گئے ہیں۔ اس وقت ہم جس آیت کا ذکر کرنا چاہتے ہیں ( آیت بلغ ) اس کا بھی یہی حال ہے، یعنی وہ بھی ایسی آیت ہے کہ اگر ہم اس سے پہلے اور بعد کی آیات کے درمیان سے نکال دے تو بھی ان آیتوں کاربط کسی طرح نہیں ٹوٹ سکتا۔ جیسا کہ آیت " الیوم الملت " کو اس کی جگہ سے ہٹادیں تو اس سے پہلے اور بعد کی آیتوں میں کوئی خلل واقع نہیں ہوتا یوں ہی زیر بحث آیت میں دوسری آیت کے درمیان ایک ایسی آیت ہے نہ اسے ماقبل کی آیتوں سے متعلق کہا جاسکتا ہے اور نہ مابعد کی آیتوں کا مقدمہ، بلکہ اس میں ایک دم الگ سے بات کہی گئی ہے۔ یہاں بھی خود آیت میں موجود قرائن اور شیعہ و سنی روایات اسی مطلب کی حکایت کرتی نظر آتی ہیں، لیکن اس آیت کو بھی قرآن نے ایسے مطالب کے درمیان رکھا ہے جو اس سے دور کا بھی واسطہ نہیں رکھتے اس میں ضرور کوئی راز ہوگا، آخر اس کا راز کیا ہے ؟
اس مسئلہ کا راز : اس میں جو راز پوشیدہ ہے، خود قرآن کی آیت کے اشارہ سے بھی ظاہر ہے اور ہمارے ائمہ (ع) کی روایات میں بھی اس کی اشارہ پایا جاتا ہے۔ اور اوہ یہ ہےکہ اسلام کے تمام احکام و دستورات میں آل ہیغمبر (ص) کا مسئلہ یعنی امیر المومنین (ع) کی امامت اور خاندان پیغمبر کی خصوصیت ہی ایسا مسئلہ اور ایسا حکم تھا جس پر بدقسمتی سے سب سے کم عمل ہوسکا، اور اس کی وجہ یہ تھی کہ چونکہ اہل عرب اپنی روح کی گہرائیوں میں تعصبات رکھتے تھے جس کے سبب ان میں اس مطلب کے قبول کرنے اورا سپر عمل پیرا ہونے کی آمادگی بہت ہی کم نظر آتی تھی اگر چہ پیغمبر اکرم کی خدمت میں امیرالمومنین سے متعلق حکم پہنچتے تھے لیکن حضرت ہمیشہ اس تردد میں رہتے تھے کہ اگر میں حکم بیان کردوں تو وہ منافقین جن کا ذکر قرآن برابر کرتا رہے کہنے لگیں گے کہ دیکھو ! پیغمبر کنبہ نوازی سے کام لے رہے ہیں۔ جبکہ پوری زندگی پیغمب راکرم (ص) کا یہ شیوہ رہا ہے کسی مسئلہ میں اپنے لئے کس یخصوصیت کے قائل نہ ہوئے۔ ایک تو آپ کا اخلاق ایسا تھا، دوسرے اسلام کا حکم ہونے کی بناپر آپ اس بات سے غیر معمولی طور پر گریز کرتے تھے کہ اپنے دوسروں کے درمیان کوئی امتیاز برتیں اور یہی پہلو پیغمبر اسلام (ص) کی کامیابی کا سب سے بڑا سبب تھا۔
یہ مسئلہ ( یعنی اس حکم کی تبلیغ کہ علی جیرے جانشین ہیں ) خدا کا حکم تھا، لیکن پیغمبر جانتے ھتے کہ اگر اسے بیان کردیں تو ضعیف الایمان افراد کا گروہ جو ہمیشہ رہا ہے، کہنے لگے کہ دیکھو ! پیغمبر اپنے لئے عظمت و امتیاز پیدا کرنا چایتے ہیں۔ آیت " الیوم الذین کفروا من دینکم فال تخشوھم واخشون " تھیَ جس میں قرآن فرماتا ہے کہ اب کافروں کی امیدیں تمہارے دین سے منقطع ہوچکی ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ یہ لوگ اسلام کے خلاف اب تک جو جد وجہد کررہے تھے کہ کہ اس دین پر کامیاب ہوجائیں گے ان کی یہ امیدیں ٹوٹ چکی ہیں اور وہ مایوس ہوچکے ہیں۔ وہ یہسمجھ گئے ہیں کہ اسبان کے بگاڑے کچھ بگڑ نہیں سکتا۔ " فلا تخشوھم " لہٰذا اب کافروں کی جانب سے کسی طرح کا خوف وخطر نہ رکھو " واخشون " کیجن مجھ سے ڈرتے رہو۔ میں عرض کرچکا ہوں کہ اس کامطلب ہے اس بات سے ڈرتے رہو کہ اگر تم میں خود اندرونی طور پر خرابیاں پیدا ہوئیں تو میں اپنی سنت اور قانون کے مطابق یعنی جب بھی کقوئی قوم ( فساد اور بُرائی میں پڑ کر ) اپنی راہ بدلتی ہے میں بھی ان سے اپنی نعمت سلب کرلیتا ہوں۔ ( نعمت اسلام کو تم سے سلب کرلوں گا ) یہاں " واخشون " کنایہ ہے۔ مجھ سے ڈرو کا مطلب یہ ہے کہ اپنے آپ سے ڈرو یعنی اب خطرہ اسلامی معاشرہ کے اندر سے ہے باہر سے کوئی خطرہ نہیں رہ گیا ہے۔ دوسری طرف ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ یہ آیت سورۂ م،ائدہ کی ہے اور سورہ مائدہ پیغمبر اکرم (ص ) پر نازل ہونے وال اآخری سورہ ہے۔ یعنی یہ آیت پیغمبر اسلام (ص) کی رحلت کے دوتین ماہ پہلے نازل ہونے والی آیتوں میں سے ہے جب اسلام طاقت واقتدار کے اعتبار سے وسعت پاچکا تھا۔
جو آیت ہماری بحث کا محور ہے اورجسے میں پہلے بھی عرض کرچکا ہوں، اس میں بھی یہی بات نظر آتی ہے کہ خطرہ داخلی طور پر ہے خارجی طور پر سکی طرح کا خطرہ باقی نہیں رہا۔ ارشاد ہے :" یاایھا الرسول بلغ امانزل الیک من ربک وان لم تفعل فما ابلغت رسالتہ والہہ یعصمک من الناس " ہمیں قرآن میں اس آیت کے علاوہ کوئی اور آیت نظر نہیں آتی جو پیغمبر اکرم (ص) کو ( سکی عمل کی انجام دہی کے لئے ) آمادہ کرے اور شوق دلائے۔ اس کی مسال اسی ھی ھے جے آپ کسی کام کے لے تشویق کیجیے اور وھ اس کے لے ایک قدم آگے بڈھے پھر ایک قدم پیچھے ھٹ جاے جیسے وہ خطرے یا تزبزب کا شکار ھے یھ ٰآیت بھی پیغمبر کو تبلیغ کی دعوت دیتی ہے اوراس تبلیغ کے سلسلہ میں ایک طرف دھمکی دیتی ہے اور دوسری طرف شوق پیدا کراتی اور تسلّی دیتی ہے۔ دھمکی یہ ہے کہ اگر اس امر کی تبلیغ تم نے نہیں کی تو تمہاری رسالت کی تمام خدمت اکارت اور بے کار ہے اور تسلّی یوں دی جاتی ہے کہ ڈرو نہیں ! خدا تم کو لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا۔ واللہ یعصمک من الناس " آیت " الیوم یئس الذین کفروا من دینکم فلا تخشوھم " میں فرمایا آپ کافروں سے خوف زدہ نہ ہو۔ در حقیقت پہلی منزل میں پیغمبر کو کافروں سے نہین ڈرنا چاہئے۔ لیکن آیت " یاا یھا الرسول سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ پیغمبر بمیناک اور فکر مند تھے۔ پس ظاہر ہے کہ آنحضرت کا یہ تردد و فکر مندی مسلمانوں کے اندر پائے جانے والے افراد سے ہے۔ مجھے فی الحال اس سے سروکار نہیں ہے کہ مسلمانوں میں وہ لوگ ( جو اس تبلیغ یعنی علی (ع) کی جانشینی قبول کرنے پر تیار نہیں تھے ) باطنی طور پر کافر تھے یا نہیں تھے۔ بہرت حال یہ مسئلہ کچھ ایسا تھا کہ وہ لوگ اس کے لئے آمادہ اور اسے قبول کرنے پر تیار نہیں تھے۔

تاریخی مثالیں
اتفاق سے تاریخی واقعات اور اسلامی معاشرہ کے مطالعہ سے بھی یہی بات ظاہر ہوتی ہے چنانچہ عمر نے کہا کہ: ہم نے جو علی (ع) کو خلافت کے لئے منتخب نیں کیا وہ " حیطۃ علی الاسلام " تھا، یعنی ہم نے اسلام کے حق میں احتیاط سے کام لیا کیونکہ لوگ ان کی اطاعت نہیں کرتے اور انہیں (خلیفہ ) نہیں مانتے !! یا ایک دوسری جگہ ابن عباس سے گفتگو کے دوران ان سے کہا: قریش کی نگاہ میں یہ عمل صحیح نہیں تھا کہ امامت بھی اسی خاندان میں رہے جس خاندان میں نبوت تھی۔ مطلب یہ تھا کہ نبوت جب خاندان بنی ہاشم میں ظاہر ہوئی تو فطری طور پر یہ اس خاندان کے لئے امتیاز بن گئی لہٰذا قریش نے سوچا کہ اگر خلافت بھی اسی خاندان میں ہوگی تو سارے امتیازات بنی ہاشم کو حاصل ہوجائٰں گے۔ یہی وجہ تھی کہ قریش کو مسئلہ ( خلافت امیرالمومنین ) ناگوار تھا اور وہ اسے درست نہیں سمجھتے تھے۔ ابن عباس نے بھی ان کو بڑے ہی محکم جواب دیئے اور اس سلسلہ میں قرآن کی دو آیتیں پیش کیں جون افکار و خیالات کا مدلّل جواب ہیں۔
بہر حال اسلامی معاشرہ میں ایک ایسی وضع و کیفیت پائی جاتی تھی جسے مختلف عبارتوں اور مختلف زیارتوں میں بیان کیا گیا ہے۔ قرآن اُسے ایک صورت اور ایک انداز سے بیان کرتا ہے اور عمر اسی کو دوسری صورت سے بیان کرتے ہیں یا مثال کے طور پر لوگ یہ کہتے تھے کہ چونکہ علی نے اسلامی جنگوں میں عرب کے بہت سے افراد اور سرداروں کو قتل کیا تھا، اور اہل عرب فطرتاً کینہ جو ہوتے ہیں لہٰذٓ مسلمان ہونے کے بعد بھی ان کے دلوں میں علی سے متعلق پدر کشی اور برادر کشی کا کینہ موجود تھا ( لہٰذا علی خلافت کے لئے مناسب نہیں ہیں ) بعض اہل سنت بھی اسی پہلو کو بطور عذر پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ چنانچی وہ کہتے ہیں کہ یہ سچ ہے کہ اس منصب کے لئے علی کی افضلیت سب پر نمایاں اور ظاہر تھی لیکن ساتھ ہی یہ پہلو بھی تھا کہ ان کے دشمن بہت تھے۔
بنابر ایں اس حکم سے سرتابی کے لئے ایک طرح کے تکدر وتردد کی فضا عہد پیغمبر میں ہی موجود تھی اور شاید قرآن کا ان آیات کو قرائن و دلائل کے ساتھ ذکر کرنے کا راز یہ ہے کہ ہر صاف دل اور بے غرض انسان حقیقی مطلب کو سمجھ جائے لیکن ساتھ ہی قرآن یہ بھی نہیں چاہتا کہ اس مطلب کو اس طرح بیان کرے کہ اس سے انکار و روگردانی کرنے والوں کا انحراف قرآن اور اسلام سے انحراف و انکار کی شکل میں طاہر ہو۔ یعنی قرآن یہ چاہتا ہے کہ جو لوگ بہر حال اس مطلب سے سرتابی کرتے ہیں ان کا یہ انحراف قرآن سے کھلّم کلھلّا انحراف و انکار کی شکل میں ظاہر نہ ہو بلکہ کم از کم ایک ہلکا سا پردہ پڑا رہے۔ یہی وجہ ہے جو ہم دیکھتے ہیں کہ آیت تطہیر کو ان آیات کے درمیان میں قرار دیا گیا ہے لیکن ہر سمجھدار، عقلمند اور مدبّر انساب بخوبی سمجھ جاتا ہے کہ یہ ان سے الگ ایک دوسری ہی بات ہے۔ اسی طرح قرآن نے آیت " الیوم اکملت " اور آیت " یاایھا الرسول بلغ " کو بھی اسی انداز میں دوسری آیتوں کے درمیان ذکر کیا
آیت انما ولیکم اللہ
اس سلسلہ میں بعض ایسی آیتیں بھی ہیں جو انسان کو سوچنے اور غور کرنے پر مجبور کردیتی ہیں کہ یہاں ضرور کوئی خاص بات ذکر کی گئی ہے اور بعد میں متواتر احادیث و روایت سے بات ثابت ہوجاتی ہے۔ مثال کے طور پر آیت " انما ولیکم اللہ ورسولہ والذین اٰمنوا الذین یقیمون الصلوٰ ۃ ویؤ تون الذکوٰۃ وھم راکعون " ( مائدہ / ۵۵ ) عجیب تعبیر ہے۔ ملاحظہ فرمائیں۔ " تمہارا ولی خدا ہے اور ان کا رسول اور وہ صاحبانِ ایمان ہیں جو نماز قائم کرتے ہیں اور حالت رکوع میں زکوٰۃ ادا کرتے ہیں۔ حالت رکوع میں زکوٰۃ دینا کوئی معمولی عمل نہیں ہے جسے ایک اصل کلی کے طور پع ذکر کیا جائے بلکہ یہ مطلب و مفہوم کسی خاص واقعہ کی طرف اشارہ کررہا ہے۔ یہاں اس کی تصریح و وضاحت بھی نہیں کی گئی ہے کہ اس سے سرتابی دوست و دشمن کے نزدیک براہِ راست قرآن سے روگردانی شمار کی جائے۔ لیکن ساتھ ہی کمالِ فصاحت کے ساتھ اسے اس انداز سے بیان بھی کردیا گیا ہے کہ ہر صاف دل اور منصف مزاج انسان سمجھ جائے کہ یہاں کوئی خاص چیز بیان کی گئی ہے اور کسی اہم قضیہ کی طرف اشارہ کیا جارہا ہے۔
الذین یؤتون الزکوٰ ۃ وھم راکعون۔ وہ لوگ رکوع کی حالت میں زکوٰۃ دیتے ہیں " یہ کوئی عام سی بات نہیں ہے بلکہ ایک غیر معمولی واقعہ ہے جو وجود میں آگیا ۔ آخر یہ کون سا واقعہ تھا ؟ ہم دیکھتے ہیں کہ بلا استثنا تمام شیعہ و سنی روایات کہتی ہے کہ یہ آیت حضرت علی بن ابی طالب کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔

عرفاء کی باتیں
دوسری آیتیں بھی ہیں جن پر گہرائی کے ساتھ غور وفکر سے مطلب واضح اور حقیقت روشن ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عرفاء ایک زمانہ سے اس سلسلہ میں اظہارِ خیال کرتے رہے ہیں۔در اصل یہ شیعی نقطۂ نظر ہے۔ لیکن اسے بڑے حسین انداز میں بیان کیا ہے وہ کہتے ہیں کہ امامت و ولایت کا مسئلہ باطن شریعت سے تعلق رکھتا ہے۔ یعنی وہی اس تک رسائی حاصل کرسکتا ہے جو کسی حد تک شریعت اور اسلام کی گہرائیوں سے آشنا ہو یعنی اس نے پوست اور چھلکے سے گزر کر اس کے مفرد جوہر تک رسائی حاصل کرلی ہو اور بنیادی طور پر اسلام میں امامت و ولایت کا مسئلہ لُبّی اور اصل مسئلہ رہا ہے یعنی بہت مدیرانہ فکر عمیق رکھنے والے افراد ہی اسے درک اور سمجھ سکے ہیں۔ دوسروں کو بھی اس گہرائی کے ساتھ غور وفکر کی دعوت دی گئی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ کچھ لوگ اس مفہوم تک پہنچتے ہیں اور کچھ نہیں پہنچ پاتے۔
اب ہم اس سے متعلق بعض دیگر آیات پر توجہ دیتے ہیں ہمارا مقصود یہ ہے کہ شیعہ جو دلائل پیش کرتے ہیں ہم ان سے آگاہ ہوں اور ان کی منطق کو سمجھنے کی کوشش کریں۔
امامت شیعوں کے یہاں نبوّت سے ملتا جلتا مفہوم
قرآن مین ایک آیت ھے جو ان ھی مزکورہ آیات کے سلسے کا ایک حصہ بھی ہے اور بظاہر عجیب آیت ہے۔ البتہ یہ خود امیر المومنین (ع) کی ذات سے متعلق نہیں ہے بلکہ مسئلۂ امامت سے متعلق ہے، ان ہی معنی میں ہے جسے ہم ذکر کرچکے ہیں اور یہاں اشارتاً اسے دوبارہ ذکر کرتے ہیں۔
ہم کہہ چکے ہیں کہ عہد قدیم سے ہی اسلامی متکلمین کے درمیان ایک بہت بڑا اشتباہ موجود رہاہے اور وہ یہ کہ انہوں نے اس م سئلہ کو اس انداز میں اٹھایا ہے کہ : امامت کے شرائط کیا ہیں ؟ انہوں نے مسئلہ کو یوں فرض کیا کہ امامت کو ہم بھی قبول کرتے ہیں اور اہل سنت بھی لیکن اس کے شرائط کے سلسلہ میں ہم دونوں میں اختلاف پایا اتا ہے؛ ہم کہتے ہیں شرائط امام یہ ہیں کہ وہ معصوم ہو اور منصوص ہو یعنی اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے معیّن و مقرر کیا گیا ہو۔ اور وہ کہتے ہیں ایسا نہیں ہیں اہل سنت امامت کے عنوان سے جس چیز کا عقیدہ رکھتے ہیں و مامامت کی دنیوی حیثیت ہے جو مجموعی طور سے امامت کا ایک پہلو ہے جیسے نبوت کے سلسلہ میں ہے پیغمبر اکرم (ص) کی شان یہ بھی تھی کہ وہ مسلمانوں کے حاکم تھے لیکن نبوّت خود حکومت کے مساوی اور ہم پلّہ نہیں ہے۔ نبوت خود ایک ایسی حقیقت اور ایسا منصب ہے جس کے ہزاروں پہلو اور ہازاروں معانی و مطالب ہیں۔ پیغمبر کی سان یہ ہے کہ اس کی موجودگی میں کوئی اور مسلمانوں کا حاکم نہیں ہوسکتا۔ وہ نبی ہونے کے ساتھ مسلمانوں کا حاکم بھی ہے، اہل سنت کہتے ہیں کہ امامت کا مطلب حکومت ہے اور امام وہی ہے جو مسلمانوں کے درمیان حاکم ہو، یعنی مسلمانوں میں کی ایک فرد جسے حکومت کے لئے انتخاب کیا جائے گویا یہ لوگ امامت کے سلسلہ میں حکومت کے مفہوم سے آگے نہیں بڑھے۔ لیکن یہی امامت شیعوں کے یہاں ایک ایسا مسئلہ ہے جو بالکل نبوت کے ہی قائم مقام قدم بقدم ہے بلکہ نبوت کے بعض درجات سے بھی بالاتر ہے یعنی انبیاء اولوالعزم وہی ہیں جو امام بھی ہیں۔ بہت سے انبیاء امام تھے ہی نہیں۔ انبیاء اولوالعزم اپنے آخری مدارج میں منصب امامت پر سرفراز ہوئے ہیں۔
غرض یہ کہ جب ہم نے اس حقیقت کو مان لیا کہ جب تک پیغمبر موجود ہیے کسی اور کے حاکم بننے کا سال ہی نہیں اٹھتا۔ کیونکہ وہ بشریت سے مافوق ایک پہلو کا حامل ہے، یوں ہی جب تک امام موجود ہے حکومت کے لئے کسی اور کی بات ہی پیدا نہیں ہوتی۔ جب وہ نہ ہو ( چاہے یہ کہیں کہ بالکل سے موجود ہی نہیں ہے یا ہمارے زمانہ کی طرح نگاہوں سے غائب ہے ) اس وقت حکونمت کا سوال اٹھتا ہے کہ حاکم کون ہے ؟ ہمیں مسئلہ امامت کو مسئلہ حکومت میں مخلوط نہیں کرنا چاہئیے کہ بعد میں یہ کہنے کی نوبت آئے کہ اہل سنت کیا کہتے ہیں اور ہم کی اکہتے ہیں۔ یہ مسئلہ ہی دوسرا ہے۔ شیعہ کے یہاں امامت بالکل نبوت سے ملتا جلتا ایک مفہوم ہے اور وہ بھی نبوت کے عالی ترین درجات سے۔ چنانچہ ہم شیعہ امامت کے قائل ہیں اور وہ سرے سے اس کے قائل نہیں ہیں۔ یہ بات ہیں ہے کہ قائل تو ہیں مگر امام کے لئے کچھ دوسرے شرائط تسلیم کرتے ہیں۔

امامت ابراہیم کی ذرّیت میں
یہاں ہم جس آیت کی تلاوت کرنا چاہتے ہیں وہ امامت کے اُسی مفہوم کو ظاہر کرتی ہے جسے شیعہ پیش کرتے ہیں۔ شیعہ کہتے ہیں، اس آیت سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ امامت ایک الگ ہی حقیقت ہے، جو نہ صرف پیغمبر اسلام (ص) کے بعد بلکہ انبیاء ماسلف کے زمانے میں بھی موجود رہی ہے اور یہ منصب حضرت ابراہیم کی ذرّیت میں تا صبح قیامت باقی ہے وہ آیت یہ ہے : " واذبتلیٰ ابراھیم ربہ بکلمات فاتمھن قال انی جاعلک للناس اماما قال ومن ذریتی قال لا ینال عھدی الظالمین " [22] جب خداوند عالم نے چند امور و احکام کے ذریعہ ابراہیم کے آزمایا اور وہ ان آزمائشوں میں پورے اُترے تو (خدا نے ) فرمایا : میرا عید ظالموں تک نہیں پہونچے گا۔
ابراہیم معرض آزمائش میں حجاز کی جانب ہجرت کا حکم
خود قرآن حکیم نے جناب ابراہیم کی آزمائشوں سے متعلق بہت سے مطالب ذکر کئے ہیں۔ نمرود اور نمودیوں کے مقابلہ میں ان کی استقامت و پائداری کہ نارِ نمرودی میں جانے سے نہ ہچکچائے اور ان لوگوں نے انہیں آگ میں ڈال بھی دیا اور اس کے بعد پیش آنے والے دوسرے واقعات۔ ان ہی آزمائشوں میں خداوند عالم کا یاک عجیب و غریب حکم یہ بھی تھا جسے بجالانا سوائے اس شخص کے جو خدا وند کے حکم کے سامنے مطلق تعبّد و بندگی کا جذبہ رکھتا ہو اور بے چون و چرا سرِ تسلیم خم کردے کسی اور کے بس کی بات نہیں ہے۔ ایک بوڑھا جس کے کوئی اولاد نہ ہو اور ستّر اسّی کے سن مٰں پہلی مرتبہ اس کی زوجہ ہاجرہ صاحب اولاد ہوتی ہے اور ایسے میں اسے حکم ملتا ہے کہ شام سے ہجرت کرجاؤ اور حجاز کے علاقہ میں اس مقام پر جہاں اس وقت خانۂ کعبہ ہے، اپنی اس بیوی اور بچہ کو چھوڑدو اور خود وہاں سے واپس چلے آؤ۔ یہ حکم سوائے مطلق طور پر تسلیم و رضا کی منطق کے کہ چونکہ ی ہحکم خدا ہے لہٰذا میں اس کی اطاعت کررہا ہوں ( جسے حضرت ابراہیم نے محسوس کیا تھا کہ کیونکہ آپ پر وحی ہوتی تھی ) کسی اور منطق سے میل نہیں کھاتا۔
" ربنا انی اسکنت من ذریتی بواد غیر ذی زرع عند بیتک المحرم ربنا لیقیموالصلاۃ " [23] پروردگارا : میں نے اپنی ذرّیت کو اس بے آب گیاہ وادی میں تیرے محترم گھر کے نزدیک ٹھرادیا تاکہ یہ لوگ نماز اداکریں البتہ آپ خود الٰہی کے ذریعہ یہ جانتے تھے کہ انجام کار کیا ہے ؟ لیکن منزل امتحان سے بخوبی گزر گئے۔

بیٹے کو ذبح کردو
ان سب سے بالا تر بیٹے کو ذبح کرنے کا مرحلہ ہے۔ آپ کو حکم دیا جاتا ہے کہ اپنے ہاتھوں سے اپنے بیٹے کو منیٰ میں ذبح کردو۔ وہیں جہاں آج ہم جناب ابراہیم کی اس نے مثال اطاعت و بندگی اور تسلیم و رضا کی یاد میں جانوروں کی قربانی کرتے ہیں ( چونکہ خدا نے حکم دیا ہے لہٰذا انجام دیتے ہیں۔ یہاں چون و چرا کی گنجائش نہیں ہے۔ ) دو تین مرتبہ جب خواب کے عالم میں آپ پر وحی ہوتی ہے اور آپ کو یقین ہوجاتا ہے کہ یہ وحی پروردگار ہے تو اپنے بیٹے کے سامنے یہ بات رکھتے ہیں اوراس سے مشورہ کرتے ہیں۔ بیٹا بھی بلا کسی حیل وحجت اور بہانے کے کہتا ہے : " یا ابت افعل ماتؤمر " اے پدر بزرگوار جو کچھ آپ کو حکم دیا گیا ہے اسے بجالائیے " ستجدنی ان شاء اللہ من الصابرین " [24] آپ انشاء اللہ مجھے صبر کرنے والوں میں پائیں گے۔ قرآن کیس اعجیب اور حیرت انگیز منظر پیش کرتا ہے :" فلما اسلما " جب یہ دونوں تسلیم ہوگئے یعنی جب انہوں نے ہمارے حکم کے آگے مکمل طور پر اطاعت و بندگی کا اظہار کیا: " و تلّہ للجبین " اور ابراہیم نے اپنے فرزند کو پیشانی کے بھل لٹایا ( یعنی اس آخری مرحلہ پر پہنچ گئے جہاں نہ ابراہیم کو بیٹے کے ذبح کرنے میں شک رہا اور نہ اسماعیل کو ذبح ہوجانے میں کوئی شبہ باقی رہا باپ بھی اطمینانِ کامل کی منزل پر اور بیٹا بھی یقینِ کامل کے درجہ پر ) " ونا دیناہ ان یا ابراہیم قد صدّقت الرؤیا" [25] تو ہم سے ندادی اور وحی کے کہ اے ابراہیم تم نے خواب کو سچ کر دکھایا۔ یعنی ہمارا مقصد فرزند کو ذبح کرنا نہیں تھا۔ ہم نے نہیں چاہا تھاکہ اسماعیل ذبح کردیئے جائیں، یہ نہیں فرمایا کہ اس حکم کو عملی طور پر انجام دینا لازمی نہیں ہے بلکہ فرمایا تم نے انجام دے دیا، کام ختم ہوگیا، کیونکہ ہم یہ نہیں چاہتے تھے کہ اسماعیل کو ذبح کردیا جائے بلکہ ہمارا مقصد اسلام و تسلیم کی نمود اور تم دونوں باپ بیٹوں کی تسلیم و رضا کا اظہار تھا جو انجام پاگیا۔
قرآن کے مطابق خدا وند عالم نے جناب ابراہیم کو عالم پیری میں نعمت اولاد سے نوازا۔ قرآن حکایت کرتاہے کہ جب فرشتوں نے آکر ان کو یہ خبر دی کہ خداوند عالم آپ کو فرزند عطا کرے گا تو ان کی زوجہ نے فرمایا :" ءالد وانا عجوز و" ھٰذا بعلی شیخاً " میں بوڑھی عورت صاحب اولاد ہوں گی جب کہ یہ میرا شوہر بھی، بوڑھا ہے ؟ " قالوا اتعجبین من امر اللہ رحمت اللہ وبرکاتہ علیکم اھل البیت " [26] فرشتوں نے ان سے کہا، کیا آپ کو امر خدا پر تعجب ہے ؟ اے اہل بیت (ع) آپ پر خدا کی رحمتیں اوراس کی برکتیں ہیں۔ بنابر ایں خداوند عالم نے ابراہیم کو بوڑھاپے میں اولاد ہوئے جب منصب پیغمبری پر فائز ہوچکے تھے۔ کیونکہ جناب ابراہیم کے بارے میں قرآن کے اندر بہت سی آیتیں ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ جنسب ابراہیم کے بارے میں قرآن کے اندر بہت سی آیتیں ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ جناب ابراہیم کے پیغمبر ہونے کے سالہا سال کے بعد زندگی کے آخری ایام یعنی ستّت اسّی سال کے سن میں خداوند عالم انہیں نعمت اوالد سے نوازتا ہے اور آپ اس کے دس بیس سال بعد تک زندہ بھی رہتے ہیں یہاں تک کہ جناب اسماعیل و جناب اسحٰق بڑے ہوجاتے ہیں اور جناب اسماعیل تو ان کی حیات میں اتنے بڑے ہوجاتے ہیں کہ خانۂ کعبہ کی تعمیر سے اپنے پدر بزرگوار کا ہاتھ بٹاتے ہیں آیت :" واذابتلیٰ ابراہیم ربہ بکلمات فاتمھن قال انی جاعلک للناس اماماً قال ومن ذریتی قال لاینال عھدی الظالمین " [27] بتاتی ہے کہ خدا وند عالم نے جناب ابراہیم کو آزمائش میں مبتلاکیا۔ آپ نے ان آزمائشوں کو پورا کر دکھایا اوران میں کھرے اترے اس کے بعد خداوند عالم نے فرمایا ؛ میں تمہیں لوگوں کا امام قرار دیتا ہوں جناب ابراہیم نے دریافت کیا، کیا میری ذریّت سے بھی یہ منصب متعلق رہے گا ؟ جواب ملا، میرا عہد ( ان میں سے ) ظالموں تک نہیں پہونچے گا۔ یہ آیتیں کس زمانہ سے تعلق رکھتی ہیں ؟ کیا جناب ابراہیم کے اوائل زندگی سے ؟ مسلّم طور پر نبوت سے پہلے کی نہیں ہیں۔ کیونکہ ان آیتوں میں وحی کی بات کہی گئی ہے۔ بہر حال دوران نبوت سے تعلق رکھتی ہیں۔ کیا یہ زمانہ نبوت کا ابتدائی زمانہ ہے ؟ نہیں، بلکہ نبوت کا آخری زمانہ ہے۔ اس کی دو دلیلیں ہیں۔ ایک یہ کہ آیت کہتی ہے کہ یہ منصب آزمائش کے بعد ملا اور جناب ابراہیم کی تمام آزمائش آپ کی نبوت کے پورے دور میں پھیلی ہوئی ہیں اور ان میں آپ کی ذریت اور اولاد کا تذکرہ بھی ہے۔ جیسا کہ ابراہیم نے خود فرمایا " ومن ذریتی " جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ صاحب اولاد تھے۔
یہ آیت جناب ابراہیم سے جو نبی تھے اور رسول بھی، اب آخر عمر میں یہ کہری ہے کہ ہم تمہیں ایک نیا عہدہ اور ایک دوسرا منصب دینا چاہتے ہیں۔ " انّی جاعلک للناس اماماً " میں تمہیں لوگوں کا امام بنانا چاہتا ہوں۔" معلوم ہوا کہ ابراہیم پیغمبر تھے۔ رسول تھے۔ ان مراحل کو طے کر چکے تھے، لیکن ابھی ایک مرحلہ اور تھا جس تک ابھی رسائی حاصل نہیں کرپائے تھے اور نہیں پہنچے جب تک تمام آزمائشوں سے کامیابی کے ساتھ گزر نہیں گئے۔ کیا یہ بات یہ ظاہر نہیں کرتی کہ قرآن کی منطق میں منصب امامت ایک دوسری ہی حقیقت کا نام ہے ؟ اب دیکھنا یہ ہے کہ امامت کے معنی کیا ہے ؟

امامت، کدا کا عہد
امامت کا مطلب یہ ہے کہ انسان اس منزل پر فائز ہو کہ اصطلاح زبان میں اُسے انسان کامل کہا جائے کہ یہ انسان کامل اپنے پورے وجود کے ساتھ دوسروں کی رہبری و ہدایت کا فریضہ انجام دے سکے۔ جناب ابرہیم کو فوراً اپنی اور اولاد یاد آتی ہے خدا یا ! کیا میری ذریت اور میری نسل کو بھی یہ منصب نصیب ہوگا ؟ جواب دی اجاتا ہے :" لاینال عھدی الظالمین " میرا عہد ظالموں تک نہیں پہنچے گا۔ یہاں امامت کو خدا کا عہد کہا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شیعہ کہتے ہیں کہ ہم جس امامت کی بات کرتے ہیں وہ خدا کی جانب سے ہے۔ چنانچہ قرآن بھی یہی فرماتا ہے " عھدی " یعنی میرا عہد، نہ کہ عوام کاعہد۔ جب ہم یہ سمجھ لیں گے کہ امامت کا مسئلہ حکومت کے مسئلہ سے جدا ہے۔ تو اس پر تعجب نہ ہوگا کہیہ عہد یعنی امامت خدا سے متعلق کیوں ہے ؟ سوال یہ اٹھتا ہے کہ حکومت و حاکمیت خدا سے متعلق ہے یا انسانوں سے ؟ جواب یہ ہے کہ یہ حکومت جسے ہم حکومت کہتے ہیں امامت سے الگ ایک چیز ہے۔ امامت میرا عہد ہے اور میرا عہد تمہاری ظالم اور ستم گر اولاد تک نہیں پہنچے گا۔ ابراہیم کی اولاد کو دوحصون میں تقسیم کرکے ظالم اور ستم گر افراد کو الگ کردیا تو ان میں وہ افراد رہ جاتے ہیں جو ظالم و ستم گر نہیں ہیں۔ اور اس آیت سے ظاہر ہوتا ہے کہ نسل ابراہیم میں اجمالی طور سے امامت پائی جاتی ہے۔

دوسری آیت
اس سلسلہ میں قرآن ایک اور آیت : وجعلھا کلمۃ باقیۃ فی عقبہ [28] بھی جناب ابراہیم سے متعلق ہے۔ ارشاد ہوتا ہے کہ ؛ خداوند عالم نے اسے ( یعنی امامت کو ) ایک باقی اور قائم رہنے والی حقیقت کی صورت میں ابراہیم کی نسل میں باقی رکھا۔

طالم سے کیا مراد ہے ؟
یہاں " ظالمین " کا مسئلہ پیش آتا ہے۔ ائمہ علیہم السلام نے ہمیشہ ظالمین سے متعلق اس آیت سے استدلال کیا ہے۔ ظالم سے مراد کیا ہے ؟ قرآن کی نگاہ میں ہر وہ شخص جو خود اپنی ذات پر یا دوسروں پر ظلم کرے، ظالم ہے۔ عرفِ عام ہمیشہ ہم ظالم اسے کہتے ہیں جو دوسروں پر ظلم کرے یعنی جو لوگوں کے ھقوق پر ڈالے ہم اسے ظالم کہتے ہیں، لیکن قرآن کی نظر میں ظالم عمومیت رکھتا ہے چاہے وہ دوسرے کے ساتھ ظلم کرے یا خود پر کرے جو شخص دوسروں پر ظلم کرتا ہے وہ بھی اپنے آپ پر ظلم کرتا ہے۔ قرآن میں اپ اپنی ذات یا اپنے نفس پر ظلم کو بیان کرنے والی بہت سی آیتیں موجود ہیں۔
علّامہ طباطبائی (رح) اپنے ایک استاد سے نقل کرتے ہیں کہ حضرت ابراہیم نے اپنی اولاد سے متعلق خدا وند عالم سے جو سوال کیا ہے، اس سلسلہ میں نسل و ذریت ابراہیم کے نیک و بد سونے کی تفسیر کچھ اس طرح ہوتی ہے۔ ایک یہ کہ ہم فرض کریں کہ حضرت کی اولاد میں کچھ ایسے افراد تھے جو ابتدا سے آخر عمر تک ہمیشہ ظالم تھے۔ دوسرے یہ کہ بعض ایسے افراد تھے جو ابتدائے عمر میں ظالم تھے لیکن آخر عمر میں نیک اور صالح ہوگئے۔ تیسرے کچھ افراد وہ تھے جو ابتدائے عمر میں نیک تھے اور بعد میں ظالم ہوگئے۔ اور چوتھے یہ کہ کچھ افراد ایسے بھی تھے جو کبھی ظالم نہ تھے۔ وہ فرماتے ہیں کہ جناب ابراہیم منصب امامت کی عظمت و جلالت کو سمجھتے ہوئے اور یہ جانتے ہوئے کہ یہ منصب اتنا اہم ہے جو نبوت و رسالت کے بعد آپ کو عطا کیا گیا ہے، لہٰذا محال ہے کہ اسیے منصب کی درخواست خداوند عالم سے آپ نے اپنی اولاد کے لئے کیا ہے۔ اب ان نیک اور صالح افراد کی بھی دوقسمیں ہیں۔ ایک وہ جو ابتدا سے زندگی کے آخری لمحہ تک ہمیشہ نیک رہے اور ایک وہ جو پہلے ظالم اور بُرے تھے اب نیک اور صالح ہوگئے۔ جب یہ طے ہوگیا کہ حضرت ابراہیم کا تقاضا ان دو طرح کے افراد کے علاوہ کسی اور کے لئے نہیں ہوسکتا، تو اب ممکن ہے کہ یہ منصب ان افراد کو نصیب ہو جو اگرچہ اس وقت ظالم و ستمگر نہیں ہیں لیکن ان کی گزشتہ زندگی آلودہ اور ظالمانہ تھی۔ یعنی ان کی زندگی کا پچھلا ریکارڈ اچھا نہیں ہے۔ ( لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ ) قرآن صاف طور سے فرماتا ہے، لاینال عھدی الظا لمین " جو لوگ ظلم سے سابقہ رکھتے ہیں اس منصب کے اہل نہیں ہوسکتے۔ ہمارا عید ظالموں تک نہیں پہنچے گا۔ لہٰذا مسلّم طور پر جو اس وقت ظالم ہے یا ہمیشہ ظالم رہا ہے یا پہلے ظلم نہیں تھا لیکن اس وقت ظالم ہے، ان میں سے کوئی ایک حضرت ابراہیم کی درخواست کا مصداق نہیں ہے۔ اس بنا پر قرآن صاف طور پر اس کی نفی کرتا ہے کہ امامت اس شخص تک پہنچے جس کی پچھلی زندگی ظالمانہ رہی ہو۔
یہی وہ چیز ہے جس کی بنیاد پر شیعہ استدلال کرتے ہیںکہ یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ امامت ان لوگوں تک پہنچے جو اپنی زندگی کے کسی دور میں مشرک رہے ہوں۔

سوال و جواب
سوال : معصوم کا کیا مطلب ہے ؟ یہ ہماری شیعہ منطق کا ساختہ و پرداختہ کوئی کوئی مفہوم ہےیا اس کی کچھ بنیادیں ہیں اور ہم نے انہیں پروان چڑھا کر بہتر بنایا ہے ؟ اصولی طور ہر کیا معصوم اس شخص کو کہتے ہیں جو گناہ نہ کرے، یا اسے کہتے ہیں جو گناہ کے علاوہ کوئی اشتباہ یا غلطی بھی نہ کرتا ہو ؟ ہم بیس سال پہلے میرزا ابوالحسن خان فروغی مرحوم کے درس میں شریک ہوا کرتے تھے یہ بزرگوار خاص طور سے عصمت کے مسئلہ میں خصوصی اور وسیع مطالعہ اور خاص عقیدہ رکھتے ھتے، اور اس موضوع پر بہترین انداز میں بڑی تفصیل کے ساتھ گفتگو فرماتے تھے اگر چہ ہم اس وقت ان کی اسی فی صد گفتگو سمجھنے سے قاصر تھے لیکن اس میں سے بیس فیصدی جو سمجھتے تھے، اس کے مطابق وہ عصمت کی ایک دوسرے انداز میں تعریف کرتے تھے وہ فرماتے تھے، معصوم وہ نہیں ہے جو گناہ نہ کرے۔ ہماری نگاہ میں بہت سے ایسے افراد ہیں جنھوں نے اپنی پوری زندگی میں گناہ ہی نہیں کیا، لیکن انہیں معصوم نہیں کہتے۔ اس وقت ہمیں اس فکر سے سروکار نہیں ہے۔ آقائے مطہری کے پاس یقیناً اس کا جواب ہوگا کہ معصوم سے کیا مراد ہے ؟ اگر معصوم وہ شخص ہے جس سے کبھی کوئی غلطی یا بھول چوک بھی نہ ہوئی ہوتو ہم دیکھتے ہیں کہ بارہ امام علیہم السلام میں سے صرف دو حضرات مسند خلافت پر جلوہ افروز ہوئے: حجرت علی اور حسن اور وہ بھی بڑی مختصر مدت کے لئے اوراس میں بھی شک نہیں ہ ان حضرات سے خلافت کے معاملات اور حکومت چلانے کے سلسلہ میں بہت سے اشتباہ ہوئے اور تاریخی نقطۂ نظر سے ان اشتباہات اور غلطیوں میں کسی شک و شبہ کی گنجائش بھی نہیں۔ اور یہ بات معصوم کی مذکورہ بالا تعریف سے کسی طرح میل نہیں کھاتی۔
مثال کے طور پر امام حسن علیہ السلام کا عبیداللہ بن عباس کو معاویہ سے جنگ کے لئے مامور کرتا۔ یا خود حضرت علی علیہ السلام کا عبداللہ ابن عباس کو بصرہ کا حام مقرر کرنا۔ اگر آپ جانتے ہوتے کہ یہ شخص اس قدر رسوائی کا باعث ہوگا اور ایسی بد عملی کا مظاہرہ کرے گا تو یقیناً آپ یہ کام نہ کرتے۔ لہٰذا یہ طے ہے کہ آپ حقیقت سے واقف نہ تھے یعنی پہلے آپ کا خیال یہ تھا کہ میں نے جسے انتخاب کیا ہے وہ اس کام کے لئے بہترین شخص ہے۔ لیکن بعد میں وہ شخص غلط نکلا۔ اور اگر حضرت کے دورہ حکومت سے متعلق مزید تحقیق کی جائے تو اس طرح کے اور بھی مسائل نظر آئیں گے اور تاریخی لحاظ سے اس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش بھی نہیں ہے۔ لیکن یہ بعد عصمت کی اس تاریخ سے میل نہیں کھاتی اور یہ جو میں نے عرض کیا کہ بحث کرنے کا ایک طرفہ انداز یعنی سارے موافق حضرات کا کسی بحث میں حصہ لینا زیادہ مفید نہیں ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ واقعی جب انسان کوئی عقیدہ رکھتا ہے تو اسے دوست بھی رکھتا ہے اور اسے یہ گوارہ نہیں ہوتا کہ اپنے اس عقیدہ کے خلاف کچھ سنے۔ خاص طور سے ہم جو بچپن سے ہی شیعیت اور خاندان علی بن ابی طالب سے محبت اپنے دل میں رکھتے آئیں ہیں اور کبھی اس کے خلاف تنقید نہیں سنی۔ شاید خود دین و اصول دین یہاں تک کہ توحید خدا پرستی سے متعلق اعتراضات یاتنقیدیں توآسانی سے سن لی ہوں لیکن تشیع اور ا ئم علیھم السلام پر تنقید یا کسی کاان حضرات کی زندگی کہ انھوں نےیہ کام کیوںکیا اور وہ کیوں نہ کیا،سے ہمارے کان آشنانہیں ہیں،اسی وجہ سےاگر کوئ مثال کے طور پرامام حسن کے عمل یا امام حسین کے اقدام پر اعتراض کرے تو ہمیں بہت شاق گزرتا ہے۔
لیکن مثال کےطور پر یہ آیت جسے آقائے مطہری نے پہلے جلسہ میں اور اس جلسہ میں موضوع قرار دیا ہے۔ اس میں ارشاد ہوتا ہے " وہ لوگ جو نماز قائم کرتے ہیں اور حالت رکوع میں زکات ادا کرتے ہیں " اس کے بعد آپ نے استدلال فرمایا کہ یہ آیت اس واقعہ کے تحت جس میں حضرت علی نے رکوع کی حالت میں انگوٹھی سائل کو دی تھی، سوائے حضرت علی کے کسی اور کے بارے میں نہیں ہے۔ نیری نظر میں یہ بات کچھ منطقی اور معقول نہیں لگتی، کیونکہ اول تو ہم نے امیر المومنین کی زندگی کے بارے مٰں یہ پڑھا اور سنا ہے کہ نماز کی حالت میں آپ کی توجہ خدا وند عالم کی جانب سے اس قدر ہوا کرتی تھی کہ گردو پیش کے لوگوں سے بے خبر ہوجاتے تھے، یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وضو کرتے وقت بھی اگر آپ سامنے سے لوگ گزر جاتے تھے تو آپ انہیں پہچان نہیں پاتے تھے۔ پھر یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ نماز کی حالت میں ایسے شخص کے حواس اس قدر دوسروں کی طرف متوجہ ہوں کہ سائل مسجد میں وارد ہوتا ہے، سوال کرتا ہے، کوئی اسے کچھ نہیں دیتا اور حضرت اپنی انگوٹھی اتارکر اس کے حوالہ کردیتے ہیں۔ مزید یہ کہ سائل کو پیسے دینا کوئی اچھی بات بھی نہیں ہے۔ سائل کو پیسہ دینا اس قدر اہم نہیں ہے کہ انسان اپنی نماز کو کم از کم باطنی اور روحانی اعتبار سے ہی ناقص کردے یا اس میں خلل پیدا کرے ؟
اس کے علاوہ زکات کا تعلق انگوٹھی سے نہیں ہے اور فقہائے شیعہ کے فتووں کے مطابق زکوٰۃ سے تعلق رکھنے والی چیزوں میں شامل بھی نہیں ہے۔ ان سب باتوں سے بڑھ کر وہ افراد جو اس سلسلہ میں کٹّر ہیں اس موضوع کو بہت زیادہ بڑھا بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کے لئے یہ بھی فرماگئے ہیں کہ یہ انگوٹھی بہت زیادہ قیمتی تھی ۔ جبکہ حضرت علی (ع) نے قیمتی انگوٹھی نہیں پہنی۔ ؟ جواب : جس نکتہ کی طرف انہوں نے اشارہ فرمایا کہ جلسہ میں مخالف موقت رکھنے والے افراد بھی ہونے چاہئے یقیناً تمام جلسوں کے لئے یہ ایک مفید فکر ہے اور میں اسی پر اکتفا کرتا ہوں کہ یہ کام اچھا اور مفید ہے۔
اب رہا یہ مسئلہ کہ عصمت کیا ہے ؟ تو اس سلسلہ میں اکثر انسان یہ خیال کرتا ہے کہ عصمت کا مطلب یہ ہے کہ اللہ اپنے بندوں میں بعض مخصوص افراد کی ہمیشہ نگرانی کیا کرتا ہے کہ جیسے ہی وہ کسی گناہ کا ارادہ کرتے ہیں فوراً انھیں روک دیتا ہے۔ مسلّم طور پر عصمت کے یہ معنی نہیں ہیں۔ اور اگر ہون بھی تو یہ کسی کے لئے کمال کی بات نہیں ہے۔ اگر کسی بچہ پر ایک شخص برابر نگرانی رکھے اور اسے کوئی غلط کام کرنے نہ دے تو یہ اس بچہ کے لئے کوئی کمال شمار نہ یوگا۔ لین عصمت کا ایک مفہوم اور بھی ہے جو قرآن سے ظاہر ہوتا ہے اور وہ یہ کہ ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن مجید حضرت یوسف صدیق کے بارے میں اس سخت منزل میں جب زلیخا ان کو اپنی طرف مسائل کر رہی تھی، فرماتا ہے ؛
" ولقد ھمت بہ ٰعنی اس عورت نے یوسف کا ارادہ کیا۔
وھم بھا لولا ان رابرھان ربہ [29] اور یوسف بھی اگر دلیل پروردگار کا مشاہدہ نہ کرتے ہوتے تو اس کا ارادہ کرتے۔
یعنی وہ بھی ایک انسان تھے،جوان تھے اور جذبات رکھتےتھے۔ زلیخا یوسف کی طرف بڑھی لیکن یوسف چونکہ صاحب ایمان آپ کی اچھائی اور برائی کو دیکھ رہے تھے وہ ایمان جو خدا نے یوسف کو عطا تھا، وہی ایمان آپ کو اس عمل سے روک رہا تھا۔ ہم میں کا ہر شخص کسی طاقت کے روکے ٹوکے بغیر بعض لغزشوں اور گناہوں سے معصوم ہے اور یہ ہمارے اس ایمانی کمال کا نتیجہ ہے جو ہم ان گناہوں کے خطرات سے تعلق رکھتے ہیں۔ مثال کے طور پر کسی چار منزلہ عمارت کی چھت سے چھلانگ لگانا۔ یا آگ میں کود پڑنا یہ بھی گناہ ہیں لیکن ہم پر گزان گناہ کے مرتکب نہیں ہوتے کیونکہ ان کے خطرات و نقصان ہمارے لئے ثابت اور ایک دم عیاں ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ ادھر ہم نے بجلی کے تگے تار کو چھوا ادھر ہماری جان گئی۔ ہم صرف اسی وقت گناہ کے مرتکب ہوسکتے ہیں جب ان خطرات سے آنکھیں بند کرلیں، لیکن ایک بچہ دہکتے ہوئے انگار پر ہاتھ مارتا ہے۔ کیوں ؟ اس لئے کہ اس خطرہ کا گناہ جس قدر ہم پر ثابت و عیاں ہے اس پر عیاں نہیں ہے ایک عادل انسان تقویٰ کا ملکہ رکھتا ہے اسی بنا پر بہت سے گناہ وہ سرے سے انجام ہی نہیں دیتا۔ یہی ملکہ اسے اس حد تک کہ وہ ان گناہوں سے دور رہے، عصمت بخشا ہے۔ بنابر ایں گناہوں سے عصمت کا تعلق انسان کے درجہ ایمان سے ہے کہ وہ فلاں گناہ کو گناہ اور فلاں خطرہ کو خطرہ سمجھتا ہے یا نہیں۔ ہم نے گناہوں کو نعبداً قبول کیا ہے یعنی ہم ی ہکہتے ہیں کہ چونکہ اسلام نے کہا ہے کہ شراب نہ ہو پیو اس لئے ہم نہیں پیتے۔ کہا ہے کہ جوا نہ کھیلو، ہم نہیں کھیلتے، ہم کم و بیش جانتے بھی ہیں کہ یہ جان برے ہیں، لیکن جس قدر خود کو آگ کے حوالے کردینے کا خطرہ یا گناہ ہم پر روشن و واضح ہے اس قدر ان گناہوں کے خطرات اور گناہوں پر یقین و ایمان رکھتے تو ہم بھی ان گناہوں سے معصوم ہوتے۔ پس گناہوں سے عصمت کا مطلب ہے منتہی وکمالِ ایمان۔ لہٰذا جو شخص یہ کہتا ہے " لو کشف الغطاء لما ازددت یقینی " [30] "اگر پردے اٹھ جائیں پھر بھی میرے یقین میں کوئی اضافہ نہیں ہوگا۔" وہ قطعی طور پر گناہوں سے معصوم ہے۔ وہ پردے کے اس سمت سے بھی پس پردہ کی چیزوں کو مجسّم دیکھتا ہے۔ یعنی مثال کے طور پر وہ محسوس کرتا ہے کہ ایک بُری بات منہ سے نکالنے کا مطلب یہ ہے کہ اس نے حقیقتاً اپنی جان کے لئے ایک بچھو پیدا کرلیا ہے اسی بنا پر وہ ایسے کام نہیں کرتا، اور بلا شبہ قرآن بھی اس پایہ کے ایمان کا تذکرہ فرماتا ہے۔ لہٰذا معلوم ہوا کہ عصمت نسبی ہے یعنی اس کے مراتب و درجات ہیں۔
معصومین ان چیزوں میں جو ہمارے لئے گناہ ہے اور کبھی ہم ان کے مرتکب ہوتے ہیں اور کبھی ان سے پر ہیز کرتے ہیں معصوم ہیں اور ہر گز گناہ نہٰں کرتے ۔ لیکن تمام معصومین ایک جیسے نہیں ہیں۔ عصمت کو بھی مراحل و مراتب ہیں۔ عصمت کے بعج مراحل میں وہ ہمارے جیسے ہیں یعنی جس طرح ہم گناہوں سے معصوم نہیں ہیں، وہ حجرات بھی ( عصمت کے ان مراحل جیسے ہیں یعنی جس طرح ہم گناہوں سے معصوم نہیں ہیں، وہ حضرات بھی ( عصمت کے ان مراحل و مراتب ہیں ) معصوم نہیں ہیں۔ جن چیزوں کو ہم گناہ شمار کرتے ہیں ان میں وہ صدفی صد معصوم ہیں لیکن ایسی چیزیں بھی ان کے لئے گناہ ہیں جو ہمارے لئے حسنہ اور نیکیاں ہیں، کیونکہ ہم ( اس درجہ تک ) نہیں پہنچے ہیں۔ مثال کے طور پر درجہ پانچ کا طالب علم چھٹے درجہ کا کوئی سوال حل کردے تو یہ اس کے لئے باعث شرف و فضیلت اور انعام کے لائق بات ہے۔ لیکن اگر اسی سوال کو نویں درجہ کا طالب علم حل کرے تو یہ اس کے لئے کچھ اہمیت کی بات نہ ہوگی۔ اسی طرح سمجھیں کہ کچھ چیزیں ہمارے لئے تو حسنات ہیں لیکن ان کے لئے گناہ ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن انبیاء کے معصوم ہونے کے باوجود ان کی طرف عصیان کی نسبت دیتا ہے ( وعصیٰ اٰدم ربہ ) [31] ( آدم نے اپنے پروردگار کی نافرمانی کی ) یا پیغمبر اسلام سے خطاب کرتے ہوئے فرماتاہے :
"لیغفر لک اللہ ما تقدم من ذنبک وما تاخر [32]
تاکہ خدا وند عالم آپ کے پچھلے اور اگلے گناہوں کو بخش دے۔
ان آیتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ عصمت ایک نسبی امر ہے۔ گویا وہ اپنی حد میں اور ہم اپنی حد میں۔ پس وصمت کی اصل و ماہیت گناہ سے ایمان کے درجہ اور کمال ایمان کی طرف پلٹتی ہے۔ انسان ایمان کے کسی بھی درجہ میں ہو لیکن جس موضوع سے متعلق وہ کامل ایمان رکھتا ہے۔ یعنی :
" ولم لا ان راٰ برھان ربہ " کے درجہ پر فائز ہے اور دلیل پروردگار کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہے۔ اس میں وہ لامحالہ معصوم ہے۔ نہ کہ خود معصوم بھی ہماری ہی طرح ہے کہ وہ گناہ و معصیت کی طرف قدم بڑھانا چاہتا ہے لیکن اللہ کی طرف سے مامور کوئی فرشتہ اس کی راہ میں حائل ہوجاتا ہے اور اسے روک دیتا ہے۔ اگر ایسا ہے تو مجھ میں امیر المومنین میں کوئی فرق نہیں ہے کیو نکہ میں بھی گناہ کی طرف مائل ہوتا ہوں اور ( معاذاللہ ) وہ بھی مائل ہوتے ہیں، فرق یہ ہے کہ ان پر ایک ملک معین ہے جو انہیں اس کام سے روکتا ہے اور ہم پر اس طرح کا کوئی مامور نہیں ہے۔ اگر انسان کو گناہ سے روکنے کے لئے کو ئی خارجی مامور بھی موجود ہو تو یہ کوئی کمال کی بات نہ ہوئی۔ اس کی مثال یوں ہے کہ ایک شخص چوری کرتا ہے اور میں چوری نہیں کرتا۔ لیکن میں جو چوری نہیں کرتا اس کا سبب یہ ہے کہ ہمارے اعمال کا نگراں ایک شخص ہمیشہ کے ساتھ ہے۔ اس صورت میں، میں بھی اسی کی طرح چور ہوں فرق یہ ہے کہ کوئی نگراں اسے اس کام سے نہیں روکتا اور میرے حرکات و سکنات کا نگراں میری راہ میں حائل ہے۔ یہ کوئی کمال کی بات نہیں ہوئی۔
مسئلہ عصمت میں اہم اور کلّی مسئلہ گناہ سے معصوم ہونے کا مسئلہ ہے۔ خطا سے معصوم ہونا ایک دوسرا مسئلہ ہے اور اس کی بھی دو حیثیتیں ہیں۔ ایک احکام کی تبلیغ میں خطا کا مسئلہ ہے مثلاً ہم یہ کہیں کہ پیغمبر اسلام (ص) نے ہمارے لئے احکام بیان فرمائے ہیں لیکن شاید اس میں خطا یا اشتباہ سے کام لیا ہے۔ شاید خدا وند عالم نے ان پر وحی کی اور شکل میں نازل فرمائی تھی لیکن آنحضرت نے اشتباہاً اسے دوسری طرح سے بیان فرمایا۔ بالکل یوں ہی جیسے ہم خطا کرتے ہیں۔ یعنی اس امکان پر کہ ممکن ہے پیغمبر نے تبلیغ احکام میں خطا یا اشتباہ سے کام لیا ہو،سرے سے پیغمبر اسلام کی باتوں پر پر اعتمادی نہ ہو، قطعی ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ اب رہی تمام مسائل میں معصوم سے خظا کی بات تو یہاں انجینیئر صاحب نے اپنی عترت فیصلہ کا ثبوت دیتے ہوئے امیر المومنین پر ظلم کیا ہے اور واقعی یہ بہت بڑا ظلم ہے۔آپ نے کیسے تیزی کے ساتھ یہ فیصلہ کرلیا کہ اگر آپ امیر المومنین کی جگہ پر ہوتے تو عبد اللہ ابن عباس کا انتخاب نہ کرتے، اور ؟ اسی طرح کے تاریخی مسائل میں ظنی وگمانی فیصلوں کے اظہار میں تو کوئی ہرج نہیں ہے۔ مثلاً انسان کسی شخص کے بارے میں اظہار خیال کرے کہ میں سوچتا ہوں اگر فلاں شخص پانچ سو سال پہلے اس کام کے بجائے یہ کام کرتا تو بہتر تھا، اور کوئی اس سے یہ کہے کہ کیا قطعی ایسا ہے؟ تو وہ جواب دے کہ میرا یہی خیال ہے؟ تو اس میں کوئی ہرج نہیں ہے۔ لیکن ان مسائل میں کوئی قطعی فیصلہ کرنا امیر المومنین ہی کی نسبت نہیں؟ دوسرے افراد کی نسبت بھی صحیح نہیں ہے۔
حضرت ان واقعات و مسائل میں خود حاضر و ناظر تھے اور عبد اللہ بن عباس کو ہم اور آپ سے بہتر جانتے تھے، یوں ہی اپنے دوسرے اصحاب کو بھی ہم سے اور آپ سے زیادہ طور پر پہچانتے تھے۔ اور ہم اپنی جگہ بیٹھ کر قضاوت کریں کہ اگر حضرت علی عبد اللہ بن عباس کی جگہ پر کسی دوسرے کو منتخب فرماتے تو وہ اس کام کو بہتر طور پر انجام دیتا۔ یہ در اصل اس طرح کے مسائل میں عجولا نہ قضاوت کی نشانی ہے۔ مزید یہ کہ آپ نے خود خود اپنے بیانات میں جن سے ہم ہمیشہ استفادہ کرتے رہے ہیں، برابر یہ بات ذکر کی ہے کہ علی ایک مخصوص سیاست پر گامزن تھے اور نہ وہ خود چاہتے تھے نہ ان کے لئے سزاوار ہی تھا کہ ذرہ برابر بھی اس سیاست سے الگ ہوتے اور یہ وہ راہ سیاست تھی جس میں ان کے پاس ناصر و مددگار نہیں تھے۔ حضرت خود بھی ہمیشہ فرمایا کرتے تھے کہ افسوس میرے پا س افراد نہیں ہیں۔ یہی عبد اللہ بن عباس اور دوسرے افراد حضرت علی کی خدمت میں آتے تھے اوران سے اپنی روش میں لوچ اور نرمی پیدا کرنے کی درخواست کرتے تھے یعنی وہی طرز عمل اپنانے کو کہتے تھے جسے آج کی دنیا میں سیاست کہتے ہیں۔ آپ کم از کم یہی ثابت کیجیئے کہ حضرت علی کے پاس ان کے ہم فکر و ہم نوا کافی افراد موجود تھے اور آپ نے ان کے درمیان اشخاص کے انتخاب میں اشتباہ سے کام لیا۔ میں تو شباہت نہیں کرسکتا کہ حضرت علی کے پاس حسب ضرورت افراد موجود رہے ہوں۔ میں بس اسی قدر جانتا ہوں کہ علی جنہیں پیغمبر نے خلافت کے لئے معین فرمایا تھا۔ جب لوگوں نے خلافت پر قبضہ کر لیا تو اس قدر احتجاج اوار شکوہ کرتے نظر آتے ہیں کہ لوگوں نے میرا حق مجھ سے چھین لیا، لیکن عثمان کے بعد جبن لوگ آپ کی بیعت کے لئے آپ کے پاس آتے ہیں تو آپ خود کو اس امر سے دور رکھنے کی کوشش کرتے دکھائی دیتے ہیں اور فرماتے ہیں:
"دعونی والتمسوا غیری فانا مستقبلون امراً لہ وجوہ والوان وان الافاق قد اغامت والمحجّۃ قد تنکرت [33] مجھے چھوڑ دو اور ( اس خلافت کے لئے ) کسی دوسرے کو ڈھونڈلو۔ بلا شبہ ہامرے سامنے ایک ایسا معاملہ ہے جس کے کئی رُخ اور کئی رنگ ہیں، جسے نہ دل برداشت کرسکتے ہیں اور نہ عقلیں مان سکتی ہیں۔ فضائیں تاریک ہوچکی ہیں اور راستہ پہچانتے میں نہیں آتا"
مفہوم یہ ہے کہ، حالات اب خراب ہوچکے ہیں، اب کام نہیں کیا جاسکتا یعنی نیرے پاس افراد نہیں ہیں، میرے رفقاء تمام ہوگئے اب میرے کام کے آدمی نہیں رہے ( جن کی مدد سے معاشرہ کی ) اصلاح کرسکوں۔ اس کے بعد فراماتے ہیں:
لولا حضور الحاضر وقیام الحجۃ لوجود الناصر
اب مجھ پر حجت تمام ہوگئی میں تاریخ کے روبرو کوئی عذر نہیں رکھتا تاریخ میری یہ بات نہیں مانے گی، کہا یہی جائے گا کہ علی نے موقع ہاتھ سے کھو دیا، اس کے باوجود کہ یہ موقع میرے لئے کوئی موقع نہیں ہے لیکن تاریخ کا منھ بند کرنے کے لئے کہ یہ نہ کہا جائے کہ بہترین موقع تھا جسے علی نے کھو دیا اس منصب کو قبول کرتا ہوں۔
لہٰذا ہم دیکھتے ہیں کہ آپ نے خود اس کو اظہار فرمایا کہ میرے پاس آدمی نہیں ہیں اور یہ میری خلافت کا موقع نہیں ہے۔
انسان ہر شخص کے سلسلہ میں شک و تردید کا شکار ہوسکتا ہے لیکن خود حضرت علی کے لئے تاریخ کو بھی اس بات میں شک نہیے ہیں کہ آپ خود کو دوسروں کی بہ نسبت خلافت کا سب سے زیادہ حقدار سمجھتے تھے اور اہل سنّت بھی یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ علی خلافت کے لئے خود کو ابوبکر و عمر وغیرہ سے زیادہ حقدار سمجھتے تھے۔ پھر یہ کیا ہوا کہ جو علی اپنے آپ کو ابوبکر و عمر سے خلافت کا زیادہ حقدار سمجھنے، جب لوگ عثمان کے بعد خلافت کے لئے اس کے پاس جائیں تو وہ پیچھے ہٹتا ہوا مظر آئے اور یہ کہے کہ:۔
تمہارا امیر بننے سے بہتر ہے کہ میں اس کے بعد بھی تمہارا مشیر ہی بن کررہاہوں۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت علی کے پاس ایسے افراد نہیں تھے۔ اب اس کے اسباب و علل کیا تھے، یہ ایک دوسری بحث ہے۔
اب رہا:" ویؤمنون الزکوٰۃ وھم راکعون" کا مسئلہ تو اول یہ جو انہوں نے فرماءا کہ زکات انگوٹھی پر نہیں ہوتی، اس کا جواب یہ ہے کہ کلی طور پر کارِ خیر کے لئے ہر طرح کے انفاق کو زکات کہتے ہیں۔ آج کل جو فقہا کی عرف میں زکات کی اصلاح رائج ہے اس سے مراد زکات واجب ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ قرآن کریم میں جہاں بھی "یقیمون الصلوٰۃ ویؤمنون الزکوٰۃ " آیا ہوا اس سے مراد یہی زکوٰۃ واجب ہے۔ زکات کا مطلب ہے مال کا پاک وصاف کرنا۔ حتیٰ کہ اس سے مراد روح و نفس کی زکات کہتا ہے۔ چنانچہ لفظ صدقہ کا مفہوم بھی اسی قدر وسعت رکھتا ہے آج صدقہ کا ایک خاص مفہوم ہے مثلاً کہتے ہیں صدقۂ سرّی ( چھپا کر صدقہ دینا ) لیکن قرآن ہر کار خیر کو صدقہ کہتا ہے۔ اگر آپ ایک اسپتال تعمیر کریں یا کوئی کتاب لکھیں جس کا فائدہ عام طور سے لوگوں کو پہنچتا ہو۔ قرآن کی نظر میں وہ صدقہ ہے "صدقۃ جاریۃ " ایک جاری صدقہ۔ یہی وجہ ہے کہ اہل سنّت نے بھی جب مزکورۃ آیت سے اخذ شدہ مفہوم پر اعتراض کرنا چاہا ہے تو اس لفظ پر ایسا کوئی اعتراض نہیں کیا ہے کہ زکات انگوٹھی سے متعلق نہیں ہوتی۔ کیونکہ وہ ادبیات عرب سے واقف ہیں اور جانتے ہیں کہ لفظ زکات، زکات واجب سے مخصوص نہیں ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ عمل حالت رکوع میں کیوں اور کیسے انجام پایا؟ یہ اعتراج فخرالدین رازی جیسے قدیم مفسرین نے بھی اٹھایا ہے کہ علی ہمیشہ حالت نماز میں اس قدر کھوجاتے تھے کہ انہیں ارد گرد کا احساس بھی نہ رہتا تھا۔ پھر آپ یہ کیسے کہتے ہیں کہ نماز کی حالت میں یہ عمل انجام ہایا؟ جواب یہ ہے کہ
اول تو: علی کا نماز کی حالت میں اپنے آپ سے بے خبر ہوجانا ایک حقیقت ہے، لیکن ایسا نہیں ہے کہ اولیائے خدا کے تمام حالات و کیفیات ہمیشہ ایک ہی جیسے رہے ہیں۔ خود پیغمبر اکرم کے لئے دونوں کیفیتیں بیان کی جاتی ہیں۔ کبھی نماز کی حالت میں آپ پر وہ کیفیت طاری ہوجاتی تھی کہ اذان کے تمام ہونے کی تاب بھی نہ رہتی تھی فرماتے تھے:" اَرحنایا بلال ” ائے بلال جلد اذان ختم کرو کہ ہم نماز شروع کریں اور کبھی نماز کی حالت میں ہوتے تھے، سجدے کے لئے سر مبارک کو خاک پر رکھتے تھے اور آپ کے نواسے امام حسن یا امام حسین آکر آپ کی پشت مبارک پر سوار ہوجاتے تھے اور آپ پورے اطمینان کے ساتھ یوں ہی ٹھہرے رہتے تھے کہ یہ بچہ کہیں گر نہ پڑے اور جب تک نواسہ اتر نہ آتا تھا سجدہ کو طول دیتے تھے۔
ایک مرتبہ پیغمبر اکرم نماز میں قیام کی حالت میں تھے۔ نماز کی جگہ پر سامنے گویا کسی نے تھوک دیا تھا۔ پیغمبر نے ایک قدم آگے بڑھایا اور قاؤں سے اسے مٹی میں چھپادیا اس کے بعد اپنی جگہ واپس پلٹ آئے۔ فقہاء نے اس واقعہ کی روشنی میں نماز سے متعلق بہت سے مسائل اخز کئے ہیں۔ سید بحرالعولم فرماتے ہیں:۔
ومشی خیرا الکلق فی المحراب یفتح منہ اکثر الابواب
مطلب یہ ہے کہ نماز کی حالت میں پیغمبر اسلام دو قدم آگے بڑھے۔ وہ عمل انجام دیا اور واپس پلٹ آئے اس عمل نے بہت سے مسائل کو حل کردیا کہ نماز کی حالت میں کس حد تک اضافی عمل جائز ہے یا جائز نہیں ہے۔ اسی طرھ اور بہت سی باتوں کا حل مل گیا۔ چنانچہ ان حضرات کے حالات و کیفیات مختلف رہے ہیں۔
اس سلسلہ میں دوسرا مطلب جو عرفانی ہے یہ ہے کہ وہ افراد جو عرفانی مزاق رکھتے ہیں ان کا اعتقاد ہے کہ اگر استغراق و انجذاب کی کیفیت اپنے کمال پر ہوتو اس میں "بر گشت" کی حالت پائی جاتی ہے یعنی اس صورت میں انسان خدا کی ذات میں مستغرق ہونے کے ساتھ ہی ماسواے اللہ میں بھی مشغول رہتا ہے۔ یہ اہل عرفان کا خیال ہے اور میں بھی اسے تسلیم کرتا ہوں لیکن اس جلسہ میں شاید بہت زیادہ قابل قبول نہ ہو کہ میں اسے عرض ہی کردوں۔ یہ خلع بدنی کے مسئلہ کی مانند ہے۔ جو افراد اس مرحلہ میں تازہ وارد ہوتے ہیں ایک لمحہ یا دو لمحہ ایک گھنٹہ تک اپنے آپ سے بے خبر یا اپنے جسم سے الگ ہوجاتے ہیں۔ بعض افراد ہر حال میں اپنے جسم سے الگ یا خود سے بے خبر رہتے ہیں ( البتہ میں اس کا معتقد ہی نہیں بلکہ عینی گواہ بھی ہوں مثال کے طور پر اس وقت ہمارے اور آپ کے ساتھ بیٹھے ہیں اپنے جسم سے دور الگ اور التعلق ہیں۔
اہل عرفان کی نظر میں یہ حالت و کیفیت کہ نماز کے دوران پاؤں سے تیر نکال لیا جائے اور انسان متوجہ نہ ہو، اس حالت و کیفیت سے ناقص تر ہے جس میں انسان نماز کے دوران فقیر وسائل کی طرف بھی متوجہ ہو۔ ایسا نہیں ہے کہ یہاں وہ خدا سے غافل ہے اور فقیر کی طرف متوجہ ہے بلکہ اس کی توجہ خدا کی طرف اس قدر کامل ہے کہ اس حالت میں وہ تمام عالم کو اپنے سامنے موجود پاتا ہے۔ لہٰذا ان
تمام قرائن کی موجودگی میں ان حقائق سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔

چھٹی بحث :
امامت أئمہ اطہار کی نگاہ میں
امامت کے کلی مسائل سے متعلق یہ ہماری آخری بحث ہے اس کے بعد ہم اس سلسلہ میں جو بحثیں کریں گے وہ احدیث و روایات کی روشنی میں ہوں گی۔ مثال کے طور پر وہ حدیثیں جو امیر المومنین کے سلسہ میں پیغمبر اکرم سے نقل ہوئی ہیں یا خود امیر المومنین نے اپنے بعد کے ائمہ کے لئے ذکر فرمائی ہیں، یوں ہی حضرت رسول خدا نے ان ائمہ کے بارہ میں جو کچھ فرمایا ہے نیز یہ کہ ہر امام نے اپنے بعد ک امام کے لئے کس طرح وضاحت فرمائی ہے ہم ایک ایک کر کے ان سب کا جائزہ لیں گے کہ ان میں سے اکثر و بیشتر روایات نقلی، تعیینی و تنصیصی پہلو رکھتی ہیں۔
موجودہ بحث کچھ اس ڈھنگ کی ہے کہ اس کا کچھ حصہ شاید ہم گزشتہ گفتگو میں بھی متفرق طور پر پیش کرچکے ہیں لیکن چونکہ یہ مسئلہ امامت کی روح سے مربوط ہے لہٰذا اب ہم ائمہ معصومین کے اقوال کی روشنی میں اس پر بحث کریں گے۔ اور کتاب " اصول کافی کی " کتاب الحجۃ " کا ایک حصہ بھی آپ کی خدمت میں پیش کریں گے۔ ہم مکرّر عرض کر چکے ہیں کہ امامت کے اس مفہوم ہم شیعہ یا کم از کم ائمہ شیعہ کے اقوال میں پیش کیا گیا ہے وہ امامت کے اس مفہوم سے بالکل الگ ہے جو اہل سنت کے یہاں رائج ہے۔ یہ مسئلہ حکومت سے بالکل الگ ایک چیز ہے جس کا چرچا ہمارے زمانہ میں بہت ہوتا ہے۔ مثلاً، امامت بنیادی طور پر نبوت کے قدم بہ قدم یا اس کے بالکل دوش بدوش والا مسئلہ ہے لیکن اس معنی میں نہیں کہ اس کا مرتبہ ہر نبوت سے کمتر درجہ کا ہے۔ بلکہ اس سے مقصود یہہے کہ نبوت سے مشابہ ایک ایسا منصب ہے جو بڑے انبیاء کو بھی عطاہوا ہے یعنی یہ ایک ایسامعنوی منصب ہے کہ بڑے انبیاء نبوت کے ساتھ ساتھ امامت کے منصب پر بھی فائز رہے ہیں۔ ائمہ معصومین نے کلی طور پر اس مسئلہ کے تحت اپنی گفتگو میں انسان کو بنیاد قرار دیا ہے۔ لہٰذا ہمیں پہلے انسان کے متعلق اپنے تصوّرات و خیالات پر تجدید نظر کرنا چاہیئے تاکہ یہ مسئلہ پورے طور سے واضح ہوسکے۔

انسان
آپ جانتے ہیں کہ اساسی طور پر انسان کے سلسلہ میں دو نظریے پائے جاتے ہیں ایک یہ کہ انسان بھی تمام جانداروں کے مانند صدفی صدا ایک خاکی یا مادی موجود ہے۔ لیکن یہ ایسا مادی وجود ہے جواپنے تغیرات کی راہ طے کرتے ہوئے اس حد کمال کو پہنچ چکا ہے جہاں تک زیادہ سے زیادہ مادہ میں اس کی صلاحیت پائی جاتی تھی۔ حیات، چاہے نباتات میں ہو یا اس سے بلند حیوانات میں یا ان سب سے بڑھ کر انسان میں، یہ خود مادہ کے تدریجی ارتقا وکمال کی نشان دہی کرتی ہے یعنی اس وجود کی بناوٹ اور ساخت میں مادّی عناصر کے علاوہ کوئی اور عنصر کا ر فرما نہیں ہے۔ ( یہاں عنصر کا لفظ اس لئے استعمال ہوا کہ اس کی کوئی دوسری تعبیر ہمارے پاس نہیں ہے )۔ جتنے حیرت انگیز آثار اس وجود میں پائے جاتے ہیں ان کا سر چشمہ یہی مادّی تشکیل ہے۔ اس نظریہ کے مطابق قہری طور پر پہلے انسان کو یا دنیا میں آنے والے ابتدائی انسانوں کو ناقص ترین انسان ہونا چاہیئے اور جوں جوں یہ قافلہ انسانیت آگے بڑھا ہوگا انسان کامل تر ہوتا گیا، خواہ ہم اولین انسان کو قدما کے تصور کے مطابق براہ راست خاک سے پیدا شدہ مانیں یا عہد حاضر کے بعض ( سائنس داں ) حضرات کے مفروضہ کے مطابق جو مفروضہ ہونے کی حیثیت سے قابل توجہ ہے کہ انسان اپنے آپ سے پست تر اور ناقص تر وجود [34] کی تغییر یافتہ اور کامل شدہ مخلوق ہے۔ جس کی اصل و بنیاد مٹی تک پہنچتی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ پہلا انسان براہ راست خاک سے خلق ہوگیا ہو۔

پہلا انسان قرآن کی نظرمیں
لیکن اسلامی و قرآنی بلکہ تمام مذاہب کے اعتقادات کے مطابق پہلا انسان وہ وجود ہے جو اپنے بعد کے بہت سے انسانوں حتی کہ آج کے انسانوں سے بھی زیادہ کامل ہے۔ یعنی پہلی ابر جب اس انسان نے عرصۂ عالم میں قدم رکھا، اسی وقت سے وہ خلیفہ اللہ یا دوسرے الفاظ میں پیغمبر کے درجہ پر فائز نظر آیا۔ دین کی شکل میں آیا، جبکہ ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ انسان دنیا میں آتے رہتے اورارتقائی منازل طے کرتے رہتے اور جب عالی مراحل و مراتب سے ہمکنار ہوتے تو ان میں سے کوئی ایک نبوت و پیغمبری کے منصب پر فائز ہوجاتا، نہ یہ کہ پہلا ہی انسان پیغمبر ہو۔
قرآن کریم پہلے انسان کے لئے بہت عظیم اور بلنددرجہ کا قائل ہے:
"واذ قال ربک للملائکۃ انی جاعل فی الارض خلیفۃ قالوا اتجعل فیھا من یفسد فیھا ویسفک الدماء ونحن نسبح بحدک و نقدس لک قال انی اعلم مالا تعلمون وعلم اٰدم الاسماء کلھا ثم عرضھم علیٰ الملائکۃ فقال انبئونی باسماء ھٰولاء"[35]
جب تمہارے پروردگار نے ملائکہ سے فرمایا کہ میں زمین پر خلیفہ بنانے والا ہوں تو انہوں نے کہا ( خدا یا) کیا تو انہیں روئے زمین پر اپنا خلیفہ بنائے گا جو زمین پر فساد و خونریزی برپا کریں اور ہم تو تیری تسبیح و تقدیس کرتے ہیں ( خداوند عالم نے ) فرمایا، بلا شبہ ( اس انسان کے اسرار کے بارے میں ) جو میں جانتا ہوں تم نہیں جانتے اور اللہ نے آدم کو تمام اسماء تعلیم دیئے پھر ان کے حقائق ملائکہ کے سامنے بھی پیش کئے اور فرمایا ہمیں ان کے نام بتاؤ"۔
مختصر یہ کہ جب پہلا انسان عالم وجود میں آیا تو اس ملائکہ کو بھی حیرت میں ڈال دیا کہ آخر اس میں کیا راز پنہاں ہے؟ پہلے انسان کے بارے میں " نفخت فیہ من روحی" ( اپنی روح اس میں پھونکی) کی تعبیر استعمال کی گئی ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس پیکر کی ساخت اوراس کے ڈھانچہ میں مادی عناصر کے علاوہ ایک علوی عنصر بھی کارفرماہے جو ( اپنی روح ) کی تعبیر کے ذریعہ بیان کیا گیا ہے۔ یعنی اللہ کی جانب سے ایک خصوصی شئے اس وجود کے پیکر میں داخل ہوئی ہے۔ اس کے علاوہ اس لئے بھی کہ اس کو خلیفہ اللہ سے تعبیر کیا گیا ہے۔" انی جاعل فی الارض خلفیفۃ" میں زمین پر اپنا خلیفہ بنارہاہوں۔
بنابر ایں قرآن، انسان کو اس عظمت کے ساتھ پیش کرتا ہے۔ کہ پہلا انسان جب عالم وجود میں قدم رکھتا ہے تو حجت خدا و پیغمبر اور ایک ایسے وجود کے عنوان سے قدم رکھتا ہے جو عالم غیب سے رابطہ رکھتا ہو۔ ہمارے ائمہ کے کلام کی اساس و بنیاد انسان کی اسی اصل و حقیقت پر ہے یعنی پہلا انسان جو اس زمین پر آیا اسی صفت کا تھا اور آخری انسان بھی جو اس زمین پر ہوگا اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہوگا اور عالم انسانیت کبھی بھی ایسے وجود سے خالی نہیں جس میں "انی جاعل فی الارض خلیفۃ " کی روح پائی جاتی ہے۔ ( بنیادی طور سے اس مسئلہ کا محور یہی ہے ) دیگر تمام انسان، ایسے انسانی وجود کی فرع کی حیثیت رکھتے ہیں، اور اگر یہ انسان نہ ہو تو بقیہ تمام انسان کسی بھی صورت سے باقی نہیں رہیں گے۔ ایسے انسان کو حجت خدا سے تعبیر کرتے ہیں:۔
اللّٰھم بلی لا تخلوا لارض من قائم للہ بحجّۃ" ہاں ( مگر ) زمین ایسی فرد سے خالی نہیں رہتی جو اللہ کی حجت ہے یہ جملہ نہج البلاغہ [36] میں ہے اور بہت سی کتابوں میں نقل ہوا ہے۔ میں نے یہ بات مرھوم آیۃ اللہ بروجردی سے سنی ہے، لیکن یہ یاد نہیں کہ میں نے خود اسے جگہ بھی کہیں دیکھا ہے یا نہیں، یعنی اس کی جستجو نہیں کی۔ آپ فرماتے تھے کہ یہ جملہ حضرت کے ان جملوں سے ہے جنہیں آپ نے بصرہ میں بیان فرمایا ہے او شیعہ و سنی دونوں نے اسے تواتر کے ساتھ نقل کیا ہے۔ یہ جملہ مشہور حدیث کمیل کا ایک حصہ ہے۔کمیل کا بیان ہے کہ ایک روز حضرت علی(ع) نے میرا ہاتھ تھاما اور مجھے اپنے ہمراہ لے کر شہر کے باہر تشریف لائے۔ یہا ں تک کہ ہم لوگ" جبّان" نامی ایک جگہ پر پہونچے۔ جیسے ہی ہم لوگ شہر سے خارج ہوکر سناٹے اور تنہائی میں آئے: فتنفس الصمعداء حضرت نے گہری سانس لی، ایک آہ کھینچی اور فرمایا:۔
" یاکمیل! ان ھذہ القلوب او عیۃ فخیرھا او عاھا فاحفظ عنّی ما اقول لک"
" اے کمیل! اولاد آدم کے دک ظرف کے مانند ہیں اور بہترین ظرف وہ ہے جو کسی چیز کو اپنے اندر محفوظ رکھے ( یعنی اس میں سوراخ نہ ہو ) لہٰذا میں تم سے جو کچھ کہتا ہوں اسے محفوظ کر لو"۔
پہلے انسانوں کو تین گروہوں میں تقسیم فرمایا:۔
" الناس ثلاثۃ: فعالم ربانی و متعلم فی سبیل نجاۃ و ھمج رعاع"۔
" انسان تین قسم کے ہیں:ایک گروہ علماء ربانی کا ہے ( البتہ حضرت علی (ع) کی اصطلاح میں عالم ربّانی سے مراد ہر وہ عالم ربّانی نہیں ہے جو ہم ہر ایک کو تکلّفا کہہ دیا کرتے ہیں، بلکہ اس سے مراد ایسا عالم ہے جو واقعاً صد فی صد الہٰی ہو اور خالص خدا کے لئے عمل کرتا ہو اور شاید یہ تعبیر سوائے انبیاء و ائمہ کے کسی اور پر صادق نہیں آتی ) " ومتعلم علی سبیل نجاۃ " ( چونکہ اس عالم کو اس متعلم کے مقانل میں ذکر کیا ہے لہٰذا اُس سے مقصود وہ عالم ہے جو کسی بشر سے علم حاصل نہیں کرتا ) یہ دوسرا گروہ ان سے علم حاصل کرنے والوں اور شاگردوں کا ہے۔ ان لوگوں کو ہے جو ان علماء سے استفادہ کرتے ہیں۔ تیسرے گروہ کے لوگ " ھمیج رعاع" ہیں ( اس کی تشریح یہ ہے ) کہ:" لم یستضیئوا بنور العلم ولم یلجأوا الیٰ رکن وثیق" جنہوں نے علم کے نور سے نہ کوئی روشنی حاصل کی ہے اور نہ کسی محکم ستون کا سہارا حاصل کیا ہے۔"
اس کے بعد آپ نے اہل زمانہ کا گلہ کرنا شروع کیا۔ فرمایا میں بہت سے علوم اپنے سینہ میں رکھتا ہوں۔ لیکن مجھے کوئی ایسا شخص نہیں ملتا جس میں ( انہیں حاصل کرنے کی ) صلاحیت موجود ہو۔ آپ نے لوگوں کی گروہ بندی کرتے ہوئے فرمایا، ایسے لوگ بھی ہیں جو زیرک اور عقلمند ہیں لیکن ایسے زیرک ہیں کہ جو کچھ حاصل کرتے ہیں اس سے اپنے لئے فائدہ حاصل کرنا چاہتے ہیں یعنی دین کو اپنی دنیا کے لئے استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ لہٰذا میں ان سے پر ہیز کرنے پر مجبور ہوں۔ کچھ دوسرے افراد ہیں جو اچھے اور نیک تو ہیں لیکن احمق ہیں۔ وہ کچھ حاصل ہی نہیں کرتے یا اگر حاسل بھی کرتے ہیں تو ایک دم اُلٹا اور غلط مطلب سمجھ بیٹھتے ہیں۔ یہاں تک تو امام کی گفتگو مایوسانہ رنگ لئے ہوئے ہے ( کیونکہ اس سے اندازہ ہوتا ہے ) کہ کوئی اہل موجود نہیں ہے۔ لیکن اس کے بعد فرماتے ہیں :" اللّٰھم بلی " نہیں ایسا بھی نہیں ہے کہ کوئی شخص موجود نہ ہو۔ میں تو یہ جو کچھ کہہ رہا ہوں لوگوں کی اکثریت کو کہہ رہو ہوں ( یہاں آقائے بروجردی فرماتے تھے کہ حضرت نے یہ اشارہ بصرہ میں ایک خطبہ کے ذیل میں فرمایا تھا، ورنہ یہ کمیل کے ساتھ ہونے والی گفتگو میں بھی موجود ہے )۔
اللّٰھم بلی ال تخلو الارض من قائم للّٰہ بححّۃ امّا ظاہراً مشھوراً واماخائفاً مغموراً لئلا تبطل حجج اللہ و بیناتہ وکم ذا واین؟ اولئک واللہ۔ الا قلون عدداً و الاعظمون عنداللہ قدراً، یحفظ اللہ بھم حججہ و بیناتہ حتیٰ یودعونھا نظرائھم ویزرعونھا فی قلوب اشباھھم ھجم بھم العلم علی حقیقتہ البصیرۃ وبا سروا روح الیقین واستلا نوا مااستمورۃ المترفون وانسوا بما استوحش منہ الجاھلون و صحبوا الدنیا بابدان ارواحھا معلقۃ بالمحل الاعلیٰ۔
امام علیہ السلام نے فرمایا:ہاں، زمین ہر گز حجّت خدا سے خالی نہیں ہے۔ اب چاہے یہ حجت ظاہر ہو اور لوگوں کے درمیان ہو یا مستور اور پوشیدہ یعنی موجود تو ہو، لیکن لوگ اسے دیکھ نہ پائیں، وہ نگاہ سے پوشیدہ ہو۔ ان ہی حجتوں کے ذریعہ خداوند عالم اپنی دلیلیں اور نشانیاں لوگوں کے درمیان محفوظ رکھتا ہے۔ اور یہ لوگ بھی جو کچھ جانتے ہیں اس کے بیج اپنے ہی جیسے افراد کے دلوں میں بو دیتے ہیں اور گزر جاتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ یہ امانتیں ان کے حوالہ نہ کریں ارو چلے جائیں یعنی ایسا نہیں ہے کہ میرے پاس جو کچھ ہے اسے بیان کئے بغیر چلا جاؤں گا۔ اس کے بعد حضرت ان افراد سے متعلق جو ایک ملکوتی مبدأ و مرکز سے استفادہ کرتے ہیں۔ فرماتے ہیں: ھجم بھم العلم علی حقیقتہ البصیرۃ خود علم ان پر ہجوم کرتا ہے اور ٹوٹ کر برستا ہے۔ وہ علم کی طرف نہیں بڑھتے۔ ( مطلب یہ ہے کہ ان کا علم تفویضی ہے ) اور وہ علم جو ان پر ہجوم کرتا ہے، انہیں حقیقی معنوں میں بصیرت عطا کرتا ہے یعنی اس علم میں کوئی اشتباہ نقص یا خطا نہیں پائی جاتی۔ " وباشروا روح الیقین" وہ روح یقین کو متصل رکھتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ وہ عالم دیگر سے بھی ایک طرح کا ارتباط و اتصال رکھتے ہیں۔ " واستلانوا ما استعورۃ المترفون " وہ چیزیں جنھیں مترف ( یعنی اہل عیش و طرب ) اپنے لئے بہت دشوار سمجھتے ہیں ان کے لئے آسان ہیں۔ مثلاً عیش و عشرت کے عادی افراد کے گھنٹہ بھر اپنے خدا سے لو لگانا اور اس سے راز و نیاز کی باتیں کرنا گویا سب سے زیادہ دشوار کام ہے۔ لیکن ان کے لئے یہ کام آسان ہی نہیں بلکہ ان کا پسندیدہ عمل ہے۔" وانسوا بما استوحش منہ الجاھلون" جن چیزوں سے نادان اور جاہل افراد وحشت کرتے ہیں یہ ان سے مانوس ہیں۔
" وصحبوا الدنیا بابدان ارواحھا معلقۃ بالمحل الاعلیٰ"
اپنے جسموں کے ساتھ لوگوں کے ہمراہ رہتے ہیں جبکہ اسی وقت ان کی روحیں مقام اعلیٰ سے تعلق و اتصال رکھتی ہیں۔ یعنی ان کا جسم لوگوں کے ساتھ ہے لیکن ان کی روح یہاں نہیں ہے، جولوگ ان کے ہمراہ ہیں انہیں اپنے ہی جیسا انسان سمجھتے ہیں اور ان میں اور اپنے آپ میں کوئی فرق نہیں سمجھتے، لیکن وہ یہ نہیں جانتے کہ اس ( انسان کامل ) کا باطن کسی اور عالم سے وابستہ ہے۔
بہر حال امامت کا اصل فلسفہ یہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کتاب" کافی" میں" باب الحجۃ" کے عنوان سے ایک مستقل باب موجود ہے۔ اور اس میں ملتا ہے کہ اگر دنیا میں صرف دو انسان باقی رہیں تو ان میں کا ایک اسی طرح اک انسان ہوگا جس طرح دنیا کا پہلا انسان اسی منصب پر فائز تھا ہم اس فلسفہ کی روح کو لوگوں کے ذہنوں سے مزید قریب کرنے کے لئے اور اس حقیقت سے زیادہ آشنا کرنے کے لئے "اصول کافی" سے" کتاب الحجۃ" کی بعض روایتیں اور حدیثیں آپ کی خدمت میں پیش کرتے ہیں۔ اس مسئلہ سے متعلق تمام دوسرے مسائل مثلاً معاشرہ میں امام کا وجود ضروری ہے تاکہ وہ لوگوں پر عذاب و انصاف کے ساتھ حکومت کرے، یا دینی امور میں لوگوں کے درمیان پیدا ہونے والے اختلافات کو حل کرسکے۔ یہ سب باتیں اس اصل مسئلہ میں طفیل کی حیثیت رکھتی ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ امام کو لوگوں پر حکومت کرنے کے لئے امام قرار دیا جائے اور بس، بلکہ یہ مسئلہ ان تمام باتوں سے کہیں بالاتر ہے۔ یہ باتیں گویا امام کے" فوائد جاریہ" یعنی اس کے وجود کے نتیجہ میں مرتب ہونے والے فوائد کی حیثیت رکھتی ہیں۔ ہم ہر حدیث سے کچھ جملے منتخب کرکے آپ کی خدمت میں عرض کرتے ہیں تاکہ فلسفۂ امامت کی حقیقت پورے طور سے واضح ہوجائے۔

امام جعفر صادق (ع) سے ایک روایت
یہ روایت انبیاء و مرسلین سے متعلق ہے۔ ایک زندیق ( مادہ پرست ) نے امام صادق(ع) سے سوال کیا کہ:" من این اشبتّ الانبیاء والرسل؟" آپ انبیاء و رسل کو کس دلیل سے ثابت کرتے ہیں؟ امام نے جواب میں مسئلہ توحید کو بنیاد قرار دیتے ہوئے فرمایا:
" انا اثبتنا ان لنا خالقاً صانعاً متعالباً عنّا وعن جمیع ما خلق وکان ذلک الصابع حکیماً متعالیاً لم یجز ان یشاھدہ خلقہ ولا یلا مسوہ فیباشروہ و یحاجھم ویحاجوہ ثبت انّ لہ سفراء فی خلقہ یعبرون عنہ الی خلقہ وعبادہ ویدلونھم علی مصالحھم عمنا فعھم وما بہبقائھم وفی ترکہ فنائھم فثبت الآمرون والناھون عن الحکم العلیم فی خلقہ"
مختصر یہ ہےکہ انبیاء و رسل کے ثابت کرنے کی بنیاد، اپنی تمام الٰہی شان و صفات کے ساتھ خود اللہ کے اثبات پر موقوف ہے جب ہم نے یہ جان لیا کہ ہمارا کوئی خالق و صانع ہے جو حکیم ہے اور ہم سے اعلیٰ و ارفع ہے یعنی ہم اپنے حواس و ادراک کے ذریعہ اس سے براہ راست ارتباط پیدا نہیں کرسکتے۔ نہ اس کا مشاہدہ کرسکتے ہیں اور نہ اسے چھو سکتے ہیں اور نہ ہہ اس سے دو بدو سوال و جواب کرسکتے ہیں جبکہ ہم اس کے محتاج ہیں کہ وہ ہماری رانمائی کرے۔ کیونکہ فقط وہی حقیقی حکیم و دانا ہے اور ہمارے واقعی مصالح و مفادات سے آگاہ ہے۔ لہٰذا ایسے وجود کا ہونا ضروری ہے جو بیک وقت دو پہلؤوں کا حامل ہو: ایک طرف وہ خدا سے ارتباط رکھتا ہو یعنی اس پر وحی نازل ہوتی ہو اور دوسری طرف ہم اس سے رابطہ قائم کسرکتے ہوں۔ اور ایسے افراد کا ہونا لازم و واجب ہے۔
اس کے بعد امام ان افراد کے بارہ میں فرماتے ہیں:" حکماء مؤدبین بالحکمۃ" خود ان لوگوں کو حکیم دانا ہونا چاہیئے۔ وہ حکمت کی بنیاد پر مؤدب و مہذب کئے گئے ہوں۔" مبعوثین بھا" اور حکمت ہی پر مبعوث کئے گئے ہوں یعنی ان کی دعوت اور ان کا پیغام حکمت پر مبنی ہو۔ " غیر مشارکین للناس علیٰ مشارکتھم لھم فی الخلق۔" اگر چہ وہ خلقت کے اعتبار سے انسانوں میں شریک ہوں لیکن بعض جہات میں لوگوں سے الگ اور جدا ہوں۔ ایک انفرادی پہلو اور امتیازی روح ان میں پائی جاتی ہو۔" مؤیدین من عندالحکم العلیم بالحکمۃ" خدا ئے حکیم و علیم کی جانب سے حکمت کی بنیاد پر ان کی تائید کی گئی ہو۔" ثم ثبت ذٰلک فی کل دھر ومکان" ایسے واسطوں اور ذریعوں کا وجود ہر زمانہ اور عہد میں لازمی و ضروری ہے۔ " لکیلا تخلوالارض من حجۃ یکون معہ علم یدل علی صدق مقالتہ و جواز عدالتہ" تاکہ زمین کسی وقت بھی ایسی حجت سے خالی نہ رہے جس کے پاس اس کی صداقت گفتار اور اس کی عدالت و رفتار کے ثبوت میں کوئی علم ( دلیل معجزہ ) موجود ہو۔

زید بن علی اور مسئلہ امامت
زید ابن علی ابن الحسین امام محمد باقر(ع ) کے بھائی ہیں اور صالح و محترم شخص ہیں۔ ہمارے ائمہ نے آپ کی اور آپ کے مجاہدانہ اقدام کی تعریف کی ہے۔ اس سلسلہ میں اختلاف ہےکہ جناب زید واقعاً خود اپنے لئے خلافت کے مدعی تھے یا صرف امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے فرائض انجام دے رہے تھے اور خلافت کے دعویدار نہیں تھے بلکہ آپ امام محمد باقر (ع) کی خلافت کے خواہاں تھے، یہ بہر حال مسلم ہے کہ ہمارے ائمہ نے آپ کی تعریف و توصیف کی ہے اور آپ کو شہید کہا ہے۔ اور یہی ان کی عظمت کے لئے کافی ہےکہ:" مضیٰ واللہ شھیداً " وہ شہید ہوکر دنیا سے اٹھے لیکن بحث اس بات پر ہے کہ آپ خود اس مسئلہ (امامت) میں شبہ کا شکار تھے یا نہیں؟ جو روایات اس وقت میں آپ کی خدمت میں پیش کررہا ہوں اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ آپ خود اس سلسلہ میں شبہ مبتلا تھے۔ اب یہ بات کہ ایسا شخص اس مسئلہ میں شبہ کا شکار کیسے ہوسکتا ہے۔ یہ ایک دوسری بحث ہے۔
امام محمد باقر کے ایک صحابی ابو حنیفہ احول بیان کرتے ہیں: جس وقت زید بن علی مخفی تھے انہوں نے میرے پاس پیغام بھیجا اور مجھ سے فرمایا کہ اگر ہم میں سے کوئی جاہد کے لئے قیام کرے تو کیا تمہاری ہم مدد کے لئے آمادہ ہو؟ میں نے جواب دیا اگر آپ کے پدر بزرگوار اور بھائی ( حضرت امام زین العابدین(ع) اور امام محمد باقر (ع) ) اجازت دیں تو میں حاضر ہوں ورنہ نہیں۔ زید نے فرمایا، میں خود قیام کا ارادہ رکھتا ہوں۔ بھائی سے کوئی مطلب نہیں ہے۔ کیا اب بھی تم ہماری حمایت پر آمادہ ہو؟ میں نے عرض کیا نہیں۔ آپ نے پوچھا کیوں؟ کای تم ہمارے سلسلہ میں اپنی جان سے دریغ کرتے ہو؟ میں نے عرض کیا: انما ھی نفس واحدۃ فان کان اللہ فی الارض حجۃ فامتخلف عنک ناج والخارج معک ھالک وان لا تکن للہ حجۃ فی الارض فالمتخلف عنک والخارج معک سواء" میں ایک ہی جان رکھتا ہوں اور آپ بھی حجت خدا ہونے کا دعویٰ نہیں کرتے۔ اگر زمین پر آپ کے علاوہ کوئی حجت خدا ہے تو جو شخص آپ کے ساتھ قیام کرے اس نے خود کو ضائع کیا بلکہ ہلاک ہوا اور جس نے آپ سے انکار کیا اس نے نجات پائی لیکن اگر زمین پر کوئی حجت خدا نہ ہو تو میں چاہے آپ کے ساتھ قیام کرون یا نہ کروں دونوں باتیں برابر ہیں۔
ابو جعفر احول جانتے تھے کہ زید کا مقصد کیا ہے۔ لہٰذا وہ اس حدیث کے ذریعہ یہ واضح کرنا چاہتے تھے کہ اس وقت روئے زمین پر ایک " حجت " موجود ہے۔ اور آپ کے بھائی امام محمد باقر (ع) ہیں۔ آپ نہیں ہیں۔ یہاں روایت میں حضرت زید کی گفتگو کا خلاصہ یہ کہ، تمہیں یہ بات کیسے معلوم ہوئی جبکہ امام کا فرزند ہوتے ہوئے اس نکتہ سے واقف نہیں ہوں اور میرے پدربزرگوار نے بھی مجھے نہیں بتایا؟ کیا میرے بابا مجھے چاہتے نہیں تھے؟ خدا کی قسم میرے بابا مجھے اس قدر چاہتے ھتے کہ مجھے بچپن میں دستر خوان پر اپنی آغوش میں بٹھاتے تھے اور اگر نوالہ گرم ہوتا تھا تو پہلے اسے ٹھنڈا کرتے تھے اس کے بعد کھلاتے تھے تا کہ میرا دہن نہ جلنے پائے وہ باپ جو مجھ سے اس قدر محبت کرتا تھا کہ اسے ایک لقمہ کے ذریعہ میرا دہن جلنا گوارہ نہ تھا۔ کیا اس نے اتنی اہم بات جسے تم سمجھے ہو، مجھے بتانے سے مضائقہ کیا تاکہ میں جہنم کی آگ سے محفوظ رہوں؟ ( ابوحنیفہ احول نے ) جواب دیا۔ انہوں نے آپ کو جہنم کی آگ سے محفوظ رکھنے کے لئے ہی نہیں بتایاؕ چونکہ وہ آپ کو بہت چاہتے تھے اس لئے آپ کو نہیں بتایا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ اگر میں کہہ دوں گا تو آپ انکار کریں گے اور جہنمی ہوجائیں گے چونکہ وہ آپ کی طبیعت کی تیزی سے واقف تھے لہٰذا آپ سے بتانا نہیں چاہا۔ اور یہی بہتر سمجھا کہ آپ لاعلمی کی حالت پر باقی رہیں تاکہ کم از کم آپ میں عناد نہ پیدا ہونے پائے لیکن یہ بات مجھ سے فرمادی تاکہ اسے قبول کرکے نجات حاصل کرلوں یا انکار کر کے جہنمی بن جاؤں اور میں نے بھی اسے قبول کرلیا۔
اس کے بعد میں نے زید سے دریافت کیا:"انتم افضل ام الانبیاء” آپ افضل ہیں یا انبیاء؟ فرمایا انبیاء۔" قلت یقول یعقوب لیوسف یا بنی لا تقصص رؤیاک علی اخوتک فیکیدو لک کیداً" میں نے عرض کیا یعقوب جو پیغمبر ہیں اپنے بیٹے یوسف سے جو خود بھی پیغمبر اور ان کے جانشین ہیں، کہتے ہیں کہ اپنا خواب اپنے بھائیوں سے بیان نہ کرنا۔ آیا یعقوب کا یہ حکم یوسف کے بھائیوں سے دشمنی کی بناپر تھا یا ان کی اور یوسف کی دوستی کی بنیاد پر تھا چونکہ وہ یوسف کے بھائیوں کی طبیعت سے واقف تھے کہ اگر وہ سمجھ گئے کہ یوسف اس مقام و منزلت پر فائز ہونے والے ہیں تو ابھی سے ان کی دشمنی پر کمر بستہ ہوجائیں گے"۔آپ کے ساتھ آپ کء پدر بزرگوار اور بھائی کا قصہ بالکل یعقوب و یوسف اوران کے بھائیوں جیسا ہے۔
گفتگو کے اس مرحلہ پر آکر زید بالکل خاموش ہوگئے اور کچھ جواب نہ دے سکے۔ تھوڑی دیر کے بعد انہوں نے فرمایا:" اما واللہ لان قلت ذٰلک" اب جبکہ تم مجھ سے یہ بات کہہ رہے ہو تو میں بھی تمہیں یہ بتادوں کہ:لقد حدّ ثنی صاحبک بالمدینہ"تماہرے آقا ( یہاں مراد امام ہیں تمہارے امام یعنی میرے بھائی امام محمد باقر (ع) ) نے مدینہ میں مجھ سے فرمایا:" انی اقتل واصلب بالکناسۃ" کہ تمہیں قتل کیا جائےگا اور کانسۂ کوفہ پر سولی دی جائے گی۔" وان عندہ لصحیفۃ فیھا قتلی وصلبی" اور ان کے پاس ایک صحیفہ (کتاب) ہے جس میں میرے قتل کئے جانے اور دار پر چڑھائے جانے کا ذکر ہے۔
یہاں زید، ابوحنیفہ کے سامنے ایک دوسرا ورق الٹتے ہیں کیونکہ یک بیک بات ایک دم بدل جاتی ہے اور وہ دوسرے نظر یہ کی تائید کرتے نظر آتے ہیں۔ معلوم ہوا کہ اس سے قبل جو باتیں آہ ابوحنیفہ سے فرمارہے تھے گویا اس سے اپنے آپ کو پنہاں رکھنا چاہتے تھے۔ لیکن جب یہ دیکھا کہ ابو حنیفہ مسئلہ امامت کے سلسلہ میں اس قدر راسخ الاعتقاد ہیں تو خود سے فرمایا کہ کہ ان کو بتادوں کہ میں بھی اس نکتہ سے غافل نہیں ہوں۔ وہ کہیں شبہ کا شکار نہ ہوں، میں بھی اس مسئلہ کو نہ صرف جانتا ہوں بلکہ اس کا اعتراف و اعتقاد بھی رکھتا ہوں۔ گفتگو کے آخری جملہ میں اسی مطلب کا اظہار ہے کہ میں پورے علم و ارادہ کے ساتھ نیز اپنے بھائی کے حکم سے جہاد کے لئے اٹھ رہاہوں۔ یہاں تک کہ ( ابو جعفر ) کہتے ہیں کہ اس گفتگو کے بعد ایک سال میں مکہ مکرمہ گیا اور وہاں میں نے یہ پورا واقعہ حضرت امام صادق (ع) سے بیان کیا۔ حضرت نے بھی میرے نظریات کی تائید کی۔

حضرت امام صادق (ع) سے دو اور حدیثیں
امام ایک دوسری حدیث میں فرماتے ہیں: " ان الارض لا تخلوا لا و فیھا امام " زمین کبھی بھی امام سے خالی نہیں رہتی۔ نیز حضرت سے ایک اور حدیث نقل ہے: " لو بقیٰ اثنان لکان احدھما الحجۃ علیٰ صاحبہ" اگر روئے زمین پر دو شخص بھی باقی رہیں تو ان میں کا ایک اپنے ساتھی پر خدا کی حجّت ہوگا۔

حضرت امام رضا(ع) سے ایک روایت
اس سلسلہ میں ہمارے یہاں بہت سی حدیثیں موجود ہیں۔
ایک مفصل روایت جو امام رضا (ع) سے مروی ہے ملاحظہ فرمائیں۔ عبد العزیز بن مسلم کا بیان ہے کہ: " کنا مع الرضا علیہ السلام بمرو فاجمعنا فی الجامع یوم الجمعۃ فی بدء مقدمنا" ہم مرد میں امام رضا کے ہمراہ تھے ( یہ اس سفر کی بات ہے جب امام ولی عہدی کے سلسلہ میں خراسان لے جائے جارہے تھے ) جمعہ کے دن ہم مرد کی جامع مسجد میں بیٹھتے تھے اور امام جماعت موجود نہیں تھا لوگ جمع ہوکر مسئلہ امامت گفتگو کررہے تھے۔ اس کے بعد وہاں سے اٹھ کر امام کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان سے ساری باتیں بیان کردیں۔ امام نے تمسخر آمیز تبسم فرمایا کہ آخر یہ لوگ کیا سوچتے ہیں:! یہ لوگ در اصل موضوع (امامت) کو ہی نہیں سمجھتے اس کے بعد امام نے فرمایا" جہل القوم وخدعوا عن ارائھم" یہ لوگ جاہل ہیں اور انہوں نے اپنے افکار و عقاید میں دھوکہ کھایا ہے خدا وند عالم نے اپنے پیغمبر کو اس وقت تک نہیں اٹھایا جب تک دین کامل نہیں ہوا۔ اس نے قرآن نازل فرمایا جس میں حلال، حرام، حدود و احکام اور وہ تمام باتیں جن کی دین کے سلسلہ میں انسان کو ضرورت ہے سب بیانکردی اور اعلان کردیا " مافرطنا فی الکتاب من شیٔ" ہم نے اس کتاب (قرآن مجید) میں کسی بھی چیز کو نہیں چھوڑا ہے یعنی سب کچھ بیان کردیا ہے ( اس سے مراد حلال و حرام سے متعلق قرآن کے احاکم اور انسانوں کے تمام فرایض ہیں ) اپنی حیات طیبہ کے آخری ایام میں پیغمبر اسلام نے حجۃُ الوداع کے موقع پر اس آیت کی تلاوت بھی فرمائی" الیوم اکملت لکمدینکم واتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دینا"
یعنی آج میں نے تمہارے دین کو تمہارے لئے کامنل کردیا تم پر اپنی نعمتیں تمام کردی اور تمہارے لئے اسلام سے راضی ہوگیا اس کے بعد حضرت امام رضا (ع) نے فرمایا" وامر الامامت من تمام الدین" اور مسئلہ امامت دین کوتمام اور کامل کرنے والے مسائل میں سے ایک ہے" ولم یمظ حتیٰ بین لامتہ معالم دینھم" پیغمبر اسلام اس وقت تک تشریف نہیں لے گئے جب تک انہوں نے اپنی امت کے درمیان ہدایت کی نشانیوں کو بیان نہ کردیا اور ان کے لئے دین کی راہ روشن نہ کردی" واقام لھم علیاً وعلمن" اور ان ک لئے علیکو رہنما مقرر فرمادیا۔
مختصر یہ قرآن ہوری صراحت کے ساتھ فرماتا ہے کہ ہم نے کسی بھی امر کو فراموش نہیں کیا" اب یہ کہ کیا اس نے تمام جزئیات بھی بیان کردیئے؟ یا نہیں: بلکہ فقط کلیات اور اصول بیان کئے ہیں اوران چیزون کا ذکر کیا ہے جن کی لوگوں کو ضرورت تھی۔ ان ہی کلیات و اصول میں سے ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ قرآن نے( پیغمبر اکرم (ص) کے بعد کے لئے) ایک ایسے انسان کا تعارف کروادیا جو قرآن کی تفسیر اس کے معانی کی وضاحت نیز اس کے کلیات کی تشریح سے واقف ہے۔ اس کا یہ علم اجتہاد کی بنیاد پر نہیں ہے۔ جس پہ کچھ باتیں صحیح ہو یا کچھ غلط( بلکہ وہ علم الٰہی کے ذریعہ ان چیزوں سے آگاہ ہے) اور حقیقتت اسلام اس کے پا سمحفوط ہے۔ پس قرآن یہ جو کہتا ہے کہ ہم نے تمام چیزیں بیان کردی اس کا مطلب یہ ہے کہ اب کوئی چیز باقی نہیں رہ گئی۔ ہم نے کلیات کے ساتھ ساتھ جزئیات بھی بیان کردیئے ہیں اور انہیں ایک "دانا" کے پاس محفوظ کردیا۔ اور ہمیشہ اسلام سے آگاہ ایک شخص لوگوں کے درمیان موجود رہتا ہے۔ ": من زعم عن اللہ عز وجل لم یکمل دینہ فقد رد کتاب اللہ" اگر کوئی شخص یہ کہے کہ خدا وند عالم نے اپنا دین کامل نہیں کیا تو اس نے قرآن کے خلاف بات کہی ہے اور جو بھی قرآن کو رد کرے کافر ہے" وحل یعرفون قدر الامامۃ ومحلھا من الامۃ فیجوز فیھا اختیارھم" جو لوگ کہتے ہیں کہ امامت انتخابی ہے کیا وہ جانتے بھی ہے کہ امام کے کیا معنی ہیں؟ ان لوگوں نے سمجھ لیا ہے کہ امام کا انتخاب کسی سپہ سالار لشکر کے انتخاب کے مانند ہے جب کہ امام وہ ہے کہ ( جس کی تعیین پر ) قرآن فرماتا ہے کہ میں نے دین کامل کردیا ساتھ ہی ہم یہ بھی جانتے ہیں اسلام کے جزئیات قرآن میں نہیں ہے۔ حقیقت اسلام اس (امام ) کے پاس ہے۔ کیا لوگ سمجھتے ہیں کہ ایسا شخص کون ہے کہ خود اسے منتخب کرلیں؟ یہ تو ایسا ہی ہوا جیسے کہاں جائے کہ پیغمبر کا انتکاب ہم خود کرتے ہیں!
" ان الامامۃ عجل قدراً وعظم شاناً واعلیٰ مکاناً وامنع جانباً وابعد غوراً من ان یبلغھا الناس بعقولھم او ینالوھا بعرائھم" امامت انسان کی فکری حدود سے اس س ےکہی بالاتر ہے کہ اسے انتخابی قرار دیا جائے اسی مسئلہ کو انتخابی کہا جانا چاہئے جسے لوگ واقعی طور ہرتشخیص دے سکیں، جن مسائل میں انسان خود تشخیص کی صلاحیت رکھتا ہے وہاں دین کبھی براہ راست مداخلت نہیں کرتا۔ اور بنیادی طور پر ایسے مسائل میں دین کی براہ راست مداخلت بالکل غلط ہے، کیونکہ ایسی صورت میں سوال اٹھے گا کہ پھر انسان کی فکر وعقل آخر کہاں کام آئے گی؟ جہاں تک انسانی فکر و عقل کا دائرہ ہے انسان خود انتخاب کریں لیکن جو بعد عقل و بشر کی حد سے خالی اور بالاتر ہے۔ اس میں انتخابی کی گنجائش ہی نہیں ہے۔ ( امامت قدر و منزلت کے اعتبار سے بہت بلند، شان کے اعتبار سے بہت عظیم، مرتبہ کے اعتبار سے بہت عالی ہے، اس کی دیواریں ناقابل عبور ہے اور عقل و فکر کی حد سے عقل سے باہر ہے۔
" انسان اپنی عقل کے ذریعے امام کو درک نہین کرسکتے اور نا اس تک اپنی آرا ک ےذریعہ رسائی حاصل کرسکتے ہیں اور نہ اپنے اختیار سے اس کا انتخاب کرسکتے ہیں" ان الامامۃ خص اللہ عز وجل بھا ابراہیم الخلیل بعد النبوۃ والخلۃ" اگر امامت کے حقیقی مانا سمجھنا چاہتے ہو یہ جان لو کہ (امامت ) ان تمام مسائل سے الگ ہے جن کا آج لوگ اظہار کرتے ہیں کہ پیغمبر کا ایک خلیفہ و جانشین منتخب کریں۔ لیکن یہ جانشین پیغمبر صرف لوگوں کے امور کی دیکھ بھال کرے۔ امامت تو اصل میں وہ منصب ہے کہ ابراہیم جیسا پیغمبر نبوت کے بعد اس تک رسائی حاصل کرتا ہے اور اس منصب پر فائز ہونے کے بعد مسرت کا اظہار کرتے ہوئے خدا کی بارگاہ میں عرض کرتا ہے" ومن ذریتی" خدا وندہ میری ذریت میں سے کچھ افراد کو بھی یہ منصب عطافرما۔ ابراہیم جانتے ہیں کہ یہ عظیم منصب ان کی تمام ذریت کو حاصل نہیں ہوسکتا۔ جواب دیا جاتا ہے" لا ینال عھدی الظالمین" یہ وہ منصب ہے جو ظالم کو نہیں مل سکتا۔ ہم عرض کرچکے ہیں کہ یہاں سوال اٹھتا ہے کہ اس سے مراد کیا ہے؟ کیا ظالم ہر حال میں ظالم ہے چاہے ماضی میں وہ ظالم رہا ہو یا پہلے نیک اور صالح رہا ہو کیونکہ کہ یہ محال ہے کہ ابراہیم کہیں، خدایا (یہ منصب) میری ذریت میں سے ظالموں کو عطا فرما۔ پس ہر حال ان کی نظر میں آپ کی نیک اور صالح اولاد ہی رہی ہے۔چنانچہ خدا وند عالم کی طرف سے جواب ملا کہ یہ منصب آپ کی ذریت میں سے ان کو عطا ہوگا جن کا ظلم سے سابقہ نہ رہا ہو۔
" فابطلت ھٰذہ الآیۃ امامۃ کل ظالم الی یوم القیامۃ و صارت فی الصفوۃ" یہ منصب ان منتخب افراد میں ہے یعنی ذریت حضرت ابراہیم میں اہل صفوۃ ( منتخب اور بہترین افراد کو عطا ہوا ہے۔ ( صفوۃ یعنی مکھن کے مانند ایک ایسی چیز جسے مٹھانکال کر اوپر سے نکال لیتے ہیں اور وہی" زبدہ" کہلاتا ہے)۔" ( اس کے بعد خداوند عالم نے امامت کو بزرگ و مکرّم بنایا اور وہ اس عنوان سے کہ اسے ) صفوۃ اور اہل طہارت یعنی ذریت ابراہیم میں صاحبان عصمت کا حصہ قرار دیا۔ اس کے بعد امام قرآن کی آیات سے استدلال فرماتے ہیں:
ووھبنا لہ اسحٰق ویعقوب نافلۃ وکلا جعلنا صالحین وجعلناھم ائمۃ یھدون بامرنا و اوحینا الیھم فعل الخیرات [37] اور ہم نے ابراہیم کو اسحٰق و یعقوب جیسے فرزند عطا کئے اور ہم نے ان سب کو نیکو کار و اصالح ( بنی) قرار دیا۔ اور ان کو لوگوں کا ہادی و پیشوا قرار دیا کہ ہمارے حکم سے لوگوں کی ہدایت کرتے تھے، اور ہم نے ان کی طرف نیک اعمال بجالانے کی وحی کی۔
قرآن مجید میں اس نکتہ پر کافی زور دیا گیا ہے کہ ذریت حضرت ابراہیم کو منصب امامت سے نوازا گیا ہے۔
اس کے بعد امام فرماتے ہیں: فمن این یختار ھٰؤلاء الجھال" آخر وہ مقام و منصب جو حضرت ابراہیم کو نبوت کے بعد عطا ہوا، یہ نادان اسے آخر کس طرح انتخاب کرنا چاہتے ہیں؟ کیا بنیادی طور پر یہ منصب انتخاب کے ذریعہ حاصل بھی کیا جاسکتا ہے؟! " ان الامامۃ ھی منزلۃ الانبیاء وارث الاوصیاء" امامت در اصل مقام انبیاء اور میراث اوصیاء ہے۔ یعنی یہ ایک وراثتی امر و منصب ہے لیکن قانونی میراث کے عنوان سے بلکہ اس اعتبار سے کہ اس کی استعداد و صلاحیت ایک نسل سے دوسری نسل میں منتقل ہوئی ہے۔ " ان الامامۃ خلافۃ اللہ" امامت خلافت الٰہی ہے جو سب سے پہلے آدم کو عطا ہوئی۔" وخلافۃ الرسول" اور خلافت پیغمبر ہے۔ اس کے بعد امام فرماتے ہیں:" ان الامامۃ زمام الدین" امامت زمام دین، نظام مسلمین، صلاح و فلاح دنیا، عزت مسلمین، اسلام کی اصل و اساس اور اسکا بنیادی تنا ہے۔"بالامام تمام الصلوٰۃ والزکوٰۃ والصیام والحج والجھاد تاآخر۔ یعنی امام ہی کے ذریعہ نماز، زکوٰۃ، روزہ حج، جہاد اور دیگر اسلامی احکام و اوامر کامل ہوتے ہیں۔

نتیجہ
مذکورہ بالا تمام باتوں سے ایک اساسی و بنیادی منطق ہمارے ہاتھ آتی ہے۔ ہاں اگر بالفرض کوئی اسے بھی قبول نہ کرے تو اور بات ہے۔ یہ منطق ان سطحی و معمولی مسائل سے بالکل الگ کہ اکثر متکلمین کی طرح ہم یہ کہیں کہ پیغمبر اسلام کے بعد ابوبکر خلیفہ ہوئے اور علی چوتھے خلیفہ ہوئے۔ آیا علی کو پہلا خلیفہ ہونا چاہیئے یا مثلا چوتھا؟ آیا ابوبکر میں امامت کے شرائط پائے جاتے تھے یا نہیں؟ اس کے بعد ہمن شرائط امامت کو مسلمانوں کی حاکمیت کے عنوان سے دیکھنا اور پرکھنا شروع کریں۔ البتہ یہ بھی ایک بنیادی و اساسی مطلب ہے۔ اور شرائط حاکمیت کے اعتبار سے بھی شیعوں نے اعتراضات کئے ہیں اور بجا اعتراضات کئے ہیں۔ لیکن اصولی طور پر مسئلہ امامت کو اس انادز سے بیان کرنا ہی صحیح نہیں ہے کہ ابوبکر میں امامت کے شرائط پائے جاتے تھے یا نہیں۔ اصل میں خود اہل سنت بھی ان کے لئے اس منصب کا اقرار نہیں کرتے۔
اس سلسلہ میں اہل سنت کے عقیدہ کا خلاصہ یہ ہے کہ آدم و ابراہیم سے لے کر حضرت رسول اکرم (ص) تک خدا وند عالم نے ان افراد سے متعلق انسان کے جتنے ماوراء الطبیعی پہلؤوں کا ذکر کیا ہے آنحضرت کے بعد تمام ہوگئے۔ پیغمبر اکرم کے بعد اب تمام انسان معمولی اور ایک جیسے ہیں۔ اب صرف علماء ہیں جو پڑھنے لکھنے کے بعد عالم ہوئے ہیں اور ان سے کبھی غلطی ہوتی ہے کبھی نہیں ہوتی۔ یا حکام ہیں جن میں سے بعض عادل ہیں اور بعض فاسق۔ اب یہ مسئلہ امامت ان ہی کے درمیان دائر ہوتا ہے۔
اب وہ باب جو ہمارے یہاں حجت الٰہیہ کے نام سے پایا جاتا ہے، یعنی وہ افراد جو عالم ماوراء الطبیعہ یا عالم بالا سے ارتباط رکھتے ہیں، ( ان کے یہاں نہیں پایا جاتا، ان کا عیدہ ہےکہ) پیغمبر اکرم کے بعد وہ بساط ہی لپیٹ دی گئی ہے۔
شیعہ جواب دیتے ہیں کہ ( پیغمبر اکرم کے بعد) رسالت کا مسئلہ ختم ہوگیا۔ اب کوئی دوسرا انسان کوئی نیا دین و آئین لے کر نہیں آئے گا۔ دین سے ایک سے زیادہ نہیں ہے اور وہ ہے اسلام، پیغمبر اکرم کے ساتھ رسالت و نبوت کا سلسلہ ختم ہوگیا۔ لیکن حجت اور انسان کامل کا مسئلہ اور اس کی ضرورت انسانوں کے درمیان ہرگز تمام نہیں ہوئی ہے، کیونکہ روئے زمین پر پہلا انسان اس طرح کا تھا اور آخری انسان بھی ان ہی صفات کا نمونہ ہونا چاہیئے۔ ایل سنت میں صرف صوفیا کا طبقہ ایسا ہے جو ایک دوسرے نام سے ہی، اس مطلب کو تسلیم کرتا ہ۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ صوفیائے اہل سنت اگرچہ صوفی ہیں لیکن جیسا کہ ان کے بعض بیانات سے ظاہر ہوتا ہے انہوں نے مسئلہ امامت کو اسی عنوان سے قبول کیا ہے۔ جیسے شیعہ مانتے ہیں۔
محی الدین عربی، اندلس کا رہنے والا ہے۔ اور اندلس وہ جگہ ہے جہاں کے رہنے والے نہ صرف سنی تھے بلکہ شیعوں سے عناد بھی رکھتے تھے اور ان میں ناصبیت کی بو پائی جاتی تھی اس ک ی وجہ یہ تھی کہ اندلس کو امویوں نے فتح کیا اور بعد میں برسہا برس وہاں ان کی حکومت رہی۔ اور چونکہ یہ لوگ بھی اہل بیت کے دشمن تھے لہٰذا علمائے اہل سنت میں زیادہ تر ناحینی علماء اندلس میں شیعہ ہوں بھی نہیں اور اگر ہوں گے بھی تو بہت کم اور نہ ہو نے کے برابر ہوں گے۔
بہر حال محی الدین اندلسی ہے، لیکن اپنے عرفانی ذوق کی بناید پر وہ اس بات کا معتقسد ہے کہ زمین کبھی کسی ولی یا حجت سے خالی نہی رہ سکتی۔ یہاں وہ شیعی نظریہ کو قبول کرتے ہوئے ائمہ علیہم السلام کے ناموں کا ذکر کرتا ہے، یہاں تک کہ حضرت حجت کا نام بھی لیتا ہے اور دعویٰ کرتا ہے کہ میں نے سن چھ سو کچھ ہجری میں حضرت محمد بن حسن عسکری سے فلاں مقام پر ملاقات کی ہ ۔ البتہ بعج باتیں اس نے ایسی کہی ہیں جو اس کی ایک دم ضد ہیں اور ہو بنیادی طور پر ایک متعصب سنی ہے لیکن اس کے باوجود چونکہ اس کا ذوق عرفانی تقاضہ کرتا ہے کہ صوفیوں کے مطابق زمین کبھی کسی " دلی" ( اور ہمارے ائمہ کے مطابق حجت ) سے خالی نہیں رہ سکتی،ا س مسئلہ کو نہ صرف تسلیم کرتا ہے بلکہ مشاہدہ و ملاقات کا دعویٰ کرتے ہوئے یہ بھی کہتا ہے کہ میں حضرت محمد بن عسکری کی خدمت میں پہنچ چکا ہوں، اور اس وقت جبکہ ان کی عمر تین سو کچھ برسوں سے زیادہ ہوچکی ہے اور وہ مخفی ہیں، میں ان کی زیارت سے شرفیاب هوا هوں۔
---------------------------------------------------------------
[1] سورہ ہود آیت نمبر۹۸
[2] سورہ حشر آیت نمبر ۷
[3] سورہ نساء آیت ۶۵پس نہیں اے رسول تمہارے پروردگار کی قسم یہ لوگ سچے مومن نہ ہوں گے جب تک اپنے اختلاف اور دشمنیوں میں تمہیں حاکم نہ بناءیں ۔ اور تم جو کچھ فیصلہ کردو اس سے دل تنگ نہ ہوں بلکہ دل و جان سے اسے تسلیم کر لیں ۔
[4] دلائل الصدوق ص ۶، ۱۳
[5] سورۂ مائدہ /آیت نمبر۵۵۔
[6] سورہ مائدہ آیت نمبر ۶۷
[7] صحیح مسلم جزء ہفتم صفحہ ۲۲
[8] بعض اہل منبر اور مجلسیں پڑھنے والے افراد نےاس حدیث کی عظمت و اہمیت کو کم کرڈالا ہے ، اور اسے یوں پیش کرنے لگے کہ مفہوم حدیث بدل کر رہ گیا ہے ۔ چونکہ یہ لوگ اکثر و بیشتر اس حدیث کو مصائب بیان کرنے کے لئے گریز کے طور پر پڑھنے لگے لہٰذا انسان یہ سوچتے لگا کہ اس حدیث سے پیغمبر کا مقصد صرف یہ تھا کہ میں تمہارے درمیان دو چیزیں چھو رے جا رہاہوں یعنی قرآن و عترت ۔ ان دونوں کا احترام تم پر لازم و واجب ہے ۔ دیکھو ان کی توہین واہانت نہ کران ۔ جبکہ حدیث کا اصل مقصد یہ ہے کہ ایک قرآن ہے جس سے تمسک اختیار کرو اور اسکے احکام پر عمل کرو اور دوسرے اہل سنت ہیں جن کی طرف رجوع کرو اور ان کی تعلیمات و ہدایات پر عمل کروکیونکہ آنحضرت اسی حدیث میں آگے فرماتے ہیں :" لن تضلوا ما ان تمسکتم بھما ابداً " جب تک ان دونوں سے متمسک رہوگے ہر گز گمراہ نہیں ہوگے ۔ معلوم ہوا یہاں دونوں کی طرف رجوع کرنے اور تمسک اختیار کرنے کی بات کہی جارہی ہے ۔ پیغمبر نے تمسک و رجوع کی منزل میں عترت کو قرآن کا ہم پلہ قرار دیا ہے کہ ان سے قرآ ن ہی کے مانند تمسک اختیار کیا جائے ۔ خود پیغمبر نے فرمایا ہے کہ قرآن ثقل اکبر ہے اور عترت ثقل اصغر ہے ۔
[9] مائدہ ۶۷
[10] سورہ احزاب ۶
[11] شیعہ زیادہ تر امامت کے دینی پہلو کو پیش نظر رکھتے ہیں ۔ میں پہلے عرض کرچکا ہوں کہ آج کل جہاں امامت کا مسئلہ سامنے آتا ہے اسے فوراً مسئلہ حکومت کے مساوی قرار دے دیتے ہیں جس میں مسئلہ کا دنیا وی پہلو نمایاں ہوتا ہے ، یہ صحیح نہیں ہے ، مسئلہ امامت کا بڑا حصہ دینی پہلو کا حامل ہے ۔ اصل میں امامت اور حکومت میں نوی اعتبار سے عموم خصوص من وجہ جیسا ارتباط پایا جاتا ہے ۔ امامت بذات خود ایک مستقل مسئلہ ہے اور حکومت کے جو امامت کے مختلف پہلوؤں میں سے ایک پہلو ہے ، ایک دوسرامسئلہ ہے غیبت امام کے زمانہ میں حکومت کے سلسلہ میں تو گفتگو کی جاتی ہے لیکن امامت کی بات سامنے نہیں آتی ۔ امامت کو حکومت کے مساوی قرار نہیں دینا چاہئے ۔ علماء کی تعبیر میں امامت سے مراد دین و دنیا دونوں کی رہبری ہے ۔ اور چونکہ امام دین کا رہبر ہوتا ہے لہٰذا قہری طور پر دنیا کا بھی حاکم ہے ۔ مثلاً خود پیغمبر جو دین کے رہبر تھے ہی ، ساتھ ہی تبعی طور پر دنیا حاکم بھی تھے ۔ اگر ہم فرض کر لیں کہ کسی زمانہ میں امام موجود نہ ہو یا پردۂ غیب میں ہو اورا س عنوان سے دین کی رہبری کا مسئلہ در پیش نہ ہو ۔ اس وقت دنیاوی حاکمیت کا مسئلہ سامنے آئے گا کہ اس پر کے حاکم ہونا چاہئے ۔ امام کی موجودگی میں تو یہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔
[12] سورہ شعراء ۲۱۴
[13] ذی قعدہ ، ذی الحجہ اور محرم چونکہ ماہ حرام تھے ۔ لہٰذا یہ آزادی کے مہینے ہوتے تھے یعنی ان مہینوں میں جنگیں رک جاتی تھیں ۔ دشمن ایک دوسرے سے انتقام نہیں لیتے تھے ۔ اور آپس میں آمد ورفت معمول پر آجاتی تھی ۔ لوگ عکاظ کے بازار میں جمع ہوتے تھے ۔ یہاں تک کہ اگر کوئی اپنے باپ کے قاتل کو بھی پاجاتا تھا ، جس کی ایک مدت سے تلاش رہی ہے ، تو ان حرام مہینوں کے احترام میں اس سے کوئی تعرض نہیں کرتا تھا۔
[14] یہاں پیغمبر اسلام کا ارشاد قرآن کے ( سورۂ احزاب آیت نمبر ۶) کی طرف ہے جس میں ارشاد ہے: النبی اولی بالمومنین من انفسھم پیغمبر کا تعلق چونکہ خدا کی ذات سے ہے لہٰذا وہ تمام لوگوں کو جان و مال پر ان سے زیادہ اولویت رکھتے ہیں ۔ اگر چہ ہر شخص اپنے مال اور اپنی جان کا خود مختار سے زیادہ با اختیار ہیں ۔ البتہ معاذاللہ پیغمبر (ص) کبھی کوئی کام اپنے ذاتی نفع کے تحت انجام نہیں دیتے ۔ وہ خدا وند عالم کی طرف سےا سلامی معاشرہ کے نمائندہ ہیں ۔ یہاں عام لوگوں اور پیغمبر (ص) میں فرق یہ ہے کہ لوگ اپنی جان ومال کے مختار اپنی ذات کے لئے ہیں جبکہ پیغمبر اسلامی معاشرہ کی فلاح کے تحت یہ اختیار رکھتا ہے ۔
[15] سورہ طہ آیت ۲۵سے ۲۴ تک
[16] سورہ اعراف آیت نمبر ۱۴۲ ۔ پوری آیت یوں ہے : قال موسیٰ لا خیہ ھارون اخلفنی فی قومی
[17] نہج البلاغہ، حکمت ۳۱۷
[18] سورہ مائدہ آیت نمبر ۳
[19] یہ معظمہ شیعوں کے نزدیک بہت محترم ہیں۔ اور خدیجہ کے بعد پیغمبر اکرم (ص) کی سب سے زیادہ جلیل المرتبت زوجہ ہیں۔ اہل سنت کے یہاں بھی بہت محترم ہیں اور ان کی نگاہ میں خدیجہ و عائشہ کے بعد امّ سلمہ ہی معظم و محترم خاتون ہیں۔
[20] سورہ احزاب آیت ۳۲
[21] سورہ مائدہ آیت نمبر ۱
[22] سورۂ بقرہ آیت ۱۲۴
[23] سورۂ ابراہیم آیت ۳۷
[24] سورۂ صافات آیت ۱۰۳۔۱۰۲
[25] سورۂ صٰفّٰت آیت ۱۰۴
[26] سورۂ ہود آیت نمبر ۷۲۔ ۷۳
[27] سورۂ بقرہ آیت ۱۲۴
[28] سورہ زخرف آیت ۲۸
[29] سورہ یوسف آیت ۲۴
[30] سفینۃ البحار ج۲ ص ۷۳۴ ( از حضرت علی علیہ السلام )
[31] سورہ طٰہٰ آیت ۱۲۱
[32] سورہ فتح آیت ۲
[33] ۔ نہج البلاغہ فیض الاسلام۔ خطبہ۹۱
[34] ڈارون کا مشہور نظریہ۔ انسان پہلے بندر تھا ( مترجم)
[35] سورہ بقرہ۔ آیات ۳۰۔ ۳۱۔
[36] نہج البلاغہ، فیض الاسلام، حکمت نمبر ۱۲۹۔ مطابق نہج البلاغہ مترجم مفتی جعفر حسین مرحوم، حکمت ۱۴۷
[37] سورۂ انبیاء، آیت نمبر ۷۲۔ ۷۳