حد یث کے ذریعہ منسوخ ھو نے کادعویٰ!
جو حضرات احادیث شریفہ سے آیہٴ متعہ کو منسوخ سمجھتے ھیں ان کے درمیان بھی مختلف اقوال نظر آتے ھیں ، یھاں تک کہ ان میں پندرہ قول پائیجاتے ھیں جو ایک دوسرے سے بالکل متضاد و متناقض ھیں ان میں سے پانچ یہ ھیں :
۱۔بعض روایات میں وارد ہواھے کہ حکم متعہ جنگ خیبر میں منسوخ ہوا۔
۲۔بعض روایات میں آیاھے کہ یہ حکم فتح مکہ میں نسخ ہوا ۔
۳۔بعض میں جنگ تبوک کا تذکرہ ھے ۔
۴۔بعض روایات میں حجةالوداع کے موقع پر نسخ ہونے کو بتلایا گیاھے ۔
۵۔بعض میں جنگ حنین کا ذکر ھے ۔وغیرہ وغیرہ …
قارئین کرام! عدم ِطوالت کی بنا پرتمام اقوال نقل کرنے سے ھم معذرت خواہ ھیں صرف حوا لہٴ کتاب پر اختصارکرتے ھیں ۔[112]
الغرض جیسا کہ ھم پھلے بتا چکے ھیں کہ صحیح روایات بالخصوص صحیحین کی روایات سے استفادہ ہوتا ھے کہ حکم ِمتعہ کا نسخ ہونا نہ قرآن کے ذریعہ ثابت ھے اور نہ ھی سنت رسول (ص)کے ذریعہ ، بلکہ یہ حکم رسول سلام ،(ص) ابوبکرا ورعمر کے تھوڑے زمانہ ٴخلافت تک جاری رھا اور عمر نے چند سال کے بعد اپنے دور خلافت میں اس کو حرام قراردیدیااورقابل توجہ بات یہ ھے کہ جن روایات میں حکم ِمتعہ کے منسوخ ہونے کا تذکرہ ھے وہ قرآن اور صحیح روایات سے متعارض و متضاد ھو نے کے ساتھ ساتھ خبرآح ا د بھی ھیں اور یہ بات اپنی جگہ پر ثابت ھو چکی ھے کہ نسخ ِحکم قرآن کریم خبر واحد سے نھیں ہوسکتا۔
۵۔ تھمتیں اورافتراپردازیاں !
جیساکہ ذکر ھو چکا کہ حکم ِ متعہ قرآن اور حدیث سے ثابت ھے اور اس حکم کے حدود اور شرائط شیعہ فقھی کتب میں واضح طور پر موجودھیں ، لیکن افسوس کہ اس کے باوجود کئی علمائے اھل سنت جیسے غریقی نیجب حکم متعہ کی( غلط سلط) نسخ ھو نے کی توجیھات کو غیر مناسب دیکھا تو اپنے کو ھر طرح سے مجبور پا کر اس شخص کی طرح جو دریا میں غرق ہوتا جارھا ھو لیکن ھاتھ پیر مار کرسھارے کے لئے ایک تنکا تلاش کر رھا ھو ، اپنے خبث باطنی اوربر بنائے تعصب بے بنیاد اور واھیات چیزیں خود حکم متعہ میں پیدا کرنے کی کو شش کی ھے، چنانچہ ذیل میں ھم ان علمائے اھل سنت میں سے صرف چار علمائے اھل سنت کے اسمائے گرامی تحریر کرتے ھیں ، جنھوں نے کھوکھلے فکری اور وھمی نتائج متعہ میں پیدا کرنے کی سعی ٴ لاحا صل فرمائی ھے :
۱۔ شیخ محمد عبدہ: آپ حکم ِ متعہ کی مخالفت میں تحریر فرماتے ھیں :
” متعہ عورت کی عفت اور اس کے کلی قانون ِازدواج کے خلاف ھے ،کیونکہ اس طرح کے نکاح میں مرد اپنی نفسانی خواھش پوری کرنے کے علاوہ کوئی دوسرامقصد نھیں رکھتا اور اس طرح کی شادی در حقیقت اس عورت کی عفت ریزی اور آبرو برباد کرنے کے مترادف ھے ،کیونکہ جو عورت ھر روز اپنے آپ کو کرائے پرایک دوسرے مرد کے اختیار میں دیدے اس کی شخصیت اور عزت کیا ر ھے گی؟اور ایسی عورت کے حق میں یہ شعر پڑھنا مناسب ہوگا :
کرةحذفت بصوالجة -- . -- فتلقّفھارِجْلٌ من رجل
وہ ( عورت ) اس گیند کے مانند ھیجس کو ایک طرف سے دوسری طرف پیروں سے ٹھکیل دیتے ھیں اور وہ اِدھر سے اُدھر اچھلتی پھرتی ھے“[113]
عرض موٴلف
ازدواج موٴقت( متعہ ) عورت کی عفت کے بر خلاف اور قانون ِازدواج کے منافی اس وقت ھو سکتا ھیجب ھم متعہ کو(مثل صاحب المنار ) شرعی حیثیت نہ دیں اور اس کو زنا و سفاح سے تعبیر کریں ،یعنی شیخ محمدعبدہ نیجو وجوھات بیان کی ھیں کہ متعہ سے عورت کی عفت اورشخصیت مجروح ہوتی ھے ،وغیرہ و غیرہ یہ ساری وجوھات اس وقت تسلیم کی جاسکتی ھیں جب حکم ِ متعہ (عقد موٴقت)کو غیر شرعی مانیں اور اس کے لئے کوئی حد بندی نہ ھو ، حا لانکہ ھم گزشتہ صفحا ت میں ثابت کرچکے ھیں کہ اس کے لئے بھی دائمی نکاح کی مانند ا حکام اور شرائط پائیجاتے ھیں ۔[114]
اور صاحب تفسیر المنار (شیخ عبدہ )کا یہ کهنا کہ متعہ والی عورت ایسی ھیجیسے ایک عورت روزانہ اپنے کو کرایہ پر دیدے اور ایک گیند کی طرح ا یک ھاتھ سے دوسرے ھاتھ میں ناچتی پھرے۔
ا ولاً: یہ اعتراض اگرصحیح ہوتوڈائریکٹ شریعت محمدی پر ہوگا کیونکہ رسول (ص)کے زمانہ میں بھی تو یہ حکم نافذالعمل تھا اور جو چیز قبیح ھے وہ ھمیشہ قبیح ھو گی لہٰذاایسا ھرگز نھیں ھو سکتا کہ مذکورہ تشبیہ صرف ایک زمانہ سے مخصوص ھو یعنی متعہ کا قبیح ہونا صرف ھمارے زمانے کے لحا ظ سے ھو اور جو مسلمان صدر اسلام میں متعہ کرتے تھے ان کو شامل نہ ھو !!
ثانیا: یہ اعتراض اس عورت پر بھی جاری ھو سکتا ھیجو دائمی عقد میں ھو ،کیو نکہ اس کے لئے بھی مناسب نہ ہوگا کہ اگر اس کی طلاق ھو جائے تو وہ دوسرا شوھر کرے ،یادوسرا شوھر مرنے کے بعد کوئی تیسرا شوھر کرے،اس لئے کہ اس صورت میں یہ بھی شیخ محمد عبدہ کے معیار کے مطابق ایک مرد کے ھاتھ سے دوسرے مرد کے ھاتھ میں مثل گیند کیجائے گی ، پس عقد دائمی والی عورت کے لئے دوسرا شوھر کرنا بھی بقول صاحب المنار عزت و آبرو کے خلاف ھے!!
اس سے بھی تعجب خیز بات صاحب المنار کی وہ ھیجسے وہ آگے اس طرح بیان کرتے ھیں :
”جو بحث میں نے متعہ کے سلسلے میں کی ھے وہ صرف حقیقت پر مبنی ھے اور مذھبی تعصب سے باکل دور ہوکر بیان کی ھے، یہ ایک درد دل تھا جو میں نے بیان کردیا“!!
الله اکبر! کیا درد دل اور حقیقت بیانی سے کام لیا ھے؟ ! قارئین آپ خود فیصلہ کریں کہ کیا یھی انصاف ، حقیقت بیانی اور درد دل ھے کہ ایک شرعی حکم جو قرآن مجید، سنت رسول(ص) اور اجماع مسلمین سے ثابت ھو ،اس کی غلط توجیھات بیان کرکے کالعدم قراردیاجائے ؟!
کیا یہ مذھبی تعصب اور شریعت اسلامیہ کے ساتھ مسخرہ پن نھیں تو کیا ھے ؟!!
۲ ۔ موسی ٰجارالله :اپنی کتاب ”الوشیعہ“ میں تحریر کرتے ھیں :
اسلام میں متعہ یعنی معینہ مدت کا نکاح نام کا کوئی حکم وجود نھیں رکھتا اورنہ اس کیجواز کے سلسلہ میں کوئی آیہٴ قرآنی نازل ہوئی اورنہ صدر اسلام میں اس کیجواز کے بارے میں کوئی دلیل پائی جاتی ھیجو اس حکم کی تصدیق کرے ،البتہ اتنا کہہ سکتے ھیں کہ یہ دور جاھلیت کی ایک رسم تھی جو مسلمانوں میں باقی رہ گئی تھی اوراس کے بارے میں شارع کی جانب سے کوئی اباحت اوراجازت نھیں ھے، لہٰذا متعہ کے لئے حکم ِنسخ آنے کا مطلب یہ نہ تھا کہ یہ ایک اسلامی قانون منسوخ ہورھا ھے، بلکہ یہ ایک دوران جاھلیت کی قبیح رسم کا ممنوع وحرام قرار دینا تھا جو نسخ کی صورت میں آیا ۔[115]
عرض موٴلف
موسیٰ جاراللہ کا جواب قارئین پر گزشتہ صفحا ت کا مطالعہ کرنے کے بعد خود ھی ظاھر ہوگیاہوگا،کیونکہ حکم متعہ قرآن و سنت سے ثابت ہوچکاھے اور تمام محدثین و مفسرین اس بارے میں اتفاق نظر رکھتے ھیں ،لہٰذا موسیٰ جاراللہ کا یہ دعوی کرنا کہ یہ حکم اسلام میں نھیں پایاجاتا تھا ،یا دوران جاھلیت کی رسم ھے ،یہ صریح کذب ،بے بنیاد دعوی اور کتب تفسیراور تاریخ اسلام کا مذاق اڑانا ھے (یا پھر یہ کہئے کہ موصوف اس قدر جھالت کے شکار ھیں کہ کتابیں پڑھنے کی ضرورت نھیں)
<فَوَیْلٌ ِللَّذِیْنَ یَکْتُبُوْنَ ْالْکِتَاْبَ بِاَیْدِیْھِمْ ثُمَّ یَقُوْلُوْنَ ھٰذَاْمِنْ عِنْدِ اللّٰہِ لِیَشْتَرُوْا بِہ ثَمَنًاقَلِیْلاً فَوَیل لَّہُمْ مِمَّاْکَتَبَتْ اَیْدِیْھِمْ وَوَیْلٌ لَّھُمْ مِمَّاْیَکْسِبُوْنَ>[116]
ویل ھو ان کے لئیجو لوگ اپنی طرف سے کتابیں لکھتے ھیں اور کھتے ھیں :یہ اللہ کی طرف سے ھیں تاکہ کچھ آمدنی ھو جائے ،ویل ھے اس کے لئیجس نے کتاب لکھی۔ الخ۔۔۔۔
۳ ۔ محمود شکری آلوسی کھتے ھیں :
شیعہ حضرات کے یھاں متعارف متعہ کے علاوہ ایک متعہ اور ہوتا ھے جسے دوری متعہ کھتے ھیں اور اس متعہ کی فضیلت میں روایات بھی نقل کرتے ھیں ، اس کی صورت اس طرح ھے کہ کچھ لوگ ایک عورت سے متعہ کرتے ھیں اور عورت ان سے کھتی ھے کہ طلوع آفتاب سے لے کر کچھ دن چڑھنے تک تیرے متعہ میں ہوں اور اس کے بعدوقت ظھر تک دوسرے مرد کے اختیار میں اور ظھر سے عصر تک تیسرے مرد کے حوالے اور عصر سے مغرب تک کسی اور مرد کے متعہ میں اور مغرب سے عشاء تک ایک دوسرے مرد کے اختیار میں ، اس کے بعد نصف شب تک اور نصف شب سے لے کر صبح تک،کسی دوسرے مرد کے متعہ میں ہوں۔[117]
عرض موٴلف
چونکہ گزشتہ مباحث میں ھم متعہ کی اصل حقیقت، ماھیت ا ور صورت بیان کرچکے ھیں لہٰذاآلوسی نیجس بات کو شیعوں کی طرف نسبت دی ھے وہ تھمت ،بھتان اورصریحا فتراء پردازی کے علاوہ کچھ بھی نھیں ھے۔[118]
کیا کوئی نھیں جو اس ( نا هنجار ) شخص سے دریافت کرے کہ کون شیعہ ھیجو اس متعہ کے طریقہ کو جانتا ھے ؟!
. وہ کونسا راوی ھیجس نے اس متعہ کی فضیلت میں روایات نقل کی ھیں ؟!اور وہ کون سی روایات ھیں جن میں اس متعہ کا نام آیا ھے؟!
. جوروایات اس شخص کے ذهن کی اختراع ھیں وہ کو نسی کتاب میں ھیں ؟!اوران روایات کو کس محدث نے نقل کیا ھے ؟!
. آخر وہ کون سا مجتھد اور عالم ھیجس نے اس متعہ کیجواز کا فتویٰ دیا ھے ؟!
. وہ کون سی کتاب حدیث ، فقہ و تفسیر ھیجس میں اس متعہ کے بارے میں بحث کی گئی ھے ؟!
<وَلَایَحْزُنْکَ قَوْلُھُمْ اِنَّ الْعِزَّةَلِلّٰہِ جَمِیْعاً وَھُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ >[119]
۴ ۔ محمود شلتوت : مشہوراعتدال پسند عالم اھل سنت جناب شیخ محمود شلتوت سابق وائس چانسلر آف ازھر یونیور سٹی مصر، اپنی وجاھت علمی اور وافر معلومات کے باوجود متعہ کے بارے میں تعصب کے شکار نظر آتے ھیں ،چنانچہ متعہ کے بارے میں اپنے تعصب کا اظھار اس طرح کرتے ھیں :
نکاح ِمتعہ کہ جس کی ایک قسم معینہ مدت کی شادی ھے، یہ ھے : مرد اس عورت سے توافق کریجس سے شرعی طورپر شادی کرسکتاھو کہ وہ عورت اس کے پاس معینہ مدت ،یاغیر معینہ مدت تک کے لئے معین مھر کے عوض رھے گی !! اس کے بعد کھتے ھیں :لیکن قرآن مجید میں جو ازدواج کے سلسلہ میں احکام بیان کئے گئے ھیں،مثل توارث ،ثبوت نسب ، طلاق وعدّہ وغیرہ یہ سب ا حکام اس متعارف متعہ کے بارے میں نھیں ھیں جو ھم جانتے ھیں (یعنی شیعوں کا متعہ)[120]
عرض موٴلف
جیساکہ ھم پھلے بیان کر چکے ھیں کہ متعہ میں اساسی شرط یہ ھے کہ مدت معین ہواور اس ازدواج کے سلسلہ میں تمام اقسام عدہ ،نسب وتوارث کے تمام احکام پائیجاتے ھیں ،لہٰذا موٴقت ازدواج کو اقسام متعہ میں
شمار کرنا بے معنی ھے!!
<اٴَفَرَاٴَیْتَ مَنِ اْتَّخَذَاِٴلَٰہَہُ ھَواَھُ وَاٴَضَلَّہُ الله عَلَیٰ عِلْمٍ وَخَتَمَ عَلَی سَمْعِہِ وَقَلْبِہِ وَجَعَلَ عَلَیٰ بَصَرِہِ غِشَٰاوَةً فَمَنْ یَھْدِیْہِ مِن بَعْدِ الله اٴَفَلاَ تَذَکَّرُوْنَ>[121]
۷۔ نمازتراویح کی حقیقت !!
نماز تراویح سے مراد وہ مستحبی نمازیں ھیں جنھیں ماہ رمضان کی راتوں میں جماعت کے ساتھ پڑھا جاتاھے ،البتہ ان نمازوں کو جماعت کے ساتھ ادا کرن ا سنت رسو ل(ص) نھیں ھے ،بلکہ یہ نمازیں رسو ل خدا (ص)اورابو بکرکے زمانہ میں اور چند سال دور خلافت عمر میں فرادیٰ پڑھی جاتی تھیں ۔
دین اسلام میں کوئی بھی مستحب نماز سوائے نماز استسقاء کیجماعت سے نھیں پڑھی جاتی، کیونکہ جماعت کا اختصاص صرف واجبی نمازوں کے لئے ھے ۔
لیکن خلیفہٴدوم حضرت عمر نے ۱۴ھ میں مسلمانوں کو مجبور کیاکہ ماہ رمضان کی راتوں میں پڑھی جانے والی مستحب نمازیں جماعت سے ادا کی جائیں اور یہ حکم نامہ تمام اسلامی شھروں اورممالک میں ارسال کردیااورمدینہ میں ابی ٴ بن کعب کو مردوں کا امام جماعت مقرر کیا اور عورتوں کے لئے تمیم داری کو امام جماعت بنایا ، چنانچہ کتب تواریخ و احادیث و بالاخص صحیحین میں نماز تراویح کے بارے میں اس طرح آ یا ھے:
۱۔…”عن عبدالرحمن بن عبدالقاری؛ انہ قال:خرجت مع عمر بن الخطاب لیلة فی رمضان الیٰ المسجد ،فاذاالناس اوزاع متفرقون، یصلی الرجل لنفسہ، ویصلی الرجل،فیصلی بصلوتہ ا لرھط، فقال عمر:اٴِنِّی اٴَریٰ لو جمعت ھٰولاء علی قاریٴ واحد لکان امثل، ثم عزم فجمعھم علیٰ ابی بن کعب، ثم خرجت معہ لیلةاخریٰ، والناس یُصلُّون بصلاة قارئھم ،قال عمر:نعم البدعةھذہ…۔“ [122]
عبدالرحمن بن عبد القاری سے منقول ھے :
ایک روز میں رمضان المبارک کی شب میں عمر بن خطاب کے ساتھ مسجد کی طرف گیا ،تو دیکھا کہ لوگ متفرق متفرق اپنی نمازیں ادا کررھے ھیں ،کچھ حضرات ایک جگہ اجتما ع کرکے نماز ادا کررھے ھیں ،تو کوئی مسجد کے ایک گوشہ میں نماز پڑھ رھا ھے ، جب عمر ابن خطاب نے اس حا لت کو دیکھا توکهنے لگے :اگر یھی حضرات کسی ایک فرد کے پیچھے نماز پڑھتے تو کتنا اچھا ہوتا ،اس کے بعد اس بارے میں فکر کرکے دستور دیاکہ تمام لوگ ابی ٴ بن کعب کے پیچھے یہ نماز با جماعت ادا کریں ،کچھ دنوں کے بعد ھم لوگ جب ایک شب مسجد میں آئے تو دیکھا کہ تمام نمازی ایک پیش نماز کے پیچھے نمازیں پڑھ رھے ھیں ، اس وقت عمر ابن خطاب نے مجھ سے کھا:کتنی اچھی یہ بدعت ھے:”نعم البدعة “ جس کو میں نے رائج کیا ھے!!
۲۔… ’ ’عن ابن شھاب عن حمید بن عبد الرحمان عن ابی ھریرة؛ ان رسول الله (ص)قال:من قام رمضان ایماناً واحتساباً غفرلہ ما تقدم من ذنبہ، قال ابن شھاب: فتوفی رسول الله (ص)والا مرعلی ذالک، ثم کان الامر علی ذالک فی خلافة ابی بکر، وصدراً من خلافة عمر“۔[123]
بخاری اور مسلم نے ابو ھریرہ سے نقل کیا ھے :
رسول (ص)نے فرمایا :جو بھی آخرت پرایمان و اعتقاد رکھتے ہوئے ، ماہ رمضان کی شبوں میں عبادت کرے ،اس کے تما م گزشتہ گناہ بخش د یں گے، اس کے بعد ابو ھریرہ کا یہ قول نقل کرتے ھیں :
آنحضر ت (ص)تا آخر ِ وفات، شب ماہ رمضان کی تمام مستحبی نمازیں فرادی ٰ پڑھتے تھے اوراسی طریقہ سے حضرت ابوبکر کے دور خلافت میں نماز پڑھی جاتی رھی اور خلافتِ عمر کے زمانہ ٴ اوائل میں بھی اسی طریقہ سے نماز پڑھی جاتی رھی!!
ابن سعد اپنی کتاب” الطبقات“ میں لکھتے ھیں :
عمر وہ پھلے شخص ھیں جنھوں نے ماہ مبارک رمضان کی رات کی مستحبی نمازوں کو جماعت سے پڑھنے کا قانون نافذکیا اور تمام دیگر شھروں میں اس حکم کا ابلاغ فرمایااور یہ واقعہ ۱۴ھ میں وقوع پذیر ہوا ، چنانچہ مدینہ والوں کے لئے دو پیش نماز معین فرمائے ،ایک مردوں کے لئے اور ایک عورتوں کے لئے ۔
”وھو ( عمر ) اول من سن قیام شھر رمضان و جمع علی ذالک و کتب بہ الی لبلدان و ذالک فی شھر رمضان سنة اربع عشرة “[124]
اس واقعہ کی طرف اجمالی طورپر کتاب” ارشادالساری “میں بھی اشارہ ملتاھے۔[125]
اسی طرح تاریخ اسلام کے مشہور موٴرخ یعقوبی، ۱۴ھکے واقعات وحوادثات کو تحریر کرتے ہوئے قلمبند فرماتے ھیں :
اسی سال حضرت عمر نے شب ِماہِ رمضان کی مستحب نمازوں کو با جماعت پڑھنے کا حکم جاری کیا اور تمام اسلامی ممالک میں اپنے اس حکم کو نافذ کروادیا، چنانچہ اھل مدینہ کے لئے ابیٴابن کعب اور تمیم داری کو پیش نماز معین کیا ۔
اس کے بعدیعقوبی کھتے ھیں :
کچھ لوگوں نے خلیفہ پراعتراض کیا کہ رسول(ص) اور حضرت ابوبکر کے زمانہ ٴ خلافت میں تو ایسا نھیں ہوا؟! عمر نیجواب دیا : اگر یہ بدعت بھی ھے تو اچھی (حسنہ) بدعت ھے: ”ان تکن بدعة فما احسنھا من بدعة“!![126]
علامہ جلال الدین سیوطی بھی اپنی کتاب” تاریخ الخلفاء“ میں یھی تحریر فرماتے ھیں :
۱۴ھ میں حضرت عمر نے لوگوں کو نماز تراویح کے پڑھنے پر مجبور کیا !!
”وفیھا(۱۴ہجری) جمع عمر بالناس علی صلاة التراویح “[127]
حضرت علی (ع) کی زبانی نماز تراویح کی رد
کتب روایات و تواریخ سے استفادہ ہوتاھے کہ حضرت امیر المومنین (ع)کی اپنے دور حکومت میں متواتر کوشش یھی رھی کہ اس نماز کو اسی صورت پر پلٹا دیں جو رسول(ص) کے زمانے میں تھی ،لیکن مختلف وجوھات بشمول کچھ نادان سلمانوں کی بدبختی اور جھالت، درمیان میں آڑے رھیں جن کی وجہ سے امام (ع)کی کوشش کسی نتیجہ تک نہ پهنچ سکی ، چنانچہ حضرت امیرالموٴمنین (ع)نے اس بارے میں اپنی بے پایان کوشش اور مسلمانوں کی جھالت کی طرف( اپنے خطبات کے اندر)جا بجااشارہ فرمایا ھے:
۔…”امرت الناس ان لایجمعوافی شھررمضان الا فی فریضة، لنادی بعض الناس من اھل العسکر ممن یقاتل معی: یا اھل الاسلام !وقالوا غیرت سنةعمر،نھینا ان نصلی فی شھررمضان تطوعاً،حتیٰ خفت ان یثوروافی ناحیة عسکری بوٴسی، لما لقیت من ھذہ الامة بعد نبیھا من الفرقةوطاعةائمةالضلال والدعات الیٰ النار!!“[128]
میں نے لوگوں کو حکم دیا کہ ماہ رمضان میں نماز واجب کے علاوہ دوسری نمازوں کو جماعت سے نہ پڑھو ،تو میرے لشکر میں سے ایک گروہ کی صدائے احتجاج بلند ہوئی کہ اے مسلمانو! سنت عمر کو بدلاجارھاھے !اورھم کوماہ رمضان کی نمازوں سے روکاجارھا ھے !اور ان لوگوں نے اس قدر شور و غوغا مچایاکہ میں ڈرا کہ کھیں فتنہ برپانہ ہوجائے اور لشکر میں انقلاب نہ آجائے!تف ھو ایسے لوگوں پر، بعد پیمبر (ص)کس قدر میں نے ان لوگوں سے سختیوں کو جھیلا ھے…۔
ابن ابی الحدید کتاب”الشافی“ سے نقل کرتے ھیں :
”کچھ لو گوں نے حضرت امیرالموٴ منین (ع) سے کو فہ میں عرض کیا کہ کسی کو بعنوان امام جماعت کوفہ میں معین کریں تا کہ وہ ماہ رمضان کے شبوں کی مستحب نمازوں کو جماعت سے پڑ ھائے ، امام (ع) نے اس عمل سے لوگوں کو منع کیا اور بتایا کہ یہ عمل سنت رسول(ص) کے بر خلاف ھے،چنانچہ بظاھر ان لوگوں نے بھی اپنی در خواست کو واپس لے لیا ، لیکن بعد میں ان لوگوں نے مسجد کے اندر ایک اجتماع کیا اور اپنے میں سے ھی ایک صاحب کو منتخب کر کے امام جماعت بنا لیا، جب امیر الموٴ منین (ع) کو اس کی اطلاع ھو ئی تو امام حسن علیہ السلام کو بھیجا کہ اس بدعت کو روک دیں ، جب لوگوں نے امام حسن علیہ السلام کو تازیانہ لاتے ہوئے دیکھا تو ”واعمراہ،واعمراہ“ کی صدائیں بلند کرتے ہوئے مسجد کے مختلف دروازوں سے بھاگ نکلے “!![129]
بدرالدین عینی کی ناقص توجیہہ !!
شارح صحیح بخاری جناب بدرالدین عینی قول عمر”نعم البدعة ھٰذہ “ کے ذیل میں تحریر فرماتے ھیں :
عمر نے اس نماز کو بدعت سے اس لئے تعبیر کیاھے کیونکہ رسول(ص) وابوبکر کے زمانے میں اس صورت میں کوئی نماز نہ تھی، بلکہ یہ نماز خود ان کی ایجاد کردہ تھی اور یہ بدعت چوں کہ ایک نیک عمل میں تھی لہٰذا اس بدعت کو غیر مشروع (ناجائز) شمار نھیں کریں گے!![130]
عرض موٴلف
بدرالدین سے ھمار ا سوال یہ ھے کہ جب آپ نماز تراویح کو بدعت( غیر مشروع) تسلیم کرتے ھیں توپھر اس کو نیک اور بھتر سمجھنے کا کیامطلب ؟! اور اگر آپ کے کهنے کا مطلب یہ ھے کہ عمر کی بدعت سنت رسول (ص)اور قانون خد ا سے بھتر ھے تو پھر اس میں کوئی شک نھیں کہ ایسا عقیدہ اور خیال کفر اور ضلالت ھے!!(کیونکہ یہ حق شارع کو ہوتا ھے کہ وہ شریعت کے احکام کو بتلائے اور جعل کرے نہ کہ مکلفین کو جو مصالحا ور مفاسد سے بے خبر ہوں)اور اگر آپ یہ کھیں کہ سنت خداو رسول(ص)، سنت عمر سے بھتر اور ارجح ھے تو پھر آپ اِس کی پیروی نہ کرکے بدعت عمریہ کی پیروی میں جو ایک مرجوح عمل ھے نماز تراویحا ج تلک کیوں پڑھتے آ رھے ھیں ؟!!
۸ ۔ تین طلاقیں اورحضرت عمر!!
تین طلاقوں سے کیا مراد ھے ؟
مذھب شیعہ کے نزدیک تین طلاقوں کا مطلب یہ ھے کہ ایک مرد تین دفعہ عورت کو طلاق دے اورھر طلاق کے بعد عدّہ تمام ہونے سے قبل رجوع کرلے ،یا پھر انقضائے مدت ِ عدہ کے بعد دوبارہ اس سے شادی کرلے، اس طرح سے اگر مرد تیسری مرتبہ طلاق دیدے تو وہ بیوی اس مرد پر حرام ھو جائے گی لہٰذا اگر کوئی مرد ایسی عورت کو اپنے عقد میں لانا چاھتا ھے تو ضروری ھے کہ پھلے وہ عورت کسی دوسرے مرد سے عقد کرے ،او ر جب وہ (دوسرا مرد )طلاق (معہ شرائط ) دیدے یا مرجائے تب اس سے اس کا پھلا شوھر دوبارہ شادی کر سکتاھے ۔
چنانچہ قرآن مجید میں یہ حکم صراحت اور وضاحت کے ساتھ بیان کیا گیا ھے :
<اَلطَّلاٰقُ مَرَّتٰانِ فَاِمْسَاکٌ بِمَعرُوفٍ اَوْ تَسْریحٌ بِاِحْسٰانٍ …فَاِنْ طَلَّقَھٰافَلاٰ تَحِلُّ لَہُ مِنْ بَعْدُ حَتّٰی تَنْکِحَ زَوْجاً غَیْرَہُ …>[131]
طلاق (رجعی جس کے بعد رجوع ہوسکتاھے )دوھی مرتبہ ھے، پھر اس کے بعد یا تو شریعت کے موافق روک لینا چاہئے، یا حسن ِ سلوک سے (تیسری دفعہ طلاقِ بائن دے کر)بالکل رخصت کر دے اور تم کو یہ جائز نھیں کہ جو کچھ تم ان کو دے چکے ہواس میں سے پھر کچھ واپس لے لو۔پھر اگر (تیسری)بار طلاق (بائن) دی تو اس کے بعد جب تلک وہ دوسرے مرد سے نکاح نہ کر ے، اس کے لئے حلال نھیں ۔
جملہ ٴ<اَلطَّلاقُ َمرَّتاَنِِ> دلالت کرتا ھے کہ خود طلاق کے اندر تعد ّد ضروری ھے، یعنی طلاق دو دفعہ دی جائے، لہٰذا اگر طلاق ایک مرتبہ دے اوراس کے ساتھ لفظ تین کا اضافہ کردے،مثلاً اس طرح کھے :” میں تجھے تین مرتبہ طلاق دیتا ہوں(یاطلاق، طلاق ،طلاق کھے)“ تو یہ تین طلاقیں شمار نھیں ھو گی ، بلکہ صرف ایک ھی طلا ق شمار کی جائیں گی چنانچہ ایسی صورت میں مرد عورت کی طرف عدہ ٴ طلاق کے دوران رجوع یا عدہ تمام ہونے پر اس سے دوسری شادی کر نے کا حق رکھتا ھے اور مرد کیلئے یہ طلاق اس بات کی موجب نھیں قرار پاتی کہ اس عورت کی طرف مرد کارجوع کرنا حرام ھو جائے اور نہ ھی اس طلاق کی بنا پر مرد کا اس سے دوبارہ شادی کرناحرام ہوگا ۔
زمخشری جملہ ٴ<الطلاق مرتان>کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ھیں :
وہ طلاق جس کے بعد شرعاً عورت مرد پر حرام ھو جا تی ھے اوردوبارہ اس عورت کا مرد ،اس سے ازدواج نھیں کر سکتا یہ ھے کہ ”مرد(دونوں طلاقوں میں سے )ھر ایک طلاق بطور مستقل اور جدا دے، پس اگر کوئی مرددفعة ً واحدہ یکبارگی دونوں طلاقیں دیدے تو اس کی ایک طلاق شمار ہوگی “۔
اس کے بعد زمخشری کھتے ھیں :
آیت میں دوبار طلاق دینے سے مراد ،عمل ِ طلاق کا تعدد ھے، نہ کہ تعددلفظ، یعنی (طَلَّقْتُکَ طَلَاقَیْنِ) میں نے تجھے دو مرتبہ طلاق دی،یہ کهنا کافی نھیں ھے اور یہ طلاق دو مرتبہ شمار نھیں کی جاسکتی ، بلکہ ھر طلاق کو علیٰحدہ علیٰحدہ دینا ھو گا ،گویا یہ آیت بھی آ یہٴ شریفہ<فَاْرْجِعِِ الْبَصَرَکَرَّتَیْنِ>کی طرح ھیجس میں پھلی نگاہ کے بعددوسری نگاہ ،مراد ھے۔ “[132]
بھر کیف تین طلاقوں کا مسئلہ قرآن اورسنت کی رو سے بھت ھی واضحا ور روشن ھے ، لیکن خلیفہ ٴ دوم حضرت عمر نے تین طلاقوں کے لئے تعددِ لفظ کو کافی جاناھے ، یعنی اگر کوئی اپنی بیوی کو اس طرح کھے کہ میں نے تجھے تین طلاقیں دیں ،تو وہ عورت اس مرد پر حرام ھو جائے گی یھاں تک کہ دوسرا مرد اس عورت کو اپنے حبالہ ٴ عقد میں لائے، اس کے بعد وہ مرجائے یا اپنی مرضی سے طلاق دیدے ،تب وہ عورت اپنے پھلے شوھر کیلئے عدّہ تمام ھو نے کے بعد حلال ہوگی۔
اگرچہ اس مضمون کی روایات صحیح مسلم کے علاوہ دیگر کتب اھل سنت میں بھی پائی جاتی ھیں لیکن ھم صحیح مسلم سے یھاں نقل کرتے ھیں ، کیونکہ صحیحین کی روایا ت ھی ھماری موضوع ِ بحث ھیں :
۱۔ …”عن ابن عباس؛ قال: کان الطلاق علیٰ عھد رسول الله (ص)وابی بکروسَنَتَین من خلافةعمرطلاق الثلاث واحدةً ،فقال عمربن الخطاب:ان الناس قد استعجلوا فی امرکانت لھم فیہ اَناة، فلوامضَیْناہ علیھم فامضاہ علیھم۔[133]
ابن عباس سے منقول ھے :
عھد آنحضرت صلی الله علیہ وآلہ وسلم وعھد ابوبکر اور دوسال حضرت عمر کے دورانِ خلافت میں ، اگر کوئی تین مرتبہ لفظاًطلاق دیتا تو اس کو ایک ھی طلاق شمار کیا جاتا تھا ،یعنی اگر کوئی اپنی بیوی سے یہ کھتا: میں تجھے تین مرتبہ طلاق دیتا ہوں( یا طلاق ، طلاق،طلاق کھتا)تو اس کی ایک طلاق محسوب ہوتی تھی،لیکن خلیفہٴدوم حضرت عمر نے کھا: لوگوں کو جس میں مھلت دی گئی تھی اورجو حکم ان کے نفع میں تھا ،اس میں انھوں نے عجلت سے کام لیا، کیا بھتر ہوتا کہ ان کے ضرر میں حکم کو جاری کر دیا جائے!
چنانچہ عمر نے (ایک طلاق کو ) تین طلاق شمار کرنے کا حکم نافذ کردیا ،جو حقیقت میں ایک طلاق تھی،یعنی اگر ایک دفعہ کوئی شخص کھے: میں تین طلاقیں دیتا ہوں (یاطلاق،طلاق،طلاق کھے) تو اس کی تین مرتبہ طلاق شمار ھو جائے گی یہ حکم حضرت عمر نے نافذ کردیا!۔
۲۔…ان ابا الصحبا ء قال لابن عباس: ھاتِ مِن ھناتک؟ الم یکن الطلاق الثلاث علیٰ عھد رسول(ص) الله (ص)وابی بکر واحدة؟فقال:قد کان ذالک، فلمّا کان فی عھد عمر تتا بع الناس فی ا لطلاق، فاجازہ علیھم ۔[134]
طاوٴوس کھتے ھیں کہ ایک مرتبہ ابو صحباء نے ابن عباس سے کھا : کوئی نئی تازی خبر ھم کو سنائیں ؟ کیا آپ جانتے ھیں کہ عھد پیمبر (ص)و ابوبکر اور تین سال عھد عمر میں تین طلاق ”یعنی ایک طلاق بلفظ ِثلاث“ایک طلاق محسوب ہوتی تھی ؟
ابن عباس نے کھا: ھاں ایساھی تھالیکن لوگوں نے دورا نِ خلافت ِعمر میں طلاق کے بارے میں زیادہ روی اختیار کی، لہٰذا اس (عمر)نے ان کے ھی ضرر میں یھی حکم نافذکردیایعنی ایک طلاق کو تین طلاق شمار کرنے کاحکم نافذکردیا !!
محترم قارئین !یہ تھاتین طلاقوں کا مسئلہ جودیگر معتبر کتب اھل سنت میں بھی مندرج ھے ،اسی روش کو اکثر علمائے اھل سنت اور ائمہ اربعہ نے اختیار کیا ھے اور حضرت عمر کی رائے کے مخالف فتوی ٰدینے سے حتی الامکان پر ھیز کیا ھے، ستم ظریفی یہ ھے کہ یہ لوگ آج بھی عمر کے اس فتوی ٰپرعمل پیر اھیں !! مگرچوں کہ یہ حکم نص ِقرآن کریم اورسنت رسول (ص)کے بر خلاف ھے لہٰذا بعض جید علمائے اھل سنت نے عمر کے اس فتویٰ کے برخلاف اشارةًوکنایةًمخالفت کا اظھار کیا ھے اوربعض نے تو تصریح کے ساتھ اس کی مخالفت کی ھے ،یھاں تک یہ مسئلہ اتنا طولانی ہوا کہ مصر کی عدالت عالیہ میں جید اھل سنت کے مفتیوںنے اس بدعت کو ختم کرنے کا حکم صادر فرمادیا ۔
بھر کیف ذیل میں مذکورہ مسئلہ کی سیر تاریخی ھم نقل کرتے ھیں ملاحظہ ہو:
ابن رشد کھتے ھیں :
اکثریت فقھائے اھل سنت کے نزدیک وہ طلاق جو میں بہ لفظ ثلاث (تین)ہووہ واقعی تین طلاق کے حکم میں ھے اوراس کے بعد شوھراپنی مطلقہ عورت کی طرف رجوع کرنے کاحق نھیں رکھتا ۔[135]
کتاب”الفقہ علی المذاھب الاربعة“کے موٴلف کھتے ھیں :
اگر مرد عورت سے کھے : میں نے تجھے تین طلاقیں دیں ،تومذاھب اربعہ اور جمہور فقھائے ا ھل سنت کے نزدیک تین واقعی طلاق شمار کی جائیں گی اور مرد اس کی طرف اب رجوع نھیں کر سکتا ۔
”بان قال لھا : انت طالق ثلاثا لزمہ ما نطق بہ من العدد فی المذاھب الاربعة …“[136]
لیکن خود ابن رشد صاحب کتاب (الفقہ علی المذاھب الاربعة )نے اس نظریہ کی مخالفت کی ھے اور اس حکم کو اپنے اور حکم ِ واقع کے خلاف جانا ھے ۔
ابن رشد نے ایک لطیف اشارہ سے دوسرے مسئلہ کو بیان کرتے ہوئے لفظ تین کے ساتھ طلاق دینے کو ردکیا ھے ، فرماتے ھیں :
یھی وجہ ھے کہ اگر کوئی لوگوں پر یہ حکم ضروری قرار دے کہ وہ ایک طلاق کو تین طلاقیں سمجھیں توگویا اس نے اس حکمت اور مصلحت ِ واقعیہ کوختم کر دیاجو اس حکم کی تشریع میں — تھی !! [137]
صاحب کتاب ”الفقہ علی المذاھب الاربعة “ طرفین( مخالف وموافق )کی دلیل کی طرف اشارہ کرنے کے بعد تحریر کرتے ھیں :
یہ مسئلہ اجتھادی مسائل میں سے ھے۔
اس کے بعدآپ ابن عباس اورعمر کے اس مسئلہ میں اختلاف ذکر کرتے ہوئے اس طرح نتیجہ گیری کر تے ھیں :
اس میں کوئی شک وشبہ نھیں کہ ابن عباس بھی اپنی جگہ ایک مجتھد کی حیثیت رکھتے ھیں اور ان کی تقلید بھی مذھبی مسائل میں ہوسکتی ھے اور ان کے قول پر عمل کر نا جائز ھے، ضروری نھیں کہ ھم عمر کی آراء وفتاویٰ پر عمل کریں،کیونکہ وہ بھی ایک مجتھد کی حیثیت رکھتے ھیں ، حتی کہ اکثر علماء و فقھاء کے فتاویٰ جو حضرت عمرکی موافقت میں ھیں موجب نھیں بن سکتے کہ ھمارے اوپر ان کی ( عمر ) پیروی یا تقلید لازم ھو ۔[138]
شیخ محمد عبدہ (متوفی۱۳۲۳ ھ) آیہٴطلاق میں مفصل بحث کرنے کے بعدثابت کرتے ھیں :
آیہٴ کریمہ میں تعددِ ِطلاق مراد ھے اور خلیفہ ٴدوم اور جو لوگ آپ کے ھم خیال ھیں ان کی رائے کی مخالفت میں حدیث ِ ذیل کو سنن نسائی سے بعنوان تنقید اس طرح تحریر کرتے ھیں :
” آنحضرت صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں ایک شخص نے اپنی زوجہ کو لفظ ثلاث کی یں سے ایک طلاق دی(مثلاً میں تجھے تین طلاق دیتا ہوں) تو رسول خدا(ص)لوگوں کے درمیان غیض و غضب کی حا لت میں کھڑے ہوئے اور فرما یا: ابھی سیجبکہ میں تمھارے درمیان موجود ہوں کتاب خداکامضحکہ اڑایا جارھاھے؟!! شیخ محمد عبدہ اپنی گفتگو کو یوں ختم کرتے ھیں :
”میرا مقصود مقلدین سے مجادلہ کرنا نھیں اور نہ ھی قضاة اور مفتیوں کو ان کی رائے سے منحرف کرنا ھے، کیونکہ ان لوگوں میں اکثر اُن دلیلوں اورحدیثوں کو اچھی طرح جانتے ھیں ،جن کو میں نے پیش کیا ھے، لیکن پھر بھی ان دلائل واحادیث شریفہ( جو کتب صحا ح ،مدارک و ماخذ میں موجود ھیں ) پر عمل نھیں کرتے ، کیونکہ ان لوگوں کا شیوہ یہ ھے کہ وہ خود ساختہ اپنی کتابوں پر اعتماد کریں گے، نہ کہ کتاب خدا اورسنت رسول(ص)پر“[139]
بھر حال مصر کی شرعی عدالت نے ۱۹۲۹ ء میں ۷۳ سال قبل ا س حکم(طلاق بلفظ سہ) کو منفی قرار دے دیا، پھرچند سال کے بعد سابق وائس چانسلر آف ازھریونیورسٹی اور عظیم مذھبی راهنماجناب شیخ محمود شلتوت نے فتویٰ دیا:
” جو طلاق قید ِثلاث کے ساتھ دی جائے گی یعنی اگر کوئی کھے کہ میں تجھے تین طلاق دیتا ہوں، تو وہ ایک طلاق شمار ہوگی اور شوھر کو حق رجوع ھے کیونکہ ایسی طلاق حقیقت میں طلاق رجعی ہوتی ھے۔“[140]
قارئین کرام! جو فتاوے اور نظریے ھم نے خلیفہ ٴ دوم کی مخالفت میں تحریر کئے، یہ کس حد تک خلیفہ ٴدوم اور ائمہ اربعہ کے فتاوی کے مقابل میں موٴثر ھیں ، اس کا اندازہ مرورِ زمان کے ساتھ ھو گا، جب ھمارا اسلامی معاشرہ جملہ یں وبند، بیجا تقلید ا ور اندھے تعصب سے آزاد ھو کر سو چے گا۔
۹۔ کیا رونا بدعت ھے ؟!
اپنے عزیزوں ،رشتہ داروں اورچاهنے والوں کی موت پر غم منانا اورگریہ وزاری کرنا، بشر کی عطوفت ومحبت کا لازمہ اور رقت ِ انسانیت کے مقتضیات میں سے ھے ،چنانچہ دین اسلام نے بھی اپنے گزشتگان پر گریہ کرنے کو منع نھیں فرمایا ھے ، بلکہ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے گریہ کیا ھے ،خصوصاً اُن افراد پر جو راہ خدا میں شھید ہوگئے تھے ، لیکن اھل سنت کے بعض منابع و مدارک سے پتہ چلتا ھے کہ خلیفہ ٴ دوم مردوں پر گریہ کرنے سے متفق نہ تھے اور اگر ان کے سامنے اپنے گزشتگان پر کوئی روتا تھا تو اس کو منع کرتے تھے، بلکہ تازیانہ ، ڈنڈااورپتھر وغیرہ سے سخت سزادیتے تھے!لہٰذا مناسب ھے کہ ھم ذیل میں صحیحین سے اُ ن روایات کو نقل کر دیں جن میں رسول اسلام صلی الله علیہ و آلہ وسلم کے گریہ کرنے کی طرف اشارہ ھے اور اس کے بعد پھر آپ خلیفہٴدوم کا بھی ردعمل اس گریہ کرنے پر معتبر منابع کی رو شنی میں ملاحظہ فرمائیں ۔
۱۔…”عن انس بن مالک؛ ان النبی(ص)نَعیٰ جعفرا وزیدا قبل ان یجیٴ خبرھم وعیناہُ تذر فان ۔“[141]
انس بن مالک سے منقول ھے :
آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نیجعفر و زید کی شھادت کی خبر لوگوں کے درمیان اس حا لت میں کہ آپ کی آنکھوں سے آنسو ٹپک رھے تھے بیان کی، قبل اس کے کہ اُن کی خبر ِشھادت میدان جنگ سے مدینہ پهنچتی ۔
۲۔ …”عن انس بن مالک…؛ ثم دخلنا علیہ بعد ذالک وابراھیم یجود بنفسہ ،فجعلت عینارسول(ص) الله تَذْرِفان ،فقال لہ عبد الرحمن بن عوف:وانت یا رسول(ص) الله ؟ فقال:یا بن عوف! انھا رحمةثم اتبعھا بِاُ خریٰ فقال:ان العین تد مع، والقلب یحزن، ولا نقول الاّما یرضی ربُّناوانَّا بفراقک یا ابراھیم لمحزونون۔ “[142]
انس بن مالک سے منقول ھے :
جس وقت فرزند پیمبر(ص)جناب ابراھیم احتضار و جانکنی کے عالم میں تھے ،اس وقت میں آنحضرت صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی خدمت بابرکت میں گیا تو دیکھا کہ آپ(ص) کی آنکھوں سے آنسو جاری ھیں ،عبدالرحمن بن عوف نے کھا: یا رسول الله (ص)!آپ بھی اپنے بیٹے کی موت پر گریہ فرمارھے ھیں ؟! رسول نے کھا: اے عوف کے بیٹے !یہ گریہ رحمت،عطوفت اور محبت کی نشانی ھے ، ابن عباس کھتے ھیں : رسول(ص) پھر بھی گریہ کرتے رھے اور فرمایا: اشک جاری ھیں اوردل غم زدہ ھے ،لیکن جس چیز سے خدا راضی نھیں وہ زبان پر نھیں لاتا،اے میرے بیٹے ابراھیم ! میں تیری جدائی میں غم زدہ ہوں ۔
۳۔…”زار النبی قبر امہ فبکی وابکی من حولہ“[143]
امام مسلم نقل کرتے ھیں :
جب رسول(ص)نے اپنی مادر گرامی کی قبرکی زیارت فرمائی تواس قدر روئے کہ تمام صحا بہٴ کرام جوآپ کے ھمراہ تھے گریہ کرنے لگے۔
بھر کیف حضرت رسول خدا (ص)اورحضرت معصومہ ٴعالم فاطمہ زھرا = کے گریہ سے متعلق صحیحین میں متعدد حدیثیں وارد ہوئی ھیں اور ھم نے بعنوان نمونہ صرف مذکورہ تین حدیثوں کو نقل کیاھے البتہ آپ کی آسانی کیلئے بقیہ حدیثوں کا حوالہ نقل کردیتے ھیں ۔ [144]
محترم قارئین !یہ تھے چند مقامات جو صحیحین میں رسول (ص)اکرم کے گریہ کے بارے میں مذکور ہوئے ھیں جس کو آپ نے ملاحظہ فرمایا ،اب آپ ذرا خلیفہ ٴدوم کاکردار بھی ملاحظہ فرمائیں جو کتاب صحیحین میں ھی منقول ھے اور ا س کے راوی حضرت عمر کے بیٹے عبدالله ابن عمر ھیں :
۱۔ وہ کھتے ھیں : جب سعد بن عبادہ شدت سے مریض ہوگئے توآنحضرت صلی الله علیہ وآلہ وسلم عیادت کے لئے تشریف لائے ،آپ کے ساتھ عبدالرحمن بن عوف ،عبدالله بن مسعود،سعد بن ابی وقاص بھی تھے ،سعد بن عبادہ کی بد حا لی کو دیکھ کر رسول(ص)اسلام (ص)نے دریافت فرمایا :آیا روح جسد خاکی سیجدا ہوگئی یا نھیں ؟لوگوں نے کھا :نھیں یا رسول الله !(ص) اس کے بعد رسول (ص)گریہ فرمانے لگے ،جو آپ کے ساتھ میں تھے ،وہ بھی گریہ کرنے لگے ،پھر رسول (ص)نے فرمایا: کیا تم جانتے ھو کہ خداوند متعال اشک ریزی اور دل کی غمگینی کی وجہ سے کسی کو عذاب نھیں کرتا ؟!اس وقت رسول (ص)نے اپنی زبان کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا:خدا اس زبان کی وجہ سے انسان پر عذاب یا ترحم کرتاھے،لیکن بعض پسماندگان کے گریہ کی وجہ سے مردہ پریشان ہوتا ھے۔
عبدالله ابن عمر اس حدیث کو بیان کرنے کے بعداپنے باپ کی مخالفت ان لفظوں میں بیان فرماتے ھیں :
”وکان عمر یضرب فیہ بالعصا یرمی بالحجارة ویحثی بالتراب!“[145]
میرے والدلوگوں کوڈنڈے،پتھراورڈھیلوں سے مارتے تھیجب وہ اپنے مردہ عزیزوںپر روتے تھے۔
مسلم نے حدیث کاآخری حصہ حذف کردیا ھے ۔
صحیح بخاری میں آیاھے کہ حضرت عمر نے حضرت ابوبکر کی بهن کو اپنے بھائی ابوبکر پر رونے کی وجہ سے گھر سے نکال دیاتھا ۔[146]
امام احمد بن حنبل اپنی کتاب”المسند “ میں ایک حدیث کے ضمن میں عثمان بن مظعون کی موت کے بارے میں ابن عباس سے نقل کرتے ھیں :
جب دختررسول اکرم(ص)جناب رقیہ نے بھی وفات پائی توآنحضرت (ص)نے فرمایا: اے میری دختر نیک اخترجاتو بھی ھمارے نیک سلف عثمان بن مظعون سے ملحق ہوجا!
ابن عباس کھتے ھیں:جب عورتیں جناب رقیہ کی موت پر گریہ کرنے لگیں توحضرت عمر ان کو تازیانے سے مارنے لگے: جب رسول(ص)نے دیکھا تو فرمایا: اے عمر! اس کام کو چھوڑ دے ،ان کو گریہ کرنے دے، اس کے بعد عورتوں سے مخاطب ہوکر فرمایا :اے عورتو ! اپنے کو شیطان کی آواز سے محفوظ رکھو،پھر فرمایا:جو کچھ دل اور آنکھوں میں ھے( تاثیر اور گریہ)وہ خدا کی جانب سے اور رقت ِ قلب کی وجہ سے ھے اور جو کچھ زبان اور ھاتھ میں ھے (یعنی وہ فعل جو انسان کے مرنے پر زبان اورھاتھ سے ظاھر ہوتاھے )وہ شیطان کی جانب ھے۔
اس کے بعد جناب رقیہ کی قبر مطھر پر آنحضرت (ص)بیٹھ گئے آپ کے ساتھ شہزادیٴ کونین حضرت فاطمہ زھر ا(س)بھی بیٹھی رورھی تھیں اور رسول اسلام (ص)پیارو محبت کے ساتھ اپنے لباس کے دامن سے آپ کے آنسو پونچھ رھے تھے۔[147]
عرض موٴلف
اس واقعہ کو ابن سعد نے بھی اپنی کتاب ”الطبقات“ میں تھوڑے سے فرق کے ساتھ تحریر کیاھے اور اس میں یہ جملہ بھی آیا ھے :
جب عمر نے عورتوں پر تازیانے سے حملہ کیا تو رسول(ص)نے عمر کا ھاتھ پکڑ لیا اور فرمایا: رک جا اے عمر!
”فاخذرسول الله بیدہ وقال مھلایا عمر“ !![148]
امام احمد بن حنبل پھر نقل کرتے ھیں :
رسول(ص)ایک دفعہ کسی جنازے کے پاس سے گزرے تودیکھا کہ عورتیں گریہ کررھی ھیں ،عمرنے ان کو منع کیاتو رسول (ص)نے فرمایا :عمر ان کو اپنے حال پر چھوڑ دے، کیو نکہ ان کے دل اپنے عزیز کی موت پر تازہ غمگین اور آنکھیں اشک آلودھیں :
”دعهن فان النفس مصابة والعین دامعة والعھد حدیث“ [149]
ابن ابی الحدید معتزلی کھتے ھیں :
عمر نے اپنے دورخلافت میں سب سے پھلی جس کو تازیانے سے ماراوہ ابوبکر کی بهن ام فروہ ھیں ، جوکہ ابوبکر کی موت پر گریہ کررھی تھیں اورجب ابوبکر کی بهن ام فروہ کو دیگر عورتوں نے مار کھاتے ہوئے دیکھا، تو سب بھاگ گئیں اور خود ام فروہ کو عمر نے مار کر نکال دیا :
”و اول من ضرب بالدرة ام فروة بنت ابی قحا فة ، مات ابو بکر فناحا لنساء علیہ“[150]
۱۰۔ حکمِ نمازِمسافراورحضرت عثمان!!
سفر میں نماز پنجگانہ میں سے چار رکعتی نمازیں (جب شرائط پائیجائیں تو) قصر ہوجاتی ھیں ، یعنی چار رکعت نمازکے بجائے دو رکعت نماز پڑھی جا ئے گی اورسفر کے درمیان کوئی فرق نھیں کہ وہ تجارت کے لئے انجام دے، یا زیارت ، حج اور جنگ و غیرہ کے لئے اوریہ حکم قرآن مجید[151]اورسنت رسول (ص)سے ثابت ھے،[152] چنانچہ یھی طریقہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہٴ نبوت اور دور خلافت ابوبکر وعمر میں باقی رھا ،لیکن عثمان نے اپنے دورخلافت کے اواسط میں مقام منیٰ میں بجائے اس کے کہ وہ چار رکعتی نماز کو دورکعت نماز قصرپڑ ھتے چاررکعت ھی پڑھی ،حا لانکہ وہ مسافر تھے اور شرائط قصر بھی موجود تھے، کچھ مسلمانوں نے بھی ان کی پیروی کی ،لیکن ایک گروہ نے ان کی مخالفت کرتے ہوئے ان پر اعتراض کیا، طبری نے ابن عباس سے نقل کیا ھے کہ عثمان کے طریقہ کار پر مسلمانوں کا یہ سب سے پھلااعتراض تھا ، یھیں سے عثمان کے خلاف بغاوت کا بیج پڑا!خلاصہ یہ کہ عثما ن نے اپنے دور خلافت میں نماز مسافر کا حکم تبدیل کردیا !اور اس بارے میں کتب حدیث ،تاریخ وتفسیر میں صراحت کے ساتھ متعدد روایات پائی جاتی ھیں لیکن ھم نمونے کے طور پر صحیح بخاری اورصحیح مسلم سے صرف تین روایتیں ذکر کرنے پر اکتفاء کرتے ھیں :
۱۔…”عن عبداللّٰہ؛ قال: صلیت مع النبی(ص) بمنی رکعتین وابی بکر وعمرومع عثمان صدراًمن خلافتہ، ثم اتمھا“[153]
عبد اللہ ابن عمر سے منقول ھے :
میں نے خودآنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، ابوبکر،عمر اور عثمان کے ساتھ مقام منیٰ میں چار رکعتی نماز کو دورکعت بعنوان قصر پڑھا،لیکن عثمان نے اپنے دور خلافت کے کچھ دن گزر جانے کے بعد منی میں چارکعتی نماز کو بجائے اس کے کہ دو رکعت قصر کر کے پڑھتے چارکعت ھی پڑھا ۔
۲۔…”عن ابراھیم ؛قال: سمعت عبدالرحمٰن بن یزید؛ یقول:صلی بناعثمان بن عفان بمنی اربع رکعات، فقیل ذالک لعبداللّٰہ بن مسعود: فاسترجع، ثم قال:صلیتُ مع رسول اللّٰہ(ص)بمنی رکعتین، وصلیت مع ابی بکر بمنی رکعتین، وصلیت مع عمر بن الخطاب بمنی رکعتین، فلیت حظی من اربع رکعات رکعتان متقبّلَتانِِ ۔“ [154]
عبد الرحمٰن بن یزید سے منقول ھے :
عثمان نے مقام منی میں دورکعت کے بجائے چار رکعت نماز پڑھی (اورقصر کے حکم پر عمل نہ کیا ) اورجب اس واقعہ کو عبداللہ بن مسعود سے بیان کیا گیا توابن مسعود نے کلمہٴاستر جاع((انا للہ واناالیہ راجعون )) پڑھا اور کھا: میں رسول(ص)کے ساتھ تھا،جب میں نے مقام منیٰ میں چاررکعتی نماز کو دو رکعت پڑھا ،اسی طرح میں نے ابوبکر وعمر کے ساتھ بجائے چاررکعت کے دورکعت اداکی، کاش کہ آج بھی ھم دو رکعت نماز ھی ادا کرتے ۔
۳۔… صحیح بخاری کی ایک دوسری حدیث میں اس طرح آیا ھے :
عبد الله ابن مسعود اس بات کو نقل کر نے کے بعد” کہ ھم نے رسول ،ابو بکر و عمرکے زمانے میں دورکعت نماز پڑھی“ یہ جملہ بھی بیان کرتے ھیں:بعدمیں مسلمانوں کے سامنے اس سلسلے میں مختلف راستے پیش کردئے گئے، کاش کہ ان چار رکعتوں میں سے ھ میں وھی دورکعت نماز نصیب ہوتی تو کتنا بھتر تھا!!
((… ثم تفرقت بکم الطرق فیالیت حظی من اربع رکعات متقبلتان))
تاریخ طبری کے موٴلف کھتے ھیں :
جب ۲۹ ھ میں عثمان نے حج بیت اللہ کیلئے لوگوں کے ساتھ شرکت کی تو منیٰ میں خیمہ نصب کیا یہ پھلا موقع تھا کہ عثمان کے ذریعہ منیٰ میں خیمے لگائے گئے۔
اس کے بعد صاحب تاریخ طبری کھتے ھیں :
واقدی نے ابن عباس سے نقل کیا ھے: جب عثمان نے اپنی خلافت کے چھٹے سال میں بجائے قصر کے پوری نماز پڑھی جبکہ اپنی خلافت کے چار پانچ سال تک آپ بھی منیٰ میں چار رکعت نماز کو دو رکعت قصر پڑھتے تھے، تویھی پھلا موقع تھا کہ جب مسلمانوں نے اعلانیہ طور پر ان پرتنقید اور اعتراض کرنا شروع کیا اور بعض لوگوں نے خود حضرت عثمان سے اس بارے میں بات بھی کی،یھاں تک حضرت علی علیہ السلام تشریف لائے اور فرمایا: ” اے عثمان! ابھی عھد رسالت کو گزرے ہوئے زیادہ دن نھیں ہوئے ھیں ،تم خود منیٰ میں رسول (ص)کے ساتھ موجود تھے ،چنانچہ تم نے خود دیکھا کہ رسول اسلام(ص) منیٰ میں قصر نمازپڑھتے تھے اور یھی حال ابوبکر وعمر کے زمانے میں رھا ، حتی کہ تم خود منیٰ میں ابھی تک چار رکعتی نمازوں کو دو رکعت قصر پڑھتے رھے، لیکن اب تمھیں ایسا کیاہوگیا کہ تم نے اس حکم میں تبدیلی کردی ؟!!آخر تمھیں کیا ھو گیا کہ اپنی روش کو تبدیل کردیا؟!!عثمان نے کھا : میں نے مصلحت اس میں پائی اور یہ میری ذاتی رائے تھی جس پر میں نے عمل کیا۔“”فقال : راٴی راٴ یتہ“ (قال الواقدی )[155]
ایک موازنہ اور نتیجہ گیری
یہ تھے دس عدد وہ مقامات جھاں خلفائے ثلاثہ نے نص صریح کے مقابل میں اپنی رائے کا اظھار کیا اور حکم خدا و رسول کی اعلانیہ مخالفت کی !!المختصر یہ کہ حصول خلافت اور اس کی پشت پناھی کے یھی علل و اسباب اور حقائق تھے کہ جو صحیحین میں نقل ہوئے ھیں ۔
قارئین کرام !یہ اتنے واضحا ورروشن حقائق تھے کہ علامہ ابن ابی الحدید معتزلی بھی تسلیم کر نے پر مجبور ہوئے،چنانچہ ایک جگہ آپ حضرت علی (ع) اور دیگر خلفاء کے درمیان ایک موازنہ کرنے کے بعد اس طرح فرماتے ھیں :
” حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام رائے ،تدبیراور اجتماعی معاشرہ کو چلانے کے اعتبار سے تمام لوگوں کی نسبت بلند مقام کے حا مل تھے اور خلفائے ثلاثہ اس اعتبار سے آپ کا مقابلہ نھیں کرسکتے، کیونکہ حضرت علی (ع) ھی تھی نھوں نے خلیفہ ٴ دوم کی تمام مشکل -----امور میں مدد کی اور خصوصاً لشکر کشی کے بارے میں راهنمائی فرمائی،یہ علی (ع)ھی تھیجنھوں نے عثمان کو اپنی زرین نصیحتوں سے آگاہ کیا، اگر عثمان آپ کی نصیحتوں پر عمل کرتے تو کبھی بھی ان کے ساتھ قتل کا حا دثہ پیش نہ آتا۔“
اس کے بعد ابن ابی الحدید فرماتے ھیں :
”اگر چہ مسلمانوں کا ایک طبقہ اس بات کا قائل ھے کہ علی (ع) ثاقب الرائے اور صحیح تدبیر نہ رکھتے تھے!!لیکن ان کے اس قول کی وجہ یہ ھے کہ علی (ع) تمام احکام کو نافذکرنے میں قانون الہٰی کو مد نظر رکھتے تھے اور چھوٹے سے چھوٹے کا م کو بھی حکم خدا کے خلاف نھیں کرسکتے تھے اور آپ کے لئے تصور ھی نھیں ہوسکتا کہ دائرہ ٴاسلام سے خارج ہوں ،چنانچہ خو د حضرت علی (ع) کا فرمان ھے :
”اگر دین اور خوف ِخدا میرے پیش نظر نہ ہوتا تو میں دنیا ئے عرب کا زیرک ترین مرد ہوتا“
لیکن دیگر خلفاء اس محدودیت کے قائل نھیں تھے، بلکہ وہ آزاد انہ مصالحا لناس کو دیکھتے ہوئے اور اپنی مصلحت کو مد نظر رکھ کراقدام کرتے تھے اوروہ جس کام میں اپنی ترقی دیکھتے اس کو کرتے تھے چاھے یہ کام شرع کے مخالف ھو یا موافق انھیں احکام الہٰی کا کوئی پاس نہ تھا۔“
”وغیرہ من الخلفاء کان یعمل بمقتضی مایستصلحہ ویستوقفہ سواء کان موافقا للشرع ام لم یکن“
اس کے بعد ابن ابی الحدید اس طرح نتیجہ گیری کرتے ھیں :
”اس میں کوئی شک و شبہ نھیں کہ جو شخص زمانہ کی مصلحتوں کو دیکھ کر اپنی رائے اور اجتھاد کے مطابق عمل کرے اور اسلامی قوانین و حدود کا خیال نہ کرتا ہو، جو کہ اس کی دنیاوی ترقی سے مانع ہو،تو اس کی دنیا وی حا لت منظم ،پیشرفت اور ترقی یافتہ ہوگی اور وہ اپنے دنیاوی اھداف ومقاصد تک بہ آسانی پهنچ جائے گا،کیوکہ وہ آزاد ھو کر عمل کررھا ھے، اس کے سامنے کوئی موانع نھیں ھیں ، لیکن جو شخص چند ضوابط ا ورحدود میں میں ہویعنی جس کی نظر میں احکام الہٰی کا احترام ملحوظ ہو، ا س کی دنیاوی حا لت ظاھراً ترقی نھیں کر سکتی، یھی حال امیرالمومنین علی علیہ السلام کا ھے ۔ [156]
خاتمہ
صحیحین کی روشنی میں حضرت رسول(ص)خدا کی پیشگوئیاں
وفات رسول(ص)کے بعد مسلمانوں کا حال
آنحضرت صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے اپنی زندگی ھی میں ان تمام حوادث وواقعات کی پیش گوئی فرمادی تھی جو آپ کے بعد مسلمانوں کے درمیان رونما ہونے والے تھے۔
منجملہ: بنی امیہ کی ظالمانہ حکومت و سلطنت [157]خارجیوں کا وجود میں آنا اورپھر ان کا حضرت امیرالموٴمنین علی علیہ السلام کے ھاتھوں قتل ہونا[158] نیزجناب عمار یاسر کا ایک باغی گروہ کے ذریعہ قتل ہونا وغیرہ…۔[159]
خلاصہ یہ کہ وہ تمام مختلف قسم کی تحریفات اور بدعتیں جو دین اسلام میں آئندہ وجود میں آ نے والی تھیں ان کی خبر اور مسلمانوں کے ایک گروہ کے اسلام سے مرتد اور منحرف ہونے کی آگاھی آنحضرت (ص)نے مسلمانوں کو پھلے سے دیدی تھی اور اس بات پر اپنے عمیق تاٴسف اور شدید تاٴثرکا اظھار بھی فرمایاتھا، ان تمام واقعات کے شواھد صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں موجود ھیں ۔
چنانچہ گزشتہ مباحث کی مناسبت سے بعض مسلمانوں کے ارتداد اور ان کی طرف سے دین اسلا م میں تحریف اور بدعت گزاری سے متعلق ذیل میں چند روا یات صحیحین سے نقل کرتے ھیں :
بعض صحا بہ کا وفا ت رسول (ص)کے بعد مرتد ہوجا نا!!
۱۔”سعید بن جبیر عن ابن عباس عن النبی(ص)؛ قال:وان اناساً من اصحا بی یوٴخذ بھم ذات الشمال، فاقول:اٴصحا بی! اٴصحا بی! فیقول:انھم لم یزالوا مرتدین علی اعقابھم منذ فارقتھم ،فاقول:کما قال العبد الصالح: وکنت علیھم شھیداً ما دمت فےھم…۔ “
سعید بن جبیر نے ابن عباس سے روایت کی ھے:
آنحضرت(ص) نے فرمایا: ایک گروہ میرے صحا بہ میں سے سمت شمال میں ہوگا[160]ان کی حمایت کی خاطر بارگاہ الہٰی میں عرض کروں گا ،میرے معبود یہ میرے صحا بہ ھیں یہ میرے صحا بہ ھیں ؟!خدا میریجواب میں کھے گا:اے میرے رسول(ص)!تیری وفات کے بعد یہ لوگ الٹے پیر اپنے پرانے دین ِجاھلیت کی طرف پلٹ گئے تھے ،اس وقت میں نبدہ ٴصالح عیسی (ع) کے قول کو دھراوٴں گا : میرے معبود! جب تک میں ان کے درمیان تھاان کے اعمال کا شاھد وناظر تھا ،لیکن جب مجھے تونے اپنی بارگاہ میں بلالیا ،تواب تو خود ھی ان کے اعمال کا مراقب وناظر ھے ،لہٰذا اگر ان پر عذاب نازل کرے گا تو میرا کچھ نھیں کیونکہ یہ تیرے بندے ھیں اگر تو ان کو معاف کر دے گا تو توُخدا ئے قوی و حکیم ھے ۔[161]
صحیح مسلم میں جوحدیث مندرج ھے اس میں بجائے:
”انھم لم یزالوامرتدین“جملہٴ”انک لاتدری ما احدثوابعدک“ آیا ھے:
خدا کھے گا:اے میرے رسول (ص)!تجھے کیا معلوم انھوں نے تیری وفات کے بعد کیا کیا کرتوت کئے ؟!
صحیح بخاری اور مسلم کی ایک اور حدیث میں اَصحا بی کے بجائے ” اُصَیحا بی“کا لفظ استعمال ہوا ھے، جو عربی گرامر کے لحا ظ سے کمالِ محبت والفت یا شدیدتحقیر وتوھین پردلالت کرتا ھے،کیونکہ صیغہٴ تصغیر دونوں (محبت و توھین )کے لئے استعمال ھو تا ھے ،یعنی جن کے لئے رسول(ص)سفارش کریں گے ،وہ رسول(ص)کی نظر میں بیحد محبوب تھے ،یا پھر وہ آنحضرت (ص)کے نزدیک بھت زیادہ حقیر تھیجن کے اخلاق وکردار سے آپ (ص)راضی نہ تھے اوررضایت کے بغیر آپ(ص) نے وفات پائی۔
۲۔…”ابن ابی ملیکة؛قال:عن اسماء بنت ابی بکر؛قالت:قال النبی(ص):انیّ علیٰ الحوض حتی انظر من یرد علَّی منکم،وسیوخذ الناس دونی،فاقول:یارب منّی ومن امتی! فیقال:ھل شعرت ماعملوابعدک؟والله ما برحوا یرجعون علیٰ اعقابھم،فکان ابن ابی ملیکة یقول:اللّٰھم انا نعوذبک ان نرجع علیٰ اعقابنا اونفتن فی دیننا۔ “
ابن ابی ملیکہ اسماء بنت ابوبکر سے نقل کرتے ھیں :
رسول(ص)خدا نے فرمایا: میں روزمحشر حوض کوثر پر کھڑا ھو جاوٴں گاتاکہ ان لوگوں کو دیکھوںجو میرے پاس وارد ہوں گے ،لیکن کچھ لوگ ایسے ہوں گیجن کو میرے پاس سے پکڑلیا جائے گا،پس میں خد ا سے عرض کروں گا ،اے میرے پروردگار !یہ میرے خاص ا صحا ب اور میری امت سے ھیں ” فاقول یا رب منّی ومن امتی“ تو خدا کھے گا:(اے میرے حبیب)تمھیں نھیں معلوم تیرے بعد انھوں نے کیا کیا کرتوت کئے؟! قسم بخدا یہ اپنے آبائی دین جاھلیت کی طرف پلٹ گئے تھے!!
اورابن ملیکہ اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد کھا کرتے تھے : پروردگار ا! میں تیری پناہ چاھتا ہوںاس سے کہ میں اپنے پرانے دین کی طرف پلٹ جاوٴں ،یا اپنے دین میں محل آزمائش قرار پاوٴں ۔ [162]
جیساکہ ھم نے عرض کیا: اس حدیث کو بخاری نیجلد۸۔۹ میں بھی تھوڑے فرق کے ساتھ نقل کیا ھے چنانچہ ھم دونوں موارد کو ذیل میں نقل کرتے ھیں ملاحظہ ہو:
۳۔…”عن ابی ھریرة؛عن النبی؛(ص)قال:بینا اناقائم اذازُمرةٌ،حتّی،ٰاذا عرفتھم خرج رجل من بینی وبینھم، فقال: ھلم، فقلت:این ؟قال: الیٰ الناروالله ،قلت وما شانٴھم؟ قال:انھم ارتدُّوابعدک علیٰ ادبارھم القھقرَی۔ثم اذا زمرةحتیٰ ٰاذا عرفتھم،خرج رجل من بینی وبینھم فقال:ھَلُمَّ ،قلت: این؟ قال: الیٰ النار والله ،قلت وماشاٴنُھم؟ قال انھم ارتدوا بعدک علیٰ ادبارھم القھقری…۔.[163]
ابو ھریرہ سے منقول ھے:
آنحضرت نے فرمایا :ایک روز میں نے خواب میں ایک گروہ کو دیکھا،جو میرے پاس لایا گیا ،جیسے ھی میں نے ان کو پہچانا تو ایک شخص ھمارے اور ان لوگوں کے درمیان سے ظاھر ہوااور ان لوگو ں سے کهنے لگا: جلدی آوٴ میں نے کھا:انھیں کھاں لیجارھا ھے ؟کهنے لگا :قسم بخد اان کو جهنم (آتش)کی طرف لیجارھا ہوں، میں نے کھا:آخر انھوں نے کیا گناہ انجام دیا ھے ؟!کهنے لگا :یہ آپ کے بعد الٹے پاوٴں پیچھے پلٹ گئے تھے !!اس کے بعد رسول(ص)نے فرمایا:پھر دوسرا گروہ دیکھا جب میں نے ان کو پہچاناتو ایک شخص ھمارے اور ان کے درمیان سے نکلااوراس گروہ کو مخاطب قراردے کر کهنے لگا:جلدی آوٴ ،جلدی آوٴ، میں نے اس سے کھا :کھاں لیجارھاھے؟ وہ کھتا ھے : ان کو میں آگ (جهنم )کی طرف لیجارھاہوں ،تو میں نے کھا :آخر انھوںنے کیا گناہ انجام دیا ھے ؟ تو کهنے لگا: وہ آپ کے بعد الٹے پاوٴں پلٹ گئے تھے اور مذھب اسلام سے بالکل پھرگئے تھے۔
۴۔…” عن ابن شھاب عن ابن المسیب؛انہ کان یحدِّث عن اصحا ب النبی(ص)؛ ان النبی(ص)قال: یرد علی الحوض رجال من اصحا بی، فَیُحَلَّوُٴونَ عنہ، فاقول: یا رب اصحا بی؟ فیقول: انک لاعلم لک بما احدثوا بعدک، انھم ارتدوا علیٰ ٰادبارھم القھقری؟!!“ [164]
ابن مسیب سے مروی ھے:
صحا بہ کے ایک گروہ نے رسول(ص)سے نقل کیا ھے : آپ نے فرمایا: میرے صحا بہ میں سے کچھ ایسے ہوں گیجو بروز محشر حوض کوثر پر وارد ہونا چاھیں گے،لیکن ان کوروک لیا جائے گا ، میں کہوں گا:میریمعبود! یہ میرے اصحا ب ھیں ان کو کیوں روکا جارھا ھے ؟! توخدا جواب دے گا :اے میرے رسول(ص)! تم نھیں جانتے انھوں نے تمھارے بعد کیاکیاانجام دیا ؟!اے رسول !یہ وہ لوگ ھیں جنھوں نے دین اسلام کو تمھارے بعد ترک کردیا اور اپنے آباء واجداد کے مذھب پر پلٹ گئے تھے ۔
-----------------------------------------------------
[112] فتح ا لباری جلد۹،کتاب النکاح ، باب ”نھی النبی(ص) عن النکاح ا لمتعة اخیراً “ ص۱۴۵،۱۴۸۔مصنف ابن حجر عسقلانی ۔
[113] تفسیر المنار جلد۵، سورہ ٴ نساء آیت ۲۳_ ۲۸۔
[114] گزشتہ مباحث کی روشنی میں یہ بات کہنا بیجا نہ ہوگا کہ کتب تواریخ واحادیث سے قطعی اور یقینی طورپر ثابت ھے کہ حضرت رسالتمآب (ص)اور خلفاء کے زمانہ میں حکم متعہ پر مسلسل عمل ہوتا رھا ،تواب حکم متعہ پر اعتراض کرنا گویا شریعت محمدی پر اعتراض کرنا ھے ،جس سے خود معترض کی شخصیت مجروح ہوتی ھے ،دوسرے کا کچھ نھیں بگڑتا ! کیا مزے کی بات ھے کہ موصوف عورت کی عزت بچانے کے لئے کوشاں ھیں ! لیکن اس سے غافل ھیں کہ اس اعتراض سے خود ان کی عزت داوٴں پر لگی ہوئی نظر آتی ھے !!مترجم۔
[115] الوشیعہ ،موٴلفہ موسی جارالله ، ص۱۲۱۔۱۳۲۔
[116] سورہٴ بقرہ ،آیت ۷۹ ،پ ۱۔
[117] الفصول المھمة فی تالیف الامة ، ”فی تحریر محل النزاع فی متعة النساء …“ ص ۵۰۔
[118] محترم قارئین! گزشتہ مباحث کی روشنی میں آلوسی صاحب کا مذکورہ نظریہ ہوا میں تیر مارنے کے مترادف ھے ،نہ جانے کیا موصوف کو دورہ آیا تھا کہ متعہ ٴدوری شیعہ کتب میں نظر آگیا؟!بتایئے کتب تاریخ وحدیث کو جانتے ہوئے موصوف کا قول کتنا تعصب آمیز اورحقیقت سے دور ھے ، آلوسی کو اپنے بے بنیاد الزام، برھنہ کذب، فحا ش تھمت اور صریحا فترا پردازی پر ذرہ برابر شرم بھی نہ آئی؟ ! (حیرتم بر این عقل ودانش!!)ذراھم بھی اس شیعہ موٴرخ کا نام و پتہ جاننا چاھتے ھیں جس نے متعہ کی یہ صورت بیان کی ھے ؟!! اگر اس طرح کی بے سرو پا افتراپردازی کا دروازہ اپنے گھنونے تعصب کی بنا پر بدون ِتحقیق و تفحص ، مذھب حقہ شیعہ اثنا عشری کے لئے باز کیا تو پھر سمجھ لیجئے ھم وہ سارے حقائق کھول کر رکھ دیں گیجن کو آپ کے موٴرخین نے تاریخ کے اوراق میں چھپا رکھا ھے!کیا آپ ان آباوٴو اجداد اور امھات کو بھول گئیجن کے دروازے پر فحا شیت کے لال
جھنڈے لھرایاکرتے تھے ؟قارئین کرام میرا خطاب جناب آلوسی اور ان کی اندھی تقلید کرنے والوں سے ھے غیر سے نھیں !!مترجم۔
[119] سورہٴ یونس، آیت ۶۵، پ ۱۱۔
[120] الفتاوی،زواج المتعة ”اساس الزواج فی القرآن “ص۲۷۳ ۔
[121] سورہ ٴجاثیہ ،نمبرآیت ۲۳،پ۲۵۔ ترجمہ :۔ بھلا تم نے اس شخص کو دیکھا جس نے اپنی نفسانی خواھش کو معبود بنا کر رکھا ھے اوراس کی حا لت سمجھ بوجھ کر خدا نے اسے گمراھی میں چھوڑ دیا ھے اور اس کے کان اور دل پر علامت مقدر کر دی ھے ، نہ یہ ایمان لائے گااور اس کی آنکھ پر پردہ ڈال دیا ھے ،پھر خدا کے بعد اس کی ھدایت کون کر سکتا ھے ؟تو کیا تم اتنا بھی غور نھیں رکھتے ۔
[122] صحیح بخاری ج ۳،کتاب الصوم ،کتاب الصلٰوةالتراویح ،باب(۱) ”فضل من قام رمضان “ح ۱۹۰۶۔
[123] صحیح بخاری ج۳،کتاب الصوم (کتاب الصلواةالتراویح ) باب ”فضل من قام رمضان“ ح۳۷۔ مسلم ج۲،کتاب الصلٰوةالمسافرین ، باب” ا لتر غیب فی قیام رمضان“حدیث۷۵۹۔
[124] الطبقات؛ ابن سعد ج ۳، ذکر استخلاف عمر،ص۱۸۱۔ مطبوعہ: لندن۔
[125] ارشاد الساری ج۳،کتاب الصوم باب ” فضل من قام رمضان “ ص۴۱۵۔
[126] تاریخ یعقوبی جلد۲، ص۱۴۰، ایام عمر بن الخطاب ، مطبوعہ: بیروت لبنان۔
[127] تاریخ الخلفا ء، ص۱۳۱،فصل فی خلافة عمر ، موٴلفہ علامہ جلال الدین سیوطی۔
[128] کتاب سلیم بن قیس ،ص۱۶۳۔
[129] شرح نہج البلاغہ جلد ۱۲،خطبة ۲۲۳،صفحہ ۲۸۳۔
[130] عمدة القاری جلد ۱۱،کتاب الصوم ، باب ”فضل من قام رمضان“ ۔
[131] سورہٴ بقرہ، آیت ۲۲۹،۲۳۰۔
[132] تفسیر کشاف جلد۱،تفسیر سورہٴ بقرہ، آیت ۲۲۹ص۳۶۶۔
[133] صحیح مسلم جلد ۴،کتاب الطلاق ،باب(۲) ”الطلاق الثلاث“حدیث۱۴۷۲ ۔
[134] صحیح مسلم جلد ۴،کتاب الطلاق ،باب(۲) ”الطلاق الثلاث“حدیث۱۴۷۲ ۔
[135] بد ا یةالمجتھد کتاب الطلاق، مسئلہ۱۔
[136] الفقہ علی المذاھب الاربعة جلد ۴،مبحث تعدد الطلاق۔
[137] بدایہ المجتھد، کتاب الطلاق ،مسئلہ ۳۔
[138] الفقہ علی المذاھب الاربعة جلد ۴، مبحث تعدد الطلاق۔
[139] تفسیر المنار جلد ۲،سورہ بقرة آیت ۲۲۹۔
[140] الفتاویٰ،”الحلف بالطلاق“صفحہ ۳۰۵۔
[141] صحیح بخاری جلد ۴،کتاب المناقب، باب” علامات النبوة فی الاسلام “حدیث۳۴۳۱۔
[142] صحیح بخاری جلد ۲،کتاب الجنایز، باب” قول النبی:اِ ناَّ بِکَ لَمَحْزُوْنوُن“ ۔حدیث۱۲۴۱۔۱۱۸۹، مترجم:(صحیح بخاری جلد ۲،کتاب الجنایز،باب(۴) ” الرجل ینعیٰ الیٰ اھل ا لمیت بنفسہ“حدیث۱۲۴۵۔جلد۳،کتاب الجھاد، باب” تمنی الشھادة“ حدیث ۲۶۴۵،باب ”من تاٴمر فی العرب من غیر امرة اذاخاف العدو“حدیث ۲۸۹۸۔ کتاب فضایل الصحا بة، باب ”مناقب خالد بن الولید رضی الله عنہ“ حدیث ۳۵۴۷۔ جلد ۴ ،کتاب المغازی، باب ”غزوةالموة من ارض الشام“ حدیث ۴۰۱۴۔)
[143] مسلم ج۳،کتاب الجنایز، باب” استیندان النبی ربہّ فی زیارت قبر امہ“حدیث ۹۷۶۔
[144] صحیح بخاری :جلد۲،کتاب الجنایز، باب” قول النبی (ص)یعذب ا لمیت ببعض بکاء ا ھلہ علیہ“حدیث ۱۲۲۴،باب ”البکاء عند المریض“حدیث ۱۲۲۵۔مترجم:( صحیح بخاری ،جلد۲، کتاب المرضیٰ ، باب( ۹)”عیادة الصبیان“ حدیث ۵۳۳۱۔ جلد ۶ ،کتاب الایمان و النذور، باب( ۹)”قول الله تعالی:ٰ واقسمو اباالله جھدا ایمانھم“(سورہ انعام ،آیت ۱۰۹)حدیث ۶۲۷۹۔ کتاب التوحید، باب( ۲)”قول الله تعالیٰ: قل ادعوا الله “(سورہٴ اسراء ،آیت۰ ۱۱)حدیث ۶۹۴۲، باب( ۲۵)”ما جاء فی قول الله : ان رحمة الله قریب من المحسنین“( سورہٴ اعراف،آیت ۵۶) حدیث ۷۰۱۰۔ جلد ۳ ،کتاب المناقب، باب” علامات النبوة فی الاسلام “حدیث ۳۴۲۷، ۳۵۱۱۔۵۹۲۸۔۴۱۷۰۔۳۰۴۸۔)
[145] صحیح بخاری جلد ۲،کتاب الجنایز ،باب ”البکاء عند المریض“ حدیث۱۲۲۴۔
صحیح مسلم جلد ۳،کتاب الجنایز ،باب” البکا ء علی ا لمیت“ حدیث۹۲۳۔۹۲۴۔
[146] صحیح بخاری جلد۳،کتاب الخصومات، باب(۱)” اخراج اھل المعاصی والخصوم من البیوت بعد المعرفة“(اول باب ،حدیث نمبر نھیں ھے)۔
[147] مسند احمد بن حنبل جلد ۱،مسند عبد الله ابن عباس ، ص۳۳۵۔
[148] الطبقا ت؛ ابن سعد ج ۳ ، ، خنیس بن حذافة ص۲۹۹۔
[149] مسند احمد بن حنبل جلد۲،مسند ابی ھریرة ص۳۳۳۔
[150] شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید،جلد۱،خطبة شقشقیة ، (حتی مضی الاول لسبیلہ ، کے بعد )ص۱۸۱۔
[151] وَإِذَا ضَرَبْتُمْ فِی الْاٴَرْضِ فَلَیْسَ عَلَیْکُمْ جُنَاحا ٴَنْ تَقْصُرُوْا مِنْ الصَّلاَةِ إِنْ خِفْتُمْ اٴَنْ یَفْتِنَکُمُ الَّذِینَ کَفَرُوْا إِنَّ الْکَافِرِیْنَ کَانُوْا لَکُمْ عَدُوًّا مُبِیْنًا (سورہ نساء آیت ۱۰۱)
[152] صحیح مسلم جلد۲،کتاب صلوٰةالمسافرین، باب(۱)”صلوٰة المسافرین و قصرھا“حدیث۶۸۷۔
[153]صحیح بخاری: جلد۲،کتاب الصلٰوة ابواب التقصیر،باب(۲) ”الصلوٰة بمنیٰ“حدیث ۱۰۳۲،باب (۱۱)حدیث۱۰۵۱۔ جلد۲،کتاب الحج، باب” الصلوٰة بمنی“ حدیث۵۷۲۔
صحیح مسلم جلد۲،کتاب صلوٰة المسافر ین، باب” قصرالصلوٰة بمنی“حدیث۶۹۴۔۶۹۵۔ ۶ ۹ ۶ ،(معہ متعد د اسنادوطرق) ۔
[154] صحیح بخاری: جلد۲،کتاب الصلٰوة ابواب التقصیر،باب(۲) ”الصلوٰة بمنیٰ“حدیث ۱۰۳۲،باب (۱۱)حدیث۱۰۵۱۔ جلد۲،کتاب الحج، باب” الصلوٰة بمنی“ حدیث۵۷۲۔
صحیح مسلم جلد۲،کتاب صلوٰة المسافر ین، باب” قصرالصلوٰة بمنی“حدیث۶۹۴۔۶۹۵۔ ۶ ۹ ۶ ،(معہ متعد د اسنادوطرق) ۔
[155] تاریخ الطبری جلد ۳،” ذکر الخبر عن سبب عزل عثمان …“ حوادث ۲۹ھ ،ص ۳۲۲ ۔
[156] شرح نہج البلاغہ، جلد۱،صفحہ ۲۸،خطبة (۱)مصنفہ ابن ابی الحدید معتزلی۔
[157] صحیح بخاری ،جلد۴،کتاب المناقب،باب(۲۵)” علامات النبوة فی الاسلام“حدیث ۳۴۰۹،۳۴۱۰۔ جلد۹،کتاب ا لفتن، باب(۳)” قول النبی (ص):ھلاک امتی علیٰ یدی اغیلمة سفھاء“ح ۷۰۵۸۔
[158] صحیح بخاری ،جلد۴،کتاب المناقب،باب(۲۵)” علامات النبوة فی الاسلام“حدیث۳۶۱۰،۳۶۱۱۔
صحیح مسلم جلد۳،کتاب الزکٰاة،باب(۴۸)”التحریض علیٰ قتل الخوارج“حدیث۱۰۶۶۔
مترجم: (صحیح بخاری ج۴،کتاب الادب، باب(۹۵)” ماجاء فی قول ا لرجل !ویلک“ ح۵۸۱۱۔صحیح بخاری ج۴،کتاب التفسیر(فضائل القرآن)،باب(۳۶)” اثم من راٴی بقرآئةالقرآن اوتاکل بہ اوفخر بہ “ ح ۴۷۷۰،۴۷۷۱۔ ج ۶،کتاب استتابة المرتدین والمعاندین، با ب(۶)” قتل
[159] ا لخوارج والملحد ین بعد اقامةالحجةعلیھم“ حدیث ۶۵۳۱،۶۵۳۲،۶۵۳۳،باب(۷) ”من ترک قتال الخوارج للتاٴ لّف“ حدیث۶۵۳۴،۶۵۳۵۔
(۳)صحیح بخاری،ج۱،کتابالصلاةابواب المسجد، باب(۶۳)”التعاون فی بناء المسجد“ح۴۴۷۔صحیح مسلم ج۸،کتاب الفتن ،باب(۱۸)” لاتقوم الساعة حتیٰ یمرالرجل بقبرالرجل“ح ۲۹۱۶،۲۹۱۵۔
مترجم : صحیح بخاری جلد ۳،کتاب الجھاد، باب(۱۷) ”مسحا لغبارعن الناس فی السبیل “حدیث ۲۶۵۷۔
[160] اصحا ب شمال کا ذکر سورہ واقعہ میں بھی ہوا ھے:
<وَاَصْحا بُ الشِّمَاْلِ مَا اَصْحا بُ الْشِّمَاْ لِ.فِیْ سَمُوْمٍ وَّحَمِیْ. وَّظِلٍّ مِّنْ یَّحْمُوْمٍ. لابَارِدٌ وَّلاکَرِیْمٌ >
تر جمہ : اور بائیں ھاتھ میں نامہ اعمال لینے وا لے ھائے افسوس بائیں ھاتھ والے کیامصیبت میں ھیں دوزخ کی لو اور کھولتے ہوئے پانی اور سیاہ کالے دھوئیں کے سایہ میں ہوں گیجو نہ ٹھنڈا رھے اور نہ خوش آئند۔سورہٴ واقعہ،پ۲۷۔
[161] صحیح بخاری جلد۴،کتاب الانبیاء،باب(۱۱) ”واتخذالله ابراھیم خلیلا“(آیت۱۲۵) حدیث۳۱۷۱، باب ”واذکر فی الکتاب مریم“(آیت ۱۶)حدیث۳۲۶۳ ۔ جلد۶،کتاب التفسیر،تفسیرسورة مائدة ،باب” وکنت علیھم شھداء“( آیت ۱۱۷)حدیث۴۳۴۹۔۴۳۵۰، تفسیرسورہٴ الانبیاء(آیت۱۰۴)حدیث۴۴۶۳ ۔ جلد ۸،کتاب الرقاق، باب” کیف الحشر“ حدیث۶۱۶۱۔ صحیح مسلم جلد۸،کتاب الجنةوصفة نعیمھا، باب(۱۴)”فناء الدنیا وبیان الحشر“ حدیث۲۸۶۰۔
[162] صحیح بخاری جلد۸،کتاب الرقاق،باب(۵۳)” فی الحوض“حدیث ۶۲۲۰۔ جلد۹،کتاب الفتن ،(۱) ”ماجاء فی قول الله :<واتقوافتنةلا تصیبن الذین ظلموامنکم خاصة> حدیث۶۶۴۱۔
صحیح مسلم جلد۷،کتاب الفضایل، باب(۹)” اثبات حوض نبینا“ حدیث۲۲۹۳،۲۲۹۴،۲۲۹۵وغیرھم۔
[163] صحیح بخاری جلد۸،کتاب الرقاق، باب(۵۳) ”فی الحوض “حدیث۶۲۱۵۔
[164] صحیح بخاری جلد۸،کتاب الرقاق باب(۵۳)” فی الحوض“حدیث۶۲۱۳،۶۲۱۴۔
|