عرض موٴلف
ھم نے اس حدیث کو ابن ماجہ سے نقل کیا ھے البتہ مختصر سے فرق کے ساتھ صحیح بخاری اور مسلم میں بھی ھے ۔ صحیح مسلم میں اس طرح آ یا ھے :
…”عن جابر بن عبداللّٰہ؛ قال: اھللنا مع رسول اللہ (ص)بالحج، فلماقدمنامکةامرناان نَحِلّ ونجعلھاعمرة، فَکَبُر ذالک َعلینا وضاقت[61] بہ صدورُنا، فبلغ ذالک النبی،(ص)فماندری اٴَشَیٴ ٌبلغہ من السماء ام شیٴٌ من قِبَل الناس! فقال: ایھاالناس! اَحِلُّوافلولاالھدی الذی معی فعلت کمافعلتم، قال: فاحللناحتیٰ وطِئَناَالنساء، وفعلنامایفعل الحلال، حتیٰ اذاکان یوم الترویةِ ،وجعلنامکّة بظھرٍ،اھللنا بالحج “[62]
جابر بن عبداللہ سے منقول ھے :
ھم نے آنحضرت (ص)کے ساتھ حج کے لئیاحرام باندھا اور جب مکہ وارد ہوئے تو رسول اکرم(ص)نے حکم دیا : اس احرام کو احرام عمرہ قرار دے دیں اور اس طرحا حرام سے محل (خارج)ھو جائیں ۔
جابر کھتے ھیں : یہ حکم ھم لوگوں پر گراں گزرا اور ھم لوگوں کے سینے اس کی وجہ سے تنگ ہوگئے۔”وضاقت بہ صدورُنا“
ادھر رسول (ص)خدا کو اس کی اطلاع مل گئی ،پتہ نھیں اس بات کی اطلاع آپ(ص) کو آسمان سے پهنچی یا ھم لوگوں میں سے کسی نے بتلادیا،بھر حال اس وقت آنحضرت (ص)نے فرمایا :اے لوگو ! احرام سے خارج ہوجاوٴ!اگر میرے ساتھ یہ قربانی نہ ہوتی تو میں بھی تمھاری طرحا حرام سے خارج ہوجاتا۔جابر کھتے ھیں :ھم تمام لوگ احرام سے خارج ہوگئے، یھاں تک کہ ھم لوگ اپنی اپنی بیویوں سے بھی ھم بستر ہوئے اور وہ تمام کام انجام دئے ،جو غیر محرم افراد انجام دیتے ھیں ،یھاں تک کہ روز ترویہ آگیااورھم نے مکہ کو عرفات جانے کے قصد سے ترک کیا اور حج کے لئے احرام باندھا ۔
خلاصہٴ کلام یہ ھے کہ چونکہ افراد کی زمانہٴجاھلیت کی ذهنیت بن چکی تھی کہ جس نے شوّال، ذیقعدہ اور ذی الحجہ میں احرام باندھ لیا وہ حق نھیں رکھتا کہ محرمات ِ احرام کو انجام دے، خصوصاًعورتوں سے ھمبستر ہون ا سخت ممنوع ھے ،جب تک کہ وہ اعمال حج کو تمام کر کے احرام حج سے خارج نہ ھو جائے ، اس لئے انھوں نے یہ اعتراض کیا : ”اننطلق ومذاکیرنا تقطر“ آیا ھم اس حا لت میں خارج ہوں کہ ھمارے اعضائے تناسل سے منی ٹپکتی ھو ؟! ! اور کچھ افراد نئے حکم کو قبول کرنے سے ھی کترارھے تھے ،یھاں تک کہ رسول(ص)ان کی اس روش سے ناراض و آزردہ خاطر ہوئے چنانچہ عائشہ اس بارے میں ناقل ھیں :
…”عن عائشة؛انھا قالت :قدم رسول (ص)لاربع مضین من ذی الحجة اوخمس،فدخل علی وھوغضبان، فقلت: من اغضبک یارسول اللّٰہ !ادخلہ الله النار، قال: اوما شعر ت انی امرت الناس بامرٍفاذاھم یترددون…!!؟[63]
جب رسول خدا (ص)ذی الحجہ کی چوتھی یاپانچویں تاریخ میں وارد مکہ ہوئے تو میں (عائشہ )نے ناگاہ دیکھا کہ رسو ل غضبناک اور آزردہ خاطر میرے پاس آ ئے، میں نے کھا :یارسول اللہ! خدا واصل جهنم کرے اس شخص کو جس نے آپ کو ناراض کیا،آخرآپ کو غضبناک کیوں دیکھ رھی ہوں؟ “ رسول(ص)نے فرمایا : اے عائشہ! کیا تم نھیں دیکھ رھی ھو کہ میں ان لوگوں کو حکم دے رھاہوںاور یہ لوگ اس حکم کے قبول کرنے میں آنا کانی کررھے ھیں؟!![64]
حج تمتع کی تحریم کا فتویٰ
جیسا کہ مذکورہ مباحث میں ھم نے اشارہ کیاکہ جب حج تمتع کا حکم آیا تو بعض مسلمانوں پر یہ حکم گراں گزرا،لیکن رسول (ص)نے اپنی بے پایان جد و جھد کے بعد اس حکم کو نافذاور عملی جامہ پهنادیا، تااینکہ یہ حکم خلیفہ اوّل ابوبکر کے دور خلافت میں نافذالعمل رھا ،مگر خلیفہ ٴ دوم حضرت عمر کے دور خلافت میں اس کو ممنوع قرار دے دیا گیا اور مخالفت کر نے والوں کو سخت سزا کی دھمکی دی گئی ، اس بارے میں کتب صحا ح و سنن کے علاوہ تاریخی اور رجال کی کتابو ں میں بھی بھت زیادہ روایات پائی جاتی ھیں ، چنانچہ چند روایات بطور نمونہ صحیحین سے نقل کرتے ھیں :
۱۔…”قال عمران بن حصین:نزلت آیة المتعة فی کتاب اللّٰہ(یعنی متعة الحج) وامرنا بھا رسول(ص) اللّٰہ، ثم لم تنزل آیة تنسخ آیةمتعةالحج،ولم ینہَ عنھا رسول(ص) الله حتیٰ مات، قال:رجل برایہ بعدُماشاء“[65]
عمران بن حصین سے منقول ھے :
جب آیہ ٴ حج تمتع قرآن مجید میں نازل ھو ئی توآنحضرت (ص)نے ھم کو اس حج کے انجام دینے کا طریقہ بتلایا،اس کے بعد نہ اس حکم کے نسخ کے بارے میں کوئی آیت نازل ہوئی اور نہ ھم کو رسول(ص) نے منع فرمایا ،یھاں تک کہ رسول کی وفات ِ حسرت آیات واقع ہوگئی،اس کے بعد ایک مرد نے اپنی خواھشات نفسانی سے اس میں جو چاھا کیا(یعنی ا س حکم کو انجام دینا حرام قرار دے دیا )!
۲۔…”عن ابی نضرة ؛قال:کنت عند جابر بن عبدالله ،فاتاہآ ت،فقال:ابن عباس وابن الزبیراختلفا فی المتعتین(متعة الحج ومتعةالنساء)،فقال جابر:فعلنا ھما مع رسول ا(ص)لله،ثم نھا ناعنھماعمرفلم نَعُدْلَھُما“[66]
امام مسلم نے ابی نضرہ سے نقل کیاھے :
میں جابر بن عبداللہ کے پاس تھا کہ ایک شخص آیا اور کهنے لگا :ابن عباس اور ابن زبیر متعة الحج اور متعةالنساء کے بارے میں اختلاف کرتے ھیں ، (حقیقت کیا ھے؟) جابر نے کھا :ھم لوگ رسول(ص)کے زمانہ میں دونوں کو انجام دیتے تھے،لیکن عمر نے اپنے دور حکومت میں اس سے منع کردیا،لہٰذا ھم نے بھی اس کے بعد اعادہ نھیں کیا۔
۳۔…”عن مُطَرَّف؛قال:بعث اِلیٰ عمران بن حُصَین فی مرضہ الذی تُوُفِّی فیہ، فقال:انی کنت مُحدِّثُک باحادیث لعل اللّٰہ ان ینفعک بھابعدی،فان عشتُ فاکتم عنی،وان ُمتُّ فحدِّ ثْ بھا ان شئت،انہ قد سُلِّم عَلَی،َّواعلم ان نبی(ص)اللّٰہ قدجَمَعَ بین حج وعمرة،ثم لم ینزل فیھا کتابُ اللّٰہ ولم ینہَ عنھا النبی(ص) اللّٰہ، قال رجل فیھا برایہ ماشاء“[67]
مطرف سے منقول ھے:
جب عمران بن حصین مریض تھے اور انہوں نے اسی مرض میں وفات پائی تو انھوں نے مجھے اپنے پاس بلا بھیجا اور کھا : اے مطرف! میری موت اب حتمی اور :یقینی ھو چکی ھے ،لہٰذا چاھتا ہوں کہ چند موضوعات کی طرف تمھیں متوجہ کر دوں ،شاید میرے مرنے کے بعد تمھارے لئے مفید ثابت ہوں ، اگر میں زندہ رہ گیاتو اس کو مخفی و پنھاںرکھنا اوراگر میں اسی مرض میں دنی ا سے چلا گیا تو ظاھر کرنے میں کوئی حرج نھیں ، اے مطرف! آگاہ ھو جا وٴکہ رسول(ص) نے حج وعمرہ کو ایک سال میں جمع کیا ، اس کے بعد اس کی ممنوعیت میں نہ کوئی آیت نازل ہوئی اور نہ خود آنحضرت (ص)نے منع فرمایا ، لیکن رسول(ص)کی وفات کے بعد ایک مرد نیجو چاھا،اس میں اپنی طرف سے تبدیلی کردی![68]
عرض موٴلف
مذکورہ روایت سے عمر کی زبانی تحریم تمتع کے علاوہ دو باتوں کا مزید استفادہ ہوتا ھے:
اول یہ کہ عمران نے بھت سے حساس موضوعات مطرف کے حوالے کئے تھے ،لیکن دیگر موضوعات فرامو ش کردئے گئے!! اور روایت میں صرف حج تمتع کا ذکر آیا ھے ۔
دوم یہ کہ زمانہ اس قدر پر آشوب اور پر خطر تھا کہ کسی کو حق بیان کرنے کی آزادی نھیں تھی اور مجبورتھے کہ خلفائے وقت کے سامنے خاموش رھیں ، جو وہ کھیں اسے بغیر چون چرا تسلیم کرلیں اور ان کی حا کمیت کے سامنے کوئی رد عمل ظاھر نہ کریں،حقائق کو خلفا ء کے فائدہ میں پنھا ں رکھا جائے، لہٰذا عمران نے کھا: ” اگر میں زندہ رھا توان باتوں کو کسی سے مت کهنااور اگر مر گیا تو دوسروں کو بتانے میں کوئی حرج نھیں “ اس سے ثابت ہوتا ھے کہ خلفا ء کے زمانہ میں ظلم اس قدر بڑھ گیا تھاکہ رسول (ص)کے معزز صحا بہ بھی زبان کشائی سے ڈرتے تھے!!
بھر حال اس میں کوئی شک و شبہ نھیں کہ ،حضرت عمر نے اپنے دور حکومت میں اعلانیہ طور پر کہہ دیاتھاکہ عھد رسالتمآب(ص) میں دو متعہ (متعةالحج و متعة النساء)تھے ،لیکن میں ان کو حرام قرار دیتا ہوں ،آئندہ اگر کسی نے ان کو انجام دیا تو میں اس کو سخت سزا دوں گا:
((متعتان کانتا علی عھد رسول(ص) الله ،وانا انھی عنھما واعاقب علیھما متعة الحج ومتعة النساء))[69]
یہ مطلب متعددکتب تاریخ ، حدیث،تفسیرو رجال میں موجود ھے، چنانچہ مسند احمد ابن حنبل جلد ۱،ص۵۲ میں بھی موجود ھے لیکن حسب معمول یہ جملہ ”وانا انھی عنھا“ حذف کردیا گیا ھے ۔
حج تمتع کی تحریم کا فتویٰ کیو ں د یا گیا ؟!
ممکن ھے کہ کسی کے ذهن میں یہ سوال اُبھر آئے کہ آنحضرت (ص)کے بعد حج تمتع کو انجام دینے سے آخر کیوں خلیفہ صاحب نے روکا ؟کیوں حرمت کا فتویٰ صادر کیا ؟آخر اس کی کیا وجہ ھے ؟ خلیفہ صاحب کا اس سے کیا مقصدھو سکتا تھا ؟
اس سوال کا جواب خود متن روایات سے ھی مل جاتاھے اور وہ یہ کہ یہ مخالفت و ممانعت اسی سابقہ ذهنیت کی وجہ سے وجود میں آئی جو دوران جاھلیت میں رکھتے تھے:” شوال ذیقعدہ اور ذی الحجہ میں احرام باندھنابھت بڑا گناہھے“ جی ھاں !اس حکم پر پابندی لگانے کی علت وھی سابقہ ذهنی خرافات تھی جو کھتے تھے: ”اننطلق ومذاکیرنا تقطرالمنی؟!“”آیا ھم اس حا لت میں خارج ہوں کہ ھمارے اعضائے تناسل سے منی ٹپکتی ہو“ ؟! وھی دوران جاھلیت کا موہومی فلسفہ جس کی وجہ سے رسول اسلام(ص) ناراض ہوئے اور جو لوگ اس حکم کی نافرمانی کررھے تھے ان کی مذمت فرمائی ۔
پس یھی علل و اسباب تھے کہ جن کی بنا پر رسول(ص) کے بعد حج تمتع سے منع کیا جانے لگا ، انھیں علل واسباب کی وجہ سے قرآن ورسول(ص) کے صریح فرمان کے سامنے بعض لوگوں نے اظھار نظر فرمایا ، چنانچہ اس بارے میں صحیح مسلم اور اھل سنت کی دیگر معتبر کتابوں میں بالتفصیل روایات موجود ھیں جیسے ذیل کی روایت :
…”عن ابی موسی؛انہ کان یُفِتی بالمتعة، فقال لہ رجل:رُویدک ببعض فتیاک فانک لا تدری ما احدث امیرالموٴمنین فی النُّسُک بعد؟حتی لقیہ بعدُ:فساٴلہ، فقال عمر: قد علمت ان النبی(ص) قد فعلہ واصحابُہ، و لکن کرھتُ ان یَظَلُّوا معرسین بھن فی الاراک، ثم یَرُوحُون فی الحج تقطرُروٴسُھم“[70]
ابو موسیٰ حج تمتع کیجواز کا فتویٰ دیا کرتے تھے ، ایک شخص نے ان سے کھا: فتویٰ دینے میں جلدی نہ کرو ، کیا تمھیں نھیں معلوم کہ رسول(ص) کے بعد امیرالموٴمنین عمر نے اعما ل حج میں کتنا ردوبدل کر دیا ھے؟یھاں تک حضرت عمر کی خود ابوموسیٰ سے ایک دن ملاقات ھو گئی، ابوموسیٰ کھتے ھیں کہ میں نے ان سے سوال کیا تو وہ کهنے لگے:اے ابو موسیٰ!ھم جانتے ھیں کہ رسول (ص)نے اور آپ کے اصحا ب نے حج تمتع کیا ،مگر ھم کو اچھا نھیں لگتاکہ مسلمان درخت ”اراک“کے نیچے اپنی عورتوں کے ساتھ ھمبستر ہوں اور اس حال میں وہ اعمال حج کے لئے کوچ کریں کہ ان کے سروصورت سے آبِ غسل ٹپک رھا ھو !!
ایک نا معقول علت کا تجزیہ
صحیح مسلم کے بعض حاشیہ نویسوں نے حضرت عمر کے مذکورہ جملہ”تقطرروٴوسھم “ (ان کے سرو صورت سے آب غسل ٹپک رھا ہو)کی تو جیہہ کرتے ہوئے کھا ھے :
عمر کایہ جملہ مناسب اور شائستہ ترھے اس جملہ سےجسے بعض مسلمان پیغمبر(ص)کے زمانے میں حج تمتع کی تشریع کے وقت استعمال کرتے تھے :آیا ھم اس حا لت میں اعمال حج کے لئے عرفات میں سفر کریں کہ ھمارے اعضائے تناسل سے منی ٹپک رھی ہو؟! (فناٴتی عرفةتقطرمذ اکیرنا المنی)
بھر حال خلیفہ صاحب نے”تقطرروٴوسھم“سے حج تمتع کے حرام قرار دینے کی علت بیان کی ھے ، کیونکہ شارح ِصحیح مسلم علامہ زرقانی تحریر کرتے ھیں :
حضرت عمر کا عقیده یہ تھا کہ حا جی کے لئے مناسب نھیں ھے کہ ایسے امور انجام دیجو خوشی،راحت اور تلذذ کے سبب ہوں،لہٰذا چونکہ حا جی کے لئے احرام کھولنے کے بعد عورتو ں سے ھمبستر ہونا خوشی اور تلذذ ک ا سبب ھے ،بنا براین حج تمتع کو حرام قرار دیاگیا ھے۔[71]
امام سندی ”سنن نسائی“ کے حا شیہ میں تحریرفرماتے ھیں :
حضرت عمر کا مقصد یہ تھاکہ حا جی کو چاہئے کہ اس کا چھرہ پژمردہ اور حال پریشاں ھو ،لیکن حج تمتع سے چوں کہ اس کا برعکس ھو جاتا ھے، یعنی بجائے پژمردگی اورپریشاں حا لی کے انبساط و تلذذحا صل ہوتاھے لہٰذا حضرت عمر نے اس کو حرام قرار دے دیا۔[72]
عرض موٴلف
اگر چہ حضرت عمر کے قول کی بیجااور نامعقول تو جیہہ علمائے اھل سنت بڑی شد ومد کے ساتھ بیان کرتے ھیں مگر حقیقت یھی ھے کہ حضرت عمر نے حج تمتع کو دورجاھلیت کی رسم کو مد نظر رکھتے ہوئے حرام قراردیا ھے، لہٰذاعلمائے اھل سنت کی متذکرہ توجیھیں فقط الفاظ کی بازیگری ھے اورحقیقت وھی ھیجسے ھم نے بیان کیا، مزید یہ کہ مذکورہ علل قو لِ رسول (ص)کے مخالف بھی ھیں،کیونکہ رسول(ص)کا ارشاد گرامی ھے”انّا اتقاکم اللّٰہ واصدقکم وابرکم“ میں قوانین الہٰیہ کے سلسلے میں تم سب سے زیادہ متقی،پرھیز گار ، نیک اور صادق ہوں ، اسی طرح یہ آیت متذکرہ تو جیھات کی تکذیب کرتی ھے:
<وَمٰاْ کَاْنَ لِمُوْٴمِنٍ وَلاٰمُوْٴمِنَةٍ اِذٰا قَضَی اللّٰہُ وَرَسُولُہُ اٴَمْراً اٴَنْ یَکُوْنَ لَھُمُ الْخِیَرَةُمِنْ اٴَمْرِھِمْ وَمَنْ یَّعْصِ اللّٰہَ وَرَسُولَہُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلاٰلاًمُّبیناً>[73]
او ر نہ کسی ایماندار مرد کو یہ حق حا صل ھے اور نہ ھی کسی ایماندار عورت کو کہ جب خدااور اس کا رسو(ص)ل کسی کام کاحکم دیں توان کو اپنے اس کام (کے کرنے یا نہ کرنے ) کا اختیار ھو اور یاد رھے کہ جس نے خدا اور اس کے رسو(ص)ل کی نافرمانی کی وہ یقیناًکھلم کھلا گمراھی میں مبتلا ھو چکاھے۔
دور عثمان میں حج تمتع کی مخالفت!!
خلافت عثمان میں حضرت امیرالمومنین علی بن ابی طالب(ع) کی بے پایا ن سعی و کو شش اور دوران معاویہ میں بعض مسلمانوں کی جد و جھد کا نتیجہ تھا کہ حج تمتع کا حکم ِ خدا و رسول (ع)دوبارہ اپنی اصلی ھیئت پر پلٹ آیا اور بالتدریج عمر کا حکم کالعدم ہوگیا، چنانچہ عمرکی مخالفت اور حضرت علی علیہ السلام کی موافقت میں علمائے اھل سنت نے فتاوے صادرفرمائے ھیں،یھاں تک کہ یھی حکم مسلمانوں میں عملی قرار پایا لہٰذا ذیل میں صحیحین اور دیگر اھل سنت کی معتبر کتابوں سے چند روایات نقل کرتے ھیں جن میں عمر کے حکم کے خلاف حضرت امیر (ع)اور بعض مسلمانوں کی جد و جھد کی طرف اشارہ کیا گیا ھے ،تاکہ بات بالکل واضح اور آشکار ہوجائے :
۱۔ …”عن مروان بن الحکم؛ قال شَھِدتُ عثمان وعلیاً:وعثمان ینھی عن المتعة،وان یُجْمَع بینھما فلمّا راٴی علیٌ اھلّ بھما لبیک بعمرة وحجة، قال:ماَکنتُ لِادَع َ سنَّة النبی(ص) لقول احد۔“ [74]
مروان بن حکم کھتا ھے:
میں نے عثما ن بن عفان کو دیکھا کہ وہ حج تمتع سے لوگوں کو روک رھے تھے، جب حضرت علی علیہ السلام نے انھیں منع کرتے ہوئے دیکھا تو آپ نے اعمال عمرہ اورحج کیلئے احرام باندھااور کهنے لگے: میں کبھی بھی حکم خداوسنت پیغمبر(ص) کی مخالفت نھیں کروں گا اور نہ کسی ایک کی مخالفت پرحکم الہٰی کو ترک کروں گا ۔
۲۔…”عن سعید بن المسیب؛ قال:اجتمع علی(ع) وعثمان بِعُسفان:فکان عثمان ینھی عن المتعة اوالعمرة ،فقال علی:ٌ ماترید الی امرفعلہ رسول الله تنھی عنہ؟فقال عثمان: دعنا منک ،فقال:انی لا استطیع ان اَدَعَک، فلمّاان رای علی ذالک، اھل بھما جمیعا“ [75]
سعید بن مسیب کھتے ھیں :
جب حضرت علی علیہ السلام اورعثمان بن عفان ”عسفان“ (مکہ اور مدینہ کے درمیان ایک دیھات کا نام ) میں اکٹھے ہوئے تو عثمان عمرہ یا متعہ سے لوگوں کو منع کر رھے تھے، لیکن حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا :اے عثمان! کیا تم فرمان ِخدا ورسول(ص)کی مخالفت کے علاوہ کوئی اور بھی مقصد رکھتے ہو؟ عثمان نے کھا! اے علی (ع)!ھم کو اپنے حال پر رهنے دو!حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا:اے عثمان ! میں ھر گز تم کو اس حال پر نھیں چھوڑوں گا کہ حکم خدا ورسول کی مخالفت کرو ،لیکن حضرت علی علیہ السلام نیجب فضا ء دگرگون دیکھی توخود آپ(ع) نے اعمال عمر ہ وحج کے لئے احرام باندھا۔
(یہ روایت مسلم سے ماخوذ ھے البتہ بخاری میں بھی اس کے مانند روایت موجود ھے)
مسلم نے اس روایت کوعبدالله بن شقیق سے بھی نقل کیا ھے اوراس روایت میں یہ جملہ بھی موجودھے:
عثمان نے حضرت علی علیہ السلام کو نازیباکلمات کھے:(فقال عثمان لعلی کلمة) !!
سنن نسائی میں اس واقعہ کو سعیدبن مسیب سے یوں نقل کیا گیا ھے:
حضرت علی(ع)نے فرمایا:”اذاراٴیتموہ قدارتحل فارتحلوا،فلبیٰ علی (ع)واصحا بہ بالعمرة“جب تم لوگ دیکھو کہ عثمان نے حرکت شروع کردی توتم لوگ بھی ان کے ساتھ حرکت شروع کردو،اس وقت علی (ع) اورآپ کے چاهنے والوں نے عمرہ کے لئے احرام باندھا ۔[76]
امام سندی جملہٴ ”اذاراٴیتموہ…“ کی شرح میں لکھتے ھیں :
حضرت علی علیہ السلام کا مقصدیہ تھا کہ تم لوگ بھی عثمان کے ساتھ حرکت کرو لیکن عمرہ کااحرام باندھ کرتاکہ عثمان اوران کے چاهنے والے دیکھیں کہ ھم لوگوں نے ان کے قول پر سنت پیغمبر (ص)کو مقدم کیا ھے اور انھیں اس بات کا علم ھو جائے کہ خدا و رسول کے قانون کے سامنے عثمان کی اطاعت نھیں ہوسکتی ۔[77]
ایک قا بل توجہ نکتہ
یھاں پر اس نکتہ کی طرف اشارہ کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ بیشتر حقائق کو کتب تاریخ وحدیث میں تغیر وتبدل کر کے پیش کیاگیا ھے، یعنی یاسیاست ِزمانہ کی وجہ سے(حذف ھی کردیا گیا ھے،یا پھر)پردہٴابھام ان کے چھرے پرڈال کراصل حقیقت کو تحریف اورتوڑ مروڑ کے پیش کیاگیا ھے اور ھم تک صرف اشارہ پهنچا ھے۔
چنانچہ حضرت امیر الموٴمنین (ع)اور عثمان کے درمیان حج تمتع کے بارے میں جو اختلاف ھوا، جسے صحیحین نے نقل کیا ھے یہ بھی انھیں حقائق میں سے ھیجنھیں تاریخ نے اشارة ً و کنایةً نقل کیا ھے، ورنہ یہ بات مسلم ھے کہ حضرت علی (ع)اور عثمان کے درمیان اختلاف اسی سادگی سے نہ ہواہوگا ! چنانچہ بعض کتابوں میں شدت اختلاف کی طرف اشارہ کیا گیا ھے ،جیساکہ ابو عمرابن عبدالبرنے عبدالله ابن زبیر سے نقل کیا ھے:
عثمان اور حضرت علی (ع)کے درمیان اختلاف اس قدر شدید تھا کہ قریب تھا حضرت علی (ع) کو اس وجہ سے قتل کر دیا جاتا، چنانچہ ابن زبیر سے منقول ھے : خداکی قسم میں جحفہ میں تھا کہ ایک گروہ شام سے آیا، جس میں حبیب بن مسلمہٴ فھری بھی تھا اور یہ عثمان کے ھمراہ تھے ،عثمان نے اس وقت خطبہ دینا شروع کردیا اور حج تمتع کا جب ذکر آیا تو کهنے لگے: حج تمتع سے مراد یہ ھے کہ اعمال حج کو ما ہ ھائے حرام میں تمام کرو اور اعمال عمرہ کو اس سیجدا قرار دو ، بھتر تو یہ ھے کہ اعمال عمرہ(حج تمتع ) کو تاخیر میں ڈال دو ،تاکہ دوبارہ تمھیں زیارت ِخانہ خدا نصیب ھو ،کیونکہ خدا نے خیر میں وسعت دی ھے ۔
ابن زبیر کھتے ھیں:حضرت علی (ع) نے عثمان کے جواب میں فرمایا :اے عثمان!تمھارا مقصد یہ ھے کہ خدا نے جو اپنے بندوں کو وسعت اور ترخیص عنایت کی ھے اس کو تنگی میں بدل دو؟! اور دور دراز سے آنے والے افراد کیلئیجس قانون کو خدا کے حکم سے رسول(ص) نے تشریع کیا ھے تم انھیں اس سے روکنا چاھتے ھو ؟! اس وقت حضرت علی (ع) نے خود احرام حج وعمرہ باندھا اس کے بعد عثمان نے لوگوں کی طرف چھرہ کیا اور کهنے لگے:کیا میں نے تم کو عمرہ سے منع نھیں کیا ھے؟ البتہ یہ میری رائے ھے اب اگرکوئی اس کو انجام دیتا ھے تو میں اس کا ذمہ دار نھیں،جو چاھے اس پر عمل کرے اور جوچاھے اس کو ترک کرے، ابن زبیر کھتے ھیں : اسی اثناء میں ایک شامی مرد آیا اور حبیب ابن مسلمہ سے کهنے لگا:اس شخص کو دیکھو !جو امیر الموٴمنین (عثمان )کے مقابلہ میں مخالفت کررھا ھے ،قسم خدا کی اگر مجھے عثمان کی طرف سے اجازت مل جائے تو میں اس کو قتل کردوں،ابن زبیر کھتے ھیں:اس وقت حبیب بن مسلمہ فھری نے اس کے سینہ پر ھاتھ مارکر کھا :اوخاموش رہ !اصحاب رسول (ص)آپس کا اختلاف غیروں کی بہ نسبت زیادہ جانتے ھیں ۔”فان اصحا ب رسول الله اعلم بما یختلفون…“[78]
حج تمتع دور معاویہ میں
محترم ناظرین ! ”متعتین“کے بارے میں گزشتہ صفحات میں ابن عباس اور ابن زبیرکی جد وجھد اور مخالفت ابن عباس کی جابر کی جانب سے طرفداری کو ھم نے نقل کیا اور متعة الحج و متعة النکاح کے بارے میں جناب جابر کی طرفداری اسی مورد میں منحصر نھیں بلکہ اس بارے میں کافی مواردنقل کئے گئے ھیں ،حا لانکہ خلفاء کے زمانے میں حدیث نقل کرنے پر سخت پابندی لگی ہوئی تھی لیکن جناب جابر اس موضوع کے بارے میں حقیقت واضح کرنے سے باز نہ آئے اور آپ نے اس بات کو سب پر روشن کردیا کہ یہ دونوں متعہ جزء اسلام ھیں ۔[79]
اسی طرح ا حادیث کا مطالعہ کرنے سے پتہ چلتا ھے کہ جس طرح عثمان چاھتے تھے کہ حضرت عمر کی سنت پر عمل کرتے ہوئے حج تمتع کو حرام قرار دیں ، اسی طرح معاویہ بھی چاھتا تھاکہ عمر اور عثمان کے حکم پر لوگوں کو گامزن رکھا جائے ، مگر کچھ افراد کی شدید مخالفت کی بنا ء پروہ کمزور پڑگیااور یہ مسلمان اس کا حکم ماننے کے لئے تیار نہ ہوئے ۔
چنانچہ سنن نسائی میں آیا ھے:
”…عن ابن شھاب عن محمد …؛انہ حدثہ انہ سمع سعد بن ابی وقاص والضحا ک بن قیس عام حج معاویة بن ابی سفیان وھما یذکران التمتع بالعمرة الی الحج،فقال الضحا ک:لایصنع ذالک الّا من جھل امر الله تعالی ،فقال سعد: بئسما ،قلت یابن اخی، قال الضحا ک: فَاٴِنَّ عمر بن الخطاب نھی عن ذالک، قال سعد: قد صنعھا رسول الله وصنعنا معہ “ [80]
جس سال معاویہ حج کے لئے گیا توسعد بن ابی وقاص اور ضحا ک بن قیس(یہ دونوں مشہور صحا بی اور بڑے لوگوں میں تھے ) کے درمیان اختلاف ھو گیا ، ضحا ک کا کهنا تھا کہ حج تمتع انجام نھیں دے گاسوائے اس شخص کیجو حکم الٰھی کو جانتا ھی نہ ھو ، سعد نے کھا : اے برادر زادہ تم کیابیہودہ باتیں بک رھے ہو؟!ضحا ک نے کھا : اے سعد! کیا عمر ابن خطاب نے حج تمتع کو حرام قرار نھیں دے دیا تھا؟سعد نے کھا: صحیح ھے مگر رسول(ص)خدا نے اس کو انجام دیا ھے اور ھم نے بھی رسول(ص)کے سامنے انجام دیا ھے ۔
صحیح مسلم اور مسند امام احمد بن حنبل میں اس طرح مرقوم ھے:
”…عن سلیمان حدثنی غنیم؛قال سئلت سعد بن ابی وقاص عن المتعة، قال فعلنا ھاوہٰذاکافر بالعرش یعنی معاویہ “ [81]
سلیمان سے منقول ھے کہ غنیم کھتے ھیں :
جب میں نے سعد بن ابی وقاص سے متعہ کے بارے میں دریافت کیا توآپ نے کھا :” ھم نے رسول (ص)کے سامنے حج تمتع اس وقت کیا جب معاویہ خدائے عرش کے بارے میں کافر تھا۔ “
ان دونوں باتوں سے پتہ چلتا ھے کہ معاویہ کے زمانے میں بھی حج تمتع کے بارے میں اختلاف پایا جاتاتھا، ورنہ اس کا کوئی مطلب نھیں کہ دو مسلمان افراد میں ایک مسئلہ کے بارے میں اختلاف کو کسی ایک سال سے مقید کردیا جائے، یا حج تمتع انجام دینے کے بارے میں یہ کھا جائے کہ میں نے اس کو اس وقت انجام دیا جب معاویہ کافر تھا، وغیرہ وغیرہ…
۶۔ متعہ یامعینہ مدت کانکاح
صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی حدیثیں مطالعہ کرنے سیجھاں بھت سی باتوں کا انکشاف ہوتاھے ، ان میں سے اس بات کا بھی روزروشن کی طرح ا ستفادہ ہوتاھے کہ جواز ِمتعہ کو حرمت میں تبدیل کرنے والے بھی حضرت عمر تھے!اور یہ ایک ایسا حکم ِ خدا و رسول(ص)ھیجس کی ممنوعیت پر اھل سنت حضرات آج تک قائم ھیں اور بڑی شدومد کے ساتھ بغلیں بجا کر مذھب شیعہ پر اعتراض کرتے ھیں کہ اس مذھب میں متعہ جائزھے![82] یھاں تک کہ فی الوقت یہ موضوع شیعوں اورسنیوں کے درمیان اس حد تک بڑھ چکا ھے کہ گاھے بہ گاھے اس کی وجہ سے دست وگریبان ھو نے کی نوبت آجاتی ھے ، لہٰذا ھم ضروری سمجھتے ھیں کہ اس موضوع کو درج ذیل پانچ عنوان بحث میں محل تحقیق قرار دیں ۔
۱۔ متعہ یعنی چہ؟
اسلامی فقہ میں جو متعہ محل ِبحث قرار دیا جاتا ھے اور جسے شیعہ حضرات دائمی نکاح کی طرح ا سلام کا ایک ثابت قانون سمجھتے ھیں اس سے مرادیہ ھے : ”مردایک ایسی عورت سے معینہ مدت کے لئے مھر معین کے ساتھ نکاح کریجو عورت اس کے لئے شرعی ممانعت نہ رکھتی ھو ، یعنی عورت ان عورتوں میں سے ھو جس سے دائمی نکاح جائز ھو اورمتعہ میں جب مدت معینہ تمام ھو جاتی ھے تو مرد و عورت بغیر طلاق کے ایک دوسرے سیجداہوجاتے ھیں ، البتہ ایک صورت یہ بھی ممکن ھے کہ مرد اپنی مدت عورت کو بخش کر مدت تمام ہونے سے پھلی جدا ھو جائے ۔“
عقد دائمی اور متعہ کے مشترک و مختلف احکام
قارئین کرام ! متعہ او ر دائمی نکاح کے زیادہ تر احکام ایسے ھیں جومشترک ھیں اور بعض احکام مختلف ھیں جن کی تفصیل ذیل میں ھم نقل کرتے ھیں :
مشترک احکام
۱۔متعہ میں بھی عقد دائم کی طرح زوجین کو بالغ اور رشید ہونا چاھیئے۔
۲۔ دائمی نکاح کی طرح ا س میں بھی رضایت ِطرفین کے ساتھ ساتھ صیغہٴ ایجاب و قبول پڑھنا ضروری ھے ، لہٰذا طرفین کی طرف سے صرف رضایت اور معاطات ھو تو متعہ درست نھیں ھیجب تک کہ صیغہ ٴ ایجاب و قبول نہ ھو اور صیغہ ٴ ایجاب و قبول میں مخصوص الفاظ کا پڑھنا لازمی ھے ، لہٰذا لفظ آجرت ، یا وھبت،ابحت وغیرہ سے متعہ واقع نھیں ھو سکتا ھے۔
۳۔ عقد دائم کی طرح ا س میں بھی مھرِ معین اور اجرت قرار دینا ضروری ھے ۔
۴۔ جس طرح دائمی نکاح میں عورت پر لازمی ھے کہ وہ شوھر سیجدائی کی صورت میں عدہ رکھیجبکہ مرد وعورت ھمبستر ہوئے ہوں اور عورت یائسہ نہ ھو اسی طرح متعہ میں بھی عورت پر جدائی کی صورت میں عدہ رکھنا ضروری ھے، البتہ متعہ میں عدہ کی مدت دو حیض کا آنا یا۴۵روز ھے اورنکاح میں تین ماہ(یاتین حیض ) ہوتی ھے ۔
۵۔دائمی نکاح کی طرح متعہ میں بھی عدہ ٴوفات چار مھینے دس دن ھے۔
۶۔ دائمی نکاح کی طرح متعہ میں بھی ح ا ملہ عورت کا عدہ ،طلاق کی صورت میں وضع ِ حمل ھے اوراگر شوھر مر جائے تو عدہ ”ابعدالاجلین“ ہوگا ۔
۷۔ متعہ سے پیدا ھو نے والی اولاد بھی میراث و دیگر احکام میں اپنے ان بھائی و بهنوں کے ساتھ برابر کی شریک ہوتی ھیجو دائمی نکاح والی عورت سے متولد ہوئی ھو ۔
۸۔متعہ میں بھی عقد دائم کی طرح بیوی کی ماں اور اس کی لڑکی شوھر پر حرام ابدی ہوجاتی ھیں ( البتہ اس وقت تک حرام ھیجب تک کہ عورت زوجیت میں ھے) اسی طرح متعہ والی بیوی کی موجودگی میں شوھر اس کی بهن سے عقدمتعہ نھیں کر سکتا۔
۹۔متعہ میں بھی دائمی نکاح کے مانند ایام خاص میں جماع کرنا حرام ھو تا ھیجیسے ایام عادت (حیض و نفاس )یا ماہ رمضان کے روزے کی حا لت میں …۔
اختلافی موارد
۱۔دائمی نکاح کی طرح متعہ میں مدت غیرمعین نھیں بلکہ معین ہوتی ھے
۲۔ دائمی نکاح کی طرح مرد وعورت متعہ کی صورت میں ایک دوسرے کے وارث نھیں قرار پاتے مگر یہ کہ صیغہٴ عقد متعہ میں شرط ِتوارث قرار دے دی جائے ۔
۳۔ صیغہ ٴمتعہ میں مھر کا ذکراور اس کی تعیین ضروری ھے لیکن عقد دائمی میں ذکر ِمھر اور اس کی تعیین لازمی نھیں ۔
۴۔متعہ میں عورت حق نھیں رکھتی کہ مرد سے نان و نفقہ کا مطالبہ کرے البتہ اگر عورت ضمن ِعقد میں نان و نفقہ کی شرط کردے تو مرد پر اس کا نان ونفقہ واجب ھے۔
۵۔عقد متعہ میں بیک وقت چار عورتوں سے زیادہ رکھ سکتا ھے ، لیکن دائمی نکا ح میں چار سے زیادہ نھیں رکھ سکتا۔[83]
۲۔ ا سلام میں عقد متعہ کا جواز
مذھب اسلام میں اصل ِ متعہ کا جائز ہونا مسلمانوں کے درمیان متفق علیہ کے علاوہ قرآن مجید اور سنت پیمبر (ص)کے ذریعہ بھی قطعی الثبوت ھے ،جھاں تک اتفاق مسلمین کا مسئلہ ھے تو تمام مسلمان اپنے مختلف نظریات،آراء و عقائد کے باوجود اس بارے میں اتفاق نظر رکھتے ھیں کہ متعہ کو رسول اسلام(ص) نے خدا کے حکم سے تشریع فرمایا ھے اور اس کا جائز ھو نا اتنا واضح و آشکا ر ھے کہ ھم یہ دعوی کر سکتے ھیں کہ علمائے اسلام میں سے کسی نے بھی متعہ کیجواز کا انکار نھیں کیا ھے ،گویا علمائے اسلام کے نزدیک حکم ِ ِمتعہ ضروریا ت ِدین میں سے ھے، چنانچہ اھلسنت والجماعت کے مشہور محقق وفلسفی علامہ فخرالدین رازی تحریر فرماتے ھیں :
” تمام علمائے اسلام کا اتفاق ھے کہ متعہ اسلام میں مباح تھا ،لیکن اس میں اختلاف ھے کہ آیا یہ نکاحِ متعہ بعد میں نسخ ہوایا نھیں ؟
ایک گروہ قائل ھے کہ یہ حکم نسخ ہوگیا تھااور دوسراگروہ عدم ِنسخ کاقائل ھے“[84]
ثبوت جواز متعہ ؛قرآن کی روشنی میں
جواز متعہ کے بارے میں سورہٴ نساء میں ارشاد ہوتاھے:
<…فَمَااسْتَمْتَعْتُمْ بِہ مِنْھُنَّ فَاٴتُوْھُنَّ اُجُوْرَھُنَّ … >[85]
پس جو لوگ عورتوں سے لذت اٹھانا چاھتے ھیں ان کو چاھیئے کہ جو اجرت تعین ہوتی ھے اس کو اداکریں ۔
اھل سنت کے اکثرمفسرین اور اھل تشیع کے تمام مفسرین اس بات کے قائل ھیں کہ مذکورہ آیت متعہ کے بارے میں نازل ہوئی ھے اور استمتاع کی اجرت دینے کامطلب متعہ میں مھر اداکرنا ھے ،یھاں تک کہ قراّ ء ِقرآن کے ایک گروہ مانندابی ٴ ابن کعب، ابن عباس،سعید بن جبیر،سدی وغیرھم نے اس آیت کو یوں پڑھا ھے:<…فَمَااسْتَمْتَعْتُمْ بِہ مِنْھُنَّ (اِلیٰ اَجَلٍ)فَاٴتُوْھُنَّ اُجُوْرَھُن…>یعنی ان حضرات نے مدت کا ذکر آیت کا جزء جانا ھیجو متعہ میں لازم ھو تا ھے۔
اس نظریہ کو طبری اورزمخشری نے اپنی اپنی تفسیر میں ابن عباس سے اور فخرالدین رازی نے اپنی تفسیر میں ابی ٴ ابن کعب سے نقل کیا ھے ۔[86]
تفسیر طبری میں صدر اسلام کے مشہور مفسر جناب مجاھد سے منقول ھے : مذکورہ آیت متعہ کے بارے میں نازل ہوئی ھے۔
اس کے علاوہ خود اس سورے کی آیات کاسیاق وسباق اور مذکورہ آیت میں موجودہ قرائن اس بات کی شھادت دیتے ھیں کہ یہ آیت متعہ سے متعلق ھے ،کیونکہ خدانے اس سورہ کے شروع میں پھلے عقد دائمی کا حکم بیان فرمایا ھے:
<…فَانْکِحُوْاماَ طَابَ لَکُمْ مِنْ اَلنِّسَآءِ مَثنْیٰ وَثُلٰاثَ وَرُبٰعَ…. وَاٰتُواالِّنسَآءَ صَدُ قاَتِھِنَّ نِحْلَةً>[87]
تو عورتوں سے تم اپنی مرضی کے موافق دودواور تین تین اور چارچار سے نکاح کرو ، پھر اگر تمھیں اس کا اندیشہ ھو کہ تم(متعدد بیویوں میں )انصاف نہ کر سکو گے تو ایک ھی پر اکتفا کرو ،یا جو (لونڈی) تمھاری زر خرید ھو (اسی پر قناعت کرو )یہ تدبیر بے انصافی نہ کرنے کی بھت قرین قیاس ھے اورعورتوں کو ان کے مھر خوشی خوشی دے ڈالو ۔
اگر آیہٴ <فَمَاْاسْتَعْتُمْ …>سے مراد بھی عقد دائم ھو تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ خدا نے بغیر کسی فائدہ اورنئے نکتہ کے ایک ھی سورہ میں ایک حکم کو دوبار بیان فرمایا ھے اور یہ رویہ قرآن کی بلاغت اور روش کے خلاف ھے ،لیکن اگریہ آیت متعہ سے مربوط ھو توآیت سے ایک نیا اور مستقل حکم کا پتہ چلتا ھے اوراس صورت میں کوئی اشکال وارد نہ ہوگا ، بالفاظ دیگر مذکورہ سورہ میں غور کرنے سے پتہ چلتا ھے کہ اس سورہ میں خدا نے تمام ان عورتوں کا ذکر فرمایا ھیجن سے نکاح کر نا حرام ھے اور پھر عورتوں کے حلال ہونے کے طریقہ کو اس ترتیب سے بیان کیا ھے:
۱ ۔ آزاد عورتوں کے ساتھ عقد دائم۔
۲۔کنیزوں کے ساتھ عقد دائم کرنا ۔
۳۔ملک یمین ۔( یعنی کنیزوں کو بغیر عقد اپنی زوجیت میں رکھنا)
۴۔ازدواج موٴقت (متعہ)۔
۱۔۲۔ازدواج دائم اور مِلک یمین کا حکم اس سورہ کی آیت نمبر۳ میں آیاھے :
<فاَنْکِحُوْامَاطَابَ لَکُمْ مِنْ اَلنِّسَاءِ مَثْنیٰ وَ ثُلاٰ ثَ وَرُبٰعَ فَاٴِنْ خِفْتُمْ اٴَلَّا تَعْدِلُوْاْفَوَاْحِدَةًاٴَوْمَاْ مَلَکَتْ اٴَیْمَاْنُکُمْ ذَاْلِکَ اٴَدْنیٰ اٴَلَّا تَعُوْلُوْاْ .وَاٰتُوا النِّسَاءَ صَدُقا تِھِنَّ نِحْلَةً فَاٴِنْ طِبْنَ لَکُمْ عَنْ شَیْءٍ مِنْہُ نَفَساً فَکُلُوْہُ هنیْئاً مَرِیْئاً>
پس تم عورتوں سے اپنی مرضی کے موافق دودواور تین تین اور چارچار سے نکاح کرو ، پھر اگر تمھیں اس کا اندیشہ ھو کہ تم(اپنی متعدد بیویوں میں )انصاف نہ کر سکو گے تو ایک ھی پر اکتفا کرو ،یا جو (لونڈی) تمھاری زر خرید ھو (اسی پر قناعت کرو )یہ تدبیر بے انصافی نہ کرنے کی بھت قرین قیاس ھے ۔اورعورتوں کو ان کے مھر خوشی خوشی دے ڈالو !پھر اگر تمھیں خوشی خوشی کچھ چھوڑ دیں تو شوق سے نوش جان کھاوٴپیو۔
۳۔کنیزوں ( غیر آزاد عورتوں) سے شادی کرنے کا حکم اسی سورہ کی آیت نمبر۲۵ میں بیان کیا گیا ھے:
<وَمَنْ لَمْ یَسْتَطِعْ مِنْکُمْ َطوْلاًاَنْ یَّنْکِح ا لْمُحْصَنَاتِ اْلمُوْٴمِنَٰتِ فَمِنْ ماَّ مَلَکَتْ اٴَیْمٰنُکُمْ ِّمنْ فَتَیٰتِکُمْ اُلْمُوٴْمِنَٰتِ …>[88]
اورتم میں سیجو شخص آزاد موٴمنہ عفت دار عورتوں سے نکاح کرنے کی مالی حیثیت نھیں رکھتا ھو تووہ تمھاری ان موٴمنہ لونڈیوں سیجو تمھارے قبضے میں ھیں نکاح کرسکتا ھے اور خدا تمھارے ایمان سے خوب واقف ھے ۔
۴۔ اس آیت میں خدا وند متعال نے ازدواج کی چوتھی قسم( متعہ )کا حکم بیان فرمایا ھے:
<فَمَاْاسْتَمْتَعْتُمْ بِہ مِنْھُنَّ فَاٴتُوھُنَّ اُجُورَھُنَّ …>[89]
پس جو لوگ عورتوں سے لذت اٹھانا چاھتے ھیں ان کو چاہئے کہ جو اجرت تعین ہوتی ھے اس کو اداکریں ۔
حدیث رسول (ص)سے ثبوت جواز متعہ
محترم قارئین!ثبوت متعہ سے متعلق شیعہ و سنی کتب میں کثرت کے ساتھ روایتیں پائی جاتی ھیں ، چنانچہ صحیح بخاری وصحیح مسلم میں سلمہ بن اکوع، جابر بن عبد الله ، عبد الله بن مسعود، ابن عباس، سبرہ بن معبد ، ابو ذر غفاری ،
عمران بن حصین اوراکوع بن عبد الله اسلمی سے متعدد روایات منقول ھیں ، چونکہ یھاں سب روایات کا نقل کرنا حجم کتاب کے منافی ھے، لہٰذا چند روایات ھم ذیل میں نقل کرتے ھیں :
۱۔…”عن جابر بن عبدالله وسلمة بن اکوع ؛قالا: خرج علینامنادی رسولِ(ص)الله ،فقال: ان رسول(ص) الله قد اذن لکم ان تستمتعوا یعنی متعةالنساء “[90]
جابر بن عبداللہ وسلمہ بن اکوع سے منقول ھے :
رسول خدا(ص) کی طرف سے ایک ندا آئی اور اعلان ہوا کہ رسول(ص)کی طرف سے یہ اجازت ھے کہ تم عورتوں سے متعہ کرو۔
مسلم نے مذکورہ حدیث کو اس طرح بھی نقل کیا ھے :
رسول(ص) ھمارے درمیان خود تشریف لائے اور ارشاد فرمایا کہ تم لوگ متعہ کرو:
”ان رسول الله اتانا فاذن لنا فی المتعة “[91]
اور بخاری نے اس روایت کو اس طرح نقل کیا ھے:
”…کنا فی جیش فا تا نا رسول اللّٰہ(ص) ،فقال: انہ قد اذن لکم ان تستمتعوا فا ستمتعوا“[92]
ھم لشکر کے درمیان تھے کہ رسول(ص)ھمارے درمیان تشریف لائے اور فرمانے لگے:تمھیں عورتوں سے استمتاع ( متعہ )کر نے کی اجازت دی گئی ھے پس ان سے کرو۔
۲۔”جابر بن عبداللّٰہ یقول:کنا نستمتع بالقبضة من التمروالد قیق الا یام علی عھدرسول(ص) اللّٰہ(ص) وابی بکر،حتی نھی عنہ عمر فی شاٴن عمروبن حریث۔[93]
جابر بن عبداللہ سے منقول ھے:
ھم آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ابوبکر کے دور میں ایک مشت خرمہ اور کچھ آٹے کے بدلے چند ایام کے لئے عورتوں سے متعہ کرتے تھے،یھاں تک عمروبن حریث کا واقعہ جب پیش آیا تو عمر نے متعہ کر نے سے منع کردیا !!
مسلم نے متعدد طرق واسناد کے ساتھ متذکرہ حدیث کو نقل کیا ھے۔
عرض مو لف
ابن حجر نے واقعہ عمرو بن حریث کو اس طرح نقل کیا ھے:
”عمروبن حریث ایک روز کوفہ آیااور اس نے ایک کنیز سے متعہ کیا اور جب وہ کنیز ا س سے حاملہ ھو گئی تو ایک روز جب وہ حاملہ تھی اسے عمر کے پاس لایا، چنانچہ عمر نیجب اس واقعہ ٴکو عمروبن حریث سے دریافت کیاتواس نے بھی اعتراف کرلیا، یھی وہ موقع تھا جب عمر نے اعلان کیاکہ آج سے میں متعہ حرام قرار دیتاہوں!! “[94]
۳۔…”عن قیس؛قال:سمعت عبدالله ؛ یقول:کنانغزْومع رسول(ص)ِ الله لیس لنانساء، فقلنا:الانستخصِی؟ فنھاناعن ذالک، ثم رخّص لناان ننکحا لمراٴةبالثوب الی اجل، ثم قَرَءَ عبدالله :< یَا اَیُّھَاالذَّیِْن آَمَنُوْالَا تُحِرِّمُوْاطَیِّبَاْتِ مَاْ اَحَلَّ الله لَکُمْ وَلَا تَعْتَدُوْااِنَّ الله لَا یُحِبُّ اْلْمُعْتَدِ یْنَ>[95]
امام بخاری اور مسلم تمام اسناد کے ساتھ قیس عبد الله بن مسعود سے روایت نقل کرتے ھیں :
ھم رسول خدا (ص)کے ساتھ کسی جنگ میں تھے اور ھماری عورتیں ھمارے ساتھ نہ تھیں ، لہٰذاھم نے عرض کیا:یا رسول الله !کیا ھم اپنے آپ کو خصی نہ کرلیں؟ پھلے تورسول نے ھ میں اس فعل کے انجام دینے سے منع فرمایا،لیکن پھر اس بات کی اجازت فرمائی کہ ھم لباس کے ایک قطعہ کے مقابلہ میں کچھ ایام کے لئے عورتوں سے نکاح کرلیں ۔
عبدالله بن مسعود نے اس وقت اس آیت کی تلاوت فرمائی :<یَا اَیْھَاَالْذِیْن آمَنُوْا… اے ایماندارو! خدانیجن پاکیزہ چیزوں کو تمھارے لئے حلال قرار دیا ھے اس کو اپنے لئے حرام قرار نہ دو،حدودو قوانین خد ا سے تجاوز نہ کرو،کیونکہ خداوند متعال تجاوز کرنے والوں کو دوست نھیں رکھتا>[96]
عرض موٴلف
مسلم نے اس حدیث کو تین طریق سے عبد الله بن مسعود سے نقل کیا ھے اورابن مسعود کامذکورہ آیت کے اس موقعہ پرتلاوت کرنے کا مقصدان لوگوں پر تنقید اور اعتراض کرنا تھا جو اس ازدواج(متعہ)کو حرام سمجھتے تھے، یعنی ابن مسعود اس آیت کے ذریعہ اس مطلب کی طرف اشارہ فرمانا چاھتے تھے کہ یہ شادی طیبات اور اسلامی قوانین کاجز ھے،لہٰذااس کو ھمیشہ جائز رهنا چاہئے اوراس کی حرمت کا فتویٰ صادر کرنا، قانون اسلام اورحدود الٰھی سے تجاوزکرنے کے مترادف ھے ۔
نووی نے اس حدیث کی شرح میں اس طرح لکھا ھے:
ابن مسعودکا اعتراض یہ بتلاتاھے کہ وہ بھی ابن عباس کی طرح متعہ کو حلال سمجھتے تھے اور حکم (متعہ)کے نسخ ہونے کی انھیں اطلاع نہ تھی !!
۴۔…”عن ابی نضرة؛قال کنت عند جابر بن عبد الله فاٴتاہ آت، فقال: ابن عباس وابن الزبیراختلفا فی المتعتین، فقال جابر: فعلنا ھما مع رسول الله ،ثم نھانا عنھما عمرفلم نعد لھما۔“[97]
ابو نضرہ کھتے ھیں :
میں جابر ابن عبدالله کی خدمت میں موجود تھا کہ ایک شخص وارد ہوااور کهنے لگا : ابن عباس و ابن زبیر جو (متعة النکاح ومتعة الحج)کے بارے میں ایک دوسرے سے اختلاف رکھتے ھیں !جابر نے کھا:ھم رسول(ص)کے زمانے میں دونوں متعہ انجام دے چکے ھیں ،لیکن جب سے عمر نے ھ میں متعہ کرنے سے منع کیا ھے تب سے ھم نے انجام نھیں دیاھے۔
۵۔مسلم اپنے تمام اسناد کے ساتھ حصین بن عمران سے نقل کرتے ھیں :
آیہ ٴ متعہ تو کتاب خدا میں نازل ہوئی ھے لیکن اس کے نسخ کے بارے میں کوئی آیت نازل نھیں ہوئی ھے اور یھی نھیں بلکہ رسول(ص)خدانے بھی خود اس کے انجام دینے کا امر فرمایا ھے، چنانچہ ھم حیات رسول(ص) میں اس بارے میں رسول(ص)کی پیروی کرتے رھے اور آپ نے اپنے آخری لمح ا ت تک ھم کو متعہ کرنے سے نھیں روکا، لیکن بعد میں ایک مرد آیااس نے اپنی رائے سے اس میں تغیر و تبدل کردیا!! [98]
۳۔ تحریم متعہ خلیفہ ٴثانی کی زبانی !!
محترم قارئین ! مذکورہ مباحث سے یہ بات بالکل واضح ھو گئی کہ حکم ِمتعہ قرآن، سنت اوراجماع کی رو سیجائز ھے اور اس کی تشریع رسول اسلام (ص)کے زمانے میں ہوچکی تھی اور مذکورہ پانچ میں سے تین حدیثوں سے یہ بھی ثابت ہوتا ھے کہ یہ حکم ابوبکر کے زمانے (اور چند سال عمر کے زمانے) میں بھی جاری رھا ،لیکن عمر نے چند سال کے بعد اس کو اپنے دور خلافت میں حرام قراردے دیا ،چنانچہ ذیل میں ھم چند سنی موٴرخین و محدثین کے اقوال اس بارے میں کہ عمر نے متعہ کو حرام کردیا تھا نقل کرتے ھیں :
۱۔احمد ابن حنبل نے اپنی کتاب” المسند“ میں ابی نضرہ سے نقل کیا ھے :
میں نیجابر بن عبد الله سے کھا کہ ابی زبیر متعہ کرنے سے منع کرتے ھیں اور ابن عباس متعہ کرنے کا امر کرتے ھیں ،جابرنے کھا: کیا خوب توباخبر شخص کے پاس آیاھے،ھم توخود رسول(ص)کے زمانے میں متعہ کرتے تھے اور ابوبکر کے زمانے میں بھی ھم نے اس پر عمل کیاھے، البتہ جب عمر تخت خلافت پر بیٹھے تو ایک روز خطبہ میں کهنے لگے: قرآن وھی قرآن ھے اوررسول (ص)وھی رسول (ص)ھے ،لیکن دو متعہ رسول(ص) کے زمانے میں جائز تھے” متعةالحج اورمتعةالنساء“ان کو میں حرام قرار دیتاہوں:)(وانھماکانتا متعتان علی عھد رسول الله .ص() [99]
عرض موٴلف
مسند احمد بن حنبل میں حدیث کا آخری حصہ عمداً حذف کردیاگیا ھیجو یہ تھا:
” آج سے میں ان پرپابندی لگارھا ہوں اورجو ان کو انجام دے گا اس کو سخت سزادوں گا۔“
۲۔جلال الدین سیوطی کھتے ھیں :
عمر سب سے پھلے فردھیں جنھوں نے متعہ کرنے سے لوگوں کو منع کیا!!
”اول من حرم المتعة۔ “[100]
۳۔ابن رشداندلسی مشہور فقیہ و فلسفی( متوفی ۵۹۵ھ )کھتے ھیں :
یہ بات مشہورھے کہ ابن عباس متعہ کو حلال سمجھتے تھے اور اس عقیده میں آپ کے ھم خیال کچھ اھل یمن و اھل مکہ حضرات بھی تھے اورآپ جواز متعہ پر آیہٴ< مَاْاْسْتَمْتَعْتُمْ…>سے استدلال کرتے تھے اور آپ کی قراٴت میں <اِلیٰ اَجَلٍ مُسَمّٰی>بھی تھا۔
پھر ابن رشد اندلسی نقل کرتے ھیں :
ابن عباس کھتے تھے: متعہ پروردگار عالم کی طرف سے ایک رحمت تھی جسے خدا وند عالم نے امت محمدی کو بالخصوص عطا کی تھی ، چنانچہ اگر عمر اس سے منع نہ کرتے تو بھت ھی کم افراد زناانجام دیتے ۔
اس کے بعدابن رشد کھتے ھیں :
”وہذاالذی روی عن ابن عباس ابن رواہ عنہ ابن جریج وعمروبن دینار و عن عطاء؛قال:سمعت جابر بن عبد الله بقول : تمتعنا علی عھد رسول الله و ابی بکرونصفا من خلافة عمر ثم نھی عنھا الناس۔ “[101]
ابن جریج اور عمرو بن دینار نے بھی ابن عباس سے وھی نقل کیا ھیجو ھم نے اوپر نقل کیا، اسی طرح عطاء سے نقل کیا گیاھے کہ میں نیجابر بن عبد الله سے سنا کہ آپ کھتے تھے :ھم رسول (ص)اور پھر ابوبکر کے زمانے میں اور نصف دور خلافت عمر تک متعہ ( وقتی نکاح)کرتے تھے ،لیکن بعد میں عمر نے اس کو انجام دینے سے روک دیا۔
عرض موٴلف
ابن رشدکے نقل کے مطابق ابن جریج جواز ِمتعہ کے قائل تھے اورابن جریج (متوفی ۱۵۰ھ) اپنے زمانہ کے بھت بڑے فقیہ اور اھل مکہ کے ممتاز علمائے دین میں سے تھے ، چنانچہ عبداللہ بن احمد بن حنبل کھتے ھیں :
” میں نے اپنے والد سے سوال کیا: سب سے پھلے کس نے تاٴلیف کا کام کیا ؟ میرے والد نے کھا :ابن جریح نے“۔
اسی طرح ا مام شافعی کھتے ھیں :
ابن جریج نے اپنی زندگی میں سترعورتوں سے متعہ کیا تھا۔
”قال الشافعی : استمتع ابن جریج سبعین امرائة نکاح ا لمتعة“[102]
اسی طرح عالم علم رجال امام ذھبی؛ ابن جریج کے بارے میں کھتے ھیں :
آپ اپنے زمانہ میں فقیہ اھل مکہ تھے اورآپ نے سترّ(۷۰)عورتوں سے متعہ کیا تھااور آپ تمام علمائے رجال کے نزدیک قابل وثوق ھیں ۔[103]
۴۔فاضل قوشچی کھتے ھیں :
عمر نے بالائے منبر کھا : تین چیزوں پہ رسول (ص)کے زمانے میں عمل ہوتا تھا،آج سے میں ان کو انجام دینے سے منع کرتاہوں،جو ان کو انجام دے گااس کو میں سخت سزادوں گا،وہ تین چیزیں یہ ھیں:متعةالنساء،متعةالحج،حی علی ٰخیرالعمل۔[104]
۵۔جب مامون نے اپنے دو رحکو مت میں چاھاکہ متعہ النساء کو جائز کرے توعلمائے اھل سنت میں سیجناب محمدبن منصوراورابوالعیناء مامون کے پاس پهنچے،مامون اس وقت مسواک کر رھا تھا اور غصہ کی ح ا لت میں عمر کے ان جملوں((متعتان کانتاعلی عھد رسول(ص) اللّٰہ و ابی بکر وانَّاانھی عنھما۔عھد رسول اور عھد ابوبکر میں دو متعہ تھے لیکن آج سے میں ان کو انجا م دینے سے منع کر رھا ہوں)) کی تکرار کر رھا تھا اور یہ کہہ رھا تھا:”ومن انت یاجعل حتیٰ تنھی عما قال لہ رسول(ص) اللّٰہ وابوبکر“اے عمر تواس چیز سے منع کرنے والا کون ہوتاجسے رسول خدا(ص) اور ابوبکرنیجائز قراردیاھو ؟!
محمد بن منصور نے چاھا کہ مامون سے گفتگو کرے لیکن ابوالعینا ء نے کھا: خاموش رہ جوشخص عمر کو ھدف تنقید قرار دے سکتاھے ھم اس کو کیسے قائل کر سکتے ھیں کہ حکم متعہ جاری نہ کرے!! اتنے میں یحی بن اکثم وارد ھو ا اور مامون رشید کو اس حکم کیجاری کر نے کی صورت میں شورش، فتنہ و فسادبرپا ہونے کے خطرہ سے آگاہ کیا ،چنانچہ مامو ن رشید حکم متعہ جاری کرنے سے منصرف ھو گیا۔[105]
۴۔نسخ حکمِ متعہ کی حقیقت
جب بھی خلفاء کواسلامی احکام کے تحریف و تبدیل کرنے کی وجہ سے ھدف تنقید قرار دیا جاتا ھے توکچھ خوش عقیده حضرات دو چیزوں (جھوٹی احادیث اوراجتھاد)ک ا سھارالے کرخلفاء کے ھر قسم کے سیاہ کارناموں کو درست کرنے میں مصروف ھو جاتے ھیں !! یعنی جب ھم خلفاء کو اسلامی احکام تبدیل کرنے پر ھدف تنقید قرار دیتے ھیں تو علمائے اھل سنت جب خلفاء کو اجتھاد کے سھارے سے نھیں بچا پاتے تو آپ حضرات کی رائے کی موافقت میں رسول(ص) کی طرف بلا واسطہ جھوٹی حدیثیں منسوب کردیتے ھیں !! خلاصہ یہ کہ جب ان لوگوں نیجھوٹی حدیثوں کے ذریعہ اپنا مقصد پورا ہوتا ہوانھیں دیکھا تو اجتھاد ک ا سھارا لیا ھے اور ھر خلیفہ کے حکم کو اس کے خاص اجتھاد کی طرف مستند کیاھے اور بعض مواقع پر تو ان لوگوں نے دونوں( اجتھاداور جعلی حدیثوں) چیزوں ک ا سھارا لیاھے ،چنانچہ حکم متعہ کے سلسلے میں بھی انھیں دونوں پھلووٴں کو اختیار کیا گیاھے!!
جیسا کہ ھم بتا چکے ھیں کہ کتب احادیث و تواریخ سے ثابت ھے کہ حکم متعہ پررسول (ص)اور ابو بکر کے زمانے میں قرآن اور حکم رسول اسلا(ص)م کے مطابق عمل ہوتا رھااور یھی نھیں بلکہ عمر کے زمانہ ٴ خلافت میں بھی مسلمانوں نے اس حکم پرچند سال تک عمل کیا ،لیکن عمر نے بعد میں یہ اعلان کردیا کہ جو اس حکم پر عمل کرے گا اس کو سخت سزا دی جائے گی !!
قارئین کرام!اگرچہ گزشتہ صفحا ت میں اس سے متعلق ھم موٴرخین کے اقوال اور احادیث نقل کر چکے ھیں لیکن قابل توجہ بات یھاں پریہ ھے کہ جب عمر نے اس حکم کو ممنوع قرار دیا توبھی کچھ صحا بہ ٴ کرام نیجن کا شمار محدثین اور مفسرین ِ قرآن میں ھو تا ھے، اسی زمانہ میں اس بارے میں عمرکے حکم کی آشکارا مخالفت کی اور آپ حضرات نے اسی زمانہ میں اس بات کی تصریح فرمادی تھی کہ جواز متعہ اسلام کا قابل تبدیل حکم نھیں ھے ، لیکن بعد میں خلیفہ صاحب کے عیب پر پردہ ڈالنے کیلئے اور ان کے حکم کو ثابت کرنے کیلئے ایک چال چلی گئی کہ حکم ِ متعہ قرآن کی دیگر آیا ت سے منسوخ قرار دے دیا گیا ھے، لہٰذا حکم متعہ اسلام کے منسوخہ احکام میں سے ھے ، اسی طرح نسخ ِحکم ِ متعہ کے بارے میں احادیث بھی جعل کی گئیں ، چنانچہ کبھی یہ بھانہ کیا گیا کہ خلیفہ صاحب نے اپنے اجتھاد سے حکم متعہ کو ممنوع قرار دیا ھے !!فاضل قوشچی نے اسی نظریہ کو اپنایا ھے،چونکہ نسخ ان کے نزدیک قابل قبول نھیں ھے، بھر حال آیہ ٴمتعہ کے منسوخ ہونے اور اس کے احکام اور ان کیجوابات کے بارے میں اگر بحث کی جائے تو اس سلسلے میں ایک کتاب درکار ھے ،لہٰذا آپ اس کی تفصیلی معلومات کے لئے کتاب الغدیر،تفسیرمیزان اورتفسیربیان دیکھئے۔[106]
البتہ ھم چند امور کی طرف یھاں پرآپ کی توجہ کو مبذول کرانا چاھتے ھیں :
حکم ِمتعہ قرآن کے ذریعہ نسخ ہوا ی ا سنت کے ذریعہ ؟!
جو حضرات رسول اسلام کے زمانے میں حکم متعہ کے منسوخ ھو نے کے قائل ھیں وہ خود ایک غیر قابل جمع شدیداختلاف میں مبتلا ھیں ، جس سے پتہ چلتا ھے کہ آیہ ٴمتعہ کی منسوخیت کا صرف ایک بھانہ ھے،کیونکہ کچھ حضرات ان میں سے ایسے ھیں جو آیہ ٴمتعہ کو قرآن کی دیگر آیات سے منسوخ ہوناسمجھتے ھیں اور بعض احادیث سے آیہٴ متعہ کو نسخ قرار دیدیتے ھیں اور پھر ان دونوں کے درمیان بھی آپس میں ایسا اختلاف ھیجس کا جمع ہونا نا ممکن امر ھے ۔
حکمِ متعہ کا قرآن سے نسخ ھو نے کادعوی اور اس کا جواب
جو لوگ قرآن سے حکم متعہ کے نسخ ھو نے کے قائل ھیں ان کے درمیان پانچ قول ھیں :
۱۔بعض لوگ آیہ ٴ:
<وَالَّذِیْنَ ھُمْ لِفُرُوْجِھِمْ حا فِظُوْنَ. اِلَّاعَلیٰ ٰاَزْوَاْجِھِمْ…[107]اور جو(اپنی ) شرمگاہوں کوحرام سے بچاتے ھیں مگر اپنی بیویوں سے>
سے حکم متعہ کو منسوخ سمجھتے ھیں ۔
۲۔بعض اس آیت سے :
<وَالْمُطَلَّقَاْتُ یَتَرَبَّصْنَ بِاٴَنْفُسِهن َثلَاْثَةَ قُرُوْءٍ وَلَایَحِلُ لَهن اَنْ یَکْتُمْنَ مَاْخَلَقَ الله ِفیْ اٴَرْحا مِهن…>[108]
۳۔بعض لوگ اس آیت سے:
< وَلَکُمْ نِصْفُ مَاْ َتَرَک اَزْوَاْجُکُمْ اِنْ لَمْ یَکُنْ لَهن وَلَدٌ…>[109]
۴۔بعض لوگ اس آیت سے :
< حُرِّمَتْ عَلَیْکُمْ اُمَہَاْتُکُمْ وَبَنَاْتُکُمْ وَاٴَخْوَاْتُکُمْ وَعَمَّاْتُکُمْ…>[110]
۵۔اور بعض لوگ اُس آیت سے منسوخ سمجھتے ھیں جس میں ازواج کی تعداد بیان کی گئی ھے:
<وَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تُقْسِطُوْا فِیْ الْیَتٰمیٰ فَاْنْکِحُوْامَْاطَاْبَ لَکُمْ مِنَ النِّسَآءِ مَثْنیٰ وَثُلاثُ وَرُبٰعُ……>[111]
ح ا لانکہ مذکورہ آیات میں سے کسی بھی آیت کا مفہوم آیہٴ متعہ سے متضاد نظر نھیں آتا جس کی بنا پر حکم ِمتعہ کو منسوخ قرار دیا جاسکے یعنی اگر ان آیات کا مفہوم آیہٴ متعہ سے متضاد ہوتا تب یہ آیات حکم ِ متعہ کی ناسخ قرار پاسکتی تھیں اور چونکہ ان آیات کا مفہوم آیہٴ متعہ سے متضاد نھیں ھے لہٰذا آیہٴ متعہ منسوخ نھیں ہوسکتی اور پھر یہ کہ ان میں سے بعض آیات مکی ھیں اور آیہ ٴمتعہ مدنی ھے،لہٰذا اس صورت میں مکی آیا ت جوپھلے نازل ہوئیں ،مدنی آیت کی جو بعد میں نازل ھو ئیں ناسخ کیسے قرار پ ا سکتی ھیں ؟! کیونکہ منسوخہ آیات کے لئے ضروری ھے کہ ناسخ آیات ان سے قبل نازل نہ ہوئیں ہوں بلکہ بعد میں نازل ہوئی ہوں ۔
-------------------------------------------------------------
[62] صحیح مسلم ج ۴،کتاب الحج ،باب(۱۷)”بیان وجوہ الاحرام وانہ یجوزافراد الحج والتمتع“حدیث۱۲۱۶۔
[63] صحیح مسلم جلد۴،کتاب الحج، باب” بیان وجوہ الاحرام…“حدیث۱۲۱۱،
یہ حدیث کتاب الحج کی۱۳۰ / ایک سو تیسویں حدیث ھے۔
[64] جس طرح امام بخاری نے مذکورہ مضمون سے متعلق متعدد احادیث نقل کی ھیں اسی طرح مسلم نے بھی متعدد طرق و اسناد کے ساتھ مختلف روایات نقل کی ھیں ۔ متر جم۔
[65] صحیح مسلم جلد ۴ ،کتاب الحج ، باب(۲۳)” جواز التمتع“حدیث ۱۲۲۳۔۱۲۲۶۔( ان دونوں روایتوں کو مسلم نے متعدد اسناد کے ساتھ نقل کیا ھے۔مترجم)۔ صحیح بخاری :جلد ۲ ،کتاب الحج، باب” تمتع“ حدیث۱۴۹۶۔ جلد ۵، کتاب المغازی، باب” بعث ابی موسی الی الیمن“ حدیث۴۰۸۹۔
[66] صحیح مسلم جلد ۴ ،کتاب النکاح ،باب ”نکاحا لمتعة“ حدیث۱۴۰۵ (کتاب النکاح کی حدیث نمبر ۷ ۱ )۔
[67] صحیح مسلم جلد ۴ ،کتاب الحج ،باب ”جواز التمتع “حدیث۱۲۲۶۔(کتاب الحج کی حدیث نمبر ۱۶۸)
[68] مسلم نے باب نکاح المتعہ اور باب التمتع میں متعہ النساء اور جواز تمتع سے متعلق متعدد احادیث مختلف طرق و اسناد کے ساتھ اپنی صحیح میں نقل کی ھیں جن سے یقینی طور پر ان کا جواز ثابت ہوتا ھے ، مذکورہ حوالے ملاحظہ فرمائیں ۔مترجم۔
[69] احکام القرآن جصاص جلد۱، تفسیر سورة البقرة ،ص ۳۴۵،۳۴۲۔جلد ۲، تفسیر سورہ النساء ،ص ۱۹۱۔ تفسیر قرطبی جلد ۲ ،تفسیر سورة البقرة ،قولہ تعالی : ”فان احصرتم فما استیسر من الھدی “ص۳۶۵۔
کنزالعمال جلد ۱۶،النکاح_الافعال،حدیث ۴۵۷۱۵، ص۳۵۲،۳۵۳،(مطبوعہ: ہندوستان)۔ شرح تجرید قوشچی، فصل امامت۔
[70] صحیح مسلم جلد۴ ،کتاب الحج، باب” فی نسخ التحلل“حدیث۱۲۲۲(کتاب الحج کی حدیث نمبر ۱۵۷)
سنن نسائی جلد۵، کتاب مناسک الحج ،باب” التمتع“ ص ۱۵۳۔ سنن ابن ماجہ جلد ۲،کتاب المناسک ،باب ” التمتع بالعمرة الی الحج “حدیث۲۹۷۹۔ مسند احمد بن حنبل جلد۱،مسند عمر بن الخطاب ،ص۴۹۔۵۰۔
[71] شرح صحیح مسلم جلد ۴ ، کتاب الحج ،ص ۴۶ ، مطبوعہ: بیروت لبنان ۱۳۳۴ھ ۔
[72] حا شیة السندی علی سنن النسائی جلد ۵ ،کتاب مناسک الحج ،باب(۱۵۲)” التمتع“۔
[73] سورہٴ احزاب،آیت۳۶، پ۲۲۔
[74] صحیح بخاری جلد ۲ ،کتاب الحج،باب (۳۴)”التمتع والا قران“حدیث۱۴۸۸ ۔
[75] صحیح بخاری جلد۱،کتاب الحج ،باب(۳۴) ”التمتع والاقران“ حدیث۱۴۹۴ ۔
صحیح مسلم جلد ۴،کتاب الحج ،باب(۲۳)” جوازالتمتع“ حدیث۱۲۲۳۔
[76] سنن النسائی جلد۵،کتاب مناسک الحج ،باب(۱۵۲) التمتع۔
[77] حا شیة السندی علی سنن النسائی جلد۵،کتاب مناسک الحج ،باب(۱۵۲) التمتع۔
[78] جامع بیان العلم و فضلہ جلد ۲،باب ”معرفة اصول العلم و حقیقتہ “ص۳۷۔
[79] صحیح مسلم جلد۱،کتاب الحج، باب” حج تمتع“و باب” متعةالنکاح“
[80] سنن نسائی جلد ۴ ،کتاب مناسک الحج ، باب” التمتع“ ص ۱۵۲۔
[81] صحیح مسلم جلد۴،کتاب الحج، باب”جواز التمتع“حدیث۱۲۲۵۔ مسند احمد بن حنبل جلد۱،مسند سعید ین زید بن عمرو …ص۱۸۱۔
[82] اگر اھل سنت حضرات سے الٹ کر کوئی سوال کرے کہ جس حکم کو خدا و رسول(ص) نیجائز قرار دیا ھو کیاوہ ایک عام آدمی کے حرام قراردینے سے حرام ہوجائے گا؟!لہٰذاقابل ِ ا عتراض تو وہ مذھب ھیجو حرمت متعہ پر آج تک قائم رہ کر الٹی گنگا بھا رھا ھے نہ کہ وہ مذھب جو حکم خداورسول(ص) پر عمل پیراھے۔مترجم۔
[83] متعہ کے بقیہ جزئی احکام، فقھی کتابوں میں دیکھئے۔
[84] تفسیر کبیر فخر رازی ،سورہٴ نساء، آیت نمبر ۲۹۔
[85] سورہٴ نساء،آیت۲۴،پ۵۔
[86] تفسیر طبری جلد ۵،سورہٴ نساء آیت ۲۴ ۔ تفسیر کشاف جلد ۱،سورہٴ نساء،آیت۲۴، ص۵۱۹۔ تفسیر کبیر جلد ۳،سورہٴ نساء،آیت۲۴،ص۲۰۱۔
[87] سورہٴ نساء ،آیت ۳۔۴،پ۴۔
[88] سورہٴ نساء، آیت۲۵،پ۵۔
[89] سورہٴ نساء، آیت ۲۴ ، پ۵۔
[90] صحیح مسلم جلد ۴ ،کتاب النکاح ،باب ”النکاح ا لمتعة“حدیث۱۴۰۵
[91] صحیح مسلم جلد ۴ ،کتاب النکاح ،باب ”النکاح ا لمتعة“حدیث۱۴۰۵
[92] صحیح بخاری جلد ۷ ،کتاب ا لنکاح، باب ”نھی رسول الله عن نکاح ا لمتعة آخراً“حدیث۴۸۲۷ ۔
[93] صحیح مسلم جلد ۴ ،کتاب النکاح ،باب ”نکاح ا لمتعہ“حدیث۱۴۰۵۔
[94] فتح ا لباری جلد ۹،ص۱۴۹۔
[95] سورہٴ مائدہ ،آیت نمبر۸۷ ،پ ۷۔
[96] صحیح بخاری :جلد۶،کتاب التفسیر تفسیر سورہٴ مائدة، باب(۹)<لَا تُحِرِّمُوْاطَیَّبَاْتِ مَاْ اَحَلَّ الله لَکُم>حدیث۴۳۳۹ ۔ جلد ۷،کتاب النکاح، باب” مایکرہ من التبتل والخِصاء “حدیث۴۷۸۷۔
صحیح مسلم جلد ۴،کتاب النکاح ،باب ”نکاح ا لمتعة “حدیث۱۴۰۴۔
[97] صحیح مسلم جلد ۴ ،کتاب النکاح ،باب”نکاح ا لمتعہ “حدیث ۱۴۰۵۔
[98] صحیح مسلم جلد۱،کتاب الحج کی حدیث نمبر۱۷۲۔
[99] مسند احمد جلد۱،مسند عمر بن الخطاب ، ص۵۲۔
[100] تاریخ الخلفاء ،فصل : اولیات عمر ص۱۳۷۔
[101] بدایةالمجتھد جلد ۲، کتاب النکاح ،”الاول: منھا نکاح ا لشغار “ص۴۷۔
[102] تہذیب التہذیب جلد ۶،( ۷۵۸_ ۴) السة ، ص۳۶۰۔
[103] میزان الاعتدا ل، ( نمبر ۵۲۲۷،عبد الملک __عبد الملک بن عبد العزیز بن جریج ابوخالد المکی حرف العین ،تحقیق علی محمد البجاوی جلد۲،۶۵۹۔
[104]شرح تجرید ا لاعتقادقوشچی فصل امامت۔ ابن ابی الحدیدنے بھی شرح نہج البلاغہ جلد ۱،خطبة شقشقیة ص۱۸۲میں نقل کیا ھے مگر آخری جملہ( حی علی خیر العمل ) کو حذف کر دیا ھے۔
[105] تاریخ ابن خلکان جلد۲،ص۳۵۹( مطبوعہ: ایران)۔ وفیات الاعیان در بیان حا لات یحی بن اکثم۔ ان دو کتابوں میں یہ واقعہ تفصیل کے ساتھ مذکور ھے۔
[106] الغدیرجلد۶۔ تفسیرالمیزان جلد۴۔ البیان، مصنفہ آیة اللّٰہ العظمیٰ خوئی۔
[107] سورہٴ موٴمنون،آیت۶،۵پ۱۸۔
[108] سورہٴ بقرہ ،آیت نمبر۲۲۸، پ۲۔
[109] سورہٴ نساء، آیت نمبر آیت۱۲،پ۴۔
[110] سورہٴ نساء، آیت نمبر ۲۳،پ۴ ۔
[111] سورہٴ نساء ،آیت نمبر۳۔
|